محمدﷺ کی خیر و برکت

میں اس کی عظمت کے متعلق کیا کہوں جس نے دنیا کو برکت سے بھر دیا، انسانیت پر رحمت کے دریا بہا دیے اور زندگی کو نور سرور اور فرحت سے شادماں کر دیا ؟!

میں اس ہستی کی کیا شان بیان کروں جس کی بعثت کے بعد دنیا میں جس کو بھی برکت نصیب ہوئی، وہ آپ کے جود وسخا کے سمندر کا ایک قطرہ اور آپ کی عنایات کے سورج کی ایک کرن ہی ہے ؟!

میں اس کی فضیلت کے متعلق کیا کہوں جس کی برکت سے زمان و مکان اور انسان آباد ہیں۔ آپ کی برکت زمین کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب تک پہنچی جسے لوگ نسل در نسل اپنے آباء و اجداد سے حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں اور دنیا کے ہر کونے اور شہر میں لوگ دن رات اس برکت سے فیض پا رہے ہیں؟!

میں اس کے متعلق کیا کہوں جو ایک کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے تو اللہ اسے ایسی برکت دیتا ہے کہ اس کی توضیح و تشریح میں کئی رجسٹر بھر جاتے ہیں اور وہ لا تعداد منبروں اور محرابوں کو زینت بخشتا ہے؟!

میں اس مبارک رسولﷺ کے بارے میں کیا کہوں جس پر میرے ماں باپ قربان ہوں ؟! آپ ہر زمان و مکان میں ایسے بابرکت ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ جیسی برکت پوری کائنات میں کسی کو نہیں دی۔ آپ کی ذات سراپا برکت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے برکت آپ کے ساتھ پیدا ہوئی اور آپ کی بعثت کے ساتھ پھیل گئی۔

آپ ہی وہ مبارک شخص ہیں جنھوں نے انسانوں کو رحمن کی عبادت کی راہ دکھائی۔ نفوس کو پکارا تو وہ آپ کے نور ہدایت سے چمک اٹھے، روحوں سے مخاطب ہوئے تو وہ آپ کی راہنمائی کی روشنی سے بیدار ہو گئیں، نسلوں کو آواز دی تو وہ بزرگی کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگیں اور آپ ﷺ امت میں مبعوث ہوئے تو وہ سعادت کی راہوں پر چل کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگی۔

آپﷺ ہی وہ مبارک ہستی ہیں جنھوں نے مسجدوں کو آباد کرنے کا حکم دیا تو وہ نمازیوں سے بھر گئیں۔ علم کی طرف راہنمائی کی تو مدارس علماء سے بھر گئے، عدل کا محل تعمیر کیا توظلم کے قلعے اور جبر سرکشی کے محلات زمین بوس ہو گئے۔ آپ ہی کی برکت سے جزیرہ نمائے عرب سے بت پرستی، جہالت، بری عادات اور فواحش کا خاتمہ ہوا۔ مسجد و محراب اور ایمان و یقین کا بول بالا ہوا۔ شرک کی دلدل میں پھنے جوانوں کو تعلیم افراد اور دلیر و بہادر بنا دیا۔ عرب کو تہذیب و تمدن کا گہوارہ، رسالت کا مرکز، نور کا سر چشمہ اور امت کا قبلہ بنا دیا۔

آپﷺ ایسے مبارک ہیں کہ مریض پر ہاتھ رکھتے تو وہ اللہ کے حکم سے شفا یاب ہو جاتا۔ پانی میں ہاتھ ڈالتے تو وہ اللہ کے فضل سے میٹھا چشمہ بن کر بہنے لگتا۔ کھانے کو ہاتھ لگاتے تو وہ اللہ کے فضل و احسان سے مزید بڑھ جاتا۔ چشم آشوب پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے نور سے دیکھنے لگ جاتی۔ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے تو موسلادھار بارش شروع ہو جاتی اور بیمار شخص کے سینے پر ہاتھ رکھتے تو وہ راحت و اطمینان اور سکون سے پر ہو جاتا۔

آپ ﷺکا کلام بھی مبارک ہے۔ آپ نے کوئی کتاب پڑھی نہ کسی استاد سے سیکھا اور نہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھا۔ آپ ﷺکی احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ دیکھ لیں جو صحاح، سنن، مسانید اور معاجم کی صورت میں سیکڑوں جلدوں پر مشتمل ہیں۔ آپ کی احادیث نے انسانی افکار و نظریات کو روشنی بخشی۔ انسانیت کے لیے زندگی گزار نے کے درست اصول و ضوابط متعین کیے۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے کلام اور احادیث میں ایسے اسرار اور برکتیں رکھی ہیں جو کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی  نہیں ہوتیں۔ بلا شبہ آپ ﷺ کی زبانِ اطہر سے نکلے ہوئے ایک چھوٹے سے جملے میں بھی وہ اسرار و رموز اور نکات پائے جاتے ہیں جنھیں کوئی دوسرا شخص ہزاروں کتابوں میں بھی بیان نہیں کر سکتا۔

آپ ﷺکے فرامین میں موجود نصیحتوں، اسباق اور فصاحت و بلاغت سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کے ایک ایک خطبے کو اللہ تعالی نے ایسی تاثیر، نفع اور برکت دی ہے کہ اس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔

زندگی کے ہر معاملے میں آپﷺ کے جمع کلمات عمومی قواعد وضوابط کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ آپ کی صرف ایک حدیث کی شرح میں مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے جیسا کہ حدیث  ’’كَلِمَتَانِ خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ‘‘ اور سید الاستغفار وغیرہ کی شرح میں پوری پوری کتا بیں موجود ہیں۔

آپ ﷺ کی رسالت ایسی مبارک ہے کہ اس سے اربوں لوگ راہ ہدایت پاچکے ہیں جن میں علماء، قاضی، فقهاء، مفسرین، دانشور، داعی اور مفتی حضرات شامل ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ آپ ﷺ کیمبارک رسالت سے اللہ تعالی نے مردہ دلوں کو زندہ کیا، اندھی آنکھوں کو بصارت دی اور بہرے کانوں کو سننے کی قوت بخشی۔

آپ ﷺکی رسالت وہ مبارک رسالت ہے جس نے ضمیروں کو پاک کیا۔ ذہنوں کو درست کیا۔ دلوں کی اصلاح کی۔ اتفاق و اتحاد کا درس دیا۔ عدل و انصاف کا بول بالا کیا۔ فضیلت کو رواج دیا اور اعلیٰ روایات کی بنیاد ڈالی۔

آپ ﷺکی مبارک رسالت کے ساتھ اللہ تعالی نے لوگوں کے مال و جان اور عزت و آبرو کو محفوظ کیا۔ رشتہ داریوں کو جوڑا۔ یتیموں کی کفالت کا انتظام کیا اور اس کی برکت سے فقراء و مساکین اور مجبوروں پر لطف و کرم کیا۔

آپ ﷺکی مبارک رسالت نے امت کو نجاست سے پاک کیا اور ظلم سے نکال کر عدل کی راہ دکھائی۔ طبقاتی نظام ختم کر کے مساوات کا درس دیا۔ فقیری سے مالداری، وہم سے حقیقت اور بت پرستی سے توحید کی شاہراہ پر گامزن کیا۔

رسالت محمد یہ وہ با برکت رسالت ہے جو آپ کو مسجد میں خشوع و خضوع، یونیورسٹی میں علم و فہم، منبر پر خطابت و تاثیر، مناروں پر حجت و اعلان، میدان حیات میں عمل و اتقان، زراعت میں محصولات اور زکاۃ، تجارت میں بڑھوتری اور برکت، دل میں اطمینان وسکون، عقل میں بصیرت و ہدایت اور خاندان میں محبت و الفت اور اتفاق و اتحاد سے نوازتی ہے۔

آپﷺ کی مبارک رسالت قیامت تک کے لیے دائی ہے جس نے امت کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا اور علم کی روشنی عطا کی، چنانچہ علماء کے علم، حکیموں کی حکمت اور قاضیوں کے فیصلوں کا انحصار اسی علم نبوی پر ہے۔ مدارس و جامعات اسی بنیاد پر قائم ہیں۔ عقلیں اس سے روشنی حاصل کر رہی ہیں۔ یہ امت نسل در نسل اسی مبارک علم سے فیض یاب ہو رہی ہے جو آپﷺ چھوڑ کر گئے اور جس کے بارے میں آپ نے فرمایا:

’’بلا شبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے ورثے میں درہم و دینار نہیں چھوڑے۔ انھوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے۔ جس نے اسے حاصل کر لیا، اس نے بڑا نصیبہ (وافر حصہ) پایا۔‘‘ (سنن أبي داود، العلم، حديث: 3641)

کون سی ایسی رسالت یا دعوت ہے جس کی برکت اس درجے تک پہنچی ہو ؟!

آپﷺ کی کتاب بھی مبارک ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے کریم نبی ﷺ پر نازل کردہ عظیم کتاب کی برکت کو کھلے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:

﴿ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝﴾

’’(یہ قرآن) ایک عظیم کتاب ہے۔ ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا۔ بڑی برکت والی ہے، تاکہ وہ اس کی آیتوں پر غور کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘  (ص 29:38)

قرآن کریم کی تلاوت کرنا بھی بابرکت ہے۔ اس پر غور وفکر کرنا بھی بابرکت ہے۔ اس پر عمل کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا بھی بابرکت ہے۔ یہ ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اس کے ایک حرف کی تلاوت پر اس سے کئی گنا  تک نیکیاں ملتی ہیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلٰكِن ألِفٌ حَرْفٌ وَّلَامٌ حَرْفٌ وََمِيْمٌ حَرْفٌ))

’’جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھتا ہے تو اسے اس کے عوض ایک نیکی ملے گی اور نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب فضائل القرآن، حديث (2910)

اس کتاب کی تلاوت کی برکت یہ ہے کہ جو شخص اسے تدبر سے پڑھے، اسے نور بصیرت، اطمینان قلب، شرح صدر، مال و جان میں برکت اور دینی و دنیاوی تمام امور میں استقامت نصیب ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ ﴾

’’بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔‘‘  (بنی اسرائیل 9:17)

قرآن کریم پر غور و فکر کرنے والا صحیح منہج اور صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس عظیم کتاب کی برکت سے گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوتا ہے اور نہ آخرت میں بد بخت ہوگا جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰى﴾

’’جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشقت میں پڑے گا۔‘‘ (طہٰ 123:20)

یہ قرآن کی برکت ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِّأَصْحَابِهِ))

’’قرآن مجید پڑھا کرو، بلاشبہ یہ قیامت کے دن اپنے ساتھیوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حديث (804)

قرآن مجید اپنے پڑھنے والوں کو جنت میں بلند درجات پر فائز کرائے گا، چنانچہ قرآن کے قاریوں سے کہا جائے گا:

((اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا))

’’پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور اسی طرح ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ بلا شبہ تیری منزل اس کی آخری آیت ہوگی جو تو پڑھے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1464)

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

((اَلْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ البَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَّهُ أَجْرَانِ))

’’قرآن مجید کا ماہر قرآن لکھنے والے، انتہائی معزز اور اللہ کے فرماں بردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو انسان قرآن مجید پڑھتا ہے اور ہکلاتا ہے اور پڑھنا اس کے لیے مشقت کا باعث ہے، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 798)

یہ قرآن کی برکت ہے کہ جس گھر میں اس کی تلاوت ہو، وہ گھر محفوظ و مامون اور سعادت والا بن جاتا ہے اور شیطانوں کو اس گھر سے دور کر دیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے سورہ بقرہ کے حوالے سے بتایا ہے:

((إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ))

’’بلاشبہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرين، حديث (780)

اسی طرح اس قرآن کی برکت سے غم اور پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ انسان اللہ کے حکم سے حسد، نظر بد اور شیطانی اثرات سے محفوظ رہتا ہے اور اس میں کئی بیماریوں کی شفا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (بني إسرائيل 82:17)

’’اور ہم قرآن میں سے جو نازل کرتے ہیں، وہ مومنوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے۔‘‘

قرآن مجید جس مجلس میں پڑھا جائے، وہاں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((…. مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِيْ بَيْتٍ مِّنْ بُيوْتِ اللهِ، يَتْلُوْنَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَا رَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَقَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عنده ….))

’’…اور اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا ہو کر قرآن کی تلا تلاوت کرتا اور اسے پڑھتا پڑھاتا ہے تو ان پر اطمینان وسکون کا نزول ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2699)

قرآن مجید کے بابرکت ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے انوار اور اسرار و رموز کبھی ختم ہوتے ہیں نہ ماند پڑتے ہیں۔ اس کے نزول کو چودہ سو سال کا طویل عرصہ گزر چکا مگر علماءآج بھی اس سے علم کے موتی اور گوہر نایاب چنے میں مصروف ہیں۔ قرآن آج بھی تروتازہ ہے۔ دنیا اس کے عجائبات و معجزات سے مسلسل مستفید ہو رہی ہے۔ عقلیں اس کے علوم و اکتشافات پر دنگ ہیں۔ علم کے ہر شعبے میں تفاسیر کی کثرت کے باوجود قرآن مجید پر نسل کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔ ہر دور میں ہر طرح کے حالات و واقعات سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے مبارک ہے اور یہی اس کی عظمت، بقا اور غلبے کا راز ہے۔

آپﷺ اپنے صحابہ کے لیے بھی مبارک ہیں۔ دنیا میں کوئی امام، لیڈر یا قائد ایسا نہیں جس نے اپنے ساتھیوں پر اتنے اچھے اثرات اور برکات چھوڑی ہوں جیسی رسول اکرم ﷺنے چھوڑی ہیں۔ آپﷺ کی برکت سے وہ بکریوں کے چرواہوں سے امت کے قائد، بتوں کے پجاریوں سے اسلام کا پرچم لہرانے والے اور بت پرستی چھوڑ کر انسانیت کی راہنمائی کرنے والے بن گئے۔ وہ گمنام تھے، آپ نے انھیں چمکتے سورج اور دمکتے ستارے بنا دیا۔

آپ ﷺکی بعثت سے پہلے وہ جاہلیت اور علم کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ کی نبوت ورسالت کی برکت سے وہ علماء و دانشور، ائمہ و پیشوا، فاتحین و مجددین اور صالحین و موحدین بن گئے۔

آپ ﷺکی برکت کا سایہ پڑنے سے پہلے وہ گمراہی کی وادیوں میں گم تھے۔ بے راہ بھٹک رہے تھے۔ بے حیثیت و حقیر ہو کر وہم کے صحراء میں حیران و پریشان تھے۔ نبوت کی روشنی پڑی تو انھوں نے اللہ کے فضل سے صحراؤں کو عبور کیا، سمندروں کا جگر چیرا اور اللہ واحد و قھار کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے دن رات کا فرق کیے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔

اگر اللہ تعالی اس عظیم نبی کو نہ بھیجتا تو تاریخ میں ان کا نام ونشان تک نہ ہوتا۔ عزت و شرف اور قیادت و حکمرانی ان کو نصیب نہ ہوتی۔ بلاشبہ وہ قیامت تک خیر اور بھلائی کے ہر کام میں ان کے امام و پیشوا بن گئے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ صداقت کے امام، عمر رضی اللہ تعالی عنہ عدل کے امام، عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حیا کے امام علی رضی اللہ تعالی عنہ قضا کے امام ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ قراءت کے امام، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تفسیر کے امام، حسان رضی اللہ تعالی عنہ شعر کے امام اور زید رضی اللہ تعالی عنہ فرائض و وراثت کے امام بن گئے۔ یہ تمام اعزازات انھیں نبی ﷺکی برکت سے نصیب ہوئے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پر آپﷺ کی برکت سے بڑھ کر اور کون سی برکت ہو سکتی ہے ؟!

آپ ﷺ کی زندگی بھی مبارک ہے۔ اللہ تعالی نے آپﷺ کی عمر اور دن رات میں برکت ڈالی۔ آپ نے صرف تیئیس سال رسالت کا پیغام پہنچایا اور اس مختصر عرصے میں فتح و نصرت، نفع و علم اور ایمان و اصلاح کا وہ کام کیا جو کوئی دوسرا شخص صدیوں میں بھی نہ کر سکا۔ آپ ﷺ نے اس مختصر وقت میں رسالت کا پیغام پہنچایا۔ امانت ادا کر دی۔ قرآن کی تعلیم دی۔ سنت کو عام کیا۔ کفر کا خاتمہ کیا۔ عدل کی ریاست قائم کی۔ انسانی تاریخ کی سب سے عظیم تہذیب کا نفاذ کیا۔ دنیا کو علم سے بھر دیا۔ آپ ﷺ کے ذریعے سے اللہ نے کئی قوموں کو ہدایت دی اور انھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا۔

اگر آپ اس مختصر مدت کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کریں تو یقیناً یہ دیگر لوگوں کے ہزاروں سال سے زیادہ برکت والی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺ کی عمر کے ایک گھنٹے کو دیگر لوگوں کے سال بلکہ سوسیال سے زیادہ با برکت بنایا۔

آپﷺ کی زندگی کے ایک دن کی برکت ملاحظہ کریں۔ یہ آپ ﷺکے حجتہ الوداع کا یوم آخر ہے۔ اس دن آپ ﷺفجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھتے ہیں، پھر اللہ کا ذکر کرتے اور دعا و تلبیہ پکارتے ہوئے منٰی کی طرف جاتے ہیں۔ لوگوں کو حج کا طریقہ اور مسائل بتاتے ہیں۔ جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) کو پتھر مارتے ہیں، سر کے بال منڈاتے ہیں، قربانی کرتے ہیں، مسجد الحرام کی طرف جاتے ہیں اور طواف کرتے ہیں، پھر ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مسلسل راہنمائی بھی کرتے ہیں۔ طویل مسافت، لوگوں کا ہجوم سخت گرمی اور لوگوں کے سوالات کے جوابات اور نقل و حمل کے لیے سواری بھی اونٹنی کی۔ پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺکی عمر اور زندگی کے لمحات میں اتنی برکت ڈالی۔

آپﷺ کی دعا بھی مبارک ہے۔ آپ ہاتھ اٹھاتے تو آسمانوں کے دروازے کھل جاتے۔ آپ کی دعا بغیر کسی رکاوٹ کے اللہ کے عرش تک پہنچ جاتی۔ آپ اپنے معبود و خالق کے حضور ہاتھ اٹھاتے اور اپنے خلیل و مولا کو پکارتے تو لمحہ بھر میں آپ کی دعا قبول ہو جاتی۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرمﷺ سخت گرمی میں منبر پر کھڑے ہوئے تو آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آپﷺ نے اللہ سے بارش کی دعا کی تو فوراً اس قدر موسلا دھار بارش شروع ہوگئی کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی۔ بارش ایک ہفتہ جاری رہی، بالآخر آپ نے اپنے رب سے دعا کی کہ اسے پہاڑوں کی چوٹیوں، ندی نالوں اور جنگلوں میں لے جا (تو بارش تھم گئی )۔ کئی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اس  کے عینی گواہ ہیں اور ثقہ راویوں نے اسے روایت کیا ہے۔

ایک رات آپﷺ سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے اپنی مبارک دعا کرتے ہیں جبکہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ابھی بچے تھے۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ((اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ)) ’’اے اللہ اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حديث: 143)

اس دعا کی برکت سے یہ بچہ بڑا ہو کرترجمان القرآن، علوم کا سمندر اور امت کا بہت بڑا عالم بنتا ہے۔ آپ ﷺ اپنے خادم سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت کے صلے میں انھیں مبارک دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

((اللَّهُمَّ أَكْثَرْمَا لَهُ وَوَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِيْمَا أَعْطَيْتَهُ))

’’اے اللہ! اسے کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور جو تو اسے دے، اس میں برکت عطا فرما۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2480)

اس دعا کی برکت سے اللہ تعالی نے ان پر خیرات و برکات کی بارش فرمائی۔ ان کی اولاد میں برکت دی اور ان کی عمر اتنی دراز کی کہ وہ سو سال سے زیادہ زندہ رہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاد اور اولاد کی اولاد کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة حديث:2481)

آپ ﷺسیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے اور ان کی شفا یابی کے لیے دعا کی۔ آپ کی اس دعا کے بعد وہ پینتالیس سال زندہ رہے اور اللہ تعالی نے انھیں انتیس بیٹے اور بیٹیاں عطا کیں۔ آپ ﷺکی دعا کی برکت کا سب سے عظیم مقام وہ ہے جب آپ معرکہ بدر کی رات اللہ کے حضور گریہ زاری کرتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اپنے پروردگار سے دعا کی اور نہایت پر تاثیر الفاظ اور سچی آہ و بکا اور سسکیوں میں اپنے رب کو پکارا:

((اللَّهُمَّ انْجِزْلِي مَا وَعَدْتَّنِي، اَللّٰهُمَّ آتِ مَا وَعَدَتَّنِيْ اللّٰهُمَّ إِنْ تُهْلِكَ هٰذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أهْلِ الْإِسْلامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ))

’’اے اللہ! جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، وہ عطا کر دے۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کا یہ گروہ  ہلاک ہو گیا تو زمین میں تیری عبادت نہیں ہو گی۔‘‘ (صحيح مسلم الجهاد والسير، حديث: 1763)

نبیﷺ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالی نے اپنی مدد نازل کی۔ اسلامی لشکر کو عزت دی۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اکیلے ہی لشکروں کو شکست دے دی۔ آپ ﷺکا فرمان ہے:

((لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ دَعَا لِأُمَّتِهِ وَإِنِّي اخْتَبَاتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِّأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’ہر نبی کی ایک دعا تھی جو اس نے اپنی امت کے لیے کی اور میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 200)

آپﷺ کی امت کے لیے دعا کی برکت یہ ہے کہ آپ نے امت کے نافرمانوں کی ہلاکت و تباہی کی دعا نہیں کی اور نہ دنیا میں اپنی مقبول دعا مانگ لینے کی جلدی کی کیونکہ دنیا نہایت مختصر، فانی اور ختم ہونے والی ہے۔ آپ نے اپنی امت پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے اپنی مقبول دعا پیشی کے بڑے دن، یعنی قیامت کے لیے بچا کر رکھی۔ اللہ تعالی آپ ﷺ کو ہماری طرف سے بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو امت کی طرف سے دیتا ہے۔ نبیٔ اکرم﷤ﷺ کی دعا کی برکت کے واقعات بے شمار ہیں۔ احادیث وسیرت کی کتا بیں ان سے بھری پڑی ہیں لیکن ہم نے طوالت کے ڈر سے صرف چند صحیح ترین واقعات بیان کیے ہیں۔

آپ ﷺ کا لعاب بھی مبارک ہے۔ غزوہ خندق میں خندق کی کھدائی کے موقع پر آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو سخت بھوک لگی تو سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے تھوڑا سا کھانا بنایا اور نبی اکرمﷺ کو اپنے گھر بلایا۔ آپ ﷺنے خندق کھودنے والے تمام حضرات کو دعوت دے دی جن کی تعداد ایک ہزار تھی۔ آپﷺ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا:

’’میرے آنے تک نہ تو ہنڈیا کو چولھے سے اتارنا اور نہ گوندھے ہوئے آٹے کی روٹیاں ہی پکانا۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں گھر آیا اور رسول اللہﷺ بھی لوگوں کے آگے آگے تشریف لا رہے تھے۔ میں نے جلدی سے آکر بیوی کو اطلاع دی تو اس نے کہا: اللہ تعالی تیرے ساتھ ایسا ایسا سلوک کرے! میں نے اس سے کہا کہ جو تو نے کہا تھا، میں نے وہی کچھ آپ ﷺ سے کہا تھا۔ بہر حال میری بیوی نے آپ ﷺ کی خدمت میں گوندھا ہوا آٹا پیش کیا تو آپﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ ہنڈیا کی طرف متوجہ ہوئے تو اس میں بھی لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’روٹیاں پکانے والی کو بلاؤ جو تمھارے ساتھ روٹیاں پکائے اور ہنڈیا سے سالن نکالتی رہو لیکن اسے چولھے سے نہ اتارو ، وہاں موجود صحابہ کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان سب نے سیر ہو کر کھانا کھا یا حتی کہ انھوں نے وہ کھانا چھوڑ دیا (اور کھانا بچ گیا)۔ جب تمام لوگ فارغ ہو کر واپس گئے تو ہماری ہنڈیا جوں کی توں جوش مار رہی تھی اور گوندھے ہوئے آئے سے اسی طرح روٹیاں پکائی جارہی تھیں۔‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث :4102)

یہ آپ ﷺ کے لعاب کی برکت ہے کہ جب خیبر کے روز سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ آشوب چشم میں مبتلا تھے تو آپ کا لعاب اللہ کے حکم سے ان کی آنکھوں کے لیے شفا بن گیا۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے روز نبی اکرم ﷺسے سنا:

’’علی کہاں ہیں؟‘‘ عرض کیا گیا: وہ تو آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ آپﷺ کے حکم پر انھیں بلایا گیا۔ آپ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا جس سے وہ فوراً صحت یاب ہو گئے گو یا انھیں کوئی شکایت ہی نہیں تھی۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2942)

انھوں نے جھنڈا پکڑا اور رسول اکرم ﷺ کے حکم کی تعمیل میں چل دیے۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہم 1400 افراد تھے۔ حدیبیہ ایک کنواں ہے۔ ہم نے اس سے اتنا پانی نکالا کہ اس میں ایک قطرہ بھی ہاتی نہ چھوڑا۔ پھر نبیﷺ کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ آپ نے پانی منگوایا اور کنویں میں پانی کی کلی ڈالی، پھر ہم تھوڑا سا وقت وہاں ٹھہرے ہوں گے کہ کنواں پانی سے بھر گیا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر وہاں سے پانی پیا اور ہمارے مویشی بھی وہاں سے سیراب ہو کر لوٹے۔ (صحیح لبخاري، المناقب، حديث 3577)

یہ آپ ﷺ کا معجزہ، کرامت اور رب کی طرف سے برکت ہے جس کے گواہ تقریبا چودہ سوصحابہ کرام ہیں۔ آپ ﷺ کے آثار بھی مبارک ہیں۔ سید نا عبد اللہ بن عباسﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:

’’ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی غلطی کی بنا پر عذاب نہیں ہو رہا (جس سے بچنا دشوار ہوتا۔) ان میں سے ایک تو چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: پھر آپ نے ایک تازہ کھجور کی چھڑی منگوائی اور اس کو دو حصوں میں چیر دیا، پھر ایک حصہ اس قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا دوسری قبر پر، پھر آپ ﷺنے فرمایا: ’’امید ہے جب تک یہ دوٹہنیاں خشک نہیں ہوں گی، ان کا عذاب ہلکا رہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 292)

یہ فعل نبیٔ اکرمﷺ کے ساتھ خاص ہے، کوئی دوسرا شخص اس کا مجاز نہیں کیونکہ یہ محض آپ کی برکت کا نتیجہ ہے۔

 آپ اپنے صحابۂ کرام کو اپنے مبارک آثار سے فیض پانے کی ترغیب دلاتے تھے۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت ایک بڑی چادر لے کر آئی جس کے کنارے بنے ہوئے تھے۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے بُنی ہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ نبیﷺ نے وہ چادر لے لی۔ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر آپ نے اسے تہبند کے طور پر استعمال کیا اور پہن کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ -: اللہ کے رسول! آپ یہ چادر مجھے عنایت کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘لے لو۔ چنانچہ نبی ﷺمجلس میں بیٹھے، پھر واپس تشریف لے گئے اور چادر لپیٹ کر اس شخص کے پاس بھیج دی۔ صحابہ نے اس شخص سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے چادر کا سوال کیا، حالانکہ تجھے علم تھا کہ آپ کسی سائل کو خالی واپس نہیں کرتے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں نے آپ سے اس لیے چادر کا سوال کیا تھا کہ جس دن میں مروں، وہ میرا کفن ہے۔ سیدنا سہل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چادر اس کا کفن بنی۔‘‘ (صحیح البخاري، البيوع حديث:2093)

اسی طرح یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنا ازار ان عورتوں کو دیا جو آپﷺ کی بیٹی کو وفات کے بعد غسل دے رہی تھیں اور فرمایا: ((أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ)) ’’اسے اس میں لپیٹ رو‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث: 1253)

آپ ﷺکا مقصد یہ تھا کہ اسے بطور تبرک میری بیٹی کے جسم کے ساتھ لپیٹ دو۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ سے بہت سی احادیث سنتا ہوں لیکن انھیں بھول جاتا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”تم اپنی چادر پھیلاؤ۔‘‘ میں نے اپنی چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر چادر میں ڈال دیا، پھر فرمایا: ’’اسے سینے سے لگا لو۔‘‘ تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، پھر اس کے بعد مجھے کوئی حدیث نہیں بھولی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حديث: 3648)

یوں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کی دعا کی برکت سے قیامت تک آپ کی احادیث کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والے بن گئے۔

آپ ﷺ کے لباس سے برکت حاصل کرنے کا ایک واقعہ وہ بھی ہے جسے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا: یہ رسول اللہ﷜ﷺ کا جبہ ہے، پھر انھوں نے طیلسان (موٹے کپڑے) کا ایک کسروانی (کسری کے عہد میں پہنا جانے والا ) جبہ نکالا جس پر ریشم کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور جس کے دونوں پلوؤں پر موٹا ریشم لگا ہوا تھا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: یہ جبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو اس کو میں نے لے لیا۔ نبی ﷺ اس کو پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفا کے لیے پلاتے ہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 2069)

آپ ﷺکی ہتھیلی بھی مبارک ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺمیری تیمار داری کے لیے تشریف لائے تو مجھے ہوش نہیں تھا۔ آپ نے وضو کیا تو گھر والوں نے آپ کے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ (صحیح مسلم، الفرائض، حدیث: 1616)

آپﷺ کے مبارک جسم سے گرنے والے پاکیزہ پانی کی برکت سے سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کو شفا مل گئی۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا گیا جبکہ آپ مدینہ کے محلہ زوراء (مناخہ ) میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے اپنا مبارک ہاتھ برتن میں رکھ دیا تو آپ کی انگلیوں سے پانی بہنے لگا جس سے وہاں موجود سب لوگوں نے وضو کر لیا۔

قتادہ نے کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: آپ لوگ وہاں کتنی تعداد میں تھے؟ انھوں نے کہا: تین سو یا اس کے لگ بھگ تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3572)

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: ہم تو معجزات کو باعث برکت خیال کرتے تھے اور تم سمجھتے ہو کہ (کفار کو) ڈرانے کے لیے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ پانی کم ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’کچھ بچا ہوا پانی تلاش کر لاؤ۔‘‘ لوگ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ آپﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ پانی میں ڈال دیا اور اس کے بعد فرمایا: ’’مبارک پانی کی طرف آؤ اور برکت تو اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی پھوٹ رہا تھا۔ اور (بسا اوقات) کھانا کھاتے وقت ہم کھانے میں سے تسبیح کی آواز سنتے تھے۔ (صحيح البخاري، المناقب، حديث: 3579) سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ نبیﷺ کے سامنے ایک چھا گل تھی جس سے آپ نے وضو فر مایا۔ لوگ جلدی جلدی پانی لینے کے لیے آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’تمھیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہمارے پاس پانی نہیں ہے جس سے ہم وضو کریں بلکہ پینے کے لیے بھی پانی نہیں ہے، صرف اسی قدر پانی کی مقدار ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے اس چھاگل پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیا تو آپ کی انگلیوں سے پانی ایسے پھوٹ کر بنہے لگا جیسے چشموں سے ابل کر نکلتا ہے، چنانچہ ہم سب نے وہ پانی پیا اور اس سے وضو بھی کیا۔ (راوی کہتا ہے کہ ) میں نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: آپ اس وقت کتنے آدمی تھے ؟ انھوں نے فرمایا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو ہمیں یہ پانی کافی ہوتا، تاہم اس وقت ہم پندرہ سو آدمی تھے۔ (صحيح البخاري، المناقب، حديث: 3576)

رسول اکرم ﷺجب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینہ طیبہ کے خدام پانی سے بھرے برتن لے کر آجاتے اور آپ ہر برتن میں ہاتھ ڈبو دیتے۔ اور کبھی سخت سردی میں صبح کو پانی لاتے تو آپ اس میں بھی اپنا ہاتھ ڈبو دیتے۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 2324)

اس پاکیزہ اور مبارک ہتھیلی کے کیا کہنے جس نے نہ کبھی خیانت کی، نہ دھوکا اور غداری کی، نہ چوری ڈکیتی کی، نہ کسی کا مال چھینا اور نہ ناحق خون ہی بہایا!

دیکھیں، آپ ﷺکے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کے لائے ہوئے نور و ہدایت سے راہ نمائی لینے اور اس کی اقتدا کرنے کے بعد آپ ﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کے کس قدر حریص تھے؟ بلاشبہ نبیﷺ کا سب سے عظیم تبرک آپ ﷺکی تعلیمات کی پیروی ہے اور یہ صرف شکل وصورت اور لباس تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ بعض لوگ ظاہری چیزوں کو تو لے لیتے ہیں لیکن نہ تو آپ کے حکم مانتے ہیں نہ آپ کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز آتے ہیں۔ یہ کیسے اتباع ہو سکتی ہے؟!

آپﷺ کی برکت کے واقعات اور آپ کے معجزات کی باتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ آپ نے جہاں پڑاؤ کیا اور جہاں سے کوچ کیا، مبارک بن کر آئے اور مبارک بن کر گئے۔ یہ برکت انسانوں میں آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور نہ کسی انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے آثار کی برکت کا دعوی کرے بلکہ یہ سید الناسﷺ پرختم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو چنا، پاک صاف کیا، آپ کی مبارک روح میں یہ برکت ڈال دی، پھر اس کا فیضان آس پاس جاری کر دیا۔ یوں آپ کی تمام زندگی روشن ہو کر سعادت و نعمت کا مرقع بن گئی۔ آپ ﷺہی وہ واحد شخصیت ہیں جن سے تبرک کا حصول جائز ہے اور جو شخص آپ کے آثار، یعنی کپڑوں، وضو کے پانی اور بالوں وغیرہ سے تبرک حاصل نہ کر سکتا ہو، وہ اس سے عظیم تر چیز سے تبرک حاصل کرے، یعنی اس نورِ الٰہی اور رب العزت کی نوازش سے جو قال اللہ اور قال الرسول کی صورت میں اس کے پاس موجود ہے۔ بلاشبہ وحی سب سے عظیم برکت اور سب سے جلیل القدر رحمت ہے۔ اس میں نجات اور عظیم کامیابی ہے اور آخرت میں رب رحیم کے جوار و قرب میں عزت والا گھر اسی کی پیروی کی بدولت ہے۔

بلاشبہ تاریخ اسلامی میں آپ ﷺ کے بعد پے در پے آنے والی نسلوں نے اس پانی سے استفادہ نہیں کیا جو آپ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے نکلا مگر انھوں نے کتاب وسنت کی صورت میں آپ کی رسالت کا شیریں اور بہتا ہوا پانی تو پالیا ہے۔ وہ اس سے اپنی پیاس بجھا سکتی ہیں۔

بلاشبہ نبیٔ اکرم ﷺکے پیرو کار مصاحف قرآنی پر توجہ دیتے ہیں، تبرکات پر نہیں اور آپ کے فرامین و احادیث پر توجہ دیتے ہیں، مادی آثار کے پیچھے نہیں پڑتے۔ آپ ﷺکی میراث کی برکت شرعی علم سے ہے۔ جب کوئی شخص اس کی پیروی کرتا ہے اور اس نور سے روشنی حاصل کرتا ہے تو یہی عمل اسے نجات دیتا ہے۔

جو تر کہ آپﷺ نے چھوڑا ہے، وہ پیالے، برتن، چادر اور لاٹھی وغیرہ میں نہیں، وہ صرف شریعت مطہرہ، آسان فہم سنت اور ملت اسلام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے  نبی ﷺکے نقش قدم پر چلتے اور آپ کی سنت کو اختیار کرنے کو اتباع قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ۝۲۱﴾

’’بلا شبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملاقات ) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الأحزاب 21:33)

اور ایک مقام پر فرمایا:

﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠۝۱۵۷﴾

’’پھر جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کی تعظیم کی اور اس کی مد کی اور اس نور (ہدایت) کی پیروی کی جو اس پر نازل کیا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘ (الأعراف 157:7)

مسئلہ صرف ظاہری صورتوں تک محدود نہیں بلکہ اصل چیز سورتوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔ آپ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کا مطلب آپ کے گھر کے آثار کو چھوٹا نہیں بلکہ آپ کے عطا کیے ہوئے انوار و علوم سے قیامت تک فیض حاصل کرنا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

أَهْدَيْتَنَا مِنْبَرَ الدُّنْيَا وَغَارَ حِرَا

وَلَيْلَةَ الْقَدْرِ وَالْإِسْرَاءَ لِلْقِمَمِ

وَالْحَوْضَ وَالْكَوْثَرَ الزَّقْرَاقَ جِئْتَ بِهِ

أنْتَ الْمُزَّمِّلُ فِي ثَوْبِ الْهُدٰى فَقُمِ

اَلْكَوْنُ يَسْأَلُ وَالْأَفْلَاكُ ذَاهِلَةٌ

 وَالْجِنِّ وَالْإِنْسُ بَيْنَ اللَّاءِ وَالنَّعَمِ

وَالدَّهْرُ مُحْتَفِلُ وَالْجَوُّ مُنتَهِجٌ

وَالْبَدْرُ يَنْشَقُّ وَالْأَيَّامُ فِي حُلْمِ

 (اے نبی!) آپ ﷺنے ہمیں بلندیاں پانے کے لیے دنیاوی اقتدار، غار حرا، شب قدر اور اسراء و معراج کے ہدیے عطا فرمائے۔ آپ چمکتا دمکتا حوض کوثر لے کر آئے۔ آپ رشد و ہدایت کے لباس میں لیتے ہوئے ہیں، چنانچہ آپ کو تبلیغ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم ملا۔ کائنات آپ کی عظمتیں دریافت کر رہی ہے، افلاک حیران ہیں اور جن و انس قسم قسم کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ زمانہ خوشیاں منا رہا ہے۔ فضا شاداں و فرحاں ہے۔ چودھویں کا چاند نکل رہا ہے اور ایام آپ کے تصورات میں مگن ہیں۔‘‘

…………….