محمدﷺ بحیثیت سعادت مند
رسول اکرم ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سعادت مند، شرح صدر والے اور پاکیزہ و عمدہ زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ جب میں نے اپنی کتاب ’’غم نہ کریں‘‘ لکھی تو اس کی بنیاد بھی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب و سنت ہی تھی۔
اہل علم و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ سعادت کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔ جو شخص ان پر عمل پیرا ہو، وہ راحت و سکون، اطمینان قلب اور پاکیزگی والی زندگی گزارتا ہے۔ اسے سلامتی و عافیت نصیب ہوتی ہے۔ اور یہ تمام اسباب اللہ کے رسول محمد بن عبداللہﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔
سعادت کا سب سے پہلا سبب اللہ تعالی پر ایمان لانا، اس کے معبود ہونے کا اقرار کرتا، اس کے احکام کو تسلیم کرنا اور اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ آپﷺ نے یہ سب امور اختیار کیے۔ اپنی عملی زندگی میں ان کو بروئے کار لائے اور دوسرے لوگوں کو اس کی دعوت دی تو آپ ایمان کے اعلی درجات اور احسان کے بلند مراتب پانے میں کامیاب ہو گئے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((الْإِحْسَانُ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))
’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو کم از کم وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔“ (صحيح البخاري، الإيمان، حدیث: 50)
آپ ﷺ کو پاکیزہ زندگی سے وافر حصہ اور اجر عظیم میسر آیا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۹۷﴾
’’جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی بخشیں گے، اور ہم انھیں ضرور ان کا اجر و ثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (النحل 97:10)
روح کی راحت یہ ہے کہ وہ توحید کی فضاؤں میں سفر کرے۔ یقین جس قدر محکم ہو اور نفس ملی کے نقصانات سے پاک ہو، روح اسی قدر اللہ کے نور سے چمک اٹھتی ہے۔ اسے روشنی نصیب ہوتی ہے اور وہ مکمل طور پر سعادت و سرور اور نور ومسرت حاصل کر لیتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب قضا و قدر پر آپ کا پختہ ایمان ہے۔ آپ نے اسے ایمان کا چھٹا رکن قرار دیا۔ فرمایا:
((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ))
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث:8)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((اِسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلٰكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ))
’’اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجز و بے بس نہ بنو۔ اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یہ کرتا تو ایسے ایسے ہوتا بلکہ تم کہو : اللہ کی تقدیر و مشیت ہے، اور اس نے جو چاہا کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حديث: 2664)
نبی ﷺ نے اس ارشاد باری تعالیٰ: ﴿قُلْ لَنْ يُّصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا﴾
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: ہمیں تو صرف وہی ( مصیبت) پہنچے گی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ۔‘‘ (التوبة 5:19) پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی تقدیر اور لکھے ہوئے پر راضی رہ کر زندگی گزاری۔
خوشی و غمی، شدت و آسانی، مالداری و فقیری اور صحت و بیماری جس حال میں بھی اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو رکھا، آپ خوش رہے۔ اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
((عَجَبًا لِّأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ))
’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ بلاشبہ اس کا ہر امر بھلائی پر مبنی ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ اگر اسے خوشی نصیب ہو اور وہ اس پر شکر کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تنگی آئے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حديث 2999)
آپﷺ ہر حال میں اللہ کے ساتھ اللہ کی نصرت میں، اللہ پر اعتماد اور بھروسا کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اللہ کے اس حکم کی تعمیل فرماتے:
﴿ وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠۲۱۶﴾
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘ (البقرة 216:2)
جو شخص خوش رہنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے۔ جو خود کو تقدیر کے مطابق ڈھال لیتے ہے، وہ پریشانی سے محفوظ رہتا ہے۔ جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ، اللہ اسے خوش کر دیتا ہے اور اس کا دل ہر گھٹن اور غم سے آزاد ہو جاتا ہے، لہذا رضائے الہی کی جنت میں داخل ہو جائیں، سلامتی و سعادت کے ساتھ رہیں گے۔ آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اللہ کی عطا پر قناعت کرنے والے اور اس کی تقسیم پر راضی رہنے والے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے : ((اِرْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ))
’’اللہ تعالی نے تمھاری قسمت میں جو لکھا ہے، اس پر راضی ہو جاؤ، تم سب لوگوں سے زیادہ مالدار ہو جاؤ گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2305)
چنانچہ آپﷺ نہ تو دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں سے متاثر ہوئے نہ دنیا کی خواہشات اور شہوات کے پیچھے گئے۔ تھوڑے رزق پر اکتفا کیا۔ جو مل گیا اس پر راضی ہوئے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ قناعت کی دولت سے مالا مال لوگ سعادت، خوشی اور امن و سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ))
’’کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا، اسے ضرورت کے مطابق رزق ملا اور اللہ تعالیٰ نے جو اسے دیا، اس پر اللہ تعالی نے اسے قناعت عطا کی۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1054)
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنيَا))
’’جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر میں پر امن ہو، جسمانی طور پر بھی عافیت میں ہو اور اس کے پاس ایک دن کی اشیائے ضرورت ہوں، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ دی گئی ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2346)
آپﷺ سعادت کی زندگی جیے کیونکہ آپ نے اپنے رب پر بھروسا رکھا۔ اپنے خالق پر اعتماد کیا۔ اپنا معاملہ اللہ جل شانہ کے سپرد کیا اور اس کے اس فرمان پر عمل کیا: ﴿وَعَلَى اللَهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
’’اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے ۔‘‘ ( التوبة 51:9)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَايُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾
’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان لوگوں کو بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ ( الأنقال64:8)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾
’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟‘‘ (الزمر 36:39)
آپﷺ نے اسباب کو بروئے کار لا کر تمام امور اللہ کے سپرد کیے تو اللہ آپ کو کافی ہو گیا اور اللہ تعالی کی خاص نگرانی اور حمایت آپ کو حاصل ہوئی۔
آپﷺ اپنی اطمینان و خشوع والی نماز کے ساتھ سعادت مند رہے جو زندگی میں آپ کی معاون اور اپنے رب کی رضا کے حصول میں اضافے اور قوت کا باعث تھی۔ جب بھی مشکل حالات پیش آئے اور بھاری بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑا، آپ ﷺ نے فرمایا: ((يَا بِلالُ أَقِمِ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا))
’’بلال! اٹھو نماز کی اقامت کہو، ہمیں اس کے ساتھ سکون پہنچاؤ ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4985)
اور آپ ﷺ فرماتے: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ))
’’اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (سنن النسائي، عشرة النساء، حديث (3940)
نماز آپ کے لیے حوصلے تسلی اور راحت وسکون کا باعث اور آپ کے امن اور سعادت کا راز تھی۔ سونماز دنیا میں ہمیشگی کی جنت ہے۔ یہ امید کی کرن، الہام کی چمک، سعادت کی چابی، امید کی دستاویز اور امن وامان کی ضامن ہے۔ آپﷺ نے کی سعادت و خوشی کا ایک سبب آپ کا صبر عظیم ہے۔ صبر نے ہر مصیبت آپ پر آسان کر دی اور ہر دور والی چیز کو قریب کر دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِالله﴾
’’اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔‘‘ (النحل 127:16)
نبیﷺ سجھتے تھے کہ صبر سب سے عظیم الہی تحفہ اور سب سے شاندار ربانی عطیہ ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((مَا أُعْطِي أَحَدٌ مِّنْ عَطَاءٍ خَيْرٌ وَ أَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ))
’’کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث (1053)
آپ ﷺنے ایسا صبر جمیل کیا جس میں کوئی شکوہ نہ تھا۔ کسی کی کوتاہی پر اُسے اذیت دیے بغیر احسن طریقے سے نظر انداز کیا اور ایسے خوبصورت طریقے سے درگزر کیا جس میں کوئی سرزنش نہ تھی۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اپنے رب کی نعمتوں کو یاد کرنے والے، ان کا شکر ادا کرنے والے، ان کو بیان کرنے والے اور ہمیشہ زبان سے اللہ کی حمد کے گیت گانے والے تھے۔ آپ ﷺ اللہ کے ان فرامین کے حقیقی پیروکار تھے: ﴿فَاذْكُرُوْا اَلَآءَ اللهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾
’’لہذا تم اللہ کی نعتیں یاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (الأعراف 69:7)
مزید ارشاد فرمایا: ﴿وَسنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ﴾
’’اور ہم شکر ادا کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے ۔‘‘ (آل عمران 145:3)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ﴾
’’اور جو کوئی شکر کرے تو بس وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے۔‘‘ (النمل 40:27)
اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ))
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی توفیق سے نیک کام تکمیل تک پہنچتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجه الأدب، حديث: 3803)
چنانچہ آپ ﷺ اذکار اور دعاؤں کے ساتھ مختلف انداز سے اللہ کا شکر بجا لاتے۔ ایسی حمد کرتے جس سے دل خوشی، اطمینان اور سکون سے لبریز ہو جاتا۔ آپ بھی اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کریں اور ان کی فہرست سامنے رکھ کر ان کو یاد کریں۔ شکر کو اپنی عادت بنائیں اور اس کے ذریعے سے عبادت میں اپنے رب کے قریب ہو جائیں، بلا شبہ یہ عمل نعمتوں میں اضافے کا باعث ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں پیشوا اور امام بنائیں۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ نے ماضی پر افسوس کیا نہ اپنے سانحات اور دکھوں پر ماتم کیا۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے حال و مستقبل کی تعمیر وترقی پر توجہ دی اور اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیا:
﴿ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَ لَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۱۳۴﴾
’’یہ ایک جماعت تھی جو یقینا گزرگئی۔ اس کے لیے ۔ کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔ اور جو عمل وہ کرتے تھے تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (البقر (134:2)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ﴾
’’جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا، وہ اللہ نے معاف کیا۔‘‘ (المائدة 95:5)
آپ ﷺ کی ڈکشنری میں ماضی کی لکیر پیٹنا اور جو ہو چکا، اس کے غم میں ہلکان ہونا نہیں تھا بلکہ آپ نے وقت کو تعمیری کاموں میں لگایا اور زندگی کے باقی ایام کو غنیمت سمجھا۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی بسر کی کہ آپ نے اپنا وقت محدود جان کر گزارا اور ہر دن نیکی احسان اور طاعت سے معمور کیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ))
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی یا راہ چلتا مسافر ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الوفاق، حدیث: 6416)
آپ ﷺ صبح کرتے تو پوری توجہ اس دن پر ہوتی اور اس دن کے کام پورے کرتے۔ آپ ایک نہایت عقل مند اور بیدار مغز مسافر کی طرح تھے جو اپنے سفر کا ساز و سامان تیار رکھتا ہے۔ آپ ماضی کی حسرتوں یا مستقبل کے خوابوں میں رہ کر حال کو خراب کرنے والے نہ تھے بلکہ موجود دن کو پوری تندہی سے گزارتے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے۔ سعادت کی دنیا اور زندگی کے دیوان خانے میں یہ کلمہ نہایت عمدہ اور سب سے خوبصورت ہے: (يَوْمَكَ يَوْمَكَ) ’’ آپ کا دن ہی آپ کا دن (عرصہ حیات ) ہے۔‘‘
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے تنقید کرنے اور گالیاں دینے والوں کی باتوں پر کبھی کان نہیں دھرے بلکہ ان سے اعراض کیا اور ان کی طرف توجہ نہیں کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾
’’اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے اور انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیجیے۔‘‘ (المزمل10:73)
اور ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۹۷
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۹﴾
’’اور بلاشبہ یقینًا ہم جانتے ہیں کہ بے شک جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے، سو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الحجر 15: 97،98)
اور جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض گمراہ لوگوں کی تنقید کی خبر آپ ﷺ کو دی تو آپﷺ نے فرمایا:
((رَحِمَ اللهُ مُوسَى، لَقَدْ أُوذِي بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ))
’’اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں یقینا اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘ (صحیح
البخاري، الأدب، حديث: 6059)
آپ ﷺ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے مذاق یا ملامت کرنے والے کی حرکت کا نوٹس نہ لیتے۔ آپ ﷺسمجھتے تھے کہ میرا وقت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ اسے ان کی فضول حرکتوں کے جواب میں صرف کیا جائے۔ آپ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہر عمل اور ہر کوشش اللہ کی رضا کی خاطر کی اور کسی دوسرے سے صلے کی توقع نہیں رکھی۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۹﴾
’’(نیک لوگ کہتے ہیں:) بس ہم تو تمھیں اللہ کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کوئی جزا اور شکر یہ نہیں چاہتے۔‘‘ (الدهر9:76)
اس لیے آپﷺاطمینان قلب اور شرح صدر کے ساتھ زندہ رہے۔ جس نے آپ کی نیکی کی قدر کی سو کی اور جس نے ناقدری کی سو کی، اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ نے اپنے عزیز و وہاب رب سے ثواب کی امید رکھی۔ جو شخص لوگوں کی خاطر کام کرتا ہے اور ان کے شکریے اور بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ لوگوں کی ناقدری اور احسان فراموشی کی وجہ سے ہمیشہ شکستہ دل رہتا ہے۔ جو لوگوں کے بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ پریشانیوں سے مر جاتا ہے۔ اور جو لوگوں کی رضا جوئی کے لیے نیکی کرتا ہے ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جو لوگوں کو پہچان لے، وہ آرام پا جاتا ہے کیونکہ لوگ نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں نہ عزت و ذلت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ وہ زندگی وموت کے مالک ہیں: ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠۲۱﴾
’’(وہ) مردہ ہیں۔ زندہ نہیں۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (النحل 21:16)
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے لوگوں کے ساتھ ہر طرح احسان کیا۔ انھیں علم و معرفت کا سبق دیا۔ ہدایت کی راہ دکھائی اور عزت بخشی۔ کھانے پینے، مال و دولت اور اچھے اخلاق سے نوازا۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو پورا پورا بدلہ دیا کہ شرح صدر اور ذہنی سکون عطا فرمایا کیونکہ جس طرح کی نیکی ہو، اس کا صلہ بھی ویسا ہی ملتا ہے۔ جو شخص روحانی خوشی، ذہنی سکون اور امن و اطمینان چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ ہر طرح کی نیکی اور احسان کرے۔
آپﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ صاحب رسالت و عمل تھے۔ آپ کی ساری زندگی محنت اور قربانی سے عبارت تھی۔ آپ کی زندگی میں فارغ رہنے کا تصور نہیں تھا۔ آپ نیکی اور اطاعت کے کاموں میں ہمیشہ کمر بستہ رہتے اور یہ آپ ﷺ کے خوش رہنے کا سب سے بڑا راز تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفید اور ثمر آور کام ہر غم و پریشانی کی کامیاب دوا اور نفع بخش علاج ہے۔ اس کے برعکس فارغ رہنا غموں، پریشانیوں اور دکھوں کا ہر باعث ہے۔
آپ ﷺ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نہایت مضبوط دل کے مالک، دلیر اور بہادر تھے۔ آپ پریشان کن امور اور خطرات سے گھبراتے نہ پریشان ہوتے۔ اس کے برعکس بزدل انسان دھمکیوں اور خطرات سے بے قرار ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ﴾ ’’وہ ہر اونچی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ (المنافقون 4:63)
دلیر آدمی شرح صدر رکھنے والا اور پرسکون ہوتا ہے۔ وہ چین کی نیند سوتا ہے۔ پھر رسول اکرمﷺ جو سب سے زیادہ بہادر اور دلیروں کے امام تھے، کسی قدر زیادہ پرسکون ہوں گے! یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ یہ دعا کرتے:
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ))
’’اے اللہ ! میں بخل اور بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث 6365)
آپﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھا۔ جو شخص اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جواد و کریم اور رحمن و رحیم ہے اور وہ اسے ضرور رزق دے گا، اس کی مدد و نصرت کرے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا تو اللہ تعالی اس کی ہر تمنا پوری کرتا ہے اور اس کی سوچ سے بڑھ کر اس سے جود و کرم اور فضل و احسان کا معاملہ فرماتا ہے، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے: ((أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي)) ’’میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث: 7405)
اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے متعلق برا گمان رکھتا ہے، اس کی برائی کا وہاں اس پر پڑتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دشمنوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ؕ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ﴾
’’جو اللہ کے متعلق برے گمان کرتے ہیں، بری گردش انھی پر ہے۔‘‘ (الفتح 8:48)
رسول اکرم ﷺ اپنے رب کے ساتھ سب لوگوں سے اچھا گمان رکھتے تھے۔ اس کے فضل و کرم اور احسان کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو سوچا، وہ پورا ہوا اور جو ارادہ کیا، وہ حقیقت بناء، لہذا آپ بھی رب جلیل کے ساتھ حسن ظن رکھیں اور کرم والے رب سے نہ ختم ہونے والے بدلے کی امید رکھیں۔ آپ ﷺ سعادت مند رہے کیونکہ آپ ہمیشہ تنگی کے بعد آسانی اور سختی کے بعد خوشحالی کا یقین رکھتے تھے۔
آپ عالم نے فرمایا:
((وَاعْلَمْ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلٰى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا))
’’اور جان لو! نا پسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں بہت زیادہ اجر ہے اور اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور مصیبت کے ساتھ کشادگی اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 2803)
اور آپﷺ اس ارشاد باری تعالی: ﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾
’’پھر بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح94: 5،6) پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مضبوط تعلق رکھتے تھے۔
آپ ﷺ اپنے صحابہ کو مدد، غلبے، فتح اور آسانی کی خوشخبری دیتے۔ آپ کی زندگی سرا پا بشارت و خوشخبری تھی۔ اس خوبصورت وجود کے ساتھ آپ نے اپنے صحابہ کرام اور قیامت تک آنے والے پیروکاروں کے دلوں میں خوشی بھر دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ پر امید رہے۔ اچھے انجام کی توقع رکھی اور روشن مستقبل پر یقین رکھا گویا کہ باریک پردے کے پیچھے سے چھپے امور کو دیکھ رہے ہوں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اندھیری رات کے بعد صبح صادق ضرور آتی ہے۔
آپ ﷺاس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے ہر قسم کے غصے سے اجتناب کیا۔ صرف اس وقت غصہ کیا جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا گیا یا اس کی نافرمانی کی گئی۔ آپ اپنا زیادہ وقت خوشی اور شرح صدر سے گزارتے۔ ہنستے، مسکراتے، کشادہ ظرفی اور اچھے میل جول کے ساتھ وقت بسر کرتے۔
آپﷺ نے امت کو غصے سے باز رہنے کا حکم دیا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا: مجھے وصیت فرمائیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ اس نے بار بار عرض کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو ‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
یہ اس لیے کہ غصہ سینہ تنگ کر دیتا ہے۔ روح کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ خوشی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مزاج بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ذہنی سکون ختم کر دیتا ہے۔ زندگی کی رونق گہنا دیتا اور اس کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔ خاندانی اور معاشرتی تعلقات خراب کر دیتا ہے۔ میل جول اور صلہ رحمی کے پل توڑ دیتا اور مودت و محبت کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
آپﷺ کی سعادت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب نفع بخش علم ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا اور وہ ہے کتاب وسنت کی صورت میں مقدس وحی۔
بلاشبہ برکت والا علم انسان کا سینہ کھول دیتا ہے۔ اس کا حامل افق سے زیادہ وسعتوں والا ہو جاتا ہے۔ اس کی نظر لوگوں اور زندگی کے لیے کشادہ کر دی جاتی ہے اور ایسے شخص کا دل رضا، امن و یقین اور سکون سے بھر جاتا ہے۔ اولاد آدم کے سردارﷺ کی کیفیت کیا ہوگی جن کے علم سے امت کے علماء نے فیض پایا اور ہرنفع بخش علم جو انھوں نے سیکھا، وہ آپ ﷺ کے علم کا ایک ذرہ اور آپ کی معرفت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔
جو شخص ذہنی سکون، سعادت اور دلی راحت چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ آپ کی مبارک میراث سے نفع بخش علم حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اپنے علم میں اضافے کی دعا کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ ’’ اور کہیے : اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘ (طہ 114:20)
آپ ﷺ ان کی خوش کن زندگی کا ایک راز یہ تھا کہ آپ ہمیشہ استغفار کرتے۔ بہت زیادہ اللہ کی طرف رجوع کرتے۔ اپنے پروردگار و خالق سے مددہ نصرت اور استعانت طلب کرتے۔ ہر شر اور برائی سے اللہ کی پناہ مانگتے۔
مصائب میں اپنے رب کی طرف دوڑتے اور مشکلات میں اس سے مدد طلب کرتے۔ آپ ﷺکی پاکیزہ روح توحید کی فضا میں سفر کرتی اور عالم مناجات میں شہنشاہ عالم سے کلام کرتی۔ آپ ﷺ ہی نے ہمیں امن، آسانی اور مدد کے کلمات سکھائے جیسے: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحْنَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِيْنَ، اور أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ))
اور ان کے علاوہ بے شمار نبوی دعا ئیں اور ربانی دوائیں بتائی ہیں۔ آپ ﷺ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ سے مدد مانگتے اور اپنے رب کی پناہ طلب کرتے۔ آپ ﷺ اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اس سے مناجات و التجا کرتے اور اپنے ہر معاملے میں اس کے مبارک و مقدس نام کا نعرہ لگاتے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک اہم سبب قرآن مجید سے لگاؤ تھا۔ آپﷺ دن رات اس کی تلاوت میں گمن رہتے کیونکہ قرآن مجید آپ کا رفیق و انیسں اور ہم نشین تھا۔ اس مبارک کتاب کی تلاوت و تدبر اور عمل سے آپ ﷺکو سعادت نصیب ہوئی۔ اس سے آپ نے شفا پائی اور آپ ہی اسے رب تعالٰی سے لانے والے ہیں۔
جو شخص قرآن سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے، اس سے خوش ہوتا ہے اور اس کی عزت و توقیر کرتا ہے، اللہ تعالی اس پر اپنی عنایات کے ایسے خزانے کھول دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا انعام شرح صدر، دلی سکون اور غموں، پریشانیوں اور دکھوں سے نجات ملنا ہے۔ اور رسولﷺ کو اللہ تعالی نے اس کا اعلیٰ اور وافر حصہ نصیب کیا تھا بلکہ آپ ﷺاس حوالے سے سب سے ممتاز تھے۔ آپ ﷺکی سعادت کا ایک عظیم سب یہ بھی تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کا دل کینے، حسد، بغض اور نفرت سے پاک رکھا اور اسے پاکیزہ وسلامتی والا بنایا۔ اس کا فیضان لوگوں پر جاری رہا اور آپ کا عفو و کرم اور احسان ہر دور و نزدیک والے تک پہنچا۔ آپ ﷺنہایت پاکیزہ اور صاف شفاف دل کے مالک تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جب آپ ﷺ کا سینہ مبارک کھولا گیا تو آپ کے دل سے ایک لوتھڑا نکال دیا گیا۔ پھر دل کو زمزم کے ساتھ دھویا گیا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس طرح آپ کے پاکیزہ دل سے ہر اخلاقی بیماری دور کر دی گئی کیونکہ تکبر، خود پسندی، حسد، کینہ اور بغض ایسی بیماریاں ہیں جو دل میں گھر کر جائیں تو اسے برباد کر دیتی ہیں۔ اس کی شفافیت ، نور ، سکون اور سعادت ختم ہو جاتی ہے اور عافیت صرف اسے ملتی ہے جسے اللہ تعالٰی عافیت دے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِيْنَ﴾
’’اور ان کے سینوں میں جو بھی کینہ حسد ہو گا، اسے ہم نکال دیں گے۔ (وہ) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے) بھائی بھائی ہوں گے۔‘‘ (الحجر 47:15)
نبیﷺنے اس لیے بھی سعادت والی زندگی گزاری کہ اللہ تعالی نے آپ کو گناہوں، معصیتوں اور خطاؤں سے محفوظ رکھا۔ یہی چیزیں دل کو میلا اور روح کو پریشان و بے چین کرتی ہیں۔ انھی کی وجہ سے دل تاریک ہوتے ہیں اور سینوں میں گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے رسول ﷺ طاہر و مطہر اور رب تعالی کی خاص توفیق سے گناہوں سے محفوظ اور اللہ تعالی کی مخالفت سے کوسوں دور تھے۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی اطاعت اور ہر لمحہ عبادت تھا۔ آپ کا ہر سانس پاک صاف اور ہر لفظ و حرف عفت و پاکیزگی کا مظہر ہے۔ جو شخص اچھی خوش کن زندگی گزارنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ گناہوں سے نکل جائے۔ نافرمانیوں اور خطاؤں کو ترک کر دے۔ بار بار توبہ کرتا رہے اور بکثرت استغفار کرے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک عظیم سبب صدموں کے بعد جلد سنبھل جانا اور بحرانوں سے نکلنے کی قوت رکھنا ہے۔ آپ نہایت قوی ارادہ اور مضبوط ہمت و حوصلہ والے تھے۔ پختہ عزم اور کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی اور نہ بے بسی کا اظہار کیا بلکہ صبر و استقامت سے مقاصد کے حصول میں لگے رہے۔ جب آپ ﷺ کو مکہ سے نکالا گیا تو آپ کف افسوس ملتے ہوئے ایک کمرے میں بند ہوئے نہ گھر بار کی جدائی میں رو رو کر اپنی صلاحیتیں ختم کیں بلکہ مدینہ طیبہ جا کر ایک ربانی معاشرہ تشکیل دیا اور ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی بنیاد عدل پر رکھی۔
جب آپﷺ کو طائف والوں کی طرف سے بدسلوکی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے آپ کی ایڑیاں خون آلود کر دیں تو بھی آپ کمزور نہ پڑے۔ آپ نے ہمت ہارنے کے بجائے للکارتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور پہلے سے زیادہ قوت و ہمت اور جذبے سے آگے بڑھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو غالب کر دیا۔
جب اُحد کے معرکے میں آپ ﷺ کے لشکر کو شکست ہوئی، آپ کے ستر صحابہ شہید ہو گئے اور اس سے پہلے منافق آپ کا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے گئے تو بھی آپ کا عزم ماند نہ پڑا اور نہ آپ کی ہمت نے جواب دیا۔ آپ میدان جنگ میں ثابت قدم رہے اور نئی حکمت عملی اپنائی اپنے صحابہ کو حوصلہ دلایا اور اپنی کامیابی کے لیے آئے بڑھتے رہے ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی اور آپ کو پوری طرح غالب کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے حادثات و واقعات اور مصائب آئے جن کو آپ نے اللہ کی توفیق اور قوت سے برداشت کیا اور مصیبت و بحران کے بعد زیادہ جاہ و جلال اور عزت و مرتبہ کے ساتھ سامنے آئے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب آپ کا عظیم نظام اور اپنے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے عظیم شیڈول مرتب کرنا ہے۔ آپ اپنا ہر مبارک کام منظم طریقے سے کرتے تھے۔ بعض علماء نے اس عنوان پر مستقل کتا ہیں لکھی ہیں جیسے امام نسائی اور ابن السنی کی ’’عمل الیوم واللیلة‘‘ ہے۔ آپ ﷺ کر کے دن رات اطاعت، خیر اور بھلائی کے مختلف کاموں اور عبادات میں گزرتے تھے۔ پانچوں نماز میں آپ ﷺ کی زندگی میں توانائی اور طاقت کا ماخذ تھیں اور یہ سب وقت مقررہ پر فرض ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۱۰۳﴾
’’بے شک نماز مومنوں پر مقرر و وقتوں میں فرض ہے۔‘‘ (النساء103:4)
اور یہ معاملہ آپ ﷺکی سعادت ، شرح صدر اور ذہنی خوشی کے عظیم اسباب میں سے ہے۔ اس کے برعکس جو شخص غیر منظم زندگی گزارتا ہے، پراگندہ خیالات رکھتا ہے، اس کی کوششیں غیر مرتب ہوتی ہیں، بے قراری و بے چینی کے ساتھ بغیر کسی ٹھوس لائحہ عمل کے محنت کرتا ہے تو اس کی ساری کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ ہمارےرسول ﷺ کی زندگی اس طرح خوشگوار تھی جیسے لہلہاتے باغ میں بادصبا کے جھو کے ہوں۔ آپ کے شب و روز ایسے گزرتے تھے جیسے باغات اور ٹیلوں کے درمیان سے میٹھے پانی کی نہر تسلسل کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے گزرتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت اور خوشی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ ہر دور و نزدیک والے کی خوبیاں دیکھتے اور اس کے عیبوں کو نظر انداز کر دیتے۔ آپ کی نظر ہمیشہ خوبصورتی پر پڑتی اور صرف اچھائی کا ذکر کرتے کیونکہ آپ کی پاکیزه روح طهارت ، فضل و احسان اور نیکی کی عادی تھی، لغزشوں، کوتاہیوں اور عیوب تلاش کرنے کی رسیا نہ تھی، کیونکہ وہ وحی کے نور کے ساتھ ارفع و اعلی تھی۔ وہ ہمیشہ خیر دیکھتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی اور گناہ نقص اور کوتاہی سے درگزر کرتی۔ اس کی تصدیق کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ کریں: ’’آپ ﷺ کے پاس ایک شراب پینے والے کو لایا گیا۔ آپ نے اس پر حد قائم کی تو کسی شخص نے اس کو گالی دی یا لعنت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَلَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ﴾
’’اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میرا علم یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الحدود، حديث: 6780)
آپ ﷺنے اس کے مثبت کردار کا ذکر کیا اور اس کی تعریف کی۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قیام اللیل میں سستی کرنے پر تنبیہ کی تو فرمایا: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ))
’’عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر وہ رات کو توجہ کا اہتمام کرے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1122)
آپ نے پہلے ان کی تعریف کی، پھر تنبیہ فرمائی۔
اس لیے جو شخص سلامتی ، امن، راحت اور سکون کی زندگی چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر چیز کا حسن و جمال اور فضیات والا پہلو دیکھے۔ نقص اور تقصیر والا پہلو نظر انداز کرے۔ یوں وہ خوش رہے گا اور اس کے آس پاس کے لوگ بھی خوش رہیں گے۔
آپ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ واعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ ’’اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ (المؤمنون51:23) پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ پاکیزہ کھایا اور پاکیزہ لیا۔
آپ ﷺ حرام اور نقصان دہ چیزوں سے بہت دور رہتے تھے۔ ہر اس کھانے، پینے اور قول و فعل سے دور رہتے جو روح اور جسم کو اذیت دے۔ آپ نہ اس قدر سیر ہو کر کھاتے کہ خمار آجائے اور نہ اس قدر بھوکے رہتے کہ راہبوں کی مشابہت ہو۔ جسم کو لاغر کر دینے والی شب بیداری سے گریز کرتے۔ تمام امور اور معاملات میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لیتے۔ آپ کو دی گئی رسالت بھی مبنی بر اعتدال دی تھی۔ اچھی اور پاکیزہ زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان شائستہ ہو اور اس کا مزاج درست اور معتدل ہو۔ عیش وعشرت اور فضول خرچی کے رسیا لوگوں کی کوئی زندگی ہوتی ہے نہ راہبوں اور صوفیوں کی۔ آپ ﷺ کی زندگی میانہ روی اور اعتدال والی تھی۔ آپ کی عبادت میں حسن و کمال تھا۔ شکل و صورت، لباس اور وضع قطع میں طہارت، پاکیزگی اور جمال تھا۔
آپﷺ کی سعادت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ بری عادات سے بہت دور رہتے تھے، جیسے بہت زیادہ بولنا، لغو گفتگو کرنا جو انسان کی نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے، بہت زیادہ بنتا جو دل کو سخت کر دیتا ہے، اللہ کے ذکر سے غفلت، گانا وغیرہ سننا اور ہر وہ حرکت جو حیا اور مروت کے منافی ہو۔
آپﷺ لطیف اور پاک دامن تھے۔ ہر وہ چیز پسند کرتے جو دل و روح کو تسکین دے، جیسے عمدہ خوشبو، طہارت اور نظافت و صفائی۔ آپ کامل و مکمل، طاہر و مظہر اور حسین وجمیل تھے۔ ظاہر و باطن ، روح و بدن اور پوشیدہ و علانیہ ہر اعتبار سے خوبصورت تھے۔ آپ قیامت تک پاکیزہ لوگوں کے امام اور صاف ستھرے لوگوں کا اسوہ ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
طَابَتْ بِكَ الْأَيَّامُ يَا خَيْرَ الْوَرٰى
وَالدَّهْرُ أَصْبَحَ فِي وُجُودِكَ عِيْدًا
أَوْرَثْتَنَا عِزًّا وَمَجْدًا خَالِدًا
تَارِيْخُنَا بِهٰذَا كَصَارَ مَجِيْدًا
وَسَكَبْتَ فِي أَرْوَاحِنَا نُورَ الْهُدٰى
وَوَعَدْتَّنَا عِندَ الْإِلٰهِ خُلُودًا
وَكَشَفْتَ عَنْ أَبْصَارِنَا حُجُبَ الدُّجٰى
حَتّٰى لَبِسْنَا فِي الْحَيَاةِ جَدِيْدًا
’’اے مخلوق میں سب سے بہترین شخص (محمدﷺ) ! آپ کی وجہ سے دن پاکیزہ و خوشگوار ہو گئے۔ زمانہ آپ کی موجودگی میں شادمانی سے بہرہ مند ٹھہرا۔ آپ نے ہمیں ابدی عزت و شرف کا وارث بنایا۔ آپ کی ہدایت کے سبب ہماری تاریخ عمدہ ہو گئی۔ آپ نے ہماری روحوں میں ہدایت کا نور انڈیل دیا اور ہم سے جہانوں کے معبود کے پاس ہمشیگی کا وعدہ کیا۔ آپ نے ہماری آنکھوں سے تاریکیوں کے پردے ہٹا دیے، یہاں تک کہ ہم زندگی میں نیا لباس پہن کر سامنے آئے۔‘‘
………………….
محمدﷺ بحیثیت سعادت مند
رسول اکرم ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سعادت مند، شرح صدر والے اور پاکیزہ و عمدہ زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ جب میں نے اپنی کتاب ’’غم نہ کریں‘‘ لکھی تو اس کی بنیاد بھی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب و سنت ہی تھی۔
اہل علم و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ سعادت کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔ جو شخص ان پر عمل پیرا ہو، وہ راحت و سکون، اطمینان قلب اور پاکیزگی والی زندگی گزارتا ہے۔ اسے سلامتی و عافیت نصیب ہوتی ہے۔ اور یہ تمام اسباب اللہ کے رسول محمد بن عبداللہﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔
سعادت کا سب سے پہلا سبب اللہ تعالی پر ایمان لانا، اس کے معبود ہونے کا اقرار کرتا، اس کے احکام کو تسلیم کرنا اور اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ آپﷺ نے یہ سب امور اختیار کیے۔ اپنی عملی زندگی میں ان کو بروئے کار لائے اور دوسرے لوگوں کو اس کی دعوت دی تو آپ ایمان کے اعلی درجات اور احسان کے بلند مراتب پانے میں کامیاب ہو گئے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((الْإِحْسَانُ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))
’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو کم از کم وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔“ (صحيح البخاري، الإيمان، حدیث: 50)
آپ ﷺ کو پاکیزہ زندگی سے وافر حصہ اور اجر عظیم میسر آیا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۹۷﴾
’’جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی بخشیں گے، اور ہم انھیں ضرور ان کا اجر و ثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (النحل 97:10)
روح کی راحت یہ ہے کہ وہ توحید کی فضاؤں میں سفر کرے۔ یقین جس قدر محکم ہو اور نفس ملی کے نقصانات سے پاک ہو، روح اسی قدر اللہ کے نور سے چمک اٹھتی ہے۔ اسے روشنی نصیب ہوتی ہے اور وہ مکمل طور پر سعادت و سرور اور نور ومسرت حاصل کر لیتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب قضا و قدر پر آپ کا پختہ ایمان ہے۔ آپ نے اسے ایمان کا چھٹا رکن قرار دیا۔ فرمایا:
((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ))
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث:8)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((اِسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلٰكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ))
’’اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجز و بے بس نہ بنو۔ اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یہ کرتا تو ایسے ایسے ہوتا بلکہ تم کہو : اللہ کی تقدیر و مشیت ہے، اور اس نے جو چاہا کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حديث: 2664)
نبی ﷺ نے اس ارشاد باری تعالیٰ: ﴿قُلْ لَنْ يُّصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا﴾
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: ہمیں تو صرف وہی ( مصیبت) پہنچے گی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ۔‘‘ (التوبة 5:19) پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی تقدیر اور لکھے ہوئے پر راضی رہ کر زندگی گزاری۔
خوشی و غمی، شدت و آسانی، مالداری و فقیری اور صحت و بیماری جس حال میں بھی اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو رکھا، آپ خوش رہے۔ اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
((عَجَبًا لِّأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ))
’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ بلاشبہ اس کا ہر امر بھلائی پر مبنی ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ اگر اسے خوشی نصیب ہو اور وہ اس پر شکر کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تنگی آئے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حديث 2999)
آپﷺ ہر حال میں اللہ کے ساتھ اللہ کی نصرت میں، اللہ پر اعتماد اور بھروسا کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اللہ کے اس حکم کی تعمیل فرماتے:
﴿ وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠۲۱۶﴾
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘ (البقرة 216:2)
جو شخص خوش رہنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے۔ جو خود کو تقدیر کے مطابق ڈھال لیتے ہے، وہ پریشانی سے محفوظ رہتا ہے۔ جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ، اللہ اسے خوش کر دیتا ہے اور اس کا دل ہر گھٹن اور غم سے آزاد ہو جاتا ہے، لہذا رضائے الہی کی جنت میں داخل ہو جائیں، سلامتی و سعادت کے ساتھ رہیں گے۔ آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اللہ کی عطا پر قناعت کرنے والے اور اس کی تقسیم پر راضی رہنے والے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے : ((اِرْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ))
’’اللہ تعالی نے تمھاری قسمت میں جو لکھا ہے، اس پر راضی ہو جاؤ، تم سب لوگوں سے زیادہ مالدار ہو جاؤ گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2305)
چنانچہ آپﷺ نہ تو دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں سے متاثر ہوئے نہ دنیا کی خواہشات اور شہوات کے پیچھے گئے۔ تھوڑے رزق پر اکتفا کیا۔ جو مل گیا اس پر راضی ہوئے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ قناعت کی دولت سے مالا مال لوگ سعادت، خوشی اور امن و سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ))
’’کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا، اسے ضرورت کے مطابق رزق ملا اور اللہ تعالیٰ نے جو اسے دیا، اس پر اللہ تعالی نے اسے قناعت عطا کی۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1054)
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنيَا))
’’جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر میں پر امن ہو، جسمانی طور پر بھی عافیت میں ہو اور اس کے پاس ایک دن کی اشیائے ضرورت ہوں، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ دی گئی ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2346)
آپﷺ سعادت کی زندگی جیے کیونکہ آپ نے اپنے رب پر بھروسا رکھا۔ اپنے خالق پر اعتماد کیا۔ اپنا معاملہ اللہ جل شانہ کے سپرد کیا اور اس کے اس فرمان پر عمل کیا: ﴿وَعَلَى اللَهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
’’اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے ۔‘‘ ( التوبة 51:9)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَايُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾
’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان لوگوں کو بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ ( الأنقال64:8)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾
’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟‘‘ (الزمر 36:39)
آپﷺ نے اسباب کو بروئے کار لا کر تمام امور اللہ کے سپرد کیے تو اللہ آپ کو کافی ہو گیا اور اللہ تعالی کی خاص نگرانی اور حمایت آپ کو حاصل ہوئی۔
آپﷺ اپنی اطمینان و خشوع والی نماز کے ساتھ سعادت مند رہے جو زندگی میں آپ کی معاون اور اپنے رب کی رضا کے حصول میں اضافے اور قوت کا باعث تھی۔ جب بھی مشکل حالات پیش آئے اور بھاری بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑا، آپ ﷺ نے فرمایا: ((يَا بِلالُ أَقِمِ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا))
’’بلال! اٹھو نماز کی اقامت کہو، ہمیں اس کے ساتھ سکون پہنچاؤ ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4985)
اور آپ ﷺ فرماتے: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ))
’’اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (سنن النسائي، عشرة النساء، حديث (3940)
نماز آپ کے لیے حوصلے تسلی اور راحت وسکون کا باعث اور آپ کے امن اور سعادت کا راز تھی۔ سونماز دنیا میں ہمیشگی کی جنت ہے۔ یہ امید کی کرن، الہام کی چمک، سعادت کی چابی، امید کی دستاویز اور امن وامان کی ضامن ہے۔ آپﷺ نے کی سعادت و خوشی کا ایک سبب آپ کا صبر عظیم ہے۔ صبر نے ہر مصیبت آپ پر آسان کر دی اور ہر دور والی چیز کو قریب کر دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِالله﴾
’’اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔‘‘ (النحل 127:16)
نبیﷺ سجھتے تھے کہ صبر سب سے عظیم الہی تحفہ اور سب سے شاندار ربانی عطیہ ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((مَا أُعْطِي أَحَدٌ مِّنْ عَطَاءٍ خَيْرٌ وَ أَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ))
’’کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث (1053)
آپ ﷺنے ایسا صبر جمیل کیا جس میں کوئی شکوہ نہ تھا۔ کسی کی کوتاہی پر اُسے اذیت دیے بغیر احسن طریقے سے نظر انداز کیا اور ایسے خوبصورت طریقے سے درگزر کیا جس میں کوئی سرزنش نہ تھی۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اپنے رب کی نعمتوں کو یاد کرنے والے، ان کا شکر ادا کرنے والے، ان کو بیان کرنے والے اور ہمیشہ زبان سے اللہ کی حمد کے گیت گانے والے تھے۔ آپ ﷺ اللہ کے ان فرامین کے حقیقی پیروکار تھے: ﴿فَاذْكُرُوْا اَلَآءَ اللهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾
’’لہذا تم اللہ کی نعتیں یاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (الأعراف 69:7)
مزید ارشاد فرمایا: ﴿وَسنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ﴾
’’اور ہم شکر ادا کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے ۔‘‘ (آل عمران 145:3)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ﴾
’’اور جو کوئی شکر کرے تو بس وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے۔‘‘ (النمل 40:27)
اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ))
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی توفیق سے نیک کام تکمیل تک پہنچتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجه الأدب، حديث: 3803)
چنانچہ آپ ﷺ اذکار اور دعاؤں کے ساتھ مختلف انداز سے اللہ کا شکر بجا لاتے۔ ایسی حمد کرتے جس سے دل خوشی، اطمینان اور سکون سے لبریز ہو جاتا۔ آپ بھی اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کریں اور ان کی فہرست سامنے رکھ کر ان کو یاد کریں۔ شکر کو اپنی عادت بنائیں اور اس کے ذریعے سے عبادت میں اپنے رب کے قریب ہو جائیں، بلا شبہ یہ عمل نعمتوں میں اضافے کا باعث ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں پیشوا اور امام بنائیں۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ نے ماضی پر افسوس کیا نہ اپنے سانحات اور دکھوں پر ماتم کیا۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے حال و مستقبل کی تعمیر وترقی پر توجہ دی اور اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیا:
﴿ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَ لَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۱۳۴﴾
’’یہ ایک جماعت تھی جو یقینا گزرگئی۔ اس کے لیے ۔ کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔ اور جو عمل وہ کرتے تھے تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (البقر (134:2)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ﴾
’’جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا، وہ اللہ نے معاف کیا۔‘‘ (المائدة 95:5)
آپ ﷺ کی ڈکشنری میں ماضی کی لکیر پیٹنا اور جو ہو چکا، اس کے غم میں ہلکان ہونا نہیں تھا بلکہ آپ نے وقت کو تعمیری کاموں میں لگایا اور زندگی کے باقی ایام کو غنیمت سمجھا۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی بسر کی کہ آپ نے اپنا وقت محدود جان کر گزارا اور ہر دن نیکی احسان اور طاعت سے معمور کیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ))
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی یا راہ چلتا مسافر ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الوفاق، حدیث: 6416)
آپ ﷺ صبح کرتے تو پوری توجہ اس دن پر ہوتی اور اس دن کے کام پورے کرتے۔ آپ ایک نہایت عقل مند اور بیدار مغز مسافر کی طرح تھے جو اپنے سفر کا ساز و سامان تیار رکھتا ہے۔ آپ ماضی کی حسرتوں یا مستقبل کے خوابوں میں رہ کر حال کو خراب کرنے والے نہ تھے بلکہ موجود دن کو پوری تندہی سے گزارتے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے۔ سعادت کی دنیا اور زندگی کے دیوان خانے میں یہ کلمہ نہایت عمدہ اور سب سے خوبصورت ہے: (يَوْمَكَ يَوْمَكَ) ’’ آپ کا دن ہی آپ کا دن (عرصہ حیات ) ہے۔‘‘
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے تنقید کرنے اور گالیاں دینے والوں کی باتوں پر کبھی کان نہیں دھرے بلکہ ان سے اعراض کیا اور ان کی طرف توجہ نہیں کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾
’’اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے اور انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیجیے۔‘‘ (المزمل10:73)
اور ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۹۷
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۹﴾
’’اور بلاشبہ یقینًا ہم جانتے ہیں کہ بے شک جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے، سو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الحجر 15: 97،98)
اور جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض گمراہ لوگوں کی تنقید کی خبر آپ ﷺ کو دی تو آپﷺ نے فرمایا:
((رَحِمَ اللهُ مُوسَى، لَقَدْ أُوذِي بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ))
’’اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں یقینا اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘ (صحیح
البخاري، الأدب، حديث: 6059)
آپ ﷺ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے مذاق یا ملامت کرنے والے کی حرکت کا نوٹس نہ لیتے۔ آپ ﷺسمجھتے تھے کہ میرا وقت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ اسے ان کی فضول حرکتوں کے جواب میں صرف کیا جائے۔ آپ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہر عمل اور ہر کوشش اللہ کی رضا کی خاطر کی اور کسی دوسرے سے صلے کی توقع نہیں رکھی۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۹﴾
’’(نیک لوگ کہتے ہیں:) بس ہم تو تمھیں اللہ کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کوئی جزا اور شکر یہ نہیں چاہتے۔‘‘ (الدهر9:76)
اس لیے آپﷺاطمینان قلب اور شرح صدر کے ساتھ زندہ رہے۔ جس نے آپ کی نیکی کی قدر کی سو کی اور جس نے ناقدری کی سو کی، اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ نے اپنے عزیز و وہاب رب سے ثواب کی امید رکھی۔ جو شخص لوگوں کی خاطر کام کرتا ہے اور ان کے شکریے اور بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ لوگوں کی ناقدری اور احسان فراموشی کی وجہ سے ہمیشہ شکستہ دل رہتا ہے۔ جو لوگوں کے بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ پریشانیوں سے مر جاتا ہے۔ اور جو لوگوں کی رضا جوئی کے لیے نیکی کرتا ہے ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جو لوگوں کو پہچان لے، وہ آرام پا جاتا ہے کیونکہ لوگ نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں نہ عزت و ذلت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ وہ زندگی وموت کے مالک ہیں: ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠۲۱﴾
’’(وہ) مردہ ہیں۔ زندہ نہیں۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (النحل 21:16)
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے لوگوں کے ساتھ ہر طرح احسان کیا۔ انھیں علم و معرفت کا سبق دیا۔ ہدایت کی راہ دکھائی اور عزت بخشی۔ کھانے پینے، مال و دولت اور اچھے اخلاق سے نوازا۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو پورا پورا بدلہ دیا کہ شرح صدر اور ذہنی سکون عطا فرمایا کیونکہ جس طرح کی نیکی ہو، اس کا صلہ بھی ویسا ہی ملتا ہے۔ جو شخص روحانی خوشی، ذہنی سکون اور امن و اطمینان چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ ہر طرح کی نیکی اور احسان کرے۔
آپﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ صاحب رسالت و عمل تھے۔ آپ کی ساری زندگی محنت اور قربانی سے عبارت تھی۔ آپ کی زندگی میں فارغ رہنے کا تصور نہیں تھا۔ آپ نیکی اور اطاعت کے کاموں میں ہمیشہ کمر بستہ رہتے اور یہ آپ ﷺ کے خوش رہنے کا سب سے بڑا راز تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفید اور ثمر آور کام ہر غم و پریشانی کی کامیاب دوا اور نفع بخش علاج ہے۔ اس کے برعکس فارغ رہنا غموں، پریشانیوں اور دکھوں کا ہر باعث ہے۔
آپ ﷺ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نہایت مضبوط دل کے مالک، دلیر اور بہادر تھے۔ آپ پریشان کن امور اور خطرات سے گھبراتے نہ پریشان ہوتے۔ اس کے برعکس بزدل انسان دھمکیوں اور خطرات سے بے قرار ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ﴾ ’’وہ ہر اونچی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ (المنافقون 4:63)
دلیر آدمی شرح صدر رکھنے والا اور پرسکون ہوتا ہے۔ وہ چین کی نیند سوتا ہے۔ پھر رسول اکرمﷺ جو سب سے زیادہ بہادر اور دلیروں کے امام تھے، کسی قدر زیادہ پرسکون ہوں گے! یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ یہ دعا کرتے:
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ))
’’اے اللہ ! میں بخل اور بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث 6365)
آپﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھا۔ جو شخص اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جواد و کریم اور رحمن و رحیم ہے اور وہ اسے ضرور رزق دے گا، اس کی مدد و نصرت کرے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا تو اللہ تعالی اس کی ہر تمنا پوری کرتا ہے اور اس کی سوچ سے بڑھ کر اس سے جود و کرم اور فضل و احسان کا معاملہ فرماتا ہے، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے: ((أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي)) ’’میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث: 7405)
اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے متعلق برا گمان رکھتا ہے، اس کی برائی کا وہاں اس پر پڑتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دشمنوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ؕ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ﴾
’’جو اللہ کے متعلق برے گمان کرتے ہیں، بری گردش انھی پر ہے۔‘‘ (الفتح 8:48)
رسول اکرم ﷺ اپنے رب کے ساتھ سب لوگوں سے اچھا گمان رکھتے تھے۔ اس کے فضل و کرم اور احسان کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو سوچا، وہ پورا ہوا اور جو ارادہ کیا، وہ حقیقت بناء، لہذا آپ بھی رب جلیل کے ساتھ حسن ظن رکھیں اور کرم والے رب سے نہ ختم ہونے والے بدلے کی امید رکھیں۔ آپ ﷺ سعادت مند رہے کیونکہ آپ ہمیشہ تنگی کے بعد آسانی اور سختی کے بعد خوشحالی کا یقین رکھتے تھے۔
آپ عالم نے فرمایا:
((وَاعْلَمْ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلٰى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا))
’’اور جان لو! نا پسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں بہت زیادہ اجر ہے اور اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور مصیبت کے ساتھ کشادگی اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 2803)
اور آپﷺ اس ارشاد باری تعالی: ﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾
’’پھر بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح94: 5،6) پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مضبوط تعلق رکھتے تھے۔
آپ ﷺ اپنے صحابہ کو مدد، غلبے، فتح اور آسانی کی خوشخبری دیتے۔ آپ کی زندگی سرا پا بشارت و خوشخبری تھی۔ اس خوبصورت وجود کے ساتھ آپ نے اپنے صحابہ کرام اور قیامت تک آنے والے پیروکاروں کے دلوں میں خوشی بھر دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ پر امید رہے۔ اچھے انجام کی توقع رکھی اور روشن مستقبل پر یقین رکھا گویا کہ باریک پردے کے پیچھے سے چھپے امور کو دیکھ رہے ہوں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اندھیری رات کے بعد صبح صادق ضرور آتی ہے۔
آپ ﷺاس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے ہر قسم کے غصے سے اجتناب کیا۔ صرف اس وقت غصہ کیا جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا گیا یا اس کی نافرمانی کی گئی۔ آپ اپنا زیادہ وقت خوشی اور شرح صدر سے گزارتے۔ ہنستے، مسکراتے، کشادہ ظرفی اور اچھے میل جول کے ساتھ وقت بسر کرتے۔
آپﷺ نے امت کو غصے سے باز رہنے کا حکم دیا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا: مجھے وصیت فرمائیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ اس نے بار بار عرض کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو ‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
یہ اس لیے کہ غصہ سینہ تنگ کر دیتا ہے۔ روح کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ خوشی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مزاج بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ذہنی سکون ختم کر دیتا ہے۔ زندگی کی رونق گہنا دیتا اور اس کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔ خاندانی اور معاشرتی تعلقات خراب کر دیتا ہے۔ میل جول اور صلہ رحمی کے پل توڑ دیتا اور مودت و محبت کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
آپﷺ کی سعادت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب نفع بخش علم ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا اور وہ ہے کتاب وسنت کی صورت میں مقدس وحی۔
بلاشبہ برکت والا علم انسان کا سینہ کھول دیتا ہے۔ اس کا حامل افق سے زیادہ وسعتوں والا ہو جاتا ہے۔ اس کی نظر لوگوں اور زندگی کے لیے کشادہ کر دی جاتی ہے اور ایسے شخص کا دل رضا، امن و یقین اور سکون سے بھر جاتا ہے۔ اولاد آدم کے سردارﷺ کی کیفیت کیا ہوگی جن کے علم سے امت کے علماء نے فیض پایا اور ہرنفع بخش علم جو انھوں نے سیکھا، وہ آپ ﷺ کے علم کا ایک ذرہ اور آپ کی معرفت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔
جو شخص ذہنی سکون، سعادت اور دلی راحت چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ آپ کی مبارک میراث سے نفع بخش علم حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اپنے علم میں اضافے کی دعا کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ ’’ اور کہیے : اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘ (طہ 114:20)
آپ ﷺ ان کی خوش کن زندگی کا ایک راز یہ تھا کہ آپ ہمیشہ استغفار کرتے۔ بہت زیادہ اللہ کی طرف رجوع کرتے۔ اپنے پروردگار و خالق سے مددہ نصرت اور استعانت طلب کرتے۔ ہر شر اور برائی سے اللہ کی پناہ مانگتے۔
مصائب میں اپنے رب کی طرف دوڑتے اور مشکلات میں اس سے مدد طلب کرتے۔ آپ ﷺکی پاکیزہ روح توحید کی فضا میں سفر کرتی اور عالم مناجات میں شہنشاہ عالم سے کلام کرتی۔ آپ ﷺ ہی نے ہمیں امن، آسانی اور مدد کے کلمات سکھائے جیسے: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحْنَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِيْنَ، اور أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ))
اور ان کے علاوہ بے شمار نبوی دعا ئیں اور ربانی دوائیں بتائی ہیں۔ آپ ﷺ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ سے مدد مانگتے اور اپنے رب کی پناہ طلب کرتے۔ آپ ﷺ اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اس سے مناجات و التجا کرتے اور اپنے ہر معاملے میں اس کے مبارک و مقدس نام کا نعرہ لگاتے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک اہم سبب قرآن مجید سے لگاؤ تھا۔ آپﷺ دن رات اس کی تلاوت میں گمن رہتے کیونکہ قرآن مجید آپ کا رفیق و انیسں اور ہم نشین تھا۔ اس مبارک کتاب کی تلاوت و تدبر اور عمل سے آپ ﷺکو سعادت نصیب ہوئی۔ اس سے آپ نے شفا پائی اور آپ ہی اسے رب تعالٰی سے لانے والے ہیں۔
جو شخص قرآن سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے، اس سے خوش ہوتا ہے اور اس کی عزت و توقیر کرتا ہے، اللہ تعالی اس پر اپنی عنایات کے ایسے خزانے کھول دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا انعام شرح صدر، دلی سکون اور غموں، پریشانیوں اور دکھوں سے نجات ملنا ہے۔ اور رسولﷺ کو اللہ تعالی نے اس کا اعلیٰ اور وافر حصہ نصیب کیا تھا بلکہ آپ ﷺاس حوالے سے سب سے ممتاز تھے۔ آپ ﷺکی سعادت کا ایک عظیم سب یہ بھی تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کا دل کینے، حسد، بغض اور نفرت سے پاک رکھا اور اسے پاکیزہ وسلامتی والا بنایا۔ اس کا فیضان لوگوں پر جاری رہا اور آپ کا عفو و کرم اور احسان ہر دور و نزدیک والے تک پہنچا۔ آپ ﷺنہایت پاکیزہ اور صاف شفاف دل کے مالک تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جب آپ ﷺ کا سینہ مبارک کھولا گیا تو آپ کے دل سے ایک لوتھڑا نکال دیا گیا۔ پھر دل کو زمزم کے ساتھ دھویا گیا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس طرح آپ کے پاکیزہ دل سے ہر اخلاقی بیماری دور کر دی گئی کیونکہ تکبر، خود پسندی، حسد، کینہ اور بغض ایسی بیماریاں ہیں جو دل میں گھر کر جائیں تو اسے برباد کر دیتی ہیں۔ اس کی شفافیت ، نور ، سکون اور سعادت ختم ہو جاتی ہے اور عافیت صرف اسے ملتی ہے جسے اللہ تعالٰی عافیت دے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِيْنَ﴾
’’اور ان کے سینوں میں جو بھی کینہ حسد ہو گا، اسے ہم نکال دیں گے۔ (وہ) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے) بھائی بھائی ہوں گے۔‘‘ (الحجر 47:15)
نبیﷺنے اس لیے بھی سعادت والی زندگی گزاری کہ اللہ تعالی نے آپ کو گناہوں، معصیتوں اور خطاؤں سے محفوظ رکھا۔ یہی چیزیں دل کو میلا اور روح کو پریشان و بے چین کرتی ہیں۔ انھی کی وجہ سے دل تاریک ہوتے ہیں اور سینوں میں گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے رسول ﷺ طاہر و مطہر اور رب تعالی کی خاص توفیق سے گناہوں سے محفوظ اور اللہ تعالی کی مخالفت سے کوسوں دور تھے۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی اطاعت اور ہر لمحہ عبادت تھا۔ آپ کا ہر سانس پاک صاف اور ہر لفظ و حرف عفت و پاکیزگی کا مظہر ہے۔ جو شخص اچھی خوش کن زندگی گزارنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ گناہوں سے نکل جائے۔ نافرمانیوں اور خطاؤں کو ترک کر دے۔ بار بار توبہ کرتا رہے اور بکثرت استغفار کرے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک عظیم سبب صدموں کے بعد جلد سنبھل جانا اور بحرانوں سے نکلنے کی قوت رکھنا ہے۔ آپ نہایت قوی ارادہ اور مضبوط ہمت و حوصلہ والے تھے۔ پختہ عزم اور کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی اور نہ بے بسی کا اظہار کیا بلکہ صبر و استقامت سے مقاصد کے حصول میں لگے رہے۔ جب آپ ﷺ کو مکہ سے نکالا گیا تو آپ کف افسوس ملتے ہوئے ایک کمرے میں بند ہوئے نہ گھر بار کی جدائی میں رو رو کر اپنی صلاحیتیں ختم کیں بلکہ مدینہ طیبہ جا کر ایک ربانی معاشرہ تشکیل دیا اور ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی بنیاد عدل پر رکھی۔
جب آپﷺ کو طائف والوں کی طرف سے بدسلوکی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے آپ کی ایڑیاں خون آلود کر دیں تو بھی آپ کمزور نہ پڑے۔ آپ نے ہمت ہارنے کے بجائے للکارتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور پہلے سے زیادہ قوت و ہمت اور جذبے سے آگے بڑھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو غالب کر دیا۔
جب اُحد کے معرکے میں آپ ﷺ کے لشکر کو شکست ہوئی، آپ کے ستر صحابہ شہید ہو گئے اور اس سے پہلے منافق آپ کا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے گئے تو بھی آپ کا عزم ماند نہ پڑا اور نہ آپ کی ہمت نے جواب دیا۔ آپ میدان جنگ میں ثابت قدم رہے اور نئی حکمت عملی اپنائی اپنے صحابہ کو حوصلہ دلایا اور اپنی کامیابی کے لیے آئے بڑھتے رہے ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی اور آپ کو پوری طرح غالب کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے حادثات و واقعات اور مصائب آئے جن کو آپ نے اللہ کی توفیق اور قوت سے برداشت کیا اور مصیبت و بحران کے بعد زیادہ جاہ و جلال اور عزت و مرتبہ کے ساتھ سامنے آئے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب آپ کا عظیم نظام اور اپنے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے عظیم شیڈول مرتب کرنا ہے۔ آپ اپنا ہر مبارک کام منظم طریقے سے کرتے تھے۔ بعض علماء نے اس عنوان پر مستقل کتا ہیں لکھی ہیں جیسے امام نسائی اور ابن السنی کی ’’عمل الیوم واللیلة‘‘ ہے۔ آپ ﷺ کر کے دن رات اطاعت، خیر اور بھلائی کے مختلف کاموں اور عبادات میں گزرتے تھے۔ پانچوں نماز میں آپ ﷺ کی زندگی میں توانائی اور طاقت کا ماخذ تھیں اور یہ سب وقت مقررہ پر فرض ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۱۰۳﴾
’’بے شک نماز مومنوں پر مقرر و وقتوں میں فرض ہے۔‘‘ (النساء103:4)
اور یہ معاملہ آپ ﷺکی سعادت ، شرح صدر اور ذہنی خوشی کے عظیم اسباب میں سے ہے۔ اس کے برعکس جو شخص غیر منظم زندگی گزارتا ہے، پراگندہ خیالات رکھتا ہے، اس کی کوششیں غیر مرتب ہوتی ہیں، بے قراری و بے چینی کے ساتھ بغیر کسی ٹھوس لائحہ عمل کے محنت کرتا ہے تو اس کی ساری کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ ہمارےرسول ﷺ کی زندگی اس طرح خوشگوار تھی جیسے لہلہاتے باغ میں بادصبا کے جھو کے ہوں۔ آپ کے شب و روز ایسے گزرتے تھے جیسے باغات اور ٹیلوں کے درمیان سے میٹھے پانی کی نہر تسلسل کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے گزرتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت اور خوشی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ ہر دور و نزدیک والے کی خوبیاں دیکھتے اور اس کے عیبوں کو نظر انداز کر دیتے۔ آپ کی نظر ہمیشہ خوبصورتی پر پڑتی اور صرف اچھائی کا ذکر کرتے کیونکہ آپ کی پاکیزه روح طهارت ، فضل و احسان اور نیکی کی عادی تھی، لغزشوں، کوتاہیوں اور عیوب تلاش کرنے کی رسیا نہ تھی، کیونکہ وہ وحی کے نور کے ساتھ ارفع و اعلی تھی۔ وہ ہمیشہ خیر دیکھتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی اور گناہ نقص اور کوتاہی سے درگزر کرتی۔ اس کی تصدیق کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ کریں: ’’آپ ﷺ کے پاس ایک شراب پینے والے کو لایا گیا۔ آپ نے اس پر حد قائم کی تو کسی شخص نے اس کو گالی دی یا لعنت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَلَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ﴾
’’اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میرا علم یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الحدود، حديث: 6780)
آپ ﷺنے اس کے مثبت کردار کا ذکر کیا اور اس کی تعریف کی۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قیام اللیل میں سستی کرنے پر تنبیہ کی تو فرمایا: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ))
’’عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر وہ رات کو توجہ کا اہتمام کرے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1122)
آپ نے پہلے ان کی تعریف کی، پھر تنبیہ فرمائی۔
اس لیے جو شخص سلامتی ، امن، راحت اور سکون کی زندگی چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر چیز کا حسن و جمال اور فضیات والا پہلو دیکھے۔ نقص اور تقصیر والا پہلو نظر انداز کرے۔ یوں وہ خوش رہے گا اور اس کے آس پاس کے لوگ بھی خوش رہیں گے۔
آپ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ واعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ ’’اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ (المؤمنون51:23) پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ پاکیزہ کھایا اور پاکیزہ لیا۔
آپ ﷺ حرام اور نقصان دہ چیزوں سے بہت دور رہتے تھے۔ ہر اس کھانے، پینے اور قول و فعل سے دور رہتے جو روح اور جسم کو اذیت دے۔ آپ نہ اس قدر سیر ہو کر کھاتے کہ خمار آجائے اور نہ اس قدر بھوکے رہتے کہ راہبوں کی مشابہت ہو۔ جسم کو لاغر کر دینے والی شب بیداری سے گریز کرتے۔ تمام امور اور معاملات میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لیتے۔ آپ کو دی گئی رسالت بھی مبنی بر اعتدال دی تھی۔ اچھی اور پاکیزہ زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان شائستہ ہو اور اس کا مزاج درست اور معتدل ہو۔ عیش وعشرت اور فضول خرچی کے رسیا لوگوں کی کوئی زندگی ہوتی ہے نہ راہبوں اور صوفیوں کی۔ آپ ﷺ کی زندگی میانہ روی اور اعتدال والی تھی۔ آپ کی عبادت میں حسن و کمال تھا۔ شکل و صورت، لباس اور وضع قطع میں طہارت، پاکیزگی اور جمال تھا۔
آپﷺ کی سعادت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ بری عادات سے بہت دور رہتے تھے، جیسے بہت زیادہ بولنا، لغو گفتگو کرنا جو انسان کی نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے، بہت زیادہ بنتا جو دل کو سخت کر دیتا ہے، اللہ کے ذکر سے غفلت، گانا وغیرہ سننا اور ہر وہ حرکت جو حیا اور مروت کے منافی ہو۔
آپﷺ لطیف اور پاک دامن تھے۔ ہر وہ چیز پسند کرتے جو دل و روح کو تسکین دے، جیسے عمدہ خوشبو، طہارت اور نظافت و صفائی۔ آپ کامل و مکمل، طاہر و مظہر اور حسین وجمیل تھے۔ ظاہر و باطن ، روح و بدن اور پوشیدہ و علانیہ ہر اعتبار سے خوبصورت تھے۔ آپ قیامت تک پاکیزہ لوگوں کے امام اور صاف ستھرے لوگوں کا اسوہ ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
طَابَتْ بِكَ الْأَيَّامُ يَا خَيْرَ الْوَرٰى
وَالدَّهْرُ أَصْبَحَ فِي وُجُودِكَ عِيْدًا
أَوْرَثْتَنَا عِزًّا وَمَجْدًا خَالِدًا
تَارِيْخُنَا بِهٰذَا كَصَارَ مَجِيْدًا
وَسَكَبْتَ فِي أَرْوَاحِنَا نُورَ الْهُدٰى
وَوَعَدْتَّنَا عِندَ الْإِلٰهِ خُلُودًا
وَكَشَفْتَ عَنْ أَبْصَارِنَا حُجُبَ الدُّجٰى
حَتّٰى لَبِسْنَا فِي الْحَيَاةِ جَدِيْدًا
’’اے مخلوق میں سب سے بہترین شخص (محمدﷺ) ! آپ کی وجہ سے دن پاکیزہ و خوشگوار ہو گئے۔ زمانہ آپ کی موجودگی میں شادمانی سے بہرہ مند ٹھہرا۔ آپ نے ہمیں ابدی عزت و شرف کا وارث بنایا۔ آپ کی ہدایت کے سبب ہماری تاریخ عمدہ ہو گئی۔ آپ نے ہماری روحوں میں ہدایت کا نور انڈیل دیا اور ہم سے جہانوں کے معبود کے پاس ہمشیگی کا وعدہ کیا۔ آپ نے ہماری آنکھوں سے تاریکیوں کے پردے ہٹا دیے، یہاں تک کہ ہم زندگی میں نیا لباس پہن کر سامنے آئے۔‘‘
………………….
محمدﷺ بحیثیت سعادت مند
رسول اکرم ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سعادت مند، شرح صدر والے اور پاکیزہ و عمدہ زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ جب میں نے اپنی کتاب ’’غم نہ کریں‘‘ لکھی تو اس کی بنیاد بھی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب و سنت ہی تھی۔
اہل علم و دانش اس بات پر متفق ہیں کہ سعادت کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔ جو شخص ان پر عمل پیرا ہو، وہ راحت و سکون، اطمینان قلب اور پاکیزگی والی زندگی گزارتا ہے۔ اسے سلامتی و عافیت نصیب ہوتی ہے۔ اور یہ تمام اسباب اللہ کے رسول محمد بن عبداللہﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔
سعادت کا سب سے پہلا سبب اللہ تعالی پر ایمان لانا، اس کے معبود ہونے کا اقرار کرتا، اس کے احکام کو تسلیم کرنا اور اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ آپﷺ نے یہ سب امور اختیار کیے۔ اپنی عملی زندگی میں ان کو بروئے کار لائے اور دوسرے لوگوں کو اس کی دعوت دی تو آپ ایمان کے اعلی درجات اور احسان کے بلند مراتب پانے میں کامیاب ہو گئے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((الْإِحْسَانُ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ))
’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو کم از کم وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔“ (صحيح البخاري، الإيمان، حدیث: 50)
آپ ﷺ کو پاکیزہ زندگی سے وافر حصہ اور اجر عظیم میسر آیا، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۹۷﴾
’’جس نے نیک عمل کیے، مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی بخشیں گے، اور ہم انھیں ضرور ان کا اجر و ثواب ان بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے ۔‘‘ (النحل 97:10)
روح کی راحت یہ ہے کہ وہ توحید کی فضاؤں میں سفر کرے۔ یقین جس قدر محکم ہو اور نفس ملی کے نقصانات سے پاک ہو، روح اسی قدر اللہ کے نور سے چمک اٹھتی ہے۔ اسے روشنی نصیب ہوتی ہے اور وہ مکمل طور پر سعادت و سرور اور نور ومسرت حاصل کر لیتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب قضا و قدر پر آپ کا پختہ ایمان ہے۔ آپ نے اسے ایمان کا چھٹا رکن قرار دیا۔ فرمایا:
((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ))
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث:8)
اور آپ ﷺنے فرمایا:
((اِسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلٰكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ))
’’اللہ سے مدد طلب کرو اور عاجز و بے بس نہ بنو۔ اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یہ کرتا تو ایسے ایسے ہوتا بلکہ تم کہو : اللہ کی تقدیر و مشیت ہے، اور اس نے جو چاہا کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حديث: 2664)
نبی ﷺ نے اس ارشاد باری تعالیٰ: ﴿قُلْ لَنْ يُّصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا﴾
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: ہمیں تو صرف وہی ( مصیبت) پہنچے گی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ۔‘‘ (التوبة 5:19) پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی تقدیر اور لکھے ہوئے پر راضی رہ کر زندگی گزاری۔
خوشی و غمی، شدت و آسانی، مالداری و فقیری اور صحت و بیماری جس حال میں بھی اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو رکھا، آپ خوش رہے۔ اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
((عَجَبًا لِّأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهُ))
’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ بلاشبہ اس کا ہر امر بھلائی پر مبنی ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ اگر اسے خوشی نصیب ہو اور وہ اس پر شکر کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تنگی آئے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، حديث 2999)
آپﷺ ہر حال میں اللہ کے ساتھ اللہ کی نصرت میں، اللہ پر اعتماد اور بھروسا کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اللہ کے اس حکم کی تعمیل فرماتے:
﴿ وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠۲۱۶﴾
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘ (البقرة 216:2)
جو شخص خوش رہنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے۔ جو خود کو تقدیر کے مطابق ڈھال لیتے ہے، وہ پریشانی سے محفوظ رہتا ہے۔ جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ، اللہ اسے خوش کر دیتا ہے اور اس کا دل ہر گھٹن اور غم سے آزاد ہو جاتا ہے، لہذا رضائے الہی کی جنت میں داخل ہو جائیں، سلامتی و سعادت کے ساتھ رہیں گے۔ آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اللہ کی عطا پر قناعت کرنے والے اور اس کی تقسیم پر راضی رہنے والے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے : ((اِرْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ))
’’اللہ تعالی نے تمھاری قسمت میں جو لکھا ہے، اس پر راضی ہو جاؤ، تم سب لوگوں سے زیادہ مالدار ہو جاؤ گے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2305)
چنانچہ آپﷺ نہ تو دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں سے متاثر ہوئے نہ دنیا کی خواہشات اور شہوات کے پیچھے گئے۔ تھوڑے رزق پر اکتفا کیا۔ جو مل گیا اس پر راضی ہوئے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ قناعت کی دولت سے مالا مال لوگ سعادت، خوشی اور امن و سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ))
’’کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا، اسے ضرورت کے مطابق رزق ملا اور اللہ تعالیٰ نے جو اسے دیا، اس پر اللہ تعالی نے اسے قناعت عطا کی۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1054)
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنيَا))
’’جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر میں پر امن ہو، جسمانی طور پر بھی عافیت میں ہو اور اس کے پاس ایک دن کی اشیائے ضرورت ہوں، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس کے لیے ساری دنیا سمیٹ دی گئی ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2346)
آپﷺ سعادت کی زندگی جیے کیونکہ آپ نے اپنے رب پر بھروسا رکھا۔ اپنے خالق پر اعتماد کیا۔ اپنا معاملہ اللہ جل شانہ کے سپرد کیا اور اس کے اس فرمان پر عمل کیا: ﴿وَعَلَى اللَهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
’’اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے ۔‘‘ ( التوبة 51:9)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَايُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾
’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان لوگوں کو بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ ( الأنقال64:8)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾
’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟‘‘ (الزمر 36:39)
آپﷺ نے اسباب کو بروئے کار لا کر تمام امور اللہ کے سپرد کیے تو اللہ آپ کو کافی ہو گیا اور اللہ تعالی کی خاص نگرانی اور حمایت آپ کو حاصل ہوئی۔
آپﷺ اپنی اطمینان و خشوع والی نماز کے ساتھ سعادت مند رہے جو زندگی میں آپ کی معاون اور اپنے رب کی رضا کے حصول میں اضافے اور قوت کا باعث تھی۔ جب بھی مشکل حالات پیش آئے اور بھاری بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑا، آپ ﷺ نے فرمایا: ((يَا بِلالُ أَقِمِ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا))
’’بلال! اٹھو نماز کی اقامت کہو، ہمیں اس کے ساتھ سکون پہنچاؤ ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4985)
اور آپ ﷺ فرماتے: ((وَجُعِلَتْ قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ))
’’اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (سنن النسائي، عشرة النساء، حديث (3940)
نماز آپ کے لیے حوصلے تسلی اور راحت وسکون کا باعث اور آپ کے امن اور سعادت کا راز تھی۔ سونماز دنیا میں ہمیشگی کی جنت ہے۔ یہ امید کی کرن، الہام کی چمک، سعادت کی چابی، امید کی دستاویز اور امن وامان کی ضامن ہے۔ آپﷺ نے کی سعادت و خوشی کا ایک سبب آپ کا صبر عظیم ہے۔ صبر نے ہر مصیبت آپ پر آسان کر دی اور ہر دور والی چیز کو قریب کر دیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِالله﴾
’’اور (اے نبی !) آپ صبر کریں، اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے ۔‘‘ (النحل 127:16)
نبیﷺ سجھتے تھے کہ صبر سب سے عظیم الہی تحفہ اور سب سے شاندار ربانی عطیہ ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
((مَا أُعْطِي أَحَدٌ مِّنْ عَطَاءٍ خَيْرٌ وَ أَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ))
’’کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث (1053)
آپ ﷺنے ایسا صبر جمیل کیا جس میں کوئی شکوہ نہ تھا۔ کسی کی کوتاہی پر اُسے اذیت دیے بغیر احسن طریقے سے نظر انداز کیا اور ایسے خوبصورت طریقے سے درگزر کیا جس میں کوئی سرزنش نہ تھی۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ اپنے رب کی نعمتوں کو یاد کرنے والے، ان کا شکر ادا کرنے والے، ان کو بیان کرنے والے اور ہمیشہ زبان سے اللہ کی حمد کے گیت گانے والے تھے۔ آپ ﷺ اللہ کے ان فرامین کے حقیقی پیروکار تھے: ﴿فَاذْكُرُوْا اَلَآءَ اللهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾
’’لہذا تم اللہ کی نعتیں یاد کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (الأعراف 69:7)
مزید ارشاد فرمایا: ﴿وَسنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ﴾
’’اور ہم شکر ادا کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے ۔‘‘ (آل عمران 145:3)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ﴾
’’اور جو کوئی شکر کرے تو بس وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے۔‘‘ (النمل 40:27)
اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ((اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ))
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی توفیق سے نیک کام تکمیل تک پہنچتے ہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجه الأدب، حديث: 3803)
چنانچہ آپ ﷺ اذکار اور دعاؤں کے ساتھ مختلف انداز سے اللہ کا شکر بجا لاتے۔ ایسی حمد کرتے جس سے دل خوشی، اطمینان اور سکون سے لبریز ہو جاتا۔ آپ بھی اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر کریں اور ان کی فہرست سامنے رکھ کر ان کو یاد کریں۔ شکر کو اپنی عادت بنائیں اور اس کے ذریعے سے عبادت میں اپنے رب کے قریب ہو جائیں، بلا شبہ یہ عمل نعمتوں میں اضافے کا باعث ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں پیشوا اور امام بنائیں۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ نے ماضی پر افسوس کیا نہ اپنے سانحات اور دکھوں پر ماتم کیا۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے حال و مستقبل کی تعمیر وترقی پر توجہ دی اور اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیا:
﴿ تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَ لَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۱۳۴﴾
’’یہ ایک جماعت تھی جو یقینا گزرگئی۔ اس کے لیے ۔ کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔ اور جو عمل وہ کرتے تھے تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (البقر (134:2)
اور ارشاد باری تعالی ہے: ﴿عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ﴾
’’جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا، وہ اللہ نے معاف کیا۔‘‘ (المائدة 95:5)
آپ ﷺ کی ڈکشنری میں ماضی کی لکیر پیٹنا اور جو ہو چکا، اس کے غم میں ہلکان ہونا نہیں تھا بلکہ آپ نے وقت کو تعمیری کاموں میں لگایا اور زندگی کے باقی ایام کو غنیمت سمجھا۔
آپ ﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی بسر کی کہ آپ نے اپنا وقت محدود جان کر گزارا اور ہر دن نیکی احسان اور طاعت سے معمور کیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ))
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی یا راہ چلتا مسافر ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الوفاق، حدیث: 6416)
آپ ﷺ صبح کرتے تو پوری توجہ اس دن پر ہوتی اور اس دن کے کام پورے کرتے۔ آپ ایک نہایت عقل مند اور بیدار مغز مسافر کی طرح تھے جو اپنے سفر کا ساز و سامان تیار رکھتا ہے۔ آپ ماضی کی حسرتوں یا مستقبل کے خوابوں میں رہ کر حال کو خراب کرنے والے نہ تھے بلکہ موجود دن کو پوری تندہی سے گزارتے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے۔ سعادت کی دنیا اور زندگی کے دیوان خانے میں یہ کلمہ نہایت عمدہ اور سب سے خوبصورت ہے: (يَوْمَكَ يَوْمَكَ) ’’ آپ کا دن ہی آپ کا دن (عرصہ حیات ) ہے۔‘‘
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے تنقید کرنے اور گالیاں دینے والوں کی باتوں پر کبھی کان نہیں دھرے بلکہ ان سے اعراض کیا اور ان کی طرف توجہ نہیں کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾
’’اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے اور انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیجیے۔‘‘ (المزمل10:73)
اور ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۹۷
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۹﴾
’’اور بلاشبہ یقینًا ہم جانتے ہیں کہ بے شک جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے، سو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الحجر 15: 97،98)
اور جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بعض گمراہ لوگوں کی تنقید کی خبر آپ ﷺ کو دی تو آپﷺ نے فرمایا:
((رَحِمَ اللهُ مُوسَى، لَقَدْ أُوذِي بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ))
’’اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم کرے، انھیں یقینا اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘ (صحیح
البخاري، الأدب، حديث: 6059)
آپ ﷺ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے مذاق یا ملامت کرنے والے کی حرکت کا نوٹس نہ لیتے۔ آپ ﷺسمجھتے تھے کہ میرا وقت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ اسے ان کی فضول حرکتوں کے جواب میں صرف کیا جائے۔ آپ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہر عمل اور ہر کوشش اللہ کی رضا کی خاطر کی اور کسی دوسرے سے صلے کی توقع نہیں رکھی۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۹﴾
’’(نیک لوگ کہتے ہیں:) بس ہم تو تمھیں اللہ کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کوئی جزا اور شکر یہ نہیں چاہتے۔‘‘ (الدهر9:76)
اس لیے آپﷺاطمینان قلب اور شرح صدر کے ساتھ زندہ رہے۔ جس نے آپ کی نیکی کی قدر کی سو کی اور جس نے ناقدری کی سو کی، اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ نے اپنے عزیز و وہاب رب سے ثواب کی امید رکھی۔ جو شخص لوگوں کی خاطر کام کرتا ہے اور ان کے شکریے اور بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ لوگوں کی ناقدری اور احسان فراموشی کی وجہ سے ہمیشہ شکستہ دل رہتا ہے۔ جو لوگوں کے بدلے کا منتظر رہتا ہے، وہ پریشانیوں سے مر جاتا ہے۔ اور جو لوگوں کی رضا جوئی کے لیے نیکی کرتا ہے ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ جو لوگوں کو پہچان لے، وہ آرام پا جاتا ہے کیونکہ لوگ نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں نہ عزت و ذلت ان کے ہاتھ میں ہے اور نہ وہ زندگی وموت کے مالک ہیں: ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠۲۱﴾
’’(وہ) مردہ ہیں۔ زندہ نہیں۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (النحل 21:16)
آپ ﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے لوگوں کے ساتھ ہر طرح احسان کیا۔ انھیں علم و معرفت کا سبق دیا۔ ہدایت کی راہ دکھائی اور عزت بخشی۔ کھانے پینے، مال و دولت اور اچھے اخلاق سے نوازا۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو پورا پورا بدلہ دیا کہ شرح صدر اور ذہنی سکون عطا فرمایا کیونکہ جس طرح کی نیکی ہو، اس کا صلہ بھی ویسا ہی ملتا ہے۔ جو شخص روحانی خوشی، ذہنی سکون اور امن و اطمینان چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ ہر طرح کی نیکی اور احسان کرے۔
آپﷺ نے اس لیے بھی سعادت کی زندگی گزاری کہ آپ صاحب رسالت و عمل تھے۔ آپ کی ساری زندگی محنت اور قربانی سے عبارت تھی۔ آپ کی زندگی میں فارغ رہنے کا تصور نہیں تھا۔ آپ نیکی اور اطاعت کے کاموں میں ہمیشہ کمر بستہ رہتے اور یہ آپ ﷺ کے خوش رہنے کا سب سے بڑا راز تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفید اور ثمر آور کام ہر غم و پریشانی کی کامیاب دوا اور نفع بخش علاج ہے۔ اس کے برعکس فارغ رہنا غموں، پریشانیوں اور دکھوں کا ہر باعث ہے۔
آپ ﷺ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نہایت مضبوط دل کے مالک، دلیر اور بہادر تھے۔ آپ پریشان کن امور اور خطرات سے گھبراتے نہ پریشان ہوتے۔ اس کے برعکس بزدل انسان دھمکیوں اور خطرات سے بے قرار ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ﴾ ’’وہ ہر اونچی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ (المنافقون 4:63)
دلیر آدمی شرح صدر رکھنے والا اور پرسکون ہوتا ہے۔ وہ چین کی نیند سوتا ہے۔ پھر رسول اکرمﷺ جو سب سے زیادہ بہادر اور دلیروں کے امام تھے، کسی قدر زیادہ پرسکون ہوں گے! یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ یہ دعا کرتے:
((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ))
’’اے اللہ ! میں بخل اور بزدلی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الدعوات، حديث 6365)
آپﷺ اس لیے بھی سعادت مند رہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھا۔ جو شخص اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جواد و کریم اور رحمن و رحیم ہے اور وہ اسے ضرور رزق دے گا، اس کی مدد و نصرت کرے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا تو اللہ تعالی اس کی ہر تمنا پوری کرتا ہے اور اس کی سوچ سے بڑھ کر اس سے جود و کرم اور فضل و احسان کا معاملہ فرماتا ہے، جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے: ((أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي)) ’’میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے، میں اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري التوحيد، حديث: 7405)
اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے متعلق برا گمان رکھتا ہے، اس کی برائی کا وہاں اس پر پڑتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دشمنوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ؕ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ۚ﴾
’’جو اللہ کے متعلق برے گمان کرتے ہیں، بری گردش انھی پر ہے۔‘‘ (الفتح 8:48)
رسول اکرم ﷺ اپنے رب کے ساتھ سب لوگوں سے اچھا گمان رکھتے تھے۔ اس کے فضل و کرم اور احسان کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو سوچا، وہ پورا ہوا اور جو ارادہ کیا، وہ حقیقت بناء، لہذا آپ بھی رب جلیل کے ساتھ حسن ظن رکھیں اور کرم والے رب سے نہ ختم ہونے والے بدلے کی امید رکھیں۔ آپ ﷺ سعادت مند رہے کیونکہ آپ ہمیشہ تنگی کے بعد آسانی اور سختی کے بعد خوشحالی کا یقین رکھتے تھے۔
آپ عالم نے فرمایا:
((وَاعْلَمْ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلٰى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا))
’’اور جان لو! نا پسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں بہت زیادہ اجر ہے اور اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور مصیبت کے ساتھ کشادگی اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 2803)
اور آپﷺ اس ارشاد باری تعالی: ﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾
’’پھر بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح94: 5،6) پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ مضبوط تعلق رکھتے تھے۔
آپ ﷺ اپنے صحابہ کو مدد، غلبے، فتح اور آسانی کی خوشخبری دیتے۔ آپ کی زندگی سرا پا بشارت و خوشخبری تھی۔ اس خوبصورت وجود کے ساتھ آپ نے اپنے صحابہ کرام اور قیامت تک آنے والے پیروکاروں کے دلوں میں خوشی بھر دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ پر امید رہے۔ اچھے انجام کی توقع رکھی اور روشن مستقبل پر یقین رکھا گویا کہ باریک پردے کے پیچھے سے چھپے امور کو دیکھ رہے ہوں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اندھیری رات کے بعد صبح صادق ضرور آتی ہے۔
آپ ﷺاس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے ہر قسم کے غصے سے اجتناب کیا۔ صرف اس وقت غصہ کیا جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا گیا یا اس کی نافرمانی کی گئی۔ آپ اپنا زیادہ وقت خوشی اور شرح صدر سے گزارتے۔ ہنستے، مسکراتے، کشادہ ظرفی اور اچھے میل جول کے ساتھ وقت بسر کرتے۔
آپﷺ نے امت کو غصے سے باز رہنے کا حکم دیا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا: مجھے وصیت فرمائیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ اس نے بار بار عرض کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو ‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث: 6116)
یہ اس لیے کہ غصہ سینہ تنگ کر دیتا ہے۔ روح کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ خوشی تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مزاج بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ذہنی سکون ختم کر دیتا ہے۔ زندگی کی رونق گہنا دیتا اور اس کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔ خاندانی اور معاشرتی تعلقات خراب کر دیتا ہے۔ میل جول اور صلہ رحمی کے پل توڑ دیتا اور مودت و محبت کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
آپﷺ کی سعادت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب نفع بخش علم ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا اور وہ ہے کتاب وسنت کی صورت میں مقدس وحی۔
بلاشبہ برکت والا علم انسان کا سینہ کھول دیتا ہے۔ اس کا حامل افق سے زیادہ وسعتوں والا ہو جاتا ہے۔ اس کی نظر لوگوں اور زندگی کے لیے کشادہ کر دی جاتی ہے اور ایسے شخص کا دل رضا، امن و یقین اور سکون سے بھر جاتا ہے۔ اولاد آدم کے سردارﷺ کی کیفیت کیا ہوگی جن کے علم سے امت کے علماء نے فیض پایا اور ہرنفع بخش علم جو انھوں نے سیکھا، وہ آپ ﷺ کے علم کا ایک ذرہ اور آپ کی معرفت کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔
جو شخص ذہنی سکون، سعادت اور دلی راحت چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ آپ کی مبارک میراث سے نفع بخش علم حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اپنے علم میں اضافے کی دعا کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ ’’ اور کہیے : اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘ (طہ 114:20)
آپ ﷺ ان کی خوش کن زندگی کا ایک راز یہ تھا کہ آپ ہمیشہ استغفار کرتے۔ بہت زیادہ اللہ کی طرف رجوع کرتے۔ اپنے پروردگار و خالق سے مددہ نصرت اور استعانت طلب کرتے۔ ہر شر اور برائی سے اللہ کی پناہ مانگتے۔
مصائب میں اپنے رب کی طرف دوڑتے اور مشکلات میں اس سے مدد طلب کرتے۔ آپ ﷺکی پاکیزہ روح توحید کی فضا میں سفر کرتی اور عالم مناجات میں شہنشاہ عالم سے کلام کرتی۔ آپ ﷺ ہی نے ہمیں امن، آسانی اور مدد کے کلمات سکھائے جیسے: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحْنَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِيْنَ، اور أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِيْ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ))
اور ان کے علاوہ بے شمار نبوی دعا ئیں اور ربانی دوائیں بتائی ہیں۔ آپ ﷺ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ سے مدد مانگتے اور اپنے رب کی پناہ طلب کرتے۔ آپ ﷺ اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اس سے مناجات و التجا کرتے اور اپنے ہر معاملے میں اس کے مبارک و مقدس نام کا نعرہ لگاتے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک اہم سبب قرآن مجید سے لگاؤ تھا۔ آپﷺ دن رات اس کی تلاوت میں گمن رہتے کیونکہ قرآن مجید آپ کا رفیق و انیسں اور ہم نشین تھا۔ اس مبارک کتاب کی تلاوت و تدبر اور عمل سے آپ ﷺکو سعادت نصیب ہوئی۔ اس سے آپ نے شفا پائی اور آپ ہی اسے رب تعالٰی سے لانے والے ہیں۔
جو شخص قرآن سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے، اس سے خوش ہوتا ہے اور اس کی عزت و توقیر کرتا ہے، اللہ تعالی اس پر اپنی عنایات کے ایسے خزانے کھول دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا انعام شرح صدر، دلی سکون اور غموں، پریشانیوں اور دکھوں سے نجات ملنا ہے۔ اور رسولﷺ کو اللہ تعالی نے اس کا اعلیٰ اور وافر حصہ نصیب کیا تھا بلکہ آپ ﷺاس حوالے سے سب سے ممتاز تھے۔ آپ ﷺکی سعادت کا ایک عظیم سب یہ بھی تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کا دل کینے، حسد، بغض اور نفرت سے پاک رکھا اور اسے پاکیزہ وسلامتی والا بنایا۔ اس کا فیضان لوگوں پر جاری رہا اور آپ کا عفو و کرم اور احسان ہر دور و نزدیک والے تک پہنچا۔ آپ ﷺنہایت پاکیزہ اور صاف شفاف دل کے مالک تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جب آپ ﷺ کا سینہ مبارک کھولا گیا تو آپ کے دل سے ایک لوتھڑا نکال دیا گیا۔ پھر دل کو زمزم کے ساتھ دھویا گیا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس طرح آپ کے پاکیزہ دل سے ہر اخلاقی بیماری دور کر دی گئی کیونکہ تکبر، خود پسندی، حسد، کینہ اور بغض ایسی بیماریاں ہیں جو دل میں گھر کر جائیں تو اسے برباد کر دیتی ہیں۔ اس کی شفافیت ، نور ، سکون اور سعادت ختم ہو جاتی ہے اور عافیت صرف اسے ملتی ہے جسے اللہ تعالٰی عافیت دے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِيْنَ﴾
’’اور ان کے سینوں میں جو بھی کینہ حسد ہو گا، اسے ہم نکال دیں گے۔ (وہ) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے) بھائی بھائی ہوں گے۔‘‘ (الحجر 47:15)
نبیﷺنے اس لیے بھی سعادت والی زندگی گزاری کہ اللہ تعالی نے آپ کو گناہوں، معصیتوں اور خطاؤں سے محفوظ رکھا۔ یہی چیزیں دل کو میلا اور روح کو پریشان و بے چین کرتی ہیں۔ انھی کی وجہ سے دل تاریک ہوتے ہیں اور سینوں میں گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے رسول ﷺ طاہر و مطہر اور رب تعالی کی خاص توفیق سے گناہوں سے محفوظ اور اللہ تعالی کی مخالفت سے کوسوں دور تھے۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی اطاعت اور ہر لمحہ عبادت تھا۔ آپ کا ہر سانس پاک صاف اور ہر لفظ و حرف عفت و پاکیزگی کا مظہر ہے۔ جو شخص اچھی خوش کن زندگی گزارنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ گناہوں سے نکل جائے۔ نافرمانیوں اور خطاؤں کو ترک کر دے۔ بار بار توبہ کرتا رہے اور بکثرت استغفار کرے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک عظیم سبب صدموں کے بعد جلد سنبھل جانا اور بحرانوں سے نکلنے کی قوت رکھنا ہے۔ آپ نہایت قوی ارادہ اور مضبوط ہمت و حوصلہ والے تھے۔ پختہ عزم اور کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی اور نہ بے بسی کا اظہار کیا بلکہ صبر و استقامت سے مقاصد کے حصول میں لگے رہے۔ جب آپ ﷺ کو مکہ سے نکالا گیا تو آپ کف افسوس ملتے ہوئے ایک کمرے میں بند ہوئے نہ گھر بار کی جدائی میں رو رو کر اپنی صلاحیتیں ختم کیں بلکہ مدینہ طیبہ جا کر ایک ربانی معاشرہ تشکیل دیا اور ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی بنیاد عدل پر رکھی۔
جب آپﷺ کو طائف والوں کی طرف سے بدسلوکی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے آپ کی ایڑیاں خون آلود کر دیں تو بھی آپ کمزور نہ پڑے۔ آپ نے ہمت ہارنے کے بجائے للکارتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور پہلے سے زیادہ قوت و ہمت اور جذبے سے آگے بڑھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو غالب کر دیا۔
جب اُحد کے معرکے میں آپ ﷺ کے لشکر کو شکست ہوئی، آپ کے ستر صحابہ شہید ہو گئے اور اس سے پہلے منافق آپ کا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے گئے تو بھی آپ کا عزم ماند نہ پڑا اور نہ آپ کی ہمت نے جواب دیا۔ آپ میدان جنگ میں ثابت قدم رہے اور نئی حکمت عملی اپنائی اپنے صحابہ کو حوصلہ دلایا اور اپنی کامیابی کے لیے آئے بڑھتے رہے ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی اور آپ کو پوری طرح غالب کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے حادثات و واقعات اور مصائب آئے جن کو آپ نے اللہ کی توفیق اور قوت سے برداشت کیا اور مصیبت و بحران کے بعد زیادہ جاہ و جلال اور عزت و مرتبہ کے ساتھ سامنے آئے۔
آپ ﷺ کی سعادت کا ایک سبب آپ کا عظیم نظام اور اپنے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے عظیم شیڈول مرتب کرنا ہے۔ آپ اپنا ہر مبارک کام منظم طریقے سے کرتے تھے۔ بعض علماء نے اس عنوان پر مستقل کتا ہیں لکھی ہیں جیسے امام نسائی اور ابن السنی کی ’’عمل الیوم واللیلة‘‘ ہے۔ آپ ﷺ کر کے دن رات اطاعت، خیر اور بھلائی کے مختلف کاموں اور عبادات میں گزرتے تھے۔ پانچوں نماز میں آپ ﷺ کی زندگی میں توانائی اور طاقت کا ماخذ تھیں اور یہ سب وقت مقررہ پر فرض ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۱۰۳﴾
’’بے شک نماز مومنوں پر مقرر و وقتوں میں فرض ہے۔‘‘ (النساء103:4)
اور یہ معاملہ آپ ﷺکی سعادت ، شرح صدر اور ذہنی خوشی کے عظیم اسباب میں سے ہے۔ اس کے برعکس جو شخص غیر منظم زندگی گزارتا ہے، پراگندہ خیالات رکھتا ہے، اس کی کوششیں غیر مرتب ہوتی ہیں، بے قراری و بے چینی کے ساتھ بغیر کسی ٹھوس لائحہ عمل کے محنت کرتا ہے تو اس کی ساری کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ ہمارےرسول ﷺ کی زندگی اس طرح خوشگوار تھی جیسے لہلہاتے باغ میں بادصبا کے جھو کے ہوں۔ آپ کے شب و روز ایسے گزرتے تھے جیسے باغات اور ٹیلوں کے درمیان سے میٹھے پانی کی نہر تسلسل کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے گزرتی ہے۔
آپ ﷺ کی سعادت اور خوشی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ ہر دور و نزدیک والے کی خوبیاں دیکھتے اور اس کے عیبوں کو نظر انداز کر دیتے۔ آپ کی نظر ہمیشہ خوبصورتی پر پڑتی اور صرف اچھائی کا ذکر کرتے کیونکہ آپ کی پاکیزه روح طهارت ، فضل و احسان اور نیکی کی عادی تھی، لغزشوں، کوتاہیوں اور عیوب تلاش کرنے کی رسیا نہ تھی، کیونکہ وہ وحی کے نور کے ساتھ ارفع و اعلی تھی۔ وہ ہمیشہ خیر دیکھتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی اور گناہ نقص اور کوتاہی سے درگزر کرتی۔ اس کی تصدیق کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ کریں: ’’آپ ﷺ کے پاس ایک شراب پینے والے کو لایا گیا۔ آپ نے اس پر حد قائم کی تو کسی شخص نے اس کو گالی دی یا لعنت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((وَلَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ﴾
’’اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میرا علم یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الحدود، حديث: 6780)
آپ ﷺنے اس کے مثبت کردار کا ذکر کیا اور اس کی تعریف کی۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو قیام اللیل میں سستی کرنے پر تنبیہ کی تو فرمایا: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ))
’’عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر وہ رات کو توجہ کا اہتمام کرے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1122)
آپ نے پہلے ان کی تعریف کی، پھر تنبیہ فرمائی۔
اس لیے جو شخص سلامتی ، امن، راحت اور سکون کی زندگی چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر چیز کا حسن و جمال اور فضیات والا پہلو دیکھے۔ نقص اور تقصیر والا پہلو نظر انداز کرے۔ یوں وہ خوش رہے گا اور اس کے آس پاس کے لوگ بھی خوش رہیں گے۔
آپ اس لیے بھی خوش رہے کہ آپ نے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ واعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ ’’اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ (المؤمنون51:23) پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ پاکیزہ کھایا اور پاکیزہ لیا۔
آپ ﷺ حرام اور نقصان دہ چیزوں سے بہت دور رہتے تھے۔ ہر اس کھانے، پینے اور قول و فعل سے دور رہتے جو روح اور جسم کو اذیت دے۔ آپ نہ اس قدر سیر ہو کر کھاتے کہ خمار آجائے اور نہ اس قدر بھوکے رہتے کہ راہبوں کی مشابہت ہو۔ جسم کو لاغر کر دینے والی شب بیداری سے گریز کرتے۔ تمام امور اور معاملات میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لیتے۔ آپ کو دی گئی رسالت بھی مبنی بر اعتدال دی تھی۔ اچھی اور پاکیزہ زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان شائستہ ہو اور اس کا مزاج درست اور معتدل ہو۔ عیش وعشرت اور فضول خرچی کے رسیا لوگوں کی کوئی زندگی ہوتی ہے نہ راہبوں اور صوفیوں کی۔ آپ ﷺ کی زندگی میانہ روی اور اعتدال والی تھی۔ آپ کی عبادت میں حسن و کمال تھا۔ شکل و صورت، لباس اور وضع قطع میں طہارت، پاکیزگی اور جمال تھا۔
آپﷺ کی سعادت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ بری عادات سے بہت دور رہتے تھے، جیسے بہت زیادہ بولنا، لغو گفتگو کرنا جو انسان کی نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے، بہت زیادہ بنتا جو دل کو سخت کر دیتا ہے، اللہ کے ذکر سے غفلت، گانا وغیرہ سننا اور ہر وہ حرکت جو حیا اور مروت کے منافی ہو۔
آپﷺ لطیف اور پاک دامن تھے۔ ہر وہ چیز پسند کرتے جو دل و روح کو تسکین دے، جیسے عمدہ خوشبو، طہارت اور نظافت و صفائی۔ آپ کامل و مکمل، طاہر و مظہر اور حسین وجمیل تھے۔ ظاہر و باطن ، روح و بدن اور پوشیدہ و علانیہ ہر اعتبار سے خوبصورت تھے۔ آپ قیامت تک پاکیزہ لوگوں کے امام اور صاف ستھرے لوگوں کا اسوہ ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
طَابَتْ بِكَ الْأَيَّامُ يَا خَيْرَ الْوَرٰى
وَالدَّهْرُ أَصْبَحَ فِي وُجُودِكَ عِيْدًا
أَوْرَثْتَنَا عِزًّا وَمَجْدًا خَالِدًا
تَارِيْخُنَا بِهٰذَا كَصَارَ مَجِيْدًا
وَسَكَبْتَ فِي أَرْوَاحِنَا نُورَ الْهُدٰى
وَوَعَدْتَّنَا عِندَ الْإِلٰهِ خُلُودًا
وَكَشَفْتَ عَنْ أَبْصَارِنَا حُجُبَ الدُّجٰى
حَتّٰى لَبِسْنَا فِي الْحَيَاةِ جَدِيْدًا
’’اے مخلوق میں سب سے بہترین شخص (محمدﷺ) ! آپ کی وجہ سے دن پاکیزہ و خوشگوار ہو گئے۔ زمانہ آپ کی موجودگی میں شادمانی سے بہرہ مند ٹھہرا۔ آپ نے ہمیں ابدی عزت و شرف کا وارث بنایا۔ آپ کی ہدایت کے سبب ہماری تاریخ عمدہ ہو گئی۔ آپ نے ہماری روحوں میں ہدایت کا نور انڈیل دیا اور ہم سے جہانوں کے معبود کے پاس ہمشیگی کا وعدہ کیا۔ آپ نے ہماری آنکھوں سے تاریکیوں کے پردے ہٹا دیے، یہاں تک کہ ہم زندگی میں نیا لباس پہن کر سامنے آئے۔‘‘
………………….