محمدﷺ بحیثیت امانت دار

شریعت اسلامیہ میں بلند اور اعلیٰ صفات کے لیے امانت ایک بنیادی قاعدے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ رسالت محمد یہ کا ایک عظیم اخلاق اور اس کی مضبوط اساس ہے۔

امانت کا مطلب صرف مال کی حفاظت نہیں بلکہ اس کا مفہوم نہایت وسیع ہے۔ اقوال، اعمال، اعتقادات اور اخلاقیات بھی اس میں شامل ہیں۔

انبیاء  علیہم السلام کی جلیل القدر صفات میں ایک صفت امانت بھی ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا:

﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ﴾

’’ بلاشبہ میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں۔‘‘ (الشعراء 143:26)

بادشاہت اور حکمرانی کے لیے بھی سب سے بڑی شرط امانت ہے، جیسا کہ عزیز مصر نے سیدنا یوسف علیہ السلام  سے کہا:

﴿إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ﴾

 یقینًا آج تو ہمارے ہاں بڑے مرتبے والا ، امانت دار ہے۔‘‘ (یوسف 54:12)

اللہ کے نبی ہود علیہ السلام خود کو اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

﴿اُبّلِغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِينٌ﴾

’’میں اپنے رب کے پیغامات تمھیں پہنچاتا ہوں اور میں تمھا را خیر خواہ اور امین ہوں۔‘‘ (الأعراف 68:7)

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے وصف میں کہا گیا ہے :

﴿قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ؗ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ۝﴾

’’اے ابا جان! اسے نوکر رکھ لیجیے۔ بلاشبہ بہترین شخص، جسے آپ ملازم رکھیں، وہی ہو سکتا ہے جو طاقتور ہو، امانت دار ہو۔‘‘ (القصص (26:26)

امانت میں سب سے زیادہ شہرت ہمارے رسول، اولاد آدم کے سردار محمد بن عبد اللہ ﷺنے پائی۔ آپ ﷺ

شرفِ نبوت ملنے سے پہلے اور بعد میں امین مشہور ہوئے۔ قریش کو آپ کی امانت داری اور سچائی کا اس حد تک اعتراف تھا کہ آپ اس صفت میں ضرب المثل تھے حتی کہ جب قبائل قریش کے درمیان حجر اسود نصب کرنے پر تنازع کھڑا ہوا تو انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو شخص اب حرم میں سب سے پہلے آئے گا، اس سے فیصلہ کرائیں گے۔ جب انھوں نے   نبی ﷺ کو دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے: امین آگئے محمد آگئے، ہم آپ کے فیصلے کو بخوشی منظور کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’میرے پاس ایک کپڑا لاؤ۔ لوگ فوراً ایک کپڑا لائے۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اُس کپڑے میں رکن، یعنی حجر اسود کو رکھا اور فرمایا : ہر قبیلے والے اس کپڑے کے کنارے پکڑیں اور اُس کو اٹھا کر دیوار کے پاس لے چلیں۔ جب وہ وہاں لے آئے تو آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے اٹھا کر دیوار میں رکھ دیا۔ پھر اس کے اوپر دیوار اٹھادی گئی۔‘‘ (السيرة النبوية لابن هشام)

آپ ﷺکی امانت داری ہی سیدہ خدیجہ سے شادی کا باعث بنی۔ آپ ﷺ کی امانت داری کی شہرت کے بعد انھوں نے رسول اکرم ) کو شام کی طرف اپنے مال تجارت پر امین مقرر کیا۔ یہ آپ ﷺکی بعثت سے پہلے کی بات ہے۔ اپنے رب کو گواہ بنا کر بتائیں کہ اس امانت کا معیار اس وقت کتنا بلند ہو گا جب اللہ تعالی نے آپ کو جہان والوں کے لیے نبی اور اّن پڑھوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا؟!

بعثت کے بعد تو آپ ﷺ کی امانت داری کی گواہی دوستوں سے پہلے دشمنوں نے دی۔ ہر قل کا ابوسفیان سے مکالمہ ہوا تو اس نے کہا: ’’اور میں نے تم سے پوچھا ہے کہ کیا اس نے کبھی غداری کی ہے تو تم نے کہا ہے کہ وہ غداری نہیں کرتا۔ اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں کہ غداری اور خیانت نہیں کرتے۔‘‘ (صحيح البخاري، بدء الوحي، حديث : 7)

 امانتوں کی ادائیگی اور مشکل ترین حالات اور بحرانوں میں حق والوں کو ان کے حقوق ادا کرنے میں آپ ﷺضرب المثل ہیں۔ قریش کی اذیتوں کے باوجود بھی آپ نے ہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی ادائیگی کا اہتمام کیا اور اس کے بارے میں سخت فکر مند تھے۔ اس کام کے لیے سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور امانتیں ان کے مالکان تک پہنچانے کی تاکید کی۔

اور جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا اور آپ نے وہ چار نو مسلم سرداروں کی دل جوئی کے لیے ان میں تقسیم کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا اور اس پر اعتراض کیا۔ آپ ﷺ نے قطعی دلیل کے ذریعے سے لوگوں کو لاجواب کر دیا اور عقل و دانش والوں سے ایک سوال کرتے ہوئے فرمایا:

((أَلَا تَأْمَنُوْنِيْ وَ  أَنَا أَمِيْنٌ مَنْ فِيْ السَّمَاءِ، يَأْتِيْنِيْ خَبْرُ السَّمَاءِ صَبَاحاً وّ مَسَاحًا))

’’کیا تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے، حالانکہ میں آسمان والے رب کا امین ہوں۔ صبح و شام میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث : 4351)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  ان سے روایت ہے، آپﷺ نے فرمایا :

’’اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹتا ہوں اور اپنے بستر پر یا اپنے گھر میں ایک کھجور پڑی پاتا ہوں، میں اسے کھانے کے لیے اٹھاتا ہوں، پھر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ صدقہ نہ ہو یا صدقے میں سے نہ ہو تو میں اسے وہیں رکھ دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حديث: 1070 )

سب سے عظیم امانت جو آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی، وہ رسالت کی امانت ہے۔ آپ نے اسے سچائی کے ساتھ اٹھایا اور حق کے ساتھ ادا کیا۔ اس کی راہ میں آنے والی ہر اذیت برداشت کی۔ اس کی تبلیغ میں ہر مشتقت اٹھائی۔ اسے نہایت خوبصورت طریقے سے پہنچایا اور نہایت اچھے انداز میں ادا کیا جس طرح امانتیں ادا کی جاتی ہیں اور پیغام رسالت پہنچایا جاتا ہے۔ آپ نے تیر تلوار، زبان و بیان اور دلیل و برہان کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچایا اور اس کی راہ میں اپنی جان، مال، خون، پسینہ، محنت و کوشش اور دن رات سب کچھ لگا دیا۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک جہان والوں کو یہ امانت ادا نہیں کر دی جیسا کہ آپﷺ نے خطبہ الوداع میں فرمایا تھا:

’’اے لوگو! میں تمھارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ تعالی کی کتاب۔ اور تم سے روز قیامت میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے ؟‘‘ سب صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ بے شک آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی۔ پھر  آپ ﷺ  نےاپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے رہے اور فرمایا: ’’اے اللہ ! گواہ رہنا۔ اے اللہ! گواہ رہنا۔ اے اللہ! گواہ رہنا۔‘‘ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

ہم چودہ صدیوں کے بعد بھی ان گواہی دینے والوں کے ساتھ گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے اس اعلان میں سچے تھے اور آپ نے یہ امانت ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالی آپ ﷺ کو ہماری طرف سے بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔ اس چیز کی جزا جو آپ نے محنت و مشقت کی اور جان و مال کی قربانی دی۔ اور آپ ﷺ کے لیے صرف وہ جزا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو میدان عرفہ میں حج اکبر کے دن عزت کا یہ تاج پہنا کر عطا کی:

﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنً﴾

’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ (المائدة 3:5)

آپ ﷺنے نہایت امانت سے اپنے اعضاء کی حفاظت کی۔ امت کو بھی اپنے اعضاء کی حفاظت کا درس دیا۔ دل، دماغ ، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤس اور تمام اعضائے جسم پر اللہ تعالی کی نگرانی کا احساس اجاگر کر کے امت کا تزکیہ کیا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ابن آدم کے متعلق زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا گیا ہے۔ وہ لازمًا اسے حاصل کرنے والا ہے۔ پس دونوں آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا بات کرنا ہے اور دل تمنا رکھنا ہے اور خواہش کرنا ہے اور شرم گاہ ان تمام باتوں کی تصدیق کرتی ہے، اسے عملاً سچ کر دکھاتی ہے اور حرام کا ارتکاب ہو جاتا ہے یا وہ اس کی تکذیب کرتی ہے اور عملاً زنا سے بچاؤ ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 2657)

آپ ﷺ کے ہر لفظ ولہجہ اور تمام حرکات و سکنات پر امانت کا راج تھا۔ آپ کی ہر ادا اور ہر عضو آپ کے امین و پاکیزہ ہونے کی گواہی دیتے تھے۔

آپ کی عظیم امانت داری میں یہ بات بھی ہے کہ آپ اپنی بھی زندگی کے جو اسرار و رموز پوشیدہ رکھنا پسند کرتےتھے، ان کے متعلق بھی جب وحی آگئی تو آپ نے کھول کر امت کے سامنے بیان کر دیے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ  اس بات کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺکچھ چھپانے والے ہوتے تو سیدہ زینب ﷺ کی شادی والا معاملہ چھپاتے۔ کہتے ہیں کہ سیدہ زینب یا دوسری ازواج مطہرات پر فخر کرتے ہوئے کہتی تھیں: تمھاری شادیاں تمھارے گھر والوں نے کیں اور میری شادی اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر سے کی۔

ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے طریق سے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت:

﴿ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَی النَّاسَ﴾

’’اور آپ اپنے دل میں وہ بات (لے پالک کی مطلقہ سے نکاح) چھپاتے تھے جسے اللہ تعالی ظاہر کرنا چاہتا تھا، اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے۔‘‘ (الأحزاب 37:33)

سیدہ زینب اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے میں نازل ہوئی۔ (صحيح البخاري، تفسير القرآن حديث : 4787)

سید نا عبد الله بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں جب اللہ تعالی نے آپﷺ سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿عَبَسَ وَتَوَلّٰی﴾ تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے سورہ عبس کی تلاوت کی، حالانکہ اس میں رسول اکرمﷺ کے اجتہاد کی وجہ سے آپ پر عتاب کیا گیا کیونکہ آپ نے نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ سے بے رخی برتی تھی۔

اسی طرح غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقوں کا عذر قبول کرنے کی وجہ سے بھی اللہ تعالی نے آپ پر عتاب کیا اور  آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر سب لوگوں کے سامنے اس عتاب الہی کا ذکر کیا اور لوگوں کو باری تعالٰی کا فرمان پڑھ کر سنایا: ﴿عَفَا اللهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ )

’’اللہ نے آپ کو معاف کر دیا۔ آپ نے انھیں اجازت کیوں دی ؟‘‘ (التوبة 43:9)

آپ ﷺنے نہ تو کوئی حرف چھپایا نہ کسی لفظ کی تبدیلی کی بلکہ پوری امانت و صداقت اور وضاحت سے فرمان الٰہی بتا دیا۔

آپ ﷺمیاں بیوی کا کوئی خاندانی مسئلہ مخفی رکھنا چاہتے تھے لیکن وحی کے ذریعے سے اسے کھول کر بیان کر دیا گیا تا کہ شکوک و شبہات ختم ہو جائیں اور آپﷺ کے رب نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

﴿ وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَ اَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ﴾

’’اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے ایک بات چھپا کر کہی، پھر جب اس (بیوی) نے (دوسری کو ) وہ (بات) بتادی اور اللہ نے وہ (گفتگو) اس (نبی) پر ظاہر کر دی تو اس نے اس میں سے کچھ (اس بیوی کو ) بتائی اور کچھ رہنے دی۔‘‘ (التحریم 3:66)

نبیٔ اکرم ﷺنے لوگوں کے سامنے ان آیات کی تلاوت فرمائی تاکہ امت قیامت تک ان کی تلاوت کرتی رہے حتی کہ بعض دلی جذبات اور طبعی میلانات جن کا اظہار آپ اپنے احباب کے سامنے کرنا بھی مناسب نہ سمجھتے، وحی ان کو ظاہر کر دیتی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْـًٔا قَلِیْلًاۗۙ۝۷۴﴾

’’اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلا شبہ  یقینًا قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتے۔“ (بني اسراءيل 74:17)

 یہ وحی نازل ہونے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور بلا تر در تمام لوگوں کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی۔

اگر یہ امانت کی ادائیگی نہیں تو پھر امانت کی ادائیگی کیا ہے؟ کیا کا ئنات میں نبی اکرم ﷺکے سوا کوئی شخصیت ہے جس کے دشمن اسے برا بھلا کہیں۔ طرح طرح کی گالیاں بکیں۔ اعلیٰ و معزز شخصیت کو داغدار کرنے کے لیے مختلف الزامات عائد کریں۔ کبھی کاہن کہیں، کبھی مجنون و دیوانہ کہ کر پکاریں۔ کبھی جادوگر ہونے کا طعنہ دیں کبھی مختلف الزامات عائد کریں۔

کبھی اللہ تعالی پر جھوٹ گھڑنے والا کہیں اور کبھی یہ الزام لگائیں کہ وہ  اپنی طرف سے باتیں بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی نے ان سب باتوں سے اسے محفوظ بھی رکھا ہو، پھر وحی ان کی ساری گالیوں کا ذکر کرے اور آپ اسے نماز میں پڑھیں، اپنی تلاوت کا حصہ بنائیں، پوری سچائی اور ایمانداری سے اس وحی الہی اور پیغام باری تعالی کومن و عن حرف بحرف، تحریف و مبدل اور کمی بیشی کے بغیر لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں کو یہ فرامین اچھی پڑھ کر سنائیں؟؟ آپﷺ نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی: ﴿ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ﴾

’’اور بلاشبہ  یقینًا ہمیں بخوبی علم ہے کہ بے شک وہ کہتے ہیں:  یقینًا اس (نبی) کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔“

(النحل 103:16)

ایک موقع پر اللہ سبحانہ کا یہ فرمان سنایا: ﴿وَقَالُوْا أَسَاطِيْرُ الْأَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تَمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا﴾

 ’’اور انھوں نے کہا: یہ اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے اپنے لیے لکھوائے ہیں، اور وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان 5:25)

اور اس ارشاد باری تعالی کی تلاوت کی: ﴿ وَ یَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍؕ۝۳۶﴾

’’اور وہ کہتے : کیا بھلا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر چھوڑ دیں؟‘‘ (الصّٰفّٰت 36:37)

انسانی مزاج اور بشری طبیعت ہے کہ ہم نقص و عیب کی ہر بات چھپاتے ہیں۔ دشمن کے الزامات اور گالیوں کا کسی کے سامنے ذکر نہیں کرتے۔ اس کے برعکس اگر کوئی ہماری تعریف کرے یا ہمیں کوئی کامیابی ملے تو ہم اس کا سب کے سامنے تذکرہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی زبان سے اپنی تعریف سنتا پسند کرتے ہیں۔ لیکن رسول اکرم ﷺکے بشری مزاج پر یہ غالب تھا کہ آپ اپنے رب کی طرف سے آنے والی ہرونی کو دوسروں تک پہنچا دیتے تھے، خواہ اس میں تعریف ہوتی یا سرزنش ہوتی یا اس میں دشمنوں کی ہرزہ سرائیوں اور الزامات کا ذکر ہوتا۔ آپﷺ کا ایک ہی مقصد تھا کہ اللہ تعالی کی وحی دوسروں تک پہنچا دی جائے۔

آپ ﷺ کی امانت داری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ امانتوں اور حقوق کی حفاظت فرماتے اور اپنے قول و فعل سے اس کی ترغیب دیتے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا، أَدَّى اللهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا، أَتْلَفَهُ اللهُ))

’’جو شخص لوگوں سے مال اس نیت سے لیتا ہے کہ وہ اس کی ادائیگی کرے گا تو اللہ تعالی اسے ادا کرنے کی توفیق دے گا اور جو شخص لوگوں کا مال ضائع کر دینے کے ارادے سے لے گا تو اللہ تعالی بھی اس کو تباہ و برباد کر دے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستقراض، حديث: 2387)

اور  آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَدِّ الأَمَانَةَ إِلٰى مَنِ انْتَمَنَّكَ وَلَا تَحْنْ مَنْ خَانَكَ))

’’جو تمھارے پاس امانت رکھے، اسے اس کی امانت پوری کی پوری لوٹا دو اور جو تمھارے ساتھ خیانت کرے تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، البيوع، حديث: 3534)

مالی لحاظ سے آپ ﷺ کے عظیم امانت دار ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ آپ امت کے امام اور سلطنت کے سربراہ تھے مگر جب دنیا سے گئے تو ایک درہم یا دینار بھی بطور وراثت نہ چھوڑا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ﴿لَا نُوْرَتُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ﴾

’’ہماری کوئی وراثت نہیں ہوتی۔ ہم جو چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، فرض الخمس حدیث:3093)

قومی سرمائے کی حفاظت اور اس سے کچھ نہ لینے کے سلسلے میں اس سے بڑی امانت داری کیا ہو گی کہ  آپ ﷺ نے ایک درہم یا دینار بھی نہیں لیا ؟؟

آپ ﷺ نے خرید و فروخت میں ہمیں امانت کی تعلیم دی اور یہ بتایا کہ مومن دھوکا اور خیانت نہیں کرتا، چنانچہ سیدنا ابو ہر ہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا۔ آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غلے کے مالک!یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول ! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو تم نے اس (بھیگے ہوئے غلے ) کو اوپر کیوں نہ رکھا  تا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حدیث : 102)

آپ ﷺ نے خبر دی کہ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے: ((أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا))

’’میں دو شریکوں کا تیسرا ہوتا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے۔ اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں۔“ (سنن أبي داود، البيوع، حدیث: 3383، إسناده ضعیف)

آپ ﷺ نے فرمایا:

((ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجَلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفٰى مِنْهُ، وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ))

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور اسے توڑ دیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔ اور تیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری اسے نہیں دی۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث: 2227)

آپ ﷺ نے اپنے صحابہ اور پیروکاروں کو سکھایا کہ وہ سب اللہ تعالی کی نگرانی میں ہیں۔ بہت معمولی اشیاء میں بھی انھیں امانت کی ادائیگی ملحوظ رکھنی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ۝۷وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠۝۸﴾

’’پھر جس نے ذرہ بھر بھلائی کی ، وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی، وہ بھی اسے دیکھ لےگا‘‘ (الزلزلة99: 7،8)

آپﷺ نے ہر کام پوری دیانت داری سے کرنے کا حکم دیا۔ ہر ذمہ داری پوری امانت سے نبھانے کی نصیحت کی، خواہ وہ ذمہ داری عوامی نوعیت کی ہو، جیسے صدارت و وزارت یا ذاتی نوعیت کی ہو، جیسے کام کاج اور دیگر گھر یلو ذمہ داریاں وغیرہ۔

آپﷺ نے زندگی کے ہر معاملے کو امانت قرار دیا جس کے متعلق روز قیامت باز پرس ہوگی۔  آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تم سب نگہبان ہو اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ جو لوگوں کا امیر ہے وہ ان کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ سن لو! تم سب نگہبان ہو اور سب سے اس کی نگہبانی کے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري العتق، حديث: 2554)

آپ ﷺنے فرمایا:

((مَا مِنْ عَبْدِ اسْتَرْعَاهُ اللهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحْطْهَا بِنَصِيْحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ))

’’جب اللہ تعالی کسی بندے کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، الأحكام، حديث: 7150)

آپ ﷺ نے اس شخص پر بھی تنقید کی جس نے اجتہاد سے سرکاری مال میں سے کچھ رکھ لیا، جیسا کہ سید نا ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :

رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کو بنی سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے عامل بنایا۔ ان کا نام ابن لتبیہ تھا۔ جب وہ واپس آئے اور نبی کریم ﷺنے ان کا حساب لیا تو انھوں نے سرکاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کے متعلق کہنے لگے: یہ مجھے تحفے میں ملا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس پر فرمایا: ’’پھر کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہے۔ اگر تم سچے ہو تو وہیں یہ تحفہ تمھارے پاس آجاتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الحيل، حدیث:6979)

آپ ﷺ نے یہ واضح فرمایا کہ عہدہ قرض ہے، مال غنیمت نہیں اور ذمہ داری، امانت ہوتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:

((يَا أَبَا ذَر، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَ إِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَ إِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌّ وَ نَدَامَةٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا))

’’ابوذ را تم کمزور ہو، اور یہ (امارت ) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہوگی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی، اسے اچھی طرح ادا کیا تو وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہوگا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 1825)

نبی ﷺ نے ہر کام اور زندگی کے ہر شعبے میں امانت کو مسئولیت قرار دیا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلًا أَنْ يُّتْقِنَهُ))

’’بلا شبہ اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی ایک کام کرے تو اسے اچھے طریقے سے کرے۔“ (السلسلة الصحيحة، حديث: (1113)

آپ ﷺ نے اپنے عمل و کردار سے سکھایا کہ ہم نے اللہ کے حضور پیش ہو کر امانت و ذمہ داری کا حساب دینا ہے۔ اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے ایمان اور امانت کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے گویا وہ یکجان دو قالب ہیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: ((لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهُ))

’’جو شخص امانت دار نہیں، اس کا ایمان بھی قابل اعتبار نہیں اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا ، اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 12383)

آپﷺ نے گفتگو کو بھی امانت قرار دیا اور بتایا کہ اس کے متعلق بھی قیامت کے دن پوچھا جائے گا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جب کوئی شخص کسی آدمی سے کوئی بات کرے، پھر ادھر اُدھر مڑ کر دیکھے تو وہ امانت ہے (اسے ظاہر نہیں کرنا چاہیے )۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4868)

آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِّضْوَانِ اللهِ، لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُ اللهُ بِهَا دَرَجَاتٍ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِِ ، لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ))

’’بندہ اللہ تعالی کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے درجے بلند کر دیتا ہے۔ اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہوتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔ ‘‘(صحیح البخاري، الرقاق، حديث: 6478)

آپﷺ نے زبان کے خطرات سے خبردار کیا اور بتایا کہ اگر یہ حق امانت ادا نہ کرے تو اس کے نہایت خطرناک نتائج سامنے آئیں گے، اس لیے صرف حق بات ہی زبان پر لائی چاہیے جس سے رب تعالی راضی ہو۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’کیا میں تجھے اس چیز کے بارے میں بھی بتلا دوں جو ان سب کو کنٹرول کرنے والی ہے؟‘‘  میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے جوابًا اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا: ”اسے اپنے اوپر روک کر رکھنا۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا ہماری باتوں کی وجہ سے بھی ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’معاذ! تیری ماں تجھے گم پائے ! لوگوں کو آگ میں ان کے مند، یا نتھنوں کے بل گرانے والی ان کی زبانوں کی کاٹ ہی تو گی۔‘‘ (جامع الترمذي، الإيمان، حديث: 2616)

الفاظ و کلمات کی امانت کی ایک صورت گواہی اور اس میں اللہ تعالی کی حکمرانی کا احساس ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

﴿إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ﴾

’’سوائے ان کے جنھوں نے حق کی گواہی دی، اور وہ علم بھی رکھتے ہیں۔‘‘ (الزعرف 86:43)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا یا آپ سے کبائر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ کسی کی ناحق جان لینا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتا دوں ؟‘‘  فرمایا: ’’جھوٹی بات۔‘‘ یا فرمایا: ”جھوٹی گواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔“ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 5977)

الفاظ و کلمات کی امانت کی ایک صورت میاں بیوی کے ازدواجی امور کی حفاظت کرنا بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ  نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَةِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَ تُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا))

’’بلاشبہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں امانت کے حوالے سے سب سے بڑے (سنگین) معاملات میں سے اس آدمی کا معاملہ ہوگا جو خلوت میں بیوی کے پاس جائے اور وہ اس کے پاس آئے، پھر وہ بیوی کا راز ظاہر کر دے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1437)

ایمانداری کا مسئلہ آپﷺ کی ہر تقریر کا اہم جز ہوتا تھا۔ آپ ﷺکتاب و سنت کی وحی کے ذریعے سے اس کی دعوت دیتے اور امت کی تربیت کرتے کہ زندگی کے ہر معاملے میں رب تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کریں:

﴿  فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ ؕ﴾

’’پھر جس شخص پر اعتبار کر کے اس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہو، اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت واپس ادا کر دے اور اپنے رب اللہ سے ڈرے۔‘‘ (البقرة 283:2)

آپﷺ نے ہمیں باری تعالی کا یہ فرمان پہنچایا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۲۷﴾

’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو، اور نہ تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو جبکہ تم جانتے ہو۔‘‘ (الأنفال (27:8)

اور یہ بتایا کہ خیانت نہایت برا چلن اور گھٹیا اخلاق ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ﷢﴾

’’بے شک اللہ خیانت (بد عہدی) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الأنفال 58:8)

 آپ ﷺ نے بتایا کہ خیانت نفاق کا ایک بنیادی جز اور نشانی ہے اور مومن کبھی خیانت نہیں کرتا، چنانچہ  آپ ﷺ نے فرمایا:

((آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ))

’’منافق کی علامتیں تین ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو امانت میں خیانت کرے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 33)

 آپ ﷺنے فرمایا:

’’چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ پکا منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی منافق ہی ہے، جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ وہ یہ ہیں: جب اسے امین بنایا جائے تو امانت میں خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اورجب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 34)

آپ ﷺ نے امانت کا ضیاع قیامت کی علامت قرار دیا، جیسا کہ ایک شخص نے آپ سے قیامت کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَا نَتَظِرِ السَّاعَةَ))

’’اور جب امانت کا ضیاع ہونے لگے تو تو قیامت کا انتظار کر۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث:59)

 اللہ تعالی نے امانتوں کی حفاظت کرنے اور حقوق ادا کرنے والے مومنوں کو جنت الفردوس کی خوشخبری دی ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ۝۸ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ۝۹ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ۝۱۰ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱﴾

’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (المؤمنون23: 8۔11)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

تَاجُ الْأَمَانَةِ فَوْقَ رَأْسِكَ يَلْمَعُ

وَعَلَى جَبِينِكَ شَمْسُ حَقٍّ تَسْطُعُ

صُنْتَ الرِّسَالَةَ مُخْلِصًا لِّأَدَائِهَا

وَاللهُ يَشْهَدُ وَالْخَلَائِقُ تَسْمَعُ

’’(اے نبیﷺ!) آپ کے سر پر امانت کا تاج چمک رہا ہے جبکہ آپ کی پیشانی پر حق کا سورج جلوہ افروز ہے۔ آپ نے الوہی پیغام کو خلوص کے ساتھ آگے پہنچا کر محفوظ بنایا۔ اس کا گواہ اللہ تعالیٰ ہے اور مخلوق سن رہی ہے۔‘‘

………………….