مبارک باد دینے، استقبال کرنے یا حفاظت کی عرض سے مخلوق کے لیے کھڑے ہونے کا جواز
730۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریظہ کے یہود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلے کو قبول کرنے کی شرط پر (قلعے سے) اتر آئے تو رسول اللہ ﷺنے سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے۔ جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا: ((قُومُوا إِلٰى سَيِّدِكُمْ أَوْ خَيْرِ كُمْ))
’’تم اپنے سردار‘‘ یا (فرمایا:) ’’تم اپنے بہترین آدمی کے (استقبال کے) لیے اٹھو۔‘‘
پھر آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ هٰؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكمِك)) (أخرجه البخاري: 3043، 4121، ومسلم:1768)
’’ (اے سعد!) یہ لوگ تمھارے فیصلے ( کی شرط) پر (قلعے سے) اترے ہیں۔‘‘
سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے (ان کا فیصلہ کرتے ہوئے) فرمایا: ان کے جنگجو افراد کو قتل کر دیا جائے اور ان کی
عورتوں اور ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔
تو نبیﷺ نے فرمایا: ((قَضَيْتَ بِحُكْمِ اللهِ)) (أخرجه البخاري: 3043، 4121، ومسلم:1768)
’’(سعد!) تم نے ان کا فیصلہ اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘
توضیح و فوائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو سواری سے اتارنے کے لیے کھڑے ہو کر آگے بڑھتا اور اس کا استقبال کرنا جائز ہے۔
731۔ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ اور مروان رحمۃ اللہ علیہ صلح حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ راوی حدیث کہتے ہیں: عروہ نبی ﷺسے باتیں کرنے لگا اور جب بات کرتا تو آپ ﷺ کی ڈاڑگی مبارک کو پکڑتا۔ اس وقت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ کے سر کے پاس کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں تلوار اور سر پر خود تھا، لہٰذا جب مردہ اپنا ہاتھ نبی ﷺ نام کی ڈاڑھی کی طرف بڑھاتا تو مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے ہاتھ پر تلوار کا نچلا حصہ مارتے اور کہتے:
((أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.)) (أخرجه البخاري: 2731، 2732)
’’اپنا ہاتھ رسول اللہ مال کی ڈاڑھی سے دور رکھ‘‘
توضیح و فوائد: سیکیورٹی، یعنی تحفظ اور دفاع کے لیے کسی کے پاس کھڑے ہونا جائز ہے تاکہ دشمن نقصان نہ پہنچائے۔
732۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی توبہ والی روایت میں مروی ہے، کہتے ہیں: جب میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہﷺ تشریف فرما تھے اور لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی۔
(کہتے ہیں:)
((وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَىَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ، وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ)) ((أخرجه البخاري: 4418، و مسلم:2769)
’اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے علاوہ اور کوئی شخص میری طرف اٹھ کر نہیں آیا اور طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حسن سلوک کو میں بھی نہیں بھولا۔‘‘
733۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنی عادات، چال چلن، خصلت، عادت، طور طریقے، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے مشابہ ہو۔ اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ اٹھ کر ان کی طرف بڑھتے، ان کا ہاتھ پکڑتے، بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے اور (اسی طرح) جب آپ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ اٹھ کر آپ کی طرف بڑھتیں، آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ میں، بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھا دیتیں۔ (أخرجه أبو داود:5217، والترمذي:3872، والنسائي في الكبرى: 8311، 9192،9193، والبخاري في
الأدب المفرد: 947، 971)
734۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَجْلِسُ مَعَنَا فِي الْمَسْجِدِ يُحَدِّثْنَا، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا قِيَامًا حَتّٰى نرَاهُ قُدْ دَخَلَ بَعْضَ بُيُوتِ أَزْوَاجِهِ))
’’رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے۔ جب آپ اٹھتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے حتی کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی کسی اہلیہ کے گھر میں داخل ہو گئے ہیں۔‘‘(أخرجه أبو داود: 4775)
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجلس برخاست ہونے پر کسی بزرگ کو الوداع کرنے کے لیے اٹھنا جائز ہے۔ یہ امر توحید کے منافی نہیں ہے۔