محمدﷺ بحیثیت کامیاب و کامران
ہمت و حوصلہ نبی ﷺکے ساتھ ہی پیدا ہوا۔ آپ بچپن ہی سے بلند ہمت اور کامیابی و کامرانی کے راہی تھے۔ مکارم اخلاق آغاز ہی سے آپ کی منزل تھی۔ حقیر اور گھٹیا چیز پر نہ تو کبھی راضی ہوئے نہ کبھی گھٹیا چیز کا ارادہ کیا بلکہ ہمیشہ آگے بڑھنے والے، پیش پیش اور نمایاں رہنے والے تھے۔
آپ نبوت سے پہلے ہی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر ممتاز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قریش آپ کو صادق و امین کے لقب سے پکارتے۔ آپ کے فیصلوں کو تسلیم کرتے اور حل طلب مسائل کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جب اللہ تعالی نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرما کر مبعوث کیا تو آپﷺ مقام وسیلہ کی طلب میں لگ گئے۔ یہ جنت کا سب سے اعلی درجہ ہے۔ آپ ﷺنے اللہ تعالی سے اس کا سوال کیا۔ ہمیں تعلیم دی کہ ہم بھی رب تعالی سے آپ کے حق میں وسیلے کی دعا کریں۔ آپ سدرة المنتہی تک گئے اور بشری کمال اور انسانی فضیلت کے تمام
رتبے حاصل کر لیے۔
کامیابی کے چار ارکان ہیں:
1۔ اللہ تعالی آپ سے راضی ہو۔
2۔ آپ اپنے کام پر مطمئن ہوں۔
3۔ آپ لوگوں کو کوئی ایسا فائدہ پہنچائیں یا ایسے اثرات چھوڑ جائیں کہ آپ کے بعد بھی لوگ آپ کو اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔
4۔ آپ کے آس پاس کے لوگ آپ سے خوش ہوں اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے ہوں۔
یہ تمام خو بیاں رسول اکرم ﷺمیں بدرجہ اتم خوبصورت ترین شکل میں موجود تھیں۔ آپ اللہ کے ہاں سب لوگوں سے عظیم قدر و منزلت والے اور اپنے مولا و خالق کو سب سے پیارے تھے۔ آپ اپنی رسالت پر مطمئن اور اس کے اصولوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ آپ انسانیت کو سب سے عظیم نفع پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ ہم دنیا کی پوری تاریخ میں نہ آپ کے کسی ہم عصر اور صحابی کو جانتے ہیں اور نہ بعد میں آنے والے کسی شخص کو جو آپ کی کامیابی اور امتیازی حیثیت کی گواہی نہ دیتا ہو۔
جہاں تک آپ ﷺکی کامیابی کا تعلق ہے تو اس بات کی توقع تھی کہ آپ کامیاب ہوں گے اور الحمد للہ ایسے ہی ہوا کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہو، وحی کے ساتھ اس کی تائید کی ہو اور نبوت دے کر معصوم بنایا ہو تو یقیناً کامیابی ہی اس کا مقدر ہو گی بلکہ وہ کامیابی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگا۔
یقینًا آپ ﷺمکہ میں دعوت تو حید دینے میں کامیاب ہوئے۔ آپ نے پوری توجہ صرف ایک ہی کلمے پر مرکوز رکھی اور وہ تھا۔ لا الہ الا اللہ تیرہ سال دن رات، خفیہ و علانیہ ہر چھوٹے بڑے کے سامنے انفرادی اور اجتماعی طور پر بار بار یہ کلمہ پیش کیا کہ لو گو لا الہ الا اللہ کہوں۔ کامیاب ہو جاؤ گے۔
آپﷺ نے ابتدا میں کافروں سے جنگ کی نہ ان سے الجھے بلکہ ثواب کی امید رکھتے ہوئے ان کی اذیتوں کو برداشت کیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ کلمہ توحید بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ وہ آپ کی رسالت کے حمایتی بنے اور انھوں نے عقیدہ توحید کا دفاع کیا۔
آپﷺ نے اس دن بھی کامیابی حاصل کی جس دن مدینہ طیبہ منتقل ہوئے کیونکہ وہ اسلام کی پناہ گاہ، نصرت کا گھر اور مومنوں کی ہجرت گاہ بنا۔ ہجرت کا فیصلہ نہایت کامیاب اور درست ترین اقدام تھا۔
آپ ﷺنے مہاجرین و انصار کے مابین بھائی چارہ قائم کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ آپ ﷺنے ان کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو انھوں نے محبت، الفت، میل جول، نصرت اور اخوت میں ایک جان کئی قالب کا نمونہ پیش کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۶۳﴾
’’اور اس نے ان (مومنوں) کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ اگر آپ دنیا بھر کے سب خزانے خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ ہی نے ان میں الفت ڈالی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘ (الأنفال 38:8)
جب آپﷺ نے مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی بنائی تو بھی کامیابی حاصل کی۔ یہ آپ ﷺکا پہلا تعمیراتی منصوبہ تھا، پھر یہ نماز، وعظ ونصیحت اور فتاوی کا پہلا مرکز بن گیا۔ اس میں مجلس مشاورت سجتی اور وفود کا استقبال کیا جاتا، نا سمجھ کو تعلیم دی جاتی۔ مریضوں کی دیکھ بھال ہوتی۔ دعوت دین کی مدد ونصرت میں وعظ و اشعار ی محفل لگتی۔ فقراء و مساکین کی ضیافت ہوتی۔ لشکروں کی تیاری ہوتی اور اس کے علاوہ ہر اہم کام اس مبارک مسجد میں انجام پاتا۔ اس کی برکت قیامت تک بننے والے دنیا کے تمام جامعات اور مدارس سے فائق ہے۔
آپﷺ یہود کے ساتھ امن و امان کا معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے، پھر تھوڑے ہی عرصے میں ان کی شان و شوکت خاک میں ملا دی اور اپنے اس معاند و مخالف گروہ کو ناکام بنا دیا یہاں تک کہ آپ ﷺکو استحکام حاصل ہو گیا اور الجھے ہوئے معاملات سنور گئے۔
آپ ﷺکی منافقوں کے ساتھ حکیمانہ برتاؤ میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپ نے عفو و درگزر سے کام لیا، ان کو نظر انداز کیا اور سزا نہیں دی تاکہ ان کے مددگاروں کی وجہ سے ہنگامہ کھڑا نہ ہو آپ نے درگزر کر کے فتنے کو دبایا۔ انھیں ان کے ظاہر پر چھوڑ دیا تاکہ مسلمانوں کی وحدت اور یکجہتی متاثر نہ ہو اور یہ قانون بن جائے کہ لوگوں کے ظاہر کے مطابق ان سے معاملہ ہوگا۔ کسی کی اندرونی اور دلی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ کے سپرد ہے۔
آپﷺ اپنے پہلے معرکے میں بھی کامیاب ہوئے جو آپ نے مشرکوں کے خلاف لڑا۔ یہ آپ ﷺکی دعوتی تاریخ کا فیصلہ کن معرکہ تھا جسے غزوۂ بدر الکبری کہا جاتا ہے۔ اس میں اللہ تعالی نے اپنے دین کو عزت بخشی۔ مشرکوں کو ذلیل کیا۔ کافر سرنگوں ہوئے اور مومنوں کو عزت ملی۔
آپ ﷺنے نہایت کامیابی سے بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے تاکہ ان پر حجت قائم ہو جائے۔ جس نے آپ کی بات مانی وہ اپنے ساتھیوں سمیت نجات پا گیا اور جس نے اعراض کیا، اس پر حجت قائم ہوگئی۔ آپﷺ بری الذمہ ہو گئے کہ اسے پیغام رسالت پہنچا دیا۔
آپﷺ نے مختلف علاقوں اور جنگوں میں امیر مقرر کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اگر مصلحت کا تقاضا ہوتا تو آپ زیادہ طاقت ور کو امیر بناتے اور زیادہ متقی کو نظر انداز کر دیتے کیونکہ پختہ اصابت رائے اور برتر جسمانی طاقت کا مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اس کے برعکس کمزور متقی کی کمزوری کا مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے اور اس کے تقوے کا صرف اسے فائدہ ہوتا۔
آپﷺ صحابہ کو ان کی مہارتوں کے مطابق ذمہ داریاں دینے میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپﷺ رب تعالی کی خصوصی توفیق اور نیوی فہم کے ساتھ ان میں ذمہ داریاں تقسیم کرتے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے واضح اشارے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو قطعی امور میں دو ٹوک رائے رکھنے کے لیے فاروق کا لقب، حیاء اور مفادت کے لیے سید نا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب، فیصلوں اور شجاعت کا اعزاز سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے، حلال و حرام کے بارے میں فتوٰی کے لیے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کا اعزاز، فرائض کے حوالے سے امت کے سب سے بڑے عالم کا اعزاز سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے، اللہ کی کتاب کے ضبط اور قراءت میں سید القراء کا خطاب سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے، فہم قرآن، تفسیر اور فقہ دین کا اعزاز سید نا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے، دین کا دفاع کرنے والے شاعر اسلام کے اعزاز کے لیے سیدنا حسان بن ثابت، فصاحت و بلاغت کے ساتھ باطل شبہات کا ازالہ کرنے والے شهسوار خطابت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالی عنہ کی پذیرائی اور باطل کی کمر توڑنے اور دھوکا دہی اور غداری کے پرچم سرنگوں کرنے کی بدولت سیف اللہ کا خطاب سید نا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے، آپ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح ﴿ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنُاسٍ مَشْرَبَهُمْ﴾ ” تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔‘‘ (البقرۃ 60:2) کے مصداق تمام صحابۂ کرام میں موجود خصوصی صلاحیتوں کو آپ نے نمایاں کر کے ان سے اس کے مطابق کام لیا۔
آپ خاوند، باپ، معلم و مربی اور رہنما کی حیثیت سے عورت کے ساتھ برتاؤ میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپ نے عورتوں میں عالمہ، فاضلہ، مومنہ، صادقہ، فرماں بردار اور مربی خواتین پیدا کیں۔ بلا تفریق ہر ایک کو ان کا حق دیا، خواہ وہ آپ کی بیٹیاں ہوں، بیویاں ہوں یا عام مسلمان عورتیں۔
آپ ﷺ بچوں کے حوالے سے بھی کامیاب ہوئے۔ آپ نے بچوں کے لیے اخلاق و آداب مقرر فرمائے۔ انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے قریب ہوئے۔ ان سے کھیل کود اور مزاح کیا۔ انھیں گود میں لیا اور ان کے لیے برکت کی دعائیں کیں جو ان کی زندگیوں کا امتیازی نشان بنیں اور وہ زندگی بھر انھیں نہیں بھولے۔
نبیﷺ مال کے سلسلے میں بھی کامیاب ہوئے۔ رزق حلال کمایا اور حلال راستے میں خرچ کیا۔ رب ذوالجلال کے خوف اور عدل کے ساتھ اسے نہایت شائستگی، حکمت اور عمدہ نظام کے تحت تقسیم کیا۔ اور صدقات کو آٹھ مصارف میں خرچ کرنے سے متعلق وحی الٰہی نازل ہوئی:
﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۶۰﴾
’’زکاۃ تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور ان اہلکاروں کے لیے ہے جو اس (کی وصولی) پر مقرر ہیں اور ان کے لیے جن کی دلداری مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے اور مقروضوں (کے قرض اتارنے) کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں۔ (یہ) اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبة 60:9)
آپ نے زکاۃ کے ہر مصرف میں اسے خرچ کیا اور ہر حق کو اس کے مقام پر رکھا۔ اس کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، جیسے ابو یوسف کی کتاب الخراج، ابو عبید کی کتاب الاموال اور ماوردی کی ’’الأحكام السلطانية‘‘ وغیرہ۔ ان کے علاوہ تمام محد ثین نے اپنی کتابوں میں اس کے متعلق ابواب قائم کیے اور اس بارے میں رسول اکرمﷺ کی سیرت اور کامیابی کا تذکرہ کیا کہ کس طرح آپ نے نہایت عدل و انصاف سے زکاۃ، صدقہ، تنغیمت اور تحائف کو مستحق افراد میں تقسیم کیا۔ آپ ﷺ نے ہرچیز کواس کی حقیقی جگہ پر خرچ کیا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو زندگی کے ہر معاملے میں یہ توفیق اور ہدایت بخشی کہ آپ قیامت تک آنے والے ہر سائل کے لیے اسوہ مستحقین کے لیے مددگار، عبادت گزاروں کے امام اور کامیاب ہونے والوں کے لیے عمدہ نمونہ بن گئے۔
آپﷺ نے زندگی کی مشقتوں اور مشکلات کا بھی کامیابی سے سامنا کیا۔ آپ فقر و فاقہ کا شکار ہوئے۔ بھوک، پیاس اور ضرورت و مسکینی نے آپ کو پچھاڑنے کی کوشش کی مگر آپ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور مقاصد کے حصول کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔
آپ دنیا کے فتنوں اور اس کی زیب و زینت پر قابو پانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ مال و دولت کی فراوانی، غزوات و فتوحات میں غنیمتوں کی کثرت اور اموال کی بھر مار بھی آپ کو متاثر نہ کر سکی۔ جس طرح آپ رسالت کے امین تھے، اسی طرح امت کے اموال کے معاملے میں بھی امین رہے۔ اونٹ، گائیں، بکریاں، درہم و دینار، سونا، چاندی اور ہر طرح کا مال آپ کے پاس آیا مگر آپ لوگوں کے سامنے تقسیم کر کے خالی دامن، پاک ہاتھوں کے ساتھ گھر لوٹ گئے جبکہ آپﷺ فرما رہے تھے:
((أَعْطُوْنِي رِدَائِي، فَلَوْ كانَ عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُوْنِيْ بَخِيْلًا وَلَا كَذُوْبًا، وَلَا جَبَانًا))
’’میری چادر مجھے دے دو۔ اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا، پھر تم مجھے ہرگز بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ ہی جھوٹا اور نہ ہی بزدل۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2821)
آپ ﷺریاست کے قیام میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپ ریاست مدینہ کے قائد، مؤسس اور بانی تھے۔ آپ ﷺکی ریاست آپ کی زندگی ہی میں جزیرہ نمائے عرب کے اطراف واکناف تک پھیل چکی تھی، پھر اس کی توسیع جاری رہی یہاں تک کہ اس کے لشکر مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں باطل قوتوں اور بت پرستی کے ایوانوں سے ٹکراتے رہے۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے دور میں اس کی سرحدیں مشرق میں سندھ بلکہ چین، مغرب میں فرانس، شمال میں ایشیا اور جنوب میں افریقہ کے جنگلوں تک وسیع ہو گئیں۔ گویا پوری دنیا میں اذان گونجنے لگی۔ ہر جگہ خشوع و خضوع کے سجدے ہونے لگے۔ پوری دنیا کے شہروں کی فضا قرآن سے معطر ہوئی۔ پہاڑ لا اله الا الله محمد رسو ل الله کی صدا کے لیے منارے بن گئے اور چوک چوراہے، علم و فقہ اور وعظ و دعوت کے مرکز بن گئے۔
نبی اکرمﷺ مختلف انسانوں سے برتاؤ میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپﷺ کو مومن، کافر، مخلص، منافق بوڑھے، بچے، جوان، مرد، عورت، لیڈر، عوام، مالدار، فقیر، عالم اور جاہل ہر طرح کے افراد سے واسطہ پڑا۔ ان کے علاوہ کفار و مشرکین، منافقین، اہل کتاب، متذ بذب دیہاتیوں، سرکش جنگجوؤں اور فاسق وفاجر دشمنوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آپ نے سب کو نہایت کامیابی کے ساتھ ڈیل کیا۔
آپﷺ تعلیم و تربیت اور تعزیر و حدود کے نفاذ میں بھی کامیاب ہوئے۔ کسی کے ساتھ صلہ رحمی اور اس کی دل جوئی کر کے کسی کی پردہ پوشی اور اسے نظر انداز کر کے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ، دھمکی اور سزا دے کر اور کسی پر حد قائم کر کے اس کی تربیت کی۔ یہ سب کچھ آپ نے مقدس وحی اور نبوت کی عصمت کے ساتھ ساتھ اللہ کی قضا و قدر کے مطابق کیا۔
آپﷺ اپنے گھر کے حسن انتظام اور خاندان کا خیال رکھنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپ ﷺکی ہر بیوی نبی اکرم ﷺکے ساتھ اپنی کامیاب زندگی کا قصہ پوری محبت، شوق، دل پذیری اور جذبے سے بیان کرتی ہے۔ آپ ﷺکے عدل، حسن سلوک، شفقت اور لطف و کرم کی بنا پر ہر بیوی یہ سمجھتی تھی کہ محبت والفت میں وہ سب بیویوں پر فائق ہے۔ اسے جو مقام حاصل ہے، وہ دوسری کو حاصل نہیں ہے۔
آپ ﷺاپنی ذاتی زندگی میں بھی کامیاب تھے۔ آپ کا ہر عزیز آپ کی محبت کا گرویدہ تھا۔ انوار نبوت سے اس کا دل سا روشن اور آفتاب رسالت کی کرنوں سے اس کی روح آباد تھی۔ سب آپ سے محبت کرنے والے، آپ کو پسند کرنے والے اور آپ پر فدا ہونے والے تھے۔ ہر ایک آپ کی دعوت کی راہ میں خود کو فنا کرنا اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ میں بہت سے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کسی طرح اسلام لانے کے اگلے لمحے ہی وہ دشمن سے دوست ہے۔ جو آپ کی موت کا متمنی تھا لمحوں میں آپ کی زندگی کا محافظ بن گیا، پھر اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کے روشن چہرے کا دیدار کرنا اور آپ کا مبارک کلام سنا تھا۔ کوئی شخص مسلمان ہوتا اور مومن بن جاتا، پھر وہ آپ ﷺسے اس قدر محبت کرنے لگ جاتا کہ نبی اکرمﷺ کو اپنی ذات سے مقدم سمجھتا۔ آپ کی دعوت پر فدا ہونے کے لیے تیار ہو جاتا اور اللہ تعالی کی خوشنودی اور آپﷺ کو راضی کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتا۔ اس کے سب سے خوبصورت ایام وہ ہوتے جو آپ کی رفاقت میں گزرتے۔ سب سے بابرکت مال اسے سمجھتا جو آپ کے دین کی نصرت میں خرچ ہوتا اور سب سے خوبصورت قدم نہیں شمار کرتا جو اللہ کی راہ میں رسول اکرم ﷺکی معیت میں اٹھتے۔
یہ بھی آپ ﷺکی کامیابی ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے دلوں پر بہت اچھا اثر چھوڑا۔ وہ سب آپ سے راضی تھے۔ سب نے آپ سے فیض پایا۔ کسی کو علم سے وافر حصہ ملا۔ کوئی مبارک دعوت سے مستفید ہوا۔ کوئی زیارت کی برکت سے فیض یاب ہوا۔ کسی نے آپﷺ کی سیرت و کردار اور نقل و حرکت سے استفادہ کیا، جیسے آپ نے کسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا، کسی کے سینے پر ہاتھ پھیرا، کسی کے کندھے کو تھپتھپایا، کسی کو دم کیا، کسی کو خصوصی کھانا کھلایا، کسی کو پانی پلایا، کسی کو لباس عنایت کیا، کسی کو کسی منصب پر فائز کیا، کسی کو امیر بنایا، کسی کو سریے کا قائد بنا کر بھیجا، کسی کو قوم کا سردار بنایا ،کسی کو اہم کام سپرد کیا، کسی کو کوئی فضیلت دی اور کسی کی لوگوں کے سامنے تعریف کی۔ اور اس سے بڑا اعزاز اور کامیابی کیا ہوگی ؟!
آپ ﷺوقت کو منظم کرنے، امت کی رہنمائی کرنے لشکر ترتیب دینے اور اموال کی حفاظت کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ جہاں تک آپ ﷺ کے وقت کو منظم کرنے کا تعلق ہے تو آپ ﷺنے کمال حکمت سے وقت کی منصوبہ بندی کی۔ اپنے تمام کام اور فرائض حسب مراتب ترتیب دیے۔ اپنی جان کو اس کا حق دیا، امت کو اس کا حق دیا، اہل خانہ کو ان کے حقوق دیے اور مہمان کو اس کا حق دیا۔ دعوتی اور تربیتی ذمہ داریاں پوری کیں اور واجبات کی ادائیگی کی ایسی عمدہ ترتیب بنائی کہ خیر اور بھلائی کے ہر کام کو اس طرح وقت دیا کہ آپ کی ساری زندگی ایک شاداب باغ کی طرح ہو گئی جو فضائل و محاسن کے پھلوں سے بھرا ہوا ہے۔
آپ ﷺنے وقت کی تقسیم میں بھی عدل و انصاف سے کام لیا ہے۔ کسی ایک کا حق دوسرے کے حق میں کی نہیں کرتا۔ نماز، تلاوت قرآن، خاندان اور ملاقات وغیرہ آپ کی زندگی کے تمام اہم کاموں کا اپنا اپنا وقت ہے۔ آپ ﷺ ہر کام اس کے وقت پر پورے سکون، محبت، تندہی اور توجہ سے اس ترتیب کے ساتھ کرتے کہ آپ کی زندگی میں کہیں جلد بازی، ہنگامی حالت یا پریشانی و اضطراب نظر نہیں آتا۔
تاریخ میں ایسی کوئی امت نہیں گزری جو ایسے نظام سے واقف ہو۔ آپ ﷺکے شب و روز دیکھیں کہ آپ کی زندگی کس قدر منظم تھی۔ آپ کا وقت نہایت منظم اور مرتب تھا اور آپ قیامت تک کامیاب ہونے والوں کے لیے نمونہ ہیں۔
آپﷺ زندگی کے تمام معاملات میں امت کی راہنمائی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ آپ نے دین و دنیا، امامت، خطابت، قیادت، تربیت اور تعلیم و تزکیہ کے ہر میدان میں ان کی راہنمائی کی۔ کسی میدان میں آپ کمزور پڑے نہ محنت و کوشش میں کمی کی بلکہ ہر میدان میں کمال و جمال اور جلال کے اعلیٰ مرتبے پر فائز رہے۔
جہاں تک لشکر کو منظم کرنے کا معاملہ ہے تو آپ ﷺ فوج کے انتظام و انصرام میں بھی کامیاب ہوئے۔ قائمہ متعین کرنے کا معاملہ ہو یا سرایا یا سرایا کی ترتیب کا مسئلہ یا میدان جنگ میں لشکر کو مقدمہ، مؤخره، میمنہ، میسرہ اور قلب حصوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ ہو، آپ ہر میدان میں کامیاب ہوئے۔ آپ کا جاسوی کا نظام، جنگی حکمت عملی اور مجلس مشاورت کا سسٹم بھی نہایت مستحکم تھا۔ معاہدے کرنے، غنیمتوں کی تقسیم، قیدیوں کے ساتھ برتاؤ، مبارزت اور شہدائے معرکہ کا معاملہ وغیرہ، آپ ﷺنے ہر کام منظم و ترتیب سے انجام دیا۔
تاریخ میں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جس نے رسول اللہ ﷺکی طرح آس پاس کے تمام لوگوں سے مضبوط تعلقات رکھتے ہوں۔ آپ کی ہم نے مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، شہریوں، دیہاتیوں، امیروں، غریبوں، طاقتوروں اور کمزوروں سب سے محبت و مفاہمت اور اچھی جان پہچان کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھے اور ہر انسان کو اس کا مقام دیا۔
آپﷺ نے اپنے تعلقات کو اللہ کی خاص توفیق سے ترتیب دیا۔ آپ کا سب سے زیادہ تعلق چاروں خلفائے راشدین سے تھا، پھر عشرہ مبشرہ کی قدر و منزلت تھی، پھر اہل بدر کو آپ کے ہاں خاص مقام حاصل تھا، پھر بیعت رضوان والے اور پھر مہاجرین و انصار کا مرتبہ تھا۔ امہات المؤمنین کو ایک خاص مقام ملا ہوا تھا اور اہل بیت کو خاص فضیلت میسر تھی۔ پھر آپ نے مسلمان اور زمینوں سب کے حقوق و فرائض مقرر فرمائے۔ جنگ کرنے والے باغیوں اور خوارج کے متعلق دو ٹوک آیات اور احادیث بیان فرمائیں۔ جن لوگوں کے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے تھے، ان کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ کار بھی متعین فرمایا۔ یہ سب الہٰی ترتیب اور وحی ربانی کی روشنی میں تھا جو صرف اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہی کر سکتے ہیں۔
آپ ﷺکی کامیابی کی گواہی آپ کے ساتھیوں اور پیروکاروں کے علاوہ آپ کے دشمنوں نے بھی دی ہے۔ اور تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں کہ کسی کی کامیابی کی گواہی اس کے دشمن بھی دیں۔
تعلیم و تزکیہ اور تربیت کے میدان میں وہی گواہی کافی ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی اور رسول محمد مصطفی ﷺکے حق میں دی ہے اور آپ سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۱۶۴﴾
’’بے شک یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا، جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا۔ وہ انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (آل عمران 164:3)
اللہ تعالی نے آپﷺ کے منہج کا تزکیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَانَّكَ لَتَهْدِيْ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم﴾
’’اور بلا شبہ آپ سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)
آپ کے اخلاق کا تزکیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلْقٍ عَظِيْمٍ﴾
’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)
آپ کی زبان کا تزکیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى﴾ ’’اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔‘‘ (النجم (3:53)
آپ کی نگاہ کا تزکیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی﴾
’’نگاہ نہ تو بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔‘‘ (النجم 17:53)
آپ کی کتاب کے تزکیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ فِي أَقْوَمُ﴾
’’بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔‘‘ (بنی اسراءیل 9:17)
آپ کی شریعت اور تبلیغ دین کی کامیابی اور تزکیے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘ (المائدة 3:5)
آپ کی امت کا تزکیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کی گئی ہے۔‘‘ (آل عمران 110:3)
میں کبھی کسی صحابی کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہوں جس کی زندگی کا لمبا عرصہ بت پرستی اور جاہلیت میں گزرا، وہ مشرکانہ کام کرتا رہا اور لیے عرصے تک شرک وکفر اور بے حیائی کے کاموں میں مصروف رہا اور جو نبی معلمﷺ کے سامنے بیٹھا اور اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله کا اقرار کیا تولمحوں میں اس کی حالت بدل گئی۔ شرک و کفر کی ساری کثافتیں اور گرد و غبار اسی وقت اس سے دور ہو گیا۔ وہ پاک صاف ہو کر آپ کا سچا جاں نثار، امانت دار طالب علم اور شاگرد رشید بن گیا اور اس کی بقیہ ساری زندگی نبی اکرمﷺ کے ساتھ سجدے کرتے، تسبیحات پڑھتے اور مال خرچ کرتے گزری۔ اس کی زبان پر ہمیشہ سچ رہا۔ پاک باطن، پختہ ایمان اور صاف ستھرا عقیدہ اس کی پہچان بن گیا۔ اور یہ سب کچھ آپ کی نبوت و رسالت کی برکت اور حکمت کا فیض تھا جو اس نے سید المرسلین اور خاتم النبیینﷺ سے پایا۔
آپ ﷺ کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑنے میں کامیاب ہوئے جن کی آپﷺ نے بذات خود تربیت کی۔ آغاز دعوت سے لے کر وفات تک ان کے دلوں میں پختہ ایمان، قربانی کا جذبہ سچائی اور یقین پیدا کیا۔ آپ کے بعد وہ بڑے بڑے شبہات، فتنوں اور بحرانوں کے سامنے مضبوط چٹان بن کر کھڑے رہے اور حالات کی سنگینی انھیں راہ مستقیم سے نہ ہٹا سکی۔ وہ نہ مرتد ہوئے نہ کمزور پڑے اور نہ انھوں نے مراجعت وسستی کا مظاہرہ کیا دعوت کے کام میں مسلسل لگے رہے اور رسالت کی نشر و اشاعت کا فريضہ مسلسل نبھاتے رہے۔ انھوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور قربانی دینے کا جذبہ قائم رکھا۔ اسلامی ریاست نے وسعت اختیار کی اور چھ براعظموں تک پھیل گئی۔ اس کے لشکروں نے سمندروں اور صحراؤں میں اسلام کے جھنڈے گاڑے۔ تکبیر کی صدائیں زمین کی وادیوں سے اٹھ کر آسمان کی فضاؤں سے ٹکرانے لگیں۔
کیا اس امتیاز کے بعد کوئی امتیاز باقی رہ جاتا ہے اور اس کامیابی کے بعد کوئی اور کامیابی ہو سکتی ہے ؟! اے اللہ ہمیں آپ ﷺ کی دعوت کی خدمت کی توفیق دے اور سنت کی نشر و اشاعت میں لگا دے اور ہمیں آپ کی رسالت کے مددگار سپاہی بنا دے۔