موزوں پر مسح کرنا

عَنِ المُغِيرَةِ بن شُعْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنتُ مَعَ النَّبِيِّ فِي سَفَرٍ فَأَهْوَيتُ لأُنْزِعَ خُفَّيْهِ فَقَالَ: دَعْهُمَا فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتِينِ، فَمَسَحَ عَلَيْهِمَا (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الوضوء، باب إذا دخل رجلیه و هما طاهرتان، صحیح مسلم: كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين)
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے وضو کرنا شروع کیا تو میں آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لئے لپکا، آپ ﷺ نے فرمایا: چھوڑ دو میں نے جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ان پر مسح فرمایا۔
وَعَن صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ الله يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفْرًا أَو مُسَافِرِينَ أَلَّا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنابَةٍ، لٰكِن مِنْ غَائِطِ وَبَوْلٍ وَنَوْم (أخرجه الترمذي).
سنن ترمذی: ابواب الدعوات عن رسول الله، باب ماجاء في فضل التوبة والاستغفار وما ذكر من رحمة الله لعباده، وقال هذا حديث حسن صحيح، وحسنه الألباني في التعليق الترغيب: (٧٣/٤)
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے یا سفر میں ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں، الا یہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے، البتہ بیت الخلاء جانے کی صورت میں، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
وَعَنْ عَلي بن أبي طالبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهِنَّ لِلْمُسَافِرِ وَيَوْمًا وَلَيْلَةٌ لِلْمُقِيمِ (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب الطهارة، باب التوقيت في المسح على الخفين)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسافر کے لئے موزوں پر مسح کے لئے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن ایک رات مدت مقرر فرمائی ہے۔
تشریح:
اسلام میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہے خواہ وہ موزہ اون کا ہو یا چمڑے کا، عرف عام میں جس پر بھی موزے کا اطلاق ہوتا ہے اس پر مسح کرنا جائز ہے۔ چونکہ موزے پہننے
اور نکالنے میں کافی دقت و پریشانی ہوتی ہے اور خاص کر سفر کے دوران اور ہی زیادہ پریشانی ہوتی ہے اس لئے اس پریشانی کو دور کرنے کی خاطر اسلام نے موزوں پر مسح کرنے کو مباح قرار دیا ہے۔ اور اس کی مدت بھی بیان کر دی ہے کہ مقیم آدمی ایک دن اور ایک رات اور مسافر آدمی تین دن اور تین رات اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے، اس دوران انہیں موزہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وضو کرتے وقت اس پر مسح کرنا کافی ہے بشرطیکہ اسے مکمل وضو کر کے پہنا گیا ہو۔ اورصحیحا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے دونوں قدموں کے اوپری حصہ پر ایک ساتھ سے کیا جائے۔ قدموں کے نیچے سے نہ کیا جائے ۔ لیکن بعض افراد عقلی دلیل کی بنا پر قدموں کے نیچے سے کو بہتر سمجھتے ہیں اور نیچے مسح کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ کہ گندگی قدموں کے نیچے والے حصہ پر ہوتی ہے اس لئے وہ بجائے اوپر کے نیچے سے کرتے ہیں حالانکہ انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے۔
فوائد:
٭ مکمل طہارت کے بعد پہنے ہوئے موزوں پر مسح کرنا مشروع سے ایسی صورت میں مسح کرنا دھونے سے افضل ہے۔
٭ جنابت کی صورت میں مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ قدموں کا دھونا ضروری ہے۔
٭ مسافر کے لئے مسح کی مدت تین دن تین رات ہے، جبکہ مقیم کے لئے ایک دن ایک رات ہے اور اس کی ابتدا و ضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے ہوگی۔
٭٭٭٭