مجتہد کے فیصلے کو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کہنا نا جائز ہے

676۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی

کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص نصیحت کرتے، پھر فرماتے:

((إِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلٰى حُكْمِ اللهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلٰ حُكْمِ اللهِ، وَلٰكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلٰى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللهِ فِيهِمْ أَمْ لَا)) (أخرجه مسلم:1731، والترمذي: 1408، 1817، وأحمد: 23030، وأبو عبيد القاسم بن سلام في الأموال:60، 524)

’’اور جب تم قلعہ بند لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے مطالبہ کریں کہ تم انھیں اللہ کے حکم پر ( قلعے سے) نیچے اترنے دو تو تم انھیں اللہ کے حکم پر نیچے نہ اتارنا بلکہ اپنے حکم پر انھیں نیچے اتارنا کیونکہ تمھیں معلوم نہیں کہ تم ان کے بارے میں اللہ تعالی کے صحیح حکم پر پہنچ پاتے ہو یا نہیں۔‘‘

 توضیح و فوائد: جس مسئلے میں واضح آیت یا حدیث نہ ہو اس کے بارے میں اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور و فکر کر کے کوئی رائے قائم کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔ اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اس لیے مجتہد کے اجتہاد کے بارے میں حتمی طور پر یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ اللہ کی مرضی اور فیصلہ بھی یہی ہے، تاہم اس پر اس وقت تک عمل کیا جائے گا جب تک اس کا غلط ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ اسی طرح اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے۔‘‘