محمدﷺ بحیثیت اصلاح کرنے والے

اصلاح کرنا انبیاء و رسل  علیہم السلام کا منہاج اور دستور ہے۔ سب سے پہلی اصلاح توحید باری تعالی کی دعوت دینا، خوشخبری سنانا، ڈرانا، حجت قائم کرنا اور راہ ہدایت واضح کرتا ہے تاکہ افراد اور معاشرے صراط مستقیم پر گامزن ہوں اور ان کے اچھے اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفظ ہو۔

بلا شبہ نہیں سلام کا منہج ِاصلاح جو عصمت اور مقدس وحی پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِيْنِيَ الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي وأَصْلِحْ لِي آخِرَتِيَ الَّتِيْ فِيْهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ))

’’اے اللہ میرے دین کو درست کر دے جو میرے ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اور میری دنیا کو درست کر دے جس میں میری گزران ہے۔ اور میری آخرت کو درست کر دے جس میں میرا لوٹنا ہے۔ اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2720)

اللہ تعالی نے اصلاح کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿إِنَّا لَا نُضِيْعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ﴾ ’’بے شک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ ‘‘ (الأعراف 170:7)

اور اللہ تعالی نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کی بات ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ﴾ ’’میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک مجھ سے ہو سکے۔‘‘ (ھود 88:11)

اور جب موسی  علیہ السلامنے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنایا تو انھیں نصیحت کی:

﴿ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ۝﴾

’’تو میری قوم میں میرا جانشین بن جا اوران کی اصلاح کرنا اور  فساد کرنے والوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا۔‘‘ (الأعراف 142:7)

خاتم المرسلین ﷺزندگی کے تمام شعبوں میں جامع اور عدل پر مبنی اصلاح کرنے کے لیے آئے اور قیامت تک اصلاح کرنے والوں کے امام و پیشوا بن گئے۔

آپﷺ اس لیے تشریف لائے تاکہ اللہ کے حکم سے دلوں کی اصلاح کریں اور ان سے کینہ، بغض اور عدادت ختم کریں۔ آپ ﷺنے اصلاح کا آغاز ہی دلوں سے کیا کیونکہ وہ اصلاح کی اساس اور بنیاد ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَلا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ))

’’سن لو! بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا۔ ا ہے۔ جب وہ ٹھیک ہوتا ہے تو سارا بدن ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہوا وہ  ٹکڑا دل ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حدیث:52)

 آپﷺ نے عقلوں کی اصلاح کی جو فاسد تصورات، گراہ عقائد و نظریات، انحرافات اور برے خیالات سےبھری ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس فطرت کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جس پر اللہ تعالی نے انھیں پیدا فرمایا اور شیاطین نے گمراہ کر کے انھیں اس سے دور کر دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ﴾

’’اللہ کی فطرت (اختیار کرد) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی جائز نہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔‘‘ (الروم 30:30)

آپ نے عملاً جامع اصلاح کا آغاز انفرادی طور پر کیا اور ایک ایک انسان پر توجہ دی کیونکہ فرد کی اصلاح ہیں سے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ﴾

’’بے شک اللہ اس حالت کو نہیں بدلتا جو کسی قوم پر طاری ہو، حتی کہ وہ خود اسے بدل لیں جو ان کے دلوں میں ہے۔‘‘ (الرعد11:13)

آپ نے بالترتیب فرد، خاندان، معاشرے اور امت کی اصلاح کی۔ آپ نے اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور جہان والوں کے لیے نمونہ ہے۔ آپ نے اپنے چچا سیدنا عباس  رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ سود ختم کیا جو انھیں لوگوں سے لینا تھا اور بنو عبد المطلب کے ایک لڑکے کا خون معاف کیا، چنانچہ فرمایا:

’’اسی طرح جاہلیت کے خون بھی جو ایک دوسرے کے ذمے چلے آ رہے ہیں معاف ہیں۔ آج کے بعد ان کا کوئی قصاص ہو گا، نہ دیت۔ ہمارے جو خون بہائے گئے، ان میں سے سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں، وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا ہے جو بنو سعد کے ہاں دودھ پی رہا تھا اور اسے قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا۔ اسی طرح جاہلیت کے تمام سود بھی معاف ہیں۔ اور سب سے پہلا سود جو میں معاف کرتا ہوں، وہ ہمارے خاندان کا سود ہے، یعنی میرے چچا عباس بن عبد المطلب ہی کا سود وہ پورے کا پورا معاف ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث (1218)

اصلاح کی خاطر آپﷺ اپنے ذاتی حق سے بھی دستبردار ہوئے تاکہ اتفاق قائم رہے اور فتنہ ختم ہو جائے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی اکرمﷺ  رئیس المنافقين عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی مجلس کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ گدھے پر سوار تھے۔ آپ ﷺ کے چند صحابہ بھی اس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ابن ابی نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے گدھے کے بارے میں مذمتی الفاظ کہے تو ایک انصاری اٹھا اور اس نے عبد الله بن ابی کو جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کے گدھے کی بو تیری بو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یہ سن کر عبد اللہ کی قوم کا ایک فرد  غصے میں آگیا تو اس نے اس انصاری کو گالی دے دی۔ پھر ہر ایک کے ساتھی غصے میں آ گئے۔ اہل ایمان اور منافقوں کے درمیان خاصا جھگڑا ہو گیا۔ رسول اکرمﷺ سواری سے اترے اور معاملہ رفع دفع کیا۔ لوگوں کے جذبات ٹھنڈے کیے۔ آپ ﷺکو اس منافق کی طرف سے جو اذیت پہنچی، آپ نے اس پر معاشرے کے امن وسکون کی خاطر خاموشی اختیار کی اور اسے بحران سے بچایا۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا﴾

’’اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘ (الحجرات 9:49)

آپﷺ نے لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کی عمدہ مثالیں قائم کیں۔ آپ اہل ایمان کے درمیان، اہل ایمان اور منافقوں کے درمیان، اہل ایمان اور اہل کتاب کے درمیان، اہل ایمان اور مشرکوں کے درمیان صنع کراتے۔ آپ ﷺ اپنی حکمت و دانائی، نبوی عصمت اور ربانی رہبری سے میاں بیوی، دوستوں اور پڑوسیوں کے آپس کے جھگڑے ختم کراتے۔ آپ ﷺ ہر اصلاحی کام نہایت کامیابی اور مہارت سے انجام دیتے جس کے نہایت عمدہ نتائج نکلتے۔ جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کراتے، فتنوں کو دباتے، اختلافات ختم کراتے صلح کو بگاڑ پر ترجیح دیتے اور حق لینے پر اصرار کی بجائے عفو درگزر سے کام لیتے۔

آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بھی جوڑا جن کے دلوں میں باہم کدورتیں اور نفرتیں تھیں۔ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کو نیکی کا سب سے عظیم دروازہ اور اطاعت کا سب سے جلیل القدر راستہ قرار دیا کونکہ اس سے دل جڑتے ہیں۔ انھیں تسکین ملتی ہے۔ اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے اور فتنوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۱۱۴﴾

’’ان کی اکثر خفیہ سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر جو شخص صدقے یا نیکی یا لوگوں کے درمیان صلح کا حکم دے تو یہ اچھی بات ہے۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے، تو ہم اسے جلد بہت بڑا اجر عطا کریں گے۔‘‘ (النساء 114:4)

اور آپ نے فرمایا: ((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يُحِبُّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ))

’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث: 13)

آپﷺ نے ہمیشہ وحدتِ امت کا درس دیا۔ انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ گروہ بندی اور باہمی جھگڑوں کا خاتمہ کیا تاکہ معاشرہ مضبوط و مستحکم ہو۔ جب اصلاح مفقود ہو تو قو میں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ معاشرے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ دولت ضائع ہوتی ہے۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور عزتیں پامال ہوتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَلا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾

’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ہمت ہار بیٹھو گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ‘‘ (الأنفال 46:8)

 اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((ترَى الْمُؤْمِنِيْنَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكٰى عُضْوًا تَدَاعٰى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهْرِ وَالْحُمّٰى))

’’تم اہل ایمان کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے سے شفقت کے ساتھ پیش آنے میں ایک جسم کے مانند دیکھو گے جس کے ایک عضو کو اگر تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث 6011)

آپﷺ نے ایک مثال کے ذریعے سے اصلاح کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور وہ جو ان میں بہتا ہو گیا ہو، ان لوگوں کی کی ہے جنھوں نے ایک کشتی کو بذریعہ قرعہ تقسیم کر لیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا حصہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی میں سوراخ کر لیں تو اچھا ہو گا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت و تکلیف کا باعث نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں اگر اوپر والے نیچے والوں کو ان کی مشاورت کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔“ (صحيح البخاري، الشركة، حديث: 2493)

آپﷺ ہمیشہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرانے کی کوشش میں رہتے کیونکہ صلح سے محبتیں بڑھتی ہیں۔ جھگڑوں سے نجات ملتی ہے جو زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں، خون خرابے کو ہوا دیتے ہیں اور عداوتوں اور نفرتوں کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے بھی اصلاح کا حکم دیا ہے اور اسے ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَأَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾

’’اور تم آپس میں اپنی اصلاح کر لو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔‘‘ (الأنفال 1:8)

 اور جب رسول اکرم ﷺکو علم ہوا کہ اہل قبا آپس میں لڑ پڑے ہیں اور ایک دوسرے کو پتھر مارے ہیں تو آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ((إِذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ بَيْنَهُمْ))

’’ہمیں لے چلو، ہم ان کے درمیان صلح کرا ئیں۔‘‘ (صحيح البخاري، الصلح، حديث (2693)

اور آپ ﷺنے اپنے صحابہ سے فرمایا:

’’کیا میں تمھیں روزے، نماز اور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ میںﷺ نے فرمایا:

((صَلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ))

’’آپس کے میل جول اور روابط بہتر بنانا۔ اس کے برعکس آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا بے شک دین کو مونڈ دینے والی خصلت ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4919)

ایک روایت میں یوں مروی ہے: ((الْحَالِقَةُ، لَا أَقُولُ: تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ))

’’جو مونڈنے والی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ بالوں کو مونڈ دیتی ہے، بلکہ دین کو مونڈتی ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القيامة، حديث: 2510)

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

’’کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے۔ اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لیے اور وہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“ (صحيح البخاري، الأدب، حديث 6077)

اور ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا:

’’جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا سوائے اس بندے کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ عداوت ہو، چنانچہ کہا جاتا ہے: ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دوحتی کہ یہ صلح کر لیں۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة، حديث 2565)

مفسرین نے آپ ﷺ کے اوس و خزرج کے درمیان صلح کے واقعے کا ذکر بھی کیا ہے اور درج ذیل ارشاد باری کی شان نزول بھی یہی ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ۝﴾

‎’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوا اگر تم اہل کتاب کے ایک فریق کی بات مانو گے تو وہ تمھارے ایمان لانے کے بعد تمھیں پھر کافر بنا دیں گے۔‘‘ (آل عمران 100:3)

شیطان نے اوس اور خزرج کے انصاریوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کر دیا۔ انھوں نے ایک یہودی کی شرارت سے جاہلیت کا نعرہ بلند کیا اور اسلحہ اٹھا کر مدینے سے باہر لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ نبی اکرم ﷺکو اس کی خبر ہوئی تو آپ چند صحابہ کے ساتھ دوڑتے ہوئے ان کے پاس گئے اور ان کی صفوں کے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اے مسلمانوں کی جماعت! اللہ اللہ…. کیا جاہلیت کے نعرے، جبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں !؟ اللہ نے تمھیں اسلام کی ہدایت دی ہے۔ اس کے ساتھ تمھیں عزت دی ہے۔ جاہلیت کے معاملات سے خلاصی بخشی ہے۔ کفر سے نجات عطا کی ہے اور اسلام کے ساتھ تمھارے درمیان الفت پیدا کی ہے۔ کیا تم اس کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹنا چاہتے ہو؟‘‘

پھر آپ ﷺنے انھیں اسلام کی نعمت کا احساس دلایا تو ان کی روحوں کو قرار آیا اور آنکھیں کھلیں اور پھر وہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں:

﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۰۳﴾

’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو، اور تم اپنے آپ پر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی) بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پھر اس نے تمھیں اس ( میں گرنے) سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ (آل عمران 103:3)

آپﷺ نے یہ چند باتیں ہی کی تھیں کہ تلواریں میانوں میں چلی گئیں، شدید غصہ، خوشی اور سکون میں بدل گیا اور سختی، محبت کے آنسو دس میں تبدیل ہو گئی۔ وہ گلے ملے اور آپس میں شیر و شکر ہو کر بھائیوں کی طرح مدینہ واپس گئے۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کو بنو عمرو بن عوف کے اختلافات اور جھگڑے کا علم ہوا تو آپ فوراً ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ نماز ظہر کا وقت ہو گیا اور سیدنا بلال  رضی اللہ تعالی عنہ نے اقامت بھی کہہ دی مگر آپﷺ صلح کرانے میں مصروف رہے۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز پڑھانے کے لیے سیدنا ابوبکر ہی کو آگے کیا۔ یہ سب آپ نے صلح کی اہمیت اور عظیم قدر و منزلت کی بنا پر کیا۔ آپ کے پیش نظر اس کا عظیم اجر اور بہت بڑے شر کا خاتمہ تھا لوگوں کے درمیان صلح کی خاطر آپ تو کام نے خلاف واقعہ بات کرنے کی بھی اجازت دی ہے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: ((لَيْسَ الكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا))

’’ جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی خاطر اچھی بات منسوب کرتا ہے یا اپنی طرف سے خیر کی بات کرتا ہے، وہ ہرگز جھوٹا نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2692)

چنانچہ صلح کرانے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک دوسرے سے لڑے ہوئے لوگوں کے بغض و کینہ کو ختم کرنے، ان کے دلوں کو جوڑنے اور ان کے دلوں میں دوستی و محبت پیدا کرنے کے لیے خلاف حقیقت بات ہے۔

آپ ﷺکی اصلاح عمومی اور خصوصی دونوں طرح کی ہوتی تھی۔ آپ ﷺ پہلے بڑے مسائل، جیسے خون، عزت، فتنوں اور جنگوں کے حوالے سے اصلاح کرتے اور پھر دو جھگڑنے والوں کے آپس کے معاملات کی اصلاح فرماتے حتی کہ گھر کے معمولی معاملات میں بھی صلح کراتے۔ آپ ﷺنے تو قرض کے لین دین میں اختلاف کرنے والے دو لوگوں کے درمیان بھی صلح کرائی جیسا کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ابن ابی حدود رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں مسجد کے اندر اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آواز میں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے گھر میں سن لیا۔ آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اور اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو آواز دی: ’’اے کعب!‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدها قرض معاف کر دو۔ سیدنا کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایسا کر دیا۔ آپ نے مقروض سے فرمایا: ’’اٹھو اور باقی ماندہ قرض ادا کر دو۔‘‘ (صحيح البخاري، الصلح، حديث (2710)

اس طرح آپ ﷺ نے تمام لوگوں کے درمیان صلح کرائی اور ان کی جان، مال اور عزت کو ایک دوسرے کے لیے محترم قرار دیا اور اس کے لیے ایک مستقل دستور اور ضابطۂ حیات دیا تاکہ ان کی زندگی کی اصلاح ہو، چنانچہ آپ نے فرمایا: ((كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ))

’’ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حديث (2564)

اور آپﷺ نے فرمایا: (فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ))

’’اور میرے بعد پھر کا فرمت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:121)

نبیﷺ کی بعثت سے پہلے وہ فقر و فاقہ، بھوک، خوف اور انتشار کی زندگی گزار رہے تھے، آپ کی بعثت سے اللہ تعالی نے ان کی زندگی خوش حال کر دی۔ انھوں نے کئی علاقے فتح کیے۔ کئی شہر آباد کیے اور ایک ایسی تہذیب قائم کی جس کی سرحدیں چین، ہندوستان، سائبیریا، افریقہ کے جنگلات اور یورپ کے مضافات تک پھیل گئیں اور اس میں ہر طرف عدل و رحمت، درگزر اور سلامتی کا دور دورہ تھا۔

جن مشرکوں نے آپﷺ کو اذیت دی، برا بھلا کہا، مکہ سے نکالا اور آپ کے ساتھ بار بار جنگ کی، آپﷺ نے ان کے ساتھ بھی نہ صرف صلح حدیبیہ کی بلکہ قتل و غارت کو روکنے اور فتنوں کے سد باب کے لیے ان کی جارحانہ شرائط بھی قبول کیں۔

آپ ﷺنے مدینہ طیبہ آنے کے فوراً بعد یہود سے مصالحت کی جسے عصر حاضر میں ’’پر امن بقائے باہمی دستاویز‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آپ کا مقصد ان کی ایذا رسانیوں کو روکنا اور ان کے کینے اور بغض کو ختم کرنا تھا۔ آپ نے اس وقت تک ان سے جنگ نہیں کی جب تک انھوں نے معاہدہ توڑ کر غداری نہیں کی۔ جس صلح میں شعائر اللہ کی حرمت و تعظیم اور لوگوں کے درمیان سلامتی کی فضا قائم کرنے کا اعلان کیا گیا آپ ﷺنے اس کی طرف نہ صرف ہاتھ بڑھایا بلکہ آگے بڑھ کر اسے منطقی انجام تک پہنچایا۔

آپ ﷺنے خاندانی نظام کی اصلاح فرمائی جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور اس کا کوئی ضابطہ و دستور نہ تھا۔ آپﷺ نے نکاح کے بعد سے وفات تک نہایت درست ربانی خاندانی نظام تشکیل دیا۔

یہ آپ ﷺ کی اسلامی شریعت کا امتیاز ہے کہ کسی بچے کے ماں باپ کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے لے کر اس بچے کی پیدائش، بڑھا ہے اور اس کی وفات تک زندگی کے ہر لمحے میں اس کا خیال رکھا کیونکہ اسلام بڑھاپے اسلامی خاندان کی تشکیل اور اس کے خد و خال کی تعیین میں ہر فرد کی ذمہ داری کو واضح کرنا معاشرے کی تشکیل، قومی یکجیتی اور آبادکاری کے لیے لازمی ہے۔

آپ ﷺنے خاندان کو امن و استحکام اور مودت و رحمت کی مضبوط لڑی میں پرو دیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً﴾

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔‘‘ (الروم 21:30)

آپ ﷺنے بیوی کے راز افشا کرنا اور اس کے خفیہ امور کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا حرام قرار دیا، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِندَ اللهِ مَنْزِلَةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلُ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْصِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا))

’’قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے، پھر وہ آدمی اس کا راز افشا کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث (1437)

آپ ﷺنے ازدواجی زندگی کی بنیاد شراکت داری، رواداری اور ہم آہنگی پر رکھی۔ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اور نرمی کی تعلیم دی۔ سفر سے واپسی پر اچانک بغیر اطلاع دیے گھر آنے سے منع فرمایا تاکہ کوئی نا گوار صورت حال پیش نہ آئے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷜ﷺرات کو اچانک گھر والوں کے پاس نہیں آتے تھے۔ آپ صبح آتے یا شام کو۔‘‘ (صحیح البخاري، أبواب العمرة، حديث: 1800)

اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے پیشگی اطلاع دیے بغیر رات کو اچانک گھر آنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاري، أبواب العمرة، حديث: 1801 )

آپ ﷺنے مدینہ کے دو غلام میاں بیوی سیدنا مغیث اور سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالی عنہما کے درمیان صلح کرانے کی بھی کوشش کی۔ یہ واقعہ صیح بخاری میں مذکور ہے۔

آپﷺ اصلاحی مسائل کی خود نگرانی فرماتے۔ آپ کی عظیم خیر خواہی، کمال رشد و ہدایت اور امت پر رحمت و شفقت کے باعث ایسے معلوم ہوتا کہ صلح کا معاملہ آپ کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا معاملہ ہے۔ فتنے کوختم کر کے دو دلوں کو اللہ کی اطاعت پر جوڑ نا اللہ تعالی کے ہاں رات کے قیام اور گرمیوں کے روزوں سے بھی افضل ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا ۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا۝۳۵﴾

’’اور اگر تمھیں دونوں (میاں بیوی میں جھگڑے کا ڈر ہو تو ایک شخص مرد کے کہنے سے اور ایک عورت کے کہنے سے منصف مقرر کرو، اگر وہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں (میاں بیوی) میں موافقت پیدا کر دے گا، بے شک اللہ بہت علم والا، خوب خبردار ہے۔‘‘ (النساء 35:4)

﴿ وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۝۱۲۸﴾

’’اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم و زیادتی یا نظر انداز کیے جانے کا اندیشہ ہو تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں کسی طرح صلح کر لیں۔ اور صلح ہی اچھی ہے۔ اور انسانی نفسوں میں بخیلی رکھی گئی ہے۔ اور اگر تم احسان کرو اور پر ہیز گار ہو تو بے شک تم جو بھی عمل کرتے ہو، اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔‘‘ (النساء 4: 128)

سید نا سہل بن سعد ساعدی  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے ناموں میں سب سے پسندیدہ ابوتراب تھا۔ جب انھیں ابوتراب کہہ کر بلایا جاتا تو بہت خوش ہوتے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا کہ ہمیں ابوتراب کی وجہ تسمیہ بتائیں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی کو گھر میں نہ پاکران سے پوچھا: تمھارے چچا زاد کہاں گئے؟ انھوں نے عرض کی: ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔ وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں۔ انھوں نے میرے ہاں قیلولہ دوپہر کو آرام نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’دیکھو وہ کہاں ہیں؟‘‘ وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں سید علی رضی اللہ تعالی عنہ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ’’ابوتراب، اٹھوا۔ ابوتراب اٹهوا‘‘ (صحيح البخاري، المساجد، حديث: 441)

آپﷺ کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیں کہ آپ نے اپنے دل کے ٹکڑے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور اپنے داماد سیدنا ابوالحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ  کے درمیان کسی طرح عدل، شفقت اور محبت و رحمت کے ساتھ صلح کروائی کہ ان کے در میان پوری طرح ہم آہنگی، الفت، رواداری اور مصالحت پیدا ہو گئی۔

نبی ﷺنے اقتصادی زندگی کی بھی اصلاح فرمائی۔ آپ بگڑے ہوئے معاشی حالات میں پیدا ہوئے جب دولت چند لوگوں تک محدود تھی۔ لوگوں کی اکثریت خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا تھا۔ لوگ بے راہ روی اور انتشار کا شکار تھے۔ وہ خواہشات کے پجاری تھے۔ ان کا مقصد حلال و حرام کی تمیز کے بغیر مال کمانا تھا۔ سود، دھوکا دہی، چوری، تظلم و زیادتی، ذخیرہ اندوزی یا کسی بھی حرام طریقے کی پروا کیے بغیر مال جمع کرنا بڑا ان سمجھا جاتا تھا۔ آپ ﷺنے قرآن مجید اور شریعت مطہرہ میں مال کمانے اور اسے خرچ کرنے کا پورا نظام دیا۔

آپ ﷺنے لوگوں کو دنیا سے کٹ کر صرف عبادت کا حکم نہیں دیا بلکہ انھیں کمانے اور تجارت کرنے کی ترغیب دی خرید و فروخت، اجارہ، شراکت داری اور مضاربت وغیرہ کی جائز صورتوں کے ذریعے سے مال کمانے کی مکمل آزادی دی، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾

’’پھر جب نماز پوری ہو جائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ (الجمعة 10:62)

آپﷺ نے نہایت دل نشین انداز میں حلال مال جمع کرنے کی تعریف کی۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ هٰذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ، وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ، كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلْ وَلَا يَشْبَعُ))

“”بلاشبہ یہ مال سر سبز و شاداب اور شیریں ہے۔ جس نے اسے جائز طریقے سے لیا اور حق (کے مصرف ) ہی میں خرچ کیا، وہ مال بہت ہی معاون و مددگار ہو گا اور جس نے اسے حق کے بغیر لیا وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔“ (صحيح مسلم، الزكاة، حدیث: 1052)

چنانچہ مال اللہ کی اطاعت، والدین سے حسن سلوک، صلہ رحمی، مہمان نوازی، پریشان حال کی مدد، میم کی کفالت، مساجد کی آباد کاری اور غیر کے کاموں میں خرچ کرنے میں بہترین معاون ہے۔ آپ% نے لوگوں کو عزت نفس کا درس دیا۔ سوال کی ذلت سے بچنے کا سبق پڑھایا اور یہ بتایا ہے کہ بہترین کھانا اور پینا وہ ہے جو انسان اپنی محنت سے کما کر حاصل کرے، فرمایا:

))مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَط خَيْرًا مِّنْ أَنْ يَّأْكُل مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ))

’’کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے زیادہ پاک کھانا نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی سیدنا داود لایا بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث (2072)

اور آپ اللہ نے فرمایا: ((اَلْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلَى))

’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حدیث: 1427)

 اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا اور نیچے والے سے مراد مانگنے والا ہے۔

آپﷺ نے میدانِ عمل میں اترنے کی دعوت دی تاکہ انسان حلال کمائی کے ذریعے سے سوال کی ذلت سے بچ سکے اور لوگوں کے مال سے بے نیاز ہو سکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا وَ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ؕ وَ اِلَیْهِ النُّشُوْرُ۝﴾

’’وہی (اللہ ) ہے جس نے زمین کو تمھارے تابع کر دیا، لہذا تم اس کی راہوں میں چلو اور اس (اللہ) کے رزق میں سے کھاؤ اور اس کی طرف قبروں سے اٹھ کر جاتا ہے۔‘‘ (الملك 15:67)

اور آپ ﷺنے فرمایا:

((لَأَن يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ ثُمَّ يَغْدُوْ – أَحْسِبُهُ قَالَ – إِلَى الْجَبَلِ فَيَحْتَطِبَ، فَيَبِيعَ، فَيَأْكُل وَيَتَصَدَّقَ، خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ يَّسْأَلَ النَّاسَ))

’’تم میں سے کوئی اپنی رہی پکڑے اور صبح صبح پہاڑ کی طرف چلا جائے، وہاں لکڑیاں چنے، پھر انھیں فروخت کرے، اس سے کچھ کھائے اور کچھ صدقہ کر دے، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے۔‘‘ (صحيح البخاري، الزكاة، حديث: 1480)

آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں بڑے بڑے مال دار اور صاحب ثروت تھے۔ آپ نے ان کی تربیت کی کہ حلال طریقے سے کمائیں اور حلال کاموں میں خرچ کریں۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے زمانے کے بڑے بڑے مال داروں میں شامل ہو گئے، جیسے سیدنا عثمان بن عفان، سید نا عبد الرحمن بن عوف، سیدنا زبیر بن عوام اور سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہم ان سب نے مال کمانے اور اسے خرچ کرنے میں اسلام کی مالیاتی پالیسی اپنائی۔

آپ ﷺنے مال کمانے میں ظلم، دھو کے، فریب اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے ہتھیانے کے سارے حیلوں سے منع فرمایا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَ الكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾

’’اور تم اپنے مال آپس میں نا جائز طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘ (البقرة 188:2)

اور آپﷺ نے فرمایا: ((مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا))

’’جس نے ہمارے ساتھ دھو کا کیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 101)

اور آپ ﷺنے فرمایا:

((وثَلاثَةٌ لّا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، رَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ لَقَدْ أَعْطٰی بِهَا أكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى وَهُوَ كَاذِبٌ ….))

’’تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا ایک وہ شخص جس نے سامان فروخت کرتے وقت قسم کھائی کہ اس کی قیمت مجھے اس سے کہیں زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اس بات میں جھوٹا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، المساقاة، حديث: 2369)

آپﷺ نے تجارتی معاملات میں آسانی اور فراخ دلی کا حکم دیا، فرمایا:

((رَحِمَ اللهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرٰى، وَ إِذَا اقْتَضٰى))

’’اللہ تعالی اس بندے پر رحم فرمائے جو بیچتے، خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث: 2076)

آپﷺ نے مصنوعی بھاؤ بڑھانے، دھوکا دینے، ایک سودے میں دوسرا سودا کرنے، سامان شہر لانے والے سے راستے میں جا کر مال خریدنے اور ہر قسم کی سودی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ ’’ اور اللہ نے تجارت حلال کی ہے اور سود حرام کیا ہے۔‘‘ (البقرة 275:2)

آپ ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا کیونکہ یہ عوامی ضروریات پر زبردستی کنٹرول اور قیمتوں میں بے جا اضافے کا باعث ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ((لا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ))

’’ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گارہی کرتا ہے۔ ‘‘ (صحيح مسلم، المساقاة، حديث: 1606)

اور آپﷺ نے رشوت خوری اور طاقت کا غلط استعمال حرام ٹھہرایا اور بلا امتیاز تمام لوگوں پر چوری کی حد نافذ فرمائی، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝﴾

’’اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت، تم ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے اس گناہ کی عبرت ناک سزا ہے جو انھوں نے کیا۔ اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ ( المائدة38:5)

نبی ﷺ  نے بتایا کہ حرام کمائی والے کی دعا قبول نہیں ہوتی جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جولیا سفر کرتا ہے، بال پر گندہ اور جسم غبار آلود ہے، وہ (دعا کے لیے ) آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے:

’’اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے ہے، اس کا کیا اے میرے رب! اے میں

اور اس کو غذ احرام کی دی گئی ہے، تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ؟‘‘ (صحیح مسلم، الزکاة الزكاة، حديث (1015)

اور آپ ﷺنے غصب اور ظلم سے منع کیا ہے، فرمایا:

((و مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِّنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا، طَوَّقَهُ اللهُ إِيَّاهُ يَومَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرْضِينَ))

’’جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین ہتھیا لی، اللہ تعالی قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، المساقاة، حديث: 1610)

آپ ﷺنے اسراف اور فضول خرچی کی بھی مخالفت کی، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيْطِيْنِ﴾

’’بے شک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘ (بنی اسراءیل 27:17)

آپ ﷺنے سونا چاندی جمع کرنے سے منع فرمایا الا یہ کہ ان کی زکاۃ ادا کی جائے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴﴾

’’اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، تو آپ انھیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے۔‘‘ (التوبة 34:9)

آپﷺ نے اقتصادی نظام کی مکمل اصلاح کی اور سب کے درمیان اجتماعی عدل کو یقینی بنایا۔ فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں کی طرف مدد و نصرت اور احسان کا ہاتھ بڑھایا۔ زکاۃ فرض کی اور صدقات کی ترغیب دی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۶۲﴾

’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد احسان نہیں جتاتے اور نہ دکھ دیتے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ (البقرہ262:2)

اور آپﷺ سے مروی ہے:

’’جب لوگ صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا کر۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ کنجوس کو تباہی و بربادی سے دوچار کر۔‘‘ (صحیح البخاري الزكاة، حديث: 1442)

نبی ﷺ نے معاملات کے لیے رزق حلال اور پاکیزہ آمدنی کو بنیاد قرار دیا کیونکہ اللہ تعالی پاک ہے اور وہ پاک کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا۔

آپﷺ نے لوگوں کے اموال کی حفاظت فرمائی۔ حکمت الہی اور سیرت نبویہ کی روشنی میں باہمی رضا مندی اور عدل و انصاف سے خرید و فروخت اور لین دین ضروری قرار دیا۔

نبیﷺ نے ادارتی اور معاشرتی نظام کی بھی اصلاح فرمائی۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ کا معاشرتی ماحول نہایت بگاڑ کا شکار تھا۔ ایک بدمعاش اور بت پرست گروہ معاشرے پر حاوی تھا جن کے ہاں عدل و انصاف، مشاورت اور مساوات کا تصور تک نہ تھا۔ وہ خواہشات ظلم و ستم اور شیطانی سوچ کے ساتھ حکومت کرتے تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر قبائل بھی باہم دست و گر بیان تھے اور اپنی زندگی بغیر کسی دستور ہ منہج اور نظام کے گزار رہے تھے۔ ان کی معیشت کا انحصار لوٹ مار پر تھا۔ ان کی لڑائیاں قبائلی تعصب، جہالت اور ظلم و زیادتی پر مبنی تھیں جن کا مقصد دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا، خون بہانا، عزتوں کو پامال کرنا، مال لوٹنا اور اپنی ناموری کا اظہار کرنا تھا۔

آپﷺ کے عہد مبارک میں عالمی صورت حال یہ تھی کہ دنیا دو سلطنتوں میں تقسیم تھی: ایک فارس اور دوسری روم۔ ان دونوں کی بنیاد بھی غلبہ و تسلط، ظلم و ستم اور اپنی سلطنت کے دائرہ کار کی وسعت تھی۔ جب رسولوں کو گزرے ایک زمانہ بیت گیا، ہر طرف غفلت نے ڈیرے ڈال لیے، زندگی مصیبت بن گئی، دل سخت ہو گئے اور رو حیں مردہ ہو گئیں تو ان حالات میں آپ ﷺنے سر زمین مکہ سے تمام دنیا والوں کے لیے اعلان کیا: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا إِلَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا))

’’اے لوگو لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لو، فلاح پا جاؤ گے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث (16023)

پھر آپﷺ نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی جس کا انتظامی ڈھانچا عدل، شوری، آزادی رائے، مساوات انصاف، انسانی حقوق کے احترام، جان و مال اور عزت کی حفاظت پر مبنی تھا۔ اس میں انسانی زندگی کی حفاظت آزاد عدلیہ، لوگوں کے امن و سکون کا خیال اور ان کی مصلحت سے متضاد ہر چیز کا خاتمہ پیش نظر تھا۔ آپ ﷺنے چھوٹے بڑے، مرد و عورت اور امیر و غریب ہر فرد کی غیر اوربھلائی کویقینی بنایا۔ آپﷺ نے امت کے انتظامی معاملات کو منتظم و مرتب کیا یہاں تک کہ معاشرہ ایسے اصولوں اور شرعی نصوص پر قائم ہوا جن سے علماء اور حج زندگی کے ہر شہے، ہر مسئلے اور ہر معاملے میں راہنمائی لیتے ہیں۔

دیہاتی عرب جو جنگل کے قانون میں زندگی گزارتے تھے اور کسی قانون و ضابطے سے نا واقف تھے، نبی ﷺنے انھیں تہذیب و تمدن کے معمار بنا دیا۔ وہ پوری دنیا میں امن و سلامتی کی علامت بن کر ابھرے اور علم کے روشن مینار بن گئے۔ قرآن وسنت کا مطالعہ کریں، آپ کو ریاست کے ہر چھوٹے بڑے انتظامی معاملے کا حل ملے گا۔ آپ ﷺنے ہر معاملے میں احکام و فرائض کی تفصیلات بتا دیں اور اللہ کی طرف سے ایک قانون بنا دیا۔ یہیں وجہ ہے کہ آپ کا دین روئے زمین پر نیکی، اصلاح، خیر و برکت اور کامیابی و کامرانی کا نشان بن کر چکا۔ آپ کی رسالت اور اس کی خیر و برکت مشرق میں چین، مغرب میں فرانس، شمال میں قفقاز (روس) اور جنوب میں افریقہ کے جنگلوں تک پوری زمین میں پھیل گئی۔

آپﷺ نے ماحول کو سازگار بنایا۔ اپنی شریعت کے ساتھ زمین کی تعمیر وترقی، اس پر سرمایہ کاری اور بھائی کی دعوت دی۔ اس میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہر تخریب کاری، خرابی اور بربادی کو دور کر کے اسے محفوظ بنایا۔ راستوں، مجلسوں، نہروں، کنووں، باغوں، زراعت اور پارکوں کے مستقل احکام بیان فرمائے۔

اور یہ سب واضح اور ٹھوس شرعی دلائل اور نصوص سے مزین ہے مفصل شریعت میں ہے۔ آپ ﷺکی بعثت سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں ایسی ماحولیاتی زندگی کا تصور بھی نہیں تھا۔ وہ  اونٹوں، بکریوں اور گاہوں کے چرواہے تھے جو کسی ایک معبود اور شریعت کی بالادستی کے بغیر افراتفری کی غیر منظم زندگی گزار رہے تھے اور کسی اصول و ضابطے سے آشنا نہ تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ۝﴾

’’اور زمین کی اصلاح کے بعد تم اس میں فساد نہ کرو، اور اللہ کو خوف سے اور طمع کرتے ہوئے پکارو۔ بے شک اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ (الأعراف 56:7)

اور ایک مقام پر فرمایا:

﴿وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ۝﴾

’’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو اور تم زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ یہ تمھارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔‘‘ (الأعراف 7: 85)

سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی دیکھی تو اسے راستے سے دور کر دیا۔ اللہ تعالی (صرف اس بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حدیث:652)

نبی ﷺ نے صحت مند زندگی کے متعلق بھی اصلاحات کیں اور لوگوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا، فرمایا:

((الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَّأَحَبُّ إِلى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِن الضَّعِيفِ، وَ فِي كُلٍّ﷭ خَيْرٌ. إِحْرِصْ عَلَى مَا يَنفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ)

’’طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے، جبکہ خیر دونوں میں موجود ہے۔ جس چیز سے تمھیں حقیقی نفع پہنچے، اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو۔‘‘ (صحیح مسلم القدر، حديث: 2664)

صحت اور طب کے حوالے سے شریعت محمدی میں بکثرت عمومی ہدایات اور بنیادی ضابطے موجود ہیں جو ڈاکٹر حضرات اور ماہرین نفسیات کے لیے رہنما اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ امام ابن قیم اور سیوطی  رحمۃ اللہ علیہما نے طب نبوی پر مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔ آپ ﷺ کی احادیث میں کھانے کی اقسام، کھانے پینے کا طریقہ، کون سا کھانا صحت افزا ہے اور کون سا نقصان دہ اور اس طرح کی دیگر ہدایات ملیں گی جن سے اہل عرب ناواقف تھے۔ وہ نقصان دہ ، خبیث، نشہ آور اور مردار اشیاء تک کھا جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺکے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائثَ﴾

’’اور وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیز میں حرام ٹھہراتا ہے۔‘‘ (الأعراف 157:7)

اور ایک مقام پر فرمایا: ﴿كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ۝﴾

’’تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بے شک تم جو عمل کرتے ہو، میں اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ (المؤمنون 51:23)

اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ((إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَّا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا))

’’بلاشبہ اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک ہی قبول کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1015)

 آپ ﷺنے صحت کے حوالے سے متعدد نصیحتیں فرمائیں جن میں سے آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے:

’’جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 153)

ایک موقع پر فرمایا: ((وَ فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ))

’’کوڑھ والے سے ایسے بھا گو جیسے تم شیر سے دور بھاگتے ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الطب، حدیث: 5707)

اسی طرح آپ ﷺکا فرمان ہے:

’’بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں والے کے پاس اونٹ نہ لائے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2221)

اور آپﷺ نے فرمایا:

’’جب تم کسی علاقے میں طاعون کا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے نکل کر کسی اور علاقے میں نہ جاؤ۔“ (صحيح البخاري، الطب، حديث: 5728)

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بڑے بڑے ماہرین طب اس حدیث نبوی کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی عملی مشق کے حق میں ہیں۔ عصر حاضر میں مختلف وبائی امراض اور وائرس سے بچنے کے لیے قرنطینہ کا عمل اس حدیث سے ماخوذ ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺکی بعثت سے پوری زندگی سنور گئی۔ آپﷺ نے لوگوں کو شرک اور بت پرستی سے نکال کر تو حید ربوبیت اور توحید الوہیت کا پابند کیا۔ ان کے اخلاق درست کیے جبکہ اس سے پہلے وہ بے حیائی کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ منکرات کے دلدادہ تھے۔ لوٹ مار، لڑائی جھگڑا اور انتقام ان کا مشغلہ تھا۔ آپﷺ نے انھیں نیکی، صلہ رحمی، رحمت و شفقت، درگزر، سکون، محبت و الفت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ انھیں اچھے آداب سکھائے۔ بد تمیزی، شدت پسندی، سختی اور ظلم سے نکال کر نرمی، حلم و بردباری، شفقت اور عجز و انکسار کا سبق پڑھایا۔‘‘

…………….