محمدﷺ بحیثیت تہجد گزار

ہمارے رسول ﷺاپنی دعوت کے آغاز اور رسالت کی ابتدا ہی سے حضر و سفر میں قیام اللیل کا شوق رکھتے تھے اور اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل کرتے تھے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۝ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝﴾

’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات میں قیام کیجیے مگر تھوڑا سا۔‘‘ (المزمل74: 1،2)

آپ ﷺ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ روتے ہوئے، یکسو ہو کر، اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوتے۔ آپ کی روح سات آسمانوں کو عبور کر کے عالم بالا میں اپنے خالق کے پاس چلی جاتی۔ آپ نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتے اور اپنے مولا و پروردگار کو پکارتے۔ کبھی یوں ہوتا کہ ایک رکعت میں سورہ بقرہ، نساء اور آل عمران کی تلاوت کرتے۔ پھر اتنا ہی لمبا رکوع کرتے اور اتنی ہی دیر رکوع سے سر اٹھا کر کھڑے رہتے اور تقریبا اسی کے بقدر سجدہ کرتے کیونکہ آپ کے رب ذوالجلال نے آپ کو حکم دیا:

﴿وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ۖۗ عَسٰۤی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝﴾

’’اور رات کے کچھ حصے میں بھی آپ اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھیں، اس حال میں کہ (یہ) آپ کے لیے زائد (نفل) ہے۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔‘‘ (بنی اسراءیل 79:17)

 یعنی اللہ کی کتاب کے ساتھ شب بیداری کریں اور رات کے مختلف اوقات میں اس کی تلاوت کریں۔ بہت جلد آپ کا رب آپ کو اس قیام کا اجر عطا کرے گا۔ یہ قیام بڑی پیشی کے دن قابل تعریف ہو گا۔ یہ شفاعت کبری کا قیام ہے جس میں اگلے پچھلے آپ ﷺ کی تعریف کریں گے اور تمام لوگ آپ پر رشک کریں گے۔ یہ شرف و بزرگی اور سرداری کا مقام ہے کیونکہ جیسا عمل ویسی جزا۔

آپﷺ رات کے وقت نہایت خشوع و خضوع سے لمبا قیام کرتے اور اپنے مولا و خالق کے لیے یکسو ہو کر دیر تک اس کے سامنے کھڑے رہتے۔ آپ کا پورا سجدہ رب تعالٰی سے سرگوشی اور عزیز و غفار کے سامنے فریاد پر مبنی ہوتا۔ آپ نہایت عجز و انکسار سے خود کو عبودیت کی چوکھٹ پر گرا دیتے۔ رب تعالی کی عنایات پر اس کی تعریف کرتے اور اللہ رب العزت سے خیر اور بھلائی مانگتے۔ اس طرح اپنے جذبات اور اپنے مولا سے دلی محبت کا اظہار کرتے اور اپنے خالق سے سرگوشی کے شوق کو تسکین دیتے ، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:

وَفِيْنَا رَسُولُ اللهِ يَتْلُو كِتَابَهُ

إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِّنَ الْفَجْرِ سَاطِعُ

أَرَانَا الْهُدٰى بَعْدَ الْعَمٰى فَقُلُوبُنَا

بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ

يَبِيْتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ

 إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ

’’اور ہم میں رسول اللہﷺ تشریف فرما ہیں۔ جب فجر طلوع ہوتی ہے تو آپ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں اندھے پن کے بعد ہدایت دکھائی، اس سے ہمارے دلوں کو اس بات کا یقین ہوا کہ آپ نے جو کچھ فرمایا، وہ ہوکر رہے گا۔ جب مشرکین سے ان کے بستر بھاری ہو جاتے ہیں تو آپ ﷺ اپنے بستر سے اپنا پہلو دور کر کے رات گزارتے ہیں۔‘‘

قیام اللیل آپ ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، نفس کا سرور اور روح کی تسکین تھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ اور مشقت کے لیے قیام اللیل ایک تریاق کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دو قیام کرتے، پہلا اطاعت اور دعوت کے کاموں کی معاونت کے لیے اور یہ قیام اللیل تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۝ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝﴾

’’اے کپڑے میں لپٹنے والے رات میں قیام کیجیے مگر تھوڑا سا۔‘‘ (المزمل 73: 1،2)

دوسرا قیام دعوت و تبلیغ اور پیغام رسالت پہنچانے کے لیے ہوتا۔ اس قیام کے لیے رات کے وقت تہجد پڑھتے تا کہ دعوت کا فريضہ ادا کرنے میں مدد ملے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۝۱

قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ۝﴾  ’’اے لحاف میں لپٹنے والے اٹھے اور ڈرائیے۔‘‘ (المدثر 74: 1،2)

چنانچہ رات کے وقت آپ ﷺ کا قیام اپنے رب سے خلوت اور عبادت کے لیے تھا اور دن کے وقت آپ کا قیام اللہ کا پیغام پہنچانے اور دین پھیلانے کے لیے تھا۔ آپ ﷺ پر درود و سلام ہوں، آپ کے لیل و نہار کتنے پاکیزہ تھے!

ذرا اس منفرد اور دلنشین صورت کا تصور کریں جسے ام المومنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا ے بیان کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺاپنے بستر پر نہیں ہیں۔ میں آپ کو تلاش کرنے کے لیے ہاتھ مارنے گئی تو آپ کو سجدے کی حالت میں پایا جبکہ آپ نے اپنے پاؤں سیدھے کھڑے کر رکھے تھے اور آپ کی زبان پر یہ دعا تھی:

((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوْبَتِكَ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءَ عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ))

’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تجھ سے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری ثنا پوری طرح بیان نہیں کر سکتا۔ تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود بیان کی۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 486)

آپ کا نہایت انہماک اور خشوع و خضوع سے تہجد پڑھتے تھے۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا آپ ﷺ کے قیام کی کیفیت یوں بیان کرتی ہیں: پہلے چار رکعت پڑھتے ، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق بھی سوال نہ کرو۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاري، التهجد، حديث: 1147)

سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمﷺ رات کو کیسے قراءت کرتے تھے؟ سری قراءت کرتے یا جہری؟ انھوں نے فرمایا: آپﷺ دونوں طرح قراءت کرتے ، کبھی سری قراءت کرتے اور کبھی بآواز بلند۔ (سنن أبي داود. الصلاة، حديث: 1437)

ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا: اللہ کے نبیﷺ رات کی نماز میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹ جائے۔ (صحیح البخاري، التفسير، حديث: 4837)

طبرانی اوسط کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مومن کا شرف قیام اللیل ہے اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیازی ہے۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني، طبع دار الحرمين: 306/4)

بلا شبہ قیام اللیل سے جسم و روح کو تقویت ملتی ہے جس سے اللہ تعالی دن کے کام کاج میں مدد کرتا ہے۔ آپ ﷺ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے قیام اللیل کو بطور زادِ راہ اختیار کرتے جیسا کہ آپ نے معرکہ بدر کی رات کیا۔ سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’بدر کے دن سیدنا مقداد  رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ ہم میں کوئی گھٹر سوار نہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ بدر کی رات رسول اکرمﷺ کے سوا سارے لوگ سوئے ہوئے ہیں۔ آپ ایک درخت کے نیچے نماز ادا کرتے اور روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔‘‘ (مسند احمد، حدیث (1023)

حضر و سفر میں قیام اللیل آپ ﷺ کا زادِ راہ تھا۔ یہ ایک ایسی روحانی نشست تھی جس میں آپ خوشی محسوس کرتے اور اپنے رب کے لیے معجز و انکسار اور عبودیت اختیار کرتے۔ اپنے مولا و آقا سے سرگوشی کرتے اور اس سے دعا کرتے ، اللہ کے اس حکم : ﴿وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا﴾

’’اور کچھ (حصہ) رات میں پھر اس کے لیے سجدے کیجیے اور رات گئے تک اس کی تسبیح کیجیے۔“ (الدهر 26:76) کی تعمیل کرتے ہوئے ہر ایک سے کٹ کر اس کی حمد وثناء تسبیح و تعریف اور کبریائی بیان کرتے اور کثرت سے استغفار کرتے۔ آپ ﷺ اللہ سے مناجات کے لیے لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر، دن کے اجالے اور لوگوں کے شور و غل سے بچ کر رات کو قیام کرتے۔

جب رات تھم جاتی، اندھیرا چھا جاتا اور ہر طرف سناٹا ہو جاتا تو آپ ﷺبا وضو اور پاک صاف ہو کر جائے نماز کی طرف متوجہ ہوتے۔ اپنی روح کو اپنے مولا کے سپرد کرتے۔ آپ عبودیت کے مراتب طے کرتے اور الوہیت کی سیڑھیوں کی بلندیاں چڑھتے۔ اس طرح آپﷺ دلی سکون و اطمینان اور شرح صدر محسوس کرتے۔ آپ کا دل باغ باغ ہو جاتا اور آپ کو ایسا ذہنی سکون اور روحانی خوشی نصیب ہوتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ﷺ دن کے وقت جو نشاط اور قوت پاتے ، اس کا باعث قیام اللیل ہوتا۔ کتنی ہی تاریک راتیں آپ پر آئیں جن کے اندھیرے آپ کی ان دعاؤں سے چھٹ گئے جو رحٰمن کے عرش کی طرف انھیں ! کتنی ہی راتیں ایسی تھیں جن کی سیاہ چادر کائنات پر پڑی تھی، انھیں آپﷺ کی تلاوت، دعاؤں اور اللہ کے حضور گریہ زاری کے چراغ نے روشن کر دیا !

آپﷺ تہجد کا آغاز دو ہلکی پھلکی رکعتوں سے کرتے جیسا کہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھتے تو اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 767)

سیدنا حذیفہ  رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرمﷺ کی نمازہ تہجد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺکے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا۔ میں نے (دل میں ) کہا: آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے۔ میں نے سوچا آپ اسے (پوری سورت) ایک رکعت میں پڑھیں گے۔ آپ آگے پڑھتے گئے۔ میں نے سوچا آپ اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورۂ نساء شروع کر دی۔ آپ نے وہ پوری پڑھی۔ پھر آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر قراءت فرماتے رہے۔ جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے تو سبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو (اللہ کی) پناہ مانگتے ، پھر آپ نے رکوع فرمایا اور سُبْحَانَ رَبِّي العَظِیمِ کہنے لگے۔ آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام جتنا تھا۔ پھر آپ نے سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہا۔ پھر آپ لمبا عرصہ کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنا آپ نے رکوع کیا تھا۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور سُبْحَانَ رَبِّي الأَعْلیٰ کہنے لگے اور آپ کا سجدہ (بھی) آپ کے قیام کے قریب تھا۔

(صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث (772)

یہ   آپ ﷺ کی رات کی نماز کی ایک رکعت کی کیفیت ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اتنے لیے قیام اللیل پر آپ کی مدد کی ! حالانکہ آپ پر بار رسالت بھی تھا۔ لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ دین کا دفاع کرتے۔ مخالفین سے مناظرہ کرتے۔ گھر اور امت کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی نبھاتے۔ نیکی ، احسان اور اصلاح کے امور بھی سر انجام دیتے۔ ان تمام امور میں آپ اعلیٰ مرتبے اور بلند مقام پر فائز تھے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبیﷺ رات کو 9 رکعتیں پڑھتے ، ان میں وتر شامل ہوتے اور طویل رات کھڑے ہو کر اور طویل رات بیٹھ کر نماز ادا کرتے۔ جب کھڑے ہو کر قراءت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی اسی حالت میں کرتے اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھے بیٹھے کرتے اور جب فجر طلوع ہوتی تو دور کھتیں پڑھتے۔ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 730)

آپﷺ نے وقفے وقفے سے عبادت کی تاکہ ہشاش بشاش رہیں اور اکتاہٹ نہ ہو۔ اور جب آپ رات کو تہجد پڑھتے تو مختلف الفاظ سے بکثرت اللہ کی حمد و ثنا کرتے اور نہایت شاندار الفاظ سے اللہ کی بزرگی بیان کرتے۔ آپ فرماتے:

’’اے اللہ ! حمد تیرے ہی لیے ہے، تو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے۔ تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمانوں اور زمین کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ حمد تیرے ہی لیے ہے، تو آسمانوں کا، زمین کا، اور جو کچھ ان میں ہے، سب کا رب ہے۔ تو حق ہے۔ تیرا وعدہ سچا ہے۔ تیرا کلام بھی برحق ہے۔ تیری ملاقات مبنی بر حقیقت ہے۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے۔ تمام انبیاء سچے ہیں اور قیامت بھی برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے حضور سرنگوں ہوا۔ تجھ پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر توکل کیا۔ تیری ہی طرف رجوع گیا۔ میں تیرے ہی سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں اور تجھی سے اپنا فیصلہ چاہتا ہوں، اس لیے میرے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے جو میں نے پوشیدہ کیے ہیں اور جو علانیہ کیے ہیں۔ تو ہی میرا معبود ہے۔ اور تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں۔ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث: 7499)

 یہ اس ہستی کا حال ہے جس کی اگلی پچھلی ساری خطا ئیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں۔

آپﷺ اپنے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کو قیام اللیل کی ترغیب دیتے۔ ان کے سامنے اس کے فضائل بیان کرتے۔ آپ فرماتے: ((أَفضلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ الصَّلَاةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ))

’’فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز ، آدھی رات کی نماز ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1163)

چونکہ یہ وقت گہری نیند اور راحت کے بعد آتا ہے، اس لیے اس وقت صرف سچے ایمان والا مومن ہی اٹھ سکتا ہے جیسا کہ رب العالمین نے اپنے پر ہیز گار اولیاء کے بارے میں بتایا ہے، اور قیامت تک ان کے سرخیل اور امام محمد ﷺہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ ﴾

’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔‘‘ (السجدة 16:32)

 آپ ﷺنے تہجد کی نماز پڑھنے والوں کو خوشخبری دی ہے۔ فرمایا:

جو شخص رات کو اٹھے اور کہے: ((لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اَلْحَمْدُ لِلهِ، وَ سُبْحَانَ اللهِِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله))

’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے۔ اور تمام تعریفات اس کی ہیں اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ نیکی کرنے کی اور برائی سے بچنے کی طاقت اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘ پھر یہ دعا پڑھے: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي)) ’’اے اللہ مجھے معاف فرما دے ‘‘یا کوئی اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز بھی قبول ہوتی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التهجد، حديث (1154)

آپﷺ تہجد میں کثرت سے استغفار کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿ كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ۝ وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۝﴾

’’وہ رات کو بہت ہی تھوڑا سوتے تھے۔ اور وہ سحری کے وقت بخشش مانگا کرتے تھے۔‘‘ (الذاریات51: 17،18)

آپ ﷺ استغفار کرنے والوں کے امام ، عبادت گزاروں کے لیے رول ماڈل اور تہجد پڑھنے والوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہﷺ  ان کے اور اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’تم دونوں نماز تہجد کیوں نہیں پڑھتے ؟“ (صحیح البخاري، التهجد، حديث: 1127)

نبی اکرم ﷺکا اپنی بیٹی اور داماد کے تہجد پڑھنے کی خواہش کرنے کی وجہ وہ برکت اور اجر وثواب ہے جو اللہ تعالی نے اس میں رکھا ہے۔

آپ ﷺ نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو قیام الیل پر دوسرے کی مدد کرنے کی تاکید کی اور اسے نیکی اور تقوے کے کاموں میں تعاون قرار دیا، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

’’اللہ اس شخص پر رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا اور اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے۔ اگر انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے۔ اور اللہ تعالی اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھتی اور نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو بھی جگاتی ہے۔ اور اگر وہ انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔ ‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث:1450)

شوہر کا اپنی بیوی کو قیام اللیل کے لیے اٹھانے کی غرض سے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنا نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون ہے۔ اور چھینٹے نرمی سے مارنے چاہئیں سختی سے نہیں۔

نبیﷺ نے نہایت مؤثر طریقے سے قیام اللیل کی ترغیب دی، آپﷺ نے فرمایا:

’’جب آدمی رات کے وقت سو جاتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے کہ ابھی تو بہت رات باقی ہے، سو جاؤ۔ پھر اگر آدمی بیدار ہو گیا اور اللہ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اگر اس نے وضو کر لیا تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر اس نے نماز پڑھی تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ پھر صبح کو وہ خوش مزاج اور دلشاد لگتا ہے، بصورت دیگر صبح کے وقت بد دل اور تھکا ہارا بیدار ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التهجد، حديث : 1142)

اتنی واضح اور مؤثر تعبیر کے بعد قیام اللیل کی فضیلت کی کسی توضیح و تشریح کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟! بلاشبہ مسلمان اکثر حالات میں سست ہی ہوتا ہے۔ جب وہ اس حدیث کو بار بار پڑھتا اور اس میں غور کرتا ہے تو اسے قیام اللیل کے لیے ایک ہمت اور جذ بہ ملتا ہے۔

نبیﷺ قیام اللیل کو اہمیت نہ دینے اور اسے ترک کر دینے سے ڈراتے اور خبردار کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:

((يَا عَبْدَ اللهِ! لَا تَكُنْ مِّثْلَ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ))

’’اے عبداللہ ! فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھا کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل ترک کر ديا۔‘‘ (صحيح البخاري، التهجد ، حديث: 1152)

سید نا عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ عالم تھے، اس لیے آپ ﷺ  نے انھیں قیام اللیل کی فضیلت کی طرف توجہ دلائی۔

آپ ﷺ نے تہجد کی نماز ادا کرنے کو سب سے اعلیٰ اور عمدہ وصف قرار دیا جس کے ساتھ کسی انسان کی تعریف کی جاسکتی ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا :

((نعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَكَانَ بَعْدُ لَا يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلَّا قَلِيلًا))

’’ عبد اللہ اچھا آدمی ہے، کاش ! وہ تہجد پڑھنے کا التزام کرے۔‘‘ اس کے بعد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، التهجد، حديث: 1122)

آپ  ﷺ نے ہمیں قیام اللیل کی فضیلت بتائی ، خواہ دو  رکعتیں ہی ہوں، آپﷺ نے فرمایا:

((إِذَا أَيْقَظَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّيَا أَوْ صَلّٰى رَكْعَتَيْنِ جَمِيْعًا كُتِبَا فِي الذَّاكِرِينَ والذَّاكِرَاتِ))

“”جب شوہر اپنی اہلیہ کو رات کے وقت جگاتا ہے اور وہ دونوں نماز پڑھتے یا دو رکعتیں پڑھتے ہیں تو ان کا شمار ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں ہوتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حديث: 1309)

 آپ ﷺ نے رات کی نماز میں قبولیت کی گھڑی کو غنیمت سمجھنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا:

((إِنَّ فِي اللَّيْلَةِ لَسَاعَةً لَّا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ، يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ إِيَّاهَ، وَذٰلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ))

’’رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو مسلمان بندہ بھی اس کو پالیتا ہے اور اس میں وہ دنیا اور آخرت کی کسی بھی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ اسے وہ بھلائی ضرور عطا فرما دیتا ہے۔ اور یہ گھڑی ہر رات میں ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 757)

ایک روایت میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَّذْكُرُ اللهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ))

’’رب تعالی اپنے بندے سے رات کے آخری حصے میں بہت زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اگر تو ان لوگوں میں سے ہو سکے جو اللہ تعالی کو اس گھڑی میں یاد کرتے ہیں تو ہو جا۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، حدیث:3579)

ایک اور روایت میں  آپ ﷺ نے باری تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نزول کا وقت بھی بتایا، چنانچہ فرمایا:

 ’’اللہ تعالی ہر رات کو، جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے، دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: میں بادشاہ ہوں، صرف میں بادشاہ ہوں۔ کون ہے جو مجھے پکارتا ہے کہ میں اس کی پکار سنوں ؟ گون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اسے معاف کروں؟ وہ یہی اعلان فرماتا رہتا ہے حتی کہ صبح چمک اٹھتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: 758)

اور  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سلام عام کرو۔ کھانا کھلاؤ۔ صلہ رحمی کرو۔ اور جب لوگ سوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث : 23784)

اس حدیث میں سلام عام کرنے اور کھانا کھلانے کے ساتھ خاص طور پر قیام اللیل کا ذکر فرمایا کیونکہ یہ خلوت کی گھڑی ہے اور اس میں زیادہ دل جمی سے عبادت ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ کے سوا کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔

رسول اکرم ﷺقیام اللیل میں راحت اور سکون محسوس کرتے تھے اور اپنے رب سے مناجات کا شوق رکھتے تھے۔ اپنے مبارک چہرے کو اپنے خالق اور معبود کی رضا کی خاطر خاک آلود کرنا آپ کو اچھا لگتا اور اللہ اکیلے شہنشاہ کے حضور عجز و انکسار اور اس کی اطاعت سے آپ کو سکون ملتا۔

مدرسہ نبوت کے ایک شاگرد اور رسالت محمدیہ کی یونیورسٹی کے نابغہ روزگار امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ قیام اللیل کے بارے میں فرماتے ہیں :

إِذَا ما الَّيْلُ أَظْلَمَ كَابَدُوهُ

فَيَسْفِرُ عَنْهُمْ وَهُمْ رُكُوعُ

أَطَارَ الْخَوْفُ نَوْمَهُمْ فَقَامُوا

وَأَهْلُ الْأَمْنِ فِي الدُّنْيَا هُجُوعُ

 لَهُمْ تَحْتَ الظَّلامِ وَهُمْ سُجُودٌ

أَنِينٌ مِّنْهُ تَنْفَرِجُ الضُّلُوعُ

وَخُرْسُ بِالنَّهَارِ لِطُولٍ صَمْتٍ

عَلَيْهِمْ مِّنْ سَكِينَتِهِمْ خُشُوع

’’جب رات اندھیری ہو جاتی ہے تو وہ (قائم اللیل مسلمان ) اس کی مشقت اٹھاتے ہیں اور جب وہ رکوع میں ہوتے ہیں تو ان سے تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔ خوف ان کی نیندیں اڑا دیتا ہے تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ دنیا میں امن والے لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں۔ جب وہ سجدے کی حالت میں ہوتے ہیں تو گھٹاٹوپ اندھیروں میں ان کے اندر سے ایسی آہیں اٹھتی ہیں جن سے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ عبادت میں طویل خاموشی کی وجہ سے دن بھر خاموش رہتے ہیں اور سکینت و اطمینان کی وجہ سے ان پر خشوع طاری رہتا ہے۔‘‘

اللہ تعالی نے تہجد میں قیام کرنے والے کی تعریف کی ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا يَّحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ

يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ﴾

’’کیا (یہ مشرک بہتر ہے یا) جو رات کی گھٹڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت کرتا ہے، جبکہ وہ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے؟ کہ دیجیے : کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں ؟ بس عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘ (الزمر 9:39)

آپﷺ نے قیام اللیل اور علم کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے کیونکہ نفع بخش علم ہی آپ کو تہجد اور اللہ رب العالمین کی عبودیت پر آمادہ کر سکتا ہے۔

تہجد کے فضائل اور اس عظیم عمل پر ملنے والے اجر و ثواب کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

((عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلٰى رَبِّكُمْ وَمَكْفَرَةٌ السَّيِّئَاتِ وَمَنْهَاةٌ لِّلْإِثْمِ))

’’تم رات کا قیام لازم پکڑو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔ اور وہ (نماز تہجد ) تمھارے رب کے قرب کا ذریعہ ہے، برائیوں کو مٹا دینے والی اور گناہوں سے روکتی ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات عن رسول الله، حدیث: 3549)

آپﷺ لمبا قیام کرتے اور اس میں تلاوت کرتے۔ رکوع میں دیر تک تسبیحات کرتے۔ رکوع سے سر اٹھا کر دیر تک حمد و ثنا کرتے۔ سجدے میں دیر تک تسبیحات و دعا کا اہتمام کرتے۔ اللہ اللہ! یہ زندگی عبودیت، انابت اور اللہ واحد و قہار کے لیے خشوع و خضوع ہی سے ہے۔

آپﷺ نے ہمیں ترغیب دلائی کہ بیداری اور مکمل توجہ سے قیام اللیل کریں، نیند کے غلبے اور طبیعت کی سستی و کاہلی کی صورت میں تہجد نہ پڑھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَرْقُدْ حَتّٰى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلّٰى وَهُوَ نَاعِسٌ لَّعَلَّهُ يَذْهَبُ يَسْتَغْفِرُ، فَيَسُبُّ نَفْسَهُ))

’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں او لکھنے لگے تو وہ سو جائے حتی کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھتا ہے تو ممکن ہے وہ استغفار کرنے لگے لیکن اس کے بجائے اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حديث: 1835 )

آپﷺ نے واضح کیا کہ جس پر نیند اور تھکاوٹ کا اس قدر غلبہ ہو کہ اسے سمجھ ہی نہ آ رہا ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ آرام اور نیند پوری کر لے یہاں تک کہ وہ ہشاش بشاش ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی شخص رات کو قیام کرے اور اس کی زبان پر قرارت مشکل ہو جائے اور اسے پے پتہ نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو اسے لیٹ جانا چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث (787)

مسلمان کی سب سے خوبصورت کیفیت رب العالمین کے حضور سجدے والی ہے۔ اور جب یہ سجدہ رب تعالی کے حضور رات کی خلوت میں ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، اس طرح کہ بندے کا وجود خا کی زمین پر سجدہ ریز ہوتا ہے اور اس کی روح عجز و انکسار اور اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ رحمان کے عرش کے گرد طواف کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معترف ہو کر رب تعالی سے استغفار وسوال کر رہی ہوتی ہے۔

جب بھی آپ کو رب تعالیٰ کے قرب کی تڑپ ہو تو اپنے معبود یکتا کے حضور فوراً سجدہ ریز ہو جائیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب﴾ ’’اور سجدہ کریں اور اللہ کا قرب حاصل کریں۔‘‘ (العلق 19:96)

جب آپ بلند مراتب پر فائز ہونا چاہیں تو سجدے میں گر جائیں۔ جب رفعتوں کے طلب گار ہوں تو زمین پر گر کر اپنی ناک اللہ مالک و خالق کے سامنے خاک آلود کر لیں تو آپ کے لیے دروازے فوراً کھل جائیں گے۔ آپ کو وافر اجر و ثواب بھی ملے گا اور عذاب سے بھی نجات پائیں گے۔

…………..