منافقین کی خصلتیں احادیث میں سے

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًاؗۙ۝۱۴۲ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ ۖۗ لَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا﴾ [النساء: 142-143]

’’یقیناً منافق اللہ تعالی کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالی انہیں ضرور ان کے دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بڑی سستی سے اٹھتے ہیں۔ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں۔ وہ (اہل ایمان اور اہل کفر) کے درمیان متذبذب اور متردد ہیں نہ اس طرف ہیں اور نہ اس طرف ہیں اور جسے اللہ تعالی ہدایت سے محروم کر دے تو آپ اس کے لیے کوئی راہ نہیں پائیں گئے۔‘‘

آج کے خطبہ میں منافقوں کی وہ علامات بیان کی جائیں گی جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات گرامی میں بیان فرمائی ہیں تاکہ ہم ان بری خصلتوں سے بھیں اور اپنے آپ کو نفاق کی آلودگی سے پاک کر لیں۔ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث ذکر کرتا ہوں۔ جس میں منافقوں کی چار بری خصلتیں اور علامتیں مذکور ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(أَرْبَعُ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق. و صحيح مسلم، كتاب الإيمان باب بيان خصال المنافق عن عبد الله بن عمر ؓ]

’’جس شخص میں چار خصلتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی خصلت موجود ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔‘‘

پہلی خصلت:

(إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ)

’’جب بھی اسے کوئی امانت سونپی جائے وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘

اور امانت میں خیانت کی دو قسمیں ہیں:

1۔ مال و منال اور ساز و سامان میں خیانت کرنا:

یہ انتہائی بدترین جرم ہے کہ کسی نے امانت رکھی اسے کھا گیا، ہڑپ کر گیا حکومت کی طرف سے لوگوں کی ضرورتوں (گلیوں سڑکوں، سکولوں اور دیگر رفاہی کاموں) کے لیے روپیہ ملا کھا گیا۔ اپنی فیکٹری بنائی۔ اس قومی مال سے اپنا کارخانہ بنا لیا۔ اپنی کوٹھی تعمیر کر لی۔ یہ مال ومنال میں خیانت ہے۔ یہ اس قدر بدترین جرم ہے کہ یہ گناہ شہادت پانے سے بھی معاف نہیں ہوتا۔ دلیل کیا ہے۔ جناب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کو غلام بطور ہدیہ دیا جس کا نام ’’مدعم“ تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مدعم رسول اللہﷺ کی سواری سے کجاوہ اتار رہا تھا اچانک (اس کو نامعلوم جانب سے آنے والا) تیر لگا۔ جس سے وہ مارا گیا۔ لوگوں نے کہا: مبارک ہو یہ شخص جنتی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا:

(كَلا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْغَنَائِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمِ، لِتشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا) [كتاب الأيمان والنذور باب هل يدخل في الأيمان والنذور الأرضا الخ، رقم: 6707]

’’ہرگز نہیں! اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک وہ چاور جس کو اس نے جنگ خیبر کے دن مال قیمت کی تقسیم سے پہلے اٹھایا تھا وہ اس پر آگ بن کر مشتعل (یعنی بھڑک رہی) ہے۔‘‘

 جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے آپ کے پاس لایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں۔

غور کیجئے! آج لوگ لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روپے کھا جاتے ہیں اور اتنی بڑی خیانت کے باوجود انہیں احساس تک نہیں ہوتا جبکہ یہ وہ گناہ ہے جو شہادت پانے سے بھی معاف نہیں ہوتا اور اس گناہ کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔

نبی ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(وَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُّؤْدِّي الْأَمَانَةَ فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فَلَانٍ رَجُلًا أَمِينَا) [صحیح البخاری، کتاب الرقاق باب رفع الأمانة، رقم: 6497 و مسلم رقم: 367]

’’لوگوں کا یہ حال ہو گا کہ جب وہ صبح کریں گے تو وہ آپس میں خرید وفروخت کریں گے اور ان میں ایسا نہ ہو گا جو امانتوں کو ادا کرنے والا ہو گا۔ حتی کہ کہا جائے گا کہ فلاں ایک شخص امانت دار ہے۔‘‘

ایک روایت کے الفاظ ہیں: لوگ امانت کو غنیمت کا مال سمجھ کر کھا جائیں گے۔[جامع الترمذي، كتاب الفتن، باب ماجاء في علامة حلول المسخ والخسف، رقم: 2211]

آج قیامت کی یہ نشانی پوری ہو چکی ہے لوگ لین دین تجارت معاملات اور کاروبار میں ایک دوسرے کا مال ہڑپ کئے جاتے ہیں، خود رسموں رواجوں پر کھیل تماشوں پر کافروں کے تہواروں پر مرنے جینے کے کھیکھنوں، مزدور کی مزدوری نہیں دیتے جس سے مال لیا ہے اس کے مال کی رقم ادا نہیں کرتے …

عہدے اور منصب میں خیانت کرنا:

عہدہ و منصب بھی امانت ہے اور عہدہ و منصب کو صحیح طور پر ادا نہ کرنا۔ ذمہ داری میں کوتاہی کرنا یہ بھی امانت میں خیانت ہے اور یہ بھی انتہائی بدترین گناہ ہے اسے بھی قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ یوں ہوا کہ نبی ﷺ بیان فرما رہے تھے۔ اچانک ایک بدوی (دیہاتی) آیا اس نے دریافت کیا متى الساعة. قیامت کب ہو گی ؟۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

(إِذَا ضُیِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ)

’’جب امانت کا خیال نہ رکھا جائے گا تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘

اس نے دریافت کیا امانت کے خیال نہ رکھنے سے کیا مراد ہے؟۔

آپ ﷺ نے جواب دیا:

(إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةِ) [صحيح البخاري، كتاب العلم، باب من سئل علما وهو مشتغل في حديث قائم الحديث ثم أجاب السائل (59) (6496).]

’’جب حکومت ایسے لوگوں کے سپرد کی جائے گی جو اس کے اہل نہیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘

آج قیامت کی یہ نشانی بھی پوری ہو چکی ہے بین الاقوامی سربراہوں، عالمی حکمرانوں اور ملکی اقتدار والوں میں امانت نام کی کوئی چیز نہیں رہی جنہوں نے امن کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں وہ خونخوار بھیڑیئے بنے ہوئے ہیں، جنہوں نے قوموں کو تحفظ فراہم کرنا تھا وہ قاتل را ہنرن اور ڈاکو بنے ہوئے ہیں اسلامی سزاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں اور اقتدار کی خاطر بے دریغ خون بہاتے ہیں۔ وزراء، مشیران، گورنرز، فوج اور پولیس کے افسران شہروں اور ضلعوں کے ناظم اور محلوں کالونیوں کے نگران سب ذمہ داری اور ڈیوٹی میں شدید غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ جن لوگوں نے عوام اور رعایا کو تحفظ اور امن دینا تھا وہ لوگوں کو لوٹ رہے اور خون و ہراس پھیلا رہے ہیں انہوں نے رشوت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جب کہ یہ بددیانتی منافقوں کی خصلت ہے۔ اور یقیناً اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىِٕنِیْنَ﴾ [الأنفال: 58]

اس کے برعکس مؤمنوں کا کردار سورۃ المومنون (آیت 8 اور المعارج (32) میں یہ بیان کیا گیا ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ﴾ [المؤمنون:8]

’’مؤمن اپنی امانتوں اور عہد معاہدوں کی پاس داری کرتے ہیں۔‘‘

اور امانتداری نبیوں اور فرشتوں والی خصلت ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الشعراء میں نبیوں کی یہ خصلت یوں بیان فرمائی ہے۔

حضرت نوح، ھود، صالح، لوط اور حضرت شعیب علیہ السلام کا نام لے کر فرمایا کہ ان تمام پیغمبروں میں سے ہر ایک نے اپنی قوم کو دعوت دین دیتے ہوئے کہا:

﴿إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينَ﴾ [الشعراء: 107]

’’یقیناً میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں۔‘‘

معلوم ہوا امانت و دیانت نبوی خصلت ہے۔ پیغمبروں نے قوموں سے گالیاں سن کر اذیتیں اٹھا کر اور سخت ترین مزاحمت پا کر بھی ذمہ داری میں کوتاہی نہیں کی اللہ کا دین امانت و دیانت کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا اور کسی دنیاوی لالچ اور مفاد کے بغیر انتہائی کامل طریقے سے عہدہ نبھایا۔

اور یہ (امانت و دیانت) ملائکہ (فرشتوں) کی صفت اور خصلت ہے اللہ رب العزت نے سورۃ الشعراء میں فرمایا:

﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِيْنُ﴾ [الشعراء:193]

’’یہ قرآن امانت دار فرشتہ (جبریل علیہ السلام) لے کر اترا ہے۔‘‘

اور سورۃ التکویر میں جبریل  علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

﴿مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ﴾ [التكوير:21]

’’اس کی وہاں (یعنی آسمانوں پہ) اطاعت کی جاتی ہے (فرشتے اس کا کہا مانتے ہیں) اور یہ امانتدار بھی ہے۔‘‘

رسول اکرمﷺ کو قبل از نبوت بھی صادق اور امین کہا جاتا تھا آپ نے قبل از نبوت امانتداری کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا حتی کہ اعلان نبوت اور دعوت توحید کے بعد جب لوگ آپ کے خون کے پیاسے بن گئے تب بھی لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے آپ کی امانتداری اس قدر معروف و مشہور تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ بھی مال و متاع اور عہدہ و منصب میں انتہائی امانتدار اور دیانتدار تھے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ قومی مال میں کسی قدر محتاط تھے بیت المال میں سے اتنا کم وظیفہ لیتے تھے کہ گھر میں میٹھی چیز نہیں پک سکتی تھی ایک دن بیوی نے کوئی میٹھی چیز کھانے کی خواہش ظاہر کی جواب دیا: ابو بکر کے وظیفے میں گنجائش نہیں ہے۔ بیوی نے یومیہ وظیفے سے تھوڑا تھوڑا روزانہ جمع کرنا شروع کیا اور کئی دنوں کے بعد ایک میٹھی چیز پکائی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا: میرے وظیفے میں تو گنجائش نہیں یہ میٹھی کیسے تیار ہو گئی ہے۔ بیوی نے جواب دیا: یومیہ وظیفے سے روزانہ تھوڑا تھوڑا بچا کر یہ چیز پکا لی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فورًا بیت المال کے نگران کو بلایا اور جتنا خرچہ بیوی نے یومیہ بچایا اتنا یومیہ وظیفہ کم کرنے کا حکم جاری فرما دیا کہ اس کے بغیر ابو بکر کا گزارا ہو سکتا ہے۔

اور صحیح البخاری میں حدیث ہے جب آپ آخری ایام میں بیمار ہوئے ایک بوسیدہ چادر اوڑھ رکھی تھی اسے زعفران کا معمولی داغ لگا ہوا تھا، فرمایا: جب میں وفات پا جاؤں تو یہ کپڑا دھو لینا اور دو اور کپڑے لے کر مجھے تین کپڑوں میں کفن دینا۔ گھر والوں نے کہا یہ تو پرانا کپڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: مردے کی نسبت زندہ شخص نئے کپڑوں کا حقدار ہے مجھے انہی پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں کفن دینا… [صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب موت يوم الاثنين، رقم: 1387]

 کس قدر امانت و دیانت ہے اور جہاں تک ذمہ داری نبھانے کی بات ہے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے صرف دو سالہ دور خلافت میں جتنے سنہری کارنامے سر انجام دیئے وہ انہی کا ابوبکر حصہ تھے۔

دوسری خصلت:

(وَ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ)

’’منافق جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔‘‘

جھوٹ بولنا بدترین گناہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ) [صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب قبح الكذب وحسن الصدق وفضله (2607) والبخاري (6094)]

لوگو! جھوٹ سے بچ جاؤ۔ جھوٹ گناہ کی راہ دکھلاتا ہے اور گناہ جہنم کی راہ پر ڈالتا ہے جو شخص ہمیشہ جھوٹ ہوتا ہے اور جھوٹ کو ہی تلاش کرتا ہے اسے اللہ کے ہاں کذاب (انتہائی جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ بدترین خیانت بھی ہے۔ حضرت سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا:

(كَبُرَتْ خَيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهِ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ بِهِ كَاذِبٌ) [سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في المعاريض، رقم: 4971]

’’سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا مجھے جب کہ تو جھوٹ بولتا ہو۔‘‘

آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ رچ بس چکا ہے، خصوصاً موبائل نے تو اچھے اچھے لوگوں کو جھوٹ پر لگا دیا ہے گھر دکان کارخانے اور دفتر میں بیٹھے ہوں گے اور فون کرنے والے کو چلائیں گے ہم سفر میں ہیں۔ لوگ آج جھوٹ کو کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ذہن بن چکا ہے کہ جھوٹ کے بغیر کاروبار ہی نہیں چلتا اور آج فلموں ڈراموں ناولوں افسانوں اور کہانیوں کا جھوٹ تو لوگوں کی تفریح بنا ہوا ہے اور اس بدترین جھوٹ کے ذریعے آج لوگ تھکاوٹیں اتارتے اور سکون حاصل کرتے ہیں۔ اور اپریل فول کے نام سے یوم جھوٹ منایا جاتا ہے۔ جس میں بڑے بڑے کڑل مارے جاتے ہیں جتنا کوئی بڑا جھوٹ بولے اتنا بڑا انعام پاتا ہے اور معاشرے میں بڑا عقلمند اور ہوشیار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ جھوٹ وہ بدترین گناہ ہے جسے تمام معاشروں میں برا سمجھا جاتا ہے لیکن لوگ اسے برا جاننے کے باوجود چھوڑنے کو تیار نہیں اور بعض موقعوں پر تو جھوٹ بولنا فیشن بن چکا ہے۔ جبکہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ سنتا سب منافقوں کی علامتیں ہیں۔ اور یہ موجب لعنت گناہ ہے۔ اس کے برعکس سچ بولنا نبوی صفت ہے:

﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا﴾ [مريم: 41]

امام الانبیاء سید الرسل صاحب لواء الحمد جناب محمد رسول اللہ نے قبل از نبوت بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا اس کی گواہی اپنوں اور بیگانوں سب نے دی۔

جناب ابوسفیان نے (قبول اسلام سے قبل) ہر قتل کے دربار میں ہرقل کے مختلف سوالوں کے جوابات دیئے جو اس نے رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھے تھے اس نے ایک سوال یہ پوچھا کیا۔ دعوائے نبوت سے قبل تم نے کبھی اس کی زبان سے جھوٹ سنا؟ تو ابوسفیان نے جواب دیا ہم نے قبل از اعلان نبوت بھی اس کی زبان سے جھوٹ نہیں سنا۔[صحيح البخاري، كتاب بده الوحي، باب كيف كان بدء الوحي (2941/7) و مسلم 1773]

 کیسی زبردست گواہی اور شہادت ہے؟ اور اسی طرح جب آپ نے سارے عزیز و اقارب جمع کر کے پوچھا تھا: ’’بتلاؤ! تم نے مجھے چالیس سالہ دور میں سچا پایا کہ جھوٹا؟ تو سب نے بیک زبان کہا تھا: ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے آپ سے بھی  جھوٹ نہیں سنا ..

تیسری خصلت:

 (وَ إِذَا عَاهَدَ غَدَرَ)

’’منافق جب کوئی عہد معاہدہ اور وعدہ کرتا ہے تو اس میں غداری کرتا ہے۔‘‘

 عہد شکنی کرتا ہے۔ عہد شکنی اور وعدہ خلافی بدترین گناہ ہے اور اس میں اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد معاہدے بھی شامل ہیں۔ اور بندوں کے ساتھ کیے گئے جائز عہد معاہدے بھی شامل ہیں، حتی کہ کافروں کے ساتھ کیسے گئے جائز عہد معاہدے بھی اس میں داخل ہیں بد عہدی اور وعدہ خلافی کافروں کے ساتھ بھی جائز نہیں۔ بلکہ یہ معاملہ اس قدر حساس ہے کہ معاہدے کی آخری تاریخ آنے سے قبل ان کافروں کی طرف لشکر روانہ کرنے کی ابتداء کرنا بھی جائز نہیں۔

جناب سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رومیوں سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ (جب معاہدہ ختم ہونے کے قریب آیا) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روم کی طرف لشکر روانہ کرنے شروع کر دیئے تاکہ لشکر قریب پہنچ جائیں اور جونہی معاہدے کی مدت ختم ہو۔ فورًا حملہ کر دیں (تاکہ دشمن کو تیاری کا موقع نہ ملے) ایک دن اس طرح دستے روانہ کر رہے تھے دور سے ایک سوار آیا جو گھوڑے پر سوار تھا اس نے دور سے آواز لگائی:

(اللهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غَدُرٌ(

“وعدہ پورا کرو غداری نہ کرو۔ZZ

جب ,i سوار قریب آیا تو وہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے انہوں نے آکر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ’’جب کسی نے کسی قوم سے عہد معاہدہ کر رکھا ہو تو معاہد ہ ختم ہونے سے پہلے کوئی اقدام نہ کرے یا (ان کی طرف سے عہد شکنی کے آثار دیکھنے کی صورت میں) انہیں نقض عہد کی اطلاع کر دے۔ سلیم بن عامر کہتے ہیں: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث سنتے ہی ساری فوجیں واپس بلا لیں۔[سنن أبي داود، كتاب الجهاد، باب في الإمام يكون بينه و بين العدو عهد فيسير نحوۃ.رقم: 2759]

اللہ رب العزت نے وعدے پورے کرنے کی تاکید شدید فرمائی ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ؕ۬ ﴾ [المائدة:1]

’’اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو۔‘‘

دوسرے مقام پر خالق ارض و سماء نے فرمایا:

﴿وَبِعَهْدِ اللهِ أَوْفُوْا﴾ [الأنعام: 152]

’’اور اللہ تعالی سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو۔‘‘

اور اللہ رب العزت نے سورۃ الاسراء میں فرمایا:

﴿وَأَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾ [الإسراء:34]

’’اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس (پوچھ کچھ) ہونے والی ہے۔‘‘

 اور وعدے کی پاسداری نبیوں والی صفت ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ مریم میں فرمایا:

﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ؗ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا﴾ [مريم: 54]

’’اس کتاب میں اسماعیل (علی) کا واقعہ بھی بیان کر وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی۔‘‘

اور یہ متقیوں اور مومنوں کی صفت ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ المومنون اور المعارج میں بیان فرمایا:

﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لِأَمَانَتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ﴾ [المؤمنون:8، المعارج: 32]

’’جواپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

آج وعدہ خلافی کی ایک بدترین شکل یہ ہے کہ لوگ وعدہ کرتے وقت دل میں نیت ہی یہ رکھتے ہیں کہ وعدہ پورا نہیں کرنا، مثلا: کسی شخص کے پیسے دینے ہیں وہ مطالبہ کرتا ہے اسے محض ٹالنے کے لیے کہ دیا پندرہ دن بعد آنا حالانکہ اندرون خانہ علم ہے کہ میں پندرہ دن کے بعد بھی پیسے نہیں دے سکتا، لیکن وعدہ کر لیا تا کہ پندرہ دن تو یہ ملا رہے جب پندرہ دن گزر جائیں گے تو پھر دیکھی جائے گی۔

چوتھی خصلت:

(وَ إِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)

’’منافق جب لڑتا جھگڑتا ہے تو گالیاں بکتا ہے سب وشتم کرتا ہے۔‘‘

لمحہ فکریہ:

رسول اللہﷺ نے تو لڑائی اور جھگڑے میں گالی دینا منافق کی خصلت قرار دیا ہے لیکن آج لوگ لڑائی جھگڑے کے بغیر ہی بات بات پر گالی دیتے ہیں سواری کو گالی، مشین کو گالی، ساز و سامان کو گالی، ہوا کو گالی، کھانے پینے کی اشیاء کو گالی، جانوروں کو گالی، حتی کہ دو دوست آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو گالی دے کر حال پوچھتے ہیں۔ یہ طرز عمل تو منافقت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جبکہ مسلمان کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے:

(سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوق) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر (48) (2044) ومسلم (14) والترمذي (1983)]

حتی کہ لوگ اپنی آل اولاد کو ایسی گالیاں دیتے ہیں جو اپنے آپ پر لوٹ آتی ہیں۔

لوگ ان چیزوں کو گالیاں دیتے ہیں جو اللہ کے حکم کی پابند ہیں۔ مثلاً: ہوا اللہ کے حکم سے چلتی ہے اگر ہوا مرضی کی نہ ہو تو بے دین لوگ ہوا کو بھی گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، حالانکہ نبی ﷺ نے ہوا کو گالی دینے سے سختی سے منع فرمایا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(الرِّيحُ مِنْ رُوْحِ اللهِ تَعَالَى تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ وَ بِالْعَذَابِ، فَلَا تَسُبُّوهَا وَسْئَلُوا اللَّهَ مِنْ خَيْرِهَا وَعُوْذُوا بِهِ مِنْ شَرِّهَا) [سنن ابوداود، كتاب الأدب، باب ما يقول اذا هاجت الریح، رقم: 5097]

’’ہوا اللہ کی طرف سے آتی ہے کبھی رحمت لاتی ہے اور کبھی عذاب اس کو برا نہ کہو بلکہ اللہ سے اس کی بھلائی کا سوال کیا کرو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘

دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:

جناب ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوا پر لعنت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

(لَا تَلْعَنُوا الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَّعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلِ رَّجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ) [جامع الترمذی، رقم: 1987، و سنن أبي داود، كتاب الأدب، باب في اللعن، رقم: 1908]

’’ہوا پر لعنت نہ کرو ہوا تو اللہ کے حکم کی پابند ہے اور جو شخص ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کا استحقاق نہیں رکھتی تو لعنت بھیجنے والے کی جانب لعنت واپس آ جاتی ہے۔‘‘

اور لوگ دوسروں کے ماں باپ کو گالی دے کر اپنے ماں باپ کو گالی دلواتے ہیں جو کہ خطرناک گناہ ہے اور آج تو ایسی نااہل اولاد بھی ہے جو ڈائریکٹ اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتی ہے۔ دھکے دے کر مار کوٹ کے گھر سے باہر تک نکال دیا جاتا ہے بوڑھا باپ بیچارہ بھی کسی کے دروازے پر محبت کی بھیک مانگتا ہے۔ کبھی کسی بیٹی سے پیار کا سوال کرتا پھرتا ہے۔ کبھی رشتہ داروں اور محلے والوں سے اپنی نااہل اولاد کا رونا روتا ہے۔

هَدَانَا اللَّهُ وَإِيَّاهُمْ.

بہرحال منافق کی بری خصلت ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے کے وقت گالی دینا ہے جبکہ مومن اپنی زبان ہمیشہ صاف رکھتا ہے۔

یہ وہ چار حصلتیں ہیں جو ایک حدیث میں بیان کی گئی ہیں، اس کے علاوہ دیگر احادیث میں جو خصلتیں مذکور ہیں وہ بھی بالاختصار ذکر کرتا ہوں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ہم منافقوں والی عادتوں اور خصلتوں سے بچ جائیں اور کھرے مخلص اور باعمل مؤمن بن جائیں )۔

پانچویں خصلت: جذ بہ جہاد سے عاری ہونا:

نبی ﷺ نے فرمایا:

(مَنْ مَّاتَ وَلَمْ يَعْزُ وَ لَمْ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِّنْ نِّفَاقٍ) [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب ذم من مات ولم يغزو لم يحدث نفسه بالغزو (1910) و ابوداود (2502)]

’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے جہاد کیا نہ اس کے دل میں جہاد کا خیال آیا تو وہ ایک قسم کی منافقت پر فوت ہوا۔‘‘

معلوم ہوا مؤمن کے دل میں جذبہ جہاد ضرور ہونا چاہیے دل کا جذبہ جہاد سے عاری و خالی ہونا نفاق کی علامت و خصلت ہے۔

چھٹی خصلت: متذبذب اور متردد ہوتا:

اسلامی عقائد و احکام کے متعلق شک و شبہ میں جتلا ہوتا کبھی کافروں کی طرف مائل ہوتا اور بھی مومنوں کی طرف جھکاؤ کرنا امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَالشَّاةِ الْعَائِرَةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ تَعِيرُ إِلَى هَذِهِ مَرَّةً وَ إِلَى هذه مرَّةً) [صحیح مسلم، كتاب صفة المنافقين واحكامهم. و سنن النسائی، کتاب الایمان و شرائع، باب مثل المنافق من ابن عمر.]

’’منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو نر کی تلاش میں دور یوڑوں کے درمیان بھائی پھرتی ہے کبھی اس ریوڑ اور کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے۔‘‘

منافق چونکہ مفاد پرست ہوتا ہے اس لیے کسی ایک موقف پر استقامت اختیار

253 پر منافقین کے خصال احادیث سے

نہیں کرتا، جس طرح مغلوب شہوت بکری تر کی تلاش میں بھی اس ریوڑ کی طرف اور کبھی اس ریوڑ کی طرف بھاگی پھرتی ہے۔

غور کیجئے! آپ نے مغلوب شہوت نر (بکرے) سے تشبیہ نہیں دی بلکہ مادہ (بکری) سے تشبیہ دی ہے کیونکہ منافق مردانہ اوصاف: جراتمندی دلیری، مستقل مزاجی اور عزم مصم سے بے بہرہ ہوتا ہے۔

ساتویں خصلت ظاہر و باطن میں تضاد پایا جاتا:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا ہم حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے سامنے دو باتیں کرتے ہیں جو ہمارے دل میں نہیں ہوتیں؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

(كُنَّا نَعْدُّ ذَلِكَ نِفَاقًا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) [صفة المنافق للفريابي (67) اسناده حسن]

 ہم اس طرز عمل کو رسول اللہﷺ کے دور میں نفاق اور منافقت شمار کرتے تھے۔

اللہ اکبر! آج سیاست ہی ظاہر و باطن کے تضاد اور دورخے کردار کا نام ہے

جبکہ اسے نفاق و منافقت کہا گیا ہے۔ آج ملازم آفیسر کے سامنے سیاستدان اپنے وڈیرے کے سامنے یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ سامنے جھک کر سلام اور دل میں نفرت، کدورت اور بغض وکینہ بھرا ہوا ہے۔ سامنے مدح سرائی میں اتنا مبالغہ کہ آسمان اور زمین کے قلابے ملا دینا اور پشت پیچھے طعن و تشفیع عیب جوئی اور میں اخیر کر دیتا یہ منافقانہ کردار ہے ظاہر کچھ اور باطن کچھ زبان پہ کچھ اور دل میں کچھ سامنے کچھ اور بعد میں کچھ ۔

آٹھویں خصلت نماز میں تاخیر کرنا:

رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقَبُ الشَّمْسَ، حَتَّى إِذَا اصْفَرَّتُ وَكَانَتْ بَيْنَ قَرْنَى الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلَّا قليلا([صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب التبكير بالعصر.]

’’یہ منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا رہتا ہے سورج (کے غروب ہونے) کا انتظار کرتا ہے۔ جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے (سرکے) دونوں کناروں کے درمیان ہوتا ہے تو منافق (نماز کے لیے) کھڑا ہوتا ہے اور جلدی جلدی چار رکعت ادا کرتا ہے ان میں بہت ہی کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘

 آج یہ منافقانہ روش ہمارے مع میں عام ہوتی جا رہی ہے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نماز میں تاخیر کرتی ہے۔ حالانکہ بروقت نماز پڑھنا کوئی مشکل کام نہیں صرف دل کو سمجھانے والی بات ب کرتا ہی ہے تو آدمی بر وقت کرلے۔ ایک محدث تھے جناب ابراہیم بن میمون وہ لکڑی کا کام کرتے تھے کئی دفعہ وہ ہتھوڑا اٹھا چکے ہوتے اذان کی آواز آ جاتی تو ہتھوڑا کیل پر مارنے کی بجائے زمین پر رکھ دیتے اور فورًا نماز کے لیے نکل پڑتے۔

نویں خصلت جماعت سے پیچھے رہنا:

نبیﷺ نے فرمایا:

(وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُومُ النِّفَاقِ) [صحيح مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعة من سنن الهدى (654) واحمد (3440)]

’’ہمارا مشاہدہ ہے کہ نماز (با جماعت) سے صرف وہ انسان پیچھے رہتا ہے جس کا نفاق عیاں ہوتا ہے۔‘‘

جبکہ مومن اس قدر جماعت پانے کا حریص ہوتا:

(وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ يُهَادٰى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتَّى يُقَامَ فِي الصَّفِ) [صحیح مسلم (654) وابن خزيمة (1483) واحمد (382/1) و ابن ماجه (777)]

’’بلاشبہ ایک شخص کو دو انسانوں کے سہارے) اٹھا کر لایا جاتا یہاں تک کہ اس کو صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔‘‘

یہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں منافق اور مؤمن کے درمیان فرق تھا جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا ہے۔

دسویں خصلت، منافق اپنے اوپر گناہ کا کوئی بوجھ نہیں سمجھتا:

حدیث میں ہے: اگر مؤمن شخص سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اس قدر پریشان ہو جاتا ہے گویا کہ وہ اونچے پہاڑ کے دامن میں ہے اور یہ پہاڑ اس پر گرنے والا ہے۔ لیکن منافق گناہ کے بعد فکر مند نہیں ہوتا وہ ایسے ہی محسوس کرتا ہے جیسے ناک پر ایک مکھی بیٹھی ہو اور وہ اڑا دی۔

 یعنی مؤمن سے اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو وہ گناہ کے بعد خوش نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل میں فورا اللہ کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے اس کا دل بے قرار ہو جاتا ہے وہ تو یہ کر کے ہی سکون پکڑتا ہے لیکن منافق کو گناہ پر کوئی ندامت نہیں ہوتی۔

لمحہ فکریہ:

مکھی کا تو پھر بھی قدرے احساس ہوتا ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کی کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ گناہ کے بعد لذت اور فرحت محسوس کرتے ہیں اور اسے بار بار مزے کے ساتھ بیان کرتے اور سناتے ہیں یہ تو نفاق سے بھی بدترین کیفیت ہے اللہ ہمیں منافقوں والی بری خصلتوں سے محفوظ فرمائے اور مخلص مومن بنائے اور باعمل با کردار مسلمان بننے کی توفیق بخشے۔

نفاق سے بچنے کی مسنون دعا:

(اللَّهُمَّ طَهِّرُ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِي مِنَ الرِّيَاءِ وَلِسَانِي مِنَ الْكَذِبِ وَعَيْنِي مِنَ الْخِيَانَةِ، فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورِ)[الدعوات الكبير للبيهقي عن ام معبد رضى الله عنها]