محمدﷺ بحیثیت سخی و مہربان

محمد بن عبد اللهﷺ محقوق الٰہی میں سب سے بڑے دریا دل اور سخی تھے۔ آپ برسنے والے بادل اور موسلا دھار بارش کی طرح تھے۔ خرچ کرنے میں تیز آندھی سے بھی بڑھ کر تھے۔ ایسے لٹاتے کہ فقر کا ڈر نہ ہوتا۔ پاس نہ ہوتا تو ادھار لے کر بھی خرچ کرتے اور اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کو دے دیتے۔ مال عظیمت آتا تو سارا تقسیم کر دیتے۔ اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔ ہر آنے والے کے لیے آپ کا دستر خوان کھلا تھا اور آپ کا گھر ہر اجنبی کے لیے پناہ گاہ تھا۔ آپ مہمان کی تکریم کرتے۔ بھوکے کو کھانا کھلاتے۔ بے لباس کو لباس فراہم کرتے۔ جس کا کوئی کھانے والا نہ ہوتا اس کا ذمہ خود اٹھاتے۔ بے چین کی مدد کرتے۔ پریشان حال کا مداوا کرتے اور زمانے کی آفات میں لوگوں کی دادرسی کرتے۔ محتاج اور ضرورت مند کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے۔ قریبی سے صلہ رحمی کرتے۔ بے گھر کو جگہ دیتے۔ محتاج کی مدد کرتے۔ اجنبی کو سینے سے لگاتے۔ مسکین کے ساتھ نرمی کرتے۔ یتیم کی کفالت کرتے اور کمزور پر ترس کھاتے۔ آپﷺ جود و کرم کی علامت تھے۔ عرب کے بڑے بڑے نامور سخیوں جیسے حاتم، ہرم اور ابن جدعان کا بھی آپ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آپ ﷺجو بھی دیتے، وہ بغیر کسی دنیادی مفاد کے صرف اللہ کے لیے دیتے اور اس طرح جود وسخا کرتے جیسے کوئی شخص اپنی جان و مال اور ہر چیز کو اپنے مولا و پروردگار کی راہ میں لٹا دے۔ آپﷺ کا ئنات کے سب سے بڑے تھی، دل کے فیاض اور طبعی طور پر سب سے زیادہ معزز تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

رسول اللہ ﷺ سے اسلام لانے پر جو بھی چیز طلب کی جاتی، آپ وہ عطا فرما دیتے۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپﷺ نے دو پہاڑوں کے درمیان چرنے والی بکریاں اسے دے دیں۔ وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا: میری قوم! مسلمان ہو جاؤ۔ بلاشہ محمد ﷺاتنا عطا کرتے ہیں کہ آپ کو فقر و فاقہ کا اندیشہ تک نہیں ہوتا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2312)

آپ ﷺ پر نیکی اور حسن سلوک کی وسعتوں میں سارے لوگ سما جاتے۔ آپ کا دسترخوان کھلا، چہرہ پرتبسم، اخلاق نہایت سادہ اور سینہ کشادہ تھا۔

آپﷺ کے لطف و کرم کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے اصحاب و احباب اور پیروکاروں بلکہ اپنے دشمنوں کو بھی اپنے جود وسخا کے دامن سے مستفید کیے رکھا۔ آپ کے جود و کرم، حسن سلوک اور احسان سے اپنے پرائے سبھی مستفید ہوتے رہے۔ یہودی آپ کا کھانا کھاتے، دیہاتی آپ کے دستر خوان پر بیٹھتے، منافق آپ کے برتن سے لیتے۔ جن لوگوں نے آپ سے جنگ کی، آپ کا خون بہایا، آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا، آپ کے صحابہ کو اذیتیں اور تکلیفیں دیں اور آپ کی دعوت کو جھٹلایا، جب وہ مسلمان ہوئے تو آپ نے مال دے کر ان کی دل جوئی کی۔ ان کے ہر سردار کو سوسو اونٹ دیئے اور دیگر ہدیے تحفے دے کر ان کی عزت افزائی کی۔ اپنی ذات اور پیاروں کو نظر انداز کر دیا حتی کہ انصار کے بعض افراد کی ناراضی بھی آپ تک پہنچی تو آپﷺ نے انھیں جواب دیا اور فرمایا: ’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر واپس جائیں اور تم رسول اللہ کا کلام کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو ؟  اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھائی میں چلیں تو میں انصار کی کھائی میں چلوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حديث: 1059)

نبی ﷺنے مال خرچ کرنے، نواز نے اور عطا کرنے کا حکم دیا۔ جو دوسخا کی ترغیب دی اور فرمایا:

’’اور جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوی کا احترام کرے۔ اور جو آدمی اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان حدیث: 47)

آپﷺ اپنے صحابہ کو بخل سے ڈراتے، کنجوسی کی نحوست سے خبردار کرتے اور انھیں آگاہ کرتے کہ یہ بہت بڑا گناہ اور خطر ناک غلطی ہے، چنانچہ آپﷺ م نے فرمایا:

’’جب لوگ صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا کر۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! کنجوس کو تباہ و برباد کر۔‘‘ (صحيح البخاري، الزكاة، حدیث: 1442)

جب آپ ﷺ نےحنین کی غنیمتیں تقسیم کیں تو اپنے لیے ایک درہم و دینار بھی نہ رکھا اور نہ کوئی اونٹ اور بکری اپنے پاس روکی۔ سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حنین سے واپسی پر وہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ کے ساتھ چند صحابہ اور بھی تھے۔ راستے میں چند دیہاتی آپ سے چمٹ گئے۔ وہ آپ سے کچھ مانگتے تھے حتی کہ آپ کو ایک کیکر کے درخت کے نیچے دھکیل کر لے گئے اور آپ کی چادر کانٹوں میں الجھ کر رہ گئی۔ اس وقت آپ ٹھہر گئے اور فرمایا:

’’مجھے میری چادر تو دے دو۔ اگر میرے پاس اس درخت کے کانوں کی تعداد کے برابر اونٹ ہوتے تو میں تم میں تقسیم کر دیتا۔ تم مجھے بخیل، جھوٹا اور بزدل ہرگز نہیں پاؤ گے۔ ‘‘ (صحيح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3148)

سید نا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:

’’انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہﷺ سے مال کا سوال کیا تو آپ نے انھیں دے دیا۔ انھوں نے دوبارہ مانگا تو آپ نے پھر دے دیا۔ انھوں نے پھر دست سوال پھیلا یا تو آپ نے پھر عطا فرما دیا۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا۔‘‘ (صحيح البخاري، الزكاة، حدیث (1469)

 ایک دن آپ ﷺ نے نئے کپڑے زیب تن کیے تو ایک ضرورت مند نے وہ مانگ لیے۔ آپ نے وہ سائل کو دے دیے اور خود پرانے کپڑے پہن لیے۔ سید نا سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

’’ایک عورت نبی ﷺکے لیے تیار شدہ حاشیہ دار چادر (بردہ) لائی۔ سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: تمھیں معلوم ہے کہ ’’بردہ ‘‘کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا: چادر کو کہتے ہیں۔ سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے نے کہا: ہاں۔ الغرض عورت نے کہا: میں نے یہ چاور اپنے ہاتھ سے تیار کی ہے اور آپﷺ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔نبی ﷺ کر کو اس وقت ضرورت بھی تھی، اس لیے اسے قبول فرما لیا۔ پھر آپ باہر تشریف لائے تو وہ چادر آپ نے باندھ رکھی تھی۔ ایک شخص نے اس کی تعریف کی اور کہنے لگا: کیا ہی عمدہ چادر ہے یہ مجھے عنایت کر دیجیے۔ لوگوں نے اس سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کیونکہ نبیﷺ نے انتہائی ضرورت کے پیش نظر اسے زیب تن کیا تھا مگر تو نے اسے مانگ لیا ہے اور تجھے علم ہے کہ آپﷺ کسی کا سوال رو نہیں کرتے۔ اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم میں نے اسے پہنے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن بنے۔‘‘ (صحیح البخاري الجنائز، حديث (1277)

آپ ﷺ عطا کر کے سائل سے زیادہ خوشی محسوس کرتے۔ آپ دیتے ہوئے مسکراتے۔ آپ کی روح سخاوت کے لیے بے تاب ہوتی۔ آپ کا دل خرچ کرنے کے لیے باغ باغ ہوتا اور آپ کا ہاتھ سخاوت کرتے ہوئے خوش ہوتا۔ آپ کے پاکیزہ دل سے سخاوت اور جود و کرم کے دریا بہتے۔ آپ ﷺکے بارے میں کہیں نہیں ملے گا کہ آپ کبھی مہمان یا سائل سے اکتائے ہوں یا کسی طلب کرنے والے سے گھٹن محسوس کی ہو بلکہ ایک دیہاتی نے آپ کی چادر کھینچی حتی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے اور اس نے کہا: اے محمد! آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دیں۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا، مسکرائے، پھر اسے دینے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، اللباس، حديث: 5809)

اللہ اکبر! یہاں حلم و کرم اکٹھا ہو گیا۔ حلم کی بہترین تصویر اور جود و کرم کا خوبصورت مظہر اور یہ صرف نبوت و رسالت کی چادر میں اکٹھا ہو سکتا ہے۔ اللہ کی طرف سے درود و سلام ہو اس فیاضی و کریم اور عفو و درگزر کرنے والے حلیمﷺ پر۔

غور کریں کہ کیسے آپﷺ نے ایک سخت گیر اور اکثر مزاج دیہاتی پر صدقہ و خیرات کیا جس نے نہ تو آپ ﷺ کا حق ادا کیا نہ آپ کی قدر و منزلت کو پہچانا اس کی جفا اور ناقدری کے باوجود اس پر ساری نوازشیں کیں اور اول و آخر اس سے نیکی اور حسن سلوک کیا۔ آپ ﷺ دل، ہاتھ اور زبان سے مہربان تھے۔ ظاہر و باطن اور ہر روپ میں کریم تھے۔ جود و کرم کی ایسی جسم تصویر تھے گویا یہ آپ کی عادات و شمائل کا دوسرا نام ہے اور سخاوت و عنایت آپ کے عطیات و فضائل کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ آپ کے مناقب و اوصاف بزرگی اور سرداری کے سوا کیا ہو سکتے ہیں ؟! شاعر کہتا ہے:

’’وہ فائدہ رساں اور مال لٹانے والا ہے۔ جب تو اس سے سوال کرے گا تو اس کا چہرہ چمک اٹھے گا اور وہ ہندی تلوار کی طرح جھومنے لگے گا۔ جب تو مہمان نوازی کی امید لیے اس کی سخاوت کی آگ کی روشنی کی طرف جائے گا تو تو اسے سب سے اچھی پائے گا جس کے پاس بہترین مہمانی کی آگ جلانے والا بھی ہے۔‘‘

 آپ ﷺکا جود و کرم دل، ہاتھ اور اخلاق کے جود و کرم پر مشتمل ہے اور اسی پر اللہ تعالی نے آپ کو پروان چڑھایا ہے۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ نماز عصر نبی ﷺ کے پیچھے مدینہ منورہ میں ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے۔ بہر حال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

’’سونے کی ایک ڈلی جو ہمارے پاس تھی، مجھے اس کی یاد آ گئی۔ میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ کہیں وہ مجھے اللہ کی یاد سے روک نہ دے، لہٰذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘ (صحیح البخاري الأذان، حديث: 851)

آپ ﷺکا ہاتھ سخاوت کی وجہ سے اس قدر کھلا تھا کہ کوئی چیز آپ کے پاس نہ بچتی۔ خود بھوکے رہ کر بھی لوگوں کو کھلاتے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ کے پاس دودھ کا تحفہ آیا تو آپ نے اپنی بھوک کی پروا کیے بغیر وہ دودھ پہلے صفہ کے ان مساکین کو پلایا جو آپ کی مسجد میں رہتے تھے اور باقی ماندہ خود نوش فرمایا۔ آپ ﷺکا فرمان ہے:

’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ پسند نہیں کہ مجھ پر تین دن گزر جائیں اور اس میں سے کوئی چیز میرے پاس باقی رہے۔ ہاں، قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاستقراض، حدیث: 2389)

سید نا حکیم بن رضی اللہ تعالی عنہ کیا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے دیا اور پھر مجھ سے فرمایا:

’’اے حکیم !یہ مال سرسبز وشیریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوتِ نفس کے ساتھ لیتا ہے، اسے برکت عطا ہوتی ہے اور جو طمع کے ساتھ لیتا ہے، اس کو اس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1472)

آپﷺ کے جود و کرم کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے ایک دفع سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے پر بھوک کے اثرات دیکھے تو مسکرائے اور انھیں دودھ والا ایک برتن پیش کرنے کا کہا، پھر حکم دیا کہ پیو۔ انھوں نے سیر ہو کر پیا۔ نبی اکرم ﷺبار بار انھیں مزید پینے کا کہتے رہے یہاں تک کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اب مزید گنجائش نہیں رہی۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6452)

سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا کہ رسول اکرم ﷺکو بلا لائیں۔ انھوں نے آپ کے لیے کھانا بنایا تھا۔ رسول اکرم ﷺاٹھے تو آپ کے ساتھ تقریباً آپ کے چالیس ساتھی اور بھی تھے۔ آپ دس دس کو بلاتے اور کھانا پیش کرتے رہے، پھر ان سب کے بعد خود کھایا۔ (سنن ابن ماجه، الأطعمة، حدیث:3342)

آپ ﷺنہایت خوش دلی سے چھوٹے بڑے، مرد عورت، امیر غریب اور شہری دیہاتی کو کھانے میں شریک کر لیتے تھے اور خاص اپنے لیے کچھ بچا کر نہ رکھتے بلکہ کھانے کے خواہش مند سب لوگوں کو بلا لیتے۔ آپ کا دروازہ اور دل دونوں ہر وقت کھلے رہتے اور آپ کی سخاوت کا فیضان صبح و شام جاری رہتا۔ آپ بلا تفریق سب لوگوں سے حسن سلوک کرتے اور ساری انسانیت کے لیے دریا دل تھے۔

کیا تم نے کسی ایسے قائد کے متعلق سنا ہے جو اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کے سر پر کھڑا ہو کر انھیں کھانا کھلائے جبکہ وہ خود بھوکا ہو؟ کیا کوئی ایسا لیڈر تمھاری نظروں سے گزرا ہے جو مٹی کے کمرے میں رہائش پذیر ہو اور اسے شدید بھوک گئی ہو، پھر اس کے پاس کھانا آجائے تو وہ فقراء کو بلا کر پہلے انھیں کھلائے اور خود سب سے آخر میں کھائے؟ یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا جو اس سے پہلے میں نے نہیں کہی اور نہ میں کسی اور کو جانتا ہوں جس نے یہ کہی ہو اور میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ اسے صحیح اور خالص اپنی رضا کے لیے کہنے کی توفیق دے۔

تاریخ کے اوراق میں بکھرے مشاہیر جنھوں نے جو دوسخا میں نام کمایا، وہ کسی ایک پہلو سے سخی تھے، مثلاً: کوئی دل کا سخی تھا کسی نے مال کی سخاوت کی، کسی نے کھانے کی سخاوت کی، کسی نے لباس کی مقاوت کی کسی نے علم کی سعادت کی اور کسی نے اپنے جاہ و مرتبہ کی سخاوت کی لیکن ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ کی ساری زندگی جود وسخا سے لبریز اور پر ہے۔ آپ کے شب و روز جود و سخا سے بھر پور ہیں۔ آپ لوگوں کی امامت کرانے میں بھی سخی تھے کہ ثواب کی غرض سے خالص اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھاتے، کوئی دنیاوی مفاد پیشِ نظر نہ ہوتا۔ اپنے خطبات میں بھی سخی تھے کہ ان سے دلوں کو نفع پہنچاتے اور روحوں کو تسکین سے بھر دیتے۔ اپنے فتاوی میں بھی سخی تھے کہ حلال و حرام کو واضح کرتے۔ اپنی تواضع میں بھی سخی تھے کہ تکلف سے دور رہتے اور دنیا کے معاملات میں خوش دلی اور احسان سے دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے۔ اپنی تعلق داری اور حسن سلوک میں بھی سخی تھے کہ اسے اپنے رب کی عبادت سمجھ کر نبھاتے۔ اپنی دعوت میں بھی  سخی تھے کہ اللہ سے اجر و ثواب لینے کے لیے دعوت دیتے۔ کوئی عارضی مفاد، فانی سلطنت اور دنیا کی کوئی جھوٹی بزرگی ہرگز آپ کے پیش نظر نہ ہوتی۔

آپﷺ اپنے علم میں بھی سخی تھے کہ لوگوں کو کسی معاوضے اور وظیفے کی چاہت اور کسی عہدہ و منصب کی خواہش کے اخیر تعلیم دیتے۔ آپ کا جود و کرم اللہ کی خاطر، اللہ کے لیے اور اللہ عز وجل کی خوشنودی کے حصول کے لیے تھا۔ اپنے خوش کن اخلاق کے اعتبار سے بھی سخی اور کریم تھے۔ ہسننے اور مسکرانے میں بھی  سخی تھے کہ دلوں کو خوشی سے بھر دیتے اور سامنے والے پر کیف و سرور طاری ہو جاتا۔ کسی کا خیال رکھنے اور دوستی میں بھی سخی تھے۔ آپ سراپا عدل، پیکر شفقت و محبت اور رحم دلی کے بحرِ بے کراں تھے۔ یہ بات بھی آپ کی عظمت کی واضح دلیل ہے کہ کائنات کے ہر فیاض اور سخی کی تعریف اس جیسے انسانوں یا اس کی ہم جنس مخلوق نے کی ہے لیکن ہمارے رسول اللہ ﷺ کی مدح رب العالمین نے کی ہے اور آپ کی عمدہ خوبیوں، اعلیٰ صفات، شاندار کردار اور سب سے احسن اور بہترین اقوال و احوال کی خود تعریف کی ہے۔ عظمت، سرداری، جود و کرم اور دانائی کے سارے اوصاف آپ کے لیے درج ذیل فرمان میں جمع کر دیے:

﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾

’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)

اگر آپ وہ ساری تعریف اور مدح سرائی جمع کریں جو آج تک انسانوں نے ایک دوسرے کی کی ہے تو وہ اس تعریف کا عشر عشیر بھی نہیں بن سکتی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مصطفی ﷺکی کی ہے کیونکہ آپ ﷺہر فضل و خیر میں سرفہرست ہیں اور ہر دانائی و عظمت آپ پر ختم ہو جاتی ہے۔

آپ ﷺکےسخی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کے دروازے پر نہ تو کوئی دربان تھا، نہ آپ کا کوئی سیکرٹری تھا اور نہ آپ کے دستر خوان پر کوئی چوکیدار ہی تھا بلکہ کھانے کے وقت ہر عام و خاص، مسافر و مقیم اور امیرد غریب کو اجازت تھی۔ آپ میں سب کو خوش آمدید کہتے، ان کی تکریم کرتے اور انھیں اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلاتے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے میرے لیے بکری کی دستی روسٹ کی اور لطف و کرم سے اسے کاٹ کاٹ کر میرے سامنے رکھنے لگے۔ گئے۔ (مسند احمد: 252/4، و

سنن أبي داود، حديث: 188)

آپﷺ کی فیاضی اور جود و کرم کا یہ عالم تھا کہ آپ ہدیے اور تحفے کا بھی بدلہ دیتے۔ جو ہدیہ آپ کو پیش کیا جاتا، اس سے اچھا، قیمتی اور نفیس تحفہ لوٹاتے۔ کسی کا احسان نہ اٹھاتے۔ جو آپ سے اچھائی کرتا، اسے زندگی بھر یاد رکھتے اور لوگوں کو بھی اسی بات کی ترغیب دیتے اور فرماتے:

’’جو شخص اللہ تعالی کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے، اسے پناہ دو۔ جو شخص اللہ تعالی کے نام پر مانگے، اسے دو۔ اور جو شخص اللہ تعالی کے نام پر امن مانگے، اسے امن دو۔ اور جو شخص تم سے حسن سلوک کرے، اسے اس کا بدلہ دو اور اگر تمھیں بدلہ دینے کو کچھ نہ ملے تو اس کے لیے دعا کرو (اور کرتے رہو) حتی کہ تمھیں یقین ہو جائے کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘ (سنن النسائي الزكاة، حدیث: 2568)

آپﷺ کی سخاوت ہی تھی کہ آپ نے کبھی ایک درہم یا دینار بھی ذخیرہ نہیں کیا۔ آپ کے مال کے لیے نہ تو کوئی سیف یا الماری تھی، نہ درہم و دینار رکھنے کے لیے کوئی تھیلا۔ درہم آپ کی مبارک   ہٹھیلی میں آتے اور وہیں سے ضرورت مندوں کے پاس چلے جاتے۔

آپﷺ کی سخاوت کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ سودا خریدتے اور طے شدہ قیمت سے زیادہ ادا کرتے اور کبھی خرید کر قیمت اور خریدی ہوئی چیز دونوں ہی بیچنے والے کو دے دیتے۔

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے اونٹ خریدا اور مدینہ منورہ تک مجھے اس پر سواری کر لینے کا حق دیا۔ جب میں مدینہ پہنچا تو میں اونٹ لے کر آپ س کے پاس آیا اور اونٹ آپ کے حوالے کر دیا۔ آپﷺ نے مجھے قیمت دینےکا حکم دیا۔ جب میں واپس ہوا تو آپ ﷺ میرے پیچھے ہو لیے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید آپ کوئی بات کرنا چاہتے ہوں۔ جب میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپﷺ نے اونٹ مجھے تھما دیا اور فرمایا: ’’یہ بھی تمھارے لیے ہے۔‘‘ پھر میرا گزر ایک یہودی کے پاس سے ہوا۔ جب میں نے اسے یہ ساری بات بتلائی تو وہ بڑا تعجب کرنے لگا۔ اس نے کہا: محمد (ﷺ) نے تجھ سے اونٹ خریدا ہے اور پھر قیمت ادا کر کے اونٹ بھی ہبہ کر دیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، بالکل ایسے ہی ہوا ہے۔ (مسند احمد: 203/3، حدیث 14251)

آپ ﷺکے کرم کا ایک خاص پہلو بھی تھا جس میں صرف انبیاء ﷺ ہی آپ کے شریک تھے، دوسرا کوئی انسان اس میں شریک نہیں، اور وہ ہے ہدایت ربانی اور سخاوت محمدی کا کرم کہ آپ نے اپنی امت کو علم و روشنی کا تحفہ دیا۔ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ گمراہی سے ہدایت کی راہ دکھائی۔ سرکشی و ضلالت سے و ہدایت کی طرف لے کر آئے اور آگ سے بچا کر جنت کی طرف رہنمائی کی۔ کیا اس سے بڑا کوئی کرم ہو سکتا ہے ؟! زمانے بھر کے لوگ کوشش کرتے رہیں تو انسانیت کو رشد و ہدایت کی راہ بتانے اور ایک پروردگار کی بندگی میں لانے کے نبوی کرم کے ایک ذرے کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ایک نہایت قابل توجہ اور عمدہ بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ہر کریم و سخی کوشش کرتا ہے کہ اس کا جود و کرم اور سخاوت اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس سب کا کریڈٹ بھی سخیوں کے سردار محمد رسول اللہﷺ کو جاتا ہے کیونکہ ان کے امام آپ ہی ہیں اور آپ ہی نے مقدس وحی کے ذریعے سے انھیں یہ سکھایا اور جود وسخا کی ترغیب دلائی۔ آپﷺ کے کرم کی دو عظیم خصوصیات ایسی ہیں جو کسی دوسرے سخی اور کریم میں کبھی نہیں پائی جاسکتیں:

1۔ آپ ﷺکے ہاتھ میں مال تھوڑا تھا یا زیادہ، آپ نے  سخاوت کر دیا۔

2۔ لوگوں کے پاس جو کچھ تھا، آپﷺ اس سے بے نیاز رہے اور ان کے مال و متاع سے آپ نے کبھی کوئی سروکار نہ رکھا۔

بعض فیاض اور سخی لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو وہ اس کا صلہ بھی چاہتے ہیں یا ناموری اور شہرت کا حصول اور کاروباری فوائد بھی ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ کئی لوگ راس المال محفوظ کر لیتے ہیں اور نفع یا اپنے مال کا کچھ حصہ خرچ کر دیتے ہیں، مثلاً: دس، نو یا آٹھ فیصد یا اس سے کم و بیش خرچ کرتے ہیں۔ جہاں تک رسول اکرمﷺ کا تعلق ہے تو آپ نے اپنا سارا مال، سارا کام، سارا کھانا اور سارا مقام و مرتبہ اللہ کے لیے قربان کر دیا حتی کہ اپنی وفات کے بعد اپنے مال میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا بلکہ دوسروں کو سیر کرنے کی خاطر خود بھو کے رہے۔ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دی۔ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی دولت لٹا دی اور اپنا سارا مال خرچ کر دیا۔ آپﷺ کے زہد کا عالم یہ تھا کہ دوسروں کے مال کا بھی دل میں خیال بھی نہ آیا کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کی خاص طور پر حفاظت فرمائی، آپ کے کان اور آنکھوں کو اس سے بچا کر رکھا اور آپ کے دل کو پاک کیا۔

آپﷺ کا جود و کرم نقص و عیوب سے پاک تھا۔ آپ دیتے تو کبھی احسان نہ جتلاتے۔ اوروں پر خرچ کرتے تو کسی معاوضے، تعریف اور کریڈٹ کی خواہش نہ رکھتے بلکہ صرف اپنے مولا کی رضا کے لیے خرچ کرتے۔ اللہ کیا خوشنودی کے لیے سخاوت کرتے ہوئے خالص، طاہر و پاکیزہ اور ہر نقص وعیب سے پاک مال سے نوازتے۔

آپﷺ کے ہر صحابی نے آپ کے جود و کرم سے فیض پایا۔ کسی کو آپ ﷺنے عہدے اور منصب سے نوازا، کسی کے ذمے کوئی کام لگایا، کسی کو مال عطا کیا، کسی کو دعوت کا  فريضہ نبھانے پر مقرر کیا، کسی کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں، کسی کو کسی امتیازی وصف سے مالا مال کیا کسی کو دوسروں سے زیادہ عزت دی کسی کو خوشخبری دی حتی کہ بعض کے لیے بشارت نبوی دنیا جہان سے بڑھ کر قیمتی تھی جیسا کہ سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

’’رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی اور چیز لائی گئی جسے آپ نے تقسیم فرما د یالیکن آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ جن کو آپ نے نہیں دیا، وہ نا خوش ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: ’’اما بعد! اللہ کی قسم میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا لیکن جسے چھوڑ دیتا ہوں، وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں، نیز کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان میں بے صبری اور بے چینی دیکھتا ہوں اور کچھ کو ان کی سیر چشمی اور بھلائی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔‘‘ عمرو بن تغلب بھی انھی میں سے ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا کہ رسول اللہﷺ کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الجمعة، حديث: 923)

 آپﷺ جود و کرم کا مظاہرہ کرتے تو  اسی دستر خوان پر فقراء و مساکین کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیتے جو آپ نے ان کے لیے بچھایا ہوتا جبکہ ہم بعض اہل ثروت اور وڈیروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ عوام الناس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا گوارا نہیں کرتے بلکہ ان کا خاص کھانا اور الگ محفل ہوتی ہے۔ جب وہ اور ان کے حاشیہ نشین سیر ہو جاتے ہیں تو پھر بچا ہوا کھانا فقراء و مساکین کو دیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا یا انھیں خود پر ترجیح دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ کہاں دنیا داروں کی سخاوت اور کہاں نبی کریم ﷺ کا جود و کرم!

سرداری، شہرت، لوگوں کو ماتحت کرنے اور ان سے دنیاوی مفاد لینے کے لیے جو دوست سے کام لینے والوں کے بر عکس رسول اکرم ﷺ کا جود و سخا خالص اللہ کی رضا اور لوگوں کو رب العالمین کی طرف لانے کے لیے تھا۔ آپ ان کے دلوں میں محبت و الفت اور اپنے خالق و مالک کی عبادت کا شوق پیدا کرنے کے لیے سخاوت کرتے تھے۔ آپ کا مقصد انھیں جنت کی طرف بلانا اور دوزخ سے بچانا تھا۔ بادشاہت، دنیاوی منصب، شہرت و ناموری یا کوئی دوسری غرض و غایت آپ کے پیش نظر ہرگز یہ تھی کی کہ اللہ تعالی نے آپکو جو عطا کیا، وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو مقام محمود عطا کیا جس پر اگلے پچھلے سب لوگ رشک کریں گے۔ اللہ تعالی نے آپ کو حوض کوثر عطا کیا جس پر لوگ امڈے چلے آئیں گے۔ آپ کو حمد کا پرچم عطا کیا جس کے نیچے لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا، پھر خاتم الانبیاء، سیدالاولیاء، امام الانقياء، قدوة العلماء اور حبیب ِرب ارض و سماء جیسے اعزازات سے بڑھ کر کیا اعزاز ہو سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا قدر ومنزلت اور مقام و مرتبہ ہو سکتا ہے اس لیے آپ ﷺکا کرم دنیا کے کسی انسان یا کسی مخلوق کے کرم سے یکسر مختلف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺکے جود و کرم کے بارے میں فرماتے ہیں: رسول الله ﷺسب لوگوں سے زیادہ تھی تھے، خصوصاً رمضان میں جب سیدنا جبریل علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے اور سیدنا جبریل علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي، حديث: 6)

………………