مشرکوں اور اہل کتاب کو کس طرح سلام کرنا چاہیے

91۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَاتَبْدُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ فَأَضْطَرُّوْهُ إِلى أَضْيَقِهِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2167)

’’یہود و نصاری کو سلام کہنے میں ابتدا نہ کرو اور جب تم ان میں سے اسے کسی کو راستے میں ملو تو (بجائے اس کے کہ وہ ایسا کرے) تم اسے راستے کے تنگ حصے کی طرف جانے پر مجبور کر دو۔‘‘

92۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، فَقُولُوا:وَعَلَيْكُمْ)) ( أَخْرَجَهُ البخاري:6258، ومُسْلِمٌ:2163)

’’جب اہل کتاب تھیں سلام کریں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم (اور تم پر) کہو۔ ‘‘

93۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِذَا سَلَمَ عَلَيْكُمُ الْيَهُودُ فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَلسَّامُ عَلَيْكَ، فَقُلْ:وَعَلَيْكَ))

’’جب یہود تمھیں سلام کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی شخص السام عَلَيْكُمْ ’’تم پر موت نازل ہو‘‘ کہتا ہے۔ تم (اس کے جواب میں)  ’’عَلَيْكَ‘‘ (تجھے موت آئے) کہو۔ ‘‘(أخرجه البخاري:6257، ومُسْلِمٌ:2164)

94۔سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک ایسی مجلس کے قریب سے گزرے جہاں مسلمان

بت پرست مشرک اور یہودی سب ملے جلے موجود تھے۔ نبیﷺ نے تمام اہل مجلس کو سلام کیا۔ (أَخْرَجَهُ البخاري:6354، ومُسْلِمٌ: 1798)

95۔سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (شاہ روم) ہر قل کی طرف جو خط بھیجا، اس میں (لکھا تھا: ((بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ… سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى))

’’اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے۔ اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔‘‘

توضیح و فوائد: کفار کو سلام کرنے یا جواب دینے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ درج بالا احادیث کی روشنی میں خلاصہ کلام یہ ہے:

٭ کفار اور مشرکین کو سلام کرنے میں خود ابتدا کرنا ناجائز، تا ہم جواب دینا ضروری ہے، جواب کا طریق کار یہ ہے کہ اگر سلام واضح ہو، یعنی وہ السلام علیکم کہے تو جواب میں وَ عَلَيْكُمُ السلام کہنا چاہیے اگر غیر واضح ہو یا واضح ہو لیکن السّام علَيْكُمْ کہا ہو تو صرف و عَلَيْكُمْ پر اکتفا کیا جائے۔ اسی طرح مصافحے میں بھی پہل نہیں کرنی چاہیے۔(ا,خرجه البخاري:7، و مسلم: 1773)

٭خط وغیرہ لکھنا ہو تو حدیث نمبر 95 والا اسلوب اختیار کیا جائے۔

٭ آدمی کافروں کے ملک میں ہو یا کوئی دینی و دنیاوی مصلحت ہو تو سلام میں پہل کی جاسکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ سلام کے علاوہ علیک سلیک کا کوئی طریقہ اختیار کر لیا جائے۔

٭مسلمانوں اور کافروں کی ملی جلی مجلس ہو یا کسی آدمی کے مسلمان یا کافر ہونے کا علم نہ ہو تو سلام کرنا چاہیے۔ بعض علماء نے مشرک اور مرتد کو سلام کا جواب دینا ناجائز قرار دیا ہے اور سلام کی اجازت کو اہل کتاب کے ساتھ خاص کیا ہے۔

……………