محمدﷺ بحیثیت تواضع و انکسار کرنے والے
سیدنا محمد ﷺ اپنی ہدایت کے ساتھ کا ئنات کے افق پر ایسے طلوع ہوئے جیسے چاند اپنی آب و تاب سے دنیا پر چھا جاتا ہے، چنانچہ آپ نے اپنے رب کے حکم ﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ﴾ ’’اور مومنوں کے لیے عاجزی کا پہلو جھکائے رکھ۔‘‘ کی تعمیل کرتے ہوئے تمام لوگوں کے لیے تواضع و شفقت کے دریا بہا دیے اور اہلِ ایمان کے ساتھ خاص طور پر نرمی کا برتاؤ کیا۔
تواضع آپﷺ کی فطرت میں تھی۔ لوگوں کی اکثریت کے برعکس آپ بغیر تکلف اور بناوٹ کے تواضع اختیار کرتے تھے۔
آپ ﷺ کھانے، پینے، لباس اور چلنے پھرنے میں تواضع سے کام لیتے۔ اپنی گفتگو اور کردار سے بھی تواضع اختیار کرنے کی دعوت دیتے، چنانچہ آپﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ أَوْحٰى إِلَىَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِيْ أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ))
’’اللہ تعالی نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها، حديث: 2865)
آپ ﷺ اپنے صحابہ کو بھی تواضع اختیار کرنے کی ترغیب دیتے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ))
’’جو کوئی اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی اس کو ضرور رفعت و بلندی عطا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم البر والصلة، حديث: 2565)
نبیﷺ تکبر سے منع کرتے اور تکبر کرنے والوں سے نفرت کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’تکبر کرنے والوں کو انسانوں کی شکل میں چھوٹی چیونٹیوں کی طرح جمع کیا جائے گا۔ ذلت و حقارت ان پر ہر طرف سے چھا رہی ہوگی، یہاں تک کہ وہ جہنم کے بولس نامی قید خانے میں داخل ہو جائیں گے، وہاں ان پر آگوں کی آگ چڑھ آئے گی اور ان کو طینَةُ الْخَبَالِ، یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 6677)
کتنی بُری صورت ہوگی اور کس قدر گھناؤنا منظر ہوگا جو نبیﷺ نے تکبر کرنے والوں کے انجام کے بارے میں بیان کیا ہے! اس کا مقصد اللہ کے بندوں کو اس برے اخلاق اور گھٹیا وصف سے نفرت دلاتا ہے تا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار اور رب العالمین کے سامنے عجز و انکسار کرنے والے بندے بنیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ كِبْرٍ))
’’جس کے دل میں ذرا برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:91)
آپ ﷺ حدیث قدسی میں اپنے پروردگار سے بیان کرتے ہیں:
((اَلْكِبْرِيَاءُ رِدَانِي، وَالعَظَمَةُ إِزارِي، فَمَنْ نَّا زَعَنِي وَاحِدًا مِّنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ))
’’بڑائی میری اوپر کی چادر ہے اور عظمت میری نیچے کی چادر ہے، چنانچہ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کو بھی کھینچنے کی کوشش کرے گا (میرا شریک بننے کی کوشش کرے گا)) میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حديث: 4090)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص تکبر کرتا ہے، وہ صفات الٰہی میں سے ایک صفت زبردستی لینے کی کوشش کرتاہے کیونکہ کبریائی اور عظمت صرف اللہ وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ انسان تو نہایت کمزور مخلوق ہے، لہٰذا اسے اللہ واحد، جبار و قہار اور شہنشاہ کے سامنے مسکین اور عاجز بن کر رہنا چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعَّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بأهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُّسْتَكْبِرٍ))
’’کیا میں تمھیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ ہر کمزور و ناتواں نظر آنے اور سمجھا جانے والا لیکن اگر کسی بات پر قسم اٹھا لے تو اللہ تعالی اسے ضرور پورا کر دیتا ہے۔ اور کیا میں تمھیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں؟ ہر ایک سخت مزاج، بدخو اور تکبر کرنے والا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، التفسير، حدیث: 4918)
بعض شارحین نے ’’عُتُلٍّ‘‘ کا ترجمہ اکھٹر مزاج اور باطل پر ہوتے ہوئے سخت جھگڑا کرنے والا کیا ہے اور ’’جَوَّاظ‘‘ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو مال جمع کرے اور دوسروں کو نہ دے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد متکبرانہ چال چلنے والا ہے اور ’’مستکبر‘‘ سے مراد وہ ہے جو مخلوق الٰہی کو حقیر اور خود کو برتر سمجھے۔
اس حدیث میں نبیﷺ نے جنت میں جانے والوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ نرم دل ، نرم مزاج ، اپنے رب کے لیے انکسار سے کام لینے والے، اس کے جلال کے سامنے شکر گزاری کرنے والے اور اللہ کے بندوں کے لیے تواضع اختیار کرنے والے ہیں۔
آپﷺ کی تواضع اس شخص کی طرح ہے جو اپنے رب کی شان و شوکت کو جانتا ہے۔ اس کی عظمت سے حیا کرتا ہے۔ صحیح معنوں میں اس کی قدر کرتا ہے اور مال و جاہ اور عہدے کی حقارت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس کی روح اللہ کی طرف گامزن اور اس کا نفس آخرت کا راہی ہے۔ اس کی پسند دنیا والوں جیسی نہیں اور وہ حقیقت میں اپنے رب کا بندہ ہے۔ نبیﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ دوستوں کی طرح گھل مل کر بیٹھتے۔ آپ کی دوسرے لوگوں سے نمایاں کوئی خصوصی نشست نہیں تھی۔ کوئی اجنبی شخص آتا تو صحابہ کرام کے درمیان سے آپ کو پہچان نہ سکتا تھا۔ اسے آپﷺ کے بارے پوچھنا پڑتا تم میں سے محمدﷺ کون ہیں؟ جبکہ نبیﷺ ان کے سامنے ٹیک لگائے ہوتے۔‘‘ (صحيح البخاري، العلم، حديث: 63)
آپ ﷺنے اپنے صحابہ کے ساتھ تواضع کی زندگی بسر کی۔ آپ تھکاوٹ، مشقت، بھوک اور پیاس میں ان کے ساتھ شریک رہے۔ آپ پہلے صحابہ کو کھلاتے پلاتے ، پھر خود کھاتے پیتے۔ آپ فرماتے: ((سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُربًا)) ’’قوم کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حدیث:681)
صحابہ کرامﷺ نے آپ ﷺ سے پوچھا: لگتا ہے آپ نے بکریاں چراتی ہیں؟ آپ ﷺنے جواب دیا: ((نَعَمْ، وَهَلْ مِنْ نَّبِيِّ إِلَّا وَقَدْ رَعَهَا)) ’’ہاں، اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“ (صحيح البخاري، الأطعمة، حديث: 5453)
نبی ﷺ بڑے آرام ، سچائی اور تواضع سے اعتراف کرتے ہیں کہ میں نے بکریاں چرائی ہیں، حالانکہ آپ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز ہیں۔ اگر آپ کے علاوہ کوئی دنیا دار ہوتا تو اسے حقیقت کا اعتراف کرنا بڑا مشکل لگتا یا وہ بات گول مول کر جاتا۔ آپ کی عظمت شان اور اپنے رب کے لیے عجز و انکسار کے کیا کہنے!
یہ بھی آپ ﷺ کی تواضع تھی کہ جب آپ بچوں کے پاس سے گزرتے تو بڑے لطف و کرم سے انھیں سلام کرتے اور بڑی تواضع سے ان کی طرف متوجہ ہوتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور کہا: نبی ﷺایسے کرتے تھے۔ (صحيح البخاري، الاستئذان، حديث (6247)
آپ ﷺ انصار سے ملنے جاتے تو ان کے بچوں کو سلام کرتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے۔ (صحیح الجامع الصغير، حديث: 9078)
بلکہ آپ ﷺبچوں کے ساتھ کھیلتے اور ان سے مزاح بھی کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے پاس ایک چھوٹا سا بچہ آتا تھا اور اس کے پاس اس کی چھوٹی سی چڑیا ہوتی جس سے وہ محبت کرتا اور کھیلتا تھا اور اس سے الگ نہیں ہوتا تھا۔ نبیﷺ نہایت خندہ پیشانی، مسکراہٹ اور تواضع کے ساتھ اس سے ملتے۔ اس کی کنیت سے اسے بلاتے اور اس کی
مسکراہٹ اور تواضع کے ساتھ اس سے ملتے۔ اس کی کنیت سے اسے بلاتے اور اس کی چڑیا کا حال بھی دریافت کرتے۔ آپﷺ فرماتے: ’’اے ابو عمیر! تیری چڑیا نے کیا کیا؟‘‘ (صحیح مسلم، الأدب، حديث:2150)
جب وہ چڑیا مر گئی تو نبی اکرم ﷺ نے اس بچے کےساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ اس کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ وہ بچہ مسکرانے لگا اور اپنا غم بھول گیا۔
آپﷺ اپنی مدح سرائی ناپسند کرتے اور تعریف میں غلو کرنے سے منع کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے:
((لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ))
’’مجھے ویسے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسی ابن مریم علیہما السلام کو بڑھایا۔ میں تو بس اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہا کرو: آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث:3445)
آپﷺ اس بات کو نا پسند کرتے تھے کہ کوئی آپ کو دیکھ کر کھڑا ہو یا آپ ﷺ کے سر پر کھڑا رہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہیں نبی ﷺسے بڑھ کر کسی شخص سے محبت نہ تھی مگر وہ آپ کو دیکھ کر کھرے نہ ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپﷺ اسے پسند نہیں فرماتے۔ (جامع الترمذي، أبواب الأدب، حديث: 2754)
نبی ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپﷺدکھلاوے کو پسندکرتے نہ تکبر و غرور کو اچھا سمجھتے۔ آپ انتہائی درجے کی تواضع اختیار کرتے۔ کوئی آپ کا استقبال کرتا تو اسے بھی پسند نہ کرتے تاکہ تواضع اور عجز و انکسار میں آپ ضرب المثل بن سکیں۔ اور اس لیے بھی کہ آپ امت کے امام اور لوگوں کے لیے اسوہ ہیں۔ آپﷺ مجلس کے آخر میں بیٹھتے۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح گھل کل جاتے جیسے معاشرے کے عام فرد ہوں۔ لوگوں کی دعوت قبول کرتے اور فرماتے: ((لَوْ دُعِیْتُ إِلٰي ذِرَاعٍ أَوْ كُرَاعِ لَأَجَبْتُ))
’’اگر مجھے دستی یا پایوں کی دعوت دی جائے تو بھی میں ضرور قبول کر لوں۔‘‘(صحیح البخاري، الهبة و فضلها، حديث: 2568))
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ان کی نانی ملیکہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا۔ آپﷺ نے اس میں سے کچھ تناول کیا۔ پھر فرمایا: ’’کھڑے ہو جاؤ، میں تمہاری برکت کی خاطر نماز پڑھوں۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں کھڑا ہوا اور اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا جو لمبا عرصہ استعمال ہونے کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی۔ میں نے اسے صاف کرنے کے لیے اس پر پانی بہایا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے۔میں اور وہاں موجود ایک یتیم بچے نے آپ کے پیچھے صف بنائی۔ بوڑھی خاتون ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ رسول اللہ نے ہمارے حصولِ برکت کے لیے دورکعت نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ تشریف لے گئے۔( صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث:658)
بلا شبہ آپﷺ اور سید الانبیاء اور خاتم النبیین ہیں مگر تواضع کا عالم یہ ہے کہ دیگر انبیاء پر فضیلت کے اظہار میں بھی حیا محسوس کرتے ہیں، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ((لَا تُخَيِّرُ وْنِي عَلٰى مُوسَى))
’’مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فوقیت نہ دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الخصومات، حديث: 2411)
ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور اس نے کہا: اے تمام مخلوقات سے افضل شخصیت ! رسول اللہ ﷺ نے یہ
سن کر فرمایا: ”وہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث : 2369)
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریمﷺ سے مخاطب ہو کر کہا: اے ہمارے سردار! اور ہمارے سردار کے فرزند! اے وہ ذات جو ہم میں سب سے بہتر ہے اور ہم میں سب سے افضل کی اولاد ہے۔ نبی کریمﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ’’لوگو! تم معروف بات ہی کر لیا کرو اور ہرگز شیطان تمھیں غلو میں مبتلا نہ کر دے۔ میں محمد بن عبد اللہ ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اللہ کی قسم! میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالی نے مجھے جو مقام دیا ہے، تم مجھے اس سے اوپر لے جاؤ۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث: 12551)
آپﷺ اہلِ ایمان کے ساتھ نہایت عاجزانہ رویہ رکھتے تھے۔ مریض کی عیادت کرتے، مسکین کے ساتھ شفقت کرتے ، محتاجوں سے میل جول رکھتے ، کمزوروں کی داد رسی کرتے ، بچوں سے کھیلتے ، اہل و عیال سے مزاح کرتے ، لونڈی سے بات کرتے مٹی پر بیٹھ جاتے ، فرش پر سو جاتے ، ریت پر لیٹ جاتے اور چٹائی کو تکیہ بنا لیتے۔ آپ ﷺ اپنے رب سے خوش تھے، اس لیے نہ کبھی شہرت و مرتبہ کی طلب کی اور نہ کسی دنیاوی مقصد کو پیش نظر رکھا۔ آپ ﷺ عورتوں سے بڑی نرمی سے بات کرتے، اجنبی سے بڑی محبت سے ملتے، لوگوں کی دل جوئی کرتے اور اپنے ساتھیوں سے مسکرا کر ملتے۔ سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک آدمی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بات کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے رعب کی وجہ سے اس کے کندھے کا نپنے لگے۔ اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((هَوِّنَ عَلَيْكَ فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيْدَ))
’’گھبراؤ مت میں بادشاہ نہیں ہوں۔ میں تو ایک ایسی (عام سی غریب ) عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الأطعمة، حديث: 3312)
اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں کہ پوری انسانی تاریخ میں ایسا کوئی قائد، لیڈر، عظیم اور مشہور شخص گزرا ہے جس نے اس طرح کی بات کی ہو؟! آپ نے سید الکونین اور محبوب باری تعالی ہونے کے باوجود بڑے آرام، تواضع اور خوشی سے کہ دیا: ’’میں تو ایسی خاتون کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔‘‘ یہ اپنی جگہ سچ ہے لیکن آپ حوضِ کوثر ، مقا محمود، لواء احمد، شفاعت کبری، امام الانبیاء اور خاتم المسلمین کے اعزازات پانے والے بھی تو ہیں! آپ کی تواضع کا کوئی پہلو لے لیں۔ آپ کے جود و کرم اور طبعی سخاوت کا مطالعہ کریں اور آپ کا حسن معاشرت دیکھیں، پھر میرے ساتھ لمحہ بھر کے لیے امام اعظم اور نبی اکرم ﷺکو دیکھیں کہ آپ ﷺ نے کدال اٹھائی ہوتی ہے اور اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر نہ صرف خندق کھود رہے ہیں بلکہ کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر منقل کر رہے ہیں۔ میرے ساتھ اس منظر پر غور کریں جب آپ ﷺ کو مسجد کی صفائی کرنے والی ایک لونڈی نظر نہ آئی اور آپ کے استفسار پر اس کی موت کی خبر آپ کو دی گئی تو آپ اس وقت اس کی نماز جنازہ کے لیے اس کی قبر پر پہنچ گئے۔
ذرا آپ ﷺتواضع ملاحظہ کریں۔ بھوک کی شدت کے آثار چہرہ انور پر عیاں ہیں۔ آپ کو جو کی خشک سخت باسی روٹی پیش کی جاتی ہے تو آپ فقراء و مساکین کو شامل کیے بغیر کھانے سے انکار کر دیتے ہیں، پھر ان کے ساتھ زمین پر بیٹھتے ہیں اور بذات خود انھیں روٹی پیش کرتے ہیں۔
غور کریں کہ آپﷺ بھوک سے نڈھال ہیں اور دودھ کا تحفہ آپ کو پیش کیا جاتا ہے۔ آپ اس حال میں بھی صفہ کے طالب علموں کو یاد رکھتے ہیں، انھیں گھر بلاتے ہیں اور ایک ایک کو اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتے ہیں اور ان سب کے بعد خود نوش فرماتے ہیں۔
آپﷺ اپنے خادم کو کھانے کے ایک لقمے اور ٹکڑے میں بھی شریک کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ بوسیدہ چٹائی پر بیٹھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں بلکہ انھی مسکینوں میں سے ایک کو اپنا منہ بولا بیٹا تک بناتے ہیں، اگر چہ بعد میں منہ بولا بیٹا بنانے سے روک دیا گیا۔ اور انہی میں سے کسی کو دوست اور کسی کو مشیر خاص بناتے ہیں۔ آپﷺ نے مسکینوں سے محبت کی۔ طبقاتی نظام کے وہ سارے فرق ختم کر دیے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے نمایاں کرتے تھے۔ آپ نے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں دی۔ فضیلت کا ایک ہی معیار بتایا جو تقویٰ ہے۔ آپﷺ کا مؤذن حبشی، مشیر فارسی، دوست رومی اور ہمسایہ یہودی تھا۔
آپ ﷺنے فرمایا:
’’اے لوگو! خبر دارا بے شک تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں مگر تقوی کی بنیاد پر‘‘ (مسند أحمد، حديث: 23489)
آپ ﷺکی تواضع اور عجز وانکسار کا عالم یہ تھا کہ آپ عام لوگوں جیسا کھانا کھاتے۔ اپنے لیے کوئی خاص کھانا یا دستر خوان نہیں رکھا۔ سب کے ساتھ مل کر کھاتے۔ کبھی جو کی روٹی اور سوکھ کھجور میں کھا لیتے اور اُف تک نہ کرتے بلکہ نہایت خوشی سے تناول کرے اور اللہ کا شکر ادا کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَإِذَا سَقَطَتْ مِنْ أَحَدِكُمُ اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى، ثُمَّ لْيَأْكُلْهَا، وَلَا يَدَعْهَا الشَّيْطَانِ، فَإِذَا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِيْ فِي أَيِّ طَعَامِهِ تَكُونُ الْبَرَكَةُ))
’’جب تم میں کسی سے لقمہ گر جائے تو جو کچھ اسے لگ گیا ہے، اسے صاف کر کے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ اور جب کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ اسے پتہ نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الأشرية، حديث: 2033)
بلاشبہ اس ہدایت نبوی میں ہر متکبر اور نخوت والے کے لیے سبق ہے جو کھانا زمین پر گرنے کے بعد اسے اٹھا کر کھانے کو اپنی تو ہین سمجھتا ہے اور تکبر کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتا ہے۔ نبیﷺ کتنے عظیم ہیں، کس قدر زیادہ اپنے رب کے شکر گزار ہیں اور اپنے مولا کی نعمتوں کی کسی قدر معرفت رکھنے والے ہیں ! یہ نبوت ہے جو اپنی خوبصورت اور پر رونق شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
مَلَأَى السَّنَابِلِ تَنْحَنِي بِتَوَاضُعٍ
وَالْفَارِغَاتُ رُؤُوسُهُنَّ شَوَامِخُ
’’گیہوں وغیرہ سے بھرے ہوئے خوشے تواضع کے ساتھ جھکے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ خالی خوشوں کے سر اوپر کو اٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ آپﷺ کی تواضع ہی تھی کہ مدینہ کی ایک لونڈی آپ کے پاس آتی ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی ہے، آپ کو ساتھ لے جاتی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ انھوں نے فرمایا : آپﷺ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ ﷺکا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی، لے جاتی۔ (صحيح البخاري، الأدب، حديث : 8072)
کیا تم نے دل سے کبھی اس منظر پر غور کیا اور اپنے خیالات و اذہان میں اس کا تصور کیا ہے؟!
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ نقص تھا۔ ایک دن وہ کہنے لگی: اللہ کے رسول ! مجھے آپﷺ سے کام ہے۔ آپ ﷺ نے بہت شفقت اور احترام سے فرمایا: ((يَا أُمَّ فَلَانٍ ! اُنْظُرِيْ أَيَ شِئْتِ، حَتّٰى أَقْضِي لَكِ حَاجَتَكِ)) ’’اے ام فلاں ! دیکھو، جس گلی میں تم چاہو (کھڑی ہو جاؤ) میں وہاں آکر تمھارا کام کر دوں گا۔ آپ ایک راستے میں اس سے الگ ملے، یہاں تک کہ اس نے اپنی داستان سنائی۔‘‘ (صحیح مسلمة الفضائل، حدیث: 2326)
غور کریں کہآپﷺ کس قدر تواضع ، انکسار اور اپنائیت سے ایک ایسی عورت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جو کم عقل ہے اور وہ آپﷺ سے اپنی مرضی کا وعدہ لیتی ہے۔ جگہ اور وقت کا تعین بھی خود کرتی ہے۔ آپﷺ اپنی تمام تر مصروفیات اور رسالت کی ذمہ داریوں کے باوجود اس کا مطالبہ تسلیم کرتے ہیں۔ طے کردہ وقت کے مطابق اس کی بتائی ہوئی جگہ پر جاتے ہیں، پوری توجہ سے اس کی بات سنتے ہیں اور نہایت تواضع اور نرمی سے اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ کثرت سے ذکر اذکار کرتے تھے اور ضرورت سے زائد کلام کم ہی کرتے تھے۔ نماز بھی پڑھتے اور خطبہ مختصر رکھتے تھے۔ اور کسی بے سہارا اور بیوہ خاتون اور مسکین شخص کے ساتھ جا کر اس کا کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث: 1415)
ایک اور شاندار اور حیرت انگیز منظر ملاحظہ کریں۔ آپﷺ اپنے منبر پر خطبہ دے رہے۔ لوگوں کو وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری ہے کہ سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے لخت جگر سید نا حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ انھوں نے ایک لمبی قمیص پہن رکھی ہے اور لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ اپنا خطبہ روک کر منبر سے اترتے ہیں اور سید نا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو اٹھانے کے لیے جاتے ہیں تاکہ اسے اپنے پاس بٹھا ئیں۔
فرض نماز کا وقت ہے۔آپ ﷺ مسلمانوں کے نماز اور زندگی میں امام ہیں۔ نماز کی اقامت ہو چکی ہے اور نبی ﷺ کی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے پاس ہیں۔ ان کی والدہ بیٹی کو نانا کے پاس چھوڑ کر کسی کام سے چلی گئی ہیں۔ نبی اکرمﷺ نو اسی کو کندھے پر اٹھائے مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح تکبیر کہتے ہیں اور لوگوں کی امامت شروع کرا دیتے ہیں۔ جب سجدے میں جاتے ہیں تو اسے بٹھا دیتے ہیں اور جب کھڑے ہوتے ہیں تو دوبارہ اٹھا لیتے ہیں۔
آپ ﷺ نہایت محبت سے بچوں کو اٹھاتے۔ انھیں سینے سے لگاتے۔ ان کے ساتھ لاڈ پیار کرتے اور نرمی سے تعلیم دیتے۔ بوڑھی عورتوں سے ملنے ان کے گھر جاتے۔ ان کے ہاں کھانا کھاتے۔ ان سے باتیں کرتے اور انھیں خوش کرتے یہاں تک کہ ان کا گھر سعادت اور خوشیوں سے بھر جاتا۔
آپ ﷺ مسکینوں، عام لوگوں اور خادموں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ ایک دستر خوان پر جو کی روٹی کھاتے۔ آپ ان سے ایسے باتیں کرتے جیسے گھر کے فرد ہوں۔ ان کے آپ کے ساتھ گزرے یہ لمحات ان کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے۔
آپ ﷺ گھر والوں کی ضرورت پوری کرتے۔ اپنے جوتے گانٹھ لیتے۔ کپڑے کی لیتے۔ گھر کی صفائی کر لیتے اور بکری کا دودھ دوہ لیتے۔ جب ایک آدمی نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا: آیا اللہ کےرسول ﷺ کی اہم گھر میں کوئی کام کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں،آپ ﷺ اپنے جوتے خود مرمت کر لیتے۔ کپڑے کو پیوند لگا لیتے اور گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کاج کرتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث :25341)
آپﷺ مہمان کو کھانا پیش کرتے۔ آنے والے کو خوش آمدید کہتے۔ ان کے حالات کی خبر گیری رکھتے اور سفر میں اپنی باری پر سوار ہوتے۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے ، جس پر علاقہ فدک کی بنی ہوئی موٹی چادر ڈالی گئی تھی اور مجھے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ (صحیح البخاري، التفسير، حديث : 4566)
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے فضل بن عباس بات کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حديث: 6228)
نبی ﷺ اونی کپڑے پہنتے۔ جو کی روٹی کھاتے، کبھی ننگے پاؤں چلتے اور کبھی مسجد میں سو جاتے۔ آپﷺ کمزور سے تعاون کرتے۔ سفر میں قافلے کے آخر میں چلتے تاکہ کسی بچے کچھے محتاج کی مدد کریں اور اکیلے رہ جانے والے کو ساتھ لے کر آئیں۔ مریضوں کی تیمار داری کرتے۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے۔ جاہلوں کو تعلیم دیتے۔ نافرمانوں کی راہنمائی کرتے۔ لشکروں کے حوصلے بڑھاتے۔ یتیموں کی کفالت کرتے۔ بے گھروں کو ٹھکانا دیتے اور مصیبت زدہ لوگوں کو تسلی دیتے۔آپ ﷺ سب کے ساتھ شفیق و رحیم باپ جیسا سلوک کرتے۔ آپ امت کے لیے انصاف پسند قائد اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ تھے۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم! ہمیں سفر و حضر میں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ ﷺ ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے۔ ہمارے جنازوں میں شرکت کرتے۔ ہمارے ساتھ مل کر لڑائی کرتے اور کوئی چیز تھوڑی ہوتی یا زیادہ، آپﷺ اس میں ضرور شریک کرتے۔ (مسندأحمد، حديث: 504)
آپ ﷺ نے اپنی تواضع سے قیامت تک کے لیے ایک ضابطہ بنا دیا اور اس حوالے سے رب العالمین کی طرف سے سب سے بڑا پیغام پہنچایا کہ دنیا میں کوئی چیز کتنی ہی بلند ہو یا اپنی چمک دمک سے لوگوں کو دھوکا دے، بالآخر اسے ختم ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ؕ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠۸۸﴾
’’اس (اللہ) کے چہرے کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، اس کی حاکمیت و فرمانروائی ہے اور تم (سب) اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ (القصص 88:28)
سید نا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسو ل للہﷺ کی ایک اونٹنی تھی جسے عضباء کہا جاتا تھا کوئی جانور بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ ایک دیہاتی اپنے اونٹ پر سوار آیا اور اس سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بہت شاق گزرا اور کہنے لگے: افسوس عضباء پیچھے رہ گئی۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ لَّا يَرْفَعَ شَيْئًا مِّنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ))
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے خود پر یہ لازم کر لیا ہے کہ دنیا میں وہ کسی چیز کو بلند کرتا ہے تو اسے نیچے بھی لاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث: 6501)
یقینًا یہ ساری صورت حال رسول اکرمﷺ نے صرف ایک کھلے اللہ تعالی نے خود پر لازم کر لیا ہے کہ دنیا میں وہ کسی چیز کو بلند کرتا ہے تو اسے نیچے بھی لاتا ہے۔ میں بیان کر دی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ہر دنیاوی منظر کا اختتام ہوتا ہے اور ہر جاذب نظر چیز فنا کی طرف گامزن ہے اور باقی صرف وہی رہے گا جو اللہ عز وجل کے لیے ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے:
((أَلا كُلُّ شَيْءٍ مَّا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ
وَكُلُّ نَعِيمٍ لَّا مَحَالَةَ زَائِلُ
’’خبر دارا اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے اور ہر نعمت ضرور زائل ہونے والی ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے ہمیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا ہے:
﴿ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾
’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی (وقار اور عاجزی) سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں: سلام ہے۔‘‘ (الفرقان 63:25)
چال ڈھال، وقار اور تواضع کے آداب آپ ﷺ کی سیرت کے وہ پہلو ہیں جو آپ کے رب نے آپ کو سکھائے اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو سکھائے ہیں۔
نبیﷺ نے ہمیں اپنے رب کا سب سے خوبصورت خطاب اور سب سے عظیم نصیحت پہنچائی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۳۷﴾
’’بلاشبہ تو نہ تو بھی زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘ (بنی اسراءیل 37:17)
آپ ﷺ کے بتائے ہوئے نہایت اعلیٰ ادب اور راہنمائی میں رب تعالی کا وہ فرمان بھی ہے جو لقمان علیہ السلام کے حوالے سے ہے جس کی تاکید انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی:
﴿ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠﴾
’’اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘ (لقمان (19:31)
یہ ایمانی تربیت اور ہدایت نبوی ہے کہ ہیئت، چال ڈھال، گفتگو اور دیگر معاملات میں تواضع اختیار کی جائے۔ ن میں کی میں اپنے بارے میں کہتا ہوں کہ کئی دفعہ بشری کمزوری غالب آئی اور دل میں خیال آیا کہ اس پروگرام میں مجھے صدارت کی کرسی اور نمایاں نشست پر ہونا چاہیے، پھر میں نے نبی اکرم ﷺکی بلند قدر و منزلت اور تواضع کے بارے میں سوچا تو خود کو ملامت کی کہ میں تو آپ ﷺکے نوکروں سے ہزار ہا درجے کم حیثیت ہوں۔ پھر میں آپ ﷺ کا تصور کرتا ہوں کہ آپ کمزوروں کے ساتھ ملتے جلتے تھے۔ فقراء کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ اپنی عظمت اور رعب و دبدبہ کے باوجود عجز و انکسار اختیار کرنے والے تھے اور آپ تک رسائی نہایت آسان تھی۔
جب میں کسی یتیم کو دیکھتا ہوں تو مجھے یتیموں کے غمخوار یاد آ جاتے ہیں۔ کسی مسکین کو دیکھتا ہوں تو میرا ذہن فوراً مسکینوں پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے نبی ﷺ کی طرف چلا جاتا ہے۔ کسی موقع پر دوست احباب کی جس محفل و مجلس میں کبھی تواضع اور سادگی کا ذکر ہوتا ہے، ہم رسول اللہﷺ کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم پرانی کار پر سوار ہوئے تو کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا۔ ہم نے کہا: اولاد آدم کے سردارﷺ نے گدھے پر سوار ہوئے۔ اگر ہم صحرا میں جائیں اور بیٹھنے کے لیے قالین نہ ہو اور ہم ریت پر بیٹھ جائیں تو ہم کہیں گے: مخلوق کے سب سے عزت دار انسان ﷺ ریت پر بیٹھے۔ مٹی پر بیٹھ کر کھا لیتے اور مٹی پر سوئے۔ ہماری کیا حیثیت ہے؟ اگر کھانا کم ہو یا ہماری مرضی کا اعلیٰ نہ ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خاتم الانبیاء ﷺنے جو کی روٹی اور عام سی کھجور میں کھائی ہیں۔ گویا آپ اپنی تواضع کے ذریعے سے ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ آپ نے ہماری راہنمائی اور تعلیم و تربیت کی ہے۔ دل میں جب تکبر آنے لگے یا سرکشی کے جذبات پیدا ہونے لگیں تو ہمیں چاہیے کہ فورا اللہ کے حبیب، خلیل اور مخلوق میں سب سے برگزیدہ محمد بن عبداللہ ﷺ کو یاد کریں۔ جب تک زبان آپ ﷺکا تذکرہ کرتی رہے، آپ کی خبر میں قافلوں میں گردش کرتی رہیں اور جن و انس آپ کی باتیں بیان کرتے رہیں، آپ پر مسلسل درود و سلام ہوں۔
……………..