مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت
اہم عناصرِ خطبہ :
01. فارغ وقت ایک بہت بڑی نعمت ہے
02. فارغ وقت کو ضائع اور برباد کرنے کے مختلف ذرائع
03. وقت اور زمانے کی اہمیت
04. کم وقت میں بہت سے فوائد وثمرات حاصل کرنے کے ذرائع
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! اللہ تعالی نے ہم پر بے شمار اور ان گنت احسانات کئے ہیں ۔ اور ہمیں لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ وَ سَخَّرَلَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَ سَخَّرَلَکُمُ الْاَنْھٰرَ﴾ ابراہیم14 :32
’’ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا ۔ پھر اس کے ذریعے تمھارے کھانے کو پھل پیدا کئے ۔ اور اس نے تمھارے لئے کشتیوں کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے سمندر میں رواں ہوں ۔ اور دریاؤں کو بھی تمھارے لئے مسخر کیا ۔ ‘‘
پھر فرمایا : ﴿وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ ٭ وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَااِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ﴾ ابراہیم14 :33۔34
’’ اور اس نے تمھارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کیا جو لگاتار چل رہے ہیں ۔ اور رات اور دن کو بھی تمھاری خاطر کام پر لگا دیا ۔ اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا ، اس نے تمھیں وہ سب کچھ عطا کیا ۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہیں رکھ سکو گے ۔ بے شک انسان تو ہے ہی بے انصاف اور نا شکرا ۔ ‘‘
ان آیات میں غور کریں تو اللہ تعالی نے اپنی متعدد نعمتوں میں سے ایک نعمت خاص طور پر ذکر فرمائی اور وہ ہے : دن اور رات کو انسانوں کیلئے مسخر کرنا ۔ اور دن اور رات ہی در حقیقت ’ وقت ‘ ہیں اور انسان کی زندگی دن اور
رات پر مشتمل اسی ’ وقت ‘ کا نام ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ’ وقت ‘ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جس کی ہم میں سے بہت سے لوگ قدر نہیں کرتے ۔ اور اسے فضول کاموں میں ضائع کردیتے ہیں ۔
جبکہ اللہ تعالی نے دن اور رات پر مشتمل ’وقت ‘کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے قسم کھاتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالَّیْلِ اِِذَا یَغْشٰی ٭ وَالنَّہَارِ اِِذَا تَجَلّٰی﴾ اللیل92 : 1۔2
’’ رات کی قسم جب وہ چھا جائے اور دن کی قسم جب وہ روشن ہو جائے ۔ ‘‘
اسی طرح دن کی بعض خاص ساعات کی قسم کھا کر بھی اس کی اہمیت کو واضح فرمایا ۔ چنانچہ فجر کے وقت کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالْفَجْرِ ﴾ ’’ فجر کی قسم ! ‘‘
اور چاشت کے وقت کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :﴿وَالضُّحٰی ﴾ ’’ چاشت کے وقت کی قسم ! ‘‘
اور عصر کے وقت کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :﴿وَالْعَصْرِ﴾ ’’ عصر کے وقت کی قسم ! ‘‘
یا اس کا معنی : ’’ زمانے کی قسم ! ‘‘ بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ ( یعنی وقت ) اللہ تعالی کے نزدیک بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی خود انتہائی عظیم الشان ہے ، تو وہ قسم بھی عظیم الشان چیز ہی کی کھاتا ہے ۔ لہذا ہمیں بھی ’ وقت ‘ کی قدر کرنی چاہئے اور اس کے ضیاع سے بچنا چاہئے ۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ زمانے کی قسم کھاکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ہر انسان خسارے میں ہے سوائے اُس کے جس میں چار چیزیں پائی جاتی ہوں ۔ اور اِس کا مطلب یہ ہے کہ خسارے سے بچنے والا انسان بس وہی ہے جو اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو ان چار چیزوں کے ساتھ مشغول رکھتا ہے ۔ اور وہ چار یہ ہیں : ایمان ، عمل صالح ، دعوت الی اللہ اور صبر ۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ)) صحیح البخاری :6412
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں ۔اور وہ ہیں : صحت اور فراغت ۔‘‘
یعنی زیادہ تر لوگ یہ دو نعمتیں پاکر بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور انھیں ضائع کرکے گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو نعمتوں سے فائدہ اٹھانے والے لوگ کم ہی ہیں ۔
زیادہ تر لوگ صحت وتندرستی جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کرتے ۔ اور اپنے فارغ اوقات کو مختلف امور میں ضائع کردیتے ہیں ۔
سیف الیمانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ( إِنَّ مِنْ عَلَامَۃِ إِعْرَاضِ اللّٰہِ عَنِ الْعَبْدِ أَن یُّشْغِلَہُ بِمَا لَا یَنْفَعُہُ )
’’ بندے سے اللہ تعالی کے اعراض کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ اسے اُس چیز میں مشغول کردے جو اُس کیلئے نفع بخش نہ ہو ۔ ‘‘
٭ چنانچہ بعض لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر یا ان کے ساتھ محفلیں منعقد کرکے اپنا فارغ وقت برباد کردیتے ہیں ۔
ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے قیمتی اوقات کو جن دوستوں کی وجہ سے برباد کرتے ہیں ان کی دوستی قیامت کے روز ان کیلئے شدید پچھتاوے اور حسرت وندامت کا باعث بن جائے گی ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا ٭ یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا ٭ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِِذْ جَآئَنِی﴾ الفرقان25 :27۔29
’’ اُس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا : کاش ! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روش اختیار کی ہوتی ۔ ہائے افسوس ، کاش ! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے ورغلایا ۔ ‘‘
برے دوستوں کی وجہ سے بندہ بہت زیادہ نقصان اٹھاتا ہے اور ان کی یاری دوستی کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گنوا دیتا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال کے ذریعے اچھے دوست کے فوائد اور برے دوست کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
((مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالسُّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ،فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُّحْذِیَکَ،وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ،وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً، وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّا أَنْ یُحَرِّقَ ثِیَابَکَ،وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًا خَبِیْثَۃً )) صحیح البخاری : 5534
’’ اچھے اور برے ساتھی کی مثال عطر فروش اور بھٹی دھونکنے والے انسان کی طرح ہے۔ عطر فروش یا تو آپ کو عطر ہدیۃً دے دے گا یا آپ اس سے خریدیں گے یا کم از کم آپ کو اس سے اچھی خوشبو ضرور آئے گی۔ اور بھٹی
دھونکنے والا انسان یا آپ کے کپڑے جلا ڈالے گا یا کم از کم آپ کو اس سے بد بو ضرور آئے گی ۔ ‘‘
لہذا اچھے لوگوں کو دوست بنا کر اور برے لوگوں کو دوست نہ بنا کر اپنے قیمتی اوقات کو برباد ہونے سے بچانا چاہئے ۔
ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ جن محفلوں اور مجلسوں میں بیٹھ کر ہم فضول اور بے ہودہ گفتگو کرتے ہوئے وقت پاس کرتے ہیں یہی محفلیں اور مجلسیں قیامت کے روز ہمارے لئے باعث حسرت وندامت بن جائیں گی ۔
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ وَلَمْ یُصَلُّوْا عَلٰی نَبِیِّہِمْ صلي الله عليه وسلم إِلَّا کَانَ مَجْلِسُہُمْ عَلَیْہِمْ تِرَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنْ شَائَ عَفَا عَنْہُمْ وَإِنْ شَائَ أَخَذَہُمْ)) مسند أحمد :10282۔ وصححہ الأرنؤوط والألبانی
’’ جو لوگ کسی ایسی مجلس میں بیٹھتے ہیں کہ اس میں نہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتے ہیں تو وہ مجلس ان کیلئے قیامت کے روز نقص اور حسرت وندامت کا باعث بنے گی ۔اگر اللہ تعالی چاہے گا تو انھیں معاف کردے گا اور اگر چاہے گا تو ان کی گرفت کرے گا ۔ ‘‘
٭ اوربعض لوگ کہانیوں ، داستانوں اور من گھڑت واقعات پر مشتمل ڈائجسٹ اور رسالے پڑھ کر اپنا فارغ وقت ضائع کردیتے ہیں ۔
کاش کہ یہ لوگ جن اوقات میں قصے ، کہانیاں پڑھتے ہیں ، اُن میں قرآن مجید کی تفسیر ، یا حدیث نبوی ، یا سیرت طیبہ یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سچے واقعات کا مطالعہ کرتے تو اللہ تعالی ان کی عمر کو کس قدر بابرکت بنا دیتا !
٭ اور بعض لوگ رات کو بہت دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور رات کی اُن ساعات کوفضول کاموں میں برباد کردیتے ہیں جنھیں اللہ تعالی نے انسان کیلئے آرام وسکون کیلئے پیدا کیا ہے ۔ پھر اُن مبارک ساعات میں سو جاتے ہیں جن میں اللہ تعالی آسمان دنیا پہ آکر ندا ء دیتا ہے کہ
( مَن یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ) ’’کون ہے جومجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا کو قبول کروں ؟ ‘‘
( مَن یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ ) ’’ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں ؟ ‘‘
(مَن یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ ) ’’ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں ؟ ‘‘ صحیح البخاری : 1154
صرف یہی نہیں کہ وہ رات کے آخری پہر میں سو جاتے ہیں ، بلکہ فجر کے وقت بھی سوئے رہتے ہیں ۔ اور اُس وقت بیدار ہوتے ہیں جب انھیں اپنی ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے ۔ یوں عشاء کے بعد رات کا ابتدائی حصہ فضول اور بے ہودہ کاموں میں ضائع کرنے سے نماز تہجد بھی فوت ہوجاتی ہے اور نماز فجر بھی ۔ چلیں نماز تہجد تو نفل نماز
ہے ، جبکہ نماز فجر تو فرض ہے ، جس میں کسی قسم کی غفلت اللہ تعالی کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے ۔
پھر یہ بات بھی درست نہیں کہ جو وقت اللہ تعالی نے نیند کیلئے بنایا ہے اسے جاگ کر گزار دیا جائے ۔ اور جو وقت جاگنے اور محنت کرنے کیلئے بنایا ہے اسے سو کر ضائع کردیا جائے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ﴾ القصص28 :73
’’ اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لئے رات اور دن بنائے ، تاکہ تم ( رات کو ) آرام کر سکو اور ( دن کو ) اس کا فضل ( رزق ) تلاش کر سکو ۔ اور تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ ۔‘‘
اِس سلسلے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کو ناپسند کرتے تھے ۔ صحیح البخاری :547
جبکہ ہم میں سے بہت سارے لوگ عشاء کے بعد آدھی رات تک بالکل ہی فضول کاموں میں مشغول رہتے ہیں ۔ اور یہ یقینا اِس حدیث کے سراسر خلاف ہے ۔
٭ اور بعض لوگ ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور اپنے پسندیدہ پروگرام ، یا مختلف میچز دیکھ کر فارغ اوقات کو ضائع کردیتے ہیں ۔ اور اِس دوران موسیقی کا سماع ، غیر محرم عورتوں کو دیکھنا اور اِس جیسے دیگر گناہوں میں مشغول رہ کر قیمتی اوقات کو برباد کردیتے ہیں ۔
٭اور میں سمجھتا ہوں کہ فی زمانہ سب سے زیادہ وقت کے ضیاع کا ذریعہ موبائل ٹیلیفون ہے ، کہ جس نے ہر عمر کے لوگوں کو ، چاہے بچے ہوں یا جوان ہوں ، چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں ، مرد ہوں یا عورتیں ہوں ، سب کو انتہائی مشغول کرکے رکھ دیا ہے ۔
٭ چنانچہ کئی لوگ اپنی پسندیدہ گیمز میں مشغول رہتے ہیں ۔
٭ اور کئی لوگ سوشل میڈیا پر مشغول رہتے ہیں ۔ چنانچہ فیس بک پر اپنا سٹیٹس(status) اپ ڈیٹ(update ) کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ مختلف پوسٹس کو دیکھنا اور انھیں لائک ( like)کرنا یا ان پر تبصرہ کرنا ، یا تبصروں پر تبصرے کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ، چاہے اس کی وجہ سے اللہ تعالی کے فرائض یا بندوں کے حقوق ضائع بھی ہوجائیں تو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔
٭ کئی لوگ فری پیکیجز لے کر گھنٹوں گھنٹوں فضول گفتگو میں یا میسجز ( پیغامات) کے تبادلے میں لگے رہتے ہیں۔
٭ اور کئی لوگ موبائل فون کے ذریعے موسیقی سنتے ہوئے یا وڈیو کلپس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو رائیگاں کردیتے ہیں۔
الغرض یہ کہ کسی نہ کسی طریقے سے ’موبائل ‘ وقت کے ضیاع کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکا ہے ۔
حالانکہ ’ موبائل ‘ ایک وقتی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایجاد کیا گیا ہے ، لہذا اسے اپنی وقتی ضرورت کو پورا کرنے کا ہی ایک ذریعہ سمجھنا چاہئے ۔ نہ یہ کہ اسے ایک مستقل مشغلہ بنا لیا جائے کہ جس کی وجہ سے دیگر فرائض وواجبات میں شدید خلل پیدا ہو ۔ نہ اللہ تعالی کے فرائض کی پروا رہے اور نہ ہی اللہ کے بندوں کے حقوق پورے ہوں ۔
ہاں اگر ’موبائل فون ‘کا جائز استعمال ہو ، اِس طرح کہ
٭ اس کو علم ِ نافع کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے ۔ یعنی اس کے ذریعے مختلف علماء کے لیکچرز اور دروس وخطبات سنے جائیں ، یا مستند ویب سائٹس پہ موجود لٹریچر ، فتاوی جات ، آڈیوز ، ویڈیوز وغیرہ سے استفادہ کیا جائے ۔
٭ یا اسے دینی تعلیمات کو پھیلانے کاذریعہ بنایا جائے ۔ یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے اللہ رب العزت کے فرامین یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کو لوگوں تک پہنچایا جائے ۔ اور مختلف دینی معلومات لوگوں کے ساتھ شیئر کی جائیں ۔ اور سوشل میڈیا پر جن غلط نظریات وباطل عقائد کی نشر واشاعت ہو رہی ہو ان کا مدلل رد کیا جائے ۔
تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ یہ اِس دور کی ایک اہم ضرورت بھی ہے ۔ لہذا ’ موبائل فون ‘ کے ناجائز استعمال کے ذریعے اپنے قیمتی اوقات کو برباد کرنے کی بجائے اس کے جائز استعمال کے ذریعے اس سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے ۔
عزیزان گرامی ! ہم نے وقت کے ضیاع کے جو اسباب ووسائل ذکر کئے ہیں ، یہ اور ان کے علاوہ باقی جتنے ایسے اسباب ہیں ، یہ سب انسان کیلئے انتہائی خطرناک ہیں ۔ لہذا ایسے تمام امور سے دور رہنا ضروری ہے جو انسان کے قیمتی اوقات کے ضیاع کا سبب بنتے ہوں ۔
جو شخص فارغ اوقات کو ضائع کرتا ہو اسے سوچنا چاہئے کہ کیا اللہ تعالی نے اسے فضول پیدا کیا ہے ! کیا اس کی خلقت کا کوئی مقصد نہیں ہے ! اور کیا اس کی زندگی بے مقصد ہے !
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ﴾ المؤمنون23 :115
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد پیدا کردیا اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے ؟ ‘‘
اس کے بعد فرمایا : ﴿ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ﴾ المؤمنون23 :116
’’ پس اللہ بہت بلند شان والا ہے ، وہی بر حق بادشاہ ہے ۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالی جو حقیقی بادشاہ ہے وہ اِس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ تمھیں بے مقصد پیدا کرتا ۔
لہذا لوگو ! تم اپنے مقصد ِ حیات کو پہچانو اور جس مقصد کیلئے تمھیں پیدا کیا گیا ہے اسی کی خاطر زندگی گزارو ۔ اور وہ مقصد کیا ہے ؟ سنو ، اللہ تعالی کیا فرما رہا ہے :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ﴾ الذاریات51 :56
’’ اور میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ۔ ‘‘
اِس سے معلوم ہوا کہ ہمارا مقصد ِ حیات اللہ تعالی کی عبادت اور بندگی ہے ۔ یعنی ہم اپنی زندگی اپنے خالق ومالک اور رازق کی مرضی ومنشاء کے مطابق بسر کریں ۔ اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کی مرضی ومنشاء کے خلاف ہو ، یا جس سے وہ ناراض ہوتا ہو ۔
٭اللہ تعالی نے ہمیں صحت وتندرستی سے نوازا ہے ، تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کریں ۔
٭ اللہ تعالی نے ہمیں فارغ اوقات جیسی نعمت سے نوازا ہے ، تو ہم پر فرض ہے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں اور فارغ اوقات کو ایسے کاموں میں مشغول کریں کہ جن سے اللہ تعالی کی رضا مندی او راس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہو ۔ اور اسے بے ہودہ اور فضول کاموں میں ضائع نہ کریں ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
( اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ) ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ۔ ‘‘
01. ( شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ) ’’ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ۔ ‘‘
02. ( وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ) ’’ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے ۔ ‘‘
03. ( وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ) ’’ اپنی تونگری کو اپنی غربت سے پہلے ۔ ‘‘
04. ( وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ) ’’ اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے ۔ ‘‘
05. ( وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ) ’’ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔ ‘‘ أخرجہ الحاکم وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :3355
لہذا اپنی فراغت کو غنیمت سمجھ کر اس سے خوب فائدہ اٹھانا چاہئے ، اِس سے پہلے کہ فراغت مشغولیت میں بدل جائے ، پھر انسان کچھ کرنا بھی چاہے تو دیگر کاموں میں مشغولیت کی بناء پر کچھ نہ کر سکے ۔
ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ہم فراغت کو رضائے الٰہی کا ذریعہ بننے والے اعمال میں مشغول نہیں کرتے اور اسے اللہ تعالی کی ناراضگی کا ذریعہ بننے والے اعمال میں ضائع کردیتے ہیں تو قیامت کے روز جب ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ہم کیا جواب دیں گے ؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ )
’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے ۔‘‘
01. ( عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ) ’’ عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گذارا ؟‘‘
02. (وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلاہُ ) ’’جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گنوایا ؟ ‘‘
03.04. ( وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ) ’’ مال کے بارے میں ( دو سوال ) کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ ‘‘
05. (وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ) ’’ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟ ‘‘ جامع الترمذی : 2416 ۔ وصححہ الألبانی
لوگو ! قیامت کے روز جب آپ کی عمر کے بارے میں سوال ہوگا کہ اسے کس چیز میں گزارا ، یعنی زندگی کے قیمتی اوقات کو کس کس عمل میں مصروف رکھا ؟ اللہ کو راضی کرنے والے اعمال میں ؟ یا اس کو ناراض کرنے والے اعمال میں ؟ تو سوچ لو کہ اُس دن اِس سوال کا کیا جواب دو گے ؟
اور اے نوجوانو ! قیامت کے روز جب تم سے سوال کیا جائے گا کہ اپنی جوانی کی توانائیوں کو کن اعمال میں کھپایا تھا ؟تم دن اور رات کا بیشتر حصہ کس کس کے ساتھ ، کیا کیا کرتے ہوئے گزارتے تھے ؟ تم جب اپنے روم میں اکیلے ہوتے تھے تو کیا کیا دیکھتے تھے ؟ کیا کیا سنتے تھے ؟ کیا کیا پڑھتے تھے ؟ اور فارغ اوقات میں کیا کیا کرتے تھے ؟ تو تم بھی سوچ لو کہ قیامت کے روز ان سوالوں کے کیا جواب دو گے ؟
دو مواقع جن میں انسان کو وقت ضائع کرنے پر حسرت وندامت ہوگی !
محترم بھائیو ! دو مواقع ایسے آئیں گے جن میں انسان کو قیمتی اوقات کے ضیاع پر بڑی حسرت ہوگی ۔
اُن میں سے پہلا موقع ہوگا موت کی گھڑی کا ۔ جب وہ گزری ہوئی عمر پر حسرت کا اظہار کرے گا اور وہ چاہے گا کہ اسے مزید وقت مل جائے ، جس میں وہ نیک اعمال کرلے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿حَتّٰی اِِذَا جَآئَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ٭ لَعَلِّیٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ﴾
’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آنے لگتی ہے تو وہ کہتا ہے : میرے رب ! مجھے واپس بھیج دیں۔ شاید میں چھوڑی ہوئی دنیا میں واپس جا کر نیک عمل کر لوں ۔ ‘‘
جواب آئے گا :﴿کَلَّا اِِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ﴾ المؤمنون23 :99۔100
’’ ہرگز نہیں ، یہ تو صرف ایک بات ہے جسے اس نے کہہ دیا ۔ اور ان کے پس پشت دوبارہ جی اٹھنے تک ایک حجاب ہے ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ﴾ المنافقون63 :10
’’ اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو ، اِس سے پہلے کہ تم میں سے کسی پر موت آجائے ، تو وہ کہنے لگے : اے میرے رب ! مجھے تُو تھوڑی دیر کیلئے مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کر لوں ؟ اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں ؟ ‘‘
تو کیا موت کا وقت آنے کے بعد انسان کو مہلت مل سکتی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُہَا ﴾ المنافقون63 :11
’’ اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا ۔ ‘‘
اوردوسرا موقع ہوگا قیامت کا دن۔ جب انسان یہ چاہے گا کہ وہ دوبارہ دنیا میں چلا جائے اور نیک اعمال کرلے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُئُ وْسِھِمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ﴾ السجدۃ41 :12
’’ کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے رب کے حضور سر جھکائے کھڑے ہوں گے ( اور کہیں گے ) اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ اور سن لیا ، لہذا ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم اچھے عمل کرلیں ۔ ہمیں یقین آگیا ہے ۔ ‘‘
میرے بھائیو اور بزرگو ! حسرت وندامت کے ان دو موقع کے آنے سے پہلے ہمیں ’وقت ‘ کی اہمیت اور اس کی قدرو منزلت کو پہچان لینا چاہئے ۔ اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی موت کے وقت اور قیامت کے روز اسی حسرت وندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔ والعیاذباللہ
’ وقت ‘ کی دو خصوصیات :
عزیزان گرامی ! آئیے خطبے کے آخر میں ’ وقت ‘ کی دو اہم خصوصیات جان لیجئے ۔
01. وقت انتہائی تیزی سے گزر رہا ہے
جی ہاں ، وقت بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے ۔ اور ہر گزرتے دن ، ہر گزرتی رات اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہماری زندگی کم ہو رہی ہے ۔ اور ہم قبر کی طرف اور آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
وقت اتنا تیز چل رہا ہے کہ اس کی تیزی کا احساس ہی نہیں ہو رہا ۔ سال ایسے گزر جاتا ہے جیسے ایک مہینہ گزرا ہو ۔ اور مہینہ ایسے گزرجاتا ہے جیسے ایک ہفتہ گزرا ہو ۔ اور ہفتہ ایسے گزر جاتا ہے جیسے ایک دن گزرا ہو۔ جب کبھی کوئی سالانہ مناسبت آتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے پچھلے سال کی وہی مناسبت ابھی قریب زمانے میں ہی گزری ہے ۔ حالانکہ اس کو پورا سال گزر چکا ہوتا ہے ۔
’ تقارب ِزمان‘ قیامت کی علاماتِ صغری میں سے ایک علامت ہے ۔ جس کا ایک معنی یہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ۔
لہذا زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
02.’وقت ‘ سونا چاندی اور دینار ودرہم سے بھی زیادہ قیمتی ہے
جی ہاں ، وقت انتہائی قیمتی اور بہت ہی مہنگاہے ۔ اتنا قیمتی اور مہنگا کہ سونا چاندی ، دینار ودرہم اور روپیہ اور ڈالر سے بھی زیادہ قیمتی اور مہنگا! کیونکہ
01. اگر ( اللہ نہ کرے ) آپ کا مالی نقصان ہو جائے ، یعنی سونا چاندی یا دینار ودرہم یا روپے اور ڈالر کا نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو آپ اللہ کے حکم سے آنے والے وقت میں پورا کر سکتے ہیں ۔
لیکن اگر ’وقت ‘ کا نقصان ہو جائے ، یعنی دن ضائع ہو جائے ، یا دن کی ایک گھڑی ضائع ہو جائے ، تو ضائع
شدہ وقت کبھی واپس نہیں آسکتا ۔ چاہے آپ دنیا بھر کے خزانے خرچ کر ڈالیں ، تب بھی گزرا ہوا وقت ہاتھ نہیں آسکتا ۔
تو کیا خیال ہے ! وقت زیادہ مہنگا ہے یا مال ؟
02. اگرآپ چاہیں تو اپنا مال کسی کو ادھار دے سکتے ہیں اور اس کے واپس آنے کی بھی امید ہوتی ہے ، آج نہیں تو کل وہ ادھار دیا ہوا مال واپس لوٹ آئے گا ۔ لیکن یہ نا ممکن ہے کہ آپ کسی کو اپنی زندگی کا ایک دن یا ایک گھنٹہ ادھار دے دیں ، پھر اسے اس سے واپس لے لیں ۔
تو کیا خیال ہے ! وقت زیادہ قیمتی ہے یا مال ؟
اسی لئے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے : ( مَا نَدِمْتُ عَلٰی شَیْیٍٔ نَدْمِیْ عَلٰی یَوْمٍ غَرَبَتْ فِیْہِ شَمْسُہُ نَقَصَ فِیْہِ أَجَلِیْ وَلَمْ یَزِدْ فِیْہِ عَمَلِیْ )
’’ مجھے کبھی اتنی ندامت نہیں ہوئی ، جتنی اُس دن پر ہوتی ہے جس کا سورج غروب ہو جائے ، اُس میں میری عمر کم ہو جائے اور میرا عمل نہ بڑھے ۔ ‘‘
٭ میں خطبہ کے آخر میں ہر شخص سے اپیل کرتا ہوں کہ ’ وقت ‘ کی قدر کریں اور اسے فضول اور بے ہودہ کاموں میں ضائع کرنے سے بچیں ۔
٭ خاص طور پر نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنی جوانی کی عمر اور اس کی توانائیوں کو فضول چیزوں میں برباد نہ کریں ۔ بلکہ ان توانائیوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جوانی کے دوران اللہ تعالی کا تقرب زیادہ سے زیادہ حاصل کریں ۔ اور یاد رکھیں کہ جس نوجوان کی نشو ونما اللہ تعالی کی عبادت میں ہوتی ہے اسے اللہ تعالی قیامت کے روز اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔
اور آپ اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر جو محنت جوانی کی عمر میں کر سکتے ہیں وہ جوانی کا مرحلہ گزرنے کے بعد ہرگز نہیں کر سکتے ۔ اس لئے اس کی قدر کریں اور اسے ضیاع سے بچائیں ۔
٭ اسی طرح میں اپنی ماؤں بہنوں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ گھروں میں اپنے فارغ اوقات کو فضول چیزوں میں ضائع نہ کیا کریں ۔ بلکہ فارغ اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت ، ذکر اور استغفار کثرت سے کیا کریں۔ نفع بخش کتب کا مطالعہ کیا کریں ۔ دینی لیکچرز اور خطبات ودروس سنا کریں ۔ گھروالوں کی خدمت اور بچوں کی تربیت ، حتی کہ گھریلو کام کاج بھی کار ثواب اور عبادت سمجھ کر کیا کریں ۔
٭ اسی طرح میں بچوں کے والدین سے خصوصی طور پر گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان کی اسلامی تربیت پر توجہ دیا
کریں ۔ اور اِس دور میں ’وقت ‘ کو برباد کرنے والی جتنی چیزیں ہیں ان سے اپنے بچوں کو سختی سے بچنے کی تلقین کیا کریں ۔اور یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ذمہ دار کے متعلق آگاہ فرمایا ہے کہ اس سے قیامت کے روز اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ لہذا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔ اور نہ خود اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کیا کریں اور نہ ہی گھر والوں اور بچوں کو اس کی اجازت دیا کریں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فارغ اوقات سے مستفید ہونے کی توفیق دے ۔ اور ان اوقات کو ہمارے حق میں نفع بخش بنائے ۔ اور قیامت کے روز انھیں ہمارے خلاف حجت نہ بنائے ۔
دوسرا خطبہ
محترم بھائیو اور بزرگو ! اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ فَاِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ٭ وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ﴾ الانشراح94 :7۔8
’’ جب آپ فارغ ہوں تو ( عبادت کی ) مشقت میں لگ جائیں ۔ اور اپنے رب کی طرف راغب ہوں ۔ ‘‘
ان آیات میں اللہ تعالی نے اگرچہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہے ، مگر یہ ہیں ہم سب کیلئے ۔ اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص ، مرد ہو یا عورت ، جب کبھی فارغ ہو تو وہ ان کاموں میں لگ جائے جو اللہ تعالی کو راضی کرنے والے ہوں ۔ اور ان کاموں سے بچے جو اسے ناراض کرنے والے ہوں ۔
آئیے اب ہم کچھ عملی چیزیں ذکر کرتے ہیں ۔ اور آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ کم وقت میں آپ بفضلہ تعالی بہت زیادہ نیکیاں کما سکتے ہیں ۔ ہم جن اعمال کا تذکرہ کریں گے وہ ایسے اعمال ہیں کہ جنھیں ایک سے دو منٹ میں کیا جا سکتا ہے ۔
لیکن ان اعمال کا تذکرہ کرنے سے پہلے ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ اسلام کی اہم ترین عبادات ہمیں اِس بات کی طرف دعوت دیتی ہیں کہ ہم اپنے اوقات کو منظم ومرتب کریں اور ایک ترتیب کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، خواہ وہ اللہ کے فرائض ہوں یا بندوں کے حقوق ہوں ۔
چنانچہ آپ پانچ نمازوں کو دیکھ لیں ، جو دین کا ستون ہیں ، اللہ تعالی نے ان نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں ۔ اور ہر نماز کو اس کے مقررہ وقت میں ادا کرنا فرض قرار دیا ہے ۔ اور اگر ہم ’وقت ‘ کا حساب کرنا چاہیں تو چوبیس گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ پانچوں نمازیں ادا کرنے پرصرف ہوتا ہے ۔ گویا چوبیس گھنٹوں میں سے
صرف ایک گھنٹہ اللہ کیلئے اور تیئیس گھنٹے آپ کیلئے ۔ اور ایک گھنٹہ جو اللہ کے فرائض کیلئے ہے وہ بھی درحقیقت آپ ہی کی مصلحت اور آپ ہی کے فائدے کیلئے ہے ، کیونکہ نمازیں پڑھنے سے آپ ہی مستفید ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے آپ کے جسم کو گناہوں سے پاک کردیا جاتا ہے ۔
اسی طرح فرضی روزے ہیں ، جو سال کے بعد آتے ہیں ، ماہِ رمضان کی ابتداء سے شروع ہوتے ہیں اور اس کی انتہاء کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں ۔ اور ان کے ذریعے بھی انسان کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔
اسی طرح زکاۃ ہے ، جو سال گزرنے کے بعد فرض ہوتی ہے ۔ اور اس کے ذریعے زکاۃ دینے والے کا تزکیہ ہوتا ہے اور مال پاک ہو جاتا ہے ۔
اسی طرح حج بیت اللہ ہے ، جس کا مہینہ بھی مقرر ہے اور اس کے ایام بھی مقرر ہیں ۔ اور مناسکِ حج کا پورا شیڈول منظم ومرتب ہے ، جس کی پابندی کرنا ہر حاجی پر لازم ہوتا ہے ۔
اسی طرح نماز عیدین ہے ، نماز جمعہ ہے ، مختلف نفلی روزے ہیں ، مثلا ہر پیر اور جمعرات کا روزہ ، ایام بیض کے روزے ، عاشوراء اور عرفہ کے روزے وغیرہ ۔۔۔۔۔ یہ سب عبادات اپنے اپنے مقررہ اوقات میں ہی انجام دی جاتی ہیں ۔ اسی طریقے سے ہر مسلمان کو اپنی زندگی کے معمولات کو مرتب کرنا چاہئے ۔ اور فارغ اوقات کو ایک ترتیب کے ساتھ گزارنا چاہئے ، تاکہ ان قیمتی اوقات سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے ۔
اور یہ بات یاد رکھیں کہ جس کام کیلئے جو وقت متعین ہو اسے اسی وقت پورا کریں اور یہ مت کہیں کہ اسے بعد میں کر لیں گے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ بعد میں تو وہ کام ہوگا جس کا وقت ہوگا ۔ اور بعد میں جب کئی کام اکٹھے ہوجائیں گے تو ایک بھی نہیں ہوگا ، یا ایک آدھ ہو جائے گا اور باقی رہ جائیں گے ۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کام بروقت نہیں کیا جاتا تو وہ لیٹ ہوتے ہوتے آخر کار رہ ہی جاتا ہے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے نامزد کیا تھا تو انھیں کچھ باتوں کی وصیت کی تھی ، ان میں سے ایک یہ تھی :
’’ عمر ! یقین کر لو کہ اللہ تعالی کیلئے ایک عمل دن کے وقت ہوتا ہے جسے وہ رات کے وقت قبول نہیں کرتا ۔ اور ایک عمل رات کے وقت ہوتا ہے جسے وہ دن کے وقت قبول نہیں کرتا ۔ ‘‘ معرفۃ الصحابۃ :106
اِس سے ثابت ہوا کہ دن کا کام دن کو اور رات کا کام رات کو کرنا چاہئے ۔ اور کسی کام کو بلا عذر مؤخر نہیں کرنا چاہئے ۔
عزیزان گرامی ! اب ہم اُن اعمال کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک سے دو منٹ میں کئے جا سکتے ہیں اور اُن کے ذریعے بہت سے فوائد وثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ یہ ایسے اعمال ہیں جو خاص طور پر انتظار کے اوقات میں کئے جا سکتے ہیں ۔ یعنی ان کیلئے کوئی وقت خاص نہیں کرنا پڑتا ، بلکہ جب بھی وقت ملے آپ انھیں کر سکتے ہیں ۔ مثلا آپ ڈاکٹر کے پاس گئے ، مریضوں کے رش کی وجہ سے آپ کو انتظار کرنا پڑا ، یا آپ سفر کررہے ہیں اور آپ کا سفر کئی گھنٹوں کا ہے ، یا آپ گاڑی ڈرائیو کررہے ہیں اور آپ کو کسی سگنل پر ایک سے دو منٹ کیلئے رکنا پڑتا ہے، یا آپ بس سٹینڈ یا ریلوے اسٹیشن یا ائیر پورٹ پر جاتے ہیں اور آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو اِس دوران آپ متعدد اعمال کر سکتے ہیں ۔ وہ کون سے اعمال ہیں ؟ آپ کی بھر پور توجہ مطلوب ہے :
01. آپ ایک منٹ میں دس مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھ سکتے ہیں ۔
اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ قَرَأَ قُُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ حَتّٰی یَخْتِمَہَا عَشْرَ مَرَّاتٍ ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ قَصْرًا فِی الْجَنَّۃِ )
’’ جو شخص مکمل سورتِ اخلاص دس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے ۔ ‘‘ السلسلۃ الصحیحۃ :589
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جو اِس سورت سے محبت کرتا تھا اور کثرت سے پڑھتا تھا ، اسے فرمایا تھا: ( حُبُّکَ إِیَّاہَا أَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ )
’’ اُس سے تیری محبت نے تجھے جنت میں داخل کردیا ہے ۔ ‘‘ صحیح البخاری:774م
02. آپ ایک منٹ میں قرآن مجید کا ایک صفحہ اور دو منٹ میں دو صفحے تلاوت کر سکتے ہیں ۔اور آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ اگر ایک صفحے میں پندرہ سطریں ہوں اور ہر سطر میں تقریبا تیس حرف ہوں تو ایک صفحے میں چار سو پچاس حرف بنتے ہیں ۔ اِس کو دس سے ضرب دیں تو ساڑھے چار ہزار نیکیاں بنتی ہیں ۔
03. آپ دو منٹ میں سومرتبہ ( سبحان اللہ وبحمدہ ) پڑھ سکتے ہیں جس کی فضیلت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادد فرمایا :
( مَنْ قَالَ سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، فِیْ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ،َ حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ ) صحیح البخاری:6405
’’ جو شخص دن میں سو مرتبہ ( سبحان اللہ وبحمدہ) پڑھ لے تو اس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں خواہ
وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘
04.آپ تقریبا دو منٹ میں سو مرتبہ استغفار کر سکتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صرف ایک مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ دعا سو مرتبہ سنتے تھے :
( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ )
’’ اے میرے رب ! مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول فرما ، یقینا تو ہی خوب توبہ قبول کرنے والا ، بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ ‘‘ السلسلۃ الصحیحۃ :556
05.آپ دو منٹ میں سو مرتبہ ( لا حول ولا قوۃ الا باللہ ) پڑھ سکتے ہیں ۔ جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیا ہے ۔ اور اسے کثرت سے پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
06.آپ تقریبا دو اڑھائی منٹ میں سو مرتبہ ( سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ) پڑھ سکتے ہیں ۔ جس کے بارے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ ، خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم ) صحیح البخاری :7563
’’ دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی پیارے ، زبان پر بہت ہلکے اور ترازو میں انتہائی وزنی ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم ‘‘
07.آپ ایک منٹ میں دس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج سکتے ہیں ۔ اور ایک مرتبہ درود بھیجنے پر اللہ تعالی کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجے بلند ہوتے ہیں ۔ یوں دس مرتبہ درود بھیجنے سے سو رحمتیں نازل ہونگی ، سو گناہ معاف ہونگے اور سو درجے بلند ہونگے۔
میرے بھائیو اور دوستو ! یہ اور اِس طرح کے دیگر اعمال انتہائی کم وقت میں کئے جا سکتے ہیں ۔ اور ان کے ذریعے بفضل اللہ تعالی بہت سے فوائد وثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو وقت کے ضیاع سے محفوظ رکھے ۔ ہمیں قیمتی فارغ اوقات سے بھر پور طور مستفید ہونے اور ذخیرۂ آخرت بننے والے اعمال انجام دینے کی توفیق دے ۔ آمین
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین