محمدﷺ بحیثیت شکر گزار

جو شخص رسول اکرم ﷺکی سیرت پڑھتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ آپﷺ کی زندگی شکر سے بھر پور اور آپ کے شب و روز احسان مندی کی تصویر تھے کیونکہ آپ ﷺآگے پیچھے، دائیں بائیں متواتر اللہ کی نعمتوں کو برستا دیکھتے تھے تو آپ اللہ کی حمد و ثنا اور تقدیس کرتے بلکہ اگر آپ نبیﷺ کی احادیث کا بغور مطالعہ کریں اور آپ کے بتائے ہوئے اذکار اور دعاؤں کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ رب تعالیٰ کی حمد و ثنا، تعریف و کبریائی اور شکر و امتنان سے بھری ہوئی ہیں۔ آپ سب کی ثناء مدرح اور دعا سب حمد باری تعالی پرمشتمل ہیں اور روز قیامت شفاعت کبریٰ میں آپ کو جو مقام ملے گا، وہ بھی مقام حمد ہے۔ اس لیے آپ ﷺکے رب نے آپ سے فرمایا ہے:

﴿عَسٰۤی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝﴾

’’قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے۔‘‘ (بنی اسراءیل 79:17)

یہی وہ  مقام ہے جس میں نبی اکرم ﷺاپنے پروردگار کی ثنا کریں گے جیسا کہ آپ میںﷺ نے فرمایا:

’’میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر جاؤں گا اور جب تک اسے منظور ہوگا، وہ مجھے سجدے ہی میں پڑا رہنے دے گا۔ اس کے بعد ارشاد ہوگا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ۔ تم جو کہو گے اسے سنا جائے گا۔ جو سوال کرو گے تمھیں دیا جائے گا اور جو سفارش کرو گے اسے قبول کیا جائے گا۔ میں اس وقت اللہ تعالٰی کی ایسی تعریفیں کروں گا جو اللہ تعالی مجھے سکھائے گا، پھر سفارش کروں گا تو میرے لیے مخصوص لوگوں کی حد مقرر کی جائے گی۔ میں انھیں جنت میں لے کر جاؤں گا۔‘‘ (صحيح البخاري، التوحيد، حديث: 7410)

یوں حمد خیرات و برکات کی چابی اور خوشیوں کا دروازہ ہے۔ وہ زیادہ ثواب لینے کا راستہ ہے اور اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ اس سے نعمتوں کو پائداری ملتی ہے، برکتیں قائم رہتی ہیں اور حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔ حمد سے نعمتوں کو دوام ملتا ہے۔ رزق میں فروانی ہوتی ہے اور اللہ کی رحمتوں کا پے در پلے نزول ہوتا ہے۔ حمد تمام اعمال کا تاج، وفا کی دلیل اور احسان کی شرط ہے۔ رسول ہدایتﷺ اپنے رب کے مقام و مرتبہ اور اپنے خالق و مولا کے جلال و عظمت کو سب لوگوں سے زیادہ جاننے والے تھے۔ الحمدللہ کا کلمہ آپ کے پاکیزہ، سچے اور شیر یں لبوں سے ایسے ادا ہوتا کہ آپ کے جسم مبارک کا انگ انگ اس میں شریک ہوتا اور آپ کا پورا پاکیزہ بدن اس میں معاون ہوتا۔ جو شخص آپ ﷺکی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ آپ کے جسم مبارک کا ہر عضو رب تعالی کی شکر گزاری میں مصروف رہا۔ آپ ﷺ کا دل شکرگزار، زبان ذکر الٰہی میں مشغول، روح آسمانوں اور زمین میں اللہ کی تسبیح کرنے والی اور اعضاء اپنے رب کی رضا میں مصروف عمل رہتے تھے، لہٰذا آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اپنے رب کے شکر گزار اور اپنے مولا کی سب سے زیادہ حمد کرنے والے تھے۔ آپ کے بعد آنے والے تمام شکر گزاروں نے شکر آپ ﷺسے سیکھا، چنانچہ آپ ﷺ کا دل، زبان اور اعضاء سب رب العالمین کی حمد میں برابر شریک رہتے۔ آپ ﷺنے اسی دن اپنے رب کا دل سے بھی شکر ادا کیا جس دن آپ کو کامل یقین ہو گیا کہ ہر چھوٹی بڑی، نئی پرانی اور ظاہر و باطن نعمت صرف اللہ وحدہ کی طرف سے ہے جو بلند شان والا ہے۔ مؤمن کے نزدیک شکر گزار دل ہونا عبودیت کے ارکان میں سے ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اسے حاصل ہونے والی ہر نعمت صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ سید نا ثوبان  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((لِيَتَّخِذَ أَحَدُكُمْ قَلْبًا شَاكِرًا، وَّلِسَانًا ذَاكِرًا))

’’تم میں سے ہر کوئی شکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان رکھے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، النکاح، حدیث: 1856)

 آپﷺ نے اپنی زبان سے بھی اپنے رب کا شکر کیا اور ہمیشہ اپنے رب کی حمد و ثنا میں مصروف رہے۔ آپ خوشی وغمی، سختی و آسانی اور ہر زمان و مکان میں ہمیشہ رب رحمن کی حمد وثنا کے نغمے گاتے۔ کھانا کھاتے تو اپنے رب کی حمد و ثنا کرتے۔ کوئی مشروب پیتے تو اپنے خالق کا شکر کرتے۔ کپڑے پہنتے تو عطا کرنے والے کی تعریف بجالاتے اور سواری پر سوار ہوتے تو اپنے رب کی نعمت کا اعتراف کرتے۔

آپ ﷺعملی طور پر شکر گزار تھے۔ آپ کے تمام جسمانی اعضاء اپنے رب و مولا کی شکر گزاری میں لگے رہتے بلکہ آپ مشکل ترین اور درد ناک حالات میں بھی اپنے رب کی شکرگزاری سے غافل نہیں ہوئے۔ آپﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ غزوہ احد میں آپ شکست کی حالت میں زخموں سے چور واپس آئے جبکہ آپ کے کئی صحابہ کو شہید کر دیا گیا تھا، آپ کے نورانی چہرے کو زخمی کر دیا گیا تھا اور آپ کا رباعی دانت توڑ دیا گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِيَ عَلٰى رَبِّي))

’’برابر ہو جاؤ یہاں تک کہ میں اپنے رب کی ثنا کروں۔ ‘‘(مسند احمد، حدیث: 15492)

سو نبیٔ اکرم ﷺنے اپنی امت کو شکر کے نہایت لطیف اور پر حکمت معنی سکھائے کہ مصائب پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا پربھی جائے اور اس کی تعریف کی جائے کیونکہ یہ یقین وتسلیم کا اعلی درجہ اور رضا کا سب سے اونچا مقام ہے اور رضا صبر سے ارفع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے معرکہ احد کا ذکر کرنے کے بعد آپ ﷺاور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے شکر کا ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْـًٔا ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْنَ۝﴾

’’اور جو کوئی اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے گا۔ اور اللہ شکر ادا کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘ (آل عمران 144:3)

اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کا شکر اس کی رضا اور مزید نعمتوں کا باعث ہے۔ اللہ تعالی نے سب حمد کرنے والوں سے پہلے خود اپنی حمد کی ہے، تمام شکر گزاروں سے پہلے اپنی ذات کی قدر دانی کی ہے اور تمام شنا کرنے والوں سے پہلے اپنی ذات مقدس کی ثنا کی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ﴾

’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ (الفاتحة 2:1)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕ﴾

’’ساری حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔‘‘ (الكهف 1:18)

اور فرمایا: ﴿وَقُلِ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا﴾

’’اور کہ دیجیے: سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے کوئی اولاد نہیں بنائی۔‘‘ (بنی اسراءیل 111:17)

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺرات کی نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹ جاتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے (ایک مرتبہ ) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام نغزشیں معاف کر دی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ((أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا))

’’تو کیا پھر میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟“ (صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4837)

 آپﷺ نے عمل، عبادت اور قرب و اطاعت کے ساتھ اللہ کے شکر کی ترجمانی کی اور آپ کا شکر محض زبانی، چند رکعتوں کی ادائیگی یا چند درہم صدقہ و خیرات کرنے پر منحصر نہ تھا بلکہ آپ نے عبودیت کی محراب میں قدموں کو تھکا یا، راتوں کو تسبیح، تلاوت قرآن، مناجات اور دعاؤں میں بسر کیا اور رات کے پچھلے پہر جبکہ لوگ آرام کی نیند سوئے ہوتے ہیں، قیام کیا۔ آپ لوگوں کے آرام کے وقت اللہ کے سامنے اتنی دیر کھڑے ہوتے کہ آپ کے پاؤں پھٹ جاتے۔ طویل مناجات اور رکوع و سجود کی کثرت آپ کا شوق تھا۔ آپ نے اللہ کے وعدے ﴿لِيَغْفِر لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ (اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دیں ) کے پیش نظر عمل کو ترک  نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے مزید اطاعت اور بکثرت نوافل ادا کر کے خود کو عبودیت کی چوکھٹ پر ڈال دیا اور اپنی نیند اور آرام کے اوقات بھی اللہ مالک الملک کی مناجات اور شکر میں صرف کیے کیونکہ کرم و احسان کرنے والے کا حق ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور کثرت سے اس کی حمد و ثنا کی جائے۔ وہ اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے۔

آپﷺ اپنے رب کی پے در پے حمد کرتے اور اپنے خالق کی کثرت سے ثنا کرتے، چنانچہ آپ دعا کرتے ہوئے فرمایا کرتے:

((اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنتَ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ فِيهِنَّ))

’’اے اللہ!حمد تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے۔ تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ حمد تیرے ہی لیے ہے۔ تو آسمانوں کا، زمین کا، اور جو کچھ ان میں ہے، سب کا رب ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث: 7499))

آپﷺ کے فرمان ((لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ)) میں اللہ کی ربوبیت پر اس کی حمد ہے کیونکہ وہی خالق، رازق، کائنات میں تصرف اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے جس کی بنا پر وہ اس بات کا مستحق ہے کہ بندے اس کا شکر ادا کریں اور ہمارے رسولﷺ تمام شکر گزاروں میں سرفہرست ہیں۔

اور((لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ)) سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے حاکم و قیوم ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی اصلاح کرے، ان کے معاملات کو چلائے اور ان کی مصلحتوں کا خیال رکھے، چنانچہ آپﷺ کی حمد اس عظیم فضل کے باعث تھی۔

اور ((لَكَ الْحَمْدُ أَنتَ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ)) کا مطلب یہ ہے کہ اس پاک ذات نے آسمانوں اور زمین کو ظاہری اور معنوی نور عطا کیا۔ ظاہری نور سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں سے اور معنوی نور رسول بھیج کر اور کتا بیں نازل فرما کر عطا کیا۔ سو آپﷺ نے اپنے رب کے جلیل القدر اسماء اور مقدس اوصاف کے ساتھ اس کی حمد کی۔ آپ نے بھوک پیاس میں بھی اور سیر و سیراب ہو کر بھی رب تعالیٰ کی حمد کی۔ آپ ﷤نے ہر موقع پر اپنے رب کا شکر ادا کیا اور آپ کا ہر کلمہ  اللہ کی ثنا پر مبنی تھا۔ آپ ﷺنے اپنے قول و فعل سے ہمیں تعلیم دی کہ ہم زندگی کے ہر نشیب و فراز اور تنگی و خوشحالی کا مقابلہ ہرحال میں اللہ کے شکر و امتان اور حمدوثنا کے ساتھ کریں

يا رَبِّ حَمْدًا لَّيْسَ غَيْرُكَ يُحْمَدُ

 يَا مَنْ لَهُ كُلُّ الْخَلَائِقِ تَسْجُدُ

أَبْوَابُ غَيْرِكَ رَبَّنَا قَدْ أُوصِدَتْ

 وَرَأَيْتُ بَابَكَ وَاسِعًا لَّا يُوْصَدُ

’’میرے رب !تیری ہی حمد ہے، تیرے سوا کسی کی حمد نہیں۔ اے وہ ذات کہ ساری مخلوق جس کے سامنے سجدہ ریز رہتی ہے۔ ہمارے پروردگار! تیرے سوا سب کے دروازے بند کر دیے گئے جبکہ میں نے دیکھا ہے کہ تیرا وسیع و عریض دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔‘‘

آپ ﷺپر نازل کی ہوئی کتاب قرآن مجید کا آغاز بھی اللہ کی حمد کے ساتھ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝﴾

’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘(الفاتحة (2:1)

 نبی اکرمﷺ نے مختلف شاندار اور مؤثر الفاظ کے ساتھ اللہ کی حمد کے طریقے بتائے ہیں۔ کبھی آپ فرماتے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ) کبھی ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ﴾ کے الفاظ ادا کرتے اور ایک مقام پر آپ نے فرمايا:

((اللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلالِ وَجْهِكَ وَ عَظِيمِ سُلْطَانِكَ)) ’’اے اللہ! ساری حمد و ثناتیرے ہی لیے ہے جیسے کہ تیرے چہرے کے جلال کے لائق ہے اور تیری عظیم بادشاہت کا تقاضا ہے۔ ‘‘

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرمﷺ میرے پاس سے گزرے جبکہ میں اپنے ہونٹوں کو حرکت دے رہا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’ابوامامہ! کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا: اپنے رب کا ذکر کر رہا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسے ذکر کی خبر نہ دوں جو تمھارے دن کے ساتھ رات اور رات کے ساتھ دان کے ذکر سے زیادہ افضل ہے؟تم کہو:

((سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ، سُبْحَانَ اللهِ مِلْءَ مَا خَلَقَ، سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا فِي الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ، سُبْحَانَ اللهِ مِلْءَ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، سُبْحَانَ اللَّهِ مِلْءَ مَا خَلَقَ، سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا أَحْصٰى كِتَابُهُ، وَسُبْحَانَ اللهِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ، وَتَقُولُ الْحَمْدُ لِلهِ مِثْلَ ذَلِكَ))

’’پاک ہے اللہ تعالی مخلوق کی تعداد کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی مخلوق کے بھراؤ کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی زمین اور آسمان میں موجودات کی گفتی کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی زمین اور آسمان میں موجودات کے بھراؤ کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی اپنی مخلوقات کے بھراؤ کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی اپنی کتاب میں شمار کردہ چیزوں کی گنتی کے بقدر اور پاک ہے اللہ تعالی تمام اشیاء کے بھراؤ کے بقدر، اور اسی طرح تم اسے الحمد للہ کے ساتھ پڑھو، یعنی: ((الْحَمْدُ لِلهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ الْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ مَا خَلَقَ الْحَمْدُ لله ملء ما في السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ….‘‘ (صحيح ابن حبان، حدیث: 830)

آپﷺ نے شکر کی ایک اور نہایت خوبصورت قسم بیان فرمائی اور وہ ہے باری تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار اور ان کا تذکرہ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾

’’اور آپ اپنے رب کی نعمت کو بیان کرتے رہیں۔‘‘ (الضحی 11:93)

نبیٔ اکرمﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس نے بوسیدہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا:

’’کیا تیرے پاس مال ہے ؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِذَا آتَاكَ اللهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ))

’’جب اللہ تعالی تجھے مال دے تو پھر اس کی نعمت اور کرم کا اثر بھی تجھ پر دکھائی دینا چاہیے۔‘‘ (سنن ابی داود، اللباس، حدیث: 4063)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يُّرٰى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلٰى عَبْدِهِ))

’’بلا شبہ اللہ عز و جل پسند کرتا ہے کہ وہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے۔‘‘ (جامع الترمذي، الأدب حديث: 2819)

ان احادیث میں نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو شکر کا یہ طریقہ سکھایا کہ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کیا جائے، ان کا اظہار کیا جائے اور زبان سے انعام کرنے والے کی ثنا کی جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا ؕ اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ۝﴾

’’اور ہم نے اسی طرح لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ (انھیں دیکھ کر) کہیں: کیا ہم میں سے یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہے ؟ (ہاں) کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو  (ان سے) زیادہ نہیں جانتا؟‘‘ (الأنعام 53:6)

آپ ﷺاپنی نیند سے بیدار ہو کر سب سے پہلا جو کلمہ ارشاد فرماتے، وہ اللہ کی حمد پر مبنی ہوتا۔ آپ ﷺ فرماتے: ((الحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَا تَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ))

’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندگی دی اور اسی کی طرف اٹھنا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6312)

آپ ﷺ بے حال کر دینے والی تھکاوٹ کے بعد آرام دہ نیند آنے پر بھی اپنے رب کی حمد بیان کرتے اور اس بات پر بھی اس کی تعریف و ثنا کرتے کہ اس نے روح کو لوٹایا تاکہ آپ خوبصورت دن اور امید و عمل سے بھر پور زندگی کا استقبال کریں، نیز اس صبح کی نعمت پر بھی اپنے رب کی حمد کرتے جس نے پوری شان و شوکت سے کائنات کو ڈھانپ لیا اور اس کی کرنوں نے ہر سو اجالا کر دیا۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

’’جس نے صبح کے وقت یہ کہہ لیا: ((اَللّٰهُمَّ! مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِّعْمَةٍ فَمِنْكَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ فَلَكَ الْحَمْدُ وَلكَ الشُّكر))

’’اے اللہ مجھے جو بھی نعمت حاصل ہے، وہ تجھ اکیلئے ہی کی طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سو تیری ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر ہے۔ ‘‘

تو اس نے اپنے اس دن کا شکر ادا کر لیا اور جس نے شام کے وقت اس طرح کہہ لیا تو اس نے اپنی اس رات کا شکر ادا کر لیا۔‘‘ (سنن أبی داود، الأدب، حديث: 5073)

جو شخص آپ ﷺکی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ آپ کا سارا وقت حمد و مدح ہی میں گزرتا تھا۔ یا تو آپ اللہ تعالی کی لازوال نعمتوں پر اس کا شکر کرتے اور یہ حمد ہے، یا پھر اللہ تعالیٰ کے اوصافِ جلیلہ کے ساتھ اس کی ثنا کرتے اور یہ مدح ہے۔

اسی طرح آپﷺ نے تسبیح اور حمد کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ آپ صبح کے وقت (تین مرتبہ ) کہتے: ((سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ))

’’اللہ پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے اور جتنی اس کو پسند ہے اور جتنا اس کے عرش کا وزن ہے اور جتنی اس کے کلمات کی سیاہی ہے۔‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء حدیث:2726)

آپﷺ کا اپنے رب کے لیے حمد وثنا اور شکر رات سونے تک جاری رہتا۔ جب آپ اپنے بستر پر لیٹتے تو پڑھتے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا فَكَمْ مِّمَّنْ لَّا كَافِي لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ))

’’اللہ تعالی کی حمد ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا (ہر طرح سے ) کافی ہوا اور ہمیں ٹھکانا دیا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کا نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ ٹھکانا دینے والا۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث 2715)

 آپﷺ اپنے رب کی اس بات پر حمد کرتے کہ اس نے سارا دن آپ کو آفات سے محفوظ رکھا۔ اپنی نعمتوں کا سایہ کیے رکھا۔ اپنی پکڑ سے بچایا اور سلامتی والی رات اور آرام دہ نیند تک پہنچایا۔

آپ ﷺ نے اپنے داماد سیدنا  علی رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکو وصیت کی اور نیند سے پہلے ان کی ایک عظیم خزانے کی طرف راہنمائی کی۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’کیا تم دونوں نے جو مجھ سے مانگا ہے، میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ سکھلاؤں؟ جب تم دونوں اپنے اپنے بستروں میں جاؤ تو چونتیس بار اللہ اکبر کہو، تینتیس با ر سبحان اللہ کہو اور تینتیس بار الحمدللہ کہو )یہ (عمل) تم دونوں کے لیے ایک خادم (مل جانے) سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2727)

آپ ﷺ نے تو اچھا خواب آنے پر بھی اللہ کی تعریف اور شکر بجالانا سکھایا ہے کیونکہ یہ خواب بھی ہمارے لیے خاص اللہ کا انعام اور توفیق ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن نعمتوں کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور دن بھر ان سے مستفید ہوتے ہیں، ان کا شکر ادا کرنا کتنا ضروری ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

(( إِذَا رَأٰى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يُحِبُّهَا، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ اللهِ، فَلْيَحْمَدِ اللهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا))

’’جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ صرف اللہ کی طرف سے ہے، لہذا اسے چاہیے کہ وہ اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے اور اس کے بارے میں لوگوں کو بتائے۔‘‘ (صحيح البخاري، التعبير، حديث: 6985)

آپﷺ کی نماز بھی اللہ کی حمد و ثنا سے بھر پور تھی۔ تکبیر سے لے کر سلام تک پوری نماز حمد و ثنا کا مجموعہ ہے۔ آپ ﷺاپنی نماز کا آغاز کرتے تو کہتے:

((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلٰهَ غَيْرُكَ))

’’اے اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں اور تیرا نام بہت بابرکت ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 776)

اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنی عبادت کی توفیق دی اور عبادات میں سب سے عظیم عبادت نماز ہے، چنانچہ عبادات کا آغاز بھی حمد کے ساتھ اور نعمتوں کا اختتام بھی حمد پر ہوتا ہے۔ آپﷺ سورہ فاتحہ جسے نماز قرار دیا گیا ہے، نماز میں پڑھتے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا، لہذا جب بندہ کہتا ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ﴾ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث (395)

سورہ فاتحہ کا آغاز اللہ کی نعمتوں اور نوازشوں پر اس کے شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپﷺ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے فرماتے: ((سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ)) یہ اللہ کی ثنا خوانی اور شکر گزاری کرنے والے کے لیے انتخاب و اعزازہ کی انتہا ہے، لہذا تم شکر گزار اور حمد و ثنا کرنے والے بن جاؤ۔ یقیناً اللہ نے حمد کرنے والے کی حمد سن لی ہے اور جب اللہ تمھاری حمد و ثنا اور شکر گزاری سن لے تو رب العالمین کی طرف سے اس کی جزا اور عزت و تکریم کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! آپ کی عزت و تکریم اور شرف و منزلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آپ رَبَّنَا وَلكَ الكَ الْحَمْدُ کہیں اور رب تعالی اسے سن لے۔ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ کو مکمل غور و فکر سے پڑھیں اور کثرت سے اپنے پاک رب کی حمد کریں۔ یقیناً ً جب اس نے سن لیا تو آپ کو بلندی عطا کرے گا، آپ پر رحم فرمائے گا اور آپ کو بخش دے گا۔ کیا آپ کے لیے شکر الٰہی کا یہ صلہ اور حمد باری تعالی کا یہ بدلہ کافی نہیں ؟!

اسی لیے رسول اکرمﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پڑھتے:

((رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَ مِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ: اللّٰهُمَّ لَا مَا نَعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ))

’’اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے تعریف ہے آسمان بھر، زمین بھر اور ان کے علاوہ جو چیز تو چاہے، اس کی وسعت بھر۔ اے ثنا اور عظمت کے حق دارا (یہی) صحیح ترین بات ہے جو بندہ کہتا ہے اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ اے اللہ! جو کچھ تو عنایت فرمانا چاہیے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو محروم کر دے، وہ کوئی دے نہیں سکتا اور نہ کسی مرتبے والے کو تیرے سامنے اس کا مرتبہ نفع دے سکتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 477)

نبیٔ اکرمﷺ کی اس دعا سے اللہ کی حمد و تعریف اور اس کا شکر و امتنان جھلک رہا ہے اور نعمت کے اعتراف، اس پر اللہ کی حمد وثنا اور شکر کے باب میں یہ دعا سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے۔ سیدنا رفاعہ بن رافع  رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں کہ ہم ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا تو ایک شخص نے بآواز بلند رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طّيِّبًا مُّبَارَكًا فِيهِ، پڑھا۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’یہ کلمات کس نے کہے تھے؟‘‘ وہ شخص بولا: میں نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے کہ کون انھیں پہلے قلمبند کرے۔ ‘‘(صحيح البخاري، الأذان، حديث: 799)

سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا:

((اللهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا وَالْحَمْدُ لِلهِ كَثِيْرًا وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا))

’’اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، بہت زیادہ، اور کسی اللہ ہی کے لیے ہے، صبح و شام ‘‘

رسول اللہ لی ہم نے پوچھا: ’’فلاں فلاں کلمہ کہنے والا کون ہے؟‘‘ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ان پر بہت حیرت ہوئی، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔‘‘

سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا: میں نے جب سے آپ سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے ان کلمات کو بھی ترک نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 601)

آپ ﷺکے اپنے رب کے شکر گزار ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے سجدۂ شکر مسنون ٹھہرایا۔ سیدنا ابوبکرہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کے پاس جب خوشی کی خبر آتی یا آپ کو خوشخبری سنائی جاتی تو آپ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے۔ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث: 2774)

اس میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی نعمت حاصل ہونے پر انسان کو فخر و غرور ہوتا ہے۔ نعمت عطا کرنے والے رب تعالی کے حضور سجدۂ شکر سے بندہ اس خرابی سے بھی بچ جاتا ہے اور اس نعمت کو پیشگی اور دوام بھی نصیب ہوتا ہے۔ یہ شکر کا سب سے خوبصورت انداز اور اللہ کی ثنا کا حسین منظر ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَ هُوَ سَاجِدٌ))  ’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 482)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’جو شخص کھانے کے بعد یوں دعا کرے:

((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمَنِيْ هٰذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنِّي وَلَا قُوَّةٍ ))

’’حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر میری کسی کوشش وقوت کے مجھے یہ رزق عنایت فرمایا۔ ‘‘تو اس کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ ‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4023)

اس میں یہ اعتراف ہے کہ یہ نعمت صرف اللہ کی عطا کی ہوئی ہے اور اس کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے احسان کا اقرار ہے، پھر اللہ کے حضور اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور جب دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو آپﷺ کہتے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُّبَارَكًا فِيْهِ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَّلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ، رَبَّنَا))

’’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، بہت زیادہ، پاکیزہ اور اس میں برکت ڈالی گئی ہے، نہ (یہ کھانا) کفایت کیا گیا ہے کہ مزید کی ضرورت نہ رہے ) اور نہ اسے چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے بے نیاز ہوا جاسکتا ہے، اے ہمارے رب۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حديث: 3849)

’’حَمْدًا كَثِيْرًا طّيِّبًا مُّبَارَكًا فِيْهِ‘‘  کتنا خوبصورت کلمہ ہے تاکہ حمد کی تمام صورتیں اور شکر کے تمام احوال اس میں آجائیں۔ اور غَیرَ مَکْفِیٍّ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا اسے کوئی پورا نہیں کر سکتا اور نہ باری تعالی کی جگہ کوئی دوسرا یہ نعمت دے سکتا ہے اور نہ اللہ کے سوا کوئی انعام کرنے والا ہے۔ وَلَا موذی، یعنی ایسا نہیں کہ ہم یہ نعت لے کر پھر اس کی حمد وثنا اور شکر کرنا چھوڑ دیں گے۔ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا، یعنی ہمیں ہر لمحہ اللہ رب العزت کی شدید ضرورت ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں۔ آپ ﷺ اللہ تعالی کے اس فرمان کا عملی نمونہ تھے:

﴿فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلَلًا طَيِّبًا وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ إِن كُنتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾

’’چنانچہ اس میں سے کھاؤ جو اللہ نے تمھیں حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اور اگر تم واقعی اس کی عبادت کرتے ہو تو اللہ کی نعمت کا شکر کروں۔‘‘ (النحل 114:16)

یہ کتنا آسان عمل، کتنا بڑا انعام اور کتنی اچھی راہنمائی ہے؟!

﴿فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلٰلًا طَيِّبًا﴾

 یہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے لیے انعام اور عطیہ ہے۔ اور ارشاد باری تعالی: ﴿وَاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ میں انعام کرنے والے کا شکر بجالانے کا حکم ہے تاکہ مسلمان کی زندگی مکمل با سعادت اور اطمینان والی ہو اور رازق کا شکر کر کے حصول رزق میں مدد حاصل کی جا سکے، اس لیے آپﷺ ہمیں ان آیات کی یاددہانی کراتے اور حلال کھانے اور اللہ ذوالجلال کا شکر بجالانے کی ترغیب دلاتے تھے۔

سید نا ابو ایوب انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ جب کھاتے یا پیتے تو یہ دعا کرتے: ((اَلْحَمْدُ لِله الَّذِي أَطْعَمَ وَسَقٰى، وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجًا))

’’ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے کھلایا، پلا یا اسے خوش گوار بنایا اور اس کے باہر نکلنے کا نظام بھی بنا دیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حديث (3851)

یہ کلمات سچے شکر اور دلی احسان مندی کی گواہی دیتے ہیں۔ کھانا کھاتے یا پانی پیتے وقت ان کلمات کا تجربہ ضرور کریں بشرطیکہ آپ کا دل اس کا اعتراف کرے کہ اس کی راہنمائی کرنے والا صرف اللہ تعالٰی ہے اور آپ کی زبان پر عطا کرنے والے کے شکر و امتنان اور حمد و احسان کے کلمات ہوں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دل کس طرح یقین سے معمور ہوتا ہے، اطمینان و رضا کا احساس کس طرح اجاگر ہوتا ہے اور آپ کی عافیت اور وقت میں اللہ کیسے برکت پیدا کرتا ہے کیونکہ آپ نے اس کا شکر ادا کیا ہے اور اللہ تعالی شکر گزاروں سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ لَيَرْضٰى عَنِ الْعَبْدِ أَنْ يَّأْكُلَ الْأَكْلَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيهَا))

’’اللہ تعالی اس بات پر (اپنے) بندے سے راضی ہوتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ کھانا کھائے اور اس پر اللہ کی حمد کرے یا پینے کی کوئی چیز ہے اور اس پر اللہ کی حمد کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حدیث: 2734)

چنانچہ شکر گزار اور اللہ کی حمد کرنے والے ہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ﴾

’’ اور جو کوئی دنیا کا ثواب چاہے، اسے ہم اس میں سے دنیا ہی میں دیں گے، اور جو کوئی آخرت کا بدلہ چاہتا ہو، اسے ہم اس میں سے آخرت میں دیں گے، اور ہم شکر ادا کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے۔‘‘ (آل عمران 145:2)

نبی اکرمﷺ جو لباس بھی پہنتے، اس پر اللہ کی تعریف اور شکر کرتے کہ اس نے مجھے یہ لباس عطا کیا ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب کوئی نیا کپڑا حاصل کرتے تو اس کا نام لیتے، یعنی قمیص یا پکڑی وغیرہ اور یہ دعا پڑھتے:

((اللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ))

’’اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے۔ تو نے ہی مجھے یہ پہنایا ہے۔ میں تجھ سے اس کی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس بھلائی کا جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس شر سے جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے‘‘ (سنن ابي داود، اللباس، حديث: 4020)

لباس کی نعمت شاندار نعمتوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور احسان خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶﴾

’’اے بنی آدم! بے شک ہم نے تم پر ایسا لباس نازل کیا جو تمھاری شرمگا ہیں چھپاتا ہے اور زینت کا باعث ہے، اور پرہیز گاری کا لباس بہت بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ (الأعراف 26:7)

رسول اکرمﷺ نے ہمارے لیے مسنون ٹھہر ایا ہے کہ ہم دعا کی ابتدا اللہ کی حمد و ثنا سے کریں، پھر آپ ﷺ سے پر درود پڑھیں کونکہ دعا کرنے والا اپنے رب ہی سے مانگا ہے اور مانگنےسے پہلے مدح سرائی اور ثناخوانی مستحب امر ہے۔ رسول اکرم ﷺنے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے سنا جس نے اللہ کی بزرگی وثنا بیان کی اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تم دعا کر و قبول ہوگی اور مانگو تمھیں دیا جائے گا۔‘‘ (سنن النسائی، السهو، حدیث: 1285)

آپ ﷺفرماتے:

((أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلهِ))

’’سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے افضل دعا الحمدللہ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات. حديث: 3383)

سو آپ ﷺنے حمد کو دعا قرار دیا کیونکہ جس نے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی اور اس کا شکر ادا کیا تو اس نے گویا خود کو اللہ عزوجل کے حضور سوال کے لیے پیش کر دیا اور یہ اللہ کا کرم، جلال اور عظمت ہے کہ جب آپ نے اس کی تعریف یا مدح بیان کی یا اس سے سوال کیا تو آپ نے اس کا شکر ادا کر دیا۔ سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: حمد، دعا کیسے ہوتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: کیا تم نے ابن جدعان کی مدح میں امیہ بن ابی صلت کا یہ قول نہیں سنا:

أَأَذْكُرُ حَاجَتِي أَمْ قَدْ كَفَانِيْ

 حَيَاؤُكَ إِنَّ شِيمَتكَ الْحَيَاءُ

إِذَا أَثْنٰى عَلَيْكَ الْمَرْءُ يَوْمًا

كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ

’’کیا میں اپنی حاجت مندی کا تذکرہ کروں یا پھر میرے لیے تیری حیا ہی کافی ہے؟ بلاشبہ حیا تو تیری عادت ہے۔ جب کسی دن کوئی شخص تیری حمد و ثنا بیان کرتا ہے تو اس کے لیے ثنا گوئی ہی کافی ہو جاتی ہے۔‘‘

 حتی کہ آپ ﷺ بارش طلب کرتے تو بھی خطبے کا آغاز کرتے ہوئے کہتے:

((اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ))

’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کا رب ہے۔ نہایت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ جزا کے دن کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ جو چاہےکرتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1173)

 سو آپ ﷺسوال کرنے سے پہلے اللہ کی حمد کرتے اور مانگنے سے پہلے اللہ کا شکر بجا لاتے کیونکہ نعمتوں کا اعتراف اور ان پر اللہ کی تعریف کرنا قبول دعا اور بارش کے نزول کے اسباب میں سے ایک عظیم سبب ہے۔

آپ ﷺاپنے خطبے کا آغاز اللہ کی حمد سے کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے:

((إِنَّ الْحَمْدَ لِلهِ، نَحْمَدُهُ، وَنَسْتَعِيْنُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا))

’’ہر قسم کی تعریف اللہ تعالی کے لیے ہے۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ہم اس سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس سے بخشش مانگتے ہیں۔ اور اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ (سنن النسائي الجمعة، حديث: 1405)

شکر کے عظیم عبادت ہونے کے باعث ہی رسول اکرم ﷺنے اسے آغاز کلام میں رکھا ہے تاکہ لوگوں کے کانوں میں سب سے پہلے اللہ کی حمد کی آواز ٹکرائے اور حاضرین کے دلوں میں شکر کے جذبات پیدا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

جس شخص نے کسی مبتلائے مصیبت کو دیکھا اور کہا: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلٰى كَثِيْرٍ مُمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيْلًا)) ’’شکر اس اللہ کا جس نے مجھے اس دکھ سے عافیت بخشی جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیات بخشی۔‘‘

تو اسے وہ دکھ نہیں پہنچے گا۔ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث:3432)

اس آزمائش کا آپ سے دور ہو جانا ایسی عظیم نعمت ہے جو شکر کا تقاضا کرتی ہے اور نبی اکرم ﷺنے ہمیں اس موقع پر یہ دعا سکھائی اور ہمیں چاہیے کہ آزمائش میں مبتلا شخص کا خیال رکھتے ہوئے اسے یہ نہ سنائیں اور آپ کا شکر آپ اور آپ کے رب کے درمیان ہو جس نے آپ کو یہ نعمت عطا کی اور اس آزمائش اور مصیبت میں مبتلا ہونے سے آپ کو بچایا، یعنی چپکے سے یہ دعا پڑھیں۔

آپﷺ چھینک آنے پر بھی اپنے رب کی حمد وثنا اور شکر کرتے تھے کیونکہ وہ صحت و عافیت کی علامت ہے حتی کہ بہت سے ڈاکٹر حضرات مریض کو چھینک آنے پر اسے صحت یابی اور شفا پانے کی بشارت دیتے ہیں۔ دیکھیے کسی طرح دلوں کے طبیب محمدﷺاور جسمانی ڈاکٹر ایک ہی بات پر متفق ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی چھینک مارے تو وہ الحمد للہ کہیے۔ اس کا بھائی یا ساتھی يَرْحَمُكَ الله کہے۔ جب اس کا ساتھی يَرْحَمُكَ الله کہے تو چھینکنے والا جواب میں: يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ کہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6224)

جب آپ ﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپ نے عجز و انکسار سے اپنا سر جھکا لیا حتی کہ آپ کی داڑھی آپ کی سواری کے کجاوے سے لگ گئی جیسا کہ صحیح احادیث میں مروی ہے۔ آپﷺکا مقصد تواصع، انکسار اور اپنے رب کی شکر گزاری تھا۔ آپ فتح وغلبہ کےموقع پر بھی اپنے مولا کی تعریف اور اس کے فضل کا اعتراف کر رہے تھے۔ جب آپ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو حرم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آپﷺ نے اس وقت بھی پہلا جملہ یہی کہا:

((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ صَدَقَ وَعْدَهُ، وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ))

’’ہر تعریف اس اللہ کی ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے ہی نے لشکروں کو شکست دی۔‘‘ (سنن النساني، القسامة حديث: 4799)

آپﷺ کے اس جملے نے پوری کائنات کو بھر دیا اور پوری زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ ﷺنے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ یہ عظیم نصرت اور فتح مبین صرف اللہ کی مدد و معاونت اور توفیق و راہنمائی سے حاصل ہوئی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’بلاشبہ مومن ہر حال میں خیر اور بھلائی پر ہوتا ہے۔ اس کی جان اس کے دونوں پہلوؤں کے درمیان سے نکلتی ہے تو بھی وہ اللہ عز وجل کی حمد کر رہا ہوتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 2475)

نبی ﷺکو دیکھیں کہ آپ غم والم اور مصیبت کے وقت بھی کسی طرح اللہ کی حمد کرتے تھے کیونکہ اللہ کا فیصلہ اور پسند نہایت مناسب اور خوبصورت ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جب اللہ کے کسی بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ وہ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کر لیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ وہ فرماتا ہے: اس نے (اس حادثے پر کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد بیان کی اور إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹ جانے والے ہیں) پڑھا۔ تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک عالی شان گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف و شکر کا گھر ) رکھ دو۔‘‘ (جامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1021)

اللہ تعالی نے مصیبت کے وقت حمد و تعریف کرنے کی وجہ سے اپنے بندے کو ثواب اور بدلہ دیا، اس لیے سختی، مصیبت اور پریشانی میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا عظیم عبادت ہے۔ نعمت کے حصول پر شکر بجا لا نا تو عام اور تسلیم شدہ بات ہے مگر اس سے زیادہ سچی بات یہ ہے کہ آپ پر مشکل وقت اور کٹھن لمحات آئیں تو بھی آپ اللہ کی حمد و ثنا کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ یہ عبودیت کا وہ مقام ہے جس کی توفیق صرف نیکو کاروں اور صالحین کو ملتی ہے۔

آپ ﷺنے نعمت پر شکر کرنے کی توفیق ملنے کو ایک دوسری نعمت قرار دیا ہے جس کا مزید شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((مَا أَنْعَمَ اللهُ عَلٰى عَبْدٍ نِّعْمَةً فَحَمِدَ اللهَ عَلَيْهَا، إِلَّا كَانَ ذٰلِكَ الْحَمْدُ أَفْضَلَ مِنْ تِلْكَ النِّعْمَةِ))

’’اللہ تعالی کسی بندے کو کوئی نعمت عطا کرے اور وہ اس پر اللہ کی حمد کرے تو اس کی یہ حمد یقیناً اس کی اس نعمت سے افضل ہے۔‘‘ (المعجم الكبير للطبراني: 228/8)

اور ایک روایت میں ہے:

((مَا أَنْعَمَ اللهُ عَلٰى عَبْدٍ نِّعْمَةً فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ، إِلَّا كَانَ الَّذِي أَعْطٰى أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذَ))

’’جب اللہ بندے کو کوئی نعمت دیتا ہے اور بندہ الحمد للہ کہتا ہے تو بندے نے جو (شکر) ادا کیا، وہ ملنے والی نعمت سے افضل ہوتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الأدب، حديث: 3805)

آپﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک عجیب نکتہ اور اہم پیغام سمجھایا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’اے معاذ اللہ کی قسم! مجھے تم سے محبت ہے۔ پھر فرمایا: ’’اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا:

((اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))

’’اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہترین انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔‘‘ (سنن ابی داود، الصلاة، حديث (1522)

ابن حبان کی روایت میں ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺکے جواب میں فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ کی قسم میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ (صحیح ابن حبان، حدیث: 2020)

یہاں مدح کے قصیدوں اور محبت کی داستانوں کی انتہا ہو جاتی ہے جب نبیﷺ نے سید نا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: يَا مُعَاذُ! وَاللَهِ! إِنِّيْ لَأُحِبُّكَ. اس عظیم امام کی طرف سے اپنے کسی پیروکار کی اس سے زیادہ تکریم، محبت اور عزت افزائی کیا ہو سکتی ہے ؟!

اس عزت افزائی اور قرب کے اظہار کے بعد آپ ﷺانھیں سب سے عظیم وصیت اور قیمتی تحفہ عطا کرتے ہیں جو دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے۔ اس دعا میں محل استشہاد اور مقصود کلمہ وَ شُکْرِكَ ہے، یعنی میں تجھے سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مدد و نصرت فرما کہ تیری عطا کی ہوئی نعمتوں، عطیات اور ہدایت کی توفیق پر میں کما حقہ شکر ادا کر سکوں اور جب اللہ تعالی نے اپنے ذکر اور شکر پر آپ کی مدد کر دی تو آپ زمین کی ہر نعمت، دنیا کے سارے خزانے اور انسانی دسترس کی ہر چیز بھول جائیں گے۔

عصر حاضر کے علماء کا کہنا ہے کہ کسی شخص کی کامیابی و کامرانی میں کثرت سے شکر کرنے کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ اس سے شکر گزار کو مزید حوصلہ اور بہت ملتی ہے۔ شکر گزار کو بیماری پر قابو پانے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ جب صبر و شکر ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو اللہ کے حکم سے ایک ایسی دوا تشکیل پاتی ہے جو بہت سے پیچیدہ نفسیاتی امراض کا علاج ہے۔

مغربی سکالرز نے بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ کے شکر و احسان مندی سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اہل مغرب کی نظر میں جب ایسا ہے تو جس کے پاس آسمانی، ربانی اور نبوی وحی ہو، اس کا عالم کیا ہوگا ؟

ان اہل علم کے انکشافات سے چودہ سو سال پہلے ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں یہ تعلیمات دی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ﴾

’’بلا شبہ اس میں ہر بڑے صابر شاکر کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ (لقمان 31:31)

اللہ تعالیٰ نے مصائب پر صبر اور نعمتوں پر شکر کا ذکر قرآن میں ایک ساتھ کیا ہے اور ہمارے رسول اہم ہمیشہ ہمیں شکر وحمد کی ترغیب دیتے رہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:

((اَلْحَمْدُ لِلهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ))

’’الحمد للہ میزان کو بھر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الدعوات، حدیث: 3517)

آپ﷜ ﷺنے تسبیح کو میزان کے دونوں پلڑوں میں پھیلا دیا لیکن جب حمد پر آئے، جو کہ شکر کے ساتھ اللہ کی حمد دثنا اور تعریف کا نام ہے تو بتایا کہ یہ میزان کو بھر دیتی ہے۔ کون سی میزان؟ وہ میزان بھی رحمٰن کی ہے جس کی شان نہایت بلند ہے۔ ایسی میزان جو آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

’’جس نے دل سے ﴿اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ کہا، اس کے لیے تیس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے تیس گناہ مٹا دیے جائیں گے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 8012)

اللہ کے ہاں حمد کی قدر و منزلت کی وجہ سے یہ کلمہ دیگر تسبیحات کے کلموں سے عظیم تر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

تَمَلَّكَ الْحَمْدَ حَتَّى مَا لِمُفْتَخِرٍ

فِي الْحَمْدِ حَاءٌ وَّلَا مِيمٌ وَّلَا دَالٌ

’’وہ اکیلا ہی سزاوار حمد ہے، یہاں تک کہ کسی بھی فخر کرنے والے کے لیے حمد کی حاء بچی ہے اور نہ میم اور دال‘‘

 بلکہ رسول اکرمﷺ نے شکر کے کئی شعبے اور بہت سے دروازے بتائے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((لَايَشْكُرُ اللهَ مَنْ لَّا يَشْكُرُ النَّاسَ))

’’وہ شخص اللہ کا شکر گزار بھی نہیں ہوتا جو لوگوں کا شکریہ ادا نہ کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث (4811)

جیسے احسان کرنے پر محسن کا شکر ادا کرنا، والدین کا شکر ادا کرنا، میاں بیوی کا ایک دوسرے کا شکر گزار رہنا، اولاد کا شکر ادا کرنا، دوست کا شکر ادا کرنا اور ہر اس شخص کا شکر ادا کرنا جس کا ہم پر کوئی حق ہو، یہ سب اطاعت کے زمرے میں آتے ہیں اور مزید سعی و کاوش، حصول ثواب، شرح صدر اور کثرت اجر پانے پر ابھارتے ہیں۔

آپﷺ نے اپنی سنت، سیرت اور قول و فعل کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ عز وجل کا شکر اس کی رضاء برکات، عطیات اور مزید نوازشات کے حصول کا باعث ہے، نیز نعمتوں کی حفاظت ان کا شکر ادا کرنے سے ہوتی ہے اور نا قدری و ناشکری سے نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ آپ کے شکر ادا کرنے کے حساب سے آپ کا رب آپ کو نوازے گا۔ آپ جتنا زیادہ شکر ادا کریں گے، اتنی ہی زیادہ نعمتیں ملیں گی اور جتنی ناشکری کریں گے، اس کے مطابق نعمتوں میں کمی آئے گی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَ زِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ﴾

’’اور جب تمھارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں مزید دوں گا اور اگر تم کفر کرو گے تو بلا شبہ میرا عذاب یقیناً بہت شدید ہے۔‘‘ (إبراهيم 7:14)

اللہ جل شانہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ شکر گزاروں کو مزید نعمتیں عطا کرتا ہے اور جو ان نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کرے، اس سے نعمتیں چھین لیتا ہے۔

آپ ﷺنے حمد کا سب سے خوبصورت منظر ہمارے سامنے بیان کیا ہے اور باری تعالیٰ کے فرمان سے ہمیں آگاہ کیا ہے:

﴿ وَ تَرَی الْمَلٰٓىِٕكَةَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ قِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠۝﴾

’’اور آپ فرشتوں کو عرش کے ارد گرد حلقہ بنائے دیکھیں گے، جبکہ وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کر رہے ہوں گے۔ اور ان (لوگوں) کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا: سب تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘ (الزمر 75:39)

کتنا خوبصورت منظر اور کتنا عظیم کلمہ ہے جب یہ نیکو کار ہمیشہ کے گھر جنت میں قیام پذیر ہو جائیں گے اور ایسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے جن کا انھوں نے بھی سوچا ہوگا نہ مشاہدہ کیا ہوگا اور نہ سنا ہوگا بلکہ ان کے وہم وگمان اور تصور میں بھی نہیں ہوگا۔ وہ اپنے کریم و پاک رب کے چہرے کی زیارت کریں گے اور اس عظیم ربانی انعام و اکرام کے بدلے میں وہ اپنا جو عمل پیش کریں گے، وہ یہ ہوگا:

﴿اَلْحمْدُ لِلهِ الَّذِيْ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزْنَ﴾

’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔‘‘ (فاطر 34:35)

یہ کتنا عظیم کلمہ ہے جو ابرار و صالحین آزمائشوں اور پریشانیوں کے گھر سے نکلنے اور رب ِکریم کے ہاں نعمتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہیں گے۔ وہ اس مقدس ٹھکانے پر خوش ہوں گے اور ان کے دلوں کی گہرائی سے یہ خوبصورت، لطیف اور شیر یں کلمہ نکلے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے۔ آمین!

………………..