محمدﷺ بحیثیت ملهم
اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ امت کی رہنمائی کرنے والے اور مومنوں کے لیے معلّم بن کر تشریف لائے۔ آپ کا فیض آپ کے پیروکاروں میں قیامت تک جاری رہے گا۔ جو مسلمان جس قدر زیادہ آپ کی پیروی اور اقتدا کرے گا، وہ اسی قدر قرب الہی کے زینے چڑھتا جائے گا۔
جس کسی پر بھی دین داری کا دروازہ کھلا، وہ نبی اکرمﷺ کی اتباع اور پیروی کی برکت تھی۔ اور جس مسلمان کو اللہ تعالی نے کسی عبادت کی توفیق دی، نفع بخش شرعی علم عطا کیا یا کسی بھی دینی فضیلت و شرف سے نوازا، وہ رسول معظم ﷺ کے مرہون منت ہے۔ علماء، قراء، فقہاء، عادل حکمرانوں، مجاہدین، خرچ کرنے والوں، نمازیوں اور روز و داروں، سب کے علم و مرشد نبی اکرمﷺ ہیں۔ آپ کی کی زبان اقدس سے نکلنے والے ایک ایک کلمے نے لوگوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ ان میں امید کی نئی کرن پیدا کی، ان کی استعداد و صلاحیت کو بڑھایا اور ان کی زندگی میں ایک نیا جذبہ اور انقلاب پیدا کر دیا۔ کبھی آپﷺ کے عطا کردہ ایک اعزاز نے لوگوں کی زندگی کا رخ تبدیل کر دیا کیونکہ آپ پوری انسانیت کے معلّم و ہادی اور سب لوگوں کے لیے روشنی بن کر تشریف لائے۔
اگر آپ معلمِ خیر ﷺ کے مؤثر، الہامی اور جاں فزا فرمودات کی روشنی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان منتخب کریں:
((لَوْ كُنْتُ مُتَّخِدًا خَلِيْلًا لَّا تَخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيْلًا))
’’اگر میں لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ضرور ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا۔‘‘
(صحيح البخاري، الصلاة، حدیث 467، و صحيح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2382)
اب اس فرمان نبوی کے بعد کسی اور بات یا تشریح کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو خیر اور بھلائی کے کاموں میں سرفہرست لانے والے آپ ہی تھے۔ ہجرت، جہاد، صدقہ و خیرات، نماز، نیکی اور صلہ رحمی ہر کام کی ترغیب و تعلیم رسول اکرم ﷺ نے دی بلکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہر فضیلت کا سہرا نبی اکرمﷺ کے سر سجتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ نے دریافت فرمایا: ”آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا ہے؟ ‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ ہم نے پھر پوچھا: ’’آج تم میں سے کس نے نماز جنازہ میں شرکت کی ہے؟“ سیدنا ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ ﷺنے پوچھا: ’’آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: میں نے۔ آپﷺ نے پھر پوچھا: ’’آج تم میں سے کسی نے مریض کی عیادت کی ہے؟‘‘ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے۔ تب رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ((مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِيءٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ))
’’یہ خوبیاں (ایک دن میں) جس انسان میں اکٹھی ہوں، وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 1028)
یوں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا جنت میں داخل ہونا رسول اکرم ﷺ کی ہدایت و راہنمائی کے باعث ہے اور یہ رب تعالی کا الہام اور خاص توفیق الہی ہے۔
یہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ رسول اکرمﷺ ان کے بارے میں خوشخبری دیتے ہیں۔ انھیں امید دلاتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے ان کے دل میں یقین پیدا کرتے ہیں اور علم کی نورانی کرنوں سے ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ نے دودھ نوش فرمایا اور اپنا بچا ہوا دودھ سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دے دیا، پھر آپ ﷺنے خود ہی اس کی تعبیر فرمائی کہ اس سے مراد علم ہے۔ (صحيح البخاري، التعبير، حدیث: 7072)
اسی طرح نبی ﷺنے خواب میں کچھ لوگ دیکھے جنھوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی دیکھا کہ ان کی قمیص اتنی بڑی ہے کہ وہ اسے گھسیٹ رہے ہیں۔ آپﷺ نے اس کی تعبیر دین سے کی۔ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث (23)
نبی اکرمﷺ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک بات کرتے ہیں جو ان کی زندگی میں ہمیشہ روشن چراغ بن کر چمکتی ہے۔ یہ بات آپ نے سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس وقت کی جب وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ()لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ((
’’اے پیارے بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں مت بھولنا۔ ‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 1498، ضعيف الإسناد)
سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ کلمہ سن کر خوشی سے سرشار ہیں، وہیں کھڑے کھڑے محبت اور چاہت سے بار بار یہ کلمہ دہراتے ہیں، اس کی لذت اور مٹھاس سے خوب محفوظ ہوتے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں: اس کلمے کی جگہ مجھے ساری دنیا بھی مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔
اس الہام کو دیکھیں جس نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو راہ ِحق میں عدل کا علمبردار بنا دیا۔ وہ پوری قوت و طاقت سے دین حق کا دفاع کرنے والے اور نصرت اسلام میں لگی تلوار بن گئے۔ اگر اللہ کے حکم سے معلم ہدایت ﷺعمر رضی اللہ تعالی عنہ کو تعلیم نہ دیتے تو آپ جاہلیت اور بت پرستی میں بے نام و نشان پڑے رہتے۔
اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں جنھوں نے ملہم عالم ﷺ سے جو دوسخا کا سبق سیکھا تو تبوک کا بیشتر لشکر اپنی جیب خاص سے تیار کر دیا اور بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، پھر رسول اکرم ﷺنے انھیں ایک ایسی گراں قدر خوشخبری سنائی کہ ساری دنیا سے قیمتی تاج بھی سیدنا عثمان ﷺکو پہنایا جاتا تو وہ تاج آپ ﷺکے اس ایک کلمے کی قیمت نہ بن سکتا۔ زبان رسالت مآبﷺ سے ارشاد ہوا:
((مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ))
’’آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کرے، اس کا عمل اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘
آپ ﷺ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حديث: 3701)
اس سے بڑی عزت افزائی کیا ہو سکتی ہے ؟! اس فرمان عالی شان کے بعد کون سی تعریف باقی رہ جاتی ہے؟! سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ سارے فضائل زبان نبوی ﷺ ہی سے ارشاد ہوئے ہیں۔
اگر آپ ابو حسن سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حیات نامہ دیکھیں اور کسی عظیم تمغے کو ان کے سینے پر سجانا چاہیں تو رسول اکرمﷺ کے عطا کردہ درج ذیل تحفے سے زیادہ خوبصورت کا انتخاب نہ کر سکیں گے۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
((رَجُلٌ يُّحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ))
’’وہ تو ایسا با کمال مرد ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3009)
نبیٔ اکرم ﷺ کے تمام اصحاب و احباب اور قیامت تک آنے والے تمام مرد و خواتین پیروکاروں میں سے ہر ایک نے جس قدر اس روشن نور نبوت سے فیض پایا اور اس صاف و شفاف شیریں دریا سے مستفید ہوا، اسی قدر وہ عز و شرف کا حامل ٹھہرے گا۔
ذرا اس تاج وقار پر غور کیجیے جو رسولﷺ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر سجاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں:
((أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوسٰى))
’’کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے ہاں تمھارا وہی مقام ہو جو ہارون عليہ السلام کا موسیٰ علیہ السلا م کے ہاں تھا؟؟‘‘
(صحيح البخاري، أصحاب النبي ﷺ، حديث: 3706)
یہاں رسول کریمﷺ کس دلنشین انداز میں اپنے پیاروں اور پیروکاروں کے دلوں میں سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت ڈال رہے ہیں اور انھیں اس پر آمادہ کر رہے ہیں؟!
سید نا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امانت کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
((لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِيْنٌ وَأَمِيْنُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ))
’’ہر امت کا ایک امین ہوا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔ ‘‘
(صحیح البخاري، المغازي، حديث 4382)
یہ امانت سید نا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرمﷺ ہی سے سیکھی تھی۔ اللہ تعالی نے اس امانت کو اس جلیل القدر صحابی کے دل میں اتار دیا یہاں تک کہ وہ امانت کے لیے ضرب المثل بن گئے۔
رسول اکرم ﷺ ہی قیامت تک اپنی امت کے علماء کے ملہم و رہبر ہیں۔ ہر دور میں آپ ہی ان کے پیشوا اور نمونہ ہیں۔ اس گروہِ علماء کے سرخیل سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جن کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
(( أَعْلَمُ أُمَّتِي بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ))
’’میری امت میں حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والا معاذ بن جبل ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، المناقب، حديث: 3790)
اور انھوں نے یقیناً نبیﷺ کے علم سے فیض پایا۔ آپ نے انھیں قرآن وسنت کے فہم اور دین کے اوامر و نواہی کا سبق دے کر یکتائے زمانہ کر دیا۔
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکو دیکھیے جو حَبر الامۃ اور ترجمان القرآن کے القاب سے ملقب ہیں۔ علم کے بحرِ بے کراں ہیں۔ ایک مبارک رات رسول اکرمﷺ سے قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے الہام پاتے ہیں۔ قصہ یوں ہے کہ ایک رات یہ رسول اکرم ﷺکے ہاں گزارتے ہیں۔ خدمت کا شرف پاتے ہوئے رات کو وضو کا پانی رسول اکرمﷺ کو پیش کرتے ہیں اور پھر یہ عظیم رات سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکے لیے نہایت خیر و برکت والی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ان کے لیے یوں دعا کرتے ہیں:
((اللّٰهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ))
’’اے اللہ اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حديث: 143)
چنانچہ وہ قیامت تک قرآن کا سب سے بڑا مفسر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیے جو رسول اکرم ﷺ سے علم فرائض کا الہام پاتے ہیں۔ آپ ﷺنے ان کے متعلق یوں ارشاد فرمایا:
((أَفْرَضُكُمْ زَيْدٌ))
’’تم میں سے فرائض (احکام وراثت) کو سب سے زیادہ جاننے والا زید ہے۔ ‘‘ (جامع الترمذي المناقب، حدیث:3790)
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا علم فرائض اور تقسیم وراثت میں امامت کے مرتبے پر فائز ہونا نبی ﷺ کے علم کے بحرِ بے کراں کا ایک قطرہ ہے۔
قاریوں کے سردار ہونے کا شرف سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو ملتا ہے۔ انھوں نے یہ علم اور شخص نبی اکرمﷺ کے فیضان ہی سے پایا اور انھیں تعلیم دینے والے رسول اکرم ﷺ ہی تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے سیدنا ابی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
’’بلاشبہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے سامنے سورۃ البینہ پڑھوں۔‘‘ سیدنا ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: کیا اللہ نے میرا نام لے کر آپ سے یہ کہا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، اللہ نے مجھ سے تیرا نام لے کر کہا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابی رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے۔ (صحیح البخاري، تفسير القرآن، حديث: 4959)
رسول اکرمﷺ نے انھیں ان کی یہ خصوصیت ذہن نشین کرانے اور اس اعزاز کا مزید احساس دلانے کے لیے ان سے پوچھا:
’’اے ابو مندر! کیا تم جانتے ہو کتاب اللہ کی کون سی آیت، جو تمھارے پاس ہے، سب سے عظیم ہے؟‘‘
انھوں نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسولﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’اے ابو منذ ر! کیا تم جانتے ہو اللہ کی کتاب کی کون سی آیت، جو تمھارے پاس ہے، سب سے عظمت والی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: میں نے عرض کی:
﴿ اللهُ لَا إلهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ تو آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ابو منذر! تمھیں یہ علم مبارک ہو۔ ‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حدیث: 810)
گویا آپ ﷺنے ان کی علمی پختگی پر ان کی حوصلہ افزائی فرمائی تاکہ ان کے دل میں دین کا الہام و اہتمام اجاگر ہو جائے۔
ادھر رسول اکرم ﷺسید نا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمت بڑھاتے ہیں اور انھیں دین اسلام کی مزید نصرت اوربہادری پر ابھارتے ہوئے فرماتے ہیں:
((نِعْمَ عَبْدُ اللهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ سَيْفٌ مِّنْ سُيُوْفِ اللهِ))
’’اللہ کا بندہ خالد بن ولید کیا خوب ہے! وہ تو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔‘‘ (جامع الترمذي
المناقب، حديث: 3846)
حق کی نصرت میں سیدنا خالد رضی اللہ تعالی عنہ کی شجاعت و بہادری، ایمانی اور اسلامی جرات ہے جو انھوں نے رسول اکرم ﷺ کی شجاعت کے ایک معمولی حصے سے اخذ کی۔
رسول اکرمﷺ اپنے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے اور ہر شخص کی استعداد اورصلاحیت کے مطابق اس کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ سیدنا حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ کے پاس آتے ہیں۔ یہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ ان کے پاس الفاظ جوڑنے، قافیہ ملانے اور شعر کہنے کا فن ہے۔ آپ ﷺ انھیں اپنا منبر پیش کرتے اور ان سے فرماتے ہیں:
((أُهْجُهُمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ))
’’ان (کفار) کی مذمت کرو، جبریل تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حديث: 3213) آپ ﷺایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:
((إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُولِهِ))
’’جب تک تم اللہ تعالی اور اس کے رسول کا دفاع کرتے رہو، روح القدس (جبرائیل) کی تائید اور نصرت تمھارے ساتھ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث (2490)
سید ِوالد آدم ﷺ کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی میں سیدنا حسان رضی اللہ تعالی عنہ شعر کہنا شروع کرتے ہیں اور اپنے عمدہ اور بلاغت پر مبنی اشعار کے ساتھ دین کا دفاع کرتے ہیں۔
اگر آپ شاعر رسول سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو کوئی ایوارڈ دینا چاہیں تو ملہم عالم ﷺ کے اس فرمان: ((أُهْجُهُمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ))
سے زیادہ قیمتی کوئی ایوارڈ نہ دے پائیں گے۔ یہ کمال عزت و تکریم اور انتہائے شرف و اعزاز ہے۔ نبی کریم کے خطیب ثابت بن قیس بن شماس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ لیں۔ وہ فن خطابت کے شہسوار تھے۔ انھیں نہایت فصیح و بلیغ گفتگو کرنے کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ نبی اکرمﷺ نے ان کے لیے منیر سجایا، ان کی ہمت بڑھائی، ان کی خطابت کی تحسین فرمائی، ان کی راہنمائی کی اور زبان و بیان کے میدان میں اپنے حریفوں پر غلبہ پانے کے لیے ان کی مدد فرمائی جیسا کہ ابن ہشام کی سیرت نبویہ میں ذکر ہوا ہے۔
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ خوبصورت شیریں آواز کے ساتھ ممتاز تھے۔ رسول اکرم ﷺ ان کی یہ خوبی انھیں باور کراتے ہیں اور اس امتیازی وصف پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اللہ کی کتاب کو ترنم کے ساتھ پر سوز لہجے میں پڑھنے پر ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((لَقَدْ أُوتِيْتَ مِزْمَارًا مِّنْ مَّزَا مِيْرِ آلِ دَاوُدَ))
’’یقینا تمھیں تو آل داود کے سروں (مزامیر) میں سے ایک سُر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري فضائل القرآن، حدیث 5048)
رسول اکرمﷺ کی یہ حوصلہ افزائی سید نا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کی متاعِ حیات بن گئی اور وہ زندگی بھر قرآن مجید کی تلاوت و تجوید اور تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔
سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں۔ وہ نہایت پرسوز آواز میں اذان دیتے ہیں۔ ان کی آواز میں نغمہ سرائی کی خاصیت پائی جاتی ہے تو رسول اکرم ﷺان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ ان پر نبوت کی برکت اور فیضان انڈیلتے ہیں۔ انھیں مؤذن اسلام بناتے ہیں اور جنت میں ایک عظیم الشان محل کی بشارت بھی دیتے ہیں۔
اگر آپ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے کسی تقریب کا انعقاد کر کے انھیں ان کی پسند اور مرضی کا ایوارڈ دینا چاہیں تو رسول اکرم ﷺ کی اس بشارت سے بڑھ کر اعلیٰ و ارفع کوئی ایوارڈ آپ کو نہ ملے گا جس کے الفاظ ہیں:
((سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ))
’’میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمھارے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التهجد،
حدیث: 1149)
’’کسی صحابی سے آپ ﷺکوئی بات کی، کسی کو مسکرا کر دیکھا، کسی سے سرگوشی کی، کسی کو چھوا، اس کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا، اُسے کوئی ہدیہ دیا، خاص طور پر مخاطب کیا یا دعا دی تو نبی اکرمﷺ سے اتنے سے تعلق نے اُسے دنیا کی ہر چیز بھلا دی اور یہ مختصر سا تعلق ساری زندگی کے مذاکرات و واقعات پر غالب آگیا۔ سید نا معمر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ لیں جو ایک عظیم واقعے سے معروف ہیں کہ انھوں نے حج کے موقع پر رمی جمرات کے بعد منی میں نبی اکرمﷺ کے سر کے بال مونڈے تھے۔ (مسند احمد) چنانچہ جب وہ یہ حدیث بیان کرتے تو لوگ اس ایک واقعے کی وجہ سے انھیں خوش آمدید کہتے، ان کی عزت کرتے اور بار بار ان سے یہ انوکھا اور خوبصورت واقعہ بیان کرنے کی درخواست کرتے، کیوں؟ اس لیے کہ یہ واقعہ اللہ کی تمام مخلوق سے زیادہ معزز شخصیت رسول اکرمﷺ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
أَعِدْ ذكْرَ نُعْمَانٍ لَّنَا إِنْ ذَكَرْتَهُ كمَا الْمِسْكِ مَا كَرَّرْتَهُ يَتَضَوَّعُ
’’اگر کرنا ہے تو ہمارے سامنے نعمان کا تذکرہ بار بار کیجیے۔ وہ تو کستوری کی طرح ہے کہ آپ جتنی بار اسے لگا ئیں گے، اس کی خوشبو ہر بار پھوٹے گی۔‘‘
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اے معاذ اللہ کی قسم! مجھے تم سے محبت ہے۔ اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا: ((اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ،)) ’’ اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہترین انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما‘‘ (سنن أبي داود، الوتر، حديث: 1522)
سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے مجھے میرے دونوں کندھوں سے پکڑا اور فرمایا: ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ))
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی ہو یا راہ گیر‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث: 6416)
لیکن سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک ’’آپﷺ نے میرے کندھے پکڑے‘‘ کے کوئی اور ہی معنی تھے۔ کوئی سننے اور پڑھنے والا ان معانی کا ادر اک نہیں کر سکتا۔ یہ رسول اکرم ﷺکے لطف و کرم اور عزت افزائی کا وہ انداز تھا جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ زندگی بھر لطف اندوز ہوتے رہے۔
ایک صحابیٔ رسول ہیں سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالی عنہ ، ان سے ایک حدیث مروی ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کو نہ دیا۔ جن کو نہ دیا، وہ ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا:
(( إِنِّي أُعْطِي قَوْمًا أَخَافُ ظَلَعَهُمْ وَجَزَعَهُمْ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلٰى مَا جَعَلَ اللهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِّنَ الْخَيْرِ وَالْغِنَاءِ، مِنْهُمْ عُمْرُو بْنُ تَغْلِبَ))
’’میں جن لوگوں کو دیتا ہوں، مجھے ان کی کج روی اور بے صبری کا اندیشہ ہوتا ہے اور دوسروں کو میں اس خیر اور استغنا کے سپرد کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے۔ انھی میں سے عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3145)
رسول اکرم ﷺیہ بات مسجد میں سر عام لوگوں کے سامنے کرتے ہیں تو سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالی عنہ دنیا کی ہر چیز بھول جاتے ہیں۔ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے کہتے ہیں: میرے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا، اگر مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنا خوش نہ ہوتا۔
یہ کیا عظیم کلمہ تھا اور کیا خوب عزت افزائی تھی جسے سید نا عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالی عنہ مرتے دم تک نہیں بھولے۔
رسول اکرم ﷺسید نا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
((إِنَّ ابْنِي هٰذَا سَيْدٌ وَ لَعَلَّ اللهَ أَنْ يُّصْلِحَ بِه بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ))
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے در میان صلح کرا دے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلح، حديث: 2704)
پھر یہ کلمہ سید نا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے روشن نشان بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے اور سیدنا معاویہ میں ان کے لشکروں کو خون ریزی سے بچا کر ان کے درمیان صلح کرا کے اس بشارت نبوی کی تکمیل کرتے ہیں اور یوں اس با عزت سپوت کے حق میں نبوی پیش گوئی سچ ثابت ہوتی ہے۔
یہ بَجیلہ قبیلے کے سردار سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: رسول اکرم ﷺنے مجھے جب بھی دیکھا، آپ ﷺضرور مسکرائے۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3035)
سیدنا جریر اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک اس مسکراہٹ کی کیا قیمت ہوگی ؟! وہ اس دلکش اور مسحور کن تبسم کے کس قدر گرویدہ ہوئے کہ وہ ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا ؟! وہ خوشی سے اس کو دہراتے ہوں گے۔ رسول اکرم ﷺ نے قوم کے ہیرو اور سردار سیدنا جریر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بنانے کے لیے یہ مسکراہٹ بکھیری تو وہ پہلی مسکراہٹ ہی پر آپ کے گرویدہ ہو گئے اور پھر آپ کی مستقل مسکراہٹ ان کا دل موہ لیتی رہی۔
یہ رسول اکرمﷺ کے صحابی سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جو رسول اکرمﷺ کی زبان اطہر سے نکلنے والی ایک ایک بات کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک رات رسول اکرمﷺ نے ان سے فرمایا: «أَلَكَ حَاجَةٌ » ’’تیری کوئی حاجت اور خواہش ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جنت میں آپ کا ساتھ چاہتا ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ’’کوئی اور خواہش ؟‘‘ عرض کیا: یہی ایک تمنا ہے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: «فَأَعِنِّي عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ» ’پھر اس کے حصول کے لیے بکثرت سجدے کرتے ہوئے مجھ سے تعاون کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة
حدیث:498)
یہ سب سے خوبصورت جملہ تھا جو سیدنا ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زندگی میں سنا اور یہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ تھا جسے وہ بیان کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یا بعد میں ایسا خوش کن مرحلہ ان کی زندگی میں نہیں آیا تھا بلکہ وہ خوشی اور فرحت سے نہال ہو کر اس مبارک نبوی حوصلہ افزائی میں کھو گئے تھے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک بوڑھے بزرگ صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
اللہ کے رسول! اللہ کے احکام مجھ پر بہت لاگو ہیں۔ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔
آپﷺ نے فرمایا:
((لا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِّنْ ذِكْرِ اللهِ ))
’’تیری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3375)
اس عمر رسیدہ بزرگ صحابی نے یہ الہامی کلمہ نبی ﷺکی زبان اطہر سے لیا اور پھر اسے حرز جان بنا لیا۔ قوم، کہنے، قبیلے اور لوگوں سے سنے ہوئے تمام پند و نصائح بھول کر بس اسی نصیحت کو پلے باندھے رکھا کیونکہ یہ نبوی نصیحت تھی جس کا ماخذ آسمانی وحی تھی۔ انھوں نے عمر بھر اس نصیحت پر عمل کیا اور جب تک زندہ رہے، یہی ان کا منہج اور طریقہ رہا۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ ذرا تاخیر سے اسلام لائے۔ وہ قبول اسلام کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے سامنے بیٹھ کر عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ وہ کہتے ہیں: آپ ﷺنے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’عمروا تمھیں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: ’’کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: یہ شرط کہ مجھے سابقہ تمام گناہوں کی معافی مل جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’عمرو! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ختم کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے؟ اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے کے تمام گناہ مٹادیتی ہے ؟ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 121)
آپﷺ کا یہ فرمان اور اس کی مناسبت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ زندگی بھر ذکر کرتے رہے حتی کہ مرض الموت میں بھی اس واقعے کو یاد کر کے سکون حاصل کیا کیونکہ یہ سید ولد آدم، خاتم النبیینﷺ کی خصوصی توجہ، شفقت اور حوصلہ افزائی تھی جو سید نا عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی تھی، اور اس سے بڑی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا ہو سکتی تھی ؟
نبی اکرمﷺ کی راہنمائی کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جس قدر آپﷺ کی زندگی کی جزئیات، سیرت طیبہ کی تفصیلات، آپ کے کردار کے اوصاف و خصائص اور آپ کے شب و روز کے معمولات سے آگاہ تھے، اس قدر وہ اپنے آباء و اجداد، ماں باپ، اولاد اور بیویوں کے شب و روز سے بھی واقف نہ تھے۔ گویا زندگی ان کے نزدیک صرف وہ تھی جو رسول اکرم ﷺکی رفاقت میں گزری کیونکہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز نبیﷺ ہی کی حیات طیبہ تھی۔ آپ کی نماز، آپ کے روزے، آپ کا لباس، آپ کی نیند، آپ کی گفتگو، آپ کی خوشی، آپ کی ناراضی، آپ کی سنجیدگی، آپ کا مزاح ہر چیز ان کے لیے اہم تھی کیونکہ انھی راہوں پر چل کر جنت کا حصول ممکن تھا۔ جہاں تک آباء و اجداد، ماں باپ، اولادہ بہن بھائیوں اور ازواج کی رفاقت کا تعلق ہے تو وہ ایک عام چیز ہے جس سے دین و مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔
نبی اکرمﷺ کی راہنمائی اور اثر آفرینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم آپ کے سامنے خوشی خوشی، ہنستے مسکراتے موت کو سینے سے لگا لیتے تھے کیونکہ آپ نے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اور جنت الفردوس کے حصول کی تڑپ پیدا کر دی تھی۔ رسول اکرمﷺ کی رفاقت، صحبت، گفتگو اور عادات و اطوار سے حصول برکت ان کی آخری آرزو تھی اور وہ اسے اپنے لیے عظیم سعادت اور کامیابی سمجھتے تھے۔ وہ ہر لمحہ آپ کی زبان سے نکلنے والے موتیوں کو سمیٹنے اور آپ کی توجہ کے مشتاق رہتے کیونکہ انھوں نے اس عظیم نبیﷺ کو اپنا امام و پیشوا اور اُسوہ بنایا تھا جس کے بغیر ان کے لیے کامیابی و فلاح کا تصور ممکن ہی نہ تھا۔ وہ اپنی رشد و ہدایت اور اصلاح کا سامان آپ کی راہنمائی اور نور نبوت کی روشنی ہی سے حاصل کرتے تھے۔ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد آج اگر ہمارے شوق ملاقات اور تمنائے دیدار کا یہ عالم ہے کہ ہم آپﷺ کے دیدار کے لیے تڑپتے ہیں، آپﷺ کی زبانِ اطہر سے حدیث سننے کو ترستے ہیں، آپﷺ کی مجلس میں بیٹھنے کو بے تاب ہوتے ہیں حتی کہ کبھی فرطِ جذبات سے رو پڑتے ہیں اور محبت کے آنسو ہماری گفتگو پر سبقت لے جاتے ہیں تو ان کا کیا حال ہوگا جو آپ کے ساتھ رہے، آپ کے چہرہ انور کا دیدار کیا، آپ سے والہانہ محبت کی، آپ پر ایمان لائے، آپ کی صحبت و معیت کی سعادت حاصل کی اور آپ کی رفاقت سے سکون قلب پایا ؟ ہم اس مالک ارض و سماء سے دست بدعا ہیں جس نے انھیں دنیا میں آپ سلا م کی رفاقت کا شرف بخشا، وہ جنت الفردوس میں ہمیں بھی آپﷺ کا ساتھ نصیب کرے:
أَرْوَاحُنَا سَافَرَتْ لِلْخُلْدِ فِي أَلَقٍ من نُّورٍ هَدْيِكَ يَحْدُونَا وَ يَهْدِينَا
إِنْ كَانَ قَدْ عَزَّ فِي الدُّنْيَا اللَّقَاءُ بِكُمْ فِي جَنَّةِ الْخُلْدِ تَلْقَاكُمْ وَ يَكْفِيْنَا
’’(اے نبیﷺ) آپ کے نور ہدایت کی تابناکی میں ہماری روحیں خلد بریں کے لیے کوچ کر رہی ہیں۔ آپ کا نور ہدایت ہی ہمارا حدی خواں اور رہبر و رہنما ہے۔ اگر دنیا میں آپ سے شرف ملاقات کا حصول ممکن نہیں تو یہ شرف ہمیں جنت الفردوس میں ضرور حاصل ہوگا اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔“
بلا شبہ جن لوگوں نے نبی اکرم ﷺسے محبت کی، ان کا ہر عذر قابل قبول ہے۔ جن لوگوں نے آپ کی نصرت و تائید کی، وہ قابل قدر ہیں۔ جنھوں نے آپ کے اصولوں سے والہانہ عقیدت رکھی، وہ اجر و ثواب کے مستحق ہیں، اس لیے اس بات پر حیران نہ ہوں کہ انھوں نے میدان جنگ میں کس طرح جوانمردی سے رسول اکرمﷺ کا دفاع کیا اور گھمسان کی لڑائی میں آپ کی طرف آنے والے تیر انھوں نے کیسے اپنے سینوں پر روکے؟! تاریخ کے صفحات میں آپ کو ایسے لوگ نہیں ملیں گے جنھوں نے اپنے قائد، اپنے سردار، اپنے پیشوا اور اپنے رہبر و رہنما سے اس طرح کی مثالی محبت کی ہو جیسی بے لوث محبت محمد رسول اللہ ﷺکے صحابہ نے آپ ﷺسے کی ہے۔ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ کا سفیر بن کر آیا اور آپ سے مذاکرات کر کے واپس گیا تو اس نے اہل مکہ سے کہا:
’’لوگو! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، قیصر و کسری اور نجاشی کے دربار بھی دیکھ آیا ہوں مگر میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جس طرح محمد ﷺکے اصحاب اُن کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب محمد ﷺتھوکتے ہیں تو تھوک ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ ہی پر پڑتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب محمدﷺ کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ فوراً ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے لیے لڑ پڑیں گے۔ جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اُن کے ساتھی ان کے سامنے اپنی آواز یں پست رکھتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، حديث:2731)
کامیابی ہے صحابہ کے لیے جو نیکو کار تھے اور انھیں نبی مختارﷺ کی صحبت حاصل تھی۔ آپ نے انھیں علم و محبت، سلامتی و یقین، اخلاص اور انابت و خشیت سے مالا مال کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ، رسول اکرم ﷺ کی ان یادوں اور رفاقت کے لمحات کو کبھی آنسوؤں کی مالا میں پروتے، کبھی آپ کے ذکر سے ان کی سانسیں تھم جاتیں اور کبھی اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ نبیﷺ سے ان کی محبت کا عالم یہ تھا کہ وہ کائنات کی ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتے۔ وہ آپ ﷺکی محبت کو اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، اولاد اور بیویوں حتی کہ خود اپنی ذات پر بھی مقدم رکھتے تھے۔ اور ایسی ہی محبت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
آپﷺ کی برکت اور الہام و رہنمائی آپ کے پیروکاروں کے لیے قیامت تک جاری رہے گی۔ وہ جس قدر آپ کی سنت کے قریب رہیں گے اور آپ کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے، اس قدر راہِ ہدایت اور صراط مستقیم پر رہیں گے۔ اسلامی تاریخ میں جن کبار ائمہ کا ذکر ملتا ہے، انھوں نے یہ بلند مقام و مرتبہ نبوی تعلیمات کو اپنا کر ہی پایا ہے۔ ائمہ تابعین میں سے سعید بن مسیب، حسن بصری، امام زہری اور عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے جو عالی مرتبے حاصل کیے اور اسلامی تاریخ کے افق پر روشن ستارے بن کر چمکے، یہ آپﷺ کی پیروی ہی کی بدولت ممکن ہوا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو امت میں جو بلند مقام و مرتبہ نصیب ہوا اور جو علمی فقاہت ملی، وہ اسی مبارک اتباع و پیروی کا نتیجہ تھا۔ اسی اتباع کی برکت سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نجم العلماء اور امام دار الہجرت بنے کیونکہ انھوں نے رسول اکرمﷺ کی میراث علم کے موتی اکٹھے کیے اور آپ کے نور ہدایت سے روشنی حاصل کی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو فہم و فراست، قوت استنباط اور حسن دلائل میں جو امتیازی حیثیت حاصل ہوئی، وہ اسی سفینہ نبوی میں سوار ہونے کی برکت تھی۔ امام اہل السنہ و الجماعہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اگر حدیث کے باب میں سند اور نیکوکاروں کے امام و پیشوا بنے تو حدیث رسول سے لگن اور آپ کی سنت کی پیروی ہی سے انھوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تمام علمائے اسلام احمد دین، صالحین، عابدین، مجاہدین اور مخلصین سنت نبوی کی راہوں پر چل کر ہی ان فضیلتوں کے مستحق ٹھہرے۔ اور سنت رسول کی پیروی ہی قیامت تک عزت پانے کا ذریعہ ہے۔
کائنات میں نبی اکرم ﷺکے سوا جو جو الہامی شخصیات، قائدین، فاتحین، مجددین، ایجاد و اکتشاف کرنے والے اور عبقری و نابغہ روز گار لوگ آئے، ان کی راہنمائی کسی خاص دائرہ کار میں محدود، وقتی یا دنیا دی تھی مگر نبی اکرم علی ایلام کی راہنمائی ربانی، عالمگیر اور ہمہ جہت ہے جو آپ کے معبود و خالق کی خاص عنایت ہے۔ آپ ﷺ نے دین و دنیا کے ہر میدان میں راہنمائی کی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے الگ الگ خصوصیات اور صلاحیتوں کے مالک لوگ آپ سے مستفید ہوئے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةَ لِّلْعٰلَمِيْنَ﴾
’’اور (اے نبی !) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔ ‘‘ (الأنبیاء 107:21)
کائنات کا ہر رہبر و رہنما خوبیوں اور خامیوں والا ہے۔ اس کی بات کو لیا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ وہ لاکھ کا میابیوں کے باوجود نقص سے پاک نہیں، انفرادیت اور امتیازات کے باوجود غلطیوں اور لغزشوں سے مبرا نہیں، سوائے سید ولد آدم محمد بن عبداللہﷺ کے۔ آپ کی ساری زندگی با کمال اور پاکیزہ ہے، اول و آخر فضیلت ہی فضیلت ہے کیونکہ آپ نبی معصوم ہیں۔ آپ ﷺ کی راہنمائی کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے اور وہ کفایت کرنے والا ہے۔
مجھے اس مسلمان پر بڑی حیرت ہوتی ہے جو نامور شخصیات کی سوانح حیات لکھنے، شہروں، ملکوں اور قبائل کی تفصیلات قلمبند کرنے اور سفر نامے اور یادداشتیں تحریر کرنے میں مشغول و مصروف رہے مگر اسے سنت کے مطابق نماز ادا کرنے کا طریقہ تک معلوم نہ ہو۔
مجھے ان مسلمانوں پر تعجب ہوتا ہے جو اشعار و اخبار کی عرق ریزی میں اپنی زندگیاں کھپا دیتے ہیں۔ ان کی تفصیلات، جزئیات اور اصطلاحات کی تشریح و توضیح میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں جبکہ انھیں صبح و شام کے اذکار اور عبادات کی مسنون دعا ئیں تک نہیں آتیں۔ ان کو نبی اکرمﷺ کے وضو، حج، سونے، جاگنے، لباس اور کھانے پینے کا مسنون طریقہ معلوم نہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ دنیاوی تخصصات و علوم بہت مختصر اور محدود ہیں جن پر ہزاروں انسانوں نے لکھا ہے اور مومن اور کافر کے فرق کے بغیر ہر امت ایسے واقعات اور حوادث پر لکھتی اور خامہ فرسائی کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ رسول اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں گے، اس کے بارے میں لکھنے کے لیے قلم کو جنبش دیں گے تو اللہ کی توفیق سے یہ آپ کے لیے سعادت اور ہدایت کا باعث ہوگا۔ آپ کو نعمتوں والی جنت کی طرف لے جائے گا۔ نبیﷺ کی پیروی کے باعث آپ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ اس شرعی اور ایمانی فرینے سے بے توجہی اور غفلت کا شکار ہو کر اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس مبارک کام کو نظر انداز کرنے کے جواز میں فضول، کمزور، بے کار اور بھونڈے دلائل بھی دیتے ہیں ؟ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے تحقیق و تخصص کے ہرگز خلاف نہیں۔ یہ اللہ تعالی کا دستور ہے جو زمین میں اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ آپ کسی تحقیقی کام میں اس قدر منہمک ہو جائیں کہ محمد ﷺکی میراث، آپ کے نور اور آپ کی ہدایت کی برکت کو بھول ہی جائیں اور اس سے آنکھیں بند کر لیں، آپ کی سنت سے راہنمائی لینے کو نظر انداز کر دیں اور دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں دین کے ضروری امور کی معرفت کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہ ہو۔ یہ نہایت خوفناک صورت حال ہے۔ میں نے سیرت ابن ہشام، ابن اسحاق، ابن کثیر، ابن قیم اور ذہبی وغیرہ کا بہت زیادہ مطالعہ کیا اور اس سے پہلے احادیث کی کتابیں، صحاح، مسانید اور معاجم وغیرہ بھی پڑھیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے یا جس مسلمان مرد اور عورت کو جو بھی دینی، علمی اور شرعی کامیابی ملی، وہ صرف نبی اکرمﷺ کی اتباع و پیروی کی برکت سے ملی۔ آپ نبیﷺ کی اتباع، آپ پر ایمان اور آپ کی اطاعت و پیروی میں جس قدر کامل ہوں گے، اسی قدر اللہ تعالی آپ کو ہدایت اور صراط مستقیم عطا کرے گا اور اس کے فیوض و برکات سے آپ کو نوازے گا۔ پھر نبی ﷺکےالہامی کردار ہے، جس کا میں ہر روز مطالعہ کرتا ہوں، مجھے ہر لمحہ نئی معلومات ملتی ہیں اور آپ کی سیرت و سنت کا ایسا فہم نصیب ہوتا ہے جو اس سے پہلے مجھ پر ظاہر نہیں ہوا ہوتا۔
یہ تحریر میں ساٹھ سال کی عمر میں لکھ رہا ہوں جبکہ آپ ﷺ کا اسم گرامی بچپن ہی سے میرے دل کی تختی پر نقش ہے اور میں تب سے آپ کے مبارک کلمات اپنی زبان سے ادا کرتا چلا آ رہا ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر روز مجھ پر علم و معرفت کے نئے خزینے ظاہر ہوتے ہیں جنھیں میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ میں علماء سے بھی اس علم و احساس کے بارے میں استفسار کرتا ہوں تو وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک صاحب علم نے تو مجھ سے کہا: اگر آپ نوے سال سے زیادہ عمر کے ہو جائیں تو بھی آپ پر نبیﷺ کی سیرت کے ایسے نئے نئے راز کھلتے رہیں گے جن سے آپ پہلے بے خبر رہے اور انھیں سمجھ نہ سکے بلکہ میں تو کہتا ہوں: اگر ہمیں عمر نوح بھی مل جائے اور ہزار سال بھی جئیں تو حدیث رسول ﷺکو بار بار پڑھنے، سیرت نبوی کا کثرت سے مطالعہ کرنے اور سنت نبوی پر غور و فکر کرنے سے ہر روز علم و معرفت کے نئے خزانے ہم پر آشکار ہوتے رہیں گے، آپ کی سنت و سیرت سے نئے نئے نکات حاصل ہوں گے اور مبارک فہم، نفع بخش علم اور عظیم میراث کے نت نئے دفینے ہمارے حصے میں آئیں گے جو پہلے ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔
پھر ہم اس عظیم ملہمﷺ کو کیسے بھول سکتے ہیں جن کی سیرت اور کردار ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم آپ کا ذکر کیونکر فراموش کر سکتے ہیں جب ہر نماز میں آپ کا اسوہ اور نمونہ ہمارے سامنے رہتا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ((صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي))
’’نماز ایسے پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6008)
جب ہم حج کرتے ہیں تو مناسک کی ادائیگی اور مقدسات کی زیارت کرتے وقت گویا آپ مسلم ہماری راہنمائی کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں تعلیم دیتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں: ((لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ)) ’’تم حج کی ادائیگی کے طریقے (مجھ سے) سیکھ لو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1297)
ہم زندگی کے شب و روز گزارتے ہیں، اعمال بجالاتے ہیں اور تجارت و زراعت کے پیشے اختیار کرتے ہیں تو ہر قدم پر آپ کی مبارک و شیریں گفتگو ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ آپ کی آواز میں ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں اور ہمارے حوصلوں اور عزائم کو ایک نئی زندگی ملتی ہے، گویا آپ ﷺ فرما رہے ہیں:
((مَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، النكاح
حدیث:5063)
ہمارے حبیب ﷺہماری روح اور دل سے کیسے اوجھل ہو سکتے ہیں جبکہ ہم وضو کرتے ہیں تو بھی آپ کو یاد کرتے اور آپ سے راہنمائی لیتے ہیں۔ مسواک پکڑتے ہیں تو بھی آپ کی حدیث ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔ کھانا کھانے لگتے ہیں تو بھی کھانے پینے کے آداب میں آپ کی سنت سامنے ہوتی ہے اور بستر پر لیٹتے ہیں تو بھی آپ کی ہدایات اور دعا میں زبان پر ہوتی ہیں۔ کسی شاعر کے جذبات کا خلاصہ ہے:
’’(اے نبی ﷺ) ہر شام آپ کی یاد آ کر مجھے گھیر لیتی ہے اور جب میں آپ کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا فکر روشن ہو جاتا ہے۔ میں آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں اور میرے در د الفت کی کوئی تفسیر نہیں۔ میں اس کی کیا تفسیر کروں؟ خواہشات کی تو کوئی تفسیر نہیں ہوتی۔ بڑی بڑی شخصیات ہر آن کھلتی چلی جاتی ہیں جبکہ آپ نا اہم ہر روز میرے دل میں عظیم سے عظیم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا آپ لوگ ہماری عمروں کا پوچھتے ہیں؟ آپ ﷺ ہی ہماری عمر ہیں، آپ ہی ہماری تاریخ ہیں اور تاریخ رقم کرنے والے ہیں۔‘‘
ہمارے رسولﷺ اس کا ئنات کے پہلے فرد ہیں جو ہر نصیحت طلب کرنے والے کی شخصیت کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و دانائی سے اس سائل کی راہنمائی کرتے اور اسے بتاتے ہیں کہ اس کے لیے بہتر کیا ہے۔ ایک شخص نبی اکرمﷺ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہے تو آپ اس سے فرماتے ہیں:
((أَعِنِّي عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ))
’’سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 489)
دوسرا شخص یہی سوال کرتا ہے تو اسے فرماتے ہیں:
((لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِّنْ ذِكْرِ اللهِ))
’’تیری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حديث: 3375)
تیسرا آدمی جنت کا راہی بننے کا پوچھتا ہے تو آپﷺ اس سے تین بار فرماتے ہیں: ((لَا تَغْضَبْ))
’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
چوتھا جنت کی راہ پوچھتا ہے تو آپﷺ اس سے فرماتے ہیں:
(عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ )
’’تم روزے رکھا کرو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں۔‘‘ (سنن النسائي، الصيام، حدیث: 2222)
پانچواں نجات کی راہ پوچھتا ہے تو آپ ﷺاپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں:
((كُفَّ عَلَيْكَ هٰذَا)) ’’اسے روک کر رکھو۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الإيمان، حديث: 2016)
چھٹا پوچھتا ہے تو آپ ﷺ اس سے فرماتے ہیں: ’’تم یہ دعا پڑھا کرو:
((اللَّهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي))
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور سیدھا رکھ۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء …. حديث: 2725)
ساتواں حصول جنت کی راہ پوچھتا ہے تو آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تم پڑھا کرو:
((اللَّهُمَّ أَلْهِمْنِيْ رُشْدِيْ وَ أَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ))
’’اے اللہ! مجھے میری بھلائی کی باتیں سکھا دے اور میرے نفس کے شرے مجھے بچالے۔‘‘ (جامع الترمذي
الدعوات، حديث: 3483، ضعیف)
آٹھواں شخص حصول جنت کا طریقہ پوچھتا ہے تو آپﷺ اسے بتاتے ہیں: ’’ہر نماز کے بعد پڑھا کرو:
((اللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))
’’اے اللہ! اپنا ذکر، اپنا شکر اور اپنی عبادت خوبصورت انداز سے کرنے میں میری مدد فرما۔‘‘ (سنن أبي داود
الصلاة، حدیث: 1522)
نواں شخص جنت کی راہ پوچھتا ہے تو آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرو:
((اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ))
’’اے اللہ! میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا، لہذا تو اپنی بارگاہ فضل سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بلا شبہ تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حديث: 834)
اور دسویں شخص سے آپ ﷺ فرماتے ہیں: ((سَلِ اللهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ))
’’ تم اللہ تعالی سے عفو و درگزر اور عافیت کا سوال کرو۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 1783)
اس طرح ایک لمبی فہرست ہے۔
رسول کریمﷺ ہر سائل کو اس کے مناسب حال جواب دیتے جیسے ایک ماہر و حاذق طبیب ہر مریض کو اس کی بیماری کی مناسبت سے دوا دیتا ہے۔ لیکن آپﷺ کی دوا زیادہ مہنگی، قیمتی اور نفیس ہے کیونکہ وہ ربانی، الہی اور نبوی دوا ہے جو ہر بیماری کی شفا ہے اور انسان کو جنت الفردوس کی دائی راحت اور ابدی زندگی عطا کرتی ہے۔ نبی کریمﷺ کے الہام سے فیض پانے اور سعادت حاصل کرنے کے لیے آپ کی صداقت اور نبوت پر ایمان لانا، آپ کی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنا، آپ کی سنت سے راہنمائی لینا، آپ کے حکم پر عمل پیرا ہونا اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ کو فیصل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ عبادت، کھانے پینے، چال ڈھال، گفتگو، سفر و حضر، خوف و امن اور خوشی و نمی وغیرہ ہر معاملے میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کو اپنائیں کیونکہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکام کو ہدایت کی دلیل حق کا معیار اور جنت کا قائد بنایا ہے۔
قارئین! آپ جس امتیازی وصف اور صلاحیت کے بھی مالک ہیں، آپ کو نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے ضرور راہنمائی ملے گی۔ اگر آپ رئیس ہیں، مدیر ہیں، امیر ہیں یا وزیر ہیں تو آپ کو سیرت نبوی میں امور قیادت و سیادت، لوگوں کے انتظامی معاملات اور ان کے اصلاحی امور کے متعلق کامل راہنمائی ملے گی۔ اگر آپ عالم، فقیہ قاضی، مفتی، خطیب یا واعظ ہیں تو زندگی کے ہر شعبے میں سنت نبوی کی روشنی آپ کا ساتھ دے گی اور آپ کے سامنے صاف ستھرا، شیریں اور جاری چشمہ ہوگا جس سے آپ فیض یاب ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ عبادت گزار ہیں، نمازی ہیں، روزے دار ہیں، ذکر و تلاوت کرنے والے ہیں یا صدقہ کرنے والے ہیں، تو ہر معاملے میں قدم قدم پر براہ راست رسول اکرمﷺ کی ہدایات، خطبات، واقعات اور پند و نصائح کی صورت میں آپ کے سامنے آئیں گی اور سب سے پہلے آپ مسلم پر نازل ہونے والی مبارک کتاب آپ کی رہبری کرے گی۔
اگر آپ شوہر، والد، دوست، بھائی یا ساتھی ہیں تو بھی آپ اپنے تمام امور کی انجام دہی میں رسول اکرم ﷺکی راہنمائی پائیں گے اور آپ کو زندگی میں ان رشتوں کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی وضاحت اور تفصیل نبیﷺ کے مبارک فرامین میں بآسانی مل جائے گی۔