محمدﷺ بحیثیت رحیم

رب تعالی نے محمد ﷺکو رحمت کے نام سے موسوم کیا اور جہان والوں کے لیے رحمت بنایا۔ آپ کے منہج، سیرت اور اخلاق کو رحمت قرار دیا۔ سات آسمانوں کے اوپر سے آپ کی رحمت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِيْنَ﴾

’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)

یوں رحمت آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ آپ کی سیرت و کردار اور اقوال وافعال سب رحمت ہیں۔ آپ سراپا رحمت اور سب نعمتوں کی کمی پوری کرنے والے ہیں جیسا کہ آپ کے پروردگار و مولا نے آپ کے بارے میں فرمایا: ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ﴾

’’(لوگو!) بلاشبہ یقیناً تمھارے پاس تمہھی میں سے ایک عظیم رسول آگیا ہے۔ اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں گزرتا ہے۔ وہ تمھارے لیے بھلائی کا حریص ہے۔ مومنوں پر نہایت شفیق، بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (التوبة 128:6 )

اللہ تعالی نے آپ کو مومنوں، کافروں، حیوانات، جمادات، چھوٹوں، بڑوں، مردوں، عورتوں، اطاعت گزاروں اور گناہ گاروں سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾

’’پھر (اے نبی!) آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہو گئے۔ اگر آپ بد خلق سخت دل ہوتے تو یقیناً وہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ (آل عمران 159:3)

آپ کا اپنے قول و فعل اور حال سے رحمت کی طرف بلاتے رہے اور آپ کی رحمت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ آپ کی مسکراہٹ بھی رحمت تھی جس نے دل موہ لیے۔ آپ کی گفتگو بھی رحمت تھی جس نے روحوں کو تازگی بخشی۔ آپ کے اوامر و نواہی بھی رحمت، آسانی اور لطف و کرم پر مبنی ہیں جن میں اتباع، محبت، آپ کا حکم ماننے اور آپ کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز رہنے کی تلقین ہے۔

آپﷺ اپنی امت پر بڑے مہربان تھے۔ آپ نے لوگوں کے ساتھ نرمی کرنے والے کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی والا معاملہ فرمائے، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:

((اَللّٰهُمَّ مَنْ وَّلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَاشْقُقْ عَلَيْهِ، وَ مَنْ وَّلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِيْ شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ، فَارْفُقَ بِهِ))

’’اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی کر اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کی تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حديث: 1828)

آپ ﷺکے رحیم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے رحمت ونرمی کے ہر معاملے میں اپنی امت کا خیال رکھا حتی کہ اطاعت کے کاموں میں بھی امت کی آسانی ملحوظ رکھی۔ آپ نماز عشاء وقت ہونے پر اس لیے جلدی پڑھ لیتے تاکہ امت کو مشکل پیش نہ آئے۔ ایک رات آپ نے نماز عشاء اس وقت ادا کی جب رات کا خاصا حصہ بیت گیا اور مسجد میں موجود لوگ سونے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّهُ لَوَقْتُهَا لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِي))

’’بلا شبہ اس کی ادائیگی کا افضل وقت یہی ہے۔ اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس کو لازم قرار دیتا۔‘‘ (صحيح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حديث: 638)

جب آپﷺ نے رمضان میں نوافل ادا کیے اور دو تین راتیں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نےبھی آپ کے ساتھ قیام کیا تو تیسری یا چوتھی رات آپ امامت کرانے کے لیے اس لیے مسجد میں نہ آئے کہ کہیں رمضان کا قیام ان پر فرض نہ کر دیا جائے۔ (صحیح البخاري، حديث: 7290)

آپ ﷺدین و دنیا کے تمام امور میں امت پر مہربان تھے۔ آپ ہمیشہ انھیں آسانی والی راہوں پر لے کر چلے۔ آپ ﷺکی رحمت و مہربانی کا ایک واضح مظہر یہ بھی ہے کہ آپ نے ہمیں ایسی روشن راہ پر چھوڑا جس سے صرف ہلاک ہونے والا ہی بھٹکتا ہے۔ آپ نے ہر خیر اور بھلائی کا کام ہمیں بتایا۔ ہر شر سے ڈرایا۔ کمال درجے کی خیر خواہی کی۔ رسالت کا پیغام پوری طرح ہم تک پہنچایا۔ امانت احسن طریقے سے ادا کی اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن کیا اور صحیح دین کی طرف ہماری راہنمائی کی۔

کیا یہ آپ ﷺ کی رحمت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کے ذریعے سے جہنم کی آگ سے بچایا، آپ کی بدولت اندھیروں سے روشنی میں لایا اور آپ ہی کے ذریعے سیدھی راہ دکھائی ؟!

کیا یہ آپ ﷜ﷺکی رحمت نہیں کہ آپ نے ہمیں جہالت سے نکال کر علم اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی راہ دکھائی ؟! ہم نا بینا تھے ہمیں بینا کر دیا ؟؟ بہرے گونگے تھے تو قوت سماعت اور قوت گویائی عطا فرمائی ؟! آفتابِ رسالت سے ہمارے دلوں کو منور کیا اور مہتاب نبوت سے ہمارے راستے روشن کیے؟!

آپﷺ کی اپنی امت کے ساتھ رحمت قیامت اور حشر تک رہے گی۔ لوگوں میں فیصلے کے دن مقام محمود پر آپ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی اور ہر مشکل گھڑی میں آپ کی زبان پر یہی ہوگا: اُمَّتی، اُمَّتی  ’’میری امت ،میری امت، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر وہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور کہا:

’’اے اللہ !میری امت، میری امت ‘‘ اور بے اختیار رو پڑے۔ اللہ تعالی نے حکم دیا: اے جبریلؑ! محمدﷺ کے پاس جاؤ، جبکہ تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے، ان سے پوچھو کہ انھیں کیا بات رلا رہی ہے؟ جبریل علیہ السلام آپﷺ کے پاس آئے اور وجہ پوچھی تو رسول اللہ ﷺنے جو بات کہی تھی ان کو بتائی، جبکہ اللہ اس بات سے بہت اچھی طرح آگاہ تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبریل امحمد ﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کریں گے اور ہم آپ کو تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث (202)

آپ ﷺکی رحمت کے فیضان سے آپ کے دشمن بھی محروم نہ رہے۔ کیا آپ نے تاریخ میں نبیﷺ کے سوا کسی ایسے انسان کے متعلق سنا ہے جس کی قوم نے اسے تکلیف پہنچائی ہو، گالیاں دی ہوں، برا بھلا کہا ہو، محاصرہ کیا ہو، گھر سے نکال دیا ہو، اس کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہو، چہرہ زخمی کیا ہو، دانت شہید کر دیا ہو، پتھر مار مار کر اس کے قدموں کو لہو لہان کر دیا ہو، خفیہ طریقے سے اس کے قتل کے منصوبے بنائے ہوں، ایذا دینے اور گھیرا تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہو مگر وہ پھر بھی ان کے لیے دعا کرتا ہو اور کہتا ہو: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ)) ’’اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتی۔‘‘ (صحیح ابن حبان، حدیث (973)

کیا آپ گزشتہ اور موجودہ دور میں کسی ایسے شخص سے آشنا ہیں جس کی قوم اسے ختم کرنے کی خواہش مند ہو، اس پر لشکر کشی کرے، اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر اسے کچلنے کی کوشش کرے، تکلیف دینے کا ہر حربہ استعمال کرے، انتظام کا ہر طریقہ آزمائے اور ہر مکر وفریب کو کام میں لائے، پھر وہ شخص ان پر غالب آجائے اور فتح پا کر کہے:

((اِذْهَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ))

’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘ (السيرة لابن هشام: 55/4)

ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا کیونکہ نبی معصوم اور رسول رحیم صرف آپ ہیں۔ آپ ﷺکا وجود دشمنوں کے لیے بھی رحمت ہے اور آپ کی زندگی منکرینِ نبوت کے لیے بھی خیر و برکت کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے دشمنوں کو مہلت دی اور آپ کی زندگی میں انھیں عذاب نہیں دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝﴾

’’اور (اے نبی !) اللہ ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے جبکہ آپ بھی ان کے درمیان موجود ہوں، اور اللہ انھیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‘‘ (الأنفال 33:8)

یہ سب آپﷺ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ آپ نے ان لوگوں پر بھی رحمت کی جنھوں نے آپ کو اذیت دی، آپ کو گھر سے نکالا اور آپ کی دعوت کو ٹھکرایا۔ آپ ﷺنے اپنی زندگی میں انھیں عذاب دیا جانا بھی گوارا نہ کیا۔ اور جب احد کے دن آپ ﷺ کا رباعی دانت شہید کیا گیا، آپ کا مبارک چہرہ زخمی کیا گیا تو آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم  پر یہ بہت گراں گزرا۔ انھوں نے آپ سے درخواست کی: اللہ کے رسول! مشرکوں کے خلاف دعا کریں۔ آپ ﷺنے جواب دیا: ((إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً))

’’بلا شبہ مجھے لعن طعن کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ مجھے تو سراپا رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘  (صحیح مسلم البر والصلة، حديث: 2599)

آپ ﷺکی دشمنوں کے ساتھ رحمت کا ایک واقعہ وہ ہے جو جلیل القدر صحابی سیدنا ثمامہ بن  اُثال  رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کا باعث بنا۔ جب مسلمانوں نے انھیں گرفتار کیا تو نبی اکرم ﷺ کے پاس لا کر مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ وہ تین دن تک بندھے رہے اور بڑے قریب سے اسلامی معاشرے کا جائزہ لیا یہاں تک کہ ایمان ان کے دل میں گھر کر گیا۔ نبی اکرمﷺ نے ان کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا تو وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں گئے غسل کیا اور دوبارہ مسجد میں آکر عرض کیا:

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بلاشبہ محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ اے محمدﷺ اللہ کی قسم! میرے نزدیک روئے زمین پر آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی اور چہرہ برا نہ تھا اور اب مجھے آپ کا چہرہ سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی اور دین برا نہ تھا اور اب میرے نزدیک آپ کا دین سب دینوں سے اچھا ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کا شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ برا لگتا تھا اور اب مجھے آپ کا شہر سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حديث 4372)

سید نا ثمامہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی حالت اتنی جلدی بدلی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں ڈھال بن گئے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ یہودیوں کے وفد نے رسول اکرم ﷺکے پاس آنے کی اجازت مانگی تو انھوں نے کہا: السام عليك ’’تمھیں موت آئے۔‘‘ میں نے کہا: بلکہ تمھیں موت پڑے اور تم پر لعنت ہو۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: (يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُّحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ))

’’ عائشہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر معاملے میں نرمی پسند کرتا ہے۔‘‘

میں نے عرض کیا: آپ نے سنانہیں، انھوں نے کیا کہا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’میں نے انھیں وعَلَيْكُم (تمھیں ہی آئے… ) کہہ نہ دیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، استتابة

المرتدين حديث: 6927)

دیکھیے آپﷺ نے کس خوبصورت انداز سے برا بھلا کہے بغیر نرمی سے علیکم کہہ کر جواب دے دیا۔ بات دہرائی، نہ ان سے باز پرس کی اور نہ سزا دی بلکہ ان کو نظر انداز کیا اور نہایت نرمی اور مہربانی والا رویہ اپنایا۔ آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کرتے تھے:

((يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُّحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلٰي مَا سِوَاهُ))

’’عائشہ! بلاشبہ اللہ تعالٰی نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور نہ اس کے سوا کسی دوسری چیز پر دیتا ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة حديث: 2592)

آپ ﷺاپنی دعوت، امر و نہی اور ہر معاملے میں نرمی کرنے والے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ((مَنْ حُرِمَ الرِّفْقَ حُرِمَ الْخَيْرَ))

’’جو نرمی سے محروم کر دیا گیا، وہ ہر خیر اور بھلائی سے محروم ہو گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة حديث (2592)

 اور آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُوْنُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ))

’’بلا شبہ نری جس چیز میں بھی ہو، اسے مزین کر دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکال لی جائے اسے بدنما بنا دیتی ہے۔ ‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة حديث: 2594)

رسول اکرمﷺ نے اسلامی اقدار میں نرمی کو نہایت قیمتی شے قرار دیا۔ گھر، معاشرے اور امت میں رحم و کرم کے حوالے سے اسے ایک خوبصورت وصف ٹھہرایا۔ آپﷺ نے خوشخبری دی کہ لوگوں کے زیادہ قریب رہنے والا اور ان کے ساتھ نرمی کرنے والا اللہ کی رحمت کے قریب اور اس کے عذاب سے دور ہے۔

جہاں تک عورتوں کے ساتھ آپ ﷺکی رحمت کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا سبق ہے جو پوری دنیا کے مدارس اور جامعات میں ہمیشہ سے پڑھا پڑھایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ ہم سب لوگوں سے بڑھ کر عورتوں سے لطف و کرم کرنے والے، ان کی عزت کرنے والے، ان سے حسن سلوک کرنے والے اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت کرنے والے تھے۔ آپ ﷺنے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی حفاظت کا درس دیا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هٰذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ))

’’جوان بیٹیوں کے ساتھ کسی طرح بھی آزمایا گیا، وہ اس کے لیے آگ سے رکاوٹ ہوں گی۔‘‘ (صحیح

البخاري، الزكاة، حديث: 1418 )

اور آپ ﷺ نے عورت کے ساتھ رحمت و نرمی سے پیش آنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

((اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ))

’’عورتوں کے بارے میں خیر اور بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ بلاشبہ وہ تمھارے پاس قیدی ہیں۔‘‘ (سنن این ماجه، حديث: 1851، وجامع الترمذي، حديث: 3087)

یعنی نہایت کمزور اور قیدیوں کے مانند مجبور ہیں۔ اور قیدی کا یہ حق ہے کہ اس پر رحم کیا جائے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔

آپ ﷺنے مرد کو اپنے گھر والوں کے ساتھ رحمت اور لطف و کرم کرنے کی ترغیب دی ہے اور خاندان میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِذَا أَرَادَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِأَهْلِ بَيْتٍ خَيْرًا أَدْخَلَ عَلَيْهِمُ الرِّفْقَ))

’’جب اللہ تعالی کسی گھرانے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس میں نرمی کا وصف پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 24427)

آپ ﷺاپنی بیویوں کے ساتھ بے انتہا رحمت کرنے والے تھے۔ سیدنا انس جی سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺایک سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا جسے انجشہ کہتے تھے۔ وہ حُدی پڑھ رہا تھا تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ((وَیْحَكَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ بِالْقَوَارِيرِ))

’’اے انجشہ! تجھ پر افسوس، آبگینوں (خواتین کی سواریوں) کو آہستہ آہستہ لے کر چلوں‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث (6161)

آپ ﷺنے ہر حال میں عورت کی کمزوری اور جذبات کا لحاظ رکھا اور نماز تک میں اس پر رحم کیا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ نماز لمبی کرنے کا ہوتا ہے، پھر دوران نماز میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں تا کہ اس کی ماں کے لیے مشقت نہ ہو۔‘‘ (صحیح البخاري،حدیث707)

کیا رسولِ رحمت کی کے سوا دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس میں یہ ساری خوبیاں ہوں کہ وہ شفیق باپ بھی ہو، کریم شوہر بھی ہو، وفادار بھائی بھی ہوں، نیکوکار بیٹا بھی ہو، خیال رکھنے والا مربی بھی ہو اور راہ ہدایت دکھانے والا امام بھی ہو ؟!

آپﷺ کی رحمت کا فیضان بچوں پر بھی ہوا، چنانچہ آپ ان کے دلوں کو نرمی ، صداقت اور شفقت سے بھر دیتے اور ان کی ارواح کو ہدایت، نور اور بصیرت سے معمور کر دیتے۔ بچوں پر آپ کی رحمت کا ایک مشاہدہ صحیح حدیث میں مروی ہے کہ آپﷺ نے اپنی معصوم نو اسی سیدہ امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اٹھایا ہوا ہے اور لوگوں کو فرض نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے بٹھا دیتے اور جب قیام کرتے تو اٹھا لیتے۔ آپ کا مقصد اس کے ساتھ شفقت و محبت کا اظہار اور اس کی ماں پر ترس کھانا تھا کیونکہ وہ مشغول تھی اور نماز کا وقت تھا۔ اگر آپ اسے اس کی ماں کے حوالے کرتے تو اس کے لیے مشقت ہوتی، اس لیے آپ اسے مسجد میں ساتھ لے آئے، حالانکہ آپ امت کے قائد تھے اور نماز میں ان کی امامت کرا رہے تھے۔ کیا ہی عمدہ اور اعلیٰ اخلاق ہے اور کیا ہی زندہ جاوید منظر ہے جو دل و دماغ سے اترتا ہی نہیں ؟! ایسا منظر کہ جس سے امت کے لیے آپ کی رحمت و شفقت اور نرمی کا عملی درس سامنے آ رہا ہے۔ آپ ﷺلوگوں کو خطبہ دے رہے ہیں اور خطبہ روک دیتے ہیں۔ آپ کی رحمت آپ کو منبر سے نیچے اتارتی ہے اور آپ اپنے نو اسوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہماکے پاس آتے ہیں، انھیں اٹھا کر اپنے پاس ایک طرف بٹھا لیتے ہیں۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما آگئے۔ انھوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں۔ وہ دونوں چل رہے تھے اور لڑھکتے آرہے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اکرم یہ منبر سے اترے اور ان دونوں کو اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا۔ (جامع الترمذي، حديث 3774)

نبیﷺ بچوں کو بوسہ بھی دیتے تھے۔ آپﷺ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بوسہ دیا تو وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو کبھی بوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ ﷺنے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ((مَنْ لَّا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ))

’’جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 1987)

آپﷺ کی رحمت اور عدل کا منظر ایک ساتھ ملاحظہ کریں کہ جب آپ نے اپنے جگر گوشے، سیدناعلی و فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے لخت جگر سید نا حسن ہے اور اپنے مولی ابن مولی اور محبوب ابن محبوب سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما کو اکٹھے اپنی گود میں بٹھایا تو ایک ران پر سید نا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسری ران پر سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ مجھے پکڑتے اور اپنی ران پر بٹھا لیتے اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو پکڑتے تو دوسری ران پر بٹھا لیتے اور دونوں کو سینے سے لگاتے، پھر دعا کرتے: ((اللّٰهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أَرْحَمُهُمَا))

’’اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرما۔ میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث (6003)

بچوں کے ساتھ رسول اکرم ﷺکا ہر قصہ اور ان کے ساتھ مزاح، کھیل کود اور ان کا خیال رکھنے کا ہر واقعہ اس بات کا عکاس ہے کہ آپ دنیا میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک کامل منہح پر قائم رہیں۔ آپ نبیٔ اکرم ﷺکی شخصیت کا جس پہلو سے بھی مطالعہ کریں گے، اس مہربان نبی کے ساتھ آپ کی محبت، تعلق اور اتباع میں بھر اضافہ ہوگا۔

آپ ﷺکی رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ یتیموں اوربیواؤں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ نے یتیموں کی کفالت اور دیکھ بھال کی خود نگرانی کی اور یہ فرما کر پوری دنیا کو قیامت تک اس کی ترغیب دی: ((أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هٰكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰى))

’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ ‘‘یہ فرما کر آپ نے شہادت اور درمیان والی انگلی کو باہم ملایا۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حديث 5304)

بلکہ جو شخص بے سہارا اور مسکین لوگوں کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے،  نبیﷺ نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے، دن کو روزہ رکھنے اور رات کو قیام کرنے والے کی طرح قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ، أَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارِ))

’’جو شخص ہوہ اور مسکین کا خدمت گار ہے، وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاري، النفقات، حديث: 5353)

آپﷺ کمزوروں کو اپنے قریب کرتے، ان پر شفقت کرتے اور انھیں دیگر لوگوں سے مقدم رکھتے اور فرماتے:

((أَبْعُونِي الضُّعَفَاءِ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضْعَفَائِكُمْ))

’’میرے لیے ضعیفوں اور کمزور لوگوں کو تلاش کرو۔ تمھارے کمز ور لوگوں ہی کے سبب تمھیں رزق دیا جاتا ہے اور تمھاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2594)

آپ ﷜ﷺ نے یتیموں اور عورتوں پر ظلم کرنے سے ڈرایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِيفَيْنِ: الْيَتِيمِ، وَالْمَرْأَةِ))

’’اے اللہ! میں دو کمزوروں، یتیم اور عورت کی حق تلفی حرام ٹھہراتا ہوں۔ ‘‘ (سنن ابن ماجه، الأدب، حدیث:3678)

مساکین اور فقراء کے ساتھ آپ کی رحمت کا ایک مظہر بیان کرتے ہوئے عبداللہ بن ابی اولی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرمﷺ بکثرت ذکر کرتے، لغو بات نہ کرتے، لمبی نماز پڑھاتے، مختصر خطبہ دیتے۔ بیوگان اور مساکین کے ساتھ چلنے میں عار محسوس نہ کرتے یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کر دیتے۔ (سنن النسائي الجمعة، حدیث: 1415 )

جو شخص یتیم مسکین، کمزور اور فقیر کے ساتھ آپ سا باہر کی رحمت و شفقت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ آپ مسکینوں کے نبی ہیں، کمزوروں پر رحم کرنے والے رسول ہیں اور آپ کی دعوت مظلوموں کو نجات دلانے کا پیغام ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آمنہ کے در یتیمﷺ پوری دنیا کے یتیموں کے سردار ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے یتیمی کے دکھ جھیلے تو قیموں پر رحم کیا، فقر کی سختی برداشت کی تو فقیروں پر لطف و کرم کیا، مشکلات اور بحرانوں سے گزرے تو کمزوروں اور مظلوموں پر شفقت و مہربانی کی۔ آپ ﷺخادموں اور سادہ لوح مزدوروں اور کارکنوں کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وہ تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ نے انھیں تمھارے ماتحت کیا ہے۔ تم انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان پر ایسے کام کی ذمہ داری نہ ڈالو جو ان کے بس سے باہر ہو۔ اگر ان پر مشکل کام کی ذمہ داری ڈالو تو ان کی مدد کرو۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حدیث: 1661)

آپ ﷺکے لطف و کرم، رحمت اور حسن سلوک کی ایک مثال وہ ہے جو سید نا انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کی ہے، وہ

فرماتے ہیں:

رسول اللہ یہ تمام انسانوں میں اخلاق کے سب سے اچھے تھے۔ آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبیﷺ نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے، میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں چلا گیاحتی کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے اور وہاں رک گیا، پھر اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے پیچھے آکر میری گدی سے مجھے پکڑ لیا۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((يَا أَنَيْسُ! أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟)) ’’انس بیٹے! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں جانے کو میں نے کہا تھا ؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! میں جا رہا ہوں۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2310)

 دیکھیئے آپ ﷺ نے کسی طرح سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کا نام بہت پیار سے تصغیر کے ساتھ پکارا! حلم و بردباری اور شفقت و مہربانی سے مسکرا کر ان سے پوچھا اور تاخیر پر انھیں کوئی سزا نہ دی۔ اس سے بڑھ کر اعلی اخلاق کیا ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ رحمت کیا ہو سکتی ہے؟!

سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول پر غور کریں کہ میں نے دس سال تک نبی اکرم ﷺکی خدمت کی مگر آپ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور نہ یہ کہا: ’’تو نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں نہیں کیا۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث:6038)

 غور کریں کہ آپ ﷺ نے کیسے انھیں کسی کام پر نہیں ٹو کا! حالانکہ اتنے عرصے میں انسان مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ غصہ خوشی غمی وغیرہ مختلف حالات ہوتے ہیں مگر اس سب کے باوجود ہر زمان و مکان میں آپ ﷺکا اخلاق رحیمانہ رہا۔

اور جہاں تک بوڑھوں پر مہربانی و شفقت کا تعلق ہے تو آپﷺ بوڑھے افراد کا خصوصی خیال رکھتے اور ان کی عزت و توقیر کے علاوہ ان کے ساتھ لطف و کرم والا معاملہ کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھا شخص نبی ا کرمﷺ سے ملنے آیا۔ لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَلَمْ يُوَقِّرْ كَبِيْرَنَا))

’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑے کی تعظیم و تکریم نہ کی۔‘‘ (جامع الترمذي، البر والصلة، حديث: 1010)

بزرگوں پر آپ کے لطف وکرم کی ایک مثال یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد ابو قحافہ کو اسلام قبول کرانے کے لیے لائے تو رسول اکرمﷺ نے انھیں دیکھ کر فرمایا:

((هّلَّا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهِ حَتّٰى أَكُونَ أَنَا آتِيهِ فِيهِ))

’’تم نے بزرگ کو گھر کیوں نہ رہنے دیا کہ میں خود آجاتا اور کلمہ پڑھا دیتا۔‘‘

سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ زیادہ حق دار تھے کہ چل کر آپ کے پاس آتے، کجا آپ چل کر ان کے ہاں جائیں۔ پھر انھوں نے اپنے باپ کو آپ کے سامنے بٹھا دیا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا۔ (مسند أحمد: 341/1، حديث:27001)

اس عظیم الشان مہربان ہستی کی کیا شان ہے اور آپ کے اخلاق کی کیا عظمت ہے! آپ کسی طرح لوگوں کے مقام و مرتبہ کے مطابق ان سے پیش آتے اور ان کے حالات کا کس قدر خیال رکھتے! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ خوبیاں صرف اسی شخص میں اکٹھی ہو سکتی ہیں جسے اللہ وحی کے ذریعے سے محفوظ رکھے، رسالت و نبوت کے ذریعے سے اس کی تائید و حفاظت کرے۔

نبی اکرم ﷺکا اپنے ایک جلیل القدر صحابی سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو نماز بھی پڑھانے پر ڈائٹنا آپ کی عظیم رحمت اور کمال ہمدردی پر دلالت کرتا ہے۔ ہم آپﷺ کو یہ کہتے ہوئے پاتے ہیں:

’’معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہو؟ ‘‘آپ نے تین بار یہ بات دہرائی۔ ’’تم نے﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَیۙ﴾ ، ﴿وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا۪﴾ اور ﴿وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی﴾ کیوں نہ پڑھیں؟ یقیناً تمھارے پیچھے بڑی عمر والے، کمزور اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حدیث: 705)

نبیٔ اکرم ﷺکی سیرت کی پیروی کرنے والا اور آپ کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرنے والا آپ کی رحمت کو محسوس کرتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وَإِذَا رَحِمْتَ فَأَنْتَ أُمٌّ أَوْ أَبٌ     هٰذَانِ فِي الدُّنْيا هُمَا الرَّحَمَاءُ

’’جب آپ رحم کرتے ہیں تو ماں باپ بن جاتے ہیں۔ دنیا میں یہی تو دورشتے ہیں جو رحم کرنے والے ہیں۔‘‘

 میں کہتا ہوں نبی اکرم ﷺماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم و مہربان ہیں کیونکہ آپ ﷺروحانی باپ ہیں جبکہ حقیقی والد جسمانی باپ ہوتا ہے۔ سورہ احزاب میں سید نا ابی بن کعب  رضی اللہ تعالی عنہ کی قراءت یوں ہے:

((وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ هُوَ أَبٌ لَّهُمْ))

’’آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ آپ ﷺان کے باپ ہیں۔‘‘

اگر چہ آپ کے والد آپ کو عدم سے وجود میں لانے کا سبب بنے مگر رسول ہدایتﷺ آپ کو ہمیشہ کی جنت میں بسانے اور معبود برحق کے قرب میں جگہ دلانے کا باعث ہیں۔ اگر چہ آپ کے والد آپ کو کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرتے ہیں مگر نبی ﷺ نے کتاب وسنت کے ساتھ آپ کو زندگی بخشی، اللہ کی رحمت کے ساتھ آپ کو عذاب سے بچایا اور اللہ کے نور کے ذریعے سے ہدایت اور درست بات کی طرف آپ کی راہنمائی کی۔

یقیناً ہمارے رسول ﷺگناہ گاروں کے ساتھ رحمت کرنے اور خطا کاروں کے ساتھ نرمی کرنے کی عمدہ مثالیں قائم کیں۔ جب ایک شرابی کو ایک صحابی نے برا بھلا کہا اور اسے لعن طعن کی تو آپ ﷺ نے رحم کرتے ہوئے فرمایا:

((لَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللهِ! مَا عَلِمْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ))

’’اس پر لعنت نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں تو اس کے متعلق یہی جانتا ہوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحدود، حديث (6780)

ایک صحابی نے زنا کی وجہ سے رجم کی جانے والی عورت کو برا بھلا کہا تو آپﷺ نے فرمایا:

((لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَّوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ )(

’’اس نے ایسی عظیم تو بہ کی ہے کہ اگر اس کی تو بہ مدینہ کے ستر لوگوں میں تقسیم کی جائے تو ان کو کافی ہو جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحدود، حديث: 1896)

بلکہ آپﷺ کی رحمت حشر کے میدان میں بھی نافرمانوں اور گناہ گاروں کے شامل حال ہوگی جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِهِ))

’’قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت پانے والا وہ شخص ہوگا جس نے پورے خلوص سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث: 6570)

لازم بات ہے کہ بہت سے کلمہ گو گناہ گار بھی اس شفاعت سے فائدہ اٹھائیں گے اور وہ معصوم نہیں ہوں گے۔ درود و سلام ہو اس ہستی پر جس کی رحمت دنیا و آخرت دونوں میں گناہ گاروں کے شامل حال ہے۔

آپ ﷺکی رحمت و مہربانی حیوانات اور پرندوں کے لیے بھی ہے۔ آپ نے جانور کا چہرہ داغنے سے منع فرمایا۔ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے چہرے پر مارنے اور چہرے پر داغ لگانے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم، اللباس والزينة، حديث: 2116)

کسی جانور کو دوسرے جانوروں سے نمایاں کرنے کے لیے اس کے چہرے پر آگ سے نشان لگانا وسم کہلاتا ہے۔ رسول اکرمﷺ ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرے کو داغا گیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((لَعَنَ اللهُ الَّذِي وَسَمَهُ))

’’جس نے اس کو داغا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ ‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزينة، حديث: (2117)

آپﷺ نے حیوانوں کے ساتھ برا سلوک کرنے اور ان کی دیکھ بھال میں کو تاہی کرنے سے منع فرمایا۔ سیدنا سہل ابن حنظلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺیک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر پیٹ سے ملی ہوئی تھی، یعنی بھوک کی وجہ سے لاغر تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((اتَّقُوا اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ، فَارْكَبُوهَا صَالِحَةً وَكُلُوهَا صَالِحَةً))

’’ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اچھے طریقے سے ان پر سواری کرو اور انھیں اچھےطریقے سے کھاؤ۔ ‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، ح 2548)

سید نا قره بن ایاس مزنی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو بھی نا اس پر رحم کرتا ہوں یا کہا کہ مجھے بکری ذبح کرتے ہوئے اس پر رحم آتا ہے۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا:

((وَالشَّاةَ إِنْ رَّحِمْتَهَا رَحِمَكَ اللهُ، وَالشَّاةَ إِنْ رَّحِمْتَهَا رَحِمَكَ اللهُ))

’’اگر تم بکری پر رحم کرو گے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔ اگر تم بکری پر رحم کرو گے تو اللہ تم پر حم کرے گا۔‘‘

(مسند أحمد، حدیث: 15592)

نبی اکرم ﷺ نے جانور کو اسی مقصد کے لیے استعمال کی ترغیب دی ہے جس کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’جانوروں کی پشتوں کو منبر بنانے سے بچو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم ان پر سوار ہو کر ایسے شہر میں پہنچو جہاں تمھارے لیے مشقت کے بغیر پہنچنا ممکن نہ تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد حدیث:2567)

نبی اکرمﷺ نے حیوان کو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کرنے سے منع کیا اور اسے حرام ٹھہرایا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما  دولڑکوں کے پاس سے گزرے جو ایک پرندے کو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کر رہے تھے تو ان سے فرمایا: جس نے ایسا کیا، اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ بلاشبہ رسول اکرم ﷺنے ایسے شخص پر لعنت کی ہے جو کسی ذی روح چیز کو باندھ کر نشانہ بازی کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، الصيد والذبائح، حديث: 1958 )

آپ ﷺ نے ضرورت کے لیے جانور کو ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا اور فرمایا:

’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور تمھیں چاہیے کہ چھری تیز کرو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔‘‘  (صحیح مسلم، الصيد والذبائح، حديث:1955)

یہ آپ ﷺ کی رحمت کی دلیل ہے، نیز آپ ﷺ نے جانور کو عذاب دینے سے منع کیا اور فرمایا: ’’ایک عورت کو اس بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس کو اس نے باندھ رکھا تھا حتی کہ وہ مرگئی۔ وہ اس وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔ نہ تو وہ اسے کھلاتی تھی اور نہ پلاتی تھی جبکہ اس نے اسے باندھ رکھا تھا اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3482)

اس کے برعکس جانوروں پر رحم کرنے اور انھیں کھلانے پلانے کا ثواب ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ایک آدمی راستے میں چل رہا تھا۔ اس دوران میں اسے شدت کی پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں پایا۔اس میں اتر کر اس نے پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو اس نے وہاں ایک کتا دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اس کتے کو پیاس سے وہی تکلیف پہنچی ہو گی جو مجھے پہنچی تھی، چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا، اپنے جوتے میں پانی بھرا اور منہ سے پکڑ کر اسے باہر لایا، پھر کتے کو پلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔ ‘‘صحابہ کرام ﷺنے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بھی اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((فِيْ كُلِّ ذَاتِ كَبَدٍ رَطَبَةٍ أَجْرٌ))

’’ تمھیں ہر تر جگر رکھنے والے سے اچھا برتاؤ کرنے کا اجر ملے گا۔‘‘(صحيح البخاري، الأدب، حديث (6009)

غور کریں کہ یہ عبارت ((فِيْ كُلِّ ذَاتِ كَبَدٍ رَطَبَةٍ أَجْرٌ)) اتنی مختصر اور جامع ہے۔ اس میں معانی کی کتنی گہرائی اور وسعت ہے کہ انسان، حیوان اور پرندے بھی اس میں آجاتے ہیں۔ یہ نبی اکرمﷺ کی رحمت، حسن سلوک اور نرمی کی انتہا ہے۔

نبی اکرمﷺ کو عطا کی گئی رحمت کا ایک اور منظر دیکھیں کہ یہ طاہر و پاکیزہ اور صاف ستھرا دل آس پاس کی ہر چیز حتی کہ جانوروں اور پرندوں پر بھی رحم کھاتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ ایک بار ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا۔ جب اس نے نبی ﷺکو دیکھا تو رونی سی آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نبی ﷺاس کے پاس آئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ چپ ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ کس کا اونٹ ہے؟ ‘‘ایک انصاری جوان آیا اور کہا: اللہ کے رسول! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا جس نے تجھے اس کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا اور بہت تھکاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حديث: 2540)

دیکھیے، کیسے آپ ﷺنے اس اونٹ پر رحم کرتے ہوئے اسے مشقت سے نجات دلائی۔

آپ ﷺکا فرمان ہے:

((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَّغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلْ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيْمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ))

’’جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشتکاری کرتا ہے، پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حديث: 2320)

ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے یہ رحیم نبی مبعوث کر کے ہم پر احسان کیا اور ہمیں اس کی سنت کی ہدایت بخشی جو رحمت، لطف و کرم اور نرمی سے بھر پور ہے۔

جہاں تک پرندوں پر آپ ﷺ کی رحمت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں سب سے خوبصورت وہ واقعہ ہے جو سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷺنے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی۔ اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے تو چڑیا آئی اور بچوں کے اوپر ارد گرد منڈلانے لگی۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: ’’کس نے اس کو اس کے بچوں کے بارے میں پریشان کیا ہے؟ اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر) آپ ﷤ﷺنے دیکھا کہ چیونٹیوں کے بڑے بل کو ہم نے جلا ڈالا ہے؟ آپﷺ نے پوچھا: ’’اسے کس نے جلایا ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ہم نے جلایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’آگ کے رب کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں کہ آگ سے عذاب دے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حديث (2675)

جَاءَتْ إلَيْكَ حَمَامَةٌ مُّشْتَاقَةٌ

تَشْكُوْ إِلَيْكَ بِقَلْبِ صَبٍّ وَّاجِفٍ

مَنْ أَخْبَرَ الْوَرْقَاءَ أَنَّ مَكَانَكُمْ

حَرَمٌ وأَنَّكَ مَلْجَأٌ لِلْخَائِفِ

’’ایک بے تاب فاختہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کپکپاتے ہوئے گرویدہ دل کے ساتھ آپ سے فریاد کرنے گئی۔ اس فاختہ کو کس نے بتایا کہ آپ محفوظ پناہ گاہ ہیں اور ہر خوفزدہ کے لیے بہترین جائے پناہ ہیں۔‘‘

جمادات بھی آپ ﷺکی عظیم رحمت و شفقت سے مستفید ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب آپ ﷺ نےخطبے کے لیے نیا منبر استعمال کرنا شروع کیا اور کھجور کے اس تنے کو چھوڑ دیا جس پر آپ دوران خطبہ میں ٹیک لگاتے تھے تو یہ کھجور کا تنا بھی آپ کی جدائی میں رونے لگا۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا غلام بڑھئی ہے۔ کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا لاؤں جس پر آپ بیٹھ جایا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم چاہوتو بنوا سکتی ہو۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے آپ کے لیے منبر بنوا لیا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو نبی ﷺاس منبر پر تشریف فرما ہوئے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ کھجور کا دہ تنا جس کے پاس کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیا کرتے تھے، سسکیاں بھر نے لگا۔ قریب تھا کہ وہ پھٹ جائے، چنانچہ ﷺمنبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ وہ تنا ایسے بچے کی طرح سسکیاں لے کر رونے لگا جسے چپ کرایا جاتا ہے، حتی کہ وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 ((بَكَتْ عَلٰى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ))

’’کھجور کا یہ تنا اس لیے رویا کہ یہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حدیث 2095)

یقیناً نبی رحمتﷺ کتاب رحمت لے کر آئے تاکہ ہمیں ارحم الراحمین ذات کی رحمت کی بشارت دیں اور رحمن کے اس قول کی خبر دیں: ﴿ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ﴾

’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ (الأعراف (156:7)

اور اللہ تعالی کے اس فرمان کے متعلق بتایا:

﴿ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵۴﴾

’’تم پر سلام ہو۔ تمھارے رب نے مہربانی کو اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے۔ بے شک تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برا عمل کرے، پھر اس کے بعد تو بہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الأنعام 54:6)

آپﷺ نے اپنی امت کو بھی اللہ ارحم الراحمین کی رحمت کی بشارت دی، چنانچہ فرمایا:

((لَمَّا قَضَى اللهُ الْخَلْقَ كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي))

’’جب اللہ تعالی نے حقوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنے عرش پر اپنے پاس یہ لکھا: بلا شبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔‘‘ (صحيح البخاري، التوحيد، حديث:7422)

اور آپ ﷺ فرماتے تھے:

((الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمٰنُ، إِرْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمُكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ))

’’رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے۔ تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘(جامع الترمذي، أبواب البر والصلة، حديث (1924)

 رحمت سب سے عظیم ربانی تحفہ ہے جس کی ہمارے رسول ﷺنے اپنی امت کو بشارت دی۔ اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب جو دائی معجزہ ہے، اُس کی ابتدا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہو رہی ہے۔ اسم رحمن کا تکرار قرآن مجید میں بہت زیادہ ہے بلکہ ایک کامل سورت ’’الرحمن‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کتاب عظیم میں رحمت کا ذکر کبھی صفت اور کبھی فعل کے صیغے سے ہوا ہے۔ کبھی اس کا ذکر آیات کے درمیان آتا ہے اور کبھی آیات کے آغاز میں۔ رحمت کے اس کثرت ذکر سے انسان کا دل یقین و رضا، سعادت و بشارت اور اطمینان سے معمور ہو جاتا ہے۔

یقیناً صفت رحمت نبی اکرم ﷺکی حیات مبارکہ میں اس قدر معروف اور اہمیت رکھتی ہے کہ رسالت اور صاحب رسالت رحمتہ للعالمین بن گئے۔ دنیا میں آپ کام کی رحمت و شفقت اور محبت کا یہ فیضان کس قدر خوبصورت ہے!

جب آپ عالمِ طفولیت میں جائیں تو نبی اکرم ﷺکو ایک رحیم و شفیق باپ پائیں گے۔ جب آپ عالم نسواں میں جائیں تو نبی ﷺام کو نہایت لطف و کرم اور قربت اختیار کرنے والا شوہر پائیں گے۔ جب آپ عالم انسانیت میں جائیں تو رسول کریم ﷺکو ایسا حریص امام پائیں گے جو لوگوں کی سعادت کے لیے کوشاں، انھیں نجات دلانے کے لیے سرگرم اور ان کی بہتری کے کاموں کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت تیار ہے کیونکہ آپ ﷺ کا دین سچی بات، دعوت حق اور مخلوق الہی کے لیے رحمت کا نام ہے۔

یقینًا آپﷺ کی رسالت دنیا جہان کے لیے رحمت کا پیغام ہے۔ عقل و دانش والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، گروہ در گروہ اس میں داخل ہوئے۔ قبائل نے مجوق در جوق اسے قبول کیا اور اللہ تعالی نے آپ مزیدار کی رسالت کی برکت سے کائنات میں کئی راہیں کھول دیں کیونکہ آپ کی رحمت دیگر لوگوں کی رحمت سے یکسر مختلف ہے۔ نہ تو یہ باطل کی شان و شوکت کے سامنے ذلت اختیار کرنے کا نام ہے نہ حق کے نفاذ میں مداخلت اور سستی و کاہلی اختیار کرنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی رحمت و نرمی کے باوجود حدود کا نفاذ فرماتے تھے اور مستحق کو سزا دیتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾

’’اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین (پر عمل کرنے) کے معاملے میں تمھیں ان دونوں (زانی اور زانیہ) پر قطعا ترس نہیں آنا چاہیے‘‘ (النور 2:24)

درود و سلام ہوں اس ہستی (س) پر جنھوں نے قوت و رحمت، نری دستی، تنگ دستی و سخاوت اور ہیبت و تواضع کے اوصاف کی تکمیل فرمائی کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکے اخلاق کو کامل بنایا، آپ کے نفس کا تزکیہ کیا اور آپ کی روح کو پاک صاف بنایا۔

………………