محمدﷺ بحیثیت قائد
نبی اکرمﷺ پوری تاریخ انسانی میں سب سے بڑے اور عظیم قائد ہیں کیونکہ آپ اللہ تعالی کی طرف سے معصوم نبی بن کر تشریف لائے۔ آپ ﷺ اپنی مرضی سے بولتے تھے نہ کبھی اور گمراہی آپ کے قریب پھٹکی۔ آپ ﷺ کی اطاعت کرنا شرعی فرض ہے اور یہ اللہ تعالی کی اطاعت کا حصہ ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ (النساء 59:4)
اور ایک مقام پر فرمایا: ﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ﴾
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، تو یقینًا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ ‘‘ (النساء 80:4)
بلا شبہ آپ ﷺ کی قیادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مؤید و معصوم نبی کی قیادت ہے جس کی حفاظت خود اللہ تعالی نے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ صرف قائد ہی نہیں قیادت ساز اور سپہ سالار بنانے والے بھی ہیں۔
آپ ﷺ نے ایک ایسی عرب قوم میں ریاست کے قواعد و ضوابط مقرر فرمائے جنھیں نہ تو ریاست و حکومت بنانے کا کوئی علم تھا نہ وہ فارس و روم اور یونان و چین کی طرح کسی تہذیب کے بانی تھے۔ اللہ تعالی نے آپﷺ کو ریاست کے قیام کے لیے ضروری ہر امر بتایا، جیسے عدل، شوری، مساوات، فوج کی تنظیم سازی، سفارت ، ٹریننگ، مقابلہ بازی، مبارزت، مذاکرات ، گھڑ سواری اور اس کے فنون ، غیمتوں کی تقسیم، شعبہ اطلاعات، پولیس اور سکیورٹی کی باری باری ڈیوٹی، علم برداری اور قیدیوں، شہداء اور انعامات وغیرہ کے احکام۔ آپﷺ نے تمام امور کے مکمل ضابطے بنائے۔ آپ ﷺ نے ریاست کے داخلی امور کو محکم کیا اور ہر شعبے کے قواعد وضوابط مقرر کیے۔ یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ آپ ایسے معاشرے میں تشریف لائے جس میں ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ اہل ایمان مشرک، منافقین، اہل کتاب، دیہاتی اور شہری ہر طبقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے، آپﷺ نے سب پر نہایت کامیابی سے حکومت کی تاکہ آپ کے بعد آنے والے ہر شخص کے لیے راہنمائی کا سامان ہو۔
آپﷺ مومنوں کے لیے بہترین نمونہ تھے۔ آپ جو کہتے ، وہ خود بھی کرتے۔ جب آپ ﷺ کوئی حکم دیتے یا کسی کام سے منع کرتے ، تو سب سے پہلے خود وہ کام کرتے یا اس سے رکھتے۔ آپ میدان جنگ میں اپنے صحابہ کے ساتھ سب سے بڑھ کر احکام کی پابندی کرتے۔ معرکہ بدر میں آپ سب سے اگلی صف میں تھے۔ آپﷺ صفوں کو ترتیب دے رہے تھے، مجاہدین کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور خود معرکے کی نگرانی کر رہے تھے۔
غزوہ احد اور حنین میں جب بہت تھوڑے صحابہ ثابت قدم رہے، آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی کا مظاہر ہ کیا اور معر کے والی جگہ سے نہیں ہٹے۔ حنین کے معرکے میں تو آپ ﷺنے میدان میں کھڑے ہو کر اعلان کیا: ’’میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
غزوہ احزاب میں جب آپ ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو اپنے صحابہ کے ساتھ خود بھی شامل ہوئے اور اپنے مبارک کندھوں پر مٹی اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرتے رہے۔
مسجد نبوی کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو صحابہ کے شانہ بشانہ خود آپ ﷺ نے کام کیا۔ اسی طرح ہر موقع پر آپ ﷺ نے قول و عمل کے ساتھ نمونہ پیش کیا۔ آپ جس کام کا حکم دیتے، پہلے وہ خود کرتے حتی کہ جنگ میں خود پہن کر اور اسلحہ اٹھا کر خود سب سے پہلے میدان میں اپنی جان اور اپنا پاکیزہ خون پیش کیا۔
نرمی اور شفقت نبیﷺ کا امتیازی وصف تھا۔ آپ قول، اخلاق اور عمل میں نہایت نرم تھے۔ آپ ﷺ سے مروی ہے:
((اللّٰهُمَّ! مَنْ وَّلِي مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أَمْتِيْ شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارْفُقَ بِهِ))
’’اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو بھی اس پر سختی کر دے اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر نرمی کی، تو بھی اس کے ساتھ نرمی والا معالمہ فرما‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حديث: 1828)
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی نرمی کی خود تعریف کی ہے، فرمایا:
﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪﴾
’’پھر (اے نبی!) آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہو گئے۔ اگر آپ بد خلق سخت دل ہوتے تو یقینًا وہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ (آل عمران 3: 159)
آپ ﷺ کوئی چیز لیتے تو نرمی سے اور دیتے تو بھی نرمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دل و جان سے آپ کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ ﷺ نرمی کو سختی پر ترجیح دیتے۔ سزا کی بجائے ڈرانا اور درگزر کرنا بند کرتے۔ آپ دنیا میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے مخالف کو دلائل کے ساتھ قائل کرنے کا درس دیا۔ تلوار کے زور پر منوانے کے قائل نہ تھے۔ آپ نے کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دی جب تک قبول کرنے کے سارے ذرائع اور ہدایات کے تمام دلائل و براہین اس کے سامنے نہیں رکھے۔ بادشاہوں کو جو دعوتی خطوط لکھے، ان میں بھی نہایت نرم اور مشفقانہ انداز اختیار کیا۔ آپ سفیر بھیجتے تو انھیں بھی نرمی، شفقت اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے بتایا کہ میرا مقصد اللہ تعالی کی دعوت اور رسالت کا پیغام عام کرنا اور لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ ملک چھیننا، حکومتوں کو توڑنا اور قوموں پر جبر و تسلط کے ساتھ غالب آنا ہرگز مطلوب نہیں۔
نرمی کے باوجود آپﷺ سب لوگوں سے زیادہ پختہ عزم رکھتے تھے۔ جب کوئی فیصلہ کر لیتے تو پھر نہ کوئی آپ کو روک سکتا نہ حالات آپ کا رخ موڑ سکتے۔ آپ اللہ تعالی کا حکم نافذ کر کے دم لیتے۔ غزوہ احد کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ رائے زیادہ موزوں تھی۔ بہت سے لوگوں نے میدان احد میں جانے پر اصرار کیا۔ پھر جب آپﷺ نے مدینہ سے نکلنے کا پختہ عزم کر لیا اور جنگی لباس پہن لیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! شاید ہم نے آپ کو مجبور کیا ہے؟ اس لیے اگر مدینہ کے اندر ہی رہ جائیں تو ٹھیک ہے یا اس سے ملتی جلتی بات کہی۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا اور فرمایا:
((مَا يَنْبَغِيْ لِنَبِيٍّ أَنْ يَّضَعَ أَدَاتَهُ بَعْدَ أَنْ لَبِسَهَا حَتّٰى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَدُوْهِ))
’’کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ وہ جنگی لباس پہننے کے بعد اسے اتارے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ کر دے۔‘‘ (المستدرك للحاكم، حديث: 2588)
چنانچہ آپ ﷺ ایک ایجنڈا تشکیل دیتے اور مشورہ کرتے۔ جب کوئی بات طے کر لیتے تو اسے بہر صورت انجام تک پہنچاتے۔ اسی طرح حدود کے نفاذ میں بھی دو ٹوک موقف اختیار کرتے۔ واجبات کا قیام اور حقوق کی ادائیگی پورے وثوق سے کرتے ، جیسا کہ آپ ﷺ سے مروی ہے:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقْطَعْتُ يَدَهَا))
’’ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث (4304)
آپ ﷺ مخالفین اور نافرمان گناہ گاروں کے خلاف مختلف طریقوں سے تادیبی کارروائی کرتے تھے۔ کسی کی پردہ پوشی کرتے۔ کسی کی دلجوئی کرتے۔ کسی سے ناراض ہو جاتے کسی کو سزا دیتے۔ کسی پر پابندی لگا دیتے۔ کسی پر مالی جرمانہ عائد کرتے۔ کسی پر حد کا نفاذ کرتے، یعنی کوڑے مارتے یاقتل کرتے کسی کو تو بہ کرنے کا حکم دیتے۔ کسی کو اس کے نفاق پر چھوڑ دیتے اور اعراض کرتے۔ اس طرح باقی امور نپٹاتے۔ آپ کی وحی کے نور اور نبوت کی روشنی سے ہر معاملے میں دوٹوک اور واضح حکم جاری فرماتے۔
آپ ﷺمسلمانوں سے ان کے مراتب کے مطابق برتاؤ کرتے۔ منافقوں سے ان کے طبقات کے مطابق سلوک کرتے۔ باغیوں، دشمنوں، خوارج، اہل کتاب اور مشرکین، سب کے لیے نہایت حکمت اور عدل کے ساتھ احکام جاری فرمائے۔
آپ ﷺ کی سیاست میں دنیا و آخرت، اپنی ذات اور عوام اور بدن اور روح کے حقوق کے مابین ایسا توازن تھا کہ اس میں افراط و تفریط اور کسی طرح کی زیادتی کا بالکل عمل دخل نہ تھا۔
آپﷺ نے اپنی ذات اور واجبات ہر ایک کی ادائیگی کے لیے وقت متعین کر رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے زندگی کی ہر منزل اور موڑ کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں لگائے رکھا۔ حالات و ظروف کے تقاضوں کے مطابق اپنی ریاست کی طاقت اور کمزوری کو ملحوظ رکھا۔ دعوت کے ابتدائی ایام میں آپ ﷺ نے جنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ اس سے روکا اور عفو و درگزر سے کام لے کر صبر کرنے کا حکم دیا۔ حدیبیہ میں صلح کو جنگ پر ترجیح دی اور یہ سب فیصلے اللہ واحد و قہار کی تدبیر کے ساتھ تھے۔
نبیٔ اکرم معصوم ہونے کے باوجود اپنے صحابہ سے جس قدر زیادہ مشورہ کرتے تھے، کوئی دوسرا اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا اصل مقصد دوسروں کو درس دینا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی حوصلہ افزائی تھا تا کہ وہ اس رائے میں شریک ہو جائیں اور کام کرنے میں انھیں آسانی اور شرح صدر حاصل ہو، جیسا کہ آپﷺ کے رب نے آپ کو حکم دیا: ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْر﴾ ’’اور ان سے اہم معاملات میں مشورہ کریں۔‘‘ (آل عمران 159:3)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَامْرُهُمْ شُوْرٰی بَيْنَهُمْ﴾
’’اور ان کا (ہر) کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘ (الشوری 38:42)
آپﷺ نے بدر میں پڑاؤ ڈالنے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مشورہ کیا۔ غزوہ احد کے لیے نکلنے میں صحابہ سے مشاورت کی۔ غزوہ خندق میں سیدنا سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے خندق کھودی اور دیگر کئی مواقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے مشورہ کیا۔ یہ قیادت کرنے کا وہ عظیم فن ہے جس پر اس شعبے کے ماہرین نے مستقل کتابیں تحریر کی ہیں۔
آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کو پرکھنے اور ان کی صلاحیتیں جانچنے میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ آپ ہر آدمی کو اس کے مناسب حال ذمہ داری دیتے۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے امارت کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا:
((ويَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيْفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌّ وَ نَدَامَةٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا))
’’اے ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ بہت بڑی امانت ہے اور روز قیامت رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ قبول کیا اور اس کے بارے میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی، اسے اچھی طرح ادا کیا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 1825)
آپ ﷺ نے طاقتور لوگوں کو لشکروں کا امیر بنایا۔ سید نا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر بنایا جبکہ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو نہیں بنایا۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کو بنایا جبکہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ کو نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب یمن کے اہل کتاب پر گورنر مقرر کرنے کی باری آئی تو اس امت کے عالم سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر بنایا۔ جب آپﷺ کے پاس مختلف علاقوں سے وفود آنا شروع ہوئے اور ان سے شعر و شاعری اور خطابت وغیرہ میں مقابلے کی نوبت آئی تو خطاب کے لیے آپ نے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالی عنہ کو منتخب فرمایا اور شاعری کے لیے اس فن کے قائد اور استاد سید نا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو آگے کیا۔ اسی طرح آپﷺ نے ہر موقع پر ہر کسی کو اس کی اہلیت کے مطابق ذمہ داری دی۔ نبیﷺ کا ایک صحابی بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جسے رسول اکرمﷺ نے کوئی ذمہ داری دی ہو اور وہ اس کا اہل نہ ہو بلکہ جو جس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھا، آپﷺ نے اسے وہی کام دیا۔ آپ کو ایسا نہیں ملے گا کہ آپ نے کسی مفتی کو امیر بنا دیا ہو یا مجاہد کی جگہ کسی قاری کو متعین کر دیا ہو یا کسی شاعر کو مفسر کی جگہ مقرر کر دیا ہو۔ آپﷺ نے نبوت کے نور سے صحابہ کو ذمہ داریاں سونپیں۔
آپ ﷺ اپنے پیروکاروں کی پوری معرفت رکھتے تھے اور ان کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ فقیہ سے الگ انداز میں بات کرتے۔ نافرمان کو الگ طریقے سے سمجھاتے۔ سردار سے اس کے مرتبے کے مطابق مخاطب ہوتے اور عوام سے الگ انداز سے خطاب فرماتے۔ بزرگوں سے ان کی بزرگی کے مطابق پیش آتے۔ بچوں سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے۔ عورتوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق درس دیتے۔ الفرض رسول اللہ ﷺہر گروہ سے اس کے مناسب حال سلوک کرتے۔
فضیلت دینے میں آپ ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ اسلام میں سبقت کرنے والوں، زیادہ قربانیاں دینے والوں اور جاں نثار کرنے والوں کو سر فہرست رکھتے۔ عشرہ مبشرہ کا ایک الگ مقام و مرتبہ تھا۔ اہل بدر کی الگ فضیلت اور سابقون الاولون کی الگ قدر ومنزلت تھی، پھر مہاجرین وانصار کا درجہ بدرجہ مقام تھا۔ ہر چیز ایک منفرد نظام کے تحت تھی اور ہر فضیلت، اعزاز اور عطیہ ایک حیران کن ترتیب میں عطا ہوتا تھا۔
آپﷺ کے ہاں دشمنوں کی بھی درجہ بندی تھی۔ عداوت کی کی پیشی کا معیار حق اور کتاب اللہ سے (دوری اور قرب) تھا، مثلاً: اہل کتاب ، مشرکوں کی نسبت آپ کے قریب تھے۔ پھر عیسائی، یہودیوں کی نسبت زیادہ قریب تھے حتی کہ اللہ تعالی نے آپ کو رومیوں کے غلبے کی خوشخبری سنائی کیونکہ وہ اہل کتاب تھے اور ان کے مد مقابل مجوسی بت پرست تھے۔
آپﷺ اعلان جنگ سے پہلے امن و سلامتی کے تمام آپشن استعمال کرتے، جیسے مذاکرات صلح کے لیے دستبرداری، سفارتی کوششیں، معاہدے اور جنگ و جدال ختم کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہم نے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی یہود سے مصالحت کی اور ایک باہمی معاہد ہ لکھا تا کہ ان کے شر اور چالبازیوں سے محفوظ رہیں اور مشرکوں سے مقابلے کے لیے فراغت ملے۔
آپ ﷺ کی قیادت کی عظمت اور عبقریت و کمال کی ایک علامت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے۔ جو جس میدان میں با صلاحیت ہوتا، اس میں اس کی تعریف فرماتے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے تاکہ اس کی کارکردگی میں مزید نکھار پیدا ہو۔ آپ نے ان کو ایسے القابات سے نوازا جو قیامت تک ان کی پہچان بن گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تعریف کی تو انھیں صدیق کا لقب دیا۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو امت کے امین کا لقب دیا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو غلام معلم (پڑھا لکھا نوجوان) کا لقب دیا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو حواری رسول کا لقب عطا کیا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو امت کے حلال و حرام جاننے والے سب سے بڑے عالم کا لقب دیا اور سید نا خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو سیف اللہ کا نقب عنایت کیا۔ اس طرح یہ القابات اور ایوارڈز ان اصحاب اطہار کے سینوں کے تمغے بن گئے جو ہر دم انھیں حوصلہ دیتے اور ان کی ہمت و طاقت میں اضافے کا باعث بنتے۔ آپ ﷺ سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ جب صحابہ کرام غزوۂ غابہ کے بعد واپس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَ خَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ))
’’ہمارے آج کے بہترین سوار ابو قتادہ اور بہترین پیارے سلمہ بن اکوع ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث : 1807)
آپ ﷺ نے سیدنا ابوالمندر ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا:
((لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ))
’’ابو المنذرا تمھیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حدیث: 810)
یقینًا آپ ﷺ کے ان حوصلہ افزا کلمات میں صحابہ کرام با نام اور قیامت تک آنے والی آپ کی امت کے لیے عجیب قوت اور طاقت ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيْمِ فِي الْجَنَّةِ هٰكَذَا، وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَابَةِ وَالْوُسْطَى))
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں ہوں گے، اور آپ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث 6005)
آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَايَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْ))
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اسے اتنا ہی اجر ملے گا جتنا وہ کام کرنے والے کو ملے گا، اور ان کے اجروں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حدیث:1017)
آپ ﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ بات بھی تھی کہ آپ اپنے دشمنوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش نے مکر ز بن حفص کو بھیجا تو رسول اکرم ﷺنے اسے دیکھتے ہی فرمایا: ’’یہ مکر ز ہے اور یہ برا آدمی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، حديث : 2732)
اور جب سہیل بن عمرو آیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’یقینًا تمھارا معاملہ آسان ہو گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري الشروط حديث: 2731، 2732)
غور کریں کہ رسول اکرمﷺ کس طرح باریک بین اور لوگوں کی خصلتیں بھانپ لینے والے تھے۔ آپ مختلف لوگوں کی شخصیات سے بخوبی واقف تھے حتی کہ دشمنوں کے افراد سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔
آپ ﷺ کی سب سے عظیم خوبی یہ تھی کہ آپ محبوب عوام قائد تھے۔ قیادت میں یہ صفت بہت نادر اور اہم ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی قیادت کی بنیاد تکبر اور قوت پر نہیں بلکہ محبت اور رحمت پر رکھی۔ آپ ﷺ اپنے پیروکاروں اور صحابہ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ آپ نے ان میں محبت کا بیج بویا اور وہ آپ کی اطاعت پر مر مٹے اور آپ کے احکام کی تعمیل میں اپنی متاع عزیز تیک خرچ کر دی۔ محبت کے ساتھ آپ ﷺ نے ان سے ایک ایسی عظیم نسل اور عزت والا معاشرہ تیار کیا جسے آج بھی انسانیت سراہتی ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب رسول اللہ ﷺمنبر پر کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے کانوں میں آواز پڑی تووہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہﷺ نے انھیں دیکھا تو فرمایا: ((تَعَالَ يَا عَبْدَ اللهِ بن مَسْعُودٍ))
’’عبد اللہ بن مسعود آگے آجاؤ۔)) (سنن أبي داود، الصلاة، حديث (1091)
یہ کمال محبت سے تعمیل حکم کی اعلی مثال ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شور بہ کھایا جس میں کدو کے قتلے تھے۔ آپ ﷺنے اس میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھائے۔ کدو آپ کو پسند تھا۔ سیدنا انس کہتے ہیں : جب سے میں نے رسول اکرم ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے، اس وقت سے میں کدو کو پسند کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة حدیث: 5435)
جو کھانا، پینا اور لباس آپ ﷺکو پسند ہوتا، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم بھی اسے پسند کرتے اور اس عظیم قائد سے جس چیز کی نسبت ہوتی، وہ ان کی محبوب بن جاتی۔
آپ ﷺکی قیادت کی خوبصورتی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ نے لوگوں کے دل جوڑے۔ مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ اور ملاقات کا بندو بست کیا۔ دشمنوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ آپ سب لوگوں کے محبوب اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے والے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۶۳﴾
’’اور اس نے ان (مومنوں) کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ اگر آپ دنیا بھر کے سب خزانے خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ ہی نے ان میں الفت ڈالی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (الأنفال 63:8)
کسی کو آپ ﷺ نے خندہ پیشانی سے گرویدہ کیا تو کسی کو میٹھے بول سے کسی کو تحفہ دیا تو کسی کو بہت سا مال دے کر اپنا بنا لیا اور کسی کو امیر بنا کر اپنا اسیر کر لیا۔ نبی اکرمﷺ کی توجہ، بشارت اور محبت کی وجہ سے ہر صحابی یہ سمجھتا تھا کہ آپ ﷺ سب سے زیادہ اس سے پیار کرتے ہیں۔
لوگوں کے دلوں کو جوڑنے، ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے، غلطیوں کی تلافی کرنے، عیوب کی اصلاح کرنے اور خلا پر کرنے کے حوالے سے آپ کو خاص حکمت اور بصیرت عطا ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے ان مسائل کو زمینی سطح پر عملی طور پر پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ نے لیڈر سپاہی، معلم، طالب علم، مالدار، فقیر، خطیب، شاعر، سیره انبی، بادشاه، امیر، تاجر، مزدور، کارکن، مومن، منافق، مسلمان کا فر ، سب کے ساتھ عمدہ برتاؤ کیا حتی کہ کئی دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی محبت کے اسیر ہو گئے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ دَخَلَ دَا رَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ))
’’جو ابو سفیان کے گھر داخل ہو گیا، وہ امن میں ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد و السير، حدیث: 1780)
نرمی آپ ﷺ کا منہج تھا۔ اس کی بدولت بہت سے ٹیڑھے لوگ فرمانبردار ہوئے اور مشکلیں آپ کے لیے آسان ہو گئیں۔ اگر آپ ﷺ کی نرمی کسی مخالف کو اپنا نہ بنا سکی تو آپ کے عفو و درگزر سے اس کی شان و شوکت ضرور ختم ہو گئی۔ یہود مدینہ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول اس کی زندہ مثال ہے، البتہ اگر شر بڑھ جائے اور تدبیریں کارگر نہ ہوں تو برائی کے عنصر کو قوت و مضبوطی سے ختم کیا جاتا ہے۔
یقینًا اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺکو یہ صلاحیت دی کہ آپ نے دشمنوں کو دوست بنا لیا، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ عَسَی اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً ؕ﴾
’’امید ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان دوستی پیدا کر دے جن سے تمھاری دشمنی ہے۔‘‘ (الممتحنة 7:60)
آپ ﷺنے نرمی کا جال بچھایا اور محبت و مودت، صلہ رحمی ، عمدہ معاشرت اور اعلی اخلاق کے پل تعمیر کیے۔ اس کے نتیجے میں دل آپ کے گرویدہ اور رومیں آپ کی مشتاق بن گئیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وَأَصْبَحَ عَابِدُو الْأَصْنَامِ قِدَمًا
حمُاةَ الْبَيْتِ وَالرُّكْنِ الْيَمَانِي
’’اور قدیم زمانے سے بتوں کی پرستش کرنے والے بیت اللہ اور رکن یمانی کے محافظ بن گئے۔‘‘
آپ ﷺ کی قیادت کا یہ جمال تھا کہ آپ معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرتے اور جس کی اچھائیاں اور خوبیاں نمایاں ہوتیں، اس کی خطا سے درگزر فرماتے، گویا اس حدیث کو معیار بناتے:
((إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلْتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ))
’’جب پانی دو قلے (مٹکے ) ہو تو وہ گندگی سے متاثر نہیں ہوتا۔)) (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 63)
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بدری صحابی سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مشرکوں سے خفیہ خط کتابت کی۔ انھیں خبر دی کہ رسول اکرم ﷺ مکہ فتح کرنے کے لیے ان پر حملہ کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور آپ نے لشکر تیار کر لیا ہے جیسا کہ مشہور قصہ ہے۔ جب آپ کے پاس وحی آئی توآپ ﷺ نے سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باز پرس کے لیے بلایا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ))
’’بلا شبہ وہ بدر میں موجود تھا اور تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالی نے بدر والوں پر جھانکا ہے اور فرمایا ہے: تم جو چا ہو عمل کرو، یقینًا میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التفسير، حدیث: 4890)
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ ﷺنے سیدنا حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب کے باعث ان سے درگزر کر دیا۔
اسی طرح آپ ﷺ نے فتنے کی بیخ کنی، تسکینِ قلب اور مسلمانوں کا اتحاد بھال رکھنے کے لیے بہت سے منافقوں سے درگزر کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انکار کر دیا اور فرمایا: «لا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنْ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ))
’’لوگ کہیں یہ باتیں نہ کریں کہ محمد (ﷺ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري التفسير، حديث: 4905)
اس کے علاوہ کئی ایک مواقع پر آپ ﷺ نے عظیم عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا اور اس کی خوبصورت مثالیں قائم کیں۔
کامیاب قائد کی یہ خصوصیت بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنا ہدف متعین کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے روز اول ہی سے اپنا ہدف متعین کیا اور لوگوں میں یہ اعلان کیا: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، تُفْلِحُوا)) ’’اے لوگو الا اللہ الا اللہ پڑھ لو، کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 16023)
آپ ﷺ کا مقصود لوگوں کے سامنے بالکل واضح تھا کہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔ انھیں ان کے رب کی راہ دکھا ئیں یہاں تک کہ وہ بلا شرکت غیرے اس اکیلے کی بندگی کریں۔ آپ ﷺ نے ہر عام و خاص کے سامنے اپنی دعوت کا مقصد رکھا۔ آپ کی دعوت کا سب سے عظیم مقصد لوگوں کو اللہ پر ایمان کی طرف بلانا ، صرف اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کرنا، بت پرستی کی جڑ کاٹنا اور جاہلیت کے درخت کی بیخ کنی تھا۔ ان سب مقاصد اور امور کے باوجود آپ ﷺ معاہدوں کی پاسداری اور عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے۔ غداری، عہد شکنی، خیانت، سفیروں کے قتل، وعدہ خلافی اور جھوٹ بولنے سے بچتے تھے۔ آپ وفاداروں کے امام اور سچوں کے لیے اسوۂ و نمونہ ہیں۔
آپﷺ کی قیادت میں ایسا پختہ عزم دکھائی دیتا ہے جس میں پسپائی کا تصور بھی نہیں اور ایسی ہمت نظر آتی ہے جس میں شکستہ دلی کا وجود تیک نہیں۔ آپ اپنے رب کے وعدے پر پختہ یقین رکھتے اور مستقبل کے بارے میں اتنے پر امید رہتے گویا اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں۔ آپ اپنے ساتھیوں کو اللہ تعالی کی نصرت و تائید کی خوشخبری دیتے، اور آپ نے جو خوشخبری بھی دی، وہ پوری ہوئی۔ آپ ﷺ کر کے اپنے مولا پر توکل اور بھروسے کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ مال وزر اور اقتدار والوں کی طرف نہیں جھکے بلکہ آپ کے اردگرد ہمیشہ اللہ تعالی کے دین کے طلب گار اور اپنے اصولوں کے لیے قربانی دینے والے فقراء و مساکین اور سادہ لوگ رہے۔ آپ نے ان کو ساتھ لے کر زمانے کی کایا پلٹ دی اور قلعوں کی فتح سے پہلے ہی لوگوں کے دل فتح کر لیے۔ قیادت کی دنیا میں آپﷺ کے غلبے اور امتیاز کا یہی سبب تھا۔
آپ ﷺنے ہر صورت حال سے نبٹنے کی تیاری کی ، چنانچہ جب حادثہ پیش آیا آپ اس کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔ آپ نے مندرجہ ذیل ارشاد باری تعالی پر عمل کرتے ہوئے عملی اسباب اختیار کیے:
﴿وَاّعِدُّوْالَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾
’’اور ان (کافروں کے مقابلے) کے لیے تم مقدور بھر قوت تیار رکھو۔‘‘ (الأنفال 60:8)
اور اللہ تعالی نے تیاری نہ کرنے پر منافقوں کی سرزنش کی اور فرمایا:
﴿ وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ﴾
’’اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور تیار کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ تھا۔‘‘( التوبة46:9)
آپﷺ غزوہ بدر کے لیے بھی پوری طرح تیار تھے، حالانکہ وہ اچانک پیش آیا۔ آپ نے غزوۂ احد کی بھی تیاری کی۔ ان جنگوں سے پہلے آپ نے ہجرت کی تیاری کی اور اسے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنے درمیان راز رکھا یہاں تک کہ غار ثور کی طرف گئے اور پھر مدینہ طیبہ چلے گئے۔
غزوہ خندق میں آپ نے لشکر ترتیب دیا، بھر پور تیاری کی، اپنی صفوں کو منظم کیا اورخندق کھود کر دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ جب انھوں نے یہ تیاری دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے کہ آپﷺ نے وہ حربہ اختیار کیا جس سے عرب نا واقف تھے۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے مختلف قیادتوں کے تحت مضبوط اور طاقتور لشکر، چھوٹے بڑے پرچم اور سریّے تیار کیے۔ آپ ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جس سمت جانا ہوتا عام طور پر اس کے برعکس کا اظہار کرتے تاکہ دشمن سے حملے کو مخفی رکھا جاسکے جیسا کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر کیا۔ آپ ﷺعرب کے مختلف چشموں کے بارے میں پوچھتے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ ان کی طرف جانا چاہتے ہیں اور یوں دشمن پر آپ کا ارادہ مخفی رہے۔ آپ ﷺ جو جنگ کرتے ، اس کے لیے ایک جھنڈا تیار کرتے، پھر ایک شخص کو جھنڈا تھماتے، کمانڈر مقرر کرتے ، سرایا بھیجتے لشکر کے مختلف حصے قلب، میمنہ اور میسرہ بناتے۔ دشمن کی جاسوسی کے لیے لوگ متعین کرتے۔ آپﷺ معر کے والی جگہ کا مکمل جائزہ لیتے، ہر چیز کی کمل تیاری کرتے اور ہر کام کوع ملی شکل دیتے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد، اسباب اختیار کرنے اور پختہ عزم وارادہ کے بعد کرتے۔
آپﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ بات نمایاں تھی کہ آپ ہر طرح کے ہنگامی حالات اور اچانک پیش آنے والی مشکلات پر بآسانی قابو پالیتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اور لیڈر کے لیے یہ سب سے مشکل کام ہے کیونکہ اچانک بحران کے وقت اگر بروقت درست فیصلہ نہ کیا جائے تو نہایت خطرناک نتائج نکلتے ہیں جو تباہی و بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی نے اپنے بندے اور رسول ﷺکو حکمت ، قتل، عصمت اور درست فیصلہ کرنے کی خاص توفیق عطا فرمائی تھی۔
ابن اسحاق نے ’’السيرة‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے موقع پر قریش کے مختلف قبائل میں حجر اسود نصب کرنے میں اختلاف پیدا ہوا اور بات جنگ و جدال تک پہنچ گئی۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ اس دروازے سے اب جو شخص سب سے پہلے آئے گا، ہم اس کے فیصلے پر راضی ہو جائیں گے۔ اس وقت رسول اکرمﷺ تشریف لائے۔ جب انھوں نے آپ ﷺ کے سامنے اپنی مشکل رکھی تو آپﷺ نے فوراً فرمایا: ’’مجھے کوئی کپڑا دو۔‘‘ آپ کو کپڑا دیا گیا تو آپ نے حجر اسود اٹھا کر اس پر رکھا، پھر فرمایا: ’’ہر قبیلے کا ایک نمایندہ اس کپڑے کے کونے پکڑے اور پھر سب مل کر اوپر اٹھاؤ ‘‘ تو انھوں نے ایسے ہی کیا۔ جب وہ اس جگہ لے آئے جہاں حجر اسود نصب کرنا تھا تو آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے وہاں نصب کر دیا۔
آپ ﷺ کے سامنے ہر روز نہایت پیچیدہ اور مشکل مسائل رکھے جاتے اور آپ بڑی آسانی سکون و اطمینان اور اعتماد سے انھیں حل کر دیتے۔ آپ کا فیصلہ نہایت موزوں محفوظ اور عدل پر مبنی ہوتا۔ ہر بحران کا نتیجہ خیز حل نکل آتا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی نبوت کی برکت، پختہ رائے اور درست نظر وفکر کے باعث تھا۔
اور جہاں تک معرکوں اور غزوات میں آپ ﷺ کے غلبے اور کنٹرول کا تعلق ہے تو اس موضوع پر کئی کتا میں لکھی جاچکی ہیں۔ عسکری ماہرین نے آپ ﷺ کی قائدانہ صلاحیتوں کا یہ پہلو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ آپ ﷺ جس جگہ بھی جاتے، فوراً فیصلہ کرتے اور معرکے کے تمام اطراف پر کنٹرول رکھتے جیسا کہ آپﷺ نے بدر کی وادی میں مناسب جگہ کا انتخاب کیا۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مشورہ کیا تو سید نا حباب بن مندر رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا کہ پانی کے چشمے کو پیچھے رکھ کر جنگ لڑی جائے تا کہ کفار قریش اس سے پانی نہ پی سکیں۔ اسی طرح احد کے معرکے میں بھی آپ ﷺ نے نہایت مناسب جگہ کا انتخاب کیا۔ اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور تیر اندازوں کو پہاڑی پر مقرر کیا تا کہ مسلمانوں کی پشت محفوظ رہے۔
غزوہ احزاب میں بھی آپ ﷺ نے میدان قتال پر مکمل کنٹرول رکھا اور خندق کھودی تا کہ مشرکوں کے اتحادی لشکر کو مدینہ پر چڑھائی سے روکا جا سکے اور گھڑ سوار سید ھے مدینہ پر حملہ آور نہ ہوسکیں۔ آپ ﷺ جاسوی دستے روانہ کرتے اور انفرادی طور پر بھی جاسوس بھیجتے جو اطلاعات لاتے جیسا کہ غزوہ احزاب میں آپ ﷺ نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مشرکین کے لشکر کی خبریں لانے کے لیے بھیجا۔
آپ ﷺ کی قیادت کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ آپ نے قومی خزانے کا صحیح استعمال کیا۔ آپ ﷺ نے ایک ایک درہم اور دینار نہایت عدل و انصاف اور حکمت سے خرچ کیا۔ آپ ﷺ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی ذات کے لیے ایک درہم بھی محفوظ نہیں کیا اور نہ وفات کے وقت بطور وراثت درہم و دینار چھوڑ کر گئے۔ آپﷺ کی کوشش تھی کہ عوام و خواص کا مال حرام سے پاک رہے، اس لیے آپ نے سود، خیانت، رشوت، جوئے اور ظلم سے حاصل کیے ہوئے مال سے مکمل اجتناب کیا۔ آپ ﷺ کے ذرائع آمدن پاک تھے اور خرچ بھی حلال اور پاک کاموں میں کرتے تھے۔ آپ کے گھر والوں کا خرچ امت کی طرف سے شرعی نبوی تقسیم کے مطابق آپ کا حق تھا۔ آپ ہمیشہ رزق حلال کمانے کی ترغیب دیتے۔ سستی و کاہلی کا رویہ اپنانے، لوگوں پر بوجھ بنے اور سوال کرنے سے منع کرتے تھے۔
آپﷺ مالی کرپشن اور بدعنوانی کرنے والوں کا محاسبہ کرتے جیسا کہ ایک شخص نے مال غقیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ لے کر خیانت کی تو آپ نے اس کا محاسبہ کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۚ﴾
’’اور جو کوئی خیانت کرے گا تو جو اس نے خیانت کی ہوگی، اس کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا۔‘‘ ( آل عمران161:3)
آپ ﷺ نے اس آدمی کا بھی محاسبہ کیا جسے آپ نے صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا تو اس نے واپس آکر کہا: یہ مال آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے۔ اس پر آپ ﷺ غصے میں آگئے اور فرمایا:
((فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَنْظُرُ أَيُهْدٰى لَهُ أَمْ لَا؟))
’’وہ اپنے باپ اور ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھ گیا، پھر وہ دیکھتا کہ اسے تحفہ ملتا ہے یا نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الأحكام، حديث: 7174)
کبھی آپ ﷺکسی شخص کی عداوت و دشمنی کا زور توڑنے کے لیے یا اس کی ہدایت کے لیے بھی مال خرچ کرتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ نے نو مسلم سرداران مکہ کی دل جوئی کے لیے انھیں دیا اور انصار کو نظر انداز کر دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے رسول ﷺ کو زندگی کے سارے رنگ دکھائے۔ اچھے برے ہر طرح کے حالات سے آپ کا واسطہ پڑا۔ آپ نے مال بھی دیکھا اور فقر بھی۔ صحت و بیماری، فتح وشکست، تنگی و آسانی اور خوشی و غمی ہر دور سے گزرے مگر ہر حال میں عبودیت پر قائم رہے اور امت کے لیے نمونہ ہے۔ اب امت کا جوفرد جن حالات سے بھی دو چار ہوتا ہے، اس کے لیے آپ ﷺ کا نمونہ موجود ہوتا ہے۔
آپ ﷺ کی مضبوط قیادت کی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی رسالت کی تبلیغ کے لیے ہر طریقہ اختیار کیا جسے عصر حاضر میں میڈیا پالیسی کہا جاتا ہے۔ آپ خطباء کے سردار، بلاغت کے امام اور پرتاثیر گفتگو میں اول نمبر پر تھے۔ آپ ﷺ اپنی خطابت کے ساتھ عرب کے بازاروں میں داخل ہوئے اور اپنی خطابت سے منبروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ لوگوں کے احساسات کو تحریک دی۔ آپ نے ہر خاص و عام کو نرمی کے ساتھ نصیحت کی اور آپ کے ساتھ روئے زمین پر یہ دعوت پھیلانے میں کئی علماء وفقہاء ، خطباء اور شعراء سپاہی بن کر شریک ہوئے۔
آپ نے بادشاہوں اور معززین علاقہ کے ساتھ خط کتابت کی اور ہر گروہ سے اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق بات کی۔ آپ کا خطاب چھوٹے بڑے، بچے جوان، مرد و عورت، مسلمان و مشرک، منافق و اہل کتاب اور مالدار و فقیر سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ آپﷺ کو اللہ تعالی نے ایسا الہام کیا جو ہر فرد اور گروہ کے لیے مناسب ہے اور یہ صرف آپ کا خاصہ ہے۔ آپ ﷺ نے ذرائع ابلاغ میں مکالمے، مشاورت، بشارت، ڈرادے، ترغیب و ترہیب، فصاحت و بلاغت، طوالت و اختصار، کلمات ، خطبات، دروس، علمی مجالس، وعظ ، ضرب الامثال، واقعات، عملی تطبیق، اشاروں اور نقشوں کے علاوہ ابلاغ کا ہر جائز اور مؤثر ذریعہ اختیار کیا۔
آپﷺ نے ماحولیات کا بھی خیال رکھا اور زمین کی آبادکاری اور شجر کاری کے لیے قواعد وضوابط مقرر کیے۔ ماحول کو آلودہ کرنے اور چشموں ، کنووں، شہروں اور راستوں کو گندہ کرنے سے منع کیا۔ شاہراہوں کو صاف رکھنے، تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹانے، گھروں کے صحن صاف رکھنے، راستے کا حق ادا کرنے اور لوگوں کا احترام کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں۔ ہم وہاں بیٹھ کر روز مرہ کی گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم ضرور ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول ! راستے کا کیا حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نظر نیچی رکھنا۔ اذیت دینے سے باز رہنا۔ سلام کا جواب دینا۔ نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکنا۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستئذان، حديث (6229)
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’دوسخت لعنت والے کاموں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! دو سخت لعنت والے کام کون سے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگوں کی گزرگاہ یا ان کی سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حديث: 269)
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَّغْرِسُ غَرْسًا ، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةً إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ))
’’کوئی بھی مسلمان جو ایک پودا لگائے یا کھیتی میں بیچ بوئے ، پھر اس میں سے پرندہ یا انسان یا جانور جو بھی کھائیں، وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المزارعة، حديث: 2320)
پودے لگانے یا کھیتی باڑی کی فضیلت اور پھل دار درخت کاٹنے کی ممانعت کے بارے میں آپ ﷺکی کئی احادیث ہیں اور آپ نے زمین کے عمومی بگاڑ سے بھی منع کیا ہے۔آپ ﷺ نے زمین میں مدفون خزانوں، معدنیات، بنجر زمین کو آباد کرنے اور نظام ملکیت کے حوالے سے بھی ہدایات جاری فرمائی ہیں۔
آپ ﷺ کے فن قیادت، مہارت، امامت اور کامل سالاری کی دلیل ہے کہ آپ نے کئی قائد تیار کیے جن میں سے ہر ایک اپنے فن کا امام ہے۔ سید نا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں پیدا ہونے والے ہر بحران پر قابو پایا۔ ان میں سے پانچ نہایت سخت اور کٹھن مراحل تھے: آپ ﷺ کی وفات کے روز ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا خطبہ خلیفہ کی بیعت کا فیصلہ، مرتدین سے قتال، تدوین قرآن اور لشکر اسامہ کی روانگی۔
سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ قیامت تک آنے والے پختہ عزم رکھنے والوں کے امام ہیں۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ کے لیے قراء کے امام ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ استاذ المفسرین ہیں۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ قیامت تک فرائض، یعنی علم وراثت کے امام کا شرف پاتے ہیں۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سب سے زیادہ حلال و حرام کا علم رکھتے ہیں۔ ہر ایک نے سیدفن، صلاحیت اور میراث معلم خیرﷺ سے لی۔
آپ ﷺ ریاست کے سربراہ تھے۔ آپ ﷺ نے اسے روئے زمین کے سب سے مضبوط قائد کی طرح منتظم کیا۔ اس طرح ریاست مدینہ عدل و شوری، احکام کے نفاذ، انسانی حقوق کے احترام، مقیم، کمزور اور مسکین کی کفالت، نسل انسانی کی حفاظت کے لیے جد و جہد، جان و مال اور عزت کی حفاظت اور خوبصورت تہذیب و تمدن میں ضرب المثل بن گئی۔
چنانچہ رسول اکرم ﷺاللہ تعالی کی طرف سے صرف مبلغ نہ تھے بلکہ قیادت و سیادت میں بھی امام و اسوہ تھے۔
آپ ایسے قائد تھے جن کی وحی سے تائید کی گئی اور جنھوں نے خود کو جنگوں اور بڑے بڑے معرکوں میں مشغول رکھا اور ان کی نگرانی کی۔ آپﷺ نے عام مالی معاملات، تربیت، عائلی مسائل اور امت کی عمومی اور خصوصی مصلحتوں کا تحفظ کرنے میں امت کی قیادت کی۔
پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کی سیرت کو مکمل اور آپ کے باطن کو پاکیزہ بنایا۔ آپ ﷺ کو رشد و ہدایت عطا فرما کر اور آپ کی تائید کر کے سیدھی راہ دکھائی تا کہ آپ جہان والوں کے لیے نمونہ اور تمام لوگوں پر حجت بنیں۔
………………