محمدﷺبحیثیت محسن

احسان ایمان و یقین کی انتہاء عبودیت کا اعلی درجہ اور اطاعت کا سب سے اونچا مقام ہے۔ یہ عظمت کی دلیل اور فضیلت کا اعتراف ہے۔ کوئی بشر ایسا نہیں جس کی زندگی اور حرکات و سکنات رسول اللہﷺ کی طرح احسان سے بھر پور ہوں۔

نبیﷺ نے اپنے آقا و مولا کے سامنے عجز و انکسار میں احسان سے کام لیا تو اس نے آپ کو اپنا قرب عطا کر کے چن لیا۔ لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ان سے احسان والا معاملہ کیا تو وہ آپ کی محبت کے اسیر ہو گئے۔ نفوس کے ساتھ احسان کیا تو وہ آپ کے شوق دیدار سے بے تاب ہو گئے اور روحوں کے ساتھ احسان کیا تو وہ آپ کی محبت و اتباع کے جذبے سے سرشار ہو گئیں۔

نبیﷺ نے سب کے ساتھ بلا امتیاز حسن سلوک کیا اور بلا تردد ہر ایک کو نوازا۔ جس نے آپ کو اذیت دی، اس سے بھی حسن سلوک کیا۔ جس نے نہیں دیا، اس پر بھی فضل و احسان کیا۔ قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کی۔ آپ کے ساتھ برا سلوک ہوا تو بھی آپ نے حسن سلوک کیا۔ گالیاں دی گئیں تو غصہ پی گئے۔ آپ کی عزت اچھائی گئی تو بھی آپ نے درگزر کیا۔ آپ ﷺنے مستحق اور غیرمستحق ہر ایک کے ساتھ نیکی کی۔ اللہ تعالی نے آپ پر احسان کیا تو آپﷺ نے اچھے طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ آپ کے پیش نظر قرآن مجید کے اس ارشاد کی تعمیل تھی :

﴿وَاحْسِنُ كَمَا أَحْسَنَ اللهُ إِلَيْكَ ﴾

’’اور تو (لوگوں سے ) ایسے احسان کر جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے۔‘‘ (القصص 77:28)

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بہت اچھا منہج عطا کیا۔ آپ پر اپنی نعمت مکمل کی۔ آپ کے دین کی تکمیل کی۔ آپ کو ہر گناہ سے بچایا۔ ہر عیب سے پاک کیا۔ ہر اچھائی اور خوبصورتی آپ کے نصیب اور حصے میں آئی کیونکہ آپ کا احسان، احسان نبوت، علم نافع عمل صالح ، اچھے اخلاق اور مضبوط نقطہ نظر کی صورت میں تھا۔

آپ ﷺ نے ہر اعتبار سے احسان کیا۔ اپنی گرویدہ کرنے والی مسکراہٹ، عمدہ اخلاق ، کمال علم و حوصلہ اور بے انتہا جو دوست کے ذریعے سے احسان کیا۔

آپ ﷺ نے اپنے مال اور اللہ کی عطا کی ہوئی عنایات کے ساتھ احسان کیا۔ علو و درگزر کے ساتھ احسان کیا اور دلوں کی اچھی تربیت اور تزکیہ کرنے کے ساتھ بھی احسان کیا۔

آپ ﷺ نے امت کو احسان کی تمام صورتوں کی ایک ساتھ تعلیم دی، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْء))

’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيد والذبائح، حديث (1955)

میں نے آپ ﷺ کی زندگی میں احسان کا پہلو تلاش کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے ہر انسان کو اس احسان میں سے اتنا دیا کہ اس کی روح خوشی، دل سرور اور ضمیر نور سے بھر گیا۔ آپ ﷺ نے اپنے رب کی عبادت کی تو اس میں درجہ احسان پر فائز ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالی کی عبادت اس یقین ، محبت، تعلق ، قرب، علم اور معرفت سے کی جیسے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہوں۔ آپ عبادت اس کے مقررہ وقت میں ارکان دو مستحبات اور سنن و فرائض کا پوری طرح خیال رکھتے ہوئے خالص اللہ کے لیے کرتے تھے، اور فرماتے:

((اَلْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))

’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، تفسير القرآن، حدیث: 4777)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کے وقت چار رکعت ادا کرتے اور تم ان رکعات کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں نہ ہی پوچھو۔ (صحيح البخاري، التهجد، حديث: 1147)

آپ ﷺ ایسے نماز پڑھتے جیسے اللہ عز وجل کے سامنے کھڑے ہیں۔ سجدہ یوں کرتے گویا آپ کی روح رحمن کے عرش کے گرد طواف کر رہی ہے۔

احسان آپ ﷺ کی زندگی میں کامل ترین شکل میں موجود تھا۔ عبادت و اطاعت کا ہر کام، جیسے نماز ، روزہ، حج، زکاة، تلاوت، ذکر اور صدقہ و خیرات نہایت احسن انداز میں کرتے۔ اور میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں! آپﷺ نے فرمایا:

((لَا يَدْخُلُ أَحَدٌ الْجَنَّةَ إِلَّا أُرِيَ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ لَوْ أَسَاءَ لِيَزْدَادَ شُكْرًا، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ إِلَّا أُرِيَ مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ لَوْ أَحْسَنَ ، لِيَكُونَ عَلَيْهِ حَسْرَةً))

’’جنت میں جو بھی داخل ہوگا، اسے اس کا جہنم کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر نافرمانی کی ہوتی ( تو وہاں اسے جگہ ملتی) تا کہ وہ اور زیادہ شکر کرے۔ اور جو بھی جہنم میں داخل ہوگا، اسے اس کا جنت کا ٹھکانا بھی رکھا یا جائے گا کہ اگر اچھے عمل کیسے ہوتے (تو وہاں جگہ ملتی) تا کہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو ‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث (6569)

حسنِ عبادت میں آپ ﷺ احسان کے اعلی درجے اور بلند رتبے پر فائز تھے اور کیسے نہ ہو کہ آپ ہی نے تو میں اللہ کی عبادت، خشیت اور اس کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اورآپﷺ اللہ تعالی کے حکم:

﴿لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾

’’تا کہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘ (الملك 2:67)

کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اعمال و معاملات میں محسن تھے۔ آپ ﷺ نے عملی طور پر ہمارے ساتھ احسان کیا کیونکہ آپ ہمارے رسول ہیں اور آپ ہی نے احسن اعمال، اقوال اور احوال کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں ہر کام نہایت عمدگی سے کرنے اور احسن طریقے سے بجالانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ تَعَالَى يُحِبُّ مِنَ الْعَامِلِ إِذَا عَمِلَ أَنْ يُحْسِنُ))

’’بلا شبہ اللہ تعالی کام کرنے والے سے یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ کام کرے تو نہایت احسن اور  عمدہ طریقے سے کرے ۔‘‘ (صحیح الجامع، حدیث (1891)

 آپ ﷺ جب قرض لیتے تو واپس کرتے وقت اس سے احسن اور بڑھا کر دیتے۔ ایک آدمی نے رسول اکرمﷺ کو قرض دیا۔ جب واپسی کا مطالبہ کیا تو نہایت سختی اور بد تمیزی کی ۔ صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم نے اسے مارنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

’’اسے چھوڑ دو۔ حق والے کو کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش ہوتی ہی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے لیے ایک اونٹ اس کے اونٹ کی عمر کا خرید کر اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے عرض کیا کہ اس سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’وہی خرید کر دے دو۔ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الهية وفضلها، حديث (2606)

آپ ﷺنے حکیم و خبیر رب کا درج ذیل حکم مانتے ہوئے گفتگو میں بھی احسان کو ملحوظ رکھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَقُوْلُوْالِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ’’اور تم لوگوں سے اچھی باتیں کہنا ۔‘‘ (البقرة 83:2)

آپ ﷺ کی زبان سے نکلنے والا ہر کلمہ سب سے احسن اور ہر جملہ نہایت پاکیزہ ہے۔ دل ان کی طرف مائل ہوتے ہیں تو راحت و سکون سے بھر جاتے ہیں۔ نفوس میں خوشی اور رونق آجاتی ہے۔

آپ ﷺ اپنی امت کو اچھے اعمال اور پاکیزہ وعمدہ اقوال کی ترغیب دیتے اور فرماتے:

((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ))(صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6018)

’’ جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا چپ رہے۔‘‘

آپ ﷺنے اپنے اہل وعیال، اصحاب، خاندان اور قیامت تک آنے والے ہر اس شخص کے ساتھ احسان کیا جسے آپ کا قرب نصیب ہوا اور وہ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوا۔

آپ ﷺ سب سے عظیم خیر خواہ تھے کہ آپ نے لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائی۔ آپ سب سے عظیم مرشد تھے کہ آپ نے لوگوں کو گمراہی کے راستے سے بچایا۔ آپ سب سے عظیم ہادی تھے کہ آپ نے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر انھیں عظیم کا میابیوں سے ہمکنار کیا اور انھیں بہت بڑے خطرات سے نجات دلائی۔ وہ آپ ﷺ کی وجہ ہی سے نعمتوں والی جنتوں میں جائیں گے، اور یہ احسان کی انتہا ہے۔ اس سے بڑا احسان نہیں ہو سکتا۔

آپ ﷺ نے لوگوں پر نیکی، رحمت و شفقت اور لطف و کرم کر کے بھی احسان کیا۔ آپ ﷺ نے خوبصورت ترین اعمال ، نرم ترین کلمات ، لطیف ترین لمس اور نہایت مبارک دعاؤں کے ساتھ بھی احسان کیا اور لوگوں کو ہر حسن کا بدلہ دینے کا حکم دیا، خواہ دعا کے ساتھ ہی ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوْا لَهُ حَتّٰى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ))

’’جو تمھارے ساتھ نیکی کرے، اسے اس کا بدلہ دو۔ اگر تمھارے پاس اسے بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے ۔‘‘ (سن أبي داود، الزكاة، حدیث:1672)

سیدنا عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے پانی مانگا تو میں آپ کے پاس ایک برتن میں پانی لایا۔ اس میں ایک بال تھا۔ میں نے وہ نکالا اور پھر پانی آپ کو پیش کیا تو آپﷺ نے دعا دی:

’’اے اللہ اسے خوب سیرت و خوبصورت بنا دے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 22881 و 22883)

آپ ﷺ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ ’’احسان کا بدلہ احسان ہی ہے‘‘ پر سب سے بہترین عمل کرنے والے تھے۔

احسان کے ساتھ آپ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ آپﷺ نے اپنے نواسوں کے نام حسن و حسین اور محسن رکھے۔ در حقیقت احسان آپ کا طرز حیات اور خوبصورتی آپ کا منہج اور سیرت تھی۔

آپ ﷺ ایسا دین لائے جس کی ہر بات حسین ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾

’’اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جس نے ( لوگوں کو) اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور کہا: بے شک میں تو فرماں برداروں میں سے ہوں ۔ ‘‘ (حم السجدة 33:41)

اسلام کی تعلیمات سننے میں بھی حسین ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۱۸﴾

’’وہ لوگ جو بات کان لگا کر غور سے سنتے ہیں، پھر پیروی کرتے ہیں اس میں سے سب سے اچھی بات کی، یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے انھیں ہدایت دی اور یہی لوگ عقل والے ہیں۔‘‘ (الزمر 18:39)

 اور آپ ﷺ فرماتے: ((إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا))

’’بلاشبہ تم میں سب سے بہترین وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں ۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 8038)

 انصار کے ساتھ آپ ﷺ کے احسان کا نمونہ اس وقت سامنے آیا جب آپ نے ان کے سامنے غزوہ حنین کے دن خطبہ دیا، آپﷺ نے فرمایا:

’’اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا، پھر تمھیں میرے ذریعے سے اللہ تعالی نے ہدایت نصیب کی ۔ تم آپس میں دشمن اور اختلاف کا شکار تھے تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تم میں باہم الفت پیدا کی۔ تم محتاج تھے تو اللہ تعالی نے میرے ذریعے سے تمھیں غنی کیا۔ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے جاؤ ؟ اگر ہجرت کی فضیات نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا ۔ لوگ، خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں رہیں، میں تو انصار کی کھاٹی اور وادی میں رہوں گا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4330)

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور قیامت تک آنے والے پیروکاروں کے ساتھ آپ ﷺ کے احسان عظیم کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے انھیں مقدس وحی کی برکات اور رسالت محمدیہ کی پاکیزہ اور مبارک نواز شات سے فیض یاب کیا۔ اس کے ساتھ ان کے دل موہ لیے اور انھیں اپنا گرویدہ کر لیا۔

کسی دانا کا قول ہے: ’’دل اس کی محبت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جو ان کے ساتھ اچھائی کرے۔‘‘

جب ہمارےرسول ﷺ کے احسانات ہم پر سب سے زیادہ ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہمارے دل آپ کی طرف کچھے چلے جائیں، ہماری آنکھیں آپ کی زیارت کو ترسیں اور ہماری رو میں آپ کی رفاقت کے لیے بے تاب ہوں۔  آپ ﷺ نے تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی احسان کیا کہ انھیں نہایت عمدہ دعوت پیش کی۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف والا معاملہ کیا، ان سے نہایت احسن انداز میں بحث کی اور ان پر حجت قائم کر دی۔

جب آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو اہلِ کتاب یہود کے ساتھ حسن معاملہ کی نہایت اعلیٰ اور خوبصورت مثال قائم کی۔ آپ نے انھیں امن و سلامتی کے مشترکہ معاہدے اور مدینہ کے دفاع کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی دعوت دی۔ ان کے حقوق کے تحفظ کی مکمل گارنٹی دی اور انھیں اچھے انداز سے اسلام کی طرف بلایا۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ ساتھ درج ذیل ارشاد باری پر عمل کرتے ہوئے اللہ کا حکم نافذ کیا اور اس میں ذرہ مداخلت نہ کی:

﴿ لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۝۸﴾

’’اللہ تمھیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا، کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان سے انصاف کرو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔‘‘ (الممتحنة8:60)

اور ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ﴾

’’ اور تم اہل کتاب سے احسن انداز ہی سے بحث و تکرار کرو، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہیں ۔‘‘ (العنكبوت 46:29)

جب نجران کے عیسائیوں کا وفد   نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے ان کی عزت و تکریم کی۔ انھیں خوش آمدید کہا۔ اچھی جگہ شہر ایا اور ان کے سامنے دلائل و براہین پوری طرح واضح کیے۔

اہل کتاب کے ساتھ آپ کی نیکی یہ ہے کہ جن یہودیوں نے آپ کے ساتھ کیسے ہوئے معاہدوں کی پاسداری کی ، آپ نے ان کے مال ضبط کیے نہ ان کی جائیدادیں چھینیں اور نہ ان کے حقوق غصب کیے۔ آپ نے ایک یہودی سے قرض لیا تو اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔ مدینہ طیبہ پر مسلمانوں کے مکمل کنٹرول کے باوجود نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ پورے عدل و انصاف سے یہودیوں کے ساتھ لین دین کرتے تھے کیونکہ  آپ ﷺ عدل و احسان کے ساتھ بھیجے گئے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾

’’بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا  ہے۔‘‘ (النحل90:16)

  آپ ﷺ کے احسان کی عظیم مثال یہ ہے کہ آپ نے حالت کفر میں مرنے والے ایک مشرک کی موت کے بعد بھی اس پر احسان کیا۔ وہ کا فر مطعم بن عدی تھا۔ اس نے نبی اکرم ﷺکو پناہ دی تھی یہاں تک کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب غزوہ بدر ہوا اور مسلمانوں نے مشرکوں کے ستر آدمی گرفتار کر لیے تو بعض مسلمانوں نے انھیں قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

((لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٌّ حَيًّا، ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنٰى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ))

اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا، پھر ان بد بودار لوگوں کے بارے میں بات کرتا تو میں اس کی خاطر ضرور انھیں چھوڑ دیتا۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3139)

پھر آپ ﷺ نے انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا اور ان سے درگزر کیا۔ غور کریں کہ آپ نے احسان کرنے والے کی کس طرح قدر کی ! اس کا احسان یا د رکھا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا، اگر چہ وہ مشرک ہی تھا۔

آپ ﷺنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا اور نیکی و احسان والی وہ شریعت لائے جس نے اللہ کے حق کے ساتھ ہی والدین کے حقوق کا ذکر کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ﴾

’’اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (بنی اسراءيل 23:17)

آپﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا درس دیا، بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ آپ ان کے لیے دعا کرنے، ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنے اور ان کی شکر گزاری کا حکم دیتے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت، توحید اور حق شکر گزاری کے ساتھ والدین کے حق کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿  اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ﴾

’’( اور ) یہ کہ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر کر ۔‘‘ (لقمان 14:31)

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿  اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ﴾

’’کہہ دیجیے : تم آؤ میں پڑھ کر سناتا ہوں جو کچھ تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے کیا ہے، (اس نے  تاکیدی حکم دیا ہے) کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ خوب نیکی کرو۔‘‘ (الأنعام151:6)

نبی ﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو جہاد سے بھی مقدک رکھا ہے۔ جب ایک شخص نے آپﷺ سے جہاد کرنے کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’کیا تمھارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟ ‘‘اس نے کہا: جی ہاں، دونوں زندہ ہیں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اچھے برتاؤ سے ان کے ساتھ رہو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حديث : 2549)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز وقت پر ادا کرنا۔‘‘ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’والدین سے حسن سلوک کرنا ۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث (85)

  آپ ﷺ نے نیکی اور حسن سلوک میں ماں کو سب سے مقدم قرار دیا۔ ایک شخص رسول اکرم ﷺ کے پاس یہ پوچھنے آیا کہ اس کے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ”تمھاری ماں۔‘‘ اس آدمی نے کہا: پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا: پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر تمھارا باپ۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 5971)

اگر ماں مشرکہ ہو تو بھی  آپ ﷺ نے اس کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا  سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے فتویٰ لیا کہ کیا میں اپنی مشرکہ ماں سے حسن سلوک کر سکتی ہوں؟ آپﷺ نے مجھے جواب دیا: ((نعم ، صلي أمك))

’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔“ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 5979)

اس سے بڑا احسان اور اس سے بڑھ کر صلہ رحمی کیا ہوسکتی ہے کہ ماں کے عقائد و نظریات بیٹی کے نظریات سے مختلف ہیں مگر اس کے باوجود آپ ﷺ اسے ماں کے ساتھ نیکی ، صلہ رحمی اور حسن سلوک اور اس کی عزت و تکریم کا حکم دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَصَاحِبَهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا﴾

’’اور دنیا میں بھلے طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (نقصان 15:31)

آپ ﷺ نے فقراء و مساکین اوریتیموں پر بھی احسان کیا جیسا کہ اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں حکم دیا:

﴿ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِیْنِ ﴾

’’اور والدین، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرنا ۔‘‘ (البقرة 83:2)

اور ارشاد باری تعالی ہے:﴿ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ۝۹

وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ۝۱۰﴾

’’لہذا آپ یتیم پرسختی نہ کریں۔ اور سائل کو نہ جھڑ کیں ۔‘‘ (الضحی 93: 9،10)

آپﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر یتیموں کے ساتھ لطف و کرم والا معاملہ کرتے ۔ آپ ﷺ نے سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا اور جو یتیم آپ کے زیر پرورش تھے، ان کے ساتھ بھی احسان کیا۔ آپ ایسی شریعت لائے جو قیامت تک فقراء، مساکین اور یتیموں کے ساتھ احسان کا درس دیتی ہے۔ آپ نے اس کا عملی نمونہ سنت مطہرہ کی صورت میں پیش کیا۔ دسیوں احادیث فقراء ومساکین کے حقوق کے دفاع، ان کے اموال کی حفاظت، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنے ، ان کے سر پر دست شفقت رکھنے اور ان کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانے کی ترغیب پر موجود ہیں۔ ان میں آپ ﷺکا یہ فرمان بھی ہے:

((السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ، أَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ))

’’بیواؤں اور مسکینوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النفقات، حديث (5353)

اسلام کے سوا دنیا میں کوئی ایسا قانون یا نظام نہیں جس نے فقراء و مساکین کے باقائدہ حقوق مقرر کیے ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿إنَّمَا الصَّدِّقْتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ﴾

’’زکاۃ تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے۔ ‘‘(التوبة 60:9)

بلکہ  آپ ﷺ نے یتیموں کے ساتھ احسان کو دل کی سختی دور کرنے کا علاج قرار دیا ہے۔ جب ایک آدمی نے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ ﷺنے اس سے فرمایا:

((إِنْ أَرَدْتَ أَنْ يَّلِيْنَ قَلْبُكَ فَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ، وَامْسَحُ رَأْسَ الْيَتِيمِ))

’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا دل نرم ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیروں‘‘ (صحیح الجامع، حدیث: 1410)

اللہ تعالی کی عظیم کتاب میں مسکین، یتیم اور قیدی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنَا وَيَتِيْمًا وَأَسِيْرًا﴾

’’اور وہ کھانا، اس کی محبت کے باوجود، مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔‘‘ (الدھر 8:76)

  آپ ﷺ نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 ﴿وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ﴾

’’اور رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی اور ہم نشین کے ساتھ بھی نیکی کرو۔‘‘ (النساء 36:4)

ایک روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے: ((مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِيْنِي بِالْجَارِ، حَتّٰى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ))

’’جبریل مسلسل مجھے ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت اور تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ جلد اسے وارث قرار دے دیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6014)

اور ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ))

’’جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔‘‘(صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6019)

اس کی عزت افزائی یہ ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ۔ مصیبت میں اس کی غم خواری کی جائے، بیماری میں اس کی عیادت کی جائے۔ اس کی خوشیوں میں شریک ہوا جائے۔ اس کی پردہ پوشی کی جائے۔ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے۔ اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے پیش آیا جائے اور اس کی ایذا رسانیاں برداشت کر کے اس کی مدد و نصرت کی جائے۔

ہمسائے کے ساتھ برا سلوک کرنے والے کو آپ ﷺنے ڈراتے ہوئے فرمایا:

((اَلَّا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَّا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ))

’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے ہمسائے اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم الإيمان، حديث: 46)

آپ ﷺ نے سیدنا ابو ذر  رضی اللہ تعالی عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اے ابوز ر!  جب تم شوربہ بناؤ تو پانی زیادہ ڈالو اور اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو۔‘‘ (صحیح مسلم البر والصلة حديث (2625)

آپ ﷺ نے عورتوں کو اپنی ہمسایہ عورتوں سے حسن سلوک کی خاص تاکید کی اور فرمایا :

’’اے مسلمان عور تو!  ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کے لیے معمولی ہدیے کو بھی حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کا کُھرہی ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الهبة وفضلها، حديث: 2566)

یعنی اپنی پڑوسن کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے، خواہ وہ معمولی اور غیر مفید ہی ہو۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا: میرے دو ہمسائے ہیں تو میں کس کی طرف تحفہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا))

’’جس کا دروازہ تمھارے دروازے کے زیادہ قریب ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الشفعة، حديث: 2259)

 آپ﷤ نے ہمسائے کے ساتھ سلوک اور برتاؤ کو سی انسان کے اچھا یا برا ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اکرم ﷺلالم سے پوچھا:

’’اے اللہ کے رسول ! جب میں نیکی کروں اور جب میں برائی کروں تو مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ میں نے نیکی یا برائی کی ہے؟ ‘آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو اپنے پڑوسیوں کو یوں کہتا ہے کہ تو نے نیکی کی ہے، تو تو نے نیکی کی ہوگی اور جب ان کو یوں کہتا ہے کہ تو نے برائی کی ہے تو تو نے برائی کی ہوگی ۔‘‘ (مسند احمد،حدیث:3808)

آپﷺ کے احسان کی ایک عظیم ترین صورت یہ ہے کہ آپ نے ہر اس شخص کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جس نے زبان اور عمل سے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا۔ آپ نے اللہ لطیف و خبیر کے اس فرمان پر عمل کیا:

﴿ وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ ؕ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۝۳۴﴾

’’اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتیں۔ آپ برائی کو ایسی بات سے نا لیے جو احسن ہو، تو آپ دیکھیں گے یکا یک وہ شخص کہ آپ کے اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہو جائے گا جیسے گرم جوش جگری دوست ہوں‘‘ (حم السجدة 34:41)

آپ ﷺہر برائی کے مقابلے میں حسن سلوک کرتے۔ جفا و سختی کرنے والے سے نرمی و شفقت سے پیش آتے۔ منہ بسورنے والے کو مسکراہٹ اور بشاشت سے ملتے قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کرتے۔ جنھوں نے آپ کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا، آپ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو وہ آپ کے قریبی ساتھی بن گئے۔ جنھوں نے آپﷺ کو جلا وطن کیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو وہ آپ کے زیر سایہ ریاستوں کے گورنر بن گئے۔ جنھوں نے آپ سے قطع رحمی کی اور محروم رکھا، ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کیا تو وہ مرتے دم تک آپ کے مشیر اور مددگار بن گئے۔

آپ ﷺنے پوری انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ انھیں انسانی ہمدردی، بھائی چارے، سماجی یکجہتی اور نسل انسانی کے تحفظ کا درس دیا۔ نسل پرستی اور جاہلی تعصب کی مخالفت کی۔ قتل و غارت سے روکا۔ لوگوں کے حقوق صب کرنے ، دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانے اور عزتیں پامال کرنے سے منع کیا۔ پر امن بقائے باہمی، انسانی شناسائی اور رب تعالی کے حکم کی تعمیل میں ایک دوسرے سے عفو و درگزر کرنے کا حکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۱۳﴾

’’اے لوگو! بلاشبہ ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بلاشبہ اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جانے والا، پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات 13:49)

آپﷺ نے بلا امتیاز مسلمان و کافر ہر انسان کے ساتھ احسان کیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہو گئے۔ آپ سے عرض کیا گیا: یہ یہودی کا جنازہ ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ انسان نہیں؟‘‘ (صحيح البخاري، الجنائز، حديث (1312)

یہ آپ ﷺکی عظیم انسانیت تھی جس سے آپ نے پوری دنیا کو فیض یاب کیا۔

آپﷺ نے بوڑھے شخص کی بزرگی کے مطابق اسے حق دیا اور اس کے ساتھ احسان فرمایا۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللهِ تَعَالَى إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ))

’’بلا شبہ اللہ تعالی کی بزرگی و عظمت اور شان و شوکت کا ایک حصہ بوڑھے مسلمان کی عزت و تکریم کرنا بھی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4843)

آپﷺ نے بیٹوں اور بیٹیوں سے محبت و شفقت کرنے اور ان کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیا اور اسے ان کا حق قرار دیا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے:

’’میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بچیاں بھی تھیں۔ اس نے مجھ سے کچھ مانگا۔ میرے پاس سے اسے ایک کھجور ہی ملی۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی تو اس نے اسے اپنی دونوں بچیوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ پھر وہ اور اس کی بیٹیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ پھر میرے پاس نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس کسی پر بھی بیٹیوں کی پرورش کا بار پڑ جائے اور وہ ان کے ساتھ حسین سلوک کرے تو وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ ہوں گی۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة حديث: 2629)

آپ ﷺ نے فطری امور میں بھی احسان سے کام لیا اور راستے کا حق مقرر فرمایا۔ اس سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا حکم دیا بلکہ اسے ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا، چنانچہ فرمایا:

’’میں نے جنت میں ایک آدمی کو ایک درخت کی وجہ سے جنت میں ٹہلتے دیکھا کہ اس نے وہ درخت اس لیے راستے سے کاٹ دیا تھا کہ وہ لوگوں کو اذیت دیتا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة حديث (1914)

آپ ﷺ نے پانی کے گھاٹ کے بھی آداب مقرر فرمائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں غسل نہ کرے جبکہ وہ جنبی ہو۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا: دو کیسے کرے؟ آپ نے فرمایا: ’’پانی لے کر باہر غسل کرلے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 283)

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ))

’’تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں، جو چلتا نہیں ہے، پیشاب نہ کرے، پھر اسی میں وہ غسل کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حديث: 239)

آپ ﷺ نے پانی کی حفاظت کا حکم دیا اور اسے ضائع کرنے سے منع کیا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ﴾

’’اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘ (الأعراف 31:7)

اسی طرح آپ ﷺ نے عوامی مفاد کا لحاظ رکھنے کی حدود متعین کر دیں تا کہ سب لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ قابل قدر چیزوں کو ضائع کرنے قومی املاک کو نقصان پہنچانے اور کھیتی ونسل کو تباہ کرنے سے منع فرمایا۔ نیکی اور احسان کے حوالے سے ایسا عام ضابطہ مقرر فرمایا کہ پرندوں اور جانوروں تک بلکہ ہر ذی روح کے حقوق کا لحاظ رکھنے اور اس کے ساتھ احسان کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ((في كُلِّ كبد رطبة أجر))

’’ہر جاندار چیز سے حسن سلوک میں ثواب ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المساقاة، حديث (2363)

یہاں تک کہ بلی اور کتے کو کھلانے پلانے پر بھی ثواب ہے۔آپ ﷺ نے ایک عورت کے بارے میں بتایا کہ وہ بلی کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے آگ میں چلی گئی اور ایک آدمی کتے کو پانی پلانے پر جنت میں داخل ہو گیا۔ آپ ﷺ فرماتے:

((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلْ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ))

’’جو مسلمان کوئی پودا لگائے یا کھیتی کا بیچ ہوئے ، پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھائے، وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، المزارعة، حديث: 2320)

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے کسی چڑیا کو بے جا کھیل تماشے میں قتل کیا، قیامت کے دن وہ بآواز بلند اللہ تعالی سے فریاد کرتے ہوئے کہے گی : اے میرے رب ! بلاشبہ فلاں نے مجھے بے فائدہ قتل کیا، کسی فائدے کے لیے ذبح نہیں کیا۔‘‘ (سنن النسائي، الضحايا، حديث: 4451، ضعيف)

آپ ﷺنے جانوروں کو چارہ ڈالنے اور ان کا خیال رکھنے میں بھی احسان کا حکم دیا۔ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع کیا۔ ذبح کرتے وقت بھی جانور کے ساتھ احسان کرنے اور اسے آرام پہنچانے کا حکم دیا۔ فرمایا:

’’جب تم جانور ذبح کرو تو احسن طریقے سے کرو۔ تمھیں چاہیے کہ چھری تیز کرو اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ‘‘ (صحیح مسلم، الصيد والذبائح، حديث: 1955)

سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے ہدی ( کعبہ کی طرف بھیجی جانے والی قربانی) پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((اِرْكَبُهَا بِالْمَعْرُوفِ إِذًا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتّٰى تَجِدَ ظَهْرًا))

’’اگر تمھیں ضرورت ہو تو اس پر معروف طریقے سے سوار ہو جاؤ یہاں تک کہ کوئی دوسری سواری مل جائے تو پھر اس پر سوار نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1324)

اللہ کی قسم ! یہ دین کتنا خوبصورت ہے، یہ شریعت کتنی مکمل ہے اور یہ رسول کتنے پارسا و محسن ہیں مختصر یہ کہ آپ ﷺ زمین اور اہل زمین کے لیے رحمت و احسان بن کر آئے ۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ! آپ ﷺ کے سوا  تاریخ میں جتنے بھی محسنین گزرے ہیں، سب کا احسان زمان و مکان اور مخصوص افراد تیک محدود تھا۔ آپ کا احسان زمان و مکان اور فرد کی قید سے آزاد، عام اور سب کو محیط ہے۔ ہر مسلمان مرد و عورت قیامت تک ہر زمان و مکان میں آپ ﷺ کے احسان سے فائدہ اٹھاتا رہے گا۔

مختلف ادوار اور زمانوں میں گزرنے والے محسنین نے اپنے علم ، عہدے، مال یا کھانے کے ذریعے سے احسان کیا سوائے نبی اکرمﷺ کے، آپ نے احسان کی تمام صورتیں جمع کر دیں۔ آپ نے عمدہ کلام اور سلام عام کیا۔ کھانا کھلایا۔ ہدایت کی نشر و اشاعت کی۔ علم سکھایا۔ لوگوں کے درمیان صلح کرائی، نیکی کا ہر راستہ اپنایا۔ صلہ رحمی کی اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کیا۔

محترم قارئین! میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ کے اوراق میں محمدﷺ کے سوا کون ایسا شخص ہے جس کے احسان نے ہمارے دل و جان، عقل و شعور اور بدن کو معطر کیا ہو؟ مخلوق میں کسی کا احسان کتنا بھی بڑا ہو، آپ ﷺ کے احسان سے تعظیم و برتر نہیں ہو سکتا۔ آپ نے اپنی نبوت و رسالت کے ساتھ ہم پر وہ احسان کیا ہے جو سب سے عظیم نیکی اور سب سے شان دار تحفہ ہے۔

آپ ﷺ ہمیں جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے اور اللہ کے حکم سے ہمیں گمراہی سے ہدایت بخشی۔ اللہ کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر نو پر ہدایت عطا کیا اور صراط مستقیم کی راہ دکھائی۔

آپ ﷺ نے نفع بخش علم، درستی رائے اور ربانی ہدایت کے ساتھ ہماری عقلوں پر احسان کیا۔ عبادت اطمینان ، سکون اور یقین کی دولت سے مالا مال کر کے ہماری روحوں پر احسان کیا۔ طہارت، نظافت، اچھی شکل و صورت اور خوبصورت چال ڈھال سکھا کر ہمارے جسموں پر احسان کیا۔ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ سے پہلے نہ کسی نے ہم پر آپ جیسا احسان کیا ہے اور نہ آپ کے بعد کوئی کرے گا۔ ہمارے ماں باپ، اولاده علماء اور دوست احباب کے احسانات تو نبی اکرمﷺ کے احسانات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالی آپ کو اس کی بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو اپنی امت کی طرف سے دیتا ہے۔