محمدﷺ بحیثیت استغفار کرنے والے

اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے برگزیدہ اور عظمت و شان والے انبیاء علیہم السلام  ہیں۔ اللہ تعالی نے انھیں لغزش سے بچایا، نقائص سے محفوظ رکھا اور اعلیٰ شان اور بلند قدر و منزلت عطا فرمائی کیونکہ انھوں نے اللہ تعالی کی مغفرت و رضا کے حصول کے لیے استغفار کے ذریعے سے اس کا قرب حاصل کیا۔

استغفار اور تو بہ انبیاء  علیہم السلامکی سنت، اولیاء کا وسیلہ اور متقین کا منہج ہے۔ اس کے ساتھ وہ اللہ تعالی کے حضور گڑ گڑاتے ، اس کا قرب حاصل کرتے اور اس کی مدد و نصرت طلب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان پر رحمت کی جاتی ہے اور وہ بلندیوں کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ استغفار پہلی اطاعت ہے جس کے ساتھ انسان نے اپنے خالق کا قرب حاصل کیا۔

اللہ تعالی نے سب سے پہلے ابوالبشر سید نا آدم اور حوال علیہما السلام پر توبہ کا دروازہ کھولا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝﴾

’’انھوں نے کہا: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو  یقینًا ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ (الأعراف (23:7)

اور سیدنا نوح علیہ السلام نے یوں دعا کی:

﴿رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ﴾

’’اے میرے رب ! تو میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما اور ہر اس شخص کی جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہو، اور ایمان والوں کی اور ایمان والیوں کی۔‘‘ (نوح 28:71)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کو دیکھیں، وہ یوں دعا کرتے ہیں:

﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠۝﴾

’’اے ہمارے رب ! جس دن حساب قائم ہوگا ، اس دن مجھے، میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو معاف فرمانا‘‘ (إبراهيْم: 41:14)

اور خاتم الانبیاء محمد رسل ﷺ اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں:

﴿وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ﴾

’’اور اپنے گناہ کی بخشش مانگیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔‘‘ (محمّد 19:47)

نبی کریمﷺ آغاز رسالت سے وفات تک اپنے مولا و پروردگار سے توبہ و استغفار کرتے رہے۔ امت کے لیے تو بہ کے دروازے کھولنے والے اور استغفار کا طریقہ سکھانے والے آپ ہی ہیں۔ آپ نے زندہ و قائم رب کی طرف متوجہ ہونے کا گر سکھایا۔ آپ ﷺ دن رات ، سفر و حضر اور زندگی کے تمام احوال میں تو بہ کرنے والے تھے۔ آپ کے استغفار کو دیکھ کر گناہ گار و نافرمان کے دل میں بھی تو بہ وانابت کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔

نبیﷺ نے امت کو تو بہ کی چابیاں دیں۔ انھیں اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی تلقین کی۔ ان کی امیدوں اور تمناؤں کو وسعت و بلندی عطا کی اور انھیں رب العالمین کی خوشخبریوں کی نوید سنائی:

﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝﴾

’’آپ کہہ دیجیے: (اللہ فرماتا ہے 🙂 اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوتا۔ بے شک اللہ سب کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔  یقینًا وہی بے حد بخشنے والاء نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ (الزمر 53:30)

امید و عطا سے بھر پور آپ ﷺ کا یہ فرمان صحیح سند سے مروی ہے:

((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتّٰى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا))

’’اللہ عز وجل رات کو اپنا دستِ رحمت پھیلا دیتا ہے تا کہ دن کو گناہ کرنے والا تو بہ کرے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کو گناہ کرنے والا تو بہ کرے، اور یہ اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔‘‘ (صحيح مسلم، التوبة، حديث: 2759)

نبی اکرم ﷺنے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے اور رحٰمن ومنان کی بخشش و معانی کے ایک منظر کی یوں خبر دی، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝﴾

’’مگر جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور نیک عمل کیے، تو ابھی لوگوں کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ (الفرقان 70:25)

ہادیٔ کا ئنات، اللہ کے رسول ﷺ تعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے تھے، جیسا کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا: ((إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللهِ أَنَا))

’’بلا شبہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا اور اس کے بارے میں جاننے والا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث:20)

جب نبیﷺ کو اللہ تعالی کی قدرت، بادشاہی، عظمت و جلال اور بلند شان و شوکت کا علم ہوا تو اس کی مغفرت پر آپ کا یقین بھی اسی اعتبار سے بڑھا۔ اس کی رحمت سے آشنائی میں اضافہ ہوا تو آپ مکمل عجز و انکسار کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ احساس مزید اجاگر ہوا کہ اس کے قرب کے حصول کے لیے جو عبادات بھی بجا لائی جائیں، وہ اس کے جلال اور عظمت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اور یہ سب اللہ تعالی کے عظیم خوف اور اس کی سخت نگرانی کے یقین کا نتیجہ تھا۔ انسان اللہ تعالی کے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے، اسے اتنا ہی زیادہ یقین اور احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے حضور جو عبادات وہ بجا لا رہا ہے، وہ نہایت تھوڑی ہیں، اس لیے وہ کثرت سے توبہ و استغفار کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص جس قدر اللہ تعالی سے زیادہ دور ہوتا ہے، اس کی تو بہ اور عجز و انکسار بھی اسی قدر کم ہوتا ہے۔ وہ استغفار کے بجائے غفلت کا شکار رہتا ہے اور موت تک نافرمانیوں میں غرق رہتا ہے۔

بلا شبہ کوتاہیوں پر خود کو ملامت کرنے، اپنے مولا و آقا کے سامنے خود کو حقیر اور کوتاہ کار سمجھنے اور نفس کی ظالمانہ حرکات اور خواہشات پر نالاں ہونے سے اللہ لطیف و خیبر کے قرب کی جو منزلیں طے ہوتی ہیں، وہ روزوں، قیام اور بیت اللہ کے طواف سے بھی طے نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ یہ اعتقاد اور نظریہ رکھتے تھے کہ احسان صرف اللہ تعالی کا ہے۔ بندہ جتنا بھی اوپر چلا جائے، خرچ کرے، اللہ تعالی کے لیے دے، خشوع و خضوع اختیار کرے ، سب اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان ہی کا مرہون منت ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰی مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ﴾

’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوتا۔‘‘ (النور 21:24)

آپ ﷺنہایت رقت آمیز لہجے اور کھلے الفاظ میں اپنی تو بہ کا اعلان کرتے اور اپنے رب سے استغفار کرتے ہوئے فرماتے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِيْ فِيْ أَمْرِيْ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي جِدِّي وَهَزْلِي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذٰلِكَ عِنْدِي، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

’’اے اللہ ! میری خطا، میری جہالت، میرا اپنے کسی معاملے میں حد سے آگے بڑھ جانا اور وہ سب کچھ جو تو میری نسبت زیادہ جانتا ہے، سب مجھے معاف فرما دے۔ اے اللہ ! میرے وہ سب کام جو (تجھے پسند نہ آئے ہوں) میں نے سنجیدگی سے کیے ہوں یا غیر سنجیدگی سے، بھول کر کیے ہوں یا جان بوجھ کر اور یہ سب مجھ سے ہوئے ہوں، معاف فرما دے۔ اے اللہ! میری وہ باتیں (جو تجھے پسند نہیں آئیں) بخش دے جو میں نے پہلے کیں یا بعد میں، خفیہ کیں یا علانیہ اور جنھیں تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ تو ہی آگے بڑھانے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء

حديث 2719)

یہ اس طاہر و مطہر اور معصوم ہستیﷺ کی دعا ہے جن کی اگلی پچھلی سب خطا ئیں معاف کر دی گئی ہیں۔ جو بندہ خطا کار و گناہ گار اور برائیوں و نافرمانیوں میں ڈوبا ہوا ہو، اس کی دعا کیا ہونی چاہیے ؟! آپ ﷺجب باری تعالی کا یہ فرمان سنتے ہوں گے تو آپ کے کیا جذبات اور احساسات ہوں گے:

﴿لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ۝﴾

’’تا کہ اللہ تعالی آپ کے لیے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتا ہی معاف کر دے، اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے، اور آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت دے۔‘‘ (الفتح 2:48)

کیا آپ ﷺ یہ ہدیہ اور تمغہ وصول کر کے ، عزت کا یہ تاج سجا کر، اس مغفرت پر بھروسا اور اعتماد کر کے آرام سے بیٹھ گئے ؟! ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! بلکہ آپ پہلے سے زیادہ اپنے خالق و مولا کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں اور اس کی عظمت کی محراب میں دن رات پہلے سے زیادہ عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ ﷺفرماتے ہیں:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوْا إِلى اللهِ، فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِئَةَ مَرَّةٍ))

’’اے لوگو! اللہ کے حضور توبہ کرو، میں دن میں اللہ کے حضور سو بار تو یہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حديث (2702)

پاکیزہ ظاہر و باطن والی اس ہستی کا اس قدر زیادہ استغفار کرنا در حقیقت ہماری توجہ مبذول کرانے کے لیے ہے۔ ہم تو بہت زیادہ خطا کار اور گناہوں کے پہتے ہیں۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تو بہ و استغفار کرنے اور بار بار رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

يا رَبِّ إِنْ عَظُمَتْ ذُنُوبِي كَثْرَةً

فَلَقَدْ عَلِمْتُ بِأَنَّ عَفْوَكَ أَعْظَمُ

إِنْ كَانَ لَا يَرْجُوكَ إِلَّا مُحْسِنٌ

فَمَنِ الَّذِي يَدْعُو وَيَرْجُو الْمُجْرِمُ

أَدْعُوكَ رَبِّ كَمَا أَمَرْتَ تَضَرُّعًا

فَإِذَا رَدَدْتُ يَدِي فَمَنْ ذَا يَرْحَمُ

مَالِي إِلَيْكَ وَسِيلَةٌ إِلَّا الرَّجَا

وَجَمِيلٌ عَفُوكَ ثُمَّ إِنِّي مُسْلِمُ

’’اے میرے رب! اگر چہ میرے گناہ بڑے سنگین بھی ہیں اور کثیر بھی مگر میں جانتا ہوں کہ تیرا عفو و کرم  سب  سے عظیم تر ہے۔ اگر صرف نیکو کار شخص ہی تجھ سے امید رکھ سکتا ہے تو پھر جرم کا ارتکاب کرنے والا کس سے دعا کرے اور کس سے امید رکھے۔ میرے رب! میں تیرے حکم کے مطابق عجز و انکسار کے ساتھ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ پھر اگر تو نے بھی میرے ہاتھوں کو خالی لوٹا دیا تو پھر کون رحم کرے گا۔ اچھی امید اور تیرے خوبصورت عفو و کرم کے علاوہ تیرے حضور میرا کوئی وسیلہ نہیں، پھر یہ بات بھی ہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘

آپ ﷺ نے تو بہ کے کئی دروازے کھولے اور امت کو گناہوں کا کفارہ بنے والے اعمال، جیسے طہارت، نماز، صدقہ، روزہ اور حج وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالی کی وسیع رحمتوں کی خبر دی، مثلاً :  آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ، حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ))

’’جس نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے وضو کیا تو اس کی خطا ئیں اس کے جسم سے نکل جاتی ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتی ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث:245)

 ایک دفعہ آپ ﷺ نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے کیا، پھر فرمایا:

((مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هٰذَا ثُمَّ صَلّٰى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ))

’’جس  نے میرے اس وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعت نماز ادا کی جن میں خود سے باتیں نہ کیں تو اس کے پہلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث:159)

آپ ﷺ نے خبر دی:

’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ و بحمدہ کہا، اس کی خطا میں مٹا دی جائیں گی ، خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث (2691)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ حَجَّ للهِ فَلَمْ يَرْفُتْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ))

’’جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس میں شہوت اور فسق و فجور کی کوئی بات نہ کی تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الحج، حديث (1521)

آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ((الصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيْئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ))

’’صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 15284)

ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا :

((مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ الْعَظِيْمُ الَّذِيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ))

’’جس نے یہ دعا پڑھی: ’’میں اس عظیم اللہ سے معافی طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کو قائم رکھنے والا ہے اور میں اس کے حضور تو بہ کرتا ہوں‘‘  تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دے گا، خواہ وہ میدان جنگ سے بھاگا ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث : 3577)

نبیٔ اکرم کی نماز میں خشوع و خضوع اور عجز و انکسار صاف نظر آتا تھا۔ آپ تکبیر تحریمہ سے نماز کا آغاز کرتے اور دعائے استفتاح ہی میں کہتے :

((اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ))

’’اے اللہ! تو ہی حقیقی بادشاہ ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔ تو میرے تمام گناہ معاف فرمادے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حدیث:771)

اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی منقول ہے:

((اَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اَللّٰهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ. اَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ))

’’اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری فرما دے جتنی تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے۔ اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! مجھ سے میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔‘‘ (سنن النسائي، الافتتاح، حديث: 896)

کیا یہ تو بہ نہیں ؟ کیا یہ نماز کے آغاز میں استغفار نہیں ؟!

آپ ﷺرکوع کرتے تو بھی اپنے رب سے استغفار کرتے ، جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ رکوع وسجود میں اکثر یہ دعا پڑھتے تھے: ((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي))  ’’اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حديث: 794)

آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سچی توبہ اور آپ کی پاکیزہ سانسوں سے اللہ تعالی کی طرف رجوع کی سرگوشیاں سنیں۔ رات کی تاریکی ہے۔ آپ نے اپنی ناک اور پیشانی مبارک زمین پر رکھی ہے اور خشوع و خضوع سے گڑگڑاتے ہوئے تم آنکھوں کے ساتھ عجز و انکسار کی تصویر بنے۔ اپنے رب کے حکم ﴿ وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝﴾ ’’اور وہ سحری کے وقت بخشش مانگا کرتے تھے‘‘ (الذاریات 18:51) کی تعمیل کرتے ہوئے یوں دعا کر رہے ہیں: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ دِقَّهُ ، وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَ عَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ))

’’اے اللہ ! میرے چھوٹے بڑے، اول آخر، علانیہ اور پوشیدہ سب گناہ بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حديث: 483)

آپﷺ اپنے رب سے اس دعا کے ذریعے سے مانگتے ہیں جس میں ہر چھوٹے بڑے گناہ غلطی اور نافرمانی سے معافی مانگی گئی ہے۔

آپ ﷺ نماز کے آخر میں یوں دعا کرتے:

((اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْلِي مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ))

’’اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی نہیں بخش سکتا، لہٰذا  اپنی خاص مہربانی سے مجھے بخش دے۔ بلا شبہ تو ہی بے حد بخشنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث:7388)

بہت سے علماء نے نبی اکرم ﷺکی اس دعا: ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا))  پر غور وفکر کیا ہے کہ وہ کون سا بڑا ظلم ہے جو رسول اکرم ﷺنے کیا ہے اور اس دعا میں اس کی معافی اور درگزر کی درخواست کر رہے ہیں ؟!

 بعض علماء نے کہا ہے: انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی طرف رجوع میں جس قدر بھی بلند مرتبے پر پہنچ جائے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضل و احسان کے حساب سے کوتاہ کا ر ہی رہتا ہے، لہٰذا  اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس تقصیر اور کوتاہی کا اظہار کرے کیونکہ کوئی شخص بھی کما حقہ رب العالمین کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔

بعض دوسرے علماء کا موقف ہے کہ آپ ﷺنے یہ دعا امت کی تعلیم و تربیت کے لیے کی ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کے حضور توبہ واستغفار اور اس کی طرف رجوع میں آپ ﷺکو نمونہ اور اسوہ بنا سکیں۔

بعض نے کہا کہ آپﷺ عبودیت کی منزلیں اور ربانی درجات کے مراتب طے کرتے تھے۔ جب آپ ایک سیڑھی چڑھتے تو پہلی ہی سے استغفار کرتے حتی کہ انھوں نے ارشاد ربانى: ﴿وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُوْلٰى﴾ (الضحی 4:92) کا ترجمہ کیا ہے کہ آپ کا دوسرا عمل پہلے سے بہتر ہے۔ آپ کا آج گزشتہ کل سے اور آئندہ کل آج سے بہتر ہے۔

بہر حال یہی کافی ہے کہ آپ نے ایسے کلمات ادا کیے ہیں جو خشیت، انابت اور للہیت سے لبریز ہیں اور آپ کے خشوع و انابت سے معمور دل سے ادا ہوئے ہیں جن کا مقصد امت کو تعلیم دیتا ہے۔

اور آپ ﷺجب نماز سے سلام پھیرتے تو تین دفعہ استغفار کرتے۔ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حدیث: 891)

جب نیک عمل کے بعد توبہ و استغفار مستحب ہے تو دیگر اعمال کے بعد اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہو گی؟

نبیﷺ حج کرتے ہیں اور بڑی مشقت اور محنت سے مناسک حج ادا کرتے ہیں اور آپ کا رب آپ کو اور آپ کی امت کو حکم دیتا ہے: ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝﴾

’’پھر جہاں سے سب لوگ لوٹیں، وہیں سے تم بھی لوٹو اور اللہ سے بخشش مانگو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا  ہے۔‘‘ (البقرة 199:2)

آپ ﷺ صبح و شام، نیند سے پہلے اور بستر پر کروٹ بدلتے وقت استغفار کرتے۔ بیت الخلاء سے نکلتے ، وضو کرتے، نماز پڑھتے اور سواری پر سوار ہوتے تو بھی استغفار کرتے۔

نبیﷺ کا استغفار زمان و مکان کی قید سے آزاد تھا۔ اللہ کے برگزیدہ رسول اور امامِ ہدایت ہونے کے باوجود ایک ہی فکر آپ کو لاحق رہتی کہ اللہ تعالی عفو و درگزر کا معاملہ فرما دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کے پیروکاروں کو اس سے کہیں زیادہ توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ تعالیٰ کی ضرورت ہے، کیونکہ نہ وہ گناہوں سے پاک ہیں اور نہ خطاؤں اور لغزشوں سے بری اور محفوظ۔

نبیﷺ نے جس روز اپنے صحابہ کے ساتھ تبوک کا سفر کیا ، اس روز آپ کو جس مشقت ، تھکاوٹ ، تکلیف اور سخت بھوک پیاس سے دو چار ہونا پڑا، اسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ آپ کو طویل سفر سخت گرمی ، زاد راہ کی کمی اور سواریوں کی قلت کا سامنا رہا اور جب یہ تھکاوٹ، مشقت اور تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالی نے آپ پر وحی نازل فرمائی:

﴿لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ ؕ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ۝﴾

’’ یقینًا اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنھوں نے تنگی کی گھڑی میں آپ کی پیروی کی، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل بہک جانے کو تھے، پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بے شک وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (التوبة 117:9)

اللہ تعالی نے رَضِيَ يا أَثَابَ يا أَعْطٰی کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ تاب کا لفظ استعمال کیا، یعنی اسی کا فضل و احسان ہے۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ تم جتنی مرضی محنت و کوشش کرو، مال خرچ کرو، جہاد کرو اور مشقت اٹھاؤ، پھر بھی تمھارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کا فضل ہے۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تو یہ سب اعمال سے اعلی و ارفع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر احسان جتلایا ہے کہ اس نے ان کی توبہ قبول کی اور یہ سب سے بڑا انعام و اکرام ہے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللهﷺ وفات سے پہلے کثرت سے یہ پڑھتے تھے: ((سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ)) ’’تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ۔ میں تجھ سے استغفار کرتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کیا نئے کلمات ہیں جو پہلے آپ نہیں کہتے تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے میری امت میں ایک علامت مقرر کی گئی ہے کہ جب میں اسے دیکھ لوں تو یہ (کلمے) کہوں :﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۝۱﴾ سورت کے آخر تک۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 484)

گویا کہ یہاں اس سورت کے ایک دوسرے معنی مراد ہیں :

ہاں، اللہ تعالی نے   آپ ﷺ کی مدد کی لیکن آپ استغفار اور توبہ کریں۔ ہاں، اللہ تعالی نے آپ کو فتح عطا کی لیکن آپ استغفار اور توبہ کریں۔ ہاں اللہ تعالی نے آپ کے ہاتھوں امتوں کو ہدایت دی، ارواح و نفوس کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالا اور ضائع ہونے سے بچایا لیکن آپ تو بہ و استغفار کریں۔ ہاں اللہ تعالی نے آپ سے جو وعدہ کیا وہ پورا کیا، آپ کے مخالفوں اور حریفوں کو شکست دی اور آپ کے دشمنوں کی کمر توڑ دی لیکن آپ پھر بھی توبہ و استغفار کریں۔

نبی ﷺ کا شعار اور پہچان یہ تھی کہ ہر وقت استغفار اور عزیز و غفار اور یکتا پروردگار کے حضور عجز و انکسار کرتے۔ آپ کی زندگی دعوت و رسالت، قربانی، جہاد تعلیم و تربیت اور عطا و قیادت کے لیے وقف تھی۔ آپ ﷺبذات خود غزوات میں شریک ہوتے۔ زندگی کی مشکلات سختیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرتے۔ اور یہ سب کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی آپ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کا اختتام تو بہ سے کریں چنانچہ فرمایا:

﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۝ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ۝فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠۝﴾

’’(اے نبی !) جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔ اور آپ لوگوں کو دیکھیں کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے بخشش مانگیے۔ بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت زیادہ تو بہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (النصر 1:110۔3)

گویا یہاں کہا جا رہا ہے:

یہ درست ہے کہ آپ نے دیا اور خرچ کیا، پھر بھی ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠۝۳﴾

 یہ درست ہے کہ آپ نے قربانی دی، کوشش کی، راتوں کو جاگے اور مشقت برداشت کی پھر بھی﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠۝۳﴾

یہ درست ہے کہ آپ کو روحانی و جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ آپ کا سر اور چہرہ زخمی کیا گیا۔ آپ کی رسالت اور عزت پر طعن کیا گیا۔ آپ کے اہل و عیال اور صحابہ کرام جنا نام پر الزامات لگائے گئے لیکن اللہ تعالی نے آپ پر احسانات کیے، آپ کی مدد کی اور شان بلند کی، لہٰذا﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠۝۳﴾

اللہ اللہ یہ ساری زندگی جو آپ ﷺ نے خیر خواہ معلم ، مُرشد اور جود وسخا کا سرچشمہ بن کر گزاری، اس کے اختتام پر بھی آپ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ استغفار اور توبہ کریں تو ہم کیا کہیں گے؟!

یہ روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے سبق ہے، خواہ وہ خود کو کتنا ہی عبادت گزار، مطیع و فرمانبردار، صدقہ و خیرات کرنے والا اور نیکی کے کام کرنے والا سمجھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور توبہ و استغفار کرے کیونکہ اسے توفیق دینے والا، عطا کرنے والا، رزق دینے والا، اس کی مدد و نصرت کرنے والا اور اس پر فضل و احسان کرنے والا، نیز صاحب جمال و معرفت اللہ جل شانہ ہی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وَلَمَّا قَسَا قَلْبِي وَضَاقَتْ مَذَاهِبي

جَعَلْتُ الرَّجَا مِنِّي لِعَفُوكَ سُلَّمَا

تَعَاظَمَنِي ذَنْبِي فَلَمَّا قَرَنْتُهُ

بِعَفْوكَ رَبِّي كَانَ عَفْوُكَ أَعْظَمَا

’’جب میرا دل سخت ہو گیا اور میرے تمام راستے تنگ ہو گئے تو میں نے تیرے عفو و کرم سے وابستہ اپنی امید کو سیڑھی بنا لیا۔ میرے لیے گناہوں نے دشواریاں پیدا کر دیں، پھر اے میرے رب ! جب میں نے ان کا تیرے عفو و کرم سے موازنہ کیا تو تیرا عفو و کرم انتہائی عظیم ثابت ہوا۔‘‘

میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں ! آپ نے موت کی بے ہوشی میں بھی استغفار کرنا نہیں چھوڑا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ وفات سے پہلے میں نے رسول اکرم ﷺسے سنا جبکہ آپ کا سر مبارک میرے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ))

’’اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق سے ملا دے‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث : 4440)

نبی اکرمﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ اللہ تعالی درگزر فرماتا ہے۔ معاف کرتا ہے۔ بڑھتا ہے۔ فضل و احسان کرتا ہے۔ رحم کرتا ہے۔ ہر امید رکھنے والے کو جواب دیتا ہے۔ ہر پکارنے والے کی پکار سکتا ہے۔ تو بہ کرنے والوں کی تو یہ قبول کرتا ہے اور استغفار کرنے والوں کو معافی عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی مغفرت تلاش کریں، کیونکہ توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے، پھر جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا اور سب لوگ اسے دیکھ لیں گے تو ایمان لے آئیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا جب : ﴿لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرً﴾ ’’کسی ایسے شخص کا ایمان لانا اسے فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا، یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا۔‘‘ (الأنعام 158:6، وصحیح البخاري، الرقاق، حديث: 6506)

آپ ﷺ نے ہماری راہنمائی فرمائی کہ رب ارض و سما کی رحمت سے تو بہ، امید و رجاء کی کرن ہے۔ استغفار ڈرنے والوں کا وطن، دکھیاروں کی تسلی ، غم زدوں کی خوشی، پریشان حالوں کی راحت اور گناہ گاروں کی امان ہے۔ اس کے ساتھ ہم گناہوں سے زخمی دل کا علاج کرتے ہیں اور لغزشوں سے روح پر پڑنے والے داغ دھوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم اللہ تعالی کی بادشاہی میں بلندی پاتے ہیں، توحید کی فضا میں رفعت حاصل کرتے ہیں اور اس کی رحمت بخشش تو بہ اور رضوان الہٰی کے افق میں تیرتے ہیں۔

آپ ﷺنے ہمیں بتایا کہ گناہ تو جیسے انسان کا لازمہ ہے اور کسی انسان کو خطا و نقص سے مفر نہیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُّذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ))

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمھیں (اس دنیا سے) لے جائے اور ایک ایسی قوم لے آئے جو گناہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگیں تو وہ انھیں بخش دے۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حديث: 2749)

یہ حدیث آپ کے سامنے اللہ عز وجل کی رحمت، اس کے فضل و کرم اور اس کی وسیع مغفرت کے متعلق امید کا دروازہ کھولتی ہے۔

نبی ﷺ نے ہمیں بتایا کہ انسان خطا کا پتلا ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ))

’’تمام اولاد آدم خطا کار ہے اور خطا کاروں میں بہترین وہ ہیں جو بہت زیادہ تو بہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة حديث: 2499)

چانچہ تو بہ نجات کی سواری اور اللہ تعالی کی خوشنودی تک پہنچانے والی سیڑھی ہے، ایسا تاج ہے جو آپ کو ہلاکتوں سے بچاتا اور خطرات سے محفوظ رکھتا ہے۔

  آپ ﷺ نے ہماری راہنمائی فرمائی کہ استغفار سے غم ، خوشیوں میں بدل جاتے ہیں اور پریشانیوں کی جگہ فرحت و سرور لے لیتا ہے۔ خطا سے توبہ کی توفیق ملتی ہے اور کمزوری سے قوت اور فقر سے مالداری نصیب ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں خوشخبری دی ہے کہ استغفار سے دلی سکون ملتا ہے۔ نیک اولادہ پاکیزہ زندگی اور وافر رزق نصیب ہوتا ہے۔ استغفار سے حالات کی اصلاح ہوتی ہے۔ شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ دل کے تالے کھلتے ہیں۔ اور رب ذوالجلال کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ۝ یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ۝ وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ۝﴾

’’چنانچہ میں نے کہا: تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا۔ اور تمھیں مالوں اور بیٹوں کے ساتھ بڑھا دے گا۔ اور تمھارے لیے باغات بنائے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘ (نوح 10:71۔12)

آپ ﷺنے بتایا کہ استغفار زندگی کی ضمانت اور سلامتی کی سواری ہے۔ اس کے ساتھ ہم نافرمانیوں کے اندھیروں اور گناہوں کے گرداب سے نکلتے ، اضطراب کی تلاطم خیز موجوں، سرکشی کے طوفانوں اور حادثات اور بحرانوں سے نجات پاتے ہیں۔ استغفار ہی سے ہم خطاؤں اور لغزشوں سے پاک صاف ہوتے ہیں۔ رب العالمین کی مدد و نصرت ، حفاظت، نگہبانی اور ولایت حاصل کرتے ہیں جس کا نام پاک ہے اور جس نے اپنے نبی پر یہ خوشخبری نازل فرمائی:﴿ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳﴾

’’اور (اے نبی! اللہ ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے جبکہ آپ بھی ان کے درمیان (موجود) ہوں۔ اور اللہ انھیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‘‘ (الأنفال 33:8)

استغفار سے ہم اپنے گناہ مٹا سکتے ہیں، اپنی نیکیاں بڑھا سکتے ہیں اور اپنے درجات بلند کر سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿  وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ ﴾

’’اور تم کہنا: اے اللہ ! ہمیں بخش دے، تو ہم تمھاری خطائیں معاف کر دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔‘‘ (البقرة 58:2)

نبیﷺ نے ہمیں خبر دی کہ فرائض اور نوافل وغیرہ اطاعت کے کام، تو بہ کے دروازے اور انابت (اللہ تعالی کے قریب ہونے) کے راستے ہیں۔ آپ ﷺ نے بذریعہ وحی خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ۝﴾

’’بے شک اللہ بہت تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور خوب پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرة222:2)

آپ نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ جب بھی ہم سے بھول چوک ہو جائے، غلطی یا گناہ کر بیٹھیں، غفلت کا شکار ہو جائیں یا غصے میں آجائیں، ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کو ضرور بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا پائیں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوْبِهِمْ ۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ۝ اُولٰٓىِٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ۝﴾

’’اور وہ لوگ جب کوئی برا کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنے آپ پر ظلم کر گزرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہ بخشتا ہے؟ اور وہ اپنے کیے پر جانتے ہوئے اصرار نہیں کرتے۔ وہی لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے عظیم بخشش اور ایسے باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان (باغوں) میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے لیے (اللہ تعالی کے ہاں ) اچھا اجر ہے۔‘‘ (آل عمران 135:3،136)

نبی ﷺ نے ہمیں تو بہ کے عظیم الفاظ بھی بتائے ہیں اور استغفار کی سب سے اعلیٰ دعا کی خبر بھی دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’سید الاستغفار (مغفرت مانگنے کے سب کلمات کا سردار ) یہ ہے کہ تو یوں کہے:

((اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلٰى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَّوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُّمْسِي، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُّصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ))

’’اے اللہ ! تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ ان بُری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں، تیری پناہ مانگتا ہوں۔ مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اور میں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو دن کے وقت یقین کے ساتھ یہ پڑھے اور شام سے پہلے پہلے فوت ہو جائے ، وہ جنتی ہے اور جس نے رات کے وقت یقین کے ساتھ یہ پڑھا اور وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے فوت ہو گیا، وہ بھی جنتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6306)

آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ گناہوں کا اعتراف عزت دار لوگوں کا شیوہ ہے۔ تو یہ سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور اس کی برکت تو بہ کرنے والوں کو گھیر لیتی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، تَابَ اللهُ عَلَيْهِ))

’’جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے تو بہ کر لی ، اللہ تعالی ضرور اس کی تو یہ قبول فرمائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2703)

مبارک ہو ا سے جس نے پردہ گرنے سے پہلے تو بہ اور رجوع کر لیا۔ آپ دروازے پر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم نے گناہ کیا،  شہروں کا چکر لگائیں اور کہیں کہ ہم نے توبہ کی اور اپنے ہاتھ اٹھا ئیں اور کہیں کہ ہم نے رجوع کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿أَفَلَا يَتُوْبُوْنَ إِلَى اللهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهُ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ))

’’ پھر کیا وہ اللہ کے سامنے تو بہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے ؟ اور اللہ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (المائدة 74:8)

پاک ہے وہ رب جو خطا کرنے والوں کے گناہ بخشتا ہے اور سستی و تاخیر کرنے والوں کی تو بہ قبول کرتا ہے!

ہمیں چاہیے کہ اپنے نبیﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی کریں۔ فراغت کے اوقات میں اپنے رب سے استغفار کریں۔ دعا کریں کہ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرے۔ ہماری خطائیں معاف کرے۔ ہماری برائیاں مٹا دے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ ہم رب ارض و سما سے بخشش مانگتے ہیں تاکہ وہ ہماری مشکلات دور کر دے۔ ہمارے بحران ختم کر دے اور ہماری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے نبیﷺ پر درود و سلام کے بدلے جنت کے بالا خانے عطا فرما۔ ہمارے درجات بلند فرما۔ ہماری نیکیوں میں اضافہ فرما اور برائیاں مٹا دے۔

……………….