محمدﷺ بحیثیت روزه دار

رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رمضان المبارک کی آمد سے بہت خوش ہوتے۔ آپ ﷺاپنے صحابہ کو وشخبری دیتے اور فرماتے:

’’جب رمضان آتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث (1079)

 آپ ﷺ نے خبر دی کہ روزہ رکھنا اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

’’اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے : اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث: 16)

فرض روزوں میں نبیﷺ رات کو طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت کر لیتے تھے جیسا کہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

’’جو شخص طلوع فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کرے، اس کا روزہ نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن النسائی الصيام، حديث: 2334)

رات کے وقت لازمی طور پر نیت کرنا فرض روزوں کے لیے ضروری ہے۔ نفل روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، اس کے الفاظ نبی اکرم ﷺسے ثابت نہیں۔ آپ ﷺنے سحری کھانے کی ترغیب دی اور اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو اس کا اہتمام کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ((تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً))

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث (1096)

اس کی وجہ یہ ہے کہ سحری کا وقت دعاء استغفار اور اللہ کے ذکر کا وقت ہے اور یہ رات کی آخری تہائی ہے جب اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ اللہ رب العزت حدیث قدسی میں فرماتا ہے:

((وَمَنْ يَّدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَّسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَّسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟))

’’کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے، میں اسے عطا کروں ؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، میں اسے معاف کر دوں؟‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث: 1145)

اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾

’’اور وہ (متقین) سحری کے وقت بخشش مانگا کرتے تھے۔‘‘ (الذاریات 18:01)

اور اللہ عز وجل کا فرمان ہے : ﴿وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْأَسْحَارِ﴾

’’اور (مومن ) سحری کے اوقات میں بخشش طلب کرنے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران 17:3)

آپ ﷺ سحری اور اذان فجر کے درمیان پچاس آیتوں کے بقدر فاصلہ کرتے جیسا کہ سیدنا انس ہی کہتے ہیں: مجھے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے ایک مرتبہ نبی ﷺ  کے ساتھ سحری کھائی، پھر وہ سب نماز فجر کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے پوچھا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انھوں نے فرمایا: جس قدرپچاس یا ساتھ آیات پڑھی جائیں۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة، حديث:575)

تصور کریں کہ انھوں نے آیات کے ساتھ وقت کا تخمینہ لگا کر کس قدر حاضر جوابی سے فصاحت و بلاغت پر مبنی مؤثر جواب دیا۔ یہ ان کے دلوں کی پاکیزگی اور اپنے مولا و پروردگار سے تعلق کی دلیل ہے۔

پھر   آپ ﷺ نماز فجر کے لیے مسجد جاتے جہاں آپ کے صحابہ کرام آپ کا انتظار کر رہے ہوتے۔ دو رکعت سنت ادا کرنے کے بعد آپ انھیں نماز فجر پڑھاتے۔ ان دو رکعت کے متعلق آپ ﷺکا فرمان ہے: ((رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا))

’’فجر کی دور رکھتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:725)

آپﷺ رات بھر عبادت اور ذکر و استغفار میں مشغول رہنے کے بعد نماز فجر میں صحابہ کی امامت کراتے اور اس میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ، دوسری جانب دن بھر روزہ رکھتے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۝﴾

’’اور نماز فجر بھی، بے شک فجر کی نماز (فرشتوں کے ) حاضر ہونے کا وقت ہے۔‘‘ (بنی اسر آئیل 78:17)

روزے کی حالت میں  آپ ﷺ دوران وضو میں کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے مگر مبالغے سے منع کرتے، فرمایا:

((أَسْبِغِ الْوُضُوءَ، وَخَلَّلَ بَيْنَ الْأَصَابِعِ، وَبَالِغَ فِي الْإِسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا)) ’’وضو اچھی طرح مکمل کرو۔ انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔ ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو الا یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 142)

آپ ﷺروزے کی حالت میں بھی مسواک کی ترغیب دیتے ، آپﷺ نے فرمایا:

((لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ بِالسَّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ))

’’اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 252)

اور کبھی ایسے ہوتا کہ فجر کے وقت آپﷺ پر غسل فرض ہوتا تو آپ غسل کر کے روزہ رکھ لیتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو رمضان المبارک میں احتلام کے بغیر صبح کے وقت غسل کرنے کی ضرورت ہوتی تو آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1930)

آپ نے روزہ رکھنے کے آداب، اس کی سنتیں، مستحبات، مکروہات اور نواقض وغیرہ مختلف احادیث و واقعات میں بیان کیے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کے لیے اس کی پوری تفصیلات ذکر کر دی ہیں۔

جہاں تک   آپ ﷺ کے افطار کا تعلق ہے تو آپ نماز مغرب ادا کرنے سے پہلے چند طاق عدد کھجوروں سے روزہ افطار کر لیتے۔ اگر کھجور میسر نہ ہوتی تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنماز پڑھنے سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ کھولا کرتے تھے۔ اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے روزہ کھول لیتے اور اگر وہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ (جامع الترمذي، أبواب الصوم، حديث (696)

آپﷺ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد افطار کر لیتے اور فرماتے:

((إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، وَجَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ))

’’جب سورج ادھر، یعنی مغرب میں غروب ہو جائے اور رات ادھر، یعنی مشرق سے آ جائے تو حقیقت روزہ دار نے افطار کر لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1101)

روزہ افطار کرنے کا وقت سورج کی ٹکیہ غروب ہونے کے فوراً بعد ہو جاتا ہے، خواہ روشنی باقی ہو، چنانچہ آپ ﷺ نے غروب کے بعد جلد روزہ افطار کرنے کی ترغیب دی، آپﷺ نے فرمایا:

((قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا))

’’اللہ تعالی کا فرمان ہے: اپنے بندوں میں سے مجھے وہ بندہ زیادہ پسند ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الصوم، حديث (700)

اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَّا عَجَّلُوا الْفِطْرَ))

’’لوگ ہمیشہ خیر و برکت اور نیکی کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث : 1957)

آپ ﷺافطاری کے وقت دعا کی ترغیب دیتے اور فرماتے:

((إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَّا تُرَدُّ))

’’بلاشبہ روزے دار کی افطار کے وقت دعا رد نہیں ہوتی۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الصيام، حدیث: 1753)

افطار کے وقت  آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے :

((ذَهَبَ الظُّمَأُ وَابْتَلَتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ)

’’پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا۔‘‘ (سنن أبی داود، الصوم حديث: 2357)

رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت اور جود و کرم بہت زیادہ ہو جاتا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب سیدنا جبریل  علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور سیدنا جبریل  علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز ) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حديث: 6)

حدیث کے ان الفاظ : ’’جبریل علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں قرآن مجید کی تلاوت اور تدریس دن کی نسبت زیادہ افضل ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں نبی اکرم ﷺچار خوبصورت کام سر انجام دیتے تھے:

1۔ روزہ رکھتے۔ اس سے روح و جسم کی تہذیب و تزکیہ ہوتا ہے۔

2۔ جبریل علیہ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ اس سے روح ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور عقل روشن ہوتی ہے۔

3۔ کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے۔ اس سے دل و دماغ اور روح کو تسکین او خوشی ملتی ہے۔

4۔ اعتکاف کرتے۔ اس میں باری تعالی سے خلوت کا اور فضول و مباح امور سے بچنے کا موقع ملتا ہے اور اطاعت کے کاموں میں وقت گزارنے کی فرصت ملتی ہے۔

آپ نے بکثرت نفل روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے، بشرطیکہ مشقت نہ ہو۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللهِ، بَاعَدَ اللهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا))

’’جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالی اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1153)

اسی طرح آپ ﷺ فضیلت والے دنوں کے روزے رکھتے ، جیسے یوم عرفہ اور یوم عاشورہ۔ یہ دونوں نہایت پسندیدہ اور محبوب دن ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا:

((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَ صِيَامُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ))

’’عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔ اور یوم عاشورہ کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1166)

آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں روزے بکثرت رکھتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللهﷺ نفلی روزے اس قدر رکھتے کہ ہم کہتیں : اب آپ کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے۔ اور جب چھوڑ دیتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (صحيح البخاري، الصوم، حديث: 1969)

اور آپ ﷺنے فرمایا: ’’جب پندرہ شعبان ہو جائے تو روزہ رکھنے سے رک جاؤ یہاں تک کہ رمضان آجائے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 9707) اس لیے مستحب یہ ہے کہ رمضان سے کچھ دن پہلے روزے رکھنے چھوڑ دیے جائیں تا کہ نفل اور فرض روزوں میں تمیز ہو سکے۔

آپ ﷺبیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتے اور صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے میرے خلیل علیہ السلام نے تین باتوں کی وصیت فرمائی:

((صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِّنْ كُلِّ شَهْرٍ))

’’ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنا۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث (1981)

اور آپ ﷺپیر اور جمعرات دو دنوں کے روزے رکھتے کیونکہ ان میں اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے تیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّهُمَا يَوْمَانِ تُعْرَضُ فِيهِمَا الْأَعْمَالُ عَلٰى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأَحِبُّ أَنْ يُّعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ))

’’ان دو دنوں میں اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘ (سنن النسائي الصيام، حديث: 2359)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺپیر اور جمعرات کا روز و اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔ (سنن النسائي، الصيام، حديث: 2359)

اور پیر کے روزے کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: ((ذَاكَ يَوْمَ وُلِدْتُ فِيهِ))

’’یہ وہ دن ہے جس میں، میں پیدا ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيام، حدیث: 1162)

جو شخص نقل روزوں کے بارے میں نبی اکرم منوی کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ جان لیتا ہے کہ ان کے بارے میں آپ کا منہج نہایت مناسب اور اعتدال پر مبنی تھا۔ آپ روزے نہ تو بالکل چھوڑ دیتے جیسا کہ اکثر لوگ کرتے ہیں اور نہ اس قدر زیادہ روزے رکھتے کہ کمزوری لاحق ہو جائے اور اطاعت کے دوسرے کام کرنے کی ہمت نہ رہے۔ آپ دونوں چیزوں میں توازن برقرار رکھتے اور دینی و دنیاوی تقاضے پورے کرتے۔ سیدنا انسﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کسی مہینے میں روزہ نہ رکھتے تو ایسے معلوم ہوتا کہ اس مہینے میں آپ بالکل روزہ نہیں رکھیں گے اور جب روزے رکھتے تو اتنے مسلسل رکھتے کہ ہم سوچتے کہ آپ اس میں بالکل ناغہ نہیں کریں گے۔ (صحیح البخاري، التهجد، حديث (1141)

نبی اکرم ﷺنفلی روزے کی نیت کبھی دن کے وقت بھی کر لیتے۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’کیا آپ لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تب میں روزے سے ہوں۔ ‘‘ پھر ایک اور دن آپ تشریف لائے تو ہم نے عرض کی:

اے اللہ کے رسول ! ہمیں حَیس تحفے میں ملا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے دکھائیے ، میں نے روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔ اس کے بعد آپ ﷺنے کھا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1154)

  آپ ﷺ نے پورا سال روزے رکھنے سے منع کیا تا کہ مسلمان اس دائرہ اعتدال میں رہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ  کی سنت میں اس کے لیے متعین ہے۔ اسی طرح آپ نے روزہ رکھنے میں وصال سے بھی منع کیا۔ وصال یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ دن تک افطاری کیے بغیر مسلسل روزہ رکھنا۔ سیدنا ابو ہر یروہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے وصال سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ تو وصال کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (وَأَیُّكُمْ مثْلِي إِنِّي أَبِيْتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِيْنِي))

’’تم میں سے کون میری مثل ہے؟ میں اس طرح رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيام، حدیث: 1103)

بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ عملاً کھانا پینا نہیں کیونکہ اگر اس سے مراد معروف کھانا پینا ہو تو پھر روزہ کسی چیز کا ؟!

اس کھانے پینے سے مراد ربانی حکمت و معرفت، روحانی خوراک اور انہی الطائف ہیں جو آپ کی روح کو سیراب اور آپ کے دل کو راضی کر دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن عمر و  رضی اللہ تعالی عنہ کو وصال سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’نماز پڑھو اور آرام بھی کرو۔ روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ بے شک تمھارے جسم کا تم پر حق ہے۔ تمھاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔ تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6134)

آپﷺ نے حکم دیا کہ جو زیادہ روزے رکھنا چاہے، اس کے لیے سب سے افضل اور عدل پر مبنی روزے داؤد علیہ السلام کے ہیں جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (صحيح البخاري، الصوم، حديث: (1977)

  آپ ﷺ نے تعلیم دی کہ روزہ شہوت اور بے ہودگی کے کام چھوڑنے میں معاون ہے، لہٰذا  رمضان کو لہو ولعب کا مہینہ نہ بنایا جائے۔ یہ صبر اور اطاعت کے کاموں میں لگن کے ساتھ محنت کرنے کا مہینہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ فحش باتیں اور شور وغوغا نہ کرے۔ اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو اس سے کہے: میں روزہ دار ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حديث : 1904)

روزے کی حالت میں بھوک، پیاس برداشت کرنا اور دیگر لذت و شہوت والے کاموں سے کنارہ کرنا انسان کو زندگی کی مشکلات پر صبر کرنا سکھاتا ہے۔ صبر اور برداشت پیدا کرنے کے لیے روزے سے افضل کوئی چیز نہیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث (1904)

چنانچہ روزہ مومن کے لیے دنیا میں گناہوں سے بچنے کے لیے مضبوط قلعہ اور آخرت میں عذاب سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزے ہی سے انسان صبر کرنے والوں کے درجے پر فائز ہوتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((وَمَنْ يَّتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءٌ خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ))

’’جو شخص صبر کرے گا، اللہ اسے صابر بنا دے گا۔ اور کسی شخص کو صبر سے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔‘‘

(صحيح البخاري، الزكاة، حديث: 1469)

روزے کے جلیل القدر اسرار و رموز جو   آپ ﷺ نے ہمیں سمجھائے ہیں، وہ عبودیت کے معانی کو عملی جامہ پہنانا، انسان کا اپنے مولا اور رب العالمین کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا اور دن کے وقت کھانے پینے اور شہوات کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور عجز و انکسار کا اظہار کرنا ہے۔

روزہ حرام امور چھوڑنے ، گناہوں سے بچنے اور اللہ مالک العلام کا تقوی اختیار کرنے میں سب سے بڑا معاون ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ا تم پر روزہ رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (البقرة 183:2)

روزہ حصول ِتقویٰ کا سب سے عظیم ذریعہ ہے۔ یہ روح کو پاک اور دل کو صاف کرتا ہے۔ شہوات کی دلدل سے نکالتا ہے اور کمال کے درجے پر فائز کرتا ہے۔

آپﷺ نے روزے کے ساتھ امانت اور عہد و پیمان کی حفاظت کی تعلیم دی کیونکہ روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان راز ہے۔ کبھی انسان گھر میں ہوتا ہے اور بند کمرے میں لوگوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اسے رحٰمن کے خوف کے سوا اور کوئی چیز کھانے پینے سے روکنے والی نہیں ہوتی اور دیگر نواقض روزہ سے بھی اللہ کے ڈر سے محفوظ رہتا ہے۔

روزے کے ساتھ انسان شیطان کو دور بھگاتا ہے کیونکہ وہ انسان کے خون میں گردش کرتا ہے اور خون، کھانے پینے سے پیدا ہوتا ہے۔ روزے دار جب کھانے پینے سے رکا رہتا ہے تو شیطان کی گزر گاہ تنگ ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس کا شر اور نقصان بھی کم ہو جاتا ہے۔

روزہ نفسانی خواہشات کو کم کرنے میں بھی معاون ہے جیسے جنسی خواہش۔ اگر انسان اس خواہش کو کنٹرول نہ کرے تو یہ اسے تباہ کر دیتی ہے اور بندہ گناہ میں جا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا:

’’نو جوانو! جو کوئی تم میں سے نکاح کی طاقت رکھتا ہو، وہ شادی کر لے کیونکہ نکاح کا عمل آنکھ کو بہت زیادہ نیچے رکھنے والا اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو کوئی اس کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ یہ اس کے لیے شہوت توڑنے والے ہیں۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5066)

ہمارے رسول  ﷺ نے راہنمائی فرمائی کہ محدود وقت کے لیے کھانے پینے سے رک جانا صحت کے لیے بھی مفید ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَا مَلَاءَ آدَمِيٌّ وَعَاءً شَرًا مِّنْ بَطْنٍ، بِحَسَبِ ابْنِ آدَمَ أُكْلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِّطَعَامِهِ وَثُلُتٌ لِّشَرَابِهِ وَثُلُثَ لِنَفْسِهِ))

"”آدمی نے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھیں۔ اگر اس نے ضرور ہی زیادہ کھانا ہو تو پھر پیٹ کا ایک تہائی حصہ اس کے کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2386)

میڈیکل سائنس بھی اس سے متفق ہے۔ کسی بڑے طبیب اور ڈاکٹر کا قول ہے: ’’بہت سے لوگ اپنی قبریں اپنے دانتوں سے کھودتے ہیں۔‘‘ یعنی بار بار کھانا کھاتے ہیں جس کے نتیجے میں طرح طرح کی چکنائیاں اور روغنیات جسم کا حصہ بنتی ہیں جو اسے کمزور کر کے صحت کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠۝﴾

’’اور کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الأعراف 31:7)

 آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ زبان اور دیگر اعضائے جسم کو گناہوں اور نافرمانیوں سے رو کے بغیر روزہ پورا نہیں ہوتا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَنْ لَّمْ يَدْعُ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ))

’’جو شخص جھوٹ اور فریب کاری ترک نہ کرے، اللہ تعالی کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ (روزے کے نام سے) اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حديث: 1903)

اسی طرح آپ ﷺنے روزے کی حالت میں بے ہودہ کلام کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی کسی دن روزے سے ہو تو وہ پخش گوئی نہ کرے، نہ جہالت والا کوئی کام کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا (کرنا) چاہے تو وہ کہے: میں روزہ دار ہوں۔ میں روزہ دار ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصيام، حدیث (1151)

آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ روزے کا مقصد نفس کی اصلاح اور اسے اللہ کے حکم کا پابند بناتا ہے۔ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہرگز مقصود نہیں۔ شہوانی جذبات کو کچلنا اور نفس کو اللہ کے حکم کی پابندی کا عادی بنانا اس کی حکمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے روزے داروں کی خبر بھی دی ہے جنھیں ان کے روزوں کا کوئی اجر نہیں ملے گا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

(( رُبَّ صَائِمٍ لَّيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ))

’’اور بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الصيام، حدیث: 1690)

روزہ روحانی اور ایمانی تربیت ہے۔ اس میں نفس کو اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرماں برداری اور رضائے الہی کے حصول کا عادی بنایا جاتا ہے۔ گناہوں سے باز رہنے اور انھیں چھوڑنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

روزے کی ایک اور حکمت اور راز یہ ہے کہ بندے کو کھانے پینے اور دیگر وقتی طور پر حرام کی ہوئی نعمتوں کی قدر ہو اور ان لوگوں کی محرومی کا احساس ہو جن کے پاس یہ نعتیں نہیں اور وہ اکثر و بیشتر بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ بندہ ان نعمتوں کے دوام کے لیے ان محروم لوگوں کی داد رسی کرے اور اللہ کی عطا کی ہوئی ان نعمتوں کو ان پر خرچ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے روزہ داروں کو افطار کرانے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا))

’’جس نے روزے دار کا روزہ افطار کرایا، اسے بھی اسی کی طرح اجر ملے گا اور روزے دار کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الصوم، حديث: 807)

سیده ام عمارہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ   نبی ﷺ اس کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ کو کھانا پیش کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی کھاؤ۔‘‘ اس نے عرض کی: میں روزے سے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ دار کے پاس جب کچھ کھایا جائے تو فرشتے کھانے سے فراغت تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘ بعض دفعہ شیخ نے یوں کہا: ’’حتی کہ کھانے والے سیر ہو جائیں۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الصوم، حدیث: 785، إسناده ضعیف)

 سیدنا انس  رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ  جناب سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں تشریف لے گئے تو انھوں نے روٹی اور روغنِ زیتون پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اسے تناول کیا اور یوں فرمایا:

((أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ))

’’ روزہ دار تمھارے ہاں افطار کیا کریں، نیک صالح لوگ تمھارا کھانا کھایا کریں اور فرشتے تمھیں دعا ئیں دیا کریں۔‘‘ (سنن أبي داود، أول كتاب الأطعمة، حديث: 3854)

آپ ﷺ نے اپنے قول و فعل اور حال سے اہل ایمان کے لیے روزوں کے فوائد و ثمرات بیان فرمائے۔ انھیں وہ خوشخبریاں دیں جو اللہ تعالی نے صرف روزے کے ساتھ خاص کی ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

’’اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں مگر روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ایک ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو وہ  فحش باتیں اور شور و غوغا نہ کرے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ اس سے یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے: ایک تو روزہ کھولنے کے وقت خوش ہوتا ہے، دوسرے جب وہ اپنے مالک سے ملے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حديث: 1904 )

اس جملے ’’روزہ صرف میرے لیے ہے‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان راز ہے جس سے صرف اللہ تعالیٰ واقف ہے۔ اس کے برعکس دیگر عبادتیں ظاہری ہیں، جیسے نماز، زکاۃ اور حج وغیرہ میں انسان لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا مگر روزے میں وہ لوگوں سے چھپ کر کھا پی سکتا ہے۔

اللہ تعالی نے روزہ داروں کے لیے خصوصی طور پر قیمتی انعامات رکھتے ہیں جن میں سے ایک دعا کی قبولیت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تین لوگوں کی دعا ئیں رد نہیں ہوتیں اور ان میں سے ایک روزہ دار ہے یہاں تک کہ وہ افطار کرلے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 8044)

دوسرے لفظوں میں روز ہ، دعا کی قبولیت کا ایک سبب ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ((إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَّا تُرَدُّ))

’’بلاشبہ روزہ دار کی افطاری کے وقت دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الصيام، حدیث:1753)

روزہ دل میں انکسار پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالی انکسار کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ روزہ دار  یقینًا اپنے رب کی رضا میں بھوکا پیاسا رہتا ہے۔ اس کے دل میں خشوع، نرمی اور روح میں انکسار پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مولا و خالق کے قریب ہوتا ہے۔

عبادت کی ادائیگی کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، بالخصوص جب وہ عبادت فرض ہو، چنانچہ فرض روزوں کا اجر نقل روزوں سے بڑھ کر ہے اور اس میں دعا کی قبولیت کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ عبودیت اور اطاعت کے دوران میں دل رب تعالی کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے آپﷺ نے ہمیں روزے کی حالت میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ایک حیرت انگیز نکتہ بیان کیا ہے جو روزہ داروں کے لیے خوشخبری اور خوشی کا باعث ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ((لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ))

’’ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں اور خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے: ایک تو روزہ کھولنے کے وقت خوش ہوتا ہے، دوسرے جب وہ اپنے مالک سے ملے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الصوم، حديث:1904)

افطار کے وقت خوشی اور مسرت کی گھڑی کا اور اک ایک سچا روزہ دار ہی کر سکتا ہے۔ وہ اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ رکھنے میں اس کی مدد کی۔ وہ ایک دن مزید روزہ رکھنے کی مہلت ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ وہ اس لیے بھی خوش ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق و رازق کی خاطر بھوکا رہا ہے۔ وہ اپنے رب کے عطا کیے ہوئے کھانے پینے پر خوش ہوتا ہے اور اسے سب سے بڑی خوشی اس وقت ہو گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا بشرطیکہ اس نے اللہ کی اطاعت کی ہو۔ کیا خوبصورت اور عظیم ہیں رب العزت کی عنایات اور اللہ تعالی کی نوازشات رمضان کے روزوں کے حوالے سے نبی اکرمﷺ کی تین نہایت عظیم احادیث ہیں۔ ہر حدیث دنیا و ما فيها سے بہتر ہے۔ یہ تمام روایات بخاری و مسلم میں ہیں۔

٭سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا :

’’ جس شخص نے شب قدر میں ایمان ویقین کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اسی طرح جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھا، اس کے بھی پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث: 1901)

٭ایک روایت میں ہے: ”جس نے ایمان ویقین کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا، اس کے پہلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث:37)

اللہ کی قسم! اس سے بڑا اجر کیا ہو سکتا ہے؟! کیا آپ نے کبھی ان احادیث پر غور و فکر کیا ہے اور اللہ کی عنایات و نوازشات پر خوشی کا اظہار کیا ہے؟ یہ عظیم بشارت اور جلیل القدر ہدیہ کائنات کے سب سے سچے اور متقی انسان کی طرف سے ہے۔

٭آپﷺ نے روزہ داروں کو خوشخبری دی کہ رب العالمین نے ان کے لیے جنت کا ایک دروازہ خاص کر دیا ہے جس سے ان کے سوا کوئی داخل نہیں ہو گا۔ اس دروازے کا نام ’’الریان‘‘ ہے، جیسا کہ سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن اس سے روزہ دار ہی گزریں گے۔ ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہو گا۔ آواز دی جائے گی: روزہ دار کہاں ہیں؟ تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا، کوئی اور اس میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحيح البخاري، الصوم، حديث: 1896 )

چونکہ روزہ دار دنیا میں اللہ کی رضا کی خاطر پیاسے رہے تھے اور انھوں نے اپنے مولا کی اطاعت کی تھی، اس لیے انھیں جس دروازے سے گزرنا ہوگا اس کا نام ریان رکھا جس کے معنی سیراب ہونے کے ہیں۔ ریان مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس لیے جو لوگ کثرت سے فرض اور نفل روزوں کا اہتمام کرتے رہے، وہ اس میں سے داخل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺنے لوگوں کو کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب دی۔ اس میں دنیاوی فوائد بھی ہیں اور اخروی اجر و ثواب بھی۔ آپ ہمیشہ ان نعمتوں کا احساس دلاتے تھے جو اللہ تعالی نے روزہ داروں کے لیے عزت و تکریم اور دائمی انعامات کی صورت میں تیار کر رکھی ہیں۔