معاشرے میں بگاڑ کیوں پیدا ہوتا ہے؟
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۶﴾ (التحريم:6)
انسانی معاشرے میں خرابی اور بگاڑ پیدا ہونا اک حقیقت ہے، اس حقیقت کا اظہار فرشتوں نے اللہ تعالی کے دیئے ہوئے علم کی روشنی میں اس وقت کیا، جب اللہ تعالی نے انہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ:
﴿إنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيْفَةً﴾ (البقرة:30)
’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
تو انہوں نے عرض کیا:
﴿ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ﴾ (البقره:30)
’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا، آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو ہم کر رہے ہیں۔‘‘
تو فرمایا:’’میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘‘
اللہ تعالی نے ان کی اس بات کی تھی اور تردید نہیں فرمائی کہ انسان دنیا میں فساد اور بگاڑ پیدا کرے گا اور خونریزیاں کرے گا، بلکہ فرمایا: جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
یعنی اس کی تخلیق میں کیا کیا حکمتیں ہیں اور اس سے کیا کیا مطلوب و مقصود ہے، تمہیں معلوم نہیں۔ یہ ایک الگ تفصیل ہے۔
تو معاشرے میں بگاڑ ، فتنہ و فساد، لڑائی جھگڑا اور خونریزی کا پیدا ہونا اک حقیقت ہے، انسانی خمیر کے لحاظ سے بھی یہ مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ انسانی کے تناظر میں بھی اک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا کیوں ہے، اس کا سبب کیا ہے؟
اللہ تعالی کی تمام مخلوقات اپنی اپنی جگہ پر مکمل طور پر ٹھیک ٹھیک کام کر رہی ہیں، ذرہ برابر اللہ تعالی کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرتیں، زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ ، بادل، ہوائیں، فرشتے اور دیگر تمام کی تمام مخلوقات ٹھیک ٹھیک کام کرتی ہیں اور ہرگز نافرمانی نہیں کرتیں ، ان کی ذراسی غفلت اور کوتاہی اور تقدیم و تاخیر دنیا کو تباہ و برباد کر کے رکھ سکتی ہے، اگر سیارے مثلا اپنے اپنے مدار سے نکل جائیں، یا ان کی گردش رک جائے تو پوری دنیا کا نظام درہم برہم اور نہیں نہیں ہو جائے۔ تو صرف جن وانس ہی ایسی مخلوقات ہیں جو کائنات میں خرابی اور بگاڑ کا سبب بنتی ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾ (الروم:41)
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔‘‘
یعنی لوگوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں دنیا میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ہونے والا فساد صرف لوگوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں اور قتل و خونریزی تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ کائنات کی دوسری مخلوقات بھی اثر انداز ہوتا ہے، وہ مخلوقات جنہیں انسان کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے، وہ انسان کی تباہی و بربادی کا سامان بن جاتی ہیں، جیسا کہ زمین کو ہی لیجئے ، جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا أَحْيَاءً وَّ أَمْوَاتًا﴾ (المرسلات:25۔26)
’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی ۔‘‘
﴿وَّ جَعَلْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ﴾ (المرسلات:27)
’’اور اس میں بلند و بالا پہاڑ جمائے۔‘‘
یعنی زمین کو تمہارے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کے لیے مضبوط اور ٹھوس بنایا اور پھر اس میں بلند و بالا پہاڑ گاڑ دیئے تا کہ وہ ہلنے نہ پائے، چنانچہ تم آرام سے بلا خوف و خطر اس کی سطح پر زندگی گزارتے ہو اور تم جب فوت ہوتے ہو تو تمہیں اپنے پیٹ میں سمیٹ لیتی ہے۔ تو وہ زمین جو انسان کے قرار اور آرام و سکون کے لیے بنائی گئی تھی ، انسان جب بداعمالیاں کرنے لگتا ہے تو اس میں زلزلہ بپا ہو جاتا ہے اور وہ زمین اب انسان کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔
اسی طرح دیگر مخلوقات ہیں جنہیں بنیادی طور پر انسان کی خدمت کے لیے بنایا گیا ہے۔ مگر جب انسان بداعمالیاں کرتا ہے تو ان کے رویے میں اللہ کے حکم سے تبدیلی آجاتی ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ انسان کی طرف سے اس بگاڑ کا آغاز کیسے اور کہاں سے ہوتا ہے، تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ہم اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ معاشرے میں خرابی اور بگاڑ کی بنیاد گھر ہے اور وہیں سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ گھر معاشرے کی اکائی ہوتا ہے۔ بہت سے گھرانے جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو آہستہ آہستہ ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے اور لوگوں کا آپس میں ملنا ناگزیر ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ ایک دوسرے سے ان کے مفادات وابستہ کر دیئے ہیں: کاروبار، لین دین ، رشتہ داریاں اور دیگر مفادات اور مزید یہ کہ ایک دوسرے سے مل کر انسان کی وحشت، گھبراہٹ اور ادای دور ہوتی ہے، انسان دوسرے لوگوں سے ملتا ہے تو اس کی وحشت دور ہوتی ہے اور جب وہ تنہا ہوتا ہے تو اس پر اداسی چھا جاتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
((لَمَّا أُسْكِنَ آدَمُ الْجَنَّةَ مَشَى فِيهَا مُسْتَوْحِشًا))
’’آدم علیہ السلام کو جب جنت میں ٹھہرایا گیا تو وہ اس میں اداس اداس پھر رہے تھے۔‘‘
((فَلَمَّا نَامَ خُلِقَتْ حَوَّاهُ مِنْ ضِلَعِهِ الْقُصْرَى مِنْ شِقِّهِ الْأَيْسَرِ لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا وَيَأْنَسَ بِهَا))
’’پھر جب آدم علیہ السلام سو گئے تو ان کی چھوٹی اور بائیں پسلی سے حواء علیہا السلام کو پیدا کر دیا گیا تا کہ آپ اس کے پاس سکون حاصل کریں اور اس سے مانوس ہوں اور آپ کی اداسی ختم ہو جائے ۔‘‘
((فَلَمَّا انْتَبَهَ رَآهَا فَقَالَ: مَنْ أَنْتِ؟))
’’جب آپ بیدار ہوئے تو انہیں دیکھا اور فرمایا: تم کون ہو؟‘‘
((قَالَتْ إِمْرَأَةٌ خُلِقْتُ مِنْ ضِلَعِكَ لِتَسْكُنَ إِلَىَّ )) (تفسير القرطبي، سورة البقرة:35)
’’تو انہوں نے فرمایا: ایک عورت ہوں، آپ کی پہلی سے پیدا کی گئی ہوں تاکہ آپ میرے پاس سکون حاصل کریں۔‘‘
اور یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ آدمی چاہے اس کو جانتا اور سمجھتا نہ بھی ہو، مگر محسوس ضرور کرتا ہے حتی کہ تمام تر اختلافات کے باوجو د سکون اس کے پاس بیٹھ کر حاصل ہوتا ہے۔
تو ان تمہیدی اور ابتدائی باتوں سے آپ گھر کی اہمیت کو سمجھ گئے ہوں گے، جس کا واضح مطلب ہے کہ معاشرے کو فساد اور بگاڑ سے بچانے کے لیے، گھر کی اصلاح لازمی اور ضروری ہے اور گھر کی اصلاح ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم:6)
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ۔‘‘
ہر شخص سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں ضرور باز پرس ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَائِلٌ كُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاهُ))
’’اللہ تعالی ہر نگر ان سے اس کی رعیت کے بارے میں ضرور پوچھ کچھ کرے گا۔‘‘
((أَحَفِظَ ذَلِكَ أَمْ ضَيّعَ))
’’کہ اس نے اس کی حفاظت کی ، یا اسے ضائع کر دیا ؟‘‘
((حَتَّى يُسْأَلَ الرَّجُلُ عَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ)) (النسائي:7932، السلسلة الصحيحة:1636)
’’حتی کہ آدمی سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں باز پرس کی جائے گی ۔‘‘
گھر کی اہمیت اور اس کی افادیت کو یوں تو ہر شخص سجھتا ہے، مگر صرف اس حد تک کہ گھر آرام اور سکون کی جگہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں بلکہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جو اس سے زیادہ گھر کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔
حقیقت میں گھر ایک ایسی جگہ ہے، جہاں افراد خانہ کی تربیت کر کے، انہیں تیار کر کے معاشرے میں اتارا جاتا ہے، اگر گھر کے افراد بری صفات کے حامل ہوں گے، بد تمیز ، جاہل، بد اخلاق، نشے کے عادی، آوارہ، لوگوں کو تنگ کرنے والے، حلال و حرام کی تمیز نہ کرنے والے، ناچ گانے کے رسیا ہوں گے تو یقینًا معاشرہ اس قسم کے لوگوں کا وجود میں آئے گا۔
اور اگر گھر میں اچھی تربیت کی گئی ہوگی کہ اچھی اور سلجھی ہوئی گفتگو کرنے والے، بڑوں کا ادب و احترام کرنے والے، پڑوسیوں کو تنگ نہ کرنے والے، حلال اور حرام میں فرق کرنے والے، ایک دوسرے کا تعاون کرنے والے، لوگوں کے خیر خواہ اور غم خوار ، نمازوں کی پابندی کرنے والے اور شرم و حیاء والے، تو یقینًا معاشرہ پاکیزہ پر امن ہوگا اور صاف ستھرے لوگوں پر مشتمل ہوگا اور اک مثالی معاشرہ ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ گھر کی اصلاح کیسے ہوتی ہے اور کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
پہلے تو گھر کی اصلاح کا مطلب سمجھ لیتے ہیں، گھر کی اصلاح دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ اچھائی پیدا کرنا اور برائی کو دور کرنا۔
افراد خانہ کو اچھی صفات کی تربیت دینا اور اچھی صفات کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹ کو دور کرنا۔
مثلا: آدمی اپنے بچوں اور بچیوں کو اچھا لباس پہننے اور ناچ گانے سے دور رکھنے کی ترغیب دینا چاہتا ہو، تو لازم ہے کہ گھر سے ایسے آلات کو نکال پھینکے ، جو انہیں نیم برہنہ لباس کی ترغیب دیتے ہوں اور ناچ گانے کا شوق پیدا کرتے ہوں۔ تو گھر کی اصلاح کے ضمن میں جو سب سے پہلی اور سب سے اہم بات ہے، وہ ہے: نیک اور صالح بیوی کا انتخاب، حدیث میں ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں:
﴿تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، ولدينها))
’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ۔‘‘
((فاظفر بذات الدين تربت يداك)) (مسلم:1466)
’’اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
اسی طرح دیگر متعدد احادیث میں نیک اور صالح بیوی کو اختیار کرنے اور ترجیح دینے کا حکم آیا ہے۔ نیک بیوی تمام مسائل کا حل ہے، دنیا کی زندگی پر سکون طریقے سے گزار نے میں بھی مددگار اور آخرت بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، آپ کے مال کی حفاظت ، آپ کی اولاد کی حفاظت اور آپ کی عزت کی حفاظت بھی کرتی ہے، اگر نیک اور اللہ سے ڈرنے والی نہ ہوگی تو آپ کے مال اور اولاد کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نیک خاوند او نیک بیوی مل کر ہی نیک گھرانہ بنتا ہے اور بچوں کی نیک تربیت کے لیے کم از کم نیک بیوی کا انتخاب ضروری ہے، اور اگر آدمی کو شادی کے وقت اس کی اہمیت کا علم نہ ہو اور بعد میں یہ بات سمجھ آئی ہو، کہ مال کی حفاظت، اولاد کی حفاظت عزت کی حفاظت اور آخرت کی تیاری کے لیے نیک بیوی کا ہونا ضروری ہے، تو پھر بیوی کی اصلاح کی طرف توجہ دے، گھر کا ماحول دینی بنانے اور بچوں کی تربیت کرنے پر خصوصی توجہ دے، بچوں کی تربیت کے سلسلے میں جہاں انہیں دینی تعلیم سے آگاہ کرنا اور اس کا شوق پیدا کرنا ضروری ہے، وہاں انہیں آداب سکھانا بھی ضروری ہے۔ یوں تو لفظ آداب اپنے اندر بڑے وسیع معانی رکھتا ہے اور ہر قسم کی اچھی صفات پر بولا جاتا ہے، چاہے کسی بھی پہلو اور زندگی کے کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو، جیسا کہ آپ سنتے ہوں گے اور کتب احادیث میں بھی ائمہ حدیث نے ابواب باندھے ہیں: کھانے پینے کے آداب، اٹھنے بیٹھنے کے آداب گفتگو کے آداب مجلس کے آداب ، حتی کہ قضائے حاجت کے آداب و غیره
مگر ہمارے ہاں آداب کا اک بڑا تھی سا مطلب لیا جاتا ہے کہ ایک خاص انداز سے گفتگو کرنا ، اک خاص انداز سے مجلس میں بیٹھنا اور اک خاص انداز سے چلنا اور کھانا کھاتے وقت کا ٹاکس ہاتھ میں پکڑنا اور چھری کس ہاتھ میں پکڑنا وغیرہ، گویا کہ ایک تکلف اور تصنع کا نام آداب رکھ دیا گیا ہے، جبکہ آداب کو اگر صرف گفتگو کے پہلو سے ہی سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ کسی سے گفتگو کرتے وقت با معنی اور مختصر الفاظ کا استعمال ہو، جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو، بلکہ احترام اور عزت و توقیر کا پہلو ہو، اس کی گفتگو سے اس کی بلوغت عقلی حلم و بردباری اور سمجھداری کا اظہار ہوتا ہے۔
پہلے لوگ اپنے بچوں کو ایسے آداب سکھانے کا اہتمام کیا کرتے تھے، بالخصوص: خلفاء و وزراء اور حکمران طبقہ، اپنے بچوں کے لیے بڑے بڑے علماء کی خدمات حاصل کیا کرتا تھا، جیسا کہ خلیفہ مامون نے اپنے دو بیٹوں کو الفراء کے پاس تربیت کے لیے بھیجا۔ ایک روز
جب الفراء کسی کام کے لیے اٹھے تو دونوں بھائی بھی اٹھے تا کہ وہ استاد کو جوتے پہنائیں، ہر ایک کی کوشش تھی کہ اسے یہ سعادت حاصل ہو، بالآخر دونوں نے اتفاق کیا کہ دونوں ایک ایک جوتا اٹھا ئیں گے۔
خلیفہ مامون کو بات معلوم ہوئی تو انہوں نے ان کے استاذ کو بلایا اور کہا:
من اعز الناس؟
’’اس وقت سب سے معزز و محترم شخصیت کون ہے؟‘‘
تو استاذ نے کہا کہ امیر المؤمنین کے سوا کون ہو سکتا ہے؟
کہا: نہیں ، سب سے معزز وہ ہے کہ جب وہ اٹھے تو دو ولی عہد اس کے جوتے اٹھانے پر آپس میں مسابقت کریں ۔ (وفيات الأعيان ، ج:1 ، ص178)
ادب بھری گفتگو سن کر آدمی کو نفسیاتی سکون ملتا ہے، ایک مسرت ہوتی ہے، چاہے بات اس کے پسند کی نہ بھی ہو اور جہاں بات پسند کی بھی تو وہاں خوشی دوبالا ہو جاتی ہے، مگر اس سے زیادہ خود گفتگو کرنے والے کی عزت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ حقیقت میں آدمی کی شخصیت کا حسن اس کے آداب میں ہے، اکثر مالدار لوگ اس کی ضرورت اور اہمیت کو نہیں سمجھتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں، کہ ہر کام پیسے سے ہوتا ہے تو آداب کا تکلف کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ صحیح ہے کہ دنیا میں اکثر کام مال و دولت سے ہوتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں تک رسائی صرف آداب کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔
آداب یوں تو ہر ایک کے لیے ہیں امیر کے لیے بھی اور غریب کے لیے بھی۔ مگر آداب بیچتے امیر آدمی کو ہی ہیں، غریب آدمی اگر ادب سے پیش آتا ہے تو اسے اس کی کمزوری سمجھا جاتا ہے، اور اگر صاحب حیثیت اور مالدار آدمی عاجزی و انکساری اور ادب دکھاتا ہے تو اسے بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ اس کی مجبوری نہیں بلکہ دل سے کر رہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ علم اور چیز ہے اور ادب اک دوسری چیز ، ضروری نہیں کہ جس کے پاس علم جو اس کے پاس ادب بھی ہو، ہم ادب سیکھنے اور اپنے بچوں کو سکھانے کی اہمیت کو کب سمجھیں گے؟ جب ہم اس کی ضرورت محسوس کریں گے بلکہ اس سے
بھی پہلے جب ہم یہ تسلیم کر لیں گے کہ ہماری تربیت اس نہج پر نہیں ہوئی ۔ ادب کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ہمارے گھروں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ترے لڑکوں کے ساتھ دوستی نہیں رکھتی، نماز کی پابندی کرنی ہے اور جھوٹ نہیں بولنا و غیر ہو، مگر حقیقت میں ادب اپنے اندر وسیع معنے رکھتا ہے، تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی وقت عرض کریں گے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
……………