مشرک کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

134۔سیدنا عبد الله بن مسعود ﷺ بیان کرتے ہیں ہیں کہ ہم تقریباً چالیس آدمی ایک خیمے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: ((أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ))

’’کیا تم اس پر خوش ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ بنو؟“

ہم نے کہا:ہاں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوْا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ))

’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو جاؤ؟‘‘

ہم نے کہا:ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَن تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَذٰلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلْهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنتُمْ فِي أَهْلِ الشَّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ‘‘(أَخْرَجَهُ البُخَارِي:6642، ومُسْلِمٌ:221، 377)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے اور تم اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں اس انسان کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا جس نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا اور مشرکوں میں تمھارا تناسب سیاہ بیل کی جلد پر سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پر ایک سیاہ بال کی دیا اور طرح ہوگا۔‘‘

135۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا:

((يَا ابْنَ الْخَطَابِ اذْهَبْ فَنَادٍ فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:114)

’’خطاب کے بیٹے! جاؤ لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔ نہ  انھوں نے کہا: میں باہر نکلا اور (لوگوں میں)  اعلان کیا ((أَلَا إِنَّهُ لا يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ))

’’(لوگو) سن لو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہوگا۔ ‘‘

136۔  سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوْلَا أَدُلُّكُمْ عَلٰى شَيْءٍ إِذا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفَشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:54)

’’تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم ایمان لاؤ اور تم مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو گے تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو؟ (وہ یہ ہے کہ)  تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ اور عام کرو۔‘‘

 توضیح و فوائد: کوئی گناہ گار گناہ کی موجودگی میں جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ نہایت پاکیزہ جگہ ہے۔ اس لیے گناہ گاروں کے گناہ یا تو معاف کر دیے جائیں گے یا پھر مزا دے کر ان کے گناہ ختم کیے جائیں گے لیکن اگر کوئی آدمی اس حال میں مر گیا کہ وہ شرک وکفر میں ملوث تھا تو اسے معافی نہیں ملے گی کیونکہ اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ شرک و کفر کو بھی معاف نہیں کرے گا اور شرک و کفر کی نجاست اتنی گھناؤنی ہے کہ جہنم کی آگ بھی اسے نہیں دھو سکے گی، اس لیے مشرک و کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

رہا مسئلہ ان اچھے اعمال کا جو مشرکوں اور کافروں نے کیسے ہوں گے تو اس کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں نیک نامی، شہرت اور دولت وغیرہ کی صورت میں مل جائے گا۔ یہاں مومن اور مسلمان کے ایک ہی معنی ہیں۔

137۔سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا:

((إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دَفَعَ الله عَزَّ وَجَلَّ إِلَى كُلِّ مُسْلِمٍ يَهُودِيًا أَوْ نَصْرًا نَيًّا فَيَقُولُ:هٰذَا فِكَاكُكَ مِنَ النَّارِ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2767)

’’جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی (ایک مرحلے پر) ہر مسلمان کو ایک یہودی یا عیسائی عطا کر دے گا، پھر فرمائے گا: یہ تمھارے لیے جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: اس کے معنی ایک دوسری حدیث کی روشنی میں یہ ہیں کہ ہر آدمی کا ایک ٹھکانا جنت میں ہے اور ایک دوزخ میں۔ مومن جب جنت میں داخل ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ کافر تیرے جہنم والے ٹھکانے میں جائے گا جبکہ وہ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہو چکا ہوگا۔

138۔سیدنا كعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایام تشریق میں رسول اللہﷺ نے اسے اور اوس بن حدثان رضی اللہ تعالی عنہما کو بھیجا اور اس نے اعلان کیا:

((أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَأَيَّامُ مِنًی أَيَّامُ أَكْلٍ وَّشُرْبٍ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:139)

’’جنت میں مومن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا اور منی کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘

139۔ سیدنا انس بن مالک ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً يُعْطٰى بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزٰى بِهَا فِي الْآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلهِ فِي الدُّنْيَا حَتّٰى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2808)

’’بے شک اللہ تعالی کسی مومن کے ساتھ ایک نیکی کے معاملے میں بھی ظلم نہیں فرماتا۔ اس کے بدلے میں اسے دنیا میں بھی عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جاتی ہے۔ رہا کافر، اسے ان نیکیوں کے بدلے میں جو اس نے دنیا میں اللہ کے لیے کی ہوتی ہیں، اسی دنیا میں کھلا (پلا) دیا جاتا ہے حتی کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی جس کی اسے جزا دی جائے۔‘‘

140۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے دعا کیجیے کہ وہ آپ کی امت پر وسعت کرے کیونکہ فارس اور روم کے لوگوں پر اللہ تعالی نے فراخی کی ہے، انھیں دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا:

((أَفِي شكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا))  (أخرجه البخاري: 89، 8642، 5191، و مُسْلِمٌ:1479)

’’ابن خطاب! ایسی باتیں کرتے ہو، کیا تمھیں شک ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ انھیں ان کی تمام اچھائیوں کا بدلہ اس دنیا کی زندگی میں دے دیا گیا ہے۔“

141۔سیدنا  عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ کھجور کی ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کے جسم مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی چیز نہ تھی۔ آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے جب آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات دیکھے تو آبدیدہ ہو گیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَا یُبْكِيْكَ؟)) ’’(عمر) تم کسی بات پر رونے لگے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قیصر و کسری کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں اور سہولیات میسر ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں۔ آپﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا:

((أَما تَرْضٰى أَن تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَكَ الْآخِرَةُ))(أخرجه البخاري: 4913، و مسلم: 1479)

’’کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصے میں دنیا ہے اور تمھارے حصے میں آخرت؟‘‘

توضیح و فوائد: رسول اکرمﷺ کا فقر اختیاری تھا۔ آپ پر دنیا پیش کی گئی لیکن آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا۔ بلکہ دنیا کے مال و دولت کو اپنی امت کے لیے بہت بڑا فتنہ قرار دیا۔

……………