محمدﷺ بحیثیت حلیم و بردبار
جو شخص آپ سے برا سلوک کرے، آپ پر ظلم ڈھائے اور آپ بدلے کی قدرت و طاقت کے باوجود اسے معاف کر کے درگزر سے کام لیں تو یہ علم ہے۔ مطلق طور پر یہ انسان کی سب سے افضل واعلیٰ خوبی اور کمال ہے کیونکہ یہ خوبی اور کمال کئی فضائل کا مجموعہ ہے، جیسے: طبیعت میں ٹھہراؤ، کشادہ دلی، قوت برداشت، غصے پر کنٹرول اور وسعت ظرفی۔ یہ خوبیاں اور کمالات صرف وفاشعار معززین میں پائے جاتے ہیں اور ان کے امام رسولِ ہدایت محمد بن عبد اللہﷺ ہیں۔ آپ میں حلم اپنی خوبصورت ترین شکل میں موجود تھا اور آپ عفو و درگزر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ آپﷺ سب لوگوں سے زیادہ حلیم و بردباره کشادہ دل، نرم خو، بلند اخلاق اور خاندان سے لطف و کرم کرنے والے تھے۔ آپﷺ نے ظلم کرنے والے کو معاف کیا۔ محروم رکھنے والے کو نوازا۔ قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کی۔ برا سلوک کرنے والے کو معاف کیا اور اپنے خاص حقوق پر بھی اصرار نہ کیا، البتہ اللہ تعالی کے حقوق کا معاملہ ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے۔
آپﷺ نے بے ادب اور سخت مزاج دیہاتیوں کا سامنا کیا اور حلم و بر بادی اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے اپنے رب کے حکم: ﴿ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ﴾
’’تو (اے نبی!) آپ (کافروں سے ) خوبصورت انداز سے درگزر کریں۔‘‘ (الحجر 85:15) کی تعمیل کی۔
نبیﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے۔ آپ اپنی ذات کے لیے غصے ہوتے نہ ذاتی انتقام لیتے بلکہ جب آپ کو غصہ دلایا جاتا تو آپ کا حلم اور بڑھ جاتا اور کبھی تو آپ غصہ دلانے والے کو مسکرا کر نظر انداز کر دیتے۔ آپ ﷺ حلم کے وصف کی تعریف کرتے، اس کے فضائل اپنے صحابہ کو بتاتے اور حلم اختیار کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپ ﷺ نے اشج عبدالقیس سے فرمایا:
((إِنَّ فِيْكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ))
’’بلاشبہ تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: حلم اور طبیعت میں ٹھہراؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث: 17)
ایک آدمی نے نبیﷺ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺنے فرمایا:
((وَلَا تَغْضَبْ، فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ لَا تَغْضَبْ))
’’غصہ نہ کرو۔‘‘ اس نے بار بار درخواست کی تو آپ ﷺنے ہر بار فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
جب آپ ﷺکو پتا چلتا کہ کسی نے آپ کی برائی کی ہے تو آپ برائی کرنے والے کا نام پوچھتے نہ اسے برا بھلا کہتے اور نہ سزا ہی دیتے۔ آپ ﷺفرمایا کرتے تھے:
’’میرا کوئی صحابی کسی دوسرے کی کوئی بات مجھے نہ بتائے۔ بلاشبہ میں پسند کرتا ہوں کہ تمھارے سامنے آؤں تو تمھارے بارے میں میرا سینہ صاف ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث (4860)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺکو بتایا کہ کوئی شخص آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا تو آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: ((رَحِمَ اللهُ مُوسٰى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ))
’’اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے! یقیناً انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘ (صحيح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3405)
بعض یہود نے آپ اسلاﷺ کے ساتھ گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ مشرکین نے آپ کی رسالت، عزت، شہرت اور اہل و خیال کے بارے میں اذیت ناک باتیں کیں مگر جب وہ پوری طرح آپ کے قابو میں آ گئے تو آپ نے انھیں معاف کر دیا۔ اپنے حلم سے عداوت کی آگ بجھا کر اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل کی:
﴿ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ ؕ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ۹۶﴾
’’برائی کو اس طریقے سے دفع کیجیے جو احسن ہو۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘(المؤمنون 96:23)
بلاشبہ آپﷺ کے حلم کے مظاہر سوال کرنے والوں کے لیے نشان راہ ہیں۔ ان کا تذکرہ علمی مجالس اور دنیا کی درس گاہوں میں ہوتا رہے گا اور یہ واقعات کتابوں اور تالیفات کی زینت بنتے رہیں گے۔
نبیﷺ کے تحمل اور بردباری کا ایک مظہر اس وقت سامنے آیا جب آپ اہل طائف کو دعوت توحید دینے کے لیے تشریف لے گئے۔ انھوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ کو اذیت دی اور اپنے اوباش لوگ آپ مظالم کے پیچھے لگا دیے۔ انھوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کی ایڑیاں زخمی کر دیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
’’پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا ہے۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو اٹھا کر ان کے اوپر رکھ دوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ ﷺاس سے فرمایا:
’’بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حدیث: 1795)
انسانی تاریخ میں آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیں جس سے اس کے مخالفین اور دشمنوں کو تباہ کرنے کا مشورہ کیا جا رہا ہو اور یہ بات بھی یقینی ہو کہ اس کے ایک اشارے پر انھیں تہس نہس کر دیا جائے گا مگر وہ کہہ رہا ہو: نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ یہ نبی رحمت کے حلم و بردباری کی وہ مجسم تصویر ہے جس نے تاریخ کے تمام بردباروں کو پیچھے چھوڑ دیا اور بنی نوع انسان کے علم کی ہر مثال اس کے آگے ہمیشہ کے لیے ایک رہے گی۔ اگر آپﷺ نبی نہ ہوتے تو اتنی سخت تکالیف اور اذیتیں برداشت نہ کرتے۔ بعض اوقات انسان دنیاوی مقاصد کے حصول جیسے بادشاہت وسلطنت ،عہده و منصب، مال و متاع یا شہرت و ناموری وغیرہ کے لیے بھی اذیتیں برداشت کر لیتا ہے مگر آپ کسی بادشاہت کے طالب تھے نہ مال و دولت اور عزت و شہرت آپ کے پیش نظر تھی۔ احد کے معرکے میں نبی ﷺ کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے ستر جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم شہید ہوئے۔
مشرکین نے آپ کا رباعی دانت شہید کر دیا، آپ کا چہرہ انور زخمی کیا مگر آپ نے یہ سب کچھ صبر و تحمل سے برداشت کیا بلکہ ان لوگوں کو بددعا دینے کے بجائے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ آپ ﷺ نے انبیاء علیہم السلام کی اقتدا اور پیروی کے لیے ان کے حلم کے واقعات ذکر کیے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: گویا اب بھی میں رسول الله ﷺکو دیکھ رہا ہوں کہ آپ انبیاءعلیہم السلام میں سے ایک نبی کا واقعہ ذکر کر رہے ہیں جنھیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے میرے رب! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جانتے نہیں۔ (صحیح البخاري، استتابة المرتدين، حديث: 6929)
اس سے زیاد ہ حلم اور بردباری کیا ہوگی اور کون سا عفو و درگزر اس عفو و درگزر کے برابر ہو گا ؟! آپ ﷺنے تبلیغ دین کی راہ میں تکلیف پہنچانے والے ہر انسان سے عفو و درگزر کیا اور نہایت کشادہ دلی اور وسعت ظرفی سے مشقت برداشت کی۔ جب آپ ﷺ نے سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے قبیلے دوس کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو قوم نے انھیں اذیت دی اور برا بھلا کہا۔ سید نا طفیل رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کے لیے بد دعا کریں۔ آپ ﷺنے ہاتھ اٹھا دیے۔ سید ناطفیل رضی اللہ تعالی عنہ سمجھے کہ آپ ﷺ قبیلہ دوس کے لیے بد دعا کریں گے۔ اس بنا پر انھوں نے کہا: دوس تباہ ہو گئے۔ رسول اکرم ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر یوں دعا کی: ((اللّٰهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأَتِ بِهِمْ))
’’اے اللہ! روس کو ہدایت دے اور انھیں لے آ۔ ‘‘(صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2937)
اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دیے اور وہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ وفد کی صورت میں مدینہ آئے اور ملت اسلامیہ کے عظیم مددگار اور توحید کے علمبردار بن گئے۔
اب ہم نہایت عقیدت و احترام اور غور و فکر سے اس منظر کا جائزہ لیتے ہیں جس کے تصور سے آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، رو حیں کانپ اٹھتی ہیں اور زمانہ تھم جاتا ہے۔ یہ ایسا منظر ہے جسے گردش ایام بھی نہ بھلا سکے گی اور وہ ہے اہل مکہ کے معاملے میں نبی ﷺ کے حلم و برداشت کا منظر! آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ فتح و نصرت اور غلبہ ان لوگوں پر حاصل ہوا ہے جنھوں نے آپ کو گالیاں دیں، برا بھلا کہا، اذیتیں پہنچا ئیں، جنگ کی اور شہر سے نکال دیا۔ آپ ایک بھاری بھر کم شکر لے کر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ان سے اسلحہ لے لیا جاتا ہے اور ایک روایت کے مطابق آپﷺ کعبے کے دروازے کا کڑا تھام کر فرماتے ہیں: تم کیا کہتے ہو کہ میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ انھوں نے کہا: آپ اچھا ہی کریں گے۔ آپ کریم ابن کریم ہیں۔ یہاں رکیے اور چشم تصور سے اس منظر کو دیکھیے کہ امام اعظم ﷺ تاریخ کی سب سے بڑی معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ایسا رلا دینے والا منظر ہے کہ آنکھیں تھمتی ہی نہیں۔ آپ کا یہ اعلان کرتے ہیں:
((لَاتَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ إِذْهَبُوا فَأَنتُمُ الطُّلَقَاءُ))
’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمھیں معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ جاؤ تم سب آزاد ہوں۔‘‘ (السنن الكبرى للبيهقي، حديث: 18276)
اس عفو و درگزر، جود و کرم اور لطف و علم کے کیا کہنے اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے:
﴿ وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾
’’اور یقیناً آپ طلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم4:68)
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺکائنات کے سب سے بڑے بردبار، دنیا کے سب سے اعلی کریم اور تاریخ انسانی میں عفو و درگزر کے امام ہیں۔ سیدنا ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ جو اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے لیڈر تھے۔ انھوں نے نبی اکرمﷺ سے کئی جنگیں کیں۔ فتح مکہ کے موقع پر انھوں نے رسول اکرمﷺ کے عفو و درگزر اور علم و بردباری کا منظر دیکھا اور عام معافی کا اعلان سنا تو بے ساختہ پکار اٹھے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کتنے بردبار، کتنے معزز، کتنے صلہ رحمی کرنے والے اور کسی قدر عظیم معافی دینے اور درگزر کرنے والے ہیں۔ ( المعجم الكبير للطبراني، حديث: 7264)
اللہ، اللہ انسان اس منظر کی کیسے تعبیر کر سکتا ہے؟! کون سے الفاظ اس منظر کی کما حقہ تصویر کشی کر سکتے ہیں ؟؟ نبی اکرم ﷺ کے عظیم عفو و درگزر کو نہ تو شعروں میں ڈھالا جا سکتا ہے نہ نثر اس کو بیان کر سکتی ہے۔
آپﷺ کے حلم اور عفو و درگزر کا ایک شاندار منظر اس وقت دیکھا گیا جب آپ کا سامنا اپنے پیچازاد سیدنا ابو سفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا۔ یہ شاعر تھے۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے اشعار کے ساتھ آپ ﷺکو اذیت دی تھی۔ جب نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو یہ اپنے بچوں کو لے کر بیداء کی طرف نکل گئے۔ راستے میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ان سے ملے۔ یہ ان کے بھی چازاد تھے۔ پوچھا: ابو سفیان کدھر؟ کہا: میں اپنے بچوں کو لے کر بیداء مقام کی طرف جا رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر محمد (ﷺ) مجھے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جو نبی اکرم ﷺکے حلم اور بردباری سے آشنا تھے، فرمانے لگے: ابو سفیان! تم نے غلط اندازہ لگایا ہے۔ بلا شبہ رسول اکرم ﷺہم سب لوگوں سے زیادہ بردبار اور معزز ہیں۔ آؤ اور آپ ﷺکی نبوت کو تسلیم کر لو، پھر آپ سے ایسے معذرت کرو جیسے سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے معذرت کی:
﴿ تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕیْنَ۹۱﴾
’’اللہ کی قسم! بلاشبہ یقیناً اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی، اور بلاشبہ ہم ہی خطا کار تھے۔‘‘ (یوسف91:12)
فتح مکہ کے بعد رسول اکرم ﷺکی بیٹے ہوئے تھے اور آپ کے ارد گرد اسلامی لشکر تھے۔ چچازاد ابوسفیان آئے اور ان الفاظ میں آپ کی نبوت ﷺکرنے کا اعلان کیا:
﴿ تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕیْنَ۹۱﴾
’’اللہ کی قسم! بلاشبہ یقیناً اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی، اور بلاشبہ ہم ہی خطا کار تھے۔‘‘ (یوسف 91:12)
آپ ﷺنے اپنی چادر کا پلو اُن کی طرف بلند کیا اور فرمایا:
﴿ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ ؕ یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ؗ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۹۲﴾
’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمھاری مغفرت کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ (یوسف92:12)
اب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم ﷺ کے وفادار سپاہی بن چکے ہیں۔ وہ حنین کے دن رسول اکرم رضی اللہ تعالی عنہ کے آگے آگے لڑے اور سینہ تان کر آپ کا دفاع کیا۔ انھوں نے قسم کھائی کہ جتنا مال میں نے نبی اکرمﷺ سے جنگ
کرنے میں خرچ کیا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ آپ کی نصرت و تائید میں خرچ کروں گا۔
ابن اسحاق نے اپنی سیرت کی کتاب میں روایت کیا ہے کہ عرب شاعر عبداللہ بن زِبَعریٰ نے رسول اکرم رضی اللہ تعالی عنہ کو اذیت دی اور آپ کی مذمت میں اشعار کہے۔ جب آپﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو عبد اللہ مسلمان ہو کر یوں معذرت کرتے ہوئے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا:
مَضَتِ الْعَدَاوَةُ وَانْقَضَتْ أَسْبَابُهَا
وَدَعَتْ أَوَاصِرُ بَيْنَنَا وَحُلُومُ
فَاغْفِرْ فِدًى لَّكَ وَالِدَايَ كِلَاهُمَا
زَلَلِي فَإِنَّكَ رَاحِمٌ مَّرْحُومُ
وَعَلَيْكَ مِنْ عِلْمِ الْمَلِيكِ عَلَامَةٌ
نُوْرٌ أَغَرُّ وَخَاتَمٌ مَختُوْمُ
أَعْطَاكَ بَعْدَ مَحَبَّةٍ بُرْهَانَهُ
شَرَفًا وَّبُرْهَانُ الْإِلٰهِ عَظِيْمُ
’’دشمنی کے دن بیت گئے اور اس کے اسباب بھی ختم ہو گئے۔ اب ہمارے باہمی تعلقات صلح و امن اور عہد و پیمان پر قائم ہیں۔ آپ میری لغزشوں سے درگزر فرمائیں، میرے والدین آپ پر فدا ہوں! بے شک آپ رحم کرنے والے ہیں اور آپ پر بھی رحم کیا گیا ہے۔ آپ پر اللہ کے علم سے ایک علامت ثبت ہے، چمکتا ہوا نور اور مہر نبوت۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرف عطا کرنے کے لیے محبت کے بعد اپنی دلیل سے نوازا اور اللہ کی دلیل بڑی عظمت والی ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا اور اس پر ترس کھاتے ہوئے اس کی لغزشوں سے درگزر فرمایا۔
الاستيعاب وغیرہ کتبِ سیرت میں مروی ہے کہ عکرمہ بن ابو جہل فتح مکہ کے بعد سمندر کی طرف یا یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی نے اس کے لیے رسول اکرمﷺ سے امان کی درخواست کی۔ وہ شکست کھانے اور دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آیا تو رسول اکرم ﷺنے بڑی عزت کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور نہایت بردباری، نرمی اور فراخدلی سے فرمایا: ’’مہاجر سوار کو خوش آمدید‘‘ (جامع الترمذي، الأدب، حديث: 2735 وإسناده ضعيف)
رسول اکرمﷺ نے انھیں بھاگنے کا طعنہ نہیں دیا بلکہ عزت دی اور ان کی قدر و منزلت میں اضافہ فرمایا۔ گویا ہے آدمی جو رسول اکرمﷺ اور آپ کی رسالت سے بھاگا تھا، وہ در حقیقت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف مہاجر بن کر آیا۔ میں چشم تصور سے سید نا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے ہشاش بشاش مسکراتے اور کھلے ہوئے چہرے کو بار بار دیکھ رہے ہیں اور آپ ﷺ کے فرمان: ((مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُهَاجِرِ)) کو زیرِلب دہرا ر ہے ہیں اور ان کی روح یقین و ایمان اور فرحت و بشارت سے لبریز ہے۔
آپﷺ نے اپنے حلم اور بردباری سے کفر کے ان بڑے بڑے سرغنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا جنھوں نے آپ کو اذیتیں دیں، آپ سے جنگیں کیں، آپ کے سامنے اپنی تلواریں لہرا میں اور نیزے نکالے۔ جب اللہ تعالی نے آپ کی مدد کی اور وہ مسلمان ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان کی عزت افزائی کی اور ان میں سے بعض کو سوسو اونٹ دیے۔ حسن اخلاق، عفو و درگزر اور حلم و بردباری سے انھیں اپنی طرف مائل کیا یہاں تک کہ وہ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
آپﷺ کی خوشی، ناراضی، کسی کو دینا اور کسی کو نہ دینا سب اللہ کے لیے تھا۔ آپ کسی سے ذاتی انتقام لیتے نہ کسی اذیت دینے والے سے ذاتی بدلہ لیتے بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے اور نظر انداز کر دیتے۔ آپ ﷺ کے نواز نے اور محروم رکھنے کا معیار اللہ کی ذات تھی۔ آپ سب کچھ اللہ کے لیے کرتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے:
رسول اللہﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی غلام کو، مگر یہ کہ آپ اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہوں۔ اور جب بھی آپ کو نقصان پہنچایا گیا تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے نقصان پہنچانے والے سے انتقام لیا ہو مگر یہ کہ کوئی اللہ کے حرام کیے ہوئے کاموں میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا تو آپ اللہ عز وجل کی خاطر انتقام لیتے۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2328)
آپ ﷺاپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی سب لوگوں سے بڑھ کر حلم و بردباری سے پیش آتے۔ ان کی کوتاہیوں پر صبر کرتے اور عفو و درگزر سے کام لیتے۔ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے۔ نسوانی غیرت کے نتیجے میں ان سے ہونے والی کوتاہیوں اور غصے کو نظر انداز کر دیتے۔ اپنے حلم کے ساتھ ان تمام چیزوں پر قابو پالیتے اور ہر ایک سے عفو و درگزر کا معاملہ کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبیﷺ اپنی ایک بیوی کے ہاں تشریف فرما تھے۔ اس وقت ایک دوسری بیوی نے آپ کے لیے ایک پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ جس بیوی کے گھر میں آپ ﷺتشریف فرما تھے، اس نے خادم کے ہاتھ پر مارا تو پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی ﷺ نے پیالے کے ٹکڑے جمع کیے، پھر جو کھانا اس پیالے میں تھا، اسے بھی جمع کرنے لگے، پھر فرمایا: ((غَارَتْ اُمُّكُمْ)) ’’تمھاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔‘‘ پھر خادم کو روک رکھا حتی کہ اس بیوی کے گھر سے دوسرا پیالہ پیش کیا گیا جس کے پاس آپ قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد صحیح پیالہ اس بیوی کو بھیجا جس کا پیالہ توڑ دیا گیا تھا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر رہنے دیا جس نے اسے توڑا تھا۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5225)
اگر آپﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کوئی بیوی کسی وقت ناراض ہوتی تو وہ دوران گفتگو آپ ﷺکا نام نہ لیتی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
میں خوب جانتا ہوں جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور جب مجھ سے ناراض ہوتی ہو۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں، مجھے رب محمد کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو، نہیں نہیں، ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! میں نے عرض کی: ہاں اللہ کے رسول! اللہ کی قسم غصے کے وقت میں آپ کا نام زبان پر نہیں لاتی (مگر دل میں آپ کی محبت بھر پور ہوتی ہے۔ ) (صحيح البخاري، النکاح، حدیث: 5228)
آپﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ بردبار تھے۔ ان سے ہنسی مزاح اور لطف و کرم کا معاملہ کرتے۔ ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے۔ ہنستے مسکراتے گھر جاتے۔ ان کے دلوں اور گھروں کو انس، پیار اور سعادت سے بھر دیتے۔ آپ ﷺیتیم بچوں کو اٹھاتے اور ان کی نادانیاں بردباری سے برداشت کرتے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکے پاس کوئی بچہ لایا گیا تو اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا۔ آپ نے پانی منگوایا اور کپڑوں پر بہا دیا۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث (223) سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اکرم ﷺکی خدمت کی تو آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں نہیں کیا ؟ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6038)
کیا جود و کرم اور حلم و تحمل تھا جو نبیﷺ کی شخصیت میں اتر آیا! بلا شبہ یہ عقل و دانش اور حسنِ اخلاق کی انتہا ہے! گھر والوں کے معاملے میں آپ ﷺ کا حلم، بردباری، عفو و درگزر اور حسن سلوک اس سے کہیں زیادہ تھا جو سیرت نگار بیان کرتے ہیں۔ آپ ایک بردبار اور معزز شوہر کے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا:
’’ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر رعب و دبدبہ رکھتے تھے لیکن جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں ان پر غالب رہتی ہیں، چنانچہ ہماری عورتیں انصاری عورتوں کے آداب سیکھنے لگیں۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے مجھے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے اس کے جواب دینے پر جب ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا: میرا جواب دینا تمھیں برا کیوں لگا ہے؟ اللہ کی قسم نبیﷺ کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں حتی کہ بعض تو آپ سے دن سے رات تک الگ رہتی ہیں۔ میں یہ بات سن کر کانپ اٹھا اور کہا: ان میں سے جس نے بھی یہ رویہ اختیار کیا ہے، وہ یقیناً بڑے خسارے میں ہے، پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوا۔ میں سیدھا حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر گیا اور اس سے کہا: حفصہ کیا تم میں سے کچھ بیو یاں دن سے رات تک نبیﷺ کو ناراض رکھتی ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: پھر تم نے خود کو خسارے میں ڈال لیا ہے اور سراسر نقصان میں رکھا ہے۔ کیا تمھیں اس بات کا خطرہ نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ کی غصے کی وجہ سے اللہ تعالی ناراض ہو جائے گا، پھر تم تباہ ہو جاؤ گی۔ (صحيح البخاري، النكاح، حديث (5191)
بلا شبہ معلم خیرﷺ کی طرف سے یہ قابل قدر تعلیمات اور اعلی و عمدہ اخلاق اگر گھروں میں لاگو کیے جائیں تو کبھی جھگڑا، انتشار اور اختلاف نہ ہو۔
یہودی نبی اکرمﷺ کے بدترین دشمن تھے۔ انھوں نے آپ کے خلاف کئی سازشیں کیں۔ وہ کئی طریقوں سے آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ منافقوں اور عرب مشرکین کو اللہ کی راہ سے روکنے اور نبیﷺ کی رسالت کا انکار کرنے پر اکساتے رہے حتی کہ اس دشمنی میں انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو خفیہ طریقے سے شہید کرنے کی کوشش بھی کی۔ سیدنا انس بن مالک ﷺسے مروی ہے۔
ایک یہودی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک زہر آلود (پکی ہوئی) بکری لے کر آئی۔ نبیﷺ نے اس میں سے کچھ گوشت کھایا (آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کا پتہ چل گیا) تو اس عورت کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اس عورت سے اس زہر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: (نعوذ باللہ ) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر اختیار دے دے۔ ‘‘انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: یا آپ ﷺنے یوں فرمایا: ’’تمھیں مجھ پر اختیار دے دے۔ ‘‘انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: صحابہ نے عرض کی: کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2190)
زید بن سعنہ نامی ایک یہودی تاجر اسلام قبول کرنے سے پہلے نبی اکرمﷺ کے پاس آیا۔ وہ آپ سے اپنے قرض کا مطالبہ کر رہا تھا جس کی ادائیگی کا ابھی وقت نہیں ہوا تھا۔ اس نے لوگوں کے سامنے نبی اکرم ﷺ سے بد تمیزی کی اور آپ کے کپڑے سے پکڑ کر کھینچا۔ بڑی اونچی آواز میں آپ ﷺکے سامنے چلایا کہ تم بنی عبدالمطلب کو ٹال مٹول کرنے کی عادت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ڈانٹا اور اس کی ٹھکائی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ نبی اکرمﷺ بڑے اطمینان وسکون اور مسکراہٹ سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھتے رہے، پھر ان سے فرمایا:
’’عمر! ہمیں اس سے ہٹ کر تمھارے رد عمل کی ضرورت تھی۔ وہ یہ کہ تم مجھ سے کہتے کہ میں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کروں اور اسے سمجھاتے کہ قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو۔ عمر! اسے ساتھ لے جاؤ اور اس کا حق ادا کرو اور اسے بیس صاع کھجور میں زیادہ دینا کیونکہ تم نے اسے دھمکایا ہے۔‘‘
زید بن سعنہ کہتا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت میں صاع کھجور میں زیادہ دیں۔ جب میں نے کھجور یں وصول کر لیں تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: یہ میرا حق مجھے مل گیا، اس بات کی سمجھ تو آتی ہے مگر یہ بیس صاع زیادہ کس لیے دیے جا رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا حکم اسی طرح ہے۔ یہ اس بات کا بدلہ ہے جو میں نے تمھیں ڈرایا تھا۔
زید کہتا ہے: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم خود ہی اپنا تعارف کرا دو۔ میں نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کہا: وہی جو مشہور یہودی عالم ہے۔ میں نے جواب دیا: ہاں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم نے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جس انداز میں گفتگو کی ہے اور ان کے ساتھ جس طرح بداخلاقی سے پیش آئے ہو، تمھیں ہرگز اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ زید بن سعنہ نے کہا: عمر رضی اللہ تعالی عنہ تم بالکل درست کہتے ہو مگر تمھیں معلوم نہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺکے چہرے پر نبوت کی تمام علامات آپ کو دیکھتے ہی جان لیں۔ بس دوصفات کی آزمائش باقی تھی: ایک یہ کہ اس نبی کاحعلم جہالت پر غالب ہوگا اور دوسری یہ کہ جیسے جیسے ان کے ساتھ زیادہ بدتمیزی کی جائے گی، ویسے ویسے ان کے حوصلے اور برداشت میں اضافہ ہوگا۔ آج میں نے ان دو صفات کا بھی خوب مشاہدہ کر لیا ہے۔ عمر! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوں۔ (صحیح ابن حبان، حدیث: 288)
اللہ کے لیے مجھے بتائیں کون ہے جو نبی اکرم ﷺ کے اس اعلیٰ اخلاق سے واقف ہو اور پھر وہ دین اسلام کی طرف مائل نہ ہوا اگر اس میں ادنیٰ سی انسانیت بھی موجود ہو تو وہ اس عظیم امام اور کریم نبیﷺ کام کی عظمت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
بلا شبہ آپﷺ کی شریعت زندگی کے ہر شعبے میں پڑھائی جاتی ہے اور انسان ہر موڑ پر آپ کی سنت کی پیروی کرنے کا پابند ہے اور ان میں سے ایک موقع نافرمانوں اور گناہ گاروں کے طرز عمل کو برداشت کرنا بھی ہے۔ ہمیں سیکھنا چاہیے کہ آپ ﷺنے اپنے حلم کے ساتھ کیسے ان سے درگزر کیا، انھیں اللہ کے حضور توبہ کی مہلت دی، انھیں اللہ کی رحمت اور اس کی معافی کی امید دلائی اور ان پر واپسی کا دروازہ بند نہیں کیا۔ جب سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مشرکین مکہ کو حط لکھ کر رسول اکرم ﷺ کے بارے میں بتایا کہ آپﷺ مکہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے آپ نے لشکر تیار کر لیا ہے تو اس پر وحی نازل ہوئی اور نبی ﷺکو اس مخط کے بارے میں بتایا گیا۔ آپﷺ نے سید نا حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا بھیجا اور بڑے اطمینان سے پوچھا: ’’حاطب! یہ کیا ہے؟ ‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سزا دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ میراعذرسن لیں۔ میرا قریش سے کوئی نسبی رشتہ نہیں بلکہ میں باہر سے آکر ان سے ملا ہوں۔ آپ کے ہمراہ جو مہاجرین ہیں، ان سب کی مکہ مکرمہ میں رشتہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے قریش، ان کے اہل وعیال اور مال و اسباب کی حفاظت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر کوئی ایسا احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر کی بنا پر نہیں کیا، نہ میں دین اسلام سے پھرا ہوں اور نہ اسلام کے بعد کفر پر راضی ہوا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تمھیں سچ سچ بتا دیا ہے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’چونکہ یہ شخص غزوہ بدر میں حاضر تھا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو، یقیناً میں تمھیں بخش چکا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3007)
رسول اکرمﷺ کا حلم اور بردباری ملاحظہ کریں کہ آپ نے کس طرح ان کی قدر و منزلت اور اسلام میں سبقت کو پہچانا اور درگزر فرمایا! اس منظر پر غور کرنے سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔
آپﷺ نے بتایا ہے کہ انسان کی عزت و شرف حلم و بردباری اور غصہ پی جانے میں ہے نہ کہ سزا دینے اور انتقام لینے میں۔ آپ کا یہ ایک نہایت مضبوط اور مؤثر بات ارشاد فرمایا کرتے تھے:
((لَيْسَ الشَّدِيْدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ))
’’طاقتور وہ نہیں جو بہت زیادہ پچھاڑ دے، یعنی کشتی میں حریف پر غالب آجائے۔ مضبوط اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو پالے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6114)
شاندار اور اعلی انسانیت کے یہی معنی ہیں نہ کہ دوسروں کو زیر کرنے، اذیت دینے اور نقصان پہنچانے کے منصوبے بنانا۔
رسول اکرم ﷺنے حلم و بردباری اور عفو و درگزر کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے حلیم اور بردبار لوگوں کے سروں کا تاج قرار دیا ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے پر دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو۔ تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندوا آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حديث: 2564)
آپﷺ کا نہایت عمدہ اور خوبصورت فرمان ہے: ((مَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعْفُوٍ، إِلَّا عِزًّا))
’’عفو و درگزر کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة حدیث (2588)
ایک اور روایت میں آپ ﷺنے فرمایا:
’’جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن سب لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حُورعین میں سے جسے چاہے، منتخب کر لے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4777)
بلا شبہ ان معانی کو پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ یہ یقین و اعتقاد رکھتے ہوئےسمجھنے کی ضرورت ہے کہ ارشاد نبوی پر عمل کرنا دنیا و آخرت میں باعث نجات ہے۔ یہ ایسی عظیم شریعت ہے جس کی روشنی میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔ یہ تاریخی خبر یں نہیں جنھیں محض ذہنی سکون و اطمینان کے لیے پڑھا جاتا ہے۔
آپ ﷺتبوک کے لیے نکلے تو منافقین اس غزوے میں پیچھے رہ گئے اور شامل نہ ہوئے۔ جب آپ ﷺواپس تشریف لائے تو انھوں نے جھوٹے عذر پیش کیے۔ اس پر آپ نے ان کے عذر قبول کیے اور ان کی بات کو ظاہر پر محمول کیا تو اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ سے اظہار نا راضی کیا اور فرمایا:
﴿عَفَا اللهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ﴾
’’(اے نبی !) اللہ نے آپ کو معاف کر دیا۔ آپ نے ان (منافقین) کو اجازت کیوں دی؟ (آپ اجازت نہ دیتے ) یہاں تک کہ آپ پر سچے لوگ ظاہر ہو جاتے اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے۔‘‘ (التوبة43:9)
یہاں ایک خوبصورت نکتہ ہے کہ اللہ تعالی کی اپنے رسولﷺ سے محبت اور اللہ کے ہاں آپ کی قدر ومنزلت کی وجہ سے اللہ تعالی نے عتاب سے پہلے عفو و درگزر کا ذکر فرمایا۔ یہ آپﷺ کی اپنے رب کے ہاں اعلی شان کی دلیل ہے۔ مخلوق میں آپ سب سے زیادہ اللہ تعالی کے نزدیک عزیز، محبوب اور عزت دار ہیں۔
گزشتہ واقعے سے آپ ﷺکے حلم کی وسعت اور عفو و درگزر کی عظمت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے منافقوں کی سازشوں، دسیسہ کاریوں، غداریوں اور باطنی کفر کو جاننے کے باوجود ان کے عذر قبول کیے، انھیں برداشت کیا اور ان سے درگزر فرمایا۔
منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول کے ساتھ آپ ﷺکا رویہ ملاحظہ کریں کہ اس نے اسلام میں آستین کے سانپ کا کردار ادا کیا۔ احد میں مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بہکا کر واپس لے گیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بہتان باندھا جو صدیقہ بنت صدیق ہیں اور جن کی براءت اللہ تعالی نے ساتوں آسمانوں پر سے نازل کی۔ ایک غزوے میں جب انصار و مہاجرین کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف ہوا تو اس نے کہا: اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم میں سے زیادہ عزت والا، زیادہ ذلیل کو وہاں سے ضرور نکال دے گا۔ اس بدبخت کی زیادہ عزت والوں سے مراد خود اپنی ذات تھی اور زیادہ ذلیل سے (نعوذ باللہ ) وہ نبی اکرمﷺ کو مراد لے رہا تھا، چنانچہ جب وہ مدینہ پہنچا تو اس کے بیٹے نے ایک سچے مومن اور اللہ کے رسولﷺ کے حقیقی محب کا کردار ادا کیا۔ ترمذی کی روایت کے مطابق اپنے باپ کو مدینے کے دروازے پر روک کر کہا: جب تک اللہ کے نبی ﷺاجازت نہیں دیں گے، تو مدینے میں داخل نہیں ہو سکتا۔ بلا شبہ تو ذلیل ہے اور نبیﷺ سب سے بڑھ کر عزت والے ہیں۔
آپﷺ نے عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے اسے معاف کر دیا اور نہایت بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔
اور جب منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے سید نا عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کو کفن دینے کے لیے رسول اکرم ﷺسے اپنا کپڑا دینے کی درخواست کی۔ آپ ﷺنے نہایت لطف و کرم اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنا کپڑا دے دیا جس میں اس کی تدفین کی گئی۔ اس کے بیٹے نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی:
جب عبد الله بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ ﷺکو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں آپ کی طرف تیزی سے کود پڑا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ اس نے فلاں فلاں روز ایسی ایسی بکو اس کی تھی؟ میں اس کی باتیں شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: ’’عمر !تم یہاں سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘ جب میں زیادہ اصرار کرنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اختیار دیا گیا ہے، لہذا میں نے استغفار کرنا اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ میرے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اللہ اسے معاف کر دے گا تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے استغفار کرلوں گا۔‘‘
راوی کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور واپس تشریف لے آئے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1366)
تصور کریں کہ آپ کے سامنے ایسے شخص کا جنازہ لایا جائے جو آپ کا سب سے بڑا دشمن ہو، جس نے زندگی بھر آپ کے خلاف سازشیں کی ہوں، آپ کو گالیاں دی ہوں، برا بھلا کہا ہو، رائے عامہ کو آپ کے خلاف کرنے کی بھر پور کوشش کی ہو، آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہا ہو، آپ کی عزت اچھالتا رہا ہوں آپ کا مذاق اڑاتا رہا ہو اور اس نے ایذا رسانی کا ہر طریقہ اختیار کیا ہو اور اس سب کچھ کے باوجود آپ عفو و درگزر بردباری اور نظر اندازی و معانی والا معاملہ کر کے اس کے لیے استغفار کریں اور اللہ سے رحم کی دعا کریں تو کتنے عمدہ اخلاق اور اعلیٰ ظرف کی بات ہوگی؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اعلی اخلاق صرف ایک ہی انسان کے ہو سکتے ہیں جن کا اسم گرامی محمد بن عبد اللہﷺ ہے۔
اس بدو اور دیہاتی کا واقعہ دیکھ لیں جو مدد طلب کرنے کے لیے آپﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے ایک موٹے کناروں والی نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اس بدو نے پیچھے سے وہ چادر پکڑ کر کھینچی تھی کہ آپ کی گردن مبارک پرنشان پڑ گیا مگر آپ نے نہ صرف در گزر کیا بلکہ اسے مال دینے کا حکم صادر فرمایا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: میں ایک دفعہ نبی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ جا رہا تھا جبکہ آپ نے نجران کی تیار کی ہوئی چوڑے حاشیے والی چادر پہن رکھی تھی۔ اتنے میں ایک اعرابی نے آپ کو گھیر لیا اور زور سے چادر کو جھٹکا دیا۔ میں نے نبی ﷺکے شانے کو دیکھا جس پر چادر کو زور سے کھینچنے کی بنا پر نشان پڑ گیا تھا۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے، اس میں سے کچھ مجھے دینے کا حکم دیجیے۔ آپ ﷺاس کی طرف متوجہ ہوئے اور ہنس پڑے، پھر آپ نے اسے کچھ دینے کا حکم دیا۔ (صحيح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3149)
اعرابی نے تین گستاخیاں کیں: 1۔نبی اکرم ﷺکی چادر کو کھینچا۔ 2۔سخت رویہ اپنایا۔ 3۔بدتمیزی سے بات کیا۔
آپ ﷺنے اس کے جواب میں تین نوازشیں کیں: 1۔اس پر توجہ دی۔ 2۔اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ 3۔اسے کچھ دینے کا حکم دیا۔
میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہی آپ کا منہج و طریقہ تھا جیسا کہ آپ کے رب نے آپ سے فرمایا: ﴿اِدْ فَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ﴾
’’آپ ہر برائی کو سب سے اچھے طریقے کے ساتھ ٹال دیا کریں تو آپ دیکھیں گے یکاایک وہ شخص کہ آپ کے اور اس کے درمیان دشمنی ہے، (ایسا ہو جائے گا) جیسے گرم جوش جگری دوست ہو۔‘‘ (حم السجدة 34:41)
درود و سلام ہو مخلوق میں سے سب سے بہتر انسان پر جس نے اپنے رب کا حکم نافذ کیا، اپنے مولا کا پیغام پہنچایا اور نہایت احسن رویہ اپنایا۔
آپ ﷺکے حلم اور بردباری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ دینی احکام سے نا آشنا نو مسلم دیہاتیوں کے ساتھ لطف و کرم والا معاملہ کرتے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
رسول اللہ ﷺ ایک نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ایک دیہاتی نے دوران نماز میں کہا: اے اللہ مجھ پر اور محمد ﷺپر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر۔ جب نبیﷺ نے سلام پھیرا تو دیہاتی سے فرمایا: ((لقَدْ حَجَرْتَ وَاسِعًا)) ’’ تو نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا۔‘‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی۔ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6010)
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:ہم مسجد میں رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں نے کہا: کیا کر رہے ہو؟ کیا کر رہے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے درمیان میں مت روکو۔ اسے چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام ﷺنے اسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں۔ یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں‘‘ یا ’’ جو بھی الفاظ رسول اللہ ﷺنے فرمائے۔
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر آپ نے لوگوں میں سے ایک آدمی کو حکم دیا، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث: 285)
جس طرح آپ ﷺ نے طہارت کے لیے دیہاتی کے پیشاب پر پانی بہانے کا حکم دیا، اسی طرح آپ نے اس کی جہالت پر اپنا حلم اُنڈیل کر اسے پاک کر دیا، بلکہ جس شخص نے آپ ﷺکوقتل کرنے کا ارادہ کیا، آپ نے اس کے ساتھ بھی بردباری والا معاملہ فرمایا اور اسے معاف کر دیا۔ اور یہ حلم کی انتہا ہے جہاں تک دنیا کے تمام بردبار بھی نہیں پہنچ سکتے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔جب رسول اللہﷺ لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (بیول کے) درخت تھے۔ رسول اللہﷺ نے اس وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکا دی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سو گئے۔ اس دوران میں ہم نے رسول اللہ ﷺکی آواز سنی کہ آپ ہمیں بلا رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا تو اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ’’اللہ‘‘ اور آپ نے اسے کوئی سزا نہ دی اور وہ بیٹھ گیا۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث (2910)
اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ آدمی قوم کے پاس گیا اور مسلمان ہو گیا اور پھر یہ اپنی قوم کے اسلام لانے کا باعث بنا (الإصابة)
سید نا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ کے حلم و عفو کا ایک دوسرا واقعہ بھی مروی ہے کہ آپ حنین میں غنیمتیں تقسیم کر رہے تھے تو ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا:
’’محمدﷺ! عدل کیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرے لیے ہلاکت ہوا اگر میں عدل نہیں کر رہا تو اور کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کر رہا تو میں ناکام ہو گیا اور خسارے میں پڑ گیا۔‘‘ اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے، میں اس منافق کو قتل کر دوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ((مَعَاذَ اللهِ! أَن يَّتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي )) ’’میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1063)
آپﷺ نے عفو و درگزر اور علم کے علاوہ بہت بڑی مصلحت اور عظیم مقصد کو بھی پیش نظر رکھا اور وہ تھا لوگوں کی ہدایت، کیونکہ جب لوگ یہ سنتے کہﷺ نے اپنے بعض ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے تو وہ دین سے دور ہو جاتے اور اسلام کا خوف ان کے دل میں بیٹھ جاتا۔ آپﷺ کی وسعت نظر، کمال حکمت اور نور بصیرت دیکھیں کہ اس اعتراض کرنے والے کو دعوت کی مصلحت کی خاطر چھوڑ دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ کتنے خوبصورت انداز سے اسلام کا غلبہ چاہتے تھے اور دائمی رسالتِ محمدیہ کی اچھی شہرت کے لیے کسی قدر حریص تھے!
آپ ﷺعمدہ اخلاق، جس میں عفو و درگزر بھی تھا، بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا۔ آپ کے حسن کردار کی وجہ سے لوگ دین اسلام کی طرف راغب ہوئے اور آپ ﷺکی رسالت کو تسلیم کیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی ﷺکی عمدہ صفات و عادات اور علم و شرافت، نیز جود و کرم کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں:
’’آپﷺ نہ طبعاً بد گو تھے اور نہ جوابًا ہی بدگوئی پر اترتے تھے۔ نہ بازاروں میں شور و غوغا کرتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں دیتے تھے بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذي أبواب البر والصلة، حديث (2016)
یہ ہیں آپ ﷺ کی خوبیاں اور شمائل و اخلاق !! اور آپ کا یہ اخلاق کیسے نہ ہو کہ اللہ تعالی نے آپ ہی پر تو یہ آیت نازل کی ہے:
﴿وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ﴾
’’اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں۔ اور اللہ نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران 134:3)
آپ ﷺنے یہ آیت ہم تک اپنے قول و فعل اور حال سے پہنچائی ہے۔ اور آپ ہی پر یہ فرمان بھی نازل ہوا:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِيْنَ﴾
’’آپ ان سے درگزر کیجیے اور نیک کام کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کیجیے۔‘‘ (الأعراف 199:7)
یہ ایک آیت ہی عالمی اخلاق کے دستور اور انسانی شرف کے میثاق کے لیے کافی ہے۔ انسانیت ان ربانی تعلیمات اور محمد ﷺکی سنتوں کے نفاذ کے بغیر سعادت نہیں پاسکتی۔ یہ عمدہ صفات اور معززین والی خوبیاں صرف آپ کی معطر سیرت اور خوشبودار اخلاق ہی سے سکھی جاسکتی ہیں۔
درود و سلام ہوں کا ئنات کے سب سے عظیم بردبار اور سب سے بڑھ کر عفو و درگزر کرنے والے پر! ہم گواہی دیتے ہیں کہ انسانیت کی تاریخ میں سب سے زیادہ غصہ پیا جانے والے اور اچھے اور عمدہ اخلاق کے امام محمدﷺ ہی ہیں۔ آپﷺ قابل تعریف عادت میں سب سے آگے ہیں۔ ہم اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺمیں ہر وہ خوبی موجود ہے جو رب العالمین کو پسند ہے، اس لیے آپ بھی اپنے نبی کا اخلاق و کردار اپنا کر اللہ کے محبوب اور ولی بن جائیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی بغیر لشکروں کے آپ کی مدد کرے اور بغیر خاندان کے آپ کی حمایت کرے تو حلم و بردباری کو لازم پکڑیں۔