محمدﷺ بحیثیت موَحِّد

نبی اکرم ﷺکی بعثت سے پہلے لوگ شرک میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ اپنی مورتیوں پر مجاور بن کر بیٹھنا اور اپنے بتوں کو سجدہ کرنا ان کا دین تھا۔ کوئی انسانوں کی عبادت کرتا، کوئی پتھروں سے تبرک حاصل کرتا تھا اور کوئی درختوں کو پوجتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ انھیں اللہ کے قریب کرتے ہیں۔ وہ بے زبان و بے جان پتھروں اور مجسموں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے۔ ان کے سامنے گڑ گڑاتے۔ ان کا وسیلہ پکڑتے۔ ان کا طواف کرتے۔ ان کی پناہ مانگتے۔ ان کی چوکھٹ اور استھان پر گرتے اور ان سے درخواست کرتے کہ ہماری حاجتیں چھی اور مخفی چیزوں کے جاننے والے رب کے سامنے پیش کرو۔

وہ دلوں کے بھید جاننے اور پوشیدہ امور سے واقف باری تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بتوں کے سامنے اپنے فقر کا شکوہ کرتے ، اپنی حاجتیں ان کے سامنے رکھتے ، ان سے شفا ما نگتے اور اولاد، رزق اور مدد و نصرت کی درخواست کرتے۔ کیا عجب مذاق اور کھیل تماشا تھا! ایک آدمی کھجوروں کا معبود بناتا، پھر اسے سجدہ کرتا اور جب بھوک لگتی تو اسے کھا لیتا۔ کوئی لکڑی کے بہت کا طواف کرتا، پھر اس کا تکیہ بناتا اور سو جاتا۔ کوئی پتھر کے صنم کی عبادت کرتا، رات کے پچھلے پہر اس کے حضور اپنی حالت زار کا شکوہ کرتا، اس کے سامنے دست سوال دراز کرتا، پھر دیکھتا کہ کتے اور لومڑ اس پر پیشاب کر رہے ہیں مگر وہ پھر بھی اس کے سامنے سجدہ کرتا اور اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا۔ یہ سب اس وجہ سے تھا کہ ان کی فطرت مسخ ہو چکی تھی، عقل ماؤف ہو چکی تھی اور بصیرت چھن چکی تھی۔ پھر ربانی تعلیمات کے ساتھ آپ ﷺکی رسالت کا نور روشن ہوا اور آپ وحدانیت کے ساتھ مبعوث کیے گئے۔ آپ نے لا إله إلا الله کی صدا بلند کی جس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے قول، فعل اور حال سے توحید کو یقینی بنایا۔ لوگوں کے دلوں میں توحید کا پودا لگانے، عقیدے کی اصلاح کرنے ، لوگوں کے لیے اس کے اصول واضح کرنے اور عبادت و طاعت صرف اللہ کے لیے ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔

آپﷺ نے شرک کی تمام صورتوں اور طریقوں، بدعات و خرافات اور فاسد عقائد و نظریات کو ختم کیا۔ آپ کا اوڑھنا بچھونا توحید تھا، جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲

لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝﴾

’’کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت ، (سب کچھ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اس بات، یعنی توحید ) کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔‘‘ (الأنعام 6: 162،163)

آپﷺ نے خبر دی کہ انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت اور کامیابی کا انحصار توحید پر ہے۔ اس سے اکیلے اللہ کی وہ کامل عبودیت حاصل ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور علوم سے وجود بخشا، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾

’’اور میں نے جن اور انسان اسی لیے تو پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات 56:51)

دن رات کا بدل کر آنا، آسمانوں اور زمین کی تخلیق، انواع و اقسام کی مخلوقات ، طرح طرح کے جمادات اور حیوانات، ان کی مضبوط اور انوکھی تخلیق اور ان کی استوار شکلیں اس بات پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا خالق صرف اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ﴾

’’اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ ہر چیز پر خوب نگہبان ہے۔‘‘ (الزمر 62:39)

کا ئنات کے نظام حرکت کی درستی، ہم آہنگی اور نہایت منظم طریقے سے اس کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا ئنات کا معبود صرف ایک ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝﴾

’’اگر ان دونوں (زمین و آسمان ) میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور یہ دونوں تباہ ہو جاتے ، چنانچہ اللہ عرش کا رب ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔‘‘ (الأنبیا ء 22:21)

وہ پاک رب عبودیت، الوہیت، جمال، کمال اور جلال میں یکتا ہے۔ اس نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ جنوں اور انسانوں کو اپنی وحدانیت کا اقرار کرنے کے لیے وجود بخشا اور مخلوق کو اپنی اطاعت کے لیے بنایا۔

جس نے اللہ کی اطاعت کی، وہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ جس نے اس سے محبت کی اس نے اس کا قرب حاصل کر لیا۔ جس نے اس کی نافرمانی کی، اسے وہ سزا دے گا اور جس نے اس سے جنگ کی . اسے وہ ہلاک کر دے گا۔ جو اسے یاد کرے، اسے وہ یاد کرتا ہے اور جو اس کا شکر ادا کرے، اسے وہ مزید نواز تا ہے۔ اس کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

توحید کی حقیقت کا خلاصہ یہ ہے کہ اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے اور نیت وارادہ بھی خالص اسی اکیلے کے لیے ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠۝﴾

’’اور تمھارا (سچا) معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں۔ وہ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرة 2: 163)

تمام انبیاء علیہم السلام کی سب سے بڑی ذمہ داری اور پہلا پیغام توحید باری تعالٰی کی دعوت دینا تھا کیونکہ یہ سب سے افضل عمل اور عظیم ذمہ داری ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَی اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ ؕ ﴾

’’اور بلاشبہ  یقینًا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی، اور ان میں سے بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی۔‘‘ (النحل 36:16)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝﴾

’’ اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہذا تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ (الأنبيا .25:21)

آپ ﷺ کو وصفا پر کھڑے ہو کر اپنے قرابت داروں اور دیگر قریش کو آواز دی اور رب تعالی کی توحید کا اعلان عام کیا، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔‘‘ (الشعراء 214:26)

تو رسول اللہ ﷺکھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ قریش ! تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خرید لو، میں اللہ کے حضور تمھارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف میں اللہ کی طرف سے تمھارا دفاع نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب! میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کر سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد (ﷺ)جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے، تم اس کا سوال مجھ سے کر سکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے میں تمھارا دفاع نہیں کر سکوں گا۔“ (صحيح البخاري، الوصايا، حديث: 2753)   آپ ﷺ کا یہ فرمان اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے ہے جو کائنات کی عورتوں کی سردار ہیں، یعنی میں اہل توحید کے سوا کسی کے حق میں شفاعت نہیں کروں گا، خواہ کوئی کتنا ہی قریبی ہوتی کہ میری لخت جگر فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا کیوں نہ ہو۔ میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں!

چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز توحید باری تعالی سے کیا اور آپ کی رسالت کا لب لباب ہی اللہ عز و جل کی توحید ہے۔ آپ ﷺنے تیرہ سال مکہ میں دن رات چھپ کر اور علانیہ صرف لا إله إلا الله کی دعوت دی۔ مجلسوں، بازاروں اور عام مجمعوں میں بار بار توحید کی دعوت دی۔ چھوٹے بڑے اور شہری دیہاتی ہر ایک کے سامنے لا إله إلا الله کی دعوت پیش کی۔ یہ دعوت توحید آپ کی سانسوں کے ساتھ چلتی ، آپ کے خون کے ساتھ گردش کرتی اور آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتی تھی۔ آپ کا پیغام نہایت واضح ، روشن اور صاف تھا جسے اختصار کے ساتھ آپ نے ان الفاظ میں پیش کیا: (يٰا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا))

’’لوگو ! لا إله إلا الله کہو تم فلاح پا جاؤ گے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 16023)

ذراکلمہ(( تفلحوا)) پر غور کریں، اس میں دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اور عظیم کامیابی کا ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ﴾

’’تو (اے نبی!) آپ جان لیجیے کہ بلاشبہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، اور اپنے گناہ کی بخشش مانگیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔‘‘ (محمد 19:47)

آپ ﷺنے دعوت کا آغاز نماز، روزہ، حج، اخلاق اور آداب سے نہیں بلکہ صرف توحید باری تعالی سے کیا۔ یعنی لا إله إلا الله ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اور مذکورہ بالا تمام عبادات کا حکم دعوت توحید کے بعد مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ تمام عبادات کی جزئیات کی وضاحت، عقیدے کے اصول وضوابط کی تعیین، اس کے بارے میں وارد شکوک و شبہات کا ازالہ، بدعات، خرافات اور شرکیہ امور سے بچاؤ کی ہدایات اور جہاد وغیرہ، سب عقیدہ توحید کی حفاظت اور دفاع کے لیے ہیں۔

آپ ﷺاپنی وفات تک مسئلہ توحید کو دہراتے رہے اور لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کرتے رہے۔ آپ کی دعوت کا آغاز بھی لا إله إلا الله سے ہوا اور موت کی بے ہوشی میں بھی آپ کی زبان پر آخری کلمہ لا الہ الا اللہ تھا۔ آپ ﷺ نے توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات کی دعوت دی کہ اللہ تعالٰی اپنی ربوبیت، الوہیت اور اسماء وصفات میں اکیلا ہے۔آپ ﷺ نے سب سے زیادہ زور توحید الوہیت پر دیا کیونکہ مشرکوں نے اس کا انکار کیا۔ اور روز اول سے انبیاء اور ان کی امتوں کے درمیان توحید الوہیت کا مسئلہ کی باعث اختلاف رہا ہے۔

آپ ﷺ نے دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے ایک بنیادی اور اہم ضابطہ متعین کر دیا کہ دعوت اسلام میں سب سے مقدم اور عالی شان ہدف، منہج کی اساس اور سب سے زیادہ قابل توجہ چیز توحید باری تعالی ہے۔ ہر وہ دعوت جس میں عقیدہ توحید کو اس طرح اولیت نہ دی جائے جس طرح رسول اکرم ﷺ نے اپنے قول و فعل اور عمل سے اہمیت دی، وہ دعوت ناقص ہے۔

سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی  ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالی عنہ کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: ((إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلٰى قَوْمٍ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلٰى أَنْ يُّوَحِّدُوا اللهَ تعالی)) ’’تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، اس لیے سب سے پہلے انھیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث (7372)

آپ ﷺکی عبادات ، کلمات ، آنسو اور زندگی کی سانسیں اپنے رب کی توحید کے لیے وقف تھیں بلکہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور حرکات و سکنات سب کچھ رب تعالی کی توحید کے اثبات کے لیے تھا۔ آپ ﷺ کے جہاد، خطبات، مواعظ اور فتاوی کی اساس اللہ تعالیٰ کی توحید تھی جو ہر چیز کی اصل، رب تک رسائی کی سیڑھی اور اعمال کی قبولیت کا تاج ہے۔

 آپ ﷺ الفاظ و اعمال میں بھی توحید ملحوظ رکھتے اور اس کا دفاع کرتے تھے۔ سید نا عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے ایک آدمی کو کہتے سنا: جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا؟! تم کہو: جو اکیلے اللہ نے چاہا، وہی ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 1839)

یعنی آپ نے الفاظ کے چناؤ میں بھی توحید ملحوظ رکھی اور ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا جن سے شرک کی بو آتی ہو۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے کہا: ہم اللہ کے حضور آپ کی سفارش پیش کرتے ہیں اور اللہ کو آپ کے حضور سفارشی لاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر!کیا جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہوں اور رسولﷺ مسلسل تسبیح (سبحان اللہ) کہتے رہے حتی کہ اس (خوف کا اثر) آپ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کے چہروں پر محسوس کیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ((وَيْحَكَ ! إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلٰى أَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهِ ، شَأْنُ اللهِ أَعْظَمُ مِنْ ذلِكَ)) ’’افسوس تجھ پر اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے ہاں سفارشی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی کی شان اس سے کہیں زیادہ باعظمت اور برتر ہے۔‘‘ (سنن ابي داود، أول كتاب السنة، حديث: 4726)

اللہ تعالی کی تعظیم، توحید، تقدیس اور تسبیح کا تقاضا ہے کہ اللہ جل شانہ کی بزرگی اور عظمت کا بول بالا کیا جائے اور یہی توحید کا راز ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’سات ہلاک کر دینے والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، جادو کرنا، کسی جان کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ جائز ہے، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا، لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن اہل ایمان، بھولی بھالی خواتین پر زنا کی تہمت لگانا‘‘ (صحيح البخاري، الوصايا، حديث: 2766)

سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی خطا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لیے اس کو تمام حرام کردہ امور میں سر فہرست رکھا گیا ہے۔

سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

((مَنْ عَلَقَ تَمِيمَةٌ فَلَا أَتَمَّ اللهُ لَهُ، وَمَنْ عَلَّقَ وَدَعَةً فَلَا وَدَعَ اللهُ لَهُ))

’’جس نے کوئی تعویذ گلے میں لڑکا یا، اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جس نے کوئی سیپ لڑکائی ، اللہ اس کی حفاظت نہ کرے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 17404)

آپ ﷺ نے ہر اسم سے اس کے مناسب حال معنی اخذ کیسے کیونکہ جو تعویذ لٹکاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی مراد پوری ہو تو آپ ﷺنے اس کے لیے بد دعا فرمائی کہ اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جو سیپ لٹکاتا ہے، اس کا مقصد اپنا دفاع اور حفاظت ہوتا ہے تو آپ نے اس کے لیے بددعا فرمائی کہ اللہ اس کی حفاظت اور مدد نہ کرے۔

سید نا ابو بشیر انصاری ﷺسے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا کہ جس اونٹ کے گلے میں تانت کا گنڈا ہو یا یوں فرمایا کہ گنڈا ہو، اسے لازماً کاٹ دیا جائے۔

(صحيح البخاري، الجهاد والسير، حديث (3005)

 غور کریں! آپ ﷺ نے جانوروں تک کے گلے میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہنے دی جو انسان کو اپنے پاک پروردگار کی عبادت سے پھیر دے اور اس کی توحید سے دور کرے۔

سیدنا زید بن خالد  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم حدیبیہ کے سال رسول اللہﷺ کے ہمراہ نکلے تو ایک رات ہمیں بارش نے آ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے میں صبح کی نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے؟‘‘  ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالی نے فرمایا ہے: میرے کچھ بندوں نے اس حال میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ کفر کرنے والے ہیں۔ جس نے کہا: اللہ کی رحمت اللہ کے رزق اور اللہ کے فضل کے باعث ہم پر بارش ہوئی تو یہ لوگ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں۔ اور جنھوں نے کہا: ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والے اور میرے ساتھ کفر کرنے والے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4147)

نبیﷺ نے بتایا کہ نظام کا ئنات کی ہر چیز کو اس کے خالق و مدبر کے تابع ماننا توحید کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر توحید ناقص ہے۔ کائنات کا کوئی ذرہ بھی اللہ کے اذن اور حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور نہ اس کا ئنات میں اللہ کے سوا کسی کا کچھ تصرف اور اختیار ہے۔

سیدنا ابو واقد لیثی  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺحنین کی طرف نکلے تو مشرکوں کے ایک درخت (جس سے تبرک حاصل کرتے تھے ) کے پاس سے گزرے جسے ذات انواط (لٹکتی چیزوں والا) کہا جاتا تھا۔ وہ اس پر اپنا اسلحہ لڑکاتے تھے۔ کچھ لوگ کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر فرمائیے جس طرح ان لوگوں کا ذات انواط ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:

((سُبْحَانَ اللهِ! هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ﴾ وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ! لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ))

’’سبحان الله! (حیرت کی بات ہے ) یہ تو ایسے ہے جیسے موسی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا: ’’ہمارے لیے بھی اللہ (معبود) مقرر کیجیے جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔‘‘  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کا طرز عمل اختیار کرو گے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الفتن، حديث: 2180)

اس حدیث میں اللہ کے دشمنوں کی مشابہت اختیار کرنے اور غیر اللہ، یعنی کسی پتھر، درخت یا انسان سے امیدیں پوری ہونے کا عقیدہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے دشمنوں کے کاموں جیسے کام کرنے سے انسان کا عقیدہ بھی ان جیسا ہو جاتا ہے۔

اور آپﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَتٰى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً))

’’جو کسی نجومی کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2230)

اس نے اللہ کی خالص توحید میں ملاوٹ کی تو اس کے عمل کی قبولیت ہی معطل ہو گئی اور اللہ نے سزا کے طور پر چالیس دن کی نمازیں رد کر دیں۔

اور سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

((مَنْ أَتَى عَرَّافًا أَوْ كَاهِنَا، فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ))

’’جو شخص کسی نجومی یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات کو سچ جانا اس نے محمد ﷺپر نازل ہونے والی شریعت کا انکار کیا۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 9936)

نجومی اور کاہن کے عقائد چونکہ رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی توحید خالص سے ٹکراتے ہیں، اس لیے جو شخص ان کی باتوں کو سچ جانے ، اس نے  یقینًا نبی ﷺ  کی رسالت کو جھٹلا دیا۔ سید نا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺنے فرمایا :

((مَنْ مَّاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللهِ نِدًّاا دَخَلَ النَّارَ))

’’جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کا شریک بنایا اور اسی حالت میں مر گیا، وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ ‘‘(صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4497)

وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کبھی جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي بَعْدِي وَثَنَا))

’’اے اللہ ! میرے بعد میری قبر کو  وثن نہ بنانا۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 7358)

جب آپ ﷺ اپنی قبر مبارک کے ساتھ اس طرح کا تعلق رکھنے اور اسے وثن (پوجا کا مرکز ) بنانے سے منع کر رہے ہیں تو کسی دوسری قبر کے بارے میں کیسے اجازت دے سکتے ہیں کہ صاحب قبر کو اللہ کے سوا کارساز بنا لیا جائے اور حاجت پوری کرنے اور بلائیں ٹالنے کی نیت سے اسے پکارا جائے۔ عصر حاضر میں بہت سے ناسمجھ اور جاہل نہ صرف ایسا کرتے ہیں بلکہ اسے عین دین قرار دیتے ہیں۔

سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ میں ہم نے اپنی اس بیماری میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہو سکے، فرمایا: ((لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ))

’’اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء ﷺ کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث: 1390)

موت و حیات کی کشش کے مشکل مرحلے میں بھی آپ امت کو تاکید کر رہے تھے کہ یہود و نصاری کی طرح میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا اور نہ اس سے امیدیں وابستہ رکھنا۔ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ میں اللہ کا رسول اور نبی ہونے کے باوجود انسان ہوں جو کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔

سیدنا ابو الہیاج اسدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمھیں اس مہم پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہﷺ نے مجھے روانہ کیا تھا؟ وہ یہ ہے کہ تم کسی تصویر یا مجسمے کو نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا اور کسی اونچی قبر کو نہ چھوڑنا مگر اسے زمین کے برابر کر دینا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ کوئی تصویر نہ چھوڑ نا مگر اسے مٹا دینا۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث (969)

مذکورہ حدیث میں شرک کی تمام علامات، بت پرستی کی طرف لے جانے والے تمام امور اور توحید سے ٹکرانے والی ہر چیز کو ختم کرنے کا حکم ہے۔ توحید کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفید کپڑے سے بھی زیادہ صاف شفاف ہو اور اسے کوئی چیز گندہ اور میلا نہ کرے۔   آپ ﷺ نے شرک کی طرف جانے والا ہر راستہ بند کرنے کی پوری کوشش کی۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی توحید باری تعالٰی کی سربلندی اور عقائد کی اصلاح کے لیے وقف تھی۔ آپ نے دن رات ، خفیہ اور علانیہ اس کی دعوت دی اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ آپ کا جہاد، علم، قوت، طاقت ، حضر و سفر سب کچھ اللہ کی توحید کی دعوت میں صرف ہوا۔

  آپ ﷺ نے مسئلہ توحید کی تاکید فرمائی۔ اسے بار بار بیان کیا۔ لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ انھیں بتایا کہ مجھے تو حید دے کر بھیجا گیا۔ اور یہ واضح کیا کہ توحید ہی بندوں پر اللہ تعالی کا حق ہے، جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ نبیﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوے کی لکڑی تھی۔ آپ نے آواز دی: ’’اے معاذ!‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ پھر کچھ وقت چلتے رہے۔ اس کے بعد فرمایا: ’’اے معاذ !‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ پھر کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ!‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی کو زیادہ علم ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔‘‘ پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: ’’اے معاذ بن جبل !‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھیں علم ہے کہ بندوں کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے جب وہ اللہ کا حق ادا کریں؟‘‘ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’بندوں کا حق اللہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ ان کو سزا نہ دے۔‘‘ (صحيح البخاري، اللباس، حدیث: 5907)

 آپ ﷺ نے ہر عبادت سے پہلے اور ہر اہم مقام پر توحید کا اعلان کیا، چنانچہ ہر اذان میں مناروں سے توحید کا اعلان ہوتا ہے: ((أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ۔ ہر تشہد میں بھی توحید کی شہادت دی جاتی ہے۔ عرفے کا پورا دن تو حید کی صدا میں بلند ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ  نے فرمایا:

’’بہترین دعا عرفہ کی دعا ہے اور سب سے بہترین کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا ہے، وہ یہ ہے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت اور اس کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ ‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3585)

بے چینی و تکلیف سے متعلق وارد تمام دعا ئیں بھی توحید پر مشتمل ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کرب اور تکلیف کے وقت فرماتے تھے:

((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ))

’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ عظمتوں والا بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو آسمانوں کا رب ہے، زمین کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث: 6346)

آپ حیران ہوں گے کہ بے چینی کی اس دعا میں پریشانی دور کرنے اور بے چینی کے خاتمے کا ذکر تک نہیں۔ اس میں صرف توحید خالص کا ذکر ہے اور یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ جو شخص تو حید کو یقینی بنائے اور اللہ کی خالص الوہیت و عبودیت کا اقرار کرے، اللہ تعالیٰ اس کے غم، پریشانیاں اور مصائب دور کر دیتا ہے۔ جب ہم تو حید کو صحیح معنوں میں اپنا لیتے ہیں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں سمجھتے تو ہم اپنی ذات سے شرک کی نجاستیں دور کر دیتے ہیں۔ اس کی آلائشوں سے روح و بدن کو صاف کر لیتے ہیں۔ اپنے دل کے آنگن میں توحید کا شجر سایہ دار ا گا لیتے ہیں۔ دل و دماغ سے مایوسی اور ناامید ی ختم کر دیتے ہیں۔ اللہ کی تقدیر پر کوئی اراضی اور اعتراض نہیں رہتا اور ہرغم و پریشانی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ وحدہ لاشریک کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ﴾ ’’ کہ دیجیے: بے شک سب اختیار اللہ ہی کا ہے۔‘‘ (آل عمران 154:3)

اور آپ ﷺ  نے اہل توحید کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :

’’جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور سیدنا محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور سیدنا عیسی  علیہ السلام بھی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نیز وہ اللہ کا ایسا کلمہ ہیں جسے سیدہ مریم صدیقہ  علیہا السلام تک پہنچایا اور اس کی طرف سے روح ہیں، جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے تو اس نے جو بھی عمل کیا ہوگا، اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

(صحيح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث : 3435)

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! قیامت کے دن آپ کی سفارش سے سب سے زیادہ حصہ کون پائے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’ابو ہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ تجھ سے پہلے کوئی مجھ سے یہ بات نہیں پوچھے گا، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تجھے حدیث کی بڑی حرص ہے۔ قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور وہ شخص ہوگا جس نے اپنے دل یا خلوص نیت سے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا۔‘‘ (صحيح البخاري، العلم، حدیث: 99)

جو شخص نبی اکرمﷺ کی شفاعت پانا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے رب کی خالص توحید کو اپنائے ورنہ وہ آپ ﷺکی شفاعت سے محروم رہے گا۔

اور آپ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَا لُهُ وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى الله))

’’جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جن کی پوجا کی جاتی ہے، ان (سب) کا انکار کیا تو اس کا مال و جان محفوظ ہو گئے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:23)

جو شخص تو حید کا اعلان کرے، دنیا میں اس کے مال و جان محفوظ ہوں گے اور اس کے دل کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہ اس کا حساب لے گا۔

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص دن بھر میں یہ دعا سو مرتبہ پڑھے گا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور ہر قسم کی تعریف بھی اس کے لیے ہے۔ اور وہ  ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے ا والا ہے۔ اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹادی جائیں گی۔ مزید یہ کہ وہ شخص سارا دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا، نیز کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہیں آئے گا، البتہ وہ شخص جو اس سے زیادہ عمل کرے، اسے زیادہ ثواب ملے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3293)

یہ تمام اذکار کا سرتاج اور سب سے اعلیٰ اور تقسیم الشان ذکر ہے کیونکہ اس میں کلمہ توحید ہے جس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا ہے : ”سب سے بہترین کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا ہے، وہ ہے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ))

اور سیدنا ابی بن کعب  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :

’’اے ابو منذر! کیا تم جانتے ہو کتاب اللہ کی کون سی آیت، جو تمھارے پاس ہے، سب سے عظیم ہے؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپﷺ نے (دوبارہ) فرمایا: ’’اے ابو مندر!  کیا تم جانتے ہو اللہ کی کتاب کی کون سی آیت، جو تمھارے پاس ہے، سب سے عظمت والی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ تب آپﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ابومنذر! تمھیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘  (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:810)

بلاشبہ آیت الکرسی ہر آیت سے فضیلت والی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی توحید، تعریف و ثناء بزرگی اور اس کے لیے اخلاص کا بیان پایا جاتا ہے، نیز اس میں اسم اعظم بھی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے نام مقدس ہیں۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا: ” جس کا آخری کلام لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہوا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث 3116)

 آپ ﷺ توحید پر مشتمل تلبیہ پکارتے اور فرماتے:

((لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنَّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ))

’’میں حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں۔ پھر حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ تو ہی تمام نعمتوں اور بادشاہت کا مالک ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الحج، حديث (1549)

جو شخص اللہ تعالی کے نازل کیے ہوئے قرآن کریم پر غور و فکر کرتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ جس کے گرد تمام آیات گھومتی ہیں، وہ اللہ کی توحید ہے۔ قرآن میں کہیں توحید کا حکم ہے۔ کہیں شرک کی ممانعت ہے۔ کہیں توحید سے متعلق واقعات ہیں۔ کہیں کائنات کی نشانیوں کے بارے میں گفتگو ہے جو اللہ کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ کہیں جنت کا تذکرہ ہے جو اہل توحید کا ٹھکانا اور ان کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ کہیں آگ کا ذکر ہے جو توحید کی مخالفت کرنے والے مشرکوں کا ٹھکانا ہے۔ کہیں اہل توحید کی عبادات کی وضاحت ہے۔ کہیں توحید پرستوں کی تعریف ہے اور کہیں مشرکوں کی مذمت ہے، چنانچہ قرآن شروع سے آخر تک توحید ہی توحید ہے۔ اور کائنات میں توحید پر سب سے بڑی گواہی یہ ہے:

﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝﴾

’’اللہ نے گواہی دی ہے کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی ، اس حال میں کہ وہ انصاف کے ساتھ قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (آل عمران 18:3)

اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی ﷺکو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿ وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝ بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ۝﴾

’’اور بلاشبہ  یقینًا آپ کی طرف اور ان لوگوں (نبیوں) کی طرف، جو آپ سے پہلے ہوئے، (یہ) وحی کی گئی کہ اگر آپ نے شرک کیا تو  یقینًا آپ کے عمل ضرور ضائع ہو جائیں گے اور  یقینًا آپ ضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے، بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کریں اور شکر گزاروں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الزمر39: 65،66)

اے اللہ! ہم پر لطف و کرم فرما۔ جب توحید دے کر بھیجے جانے والے اولاد آدم کے سردار محمدﷺ سے یہ خطاب ہے تو اللہ کی قسم ! آپ کے علاوہ امتیوں کے لیے کیا پیغام ہو گا ؟!

اور سب سے عظیم سورت جسے نبی اکرمﷺ بار بار دہراتے ، اس کی فضیلت بیان کرتے اور اس کے پڑھنے والے کی تعریف کرتے ، وہ سورت اخلاص ہے

﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۝۱اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ۝۲ لَمْ یَلِدْ ۙ۬ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ۝۳ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠۝۴﴾

’’(اے نبی !) آپ کہہ دیجیے: وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ اس نے کسی کو نہیں جنا اور نہ وہ (کسی سے) جنا گیا۔ اور کوئی ایک بھی اس کا ہمسر نہیں۔ (الإخلاص 112: 1-4)

ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو کسی لشکر کا میر بنا کر روانہ فرمایا۔ وہ اپنی فوج کو نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت ﴿قل هو الله احد﴾  پرختم کرتا۔ جب یہ لوگ لوٹ کر آئے تو انھوں نے نبیﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتا تھا ؟‘‘  لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس سورت میں رحمن کی صفات ہیں جنھیں تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اس پر نبی ﷺ  نے فرمایا: ’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالٰی بھی اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث: 7375)

اور بخاری ہی کی ایک معلق مگر صیفہ جزم کے ساتھ مروی روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک آدمی اپنی نماز کی ہر رکعت میں سورت اخلاص کی قراءت کرتا تھا اور اس نے نبی اکرم ﷺکو بتایا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’تیرا اس سے محبت کرنا تجھے جنت میں داخل کر دے گا۔“ (صحيح البخاري، الأذان، حديث: 774)

 سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

’’کیا تم میں سے کوئی شخص اتنا بھی نہیں کر سکتا کہ ایک رات میں تہائی قرآن کی تلاوت کرے؟‘‘ صحابہ کرام دیتے نے عرض کی: کوئی شخص تہائی قرآن کی تلاوت کیسے کر سکتا ہے؟  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾  ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:811)

ہمارے رسول ﷺمیں اعلیٰ درجے کا اخلاص تھا اور آپ اس کے اعلی مراتب پر فائز تھے۔آپﷺ ہر عبادت نہایت اخلاص سے کرتے ، اور آپ کے رب نے آپ کو اس کی تلقین فرمائی تھی:

﴿ قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ۝﴾

’’آپ کہہ دیجیے: بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کے لیے بندگی کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کروں۔‘‘ (الزمر11:39)

اور آپ ﷺ نے یہ تاکید فرمائی کہ قبول عمل کے لیے اخلاص شرط ہے، جیسا کہ بخاری و مسلم کی معروف حدیث ہے: ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنَّيَّاتِ))

’’اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔“ (صحيح البخاري، بدء الخلق، حديث:1)

اور آپ ﷺ ایک حدیث قدسی میں اپنے رب سے بیان کرتے ہیں: ((أَنَا أَغْنَى الشَّرَكَاءِ عَنِ الشَّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِيَ غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ)) ’’میں شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ شراکت سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کوشریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حدیث: 2985)

اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو عبادت میں اخلاص کا دوٹوک اور تاکیدی حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ۝۲ اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَی اللّٰهِ زُلْفٰی ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ؕ۬ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ۝۳﴾

’’بے شک ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے، لہٰذا آپ اللہ کے لیے بندگی کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیجیے۔ سنو! خالص بندگی اللہ ہی کے لیے ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے سوا کارساز بنا رکھے ہیں، (وہ کہتے ہیں 🙂 ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب کر دیں۔  یقینًا اللہ ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا، بہت ناشکرا ہو۔‘‘ (الزمر39: 2،3)

اخلاص توحید کا خلاصہ، انتہائی اہم راز اور سب سے عظیم چابی ہے۔

چنانچہ شرک ، توحید کی ضد اور سب سے بڑا گناہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾  ’’بے شک شرک تو  یقینًا بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (لقمان 13:31)

اللہ تعالی نے جس قدر شرک سے ڈرایا اور دھمکایا ہے، کسی دوسرے گناہ پر اتنی سخت وعید نہیں سنائی، چنانچہ فرمایا:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤی اِثْمًا عَظِیْمًا۝﴾

’’بے شک اللہ (یہ گناہ) نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ اس کے سوا جسے چاہے، بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو  یقینًا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔‘‘ (النساء 48:4)

 اللہ تعالیٰ نے اپنے مشرک دشمنوں کو سزا کے چند خوفناک نمو نے بطور مثال بیان کر کے شرک سے خبردار کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ۝۳۱﴾

’’ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور دراز جگہ لے جا پھینکے۔‘‘ (الحج 31:22)

ایک مقام پر فرمایا:

﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝﴾

’’ بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے،  یقینًا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔‘‘ (المائدة 72.5)

لاکھوں کروڑوں انسانوں کو نبیﷺ کی اتباع و محبت پر کسی چیز نے آمادہ کیا ؟! آپ کے دین وسنت کا دفاع کرنے اور اس کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پر کس چیز نے ابھارا ؟! دنیا کے ہر خطے اور ہر براعظم میں نسل در نسل ہر صدی میں آپ کے لاکھوں کروڑوں جاں نثار پیدا ہوئے۔ آپ کی محبت میں اضافے اور آپ کے دین کی نشر و اشاعت کا راز کیا ہے، حالانکہ آپ نے لوگوں میں تحفے بانٹے نہ مال وزر کے عطیات دیے؟ اس کی ایک ہی وجہ اور ایک ہی راز ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہے آپ کی اپنے رب کے لیے خالص توحید۔ اور اس اخلاص کا پھل قبولیت ہے جسے آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

کیا پوری انسانی تاریخ میں آپ کے دوست سیدنا ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ وفادار کسی کا دوست ہے؟ انھوں نے اللہ کے رسول سے محبت کی ، آپ کا دفاع کیا، آپ کی تصدیق کی اور آپ کی خاطر قربانی دی اور اس سب سے بڑھ کر جب آپ ﷺ فوت ہوئے تو وہ نہایت اطمینان قلب، عزیمت کامل اعتماد مضبوط ایمان اور اللہ کی توفیق خاص سے سب لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا:

’’تم میں سے جو شخص محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو بلاشبہ محمد وفات پا چکے اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو بلاشبہ اللہ زندہ ہے جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل أصحاب النبي ﷺ حدیث:3668)

اتنی بڑی مصیبت ، شدید پریشانی اور رسول اکرمﷺ کی جدائی کے غم کے باوجود انھوں نے رسالت کے پیغام اور سب سے اہم معاملے پر توجہ مرکوز رکھی اور وہ ہے اللہ کی توحید جسے لے کر نبی ٔمختار ﷺتشریف لائے اور جس کی خاطر جہاد کیا۔ آپﷺ نے جس دن رسالت کا آغاز کیا، آپ کی زبان پر سب سے پہلا کلمہ لا إله إلا الله تھا اور اس دار فانی کو چھوڑا تو بھی لا الہ اِلَّا اللہ آپ کی زبان پر تھا۔   آپ ﷺ پوری زندگی اس کلمے کی تاکید کرتے رہے کیونکہ مخلوق کی تخلیق کا مقصد یہی ہے کہ وہ: لا إله إلا الله کی حقیقت جان لیں۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کتابیں نازل ہوئیں اور اس کی دعوت دینے کے لیے رسول تشریف لائے۔ دینی تعلیم سے پہلے آپ کا یہ جاننا ضروری ہے کہ معبود حقیقی صرف اللہ ہے اور دعوت دینے سے پہلے لا إله إلا الله کی حقیقت پر ایمان ضروری ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے پہلے بھی لا إله إلا الله پر صحیح معنوں میں یقین لازم ہے۔ بلاشبہ لا الله إلا الله ایک ربانی دستاویز ہے جسے لے کر جبریل امین یا زمین پر تشریف لائے۔ سیدنا موسی علی  عليہ السلام اسے فرعون کے پاس لے کر گئے اور محمد ﷺ نے کوہ صفا پر اس کا اعلان کیا۔

بلاشبہ لا اله الا اللہ ایسا کلمہ، عبارت اور جملہ ہے جو سعادت کی چابی، ملت کی میراث اور فلاح کا جھنڈا ہے۔ یہ سب سے عظیم کلمہ ہے جو اللہ کی ذات پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سب سے سچی عبارت، خوبصورت کلمہ، افضل بات اور عالی شان نیکی ہے۔ یہی کلمہ شافی، وافیہ کا فیہ، جامع و مانع اور اللہ کے غضب، عذاب اور ہر قسم کے شر سے بچنے کے لیے مضبوط قلعہ ہے۔ یہ غم و پریشانی سے نکال کر خوشیوں میں لانے والا اور آگ سے بچا کر جنت میں لانے والا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ))

’’بلاشبہ اللہ تعالی نے اس شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جس نے اللہ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لیے  لاالہ الا الله کہا۔ ‘‘ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 33)

كلمہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ تمام اصولوں کی بنیاد، دین کا بنیادی دروازو اور کامیابی کا راستہ ہے۔ جو شخص اچھی اور سعادت مند زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اچھا خاتمہ اور ہمیشہ جنت میں رہنا چاہتا ہے، اس کے لیے یہ ابتدائی راستہ ہے۔

یہ عظیم دائمی کلمہ ان تمام معانی پر مشتمل ہے جو اللہ عز وجل نے اسے بندوں پر لازم کرتے وقت اس میں رکھے ہیں، لہٰذا اس کلمے کو ایسے پختہ اور مضبوط عقیدے کے ساتھ اپنا نا ضروری ہے جس میں شک و شبہ نہ ہو۔ ایسی محبت کے ساتھ اسے اختیار کرنا لازم ہے جس میں ناراضی نہ ہو۔ اسے ایسے صدق دل سے مانا لازم ہے جس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اس کے تقاضوں پر ایسا عمل ضروری ہے جس میں مخالفت کا تصور نہ ہو اس کی طرف ایسی دعوت ہو جس میں فتور اور کوتاہی نہ ہو۔ انسان اس کے منافی امور جیسے شرک، ریا کاری اور بدعت سے بچے تا کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر سکے، لہٰذا اسے اپنی زندگی کا لائحہ عمل عظیم مشن اور سب سے بڑا مسئلہ بنائیں۔ اس کا وظیفہ کریں۔ اسے عقیدہ بنائیں۔ اس کے تقاضوں پر عمل کریں اور اسے پھیلائیں۔ یہی سب سے سچا کلمہ خوبصورت عبارت، محکم الفاظ عظیم حجت اور اعلی پیغام ہے۔ اس کی طرف دعوت دیں۔ اسے زاد راہ بنائیں۔ زبان پر اسے جاری رکھیں اور بکثرت اس کا ورد کریں۔ بلاشبہ یہ رحمن کو راضی کرنے والا، میزان کو بھاری کرنے والا، شیطان کو رسوا کرنے والا اور جنتوں کا وارث بنانے والا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ﴾

’’لہٰذا (اے نبی!) آپ جان لیجیے کہ بلا شبہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔‘‘ (محمد 19:47)

کائنات کا سب سے عظیم معاملہ اور دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تم جان لو اور اقرار اور اعتراف کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کی عبودیت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ اس کے سوا کسی دوسرے باطل کو نہ پکارو۔ اپنی عبادتوں کا محور اور مرکز صرف اسے بناؤ۔ خالص اس کی اطاعت کرو۔ اپنی توجہ، سوال اور دعا کا مرکز صرف اسے بناؤ۔ یہ یقین رکھو کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی تکلیف دور کر سکتا ہے، لہٰذا  جب سوال کرو تو اللہ سے کرو اور مدد بھی صرف اللہ سے مانگو۔

آپ خالص اللہ کی عبادت کریں کیونکہ وہ کسی شرکت کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے عذاب سے ڈریں کیونکہ وہ بڑا شدید ہے۔ اور اس کی پکڑ سے بچیں کیونکہ وہ بڑی سخت ہے۔ اس سے مانگیں کیونکہ وہ ننی ہے۔ اس کے فضل و احسان کی امید رکھیں کیونکہ وہ کریم ہے۔ اس سے استغفار کریں کیونکہ وہ وسیع بخشش والا ہے۔ اس کی جناب میں پناہ طلب کریں کیونکہ وہیں امن ہے۔ ہمیشہ اس کا ذکر کریں تا کہ اس کی محبت پاسکیں۔ اس کا شکر لازم کریں تاکہ مزید انعام پاسکیں۔ شکر کا سب سے بڑھ کر حق دار وہی ہے اور جن کو یاد کیا جاتا ہے، ان میں سب سے عظیم ہے۔ جو اقتدار رکھتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ نرم، دینے والوں میں سب سے زیادہ سخی، قدرت رکھنے والوں میں سب سے بڑا حلیم، پکڑنے والوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ جن کا ارادہ و قصد کیا جائے ، ان میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور جنھیں تلاش کیا جاتا ہے، ان میں سب سے زیادہ عزت والا ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے جسے پکارا جائے اور نہ کوئی رب ہے جس کی اس کے سوا اطاعت کی جائے۔

درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر جن کے ذریعے سے اللہ تعالی نے ہمیں گمراہی سے بچایا، جہالت سے نکال کر علم عطا کیا، اندھے پن سے بصیرت دی، گمراہی سے رشد و ہدایت دی اور اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت دیا۔ ایسا دائمی، طاہر و پاکیزہ درود و سلام جیسے  آپ ﷺ کے سانس پاکیزہ اور مبارک ہیں۔

…………….