مشرکین کے لیے بد دعا کرنے کا بیان

109۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان قبائل کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپنی قوم کے خلاف مدد مانگی تو نبی اکرمﷺ نے ستر (70) انصار صحابہ روانہ کیے، جنھیں ہم قراء کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ دن کے وقت لکڑیاں چن کر لاتے اور رات کو نوافل پڑھتے، چنانچہ وہ لوگ انھیں ساتھ لے کر چلے گئے حتی کہ جب بئر معونہ پہنچے تو ان سے دھوکا کیا اور انھیں قتل کر دیا۔ اس واقعے کی اطلاع پانے کے بعد نبی ﷺ نے ایک ماہ تک دعائے قنوت پڑھی اور رعل، ذکوان اور بنو لحیان کے لیے بد دعا کرتے رہے۔(أَخْرَجَهُ البُخَارِي:3064، وَمُسْلِمٌ:677)

110۔سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ احزاب کے دن مشرکین کے لیے یہ بددعا کی تھی:

((اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ. سَرِيعَ الْحِسَابِ اَللّٰهمَّ اهْزِمِ الْأَحْزَابَ اَللّٰهمَّ اهْزِمُهُمْ وَزَلْزِلَهُمْ))

’’اے اللہ! کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے، اے اللہ! ان (کافروں کے) لشکروں کو شکست دے۔ انھیں شکست سے دو چار کر دے۔ اور (میدان سے) ان کے پاؤں اکھاڑ دے۔‘‘(أَخْرَجَهُ البخاري:2933، 22966، 41115،6392، 7498 ومُسْلِمٌ: 1742)

111۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ امام کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا (کہ آپ کو ستایا جائے)۔ مکہ سے باہر ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی، انھوں نے اپنے آدمی بھیجے جو اس کی وہ جھلی اٹھا لائے جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے وہ جھلی لائی گئی اور اسے آپ ﷺ پر ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں،  انھوں نے اس (جھلی) کو آپ سے الگ کر کے دور پھینک دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اَللّٰهمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اَللّٰهمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ لِأَبِي جَهْلِ ابْنِ هِشَامٍ وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأُبُيِّ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ)) (أَخْرَجَهُ البخاري:240،520، 2934، 3185، 3854، 3960،  ومسلم: 1794)

’’اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اے اللہ! قریش کو پکڑ لے۔ اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔ ابو جہل بن ہشام، عقبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے بد دعا فرمائی۔ ‘‘

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے گندے کنویں میں مرے پڑے دیکھا۔

112۔ سیدنا عبید بن رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ احد کا دن تھا، مشرکین شکست کھانے لگے (واپس ہونے لگے)  تو رسول اللہﷺ نے رب تعالیٰ کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا:

((اللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اَللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلٰهَ الْحَقِّ)) (أخرجه أحمد:15492، والنسائي في الكبرى:10445، والحاكم: 2324/3)

’’اے اللہ! ان کافروں کو ہلاک کر دے جو تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے راستے سے روکتے ہیں، ان پر اپنا عذاب اور سزا ڈال دے، اے اللہ! ان کافروں کو بلاک کر دے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اے الہ حق۔ ))

113۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے غزوہ احزاب کے موقع پر فرمایا:

((مَلَا الله قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا كَمَا حَبَسُونَا وَشَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى، حَتّٰى غَابَتِ الشَّمْسُ))

’’اللہ تعالیٰ ان (قبائل مشرکین) کی قبریں اور گھر آگ سے بھر دے جس طرح انھوں نے ہمیں صلاة وسطی، یعنی نماز عصر سے روکا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البخاري:2931 و4111 و 4533 و 6396، ومُسْلِمٌ:627)

 توضیح و فوائد: اس باب کی احادیث میں جمع و تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے خلاف دعا کرنا چند آداب کے ساتھ جائز ہے:

بددعا عمومی ہو کسی فرد کو خاص نہ کیا گیا ہو۔ اس کا مقصد ان کے شر کو ختم کرتا ہو، خصوصا جن کے خلاف مسلمان حالت جنگ میں ہوں۔

2۔ کسی زندہ کافر کا نام لے کر اس کے خلاف بددعا کرنا یا اس پر لعنت بھیجنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی ہدایت کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

3۔ دعا میں مبالغہ آمیزی نہ ہو، مثلاً: یہ دعا کہ اللہ تمام کافروں کو ختم کر دے تو ایسا کرنا اللہ تعالی کی مشیت کے خلاف ہے، رہا نوح  علیہ السلام کا بد دعا کرنا تو ان پر قوم کا ایمان نہ لانا واضح ہو چکا تھا۔

114۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے جب قریش

کو دیکھا کہ انھوں نے نافرمانی کی ہے تو آپﷺ نے اللہ تعالی سے دعا مانگی:

((اَللّٰهُمَّ أَعِنِّى عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ))

’’اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح ان کے خلاف میری مدد فرما۔‘‘

چنانچہ انھیں ایسی قحط سالی نے آپکڑا کہ جس نے ہر چیز کا صفایا کر دیا حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ اور زمین سے دھوئیں کی طرح کوئی چیز نکلنا شروع ہو گئی، اس حالت میں آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کی: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے یہ عذاب دور کر دے۔ آپﷺ نے دعا فرمائی (تو خشک سالی دور ہوگئی) پھر فرمایا: ((تَعُوْدُوْنَ بَعْدَ هٰذَا)) ’’تم لوگ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاؤ گے۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے، آخر انھوں نے کہا: ((رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ))

’’اے ہمارے رب! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔‘‘

(أَخْرَجَهُ البخاري:4822، ومُسْلِمٌ: 2798)

آپ سے کہا گیا: اگر ہم نے یہ عذاب ان سے دور کر دیا تو وہ پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹ آئیں گے۔ آپ ﷺ نے ان کے حق میں اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان سے یہ عذاب ٹل گیا لیکن وہ پھر کفر و شرک کرنے لگے، چنانچہ اللہ تعالی نے بدر کے دن ان سے انتقام لیا۔

درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے یہی مراد ہے:

﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ۝ یَّغْشَی النَّاسَ ؕ هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ۝ اَنّٰی لَهُمُ الذِّكْرٰی وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌۙ۝ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌۘ۝ اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىِٕدُوْنَۘ۝ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰی ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ۝﴾

’’پس آپ اس دن کا انتظار کیجیے جب آسمان صاف دھواں لائے گا۔ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، (کہا جائے گا:) یہ ہے دردناک عذاب! (کافر کہیں گے:) اے ہمارے رب! ہم سے یہ عذاب ہٹا دے بلاشبہ ہم ایمان لانے والے ہیں۔ ان کے لیے نصیحت کیونکر ہوگی جبکہ ان کے پاس ایک بیان کرنے والا رسول آگیا۔ پھر انھوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا:یہ تو سکھایا ہوا ہے، دیوانہ ہے۔ بے شک ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ عذاب دور کرنے والے ہیں، بلاشبہ تم لوٹنے والے ہو۔ جس دن ہم بہت بڑی پکڑ پکڑیں گے، یقینًا ہم انتقام لینے والے ہیں۔ ‘‘

115۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، آپ جب نماز فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے تو یہ بددعا کرتے:

((اَللّٰهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَّفُلَانًا وَّفُلَانًا)) ’’اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت برسا‘‘ یہ بددعا آپ ((سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ. رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ)) کہنے کے بعد کرتے تھے۔ اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾(أَخْرَجَهُ البخاري:4070)

’’(اے نبی!) آپ کو کچھ اختیار نہیں (وہ چاہے تو انھیں معاف کر دے یا انھیں سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں)۔‘‘

صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے: جب رسول اللہﷺ صفوان بن امیہ سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بددعا کرتے تھے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾

’’(اے نبی!) آپ کے ہاتھ میں معاملات کا اختیار نہیں ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ متعین شخص پر اس کی زندگی میں لعنت بھیجنا منع ہے، خواہ وہ کافر ہی ہو۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالی اسے ہدایت عطا فرما دے۔

116۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! مشرکین کے خلاف دعا کیجیے۔ آپ نے فرمایا: ((إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً))

’’مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ2599)

توضیح و فوائد: متعین شخص پر بددعا سے جب آپﷺ کو روک دیا گیا تو آپ نے اس کے بعد کسی متعین شخص پر لعنت نہیں کی کیونکہ لعنت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے اور لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور کرنا آپ کا منصب نہیں تھا۔

117۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ کچھ یہودی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ پر موت آئے۔ میں نے یہ سن کر ان پر لعنت کی تو آپﷺ نے فرمایا:

((يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ))

’’اے عائشہ! اللہ تعالٰی نرمی کرنے والا ہے اور ہر کام میں وہ نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘

 میں نے عرض کی: آپ نے (وہ جملہ)  نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ)) ’’میں نے انھیں کہہ دیا ہے کہ تم پر بھی ہو۔‘‘(أخرجه البخاري:2935، 6024، 6295، 6401، 6927،  ومسلم2165)

118۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے حدیث شفاعت بیان کرتے ہیں:

((فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ))

 (أَخْرَجَهُ البخاري:4712 ومُسْلِمٌ:194)

’’چنانچہ سب لوگ سیدنا نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے:اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف مبعوث ہوئے اور اللہ تعالی نے آپ کو شکر گزار بندے کا لقب دیا۔۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کر دیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کسی حالت میں پہنچ چکے ہیں؟ سیدنا نوح علیہ فرمائیں گے: میرا رب آج بہت غضب ناک ہے۔ اس سے پہلے وہ کبھی اس قدر غضبناک نہیں ہوا، نہ آئندہ اس طرح غضب ناک ہوگا۔ اللہ نے مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا تھا جو میں اپنی قوم کے خلاف کر چکا نفسی نفسی نفسی۔ آج تو مجھے اپنی ہی فکر لاحق ہے، لہذا تم کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں سیدنا ابراہیم کے پاس چلے جاؤ…..‘‘

توضیح و فوائد: سیدنا نوح علیہ السلام نے مشرک قوم کے لیے بددعا کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا آداب کے ساتھ مشرکین کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔

………………..