محمدﷺ بحیثیت نمازی

نبی اکرمﷺ کی زندگی میں نماز ہر وقت آپ کی آنکھوں کے سامنے رہتی۔ وحی الہی ہمیشہ آپ کو اس کی ترغیب دیتی اور آپ کا پروردگار ہر آن آپ کو اس کی یاد دہانی کراتا۔ شدت و آسانی اور تنگ دستی و خوشحالی ہر حال میں اللہ تعالی نے اسے قائم کرنے کی تاکید فرمائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰی لِلذّٰكِرِیْنَ۝﴾

’’اور آپ دن کی دونوں طرفوں (صبح و شام) اور رات کی کچھ گھڑیوں میں نماز قائم کریں۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ یہ اللہ کا ذکر کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ (ھود 114:11)

نماز کے مخصوص اور متعین اوقات میں نبی کریمﷺ اپنے رب سے مناجات کرتے ، معارف حاصل کرنے اور اپنے رب کی عبادت واطاعت کی مٹھاس پانے کے لیے اپنے رحمن و رحیم رب سے ملاقات کرتے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۝۷۸﴾

’’ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجیے اور نماز فجر بھی۔ بے شک فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے۔‘‘ (بنی اسراءیل 78:17)

چنانچہ نماز دن رات کی گردش میں پانچ مقامات استراحت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب آپ تھک جاتے ہیں۔ سست پڑتے ہیں۔ کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں یا راستے سے دور ہونے لگتے ہیں تو نماز کا وقت آ جاتا ہے اور آپ فیضان الہٰی سے مستفید ہوکر دوبارہ اپنی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ آدمی کا تعلق اپنے خالق سے بحال ہو جاتا ہے اور یوں باری تعالی کی طرف یہ سفر جاری رہتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۝﴾

’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ اوقات میں فرض ہے۔‘‘ (النساء 4: 103)

نماز کے اوقات رب تعالی کے مقرر کیے ہوئے اور حکم ربانی سے طے شدہ ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی کی:

﴿اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ۝﴾

’’بے شک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، لہٰذا  تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔‘‘ (طهٰ 14:20)

یہاں توحید کے فوری بعد نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور اللہ تعالی نے اپنے ایک نبی کی مدح کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ ۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا۝﴾

’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں نہایت پسندیدہ تھا۔‘‘ (مریم 55:19)

رسول اکرمﷺ نماز کے وقت کا اور اپنے خالق سے ملاقات کا ایسے انتظار فرماتے ، جیسے عرصے سے بچھڑا محب اپنے محبوب کے آنے کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔ یوں آپ کی نماز دنیا ہی میں آپ کی جنت بن گئی۔

نماز کے اہتمام ہی کی وجہ سے آپ نے نماز بھول جانے والے، مسجد سے دور رہنے والے، بیماری اور عذر کی وجہ سے نماز ادا نہ کر پانے والوں کے احکام ذکر کیے تاکہ مسلمان اس عظیم فریضے کے احکام سے آگاہ ہوں جسے دن رات میں پانچ بار ادا کرنا ضروری ہے۔   آپ ﷺ نے فرمایا :

((مَنْ نَّسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلُّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةً لَهَا إِلَّا ذٰلِكَ))

’’جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جیسے ہی اسے یاد آئے ، وہ نماز پڑھ لے۔ اس نماز کا اس کے علاوہ اور کوئی کفارہ ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 684)

بھول جانے سے نماز ساقط نہیں ہوتی بلکہ انسان کی زندگی میں موجود رہتی ہے کیونکہ یہ ایسی طاقت ہے جو ختم نہیں ہوتی ، ایسا چشمہ ہے جو سوکھتا نہیں اور قیامت تک کے لیے زادِ راہ ہے۔

اور جب ایک آدمی نے نبیﷺ سے سوال کیا کہ اس کا گھر مسجد سے دور ہے تو کیا اسے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟  آپ ﷺ نے فرمایا :

’’كيا تم حي على الصلاۃ اور حی علی الفلاح کی ندا سنتے ہو؟‘‘ اور آپ نے انھیں گھر میں (فرض) نماز پڑھنے کی رخصت نہیں دی۔ (سنن النسائي، الإمامة، حديث:852)

چنانچہ آپ ﷺ نے ہر مسلمان کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہے کیونکہ بآواز بلند اذان کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے بلاوے کو قبول کرنا فرض ہے۔ گویا مؤذن کہتا ہے کہ اپنے کام اور مصروفیات ترک کر دیں اور سب عزت والوں سے بڑے عزت والے اور سب سے زیادہ رحم کرنے والے کی طرف آجائیں۔

آپ ﷺ  نے مریض کو سہولت دی کہ اس کے لیے جیسے آسانی ہو، نماز پڑھ لے۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے نبی  ﷺ سے نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰى جَنْبٍ)) ’’ کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر ادا کرو۔ اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھو۔‘‘ (صحیح البخاري، أبواب التقصير، حديث : 1117)

چنانچہ نماز کی وقت اور کسی جگہ ساقط نہیں ہوتی اور نہ کسی حالت میں معاف ہے کیونکہ یہ ایسی عبادت ہے جو سفرو حضر، گھر باہر اور رات دن میں مسلمان کے ساتھ ہوتی ہے۔

نبی ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ رخ ہوتے۔ اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے برابر اٹھاتے گویا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی مالک الملک کا سلام ہے تاکہ بندہ اپنی نماز اس تحریم کے ساتھ شروع کرے اور کہے: اللہ اکبر۔ اذان کے شروع اور نماز کے آغاز میں اللہ اکبر کہنے کا ایک عظیم مقصد ہے۔ اور وہ یہ کہ اللہ کی عظمت اور بلند شان کو ذہن نشین کیا جائے۔ ہر چیز پر اس کی فوقیت کا اظہار ہو اور اس بات کا اعلان ہو کہ وہ ہر اس چیز سے بڑا ہے جو ہمیں اس کی عبادت سے مشغول کرتی ہے۔ گویا نمازی اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالی اہل و عیال، مال و اولاد بلکہ دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بڑا ہے۔

پھر آپ ﷺ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھ کر سینے پر رکھتے۔ یہ مسکین، عاجز مزاج ، ڈرے ہوئے اور خوف زدہ آدمی کا انداز ہے جو وہ بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالی کے حضور اپناتا ہے۔ گویا وہ ایک قیدی ہے جو خوف کے عالم میں کھڑا ہے۔ اس کے پاس ادھر ادھر دیکھنے اور حرکت کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اور ہاتھ سینے پر باندھنے میں اللہ واحد و قہار کے سامنے ساکن کھڑا ہونے اور خشوع و خضوع کا اظہار ہے۔

اس کے بعد آپ ﷺ دعائے استفتاح پڑھتے۔ یہ اللہ تعالی سے مناجات کرنے کا ابتدائیہ اور پیش لفظ ہے۔ پھر آپ ﷺسورہ فاتحہ کی قراءت کرتے اور یہی نماز ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ ذوالجلال نے اسے نماز کا نام دیا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے۔ جب بندہ  ﴿اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَلَمِيْنَ﴾ ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب وہ کہتا ہے: ﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴾ ’’سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہمیشہ مہربانی کرنے والا‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۝﴾ ’’جزا کے دن کا مالک‘‘ تو اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور ایک دفعہ فرمایا: میرے بندے نے اپنے معاملات میرے سپرد کر دیے۔ پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۝﴾ ’’ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘ تو اللہ فرماتا ہے: یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے: ﴿ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۝۵ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠۝۷﴾ ’’ہمیں راہ راست دکھا۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی اور نہ گمراہوں کی راہ‘‘  تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کا ہے جو اس نے مانگا۔‘‘ (صحیح مسلم الصلاة، حديث:395)

سورہ فاتحہ سے نماز کے آغاز کا سبب شاید یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت ہے۔ یہ کافیہ، شافیہ اور ام القرآن ہے اور یہ دعا، تلاوت اور رقیہ (دم) بھی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور بزرگی کے علاوہ اس کی الوہیت، ربوبیت اور اسماء وصفات وغیرہ جلیل القدر معانی ہیں۔

آپﷺ سورہ فاتحہ کے بعد جتنا آسان ہوتا، قرآن پڑھتے اور پھر رکوع کرتے ہوئے کہتے : اللہ اکبر۔ رکوع و سجود اور ایک رکن سے دوسرے میں منتقل ہونے کے لیے تکبیر ضروری ہے کیونکہ اس میں رب ذوالجلال کی تعظیم ہے۔ جب آپ  ﷺ رکوع کرتے تو آپ کی کیفیت اپنے رب کے سامنے عجز و انکسار والی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو رکوع میں یہ کہنا اچھا لگتا تھا: ((سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِیم)) ’’میر اعظمتوں والا رب پاک ہے۔‘‘

غور کریں! آپ ﷺنے کسی طرح رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کی کیونکہ جب آپ رکوع میں جھکے تو آپ کو اللہ کی عظمت یاد آئی اور آپ نے اس عظمت کا اعلان کیا اور اللہ کی پاکی بیان کی۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا: ((فَأَمَّا الرَّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ)) ’’جہاں تک رکوع کا تعلق ہے تو اس میں اپنے رب عز و جل کی عظمت و کبریائی بیان کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 479)

پھر آپ رکوع سے سر اٹھاتے اور کہتے : ((سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُّبَارَكًا فِيهِ)) ’’اللہ نے سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔ اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریف ہے۔ تعریف بہت زیادہ، پاکیزہ اور مبارک۔‘‘ یہ مقام رب ذوالجلال کی تعریف کا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندے کو اس کی توفیق دی اور اسے یہ نماز سکھائی۔ اور جب آپ رکوع سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے اور یہ اللہ رب العالمین کے لیے تعظیم اور تکریم کے معنی میں شامل ہے۔

رکوع سے سر اٹھانے کے بعد آپ ﷺ اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں گر جاتے۔ اور سجدے کی کیفیت عبادت کی سب سے عظیم بیت وصورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عزت دیتا ہے اور وہ اپنے مولا کے ہاں بلند رتبہ پا کر اس کے اور قریب ہو جاتا ہے۔ سجدے کی عظمت کے پیش نظر ہی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے تو اس میں خوب دعا کرو۔ یہ دعا اس لائق ہے کہ تمھارے حق میں قبول کر لی جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث : 479)

اور سجدے کی حالت میں چہرے کو پیشانی اور ناک سمیت زمین پر رکھنا اور اس کے ساتھ ہاتھوں، گھٹنوں اور دونوں قدموں کو بھی زمین پر رکھنا، یہ نہایت مسکینی، کمزوری، اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اور انکسار کی وہ کیفیت ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اور جب بندہ اس عاجزانہ انداز میں زمین پر گرا ہوا ہو تو اس کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ کہے: ((سُبْحَانَ رَبِّي الأَعْلٰى)) ’’میرا رب پاک ہے جو سب سے بلند ہے۔‘‘ کیونکہ بلندی اور عظمت صرف اللہ کے شایان شان ہے اور گرنا، کمزوری اور عجز و انکسار بندے کے لائق ہے۔ پھر آپ ﷺسجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے :

((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي))

’’اے اللہ مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے عافیت دے۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 850)

پھر آپ ﷺ ان الفاظ کے ساتھ تشہد پڑھتے جو آپ سے منقول ہیں۔ تشہد کی کیفیت یہ ہوتی کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے۔ اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے اور اسے عبودیت میں یکتا قرار دینے کے اظہار کے لیے اسے حرکت دیتے۔ تشہد کا یہ انداز نہایت مسکینی انکسار، خشوع و خضوع اور اللہ کے حکم کی فرماں برداری اور اسے تسلیم کرنے کا مظہر تھا۔ بالکل ایک عاجز، فقیر اور مسکین کی طرح جو شہنشاہ عالم کے سامنے نہایت حقیر بن کر اس کی رحمت کا طالب اور اس کے عذاب سے خائف ہو۔

پھر آپﷺ نماز کا اختتام دو مرتبہ  ’’السلام علیکم‘‘ سے کرتے۔ یہ نماز سے نکلنے کا ادب ہے۔ گو یا بندہ اس عظیم فریضے کو الوداع کرتا ہے اور نماز میں شامل فرشتوں اور اہلِ ایمان کو سلام پیش کرتا ہے۔ کیا ہی خوبصورت اختتام ہے گویا کستوری کی مُہر ہے۔ مقابلہ کرنے والوں کو اس میں مقابلہ کرنا چاہیے۔

 آپ ﷺ سلام کے فوراً بعد تین مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔ استغفار کرنے کا مقصد اللہ جبار و شہنشاہ کے سامنے اپنے عجز و انکسار کا اعلان ہے، نماز میں ہونے والی کسی بھی کوتاہی کی معذرت ہے یا آپ زبان حال سے یہ فرما رہے ہیں: ہم نے جتنی بھی اچھی نماز پڑھی، جتنا بھی خشوع و خضوع سے کام لیا، پھر بھی ہم کو تا ہی کرنے والے ہیں اور اطاعت کے کاموں میں کو تاہی پر بھی ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں۔ پھر آپ نماز کے بعد والے دیگر اذکار کرتے جن میں سے ہر ایک کی خاص حکمت، مقصود اور مناسبت ہے۔

بلا شبہ آپ ﷺ کی نماز ایسے خشوع والی ہوتی جو غم اور پریشانیاں ختم کر دیتی۔ حزن و ملال دور کر دیتی اور کرب و تکلیف کو ہوگا دیتی۔ آپ ﷺ کی نماز سینہ کھولنے والی اور گناہ دھونے والی تھی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف لائے ، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی، پھر اس نے نبی ﷺکو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا: ”واپس جاؤ اور نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا: ”واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا۔ بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا  آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھا ، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو۔ پھر قرآن سے جو تمھیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان سے رہو۔ پھر سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ اسی طرح اپنی پوری نماز مکمل کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حديث : 557)

جو شخص حبیبِ کبرﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ نماز میں ایک عجیب حکمت اور راز پاتا ہے۔ اور وہ راز یہ ہے: دنیاوی مصروفیات، مشاغل اور پریشانیوں سے نجات پانا اور زندہ و قائم رکھنے والے رب کا ہو کر رہ جاتا۔ نماز مستقین کے لیے راحت اور فلاح پانے والوں کے لیے مانوسیت ہے۔ اس کی حفاظت وہی کرتا ہے جس کا دل اللہ تعالی نے ایمان کے ساتھ آباد کیا ہو اور اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو۔ نماز میں کوتاہی کرنے والے کے احوال دگرگوں، اعمال بگڑے ہوئے اور اقوال نہایت گھٹیا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو شخص خشوع و خضوع آداب اور سنتوں کے ساتھ نماز کی حفاظت کرتا ہے، اس کا رب اسے خوشی دیتا ہے۔ اس کا مولا اس سے راضی ہوتا ہے۔ اس کے امور آسان ہو جاتے ہیں۔ رزق میں فراوانی و آسانی ہوتی ہے۔ مطلوب و مقصود تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کامیابی در کامیابی حاصل کرتا ہے اور کامرانی کے زینے چڑھتا جاتا ہے کیونکہ اس نے رہی کا کنارہ، دین کا ستون اور ملت کی چوٹی قابو کر لی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا ؕ لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰی۝﴾
’’اور اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیجیے اور (خود بھی) اس پر قائم رہے۔ ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے۔ ہم ہی آپ کو رزق دیتے ہیں۔ اور (بہترین) انجام تو اہل تقویٰ کے لیے ہے۔‘‘ (طہٰ 132:20)

اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ سے جو خطاب کیا ہے، اس کا مخاطب قیامت تک آنے والا ہر مسلمان مرد اور عورت ہے۔ جو شخص نماز قائم کرے، اس کی حفاظت کرے اور اس کی ادائیگی صبر و استقامت سے کرے، اللہ تعالی نے اس کے لیے رزق حلال اور اچھے انجام کی ضمانت دی ہے۔ کیا اس کے بعد کوئی خواہش اور تمنا رہ جاتی ہے؟!  یقینًا آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ نماز میں اسلام کے جملہ معانی و مقاصد جمع ہو جاتے ہیں بلکہ اسلام کے جملہ ارکان کی دلالت نماز میں موجود ہے۔ اس میں مختلف طرح کے اذکار، جسے تکبیر تحمید تهیچ تحلیل ، استغفار، نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام اور اللہ تعالی کی پاکی ، اس سے مناجات، تلاوت قرآن اور مختلف طرح کی دعا میں موجود ہیں۔ اس میں اللہ کے حضور سر تسلیم خم کرنے، اس کے احکامات ماننے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔

اس میں قیام، رکوع ، سجود اور تشہد پائے جاتے ہیں۔

اس میں روزے کے معانی بھی ہیں کہ دوران نماز میں کھانا پینا حرام ہے۔

اس میں حج کے معانی بھی ہیں کہ بندہ نماز میں اپنے دل سے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ گویا اس کی روح عرش الہی کا طواف کرتی ہے تو اس کا بدن خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوتا ہے۔

اس میں صدقہ کے معنی بھی ہیں کیونکہ تسبح، تحمید، لا الہ الا اللہ اور تکبیر وہ عبادات ہیں جن کے ساتھ صدقہ کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’ہر تسبیح صدقہ ہے۔ ہر الحمد اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے اور ہر اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔“ (صحيح مسلم: صلاة المسافرين، حديث (720)

اس میں جہاد کے معنی بھی ہیں کہ بندہ اپنے وقت، ذہن اور روح کی قربانی دیتا ہے۔ وہ عرش عظیم کے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی روح اپنے خالق کی مطیع ہوتی ہے اور وہ اپنے دل سے اپنے مولا کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس میں زہد کے معنی بھی ہیں کیونکہ بندہ دوران نماز میں دنیا سے لا تعلق ہو جاتا ہے۔ اپنے اہل و عیال اور مال کو چھوڑ دیتا ہے، اپنے کام کاج ترک کر دیتا ہے اور دنیا جہان سے منہ موڑ کر پوری توجہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

نماز میں اخلاص کے معنی بھی ہیں کیونکہ اس میں بندے اور اس کے رب کے درمیان مناجات اور ایسے اسرار اور رموز ہیں جنھیں اللہ سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، جیسے طہارت اور وضو۔ اگر اللہ تعالی کی نگرانی کا احساس نہ ہو تو بندہ اس کے بغیر ہی نماز پڑھ لے کیونکہ بعض اوقات وہ اکیلا نماز پڑھتا ہے۔ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا۔ کبھی رات کی تاریکی میں نماز پڑھتا ہے اور اس کے مولا و پروردگار کے سوا اسے کوئی نہیں دیکھتا۔

نماز میں ایمان کے معنی بھی ہیں کہ بلاشبہ اس کی حفاظت صرف وہی کرے گا جو اللہ تعالی ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتا ہے۔ نماز میں احسان کے معنی بھی ہیں کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے اور اس میں سب سے عظیم معاون نماز ہے۔

آپ ﷺ کے اس فرمان: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاةِ))  ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے‘‘ (سنن النسائي، عشرة النساء، حدیث (3040) پر غور و فکر کریں جو نماز کے بارے میں آپ ﷺ سے مروی ہے۔ اسے بار بار دہرائیں اور شعور بیدار کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے۔ اس میں آپ ﷺکی اس پوری زندگی کا خلاصہ ہے کیونکہ نماز میں آپ ایک لذت، شوق اور فائدہ اللہ کے حضور کھڑے ہو کر مناجات، استغفار اور ہدایت طلب کرنے کی صورت میں حاصل کرتے رہے۔

آپ ﷺ نے اس فرمان: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ)) میں صرف نماز کا ذکر فرمایا۔ بیٹے، بیٹی، بیوی ، دوست ، مال یا دنیا کا ذکر نہیں کیا۔ صرف نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔

جب نبیﷺ نے ان کلمات : (وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ) کو دل و جان سے نہایت شعور، احساس ذمہ داری اور محبت کے ساتھ ادا کیا تو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، روح کی تسکین اور دل کا قرار نماز کے سوا کوئی چیز نہ بنی اور آپ کو شرح صدر بھی اس سے حاصل ہوا۔

رسول اکرم ﷺ کے فرمان: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةً عَيْنِي فِي الصَّلاةِ)) کو ہم سفر بنا ئیں۔ اللہ نے آپ کو جو فہم و فراست اور ادراک و شعور دیا ہے، اسے پوری طرح استعمال کرتے ہوئے غور و فکر کریں تو آپ یہ جان لیں گے کہ نماز مسلمان کی زندگی میں یقین میں اضافے اور فتوحات میں مدد کرنے والی ہے۔ یہ برکات کا وہ چشمہ ہے جو بھی نہیں سوکھتا اور یہ روشنی، اطمینان اور سکون کی صاف شیریں بہتی نہر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اسلام کے تمام مقاصد کا مجموعہ ہے۔ یہ نمازیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، سجدے کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور ہمہ تن اللہ کی عبادت میں لگے اطاعت گزاروں کے لیے مبارک ہے۔

 یقینًا آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ نماز نفس کی اصلاح کرنے والی، ابلیس کے خطرات اور شکوک وشبہات دور کرنے والی اور اس کے نشان قدم پر چلنے سے بچانے والی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۝﴾

’’اور نماز قائم کیجیے۔  یقینًا نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور بلا شبہ اللہ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ (العنکبوت 45:29)

بلاشبہ جب نماز خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو یہ خواہشات نفس کو کچلنے والی، دل کو ضلالت و گمراہی سے بچانے والی اور اعضاء کو بے حیائی کے کاموں اور منکرات سے بچانے والی ہے۔

نماز میں تنظیم سازی اور زندگی مرتب کرنے کی تربیت بھی ہے۔ اس میں ایسی ترتیب اور ربط ہے جو اللہ تعالی کی وحی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان نماز شروع کر لیتا ہے تو اس کے لیے دائیں بائیں متوجہ ہونا، بے کار حرکتیں کرنا اور جو پڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ سوچنا جائز نہیں۔ اسی طرح نماز کے دوران اذکار اور دعاؤں کے علاوہ کلام کرنا، لغو گفتگو کرنا، کھانا، پینا، ہنسنا اور مذاق کرنا بھی نا جائز ہے۔ نماز تو صرف خشوع و خضوع، اللہ کے ذکر، اس سے مناجات اور پوری توجہ سے دعا و التجا کرنے کا نام ہے۔

نماز اوقات کو مرتب اور معاملات زندگی کو منظم کرنے والی ہے۔ سیدنا ابن مسعود  رضی  اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے سوال کیا: کون ساعمل افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔‘‘  میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 85)

غور کریں ! کس طرح آپ ﷺ نے نماز کو تمام اعمال سے مقدم رکھا اور اسے اطاعت کے کاموں میں سب سے اول قرار دیا۔ یہ سب سے عظیم عبادت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا افضل ذریعہ ہے۔ جو اسے وقت پر ادا کرے، اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی  اللہ تعالی عنہما  سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

((بُنِي الْإِسْلَامُ عَلٰى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ))

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ سیدنا محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

(صحيح البخاري، الإيمان، حديث:6)

نماز اسلام کا ستون ہے۔ اس کا ذکر توحید کے فوراً بعد آیا ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جو دن، رات، سفر، حضر اور صحت و بیماری میں انسان پر لازم ہے۔ کوئی بھی مسلمان شرعی عذر کے بغیر اسے چھوڑ نہیں سکتا۔

آپ ﷺنے ہمیں تعلیم دی ہے کہ نماز زندگی میں، قبر میں اور پل صراط پر نور ہے۔ یہ بندے کے ایمان کی سچائی کی دلیل ہے۔ یہ نفاق اور کفر سے خلاصی اور نجات کی علامت ہے۔ یہ سلامتی کی رہی، نجات کا بارہ سفینہ امان اور گناہوں کا کفارہ ہے۔آپ ﷺ نے ایسا کبیرہ گناہ کرنے والے شخص سے فرمایا تھا جس پر حد لاگو ہوتی تھی : ’’کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟‘‘  اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حديث: 2764)

یہ خطا ئیں دھو دیتی ہے۔ گناہ مٹا دیتی ہے۔ غلطیاں ختم کر دیتی ہے جیسا کہ ہمارے رسولﷺ نے نہایت عمدہ اور خوبصورت انداز میں اس کی تصویر کشی کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو۔ کیا اس کے جسم کا کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟‘‘  صحابہ نے عرض کی: اس کا کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالی ان کے ذریعے سے گناہ صاف کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 667)

آپ ﷺ نے نماز کے منافع اور قوائد ایک نہایت خوبصورت تصوراتی مثال کے ساتھ سمجھائے ہیں۔ آپ ﷺنے نماز کی مثال ایک صاف ستھری اور شیریں نہر کے ساتھ دی جس میں انسان ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کا میل کچیل ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نماز اس کے گناہ ختم کر دیتی ہے اور وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر لکھتا ہے۔ آپ ﷺنے ہمیں بشارت دی کہ نماز اہل توحید کی آنکھوں کی ٹھنڈک، عبادت گزاروں کے دلوں کی رونق، ڈرنے والے کے لیے پناہ گاہ اور ہر گناہ گار کے لیے سفینہ نجات ہے۔ یہ طہارت، کفارہ اور روشنی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’جب انسان کبیرہ گنا ہوں سے بیچ رہا ہو تو پانچوں نمازیں، ایک جمعہ (دوسرے ) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم الطهارة، حديث: 233)

نبی ﷺ نے بتایا کہ سجدوں کی کثرت سے اللہ کے ہاں بندے کے درجات بلند ہوتے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةٌ))

’’تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے، اللہ تعالٰی اس کے نتیجے میں تمھارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمھارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حديث : 488)

ایک اور موقع پر آپ ﷺنے فرمایا:

’’جو مسلمان وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے تو اس کے وہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جو اس نماز اور اگلی نماز کے درمیان ہوں گے۔“ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 227)

ہمارے حبیب ﷺنے خوشخبری سنائی ہے کہ مسجد کی طرف اٹھنے والے قدموں سے درجات بلند ہوتے ہیں اور خطا ئیں معاف ہوتی ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر اللہ کے گھروں میں سے اس کے کسی گھر کی طرف چل کر گیا تا کہ اللہ کے فرائض میں سے ایک فريضہ ادا کرے تو اس کے دونوں قدم (یہ کرتے ہیں کہ) ان میں سے ایک گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا درجہ بلند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 666)

  آپ ﷺ نے ہمیں نماز کے عظیم اجر کی بشارت دی اور بتایا کہ اس سے طہارت حاصل ہوتی ہے اور گناہوں کی بخشش ہوتی ہے، چنانچہ  آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس مسلمان کی فرض نماز کا وقت ہو جائے، پھر وہ اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع سے اسے ادا کرنے اور احسن انداز سے رکوع کرے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا ضرور کفارہ ہو گی جب تک وہ کبیرہ گناہ نہیں کرتا۔ اور یہ بات ہمیشہ کے لیے ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 220)

 اس حدیث میں ہے کہ طہارت اور نماز سب سے بڑے کفارے اور عظیم الشان عبادتیں ہیں۔ جو شخص وضو اور نماز کا شوقین ہو، اللہ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے، اس کا میل کچیل دور کر دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے۔

نبی اکرم ﷺنے ہمیں خوشخبری سنائی کہ نماز اور سجدوں کی کثرت سے جنت میں آپ ﷺ کا ساتھ نصیب ہو گا۔ سید نا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں خدمت کے لیے رسول اللہﷺ کے ساتھ صفہ میں آپ کے قریب رات گزارا کرتا تھا۔ جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’کچھ مانگو۔‘‘ میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کے علاوہ کچھ اور ؟‘‘  میں نے عرض کی بس یہی۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا:

 ((فَأَعِنِّي عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ))

’’تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 489)

نبی اکرمﷺ نے ہمیں بشارت دی کہ مسجد کی طرف آنے جانے والے ہر نمازی کے لیے جنت میں مہمانی تیار کی جاتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ وَرَاحَ، أَعَدَّ اللهُ لَهُ نُزْلَهُ مِنَ الْجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ))

’’جو شخص مسجد کی طرف صبح و شام بار بار آتا جاتا ہے تو اللہ تعالی جنت میں اس کی مہمانی تیار کرتا ہے، جب بھی وہ صبح یا شام مسجد میں آتا اور جاتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث:662)

آپﷺ نے ہمیں نماز فجر کی حفاظت کرنے والے کے متعلق خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا :

((مَنْ صَلّٰى صَلَاةَ الصُّبْحِ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ))

’’جس نے فجر کی نماز ادا کی وہ اللہ تعالی کی ضمانت اور حفاظت میں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث (657)

جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت اور دستگیری کرے، اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نماز فجر بطور خاص وقت پر ادا کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک مضبوط قلعہ اور حفاظتی حصار ہے۔

نبیﷺ نے خوشخبری دی کہ جو نماز فجر اور عصر کی حفاظت کرے، اسے ضرور جنت ملے گی، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ((مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ))

’’جس نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھیں، وہ جنت میں داخل ہوا۔‘‘ (صحيح البخاري، مواقيت الصلاة حدیث :574)

دو ٹھنڈی نمازوں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں۔ آپ ﷺنے ان کی خصوصی تاکید اس لیے بھی کی ہے کہ یہ راحت و آرام کے اوقات ہیں اور ان میں اکثر سستی و کاہلی چھائی ہوتی ہے۔

نبی کریم  ﷺ نے خوشخبری دی کہ نماز خطا ئیں مٹا دیتی ہے اور درجات بلند کرتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’کیا میں تمھیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے؟‘‘  صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ناگواریوں کے با وجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا،  سوتمھاری یہی رباط ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 251)

نماز ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایسی رسی ہے جو بھی کنہیں ٹوٹتی اور ایسا قلعہ ہے جو کبھی منہدم نہیں ہوتا۔

یہ امن کی محافظ ، نجات کا ساحل اور روح کی لذت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دنیا کی آندھیوں، دشمنوں کی چالوں، لشکروں کی سازشوں اور مخالفین کی نفرتوں کے سامنے پوری قوت اور ایمان ویقین کے ساتھ ڈٹے رہے اور ہر مصیبت اور تکلیف میں نماز کی طرف رجوع کیا۔

آپ ﷺ نے ہمیں خبر دی کہ نماز بندے اور اس کے رب کے درمیان عہد و پیمان اور ایمانی معاہدہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشَّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ))

’’بے شک آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فاصلہ مٹانے والا عمل نماز کا ترک کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم الإيمان، حديث: 82)

نماز دین کا شعار، اسلام کی علامت اور ایمان و کفر کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہی اہل توحید اور اللہ کے منکروں کے درمیان فرق کرتی ہے۔ نماز انسان کے ایمان کی علامت ، اسلام کی دلیل اور اس کی طرف سے اپنے رب کی رسالت کی تصدیق کی برہان ہے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم میں نے فرمایا: ((الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ))

’’ہمارے اور اسلام قبول کرنے والے لوگوں کے درمیان نماز کا عہد و میثاق ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی. اس نے کفر کیا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الإيمان، حديث: 2621)

بعض مفسرین نے ارشاد باری تعالی : ﴿لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا﴾ ’’وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھیں گے، مگر جس نے رحمن کے ہاں کوئی عہد لے لیا۔‘‘ (مریم 87:19)

کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان جو عہد ہے، وہ نماز ہے۔ توحید کے بعد جس نے نماز کی حفاظت کی وہ  یقینًا عہد و پیمان کے ساتھ آیا اور اس نے اپنے ایمان کے صحیح ہونے کی دلیل اور بریان پیش کر دی۔ جس نے اس کی حفاظت کی، وہ اس کے لیے نور، نجات اور قیامت تک برہان ہو گی جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے نماز کی حفاظت کی، وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور، برہان اور نجات ہوگی اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی، وہ اس کے لیے نور، برہان اور نجات نہ ہو گی اور وہ قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث 6576)

اور سیدنا معاذ بن جبل اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا اور فرمایا:

’’تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، انھیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ اس میں تمھاری) اطاعت کریں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالٰی نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 19)

غور کریں کس طرح آپ ﷺ نے اعمال کی ترتیب بتائی؟ کیسے بتدریج تعلیم دی اور سب سے پہلے زیادہ اہم اور پھر درجہ بدرجہ اہم کا ذکر فرمایا ؟ اسلام میں نماز کی عظمت کے پیش نظر آپ ﷺ نے شہادتین کے بعد اس کو ضروری قرار دیا اور بہت سی احادیث میں صرف شہار تین کا ذکر کیا کیونکہ مسلمان مرد و عورت کے لیے ہر دور اور ہر زمان و مکان میں توحید اور نماز لازم و ملزوم ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿الَّذِينَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآئمُونَ﴾

’’جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں۔‘‘ (المعارج 23:70)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن انسان کے اعمال میں سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اگر وہ ٹھیک اور درست نکلی تو وہ کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔ پھر اگر اس کے فرض میں کوئی کمی ہوئی تو رب تبارک و تعالی فرمائے گا: دیکھوا کیا میرے بندے کے کوئی نفل ہیں؟ پھر وہ ان نوافل سے فرضوں کی کمی پوری فرما دے گا۔ پھر باقی اعمال کی صورت بھی یہی ہوگی۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الصلاة، حديث: 413)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ جو شخص نماز کی حفاظت میں کامیاب ہو گیا، وہ اپنے رب کے ہاں فلاح پا گیا۔ ہلاکت سے بچ گیا اور سزا سے محفوظ رہا۔ اس نے اپنے رب کے ہاں انعام پالیا۔ اپنے خالق کے ہاں جنتوں کا مہمان بنا اور اپنی نماز کے ساتھ دار السلام کا مکین ٹھہرا۔ اسے نہایت بلندیوں والے بادشاہ کا پڑوس نصیب ہوا۔ سو خوشخبری اور مبارک ہے نمازیوں کے لیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو پکا نمازی بنائے اور مرتے دم تک اس کی حفاظت کی توفیق دے۔

آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ نماز بندے اور اس کے مولا کے درمیان رابطہ ہے اور یہ مشکلات و تکالیف دور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کا ہرغم، پریشانی اور تکلیف صرف نماز سے دور ہوتی تھی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَۙ۝۴۵﴾

’’اور تم صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ کی مدد طلب کرو، اور بے شک وہ بہت بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر بھاری نہیں۔‘‘ (البقرة 45:2)

نماز آپ ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، روح کی غذا اور دل کا سرور تھی۔ جب آپ زندگی کی مشکلات سے تھک جاتے، کوئی معاملہ پیش آجاتا یا کوئی مشکل گھیر لیتی تو نماز کے ذریعے سے سکون حاصل کرتے اور فرماتے:

((يَا بِلالُ، أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ))

’’اے بلال ! نماز کے ذریعے سے راحت وسکون پہنچاؤ۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 23087)

آپ ﷺ نماز شروع کرتے تو دنیا جہان سے بے نیاز ہو جاتے۔ نہایت خشوع و خضوع اور سکون سے اپنے رب سے مناجات کرتے۔ اپنے معبود و خالق سے التجا کرتے۔ اسے پکارتے اور گریہ و زاری کرتے۔ سر جھکائے دل و دماغ سے حاضر ہو کر غور و فکر کرتے ہوئے عبودیت کی پناہ گاہ میں داخل ہوتے۔ خود کو اپنے خالق کے حوالے کر دیتے۔ اللہ کے لیے مجھے بتائیں: کیا جہان میں آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی اپنے رب سے ڈرنے والا یا اپنے مولا کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے؟!

((يَا بِلالُ، أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ)) بلاشبہ نبی اکرمﷺ کی اس عبارت نے مجھے غور وفکر کرنے پر مجبور کر دیا کہ آپ یہ کلمات اس وقت کہتے جب آپ کو کوئی مشکل یا سنگین معاملہ پیش آجاتا۔

کبھی یوں ہوتا کہ آپ اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کو وقت دیتے مگر نماز کے وقت کا پورا خیال رکھتے اور شوق سے اس کا انتظار کرتے اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو آواز دیتے: ((يَا بِلالُ، أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ))

گویا کہ ساری زندگی مشکلات اور تھکاوٹ تھی حتی کہ خوشی ، مسرت اور زندگی کے جمال میں بھی کوئی راحت نہیں، راحت اگر تھی تو نماز میں۔ دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کی زندگی محنت و مشقت ، اور مشکلات سے بھر پور تھی لیکن اس جملے ((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ ) سے مشقت و تھکاوٹ ختم ہو جاتی اور یہ اداسیوں، غموں اور پریشانیوں کو بھلا دیتا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وَقُلْ لِّبِلالِ الْعَزْمِ مِنْ قَلْبِ صَادِقٍ

 أَرِحْنَا بِهَا إِنْ كُنْتَ حَقًّا مُصَلِّيَا

تَوَضَّأْ بِمَاءِ التَّوْبَةِ الْيَوْمَ مُخْلِصًا

بِهِ ترَْقَ أَبْوَابَ الْجِنَانِ الثَّمَانِيَا

’’اگر آپ سچے نمازی ہیں تو پختہ ارادے والے بلال کو قلب صادق سے کہیں کہ ہمیں نماز کے ذریعے سے راحت پہنچاؤ۔ آج خلوص دل کے ساتھ تو یہ کے پانی سے وضو کریں۔ ایسی نماز سے تو جنت کے آٹھوں دروازوں تک جا پہنچیں گے۔‘‘

جس انسان کی زندگی کے شیڈول میں((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ)) نہیں، وہ شخص کبھی سعادت اور خوشی کی زندگی نہیں گزار سکتا، خواہ کتنا بھی مال و زر جمع کرلے۔ مکانات و محلات اور باغات بنائے۔ اعلیٰ عہدوں اور بلند مراتب پر فائز ہو جائے۔ اطمینان وسکون کے حوالے سے وہ مفلس اور فقیر ہی رہے گا۔ سعادت سے محروم ، اپنے شکستہ ارادے کے ساتھ نا کام زندگی گزارے گا اور اس کے اذکار بھی مثبت نہ ہوں گے کیونکہ اس کے پاس ((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ)) کی طاقت، ایندھن اور خزانہ نہیں۔

یہ زندگی کتنی مشکل، پر مشقت اور تھکا دینے والی ہے اگر اس میں ((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ))کا اسٹیشن نہ ہو۔ بلاشبہ دنیا کی زندگی ایک ویران صحرا ہے جو دکھوں، مصیبتوں اور آفات سے بھرا ہوا ہے اگر اس میں ((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ)) کا پُر بہار باغ نہ ہو۔

آئیں، ہم روزانہ پانچ مرتبہ اپنے رسول و حبیبﷺ کی اقتدا کریں اور ہر ایک اپنے دل سے کہے: ((أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ))

آپﷺ تو موت کی بے ہوشی میں بھی نماز کے وقت کے بارے میں فکر مند تھے۔ آپ نہایت توجہ، شوق ، بے تابی اور اپنے مولا سے ملاقات کی چاہت سے اس نماز کے بارے میں سوال کرتے جسے آپ نہایت خشوع و محضوع سے مکمل یکسو ہو کر پڑھتے تھے، جس میں آپ کی روح ملا اعلی کی طرف آسمان کی سیر کرتی تھی، قبولیت کی راہوں میں تیرتی ہوئی تقدس اور پاکیزگی کے افق پر پرواز کرتی تھی جبکہ آپ آسمانوں اور زمین کے شہنشاہ و جہار، ارحم الراحمین اور سب سے بڑھ کر جود و کرم والے کے حضور سجدہ ریز ہوتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ  بیمار تھے تو آپ نے پوچھا: ’’لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے ایک لگن میں پانی بھر دو۔‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔‘‘ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہوش آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے جب میں پانی رکھ دو۔‘‘ (ہم نے پانی رکھ دیا) تو آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ اٹھنے گئے تو بے ہوش ہو گئے۔ بعد ازاں ہوش آیا تو آپ نے پوچھا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘  ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لوگ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے انجام کار نبیﷺ نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ  نے ان دنوں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے مرض میں کچھ افاقہ محسوس فرمایا تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نماز ظہر کے لیے برآمد ہوئے۔ ان میں سے ایک سیدنا عباس  رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ اس وقت سیدنا ابوبکر  رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے   آپ ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر نبی ﷺ  نے اشارہ فرمایا کہ پچھے نہ ہٹیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔‘‘  ان دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ اس وقت سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ تو کھڑے ہو کر نبیﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے جبکہ لوگ سید نا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور نبیﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حديث: 687)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب ان کی موجودگی میں نماز کی تعظیم اور اس پر  ہمیشگی کرنے پر بات ہوئی۔ ان کا مقصد رسول اکرم ﷺکے ہاں نماز کی اہمیت بیان کرنا تھا کہ آپ کو شدید بیماری میں بھی اس کی کس قدر فکر تھی۔

جب آپ ﷺ اس دنیا سے جا رہے تھے، اس وقت بھی آپ کی آخری وصیت نماز ہی تھی۔ سید نا  انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وفات کے وقت رسول اکرمﷺ کی عمومی وصیت یہ تھی :

’’نماز اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا، نماز اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا۔‘‘ یہ بات آپ اس وقت دہرا رہے تھے جب آپ کا سانس مبارک سینے میں تھا اور زبان پوری طرح حرکت نہیں کر رہی تھی۔ (مسند احمد،حدیث:12169)

کیا اس سے بڑھ کر کوئی اہتمام ہو سکتا ہے اور اس نصیحت کے بعد کوئی کمی رہ جاتی ہے؟!

نماز نہ پڑھنے والا مسکین ہے۔ اس کی روح کا قوت و مدد اور نصرت و ہدایت کے ماخذ سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے اور وہ عزت و دولت اور شرف و سعادت کے منبع سے دور ہو چکا ہے۔ اس کی رسیاں ٹوٹ چکیں اور وہ روحانی فقر و غربت اور نفسیاتی کمزوری میں بھٹکتا پھرے گا۔ وہ اندرونی طور پر تباہ حال، دیوالیہ اور مایوس ہو کر دل کی گھٹن کے ساتھ جیے گا۔ وہ خسارے، فراموشی اور غفلت کی دنیا میں کھویا رہے گا کیونکہ اس نے باری تعالی سے مناجات کا مزہ ہی نہیں چکھا۔ اس کی روح نے عرش کے ارد گرد طواف کیا نہ اس کے دل نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں تسبیح کی۔

بلاشبہ نماز دنیا میں سب سے عظیم مثبت توانائی ہے کیونکہ یہ رضا و الہام کی نہر، یقین و امید کی بہار اور کامیابی اوربرتری دلانے والی ہے۔ جو اس کی حفاظت کرتا ہے، اسے خوشخبری ہو کہ اللہ تعالی اسے ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور نہ رسوا کرے گا۔ وہ اللہ تعالی کی عنایت و مہربانی سے محفوظ ، اس کی نگرانی میں مامون اور اس کی کفالت و ذمہ داری میں پرسکون رہے گا۔

﴿ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ۖۗ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ۝﴾

’’اے میرے رب ! مجھے اور میری اولاد میں سے (بھی) نماز قائم کرنے والے بنا۔ اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما‘‘ (إبراهيم 40:14)

………………….