محمدﷺ بحیثیت باپ

رسول اللہ ﷺاہل ایمان کے والد اور مسلمانوں کے باپ ہیں جیسا کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی قراءت ہے:

(النَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَهُوَ أَبٌ لَّهُمْ)

’’نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور وہ ان کے باپ ہیں۔‘‘

 اور ایک روایت میں آپ ﷺ کافرمان ہے: ((إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ))

’’میں تمھارے لیے والدہ کے قائم مقام ہوں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة ، حديث: 8)

نبیﷺ امت کے ربّانی والد اور روحانی باپ اور ہر زمانے والوں کے لیے امام و اسوہ ہیں۔ آپﷺ ہر صاحب شرف و فضل اور عقل مند کے لیے اسوہ ہیں۔ قیامت تک ہر جود وسخا اور عزت کا سرچشمہ آپ ہی ہیں۔

آپﷺ کے باپ ہونے کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

((مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللهِ﴾

’’محمد (ﷺ) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، اور لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

(الأحزاب 40:33)

اس سے مقصود نسبی باپ ہے۔   آپ ﷺ نے شادی کی اور اولاد دبھی ہوئی اور آپ اپنے معزز خاندان کے باپ بن کر زندہ رہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً ؕ﴾

’’ اور بے شک  یقینًا ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔‘‘ (الرعد 38:13)

 اللہ تعالی نے آپ کو بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا اور سوائے سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے سب آپ کی زندگی میں فوت ہو گئے۔ زمانہ جاہلیت کے اعتقادات اور بیٹیوں کے حوالے سے بت پرستوں کے نظریات کے باوجود آپ دنیا کے سب سے عزت والے، رحیم و شفیق والد تھے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے اور ان کی پیدائش پر صف ماتم بچھ جاتی جبکہ لڑکوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ۝۵۸ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰی هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۵﴾

’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غم و غصہ سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ اس عار کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے جس کی اسے خوشخبری دی گئی ہے۔ سوچتا ہے کیا اپنی توہین کے باوجود اسے باقی رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے؟ آگاہ رہوا بہت برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ (النحل 16: 58،59)

آپ ﷺ نے سب سے پہلے بیٹیوں کو عزت دی۔ ان کی ولادت پر خوش ہوئے اور ان سے پیار محبت اور لطف و کرم سے پیش آئے۔ آپ اپنی بیٹیوں کے نہایت شفیق باپ تھے۔ اپنے خاندان کے نہایت نرم دل، محبت کرنے والے اور لطف و کرم کرنے والے والد تھے۔

آپ کے رحم دل باپ ہونے اور اچھی تربیت کرنے کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچوں اور بچیوں کے نہایت خوبصورت نام رکھے، حالانکہ معاشرے میں عجیب و غریب ناموں کا رواج تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے بچوں کے نام قاسم، عبداللہ، ابراہیم، زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رکھے۔ اور جب سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہاکے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی تو آپ نے اس کا نام حسن رکھا اور دوسرے کا نام حسین اور تیسرے کا نام محسن رکھا۔ آپ نے ہمیشہ احسن اور نہایت خوبصورت ہی کا انتخاب کیا۔

شادی اللہ کی مخلوق میں اس کی عظیم حکمت اور نشانی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝﴾

 ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے  یقینًا عظیم نشانیاں ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں۔‘‘ (الروم 21:30)

آپ ﷺ نے سب سے پہلے اس حکم کی تعمیل کی کہ اپنی بیٹیوں کی شادی کا اہتمام کیا۔ ان کے حق مہر نہایت مناسب اور آسانی سے ادا ہونے والے رکھے اور ان کے لیے ان کے معیار کے رشتے پسند کیے۔

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ سے کی جو ان کی خالہ ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ وہ مکہ کے چند نہایت عقلمند اور امانت دار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

((حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفٰى لِي))

’’اس نے مجھ سے بات کی تو سچ بولا اور مجھ سے وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3110)

ابو العاص نے غزوہ ٔبدر کے بعد نبی اکرم ﷺ  سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مکہ واپس جا کر آپ کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو آپ کے پاس مدینہ بھیج دے گا تو انھوں نے اپنے وعدے کے مطابق ایسے ہی کیا۔ ان کے سچے دل سے قبول اسلام کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ جب وہ سفر شام سے واپس آئے تو انھوں نے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے امان کی درخواست کی۔ انھوں نے نبیٔ اکرم ا کی موجودگی میں انھیں امان دے دی اور آپ نے ان کی سفارش قبول فرمائی۔ آپ ﷺ نے ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے نکاح ہی کی بنیاد پر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔  آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کی خوشی اور دلداری کو ملحوظ رکھا۔

جہاں تک سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے ان کے لیے امیر المومنین، خلیفہ راشد سخی و با حیا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب کیا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو اپنی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح سید نا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ذوالنورین اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کی دو بیٹیوں سے شادی کی۔ انسانی تاریخ میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ دوسرا کوئی فرد ایسا نہیں جس نے یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیوں سے شادی کی ہو۔

جہاں تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا تعلق ہے تو رسول اللہﷺ نے ان کی شادی امیر المؤمنین سید نا ابوالحسن علی بن رضی اللہ تعالی عنہ ابی طالب  سے کی۔ وہ نو جوانوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ نبی اکرم ﷺکے ہاں انھیں وہی مرتبہ حاصل تھا جو سیدنا ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام کے ہاں تھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کی سب سے پیاری بیٹی تھیں۔ آپﷺکی وفات کے بعد یہ اکیلی ہی زندہ تھیں۔

آپ کو اس عظیم باپ اور کریم نبیﷺ پر حیرت و تعجب کا حق حاصل ہے جنھوں نے اپنا بہت زیادہ مصروفیات، دعوتی مشاغل اور تبلیغ رسالت کی ذمہ داریوں کے باوجود اپنی بیٹیوں کا خیال رکھا۔ ان کی شادیوں کے بعد بھی ان سے ملنے جاتے، خاص طور پر سیدہ فاطمہ سے ملنے کا ضرور اہتمام کرتے۔ اگر وہ آپﷺ کی زیارت کے لیے نہ آتیں تو آپ چلے جاتے۔ یہ آنا جانا محض رسمی نہ تھا بلکہ نہایت محبت، چاہت اور عزت کی زیارت ہوتی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب آتیں تو رسول اکرم ﷺان کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ نبی اکرم ﷺ جب ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ کی پیشانی پر بوسہ دیتیں، اپنی جگہ بٹھاتیں اور باپ بیٹی دونوں پوری توجہ سے ایک دوسرے سے باتیں کرتے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو چال چلن، عادات و خصائل اور اٹھنے بیٹھنے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت رسولﷺ سے زیادہ مشابہ ہو۔ وہ جب رسول اللہﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ اٹھ کر ان کی طرف بڑھتے، انھیں بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھتیں، آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھا تیں۔ (جامع الترمذي، أبواب المناقب، حديث : 3872)

ہم میں سے کون اپنی اولاد کے ساتھ اس طرح کرتا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت ہماری مصروفیات اور کام کہیں تھوڑے ہیں ؟!

کون سا لیڈر، قائدیا رئیس یہ جرأت کر سکتا ہے کہ لوگوں کو جمع کرے اور منبر پر کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کے بارے میں کہے: ((فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِّنِّي، يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا))

’’فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہل تو میرا جگر گوشہ ہے۔ جو چیز اسے پریشان کرتی ہے، وہ مجھے بھی کرتی ہے اور جو اس کے لیے تکلیف دہ ہے، وہ میرے لیے بھی باعث اذیت ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث (5230)

یہ کریم نبی اور عظیم باپ ﷺ کی طرف سے اپنی بیٹی کے لیے انتہائی شفقت و رحمت اور محبت کا اظہار ہے۔ نبی اکرم ﷺبیٹیوں کے بارے میں انتہائی احترام، تو قیر، محبت اور رحمت کے جذبات رکھتے تھے۔ ان کی خوشی پر خوش ہوتے اور ان کے غم پر غم زدہ ہو جاتے۔ کبھی کبھی انھیں زیادہ شفقت اور محبت کا احساس دلانے کے لیے اپنا راز دان بناتے۔ آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکو راز کی بات بتائی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا چلتی ہوئی تشریف لائیں گویا ان کی چال نبیﷺکی چال جیسی تھی۔ نبی ﷺ  نے انھیں دیکھ کر فرمایا: ’’میری بیٹی کا آنا مبارک ہو۔‘‘ پھر آپ نے انھیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا۔ اس کے بعد ان سے آہستہ آہستہ گفتگو فرمائی تو وہ رو پڑیں۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کیوں روتی ہو؟ پھر آپ ﷺ نے ان سے کوئی راز کی بات کی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے کہا: میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا جس میں خوشی غم کے زیادہ قریب ہو، چنانچہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ ﷺ کی گفتگو کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ  کا راز افشا نہیں کر سکتی۔ جب نبی ﷺ  وفات پا گئے تو میں نے ان سے پوچھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہانے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے پوشیدہ گفتگو یہ کی تھی : ’’حضرت جبریل  علیہ السلام سال میرے ساتھ ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کرتے تھے، البتہ اس سال دو مرتبہ دور کیا ہے۔ میرے خیال کے مطابق میری موت قریب آچکی ہے۔ اور  یقینًا تم میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے میرے ساتھ ملاقات کرو گی۔ تو میں رونے لگی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا:

’’کیا تمھیں پسند نہیں کہ تم جنت کی عورتوں یا اہل ایمان عورتوں کی سردار ہو؟ ‘‘ اس وجہ سے میں نہیں پڑی۔ (صحيح البخاري، المناقب، حدیث (3623، 3624)

ایک ہی مجلس میں آپ اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ میری بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اپنے قریب بٹھاتے ہیں۔ راز کی باتیں بتاتے ہیں اور خوشخبری دیتے ہیں۔

آپ ﷺ مال کے سلسلے میں بھی بیٹیوں سے بھل نہیں کرتے تھے بلکہ حسب توفیق ان سے تعاون کرتے۔ علماء نے آپ ﷺ کے درج ذیل فرمان سے اس کا استدلال کیا ہے:

((وَيَا فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍﷺ: سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَّا لِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا))

’’اے فاطمہ بنت محمدﷺ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے، تم اس کا سوال مجھ سے کر سکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے میں تمھارا دفاع نہیں کر سکوں گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الوصايا، حديث: 2753)

آپ ﷺ کے فرمان : ’’جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے، تم اس کا سوال مجھ سے کر سکتی ہو‘‘ میں بیٹیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے لطف و کرم کی بہت بڑی دلیل ہے۔

آپﷺ مشکل ترین حالات میں بھی اپنی بیٹیوں کی زیارت کرنا نہیں بھولے اور ان کے حالات دریافت کرنے، ان کا خیال رکھنے اور ان سے محبت و شفقت کا اظہار کرنے کو نظر انداز نہیں کیا، چنانچہ جب آپ کفار قریش سے جنگ بدر کرنے کے لیے گئے تو اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کے شوہر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس چھوڑا اور انھیں غنیمت سے پورا حصہ دیا اور اللہ کی طرف سے ان کے لیے اجر کی بھی خوشخبری دی۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ سے تھکاوٹ اور چکی پیسنے سے ہاتھوں میں چھالے پڑنے کی شکایت کی اور خادم طلب کرنے کے لیے آپ کے گھر گئیں۔ آپ گھر پر نہ ملے تو انھوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے آنے کا سبب بتایا۔

جب نبی گھر آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکی آمد کی خبر دی۔ شفیق و رحیم والد اور کریم نبی ﷺ اسی وقت بلا تاخیر اپنی بیٹی کے گھر گئے۔ ان سے حالات معلوم کیے اور اطمینان دلایا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے شوہر سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہا اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنی جگہ پر رہو۔‘‘

چنانچہ آپ ﷺمیرے اور سیدہ فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے۔ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تمھاری طلب کی ہوئی چیز سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ یہ تمھارے لیے غلام یا لونڈی سے بہتر ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، النفقات، حديث: 5361)

آپ ﷺ کے پاس کوئی خادم نہ تھا تو آپ نے انھیں اس سے بڑی چیز عطا فرمائی اور وہ مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا۔ آپ ﷺنے ایک ساتھ شفقت و رحمت کا اظہار کیا۔ نیک کام کی راہنمائی کی اور اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اپنے باپ سے محبت اور شفقت کی مثال یہ ہے کہ جب غزوۂ احد میں رسول اکرم ﷺ زحمی ہوئے تو وہ خون دھوتی تھیں اور سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ زخم پر پانی بہاتے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون اور زیادہ نکل رہا ہے تو انھوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلا کر اس کی راکھ سے زخم بھر دیا تو خون رک گیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4075)

رسول اکرمﷺ نے تو اپنے نواسوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بھی پیار کیا اور ان کے ساتھ شفقت اور لطف و کرم کا معاملہ کیا۔ اسی طرح اپنی نواسی سیدہ امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی حسن سلوک کیا۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما آگئے۔ دونوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں۔ وہ چل رہے تھے اور لڑکھڑا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے، دونوں کو اٹھایا اور انھیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔ (جامع الترمذي، أبواب المناقب، حديث: 3774)

آپ ﷺنے اپنے قول و فعل سے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ شفقت، حسن سلوک اور محبت کرنے کی دعوت دی اور ان کے ساتھ سختی اور بدسلوکی سے منع کیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللهﷺ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کا بوسہ لیا جبکہ آپ کے پاس سیدنا اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ تعالی عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سیدنا اقرع رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ رسول اللہﷺ نے ان کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ((مَنْ لَّا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ))

’’جو کسی پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حدیث: 5997)

ایک دن سید نا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی، اس پر نبیﷺ نے فرمایا: ((كِخْ كِخْ)) لِيَطْرَحَهَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ))

’’تھو، تھو۔‘‘ تا کہ وہ اسے پھینک دے، پھر فرمایا: ”تم جانتے نہیں ہو کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔“ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1491)

 آپ ﷺ نے اپنے نواسے کے ساتھ شفقت و محبت اور حسن سلوک کے ساتھ ساتھ شرعی حکم کی بھی پابندی کی اور اسے صدقہ کھانے سے منع کر دیا کیونکہ وہ اہل بیت کے لیے حلال نہ تھا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبیﷺ مندرجہ ذیل کلمات سے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو دم کرتے اور فرماتے تھے: ”تمھارے دادا سید نا ابراہیم علیہ السلام بھی انھی کلمات سے سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق علیہما السلام کو دم کرتے تھے: ((أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ، وَ مِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَّامَّةٍ))

’’ میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعے سے ہر شیطان، زہر یلے جانور اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث:3271)

آپ ﷺفرض نمازوں میں بھی رحمت و شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بعض نواسوں کو اپنے ساتھ رکھتے۔ سید نا شداد بن ہاد لیثی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پچھلے پہر کی ظہر یا عصر کی نماز کے لیے ہمارے پاس مسجد میں تشریف لائے جبکہ   آپ ﷺ نے سیدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو اٹھایا ہوا تھا۔آپ  ﷺ آگے بڑھے اور اسے بٹھا کر نماز کے لیے تکبیر کہی اور نماز پڑھنا شروع کر دی۔ درمیان میں آپ نے ایک طویل سجدہ کیا۔ جب میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا (کہ کیا وجہ ہے ) تو اچانک وہی بچہ رسول اللہ کیﷺ پیٹھ پر تھا، جبکہ آپ ﷺسجدے کی حالت میں تھے۔ میں اپنے سجدے میں لوٹ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے نماز پوری کر لی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ اتنا لمبا کیا کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ کوئی معاملہ پیش آگیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہی میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا اور میں نے نا پسند کیا کہ میں اسے جلدی اتار دوں، یہاں تک کہ وہ اپنا شوق پورا کرلے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 16033)

آپ ﷺنے بیٹیوں کو نظر انداز کر کے صرف بیٹوں سے محبت نہیں کی بلکہ آپ ﷺاپنی نو اسی سیدہ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی بے پناہ محبت اور پیار کرتے تھے۔ سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کی امامت کر رہے تھے اور ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی امامہ ، جو نبی اکرم ﷺکی صاحبزادی زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی بیٹی تھیں، آپ کے کندھے پر تھیں۔ جب آپ رکوع میں جاتے تو انھیں کندھے سے اتار دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو پھرسے انھیں اٹھا لیتے۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:543)

آپ ﷺ اپنے بیٹوں، بیٹیوں، نواسوں اور نواسیوں تمام بچوں سے محبت کرتے تھے بلکہ ہمسایوں وغیرہ کے بچوں سے بھی پیار کرتے تھے کیونکہ آپ سب کے باپ تھے۔ آپ جب سفر سے واپس مدینہ آتے تو بچے ہر بار آپ کا استقبال کرتے۔ آپ انھیں گود لیتے ، گلے لگاتے، بوسہ دیتے اور اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے زیادہ اپنے اہل و عیال سے پیار کرنے والا نہیں دیکھا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2316)

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پہلی (ظہر کی) نماز پڑھی، پھر آپ اپنے گھر والوں کی طرف تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ نکلا۔ آپ کے سامنے کچھ بچے آئے۔ آپ نے ایک ایک کر کے ان میں سے ہر کسی کے رخساروں پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخساروں پر بھی ہاتھ پھیرا۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ کے دست اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو کو اس طرح محسوس کیا، جیسے آپ نے ابھی عطار کے ڈبے سے ہاتھ باہر نکالا ہو۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2329)

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6355)

سید نا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور چبا کر اس کو گھٹی دی، نیز اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ (صحیح البخاري، العقيقة، حديث: 5467)

آپ ﷺنے اپنی بیٹیوں کی وفات کے بعد بھی ان سے لطف و کرم کا معاملہ جاری رکھا۔ آپ ﷺنے ان کے غسل اور کفن دفن کا اہتمام کیا۔ ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ان کی قبر پر کھڑے رہے اور ان کے لیے دعا کرتے رہے۔ سیدہ ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کافور شامل کر لو۔ جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘ چنانچہ ہم نے فارغ ہو کر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: ((أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ)) ’’اسے اس میں لپیٹ رو۔‘‘ (صحیح البخاري الجنائز، حدیث: 1254)

اِشعار کا مطلب ہے وہ کپڑا پہنانا جو انسان کے جسم کے ساتھ لگا ہو۔ اسے اشعار اس لیے کہتے ہیں کہ وہ جسم کے بالوں کے ساتھ مس کرتا ہے۔ آپ ﷺ کی جس بیٹی کا یہ واقعہ ہے، وہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہاتھیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ آپ ﷺ فوت شدہ اولاد کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا بھی کرتے۔ بدر سے واپس آکر سیدہ رقیہ ﷺ کی قبر پر دعا کی جو فوت ہو گئی تھیں۔ آپ ﷺبقیع الغرقد تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہوئے اور ان کے لیے رحمت و بخشش کی دعا کی۔

اس میں ان لوگوں کے لیے بھی سبق ہے جن کے بچے یا بچیاں ان کی زندگی میں فوت ہو جائیں، انھیں رسول اکرمﷺ کی آزمائش اور تکلیف کو یاد رکھنا چاہیے جن کی سوائے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساری اولا د زندگی ہی میں فوت ہوگئی۔

آپ ﷺ کی سنت ہے کہ آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کی وفات پر طبعی طور پرغم زدہ ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بھی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کی خبر کے بارے میں کہتے ہیں: ہم نبی ﷺکی صاحبزادی کے جنازے میں حاضر تھے، جبکہ رسول اللہﷺ قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (صحيح البخاري، الجنائز، حدیث: 1285)

یہ رحمت و شفقت کے آنسو تھے، اللہ کی تقدیر پر ناراضی کے آنسو ہرگز نہیں تھے۔

آپﷺ چھوٹے اور بڑے بچوں کی وفات پر روتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:

ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابوسیف لوہار رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے جو سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو لے کر بوسہ دیا اور اس کے اوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابوسیف کے ہاں گئے تو سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺکی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھی روتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن عوف ! یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ  نے روتے ہوئے فرمایا :

((إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضٰى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ))

’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم ! ہم تیری جدائی سے  یقینًا غمگین ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الجنائز، حديث (1303)

آپ ﷺ اپنے چھوٹے نواسوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت رکھتے تھے۔ آپ ان کی وفات پر غمگین بھی ہوئے۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی ﷺکے پاس تھے کہ اس دوران میں آپ کی ایک صاحبزادی کا قاصد حاضر خدمت ہوا کہ ان کا بیٹا نزع کی حالت میں ہے اور وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔ نبی ﷺ  نے فرمایا: ’’واپس جا کر اسے کہو اللہ ہی کا سب کچھ ہے جو چاہے لے لے اور جو چاہے دے دے اور اس کی بارگاہ میں ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اسے کہو کہ صبر کرے اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھے۔‘‘

صاحبزادی نے دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ آپ کو قسم دیتی ہے، آپ ضرور تشریف لائیں۔ جب نبی ﷺ  تاور آپ کے ہمراہ سیدنا سعد بن عبادہ اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہما بھی کھڑے ہوئے۔ پھر (جب صاحبزادی کے گھر پہنچے تو) بچہ آپ ﷺ کو دے دیا گیا۔ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا، گویا وہ پرانے مشکیزے میں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں تو سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: ((هٰذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ)) ی

’’یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالا ہے اور اللہ بھی اپنے ابھی بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم دل ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث (7377)

  آپ ﷺ بہت زیادہ مصروفیات اور کاموں کی وجہ سے بیٹی کے پاس نہ جا سکنے اور نواسے کے فوت ہو جانے پر نہایت نرمی سے معذرت کرتے ہوئے صبر کی تلقین کرتے ہیں مگر بیٹی اپنے مقام اور نبی اکرمﷺ کی رحمت و شفقت اور نرمی سے واقفیت کی بنا پر آپ پر قسم ڈالتی ہیں تو آپ فورا اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ انھیں حوصلہ دیتے ہیں۔ ان کی دلجوئی کرتے ہیں اور وہ منظر دیکھ کر اپنے نواسے پر رحمت و شفقت کی وجہ سے آپ کے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔

بلا شبہ اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اولاد کے متعلق جو جذبات اور محبت رکھی ہے، وہ انسان میں ایک فطری امر ہے۔ اس حوالے سے بشری کمال صرف رسول اکرم ﷺ  کو حاصل ہے۔ آپ کی اُبُوت نبوی اُبُوت اور الٰہی رحمت ہے جو صرف نسبی بیٹوں اور بیٹیوں تک محدود نہیں بلکہ امت کے ہر بیٹے اور بیٹی کے لیے ہے۔  یقینًا آپ کا حسن سلوک ، لطف و کرم اور شفقت و محبت ان سب کے لیے ہے۔ باپ ہونے کی حیثیت سے آپ کی جو سیرت منقول ہے، وہ انسانیت کے لیے قیامت تک فخر و شرف کا باعث ہے۔ امت کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ آپ کا حسن سلوک قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ کائنات کا ہر بچہ جو لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهکے ساتھ زبان کھولتا ہے یا نماز، روزے کا اہتمام کرتا ہے یا حج اور صدقہ کرتا ہے تو وہ اللہ کے فضل و احسان کے ساتھ ہے اور پھر اس کے بعد نبی ﷺ  کا احسان ہے۔ آپﷺ ہی نے والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک اور رحمت و شفقت کی تعلیم دی اور اچھی تربیت اور عمدہ نگرانی کا درس دیا۔ جس چشمے سے وہ محبت و شفقت کا فیض پاتے ہیں اور جس نور نے عدل اور حسن سلوک سے ان کی زندگیوں کو روشن کر دیا ہے، وہ آپ کی باقی رہنے والی ثابت شدہ وصیتیں اور صحیح احادیث ہیں جو قیامت قائم ہونے تک باقی رہیں گی۔

……………..