مسلم امہ کا بڑا مسئلہ: معاشی فراوانی یا تحفظ ایمانی؟

﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ﴾ (الرعد:11)
امت مسلمہ آج جس زوال، انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہے، کسی بھی باشعور انسان پر مخفی نہیں اور یقینًا ہر باشعور مسلمان امت مسلمہ کی اس حالت زار پر فکر مند اور پریشان ہے اور خواہشمند ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس بدحالی اور ذلت ورسوائی کی کیفیت سے نکلا جائے۔ مگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اپنے طور پر جو اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اپنی عقل و دانش کے مطابق ، لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اور اپنے جذبات کے مطابق حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے الجھنیں مزید بڑھ جاتی ہیں اور مسائل پیچیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟
ایسا اس لیے ہے کہ دنیا بنانے والے نے دنیا بنا کے اسے Unattended نہیں چھوڑا، دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑا، بلکہ اس کا اک نظام بھی دیا ہے اور دنیا صرف اسی نظام کے مطابق چل سکتی ہے، کسی اور نظام کے مطابق چل سکتی ہے اور نہ ہی وہ اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہے۔
﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝﴾ (آل عمران:85)
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے، اس سے وہ قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔‘‘
اللہ تعالی کے دیئے ہوئے نظام کو چھوڑ کر کوئی اور انتظام چلانے کی کوشش کریں گے تو یقینًا اس میں رخنے بھی ہوں گے ، رکاوٹیں بھی پیش آئیں گی اور مشکلات اور پریشانیاں بھی ہوں گی۔
اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کے دیئے ہوئے نظام کی روشنی میں کسی بھی قوم کی اور بالخصوص مسلمان قوم کی زبوں حالی اور اس کے زوال و انحطاط کے اسباب کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟
یوں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی نظام ہے اور تمام قوموں کے زوال اور انحطاط کا بنیادی ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے کسی کا اپنے اس بنیادی انتظام اور عقائد و نظریات سے دستبردار ہوتا ، البتہ مسلمان قوم کو دیگر اقوام عالم پر کچھ خصوصیات حاصل ہیں، جیسا کہ قرآن و حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے، چنانچہ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کے اسباب کئی لحاظ سے دوسری قوموں سے مختلف ہیں اور جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اور رسول ہاشمی ﷺکے امتی ہونے کا شرف حاصل ہونا سب سے بڑی خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت اپنے اندر دیگر بہت سی خصوصیتیں لیے ہوئے ہے۔
لہٰذا ہمیں دوسری قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر قیاس کرتے ہوئے اپنے زوال کے اسباب تلاش نہیں کرنے بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلہ باور کرایا جاتا ہے، جیسا کہ ہمارے بہت سے نام نہاد دانشور مفکرین اور لیڈران دن رات ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ معاشی بد حالی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور پھر مثالیں امریکہ اور یورپ کی
دی جاتی ہیں ، حالانکہ مسلمانوں کی معیشت دوسری قوموں کی معیشت سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ اگر چہ ان کے معاشی استحکام میں ان کی محنت و کوشش کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی شامل ہیں، مگر اللہ تعالی کی طرف سے انہیں اک خصوصی پیکج بھی حاصل ہے کہ دنیا میں ان کے نیک کاموں کا صلہ اور اجر انہیں دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنةً، يُعطى بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزَى بِهَا فِي الآخِرَةِ))
’’اللہ تعالی کسی مؤمن کی نیکی پر اس پر ظلم نہیں کرتے ، اس کی نیکی کا بدلہ اسے دنیا میں بھی دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا ثواب دیا جائے گا۔‘‘
((وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلهِ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا))(مسلم:2808)
’’جبکہ کافر دنیا میں جو نیکی اللہ کے لیے کرتا ہے، اس کے بدلے اسے دنیا میں ہی کھلایا پلایا جاتا ہے، پھر جب وہ آخرت کو پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوتی کہ جس کا بدلہ اسے دیا جائے ۔‘‘
تو یوں تو ایک کافر کے نیک کاموں کا بدلہ جو اسے آخرت میں دیا جاتا تھا وہ بھی دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں سے ابتلاء اور آزمائش کے طور پر وہ اجر کبھی روک بھی لیا جاتا ہے بلکہ جان و مال میں نقصان اور کمی بھی کی جاتی ہے، جیسا کہ متعدد آیات و احادیث اس پر شاہد ہیں۔
اور ابھی تو اللہ تعالی کا فروں کو اور بھی مال و دولت اور نعمتوں سے نوازنا چاہتے تھے، مگر اس خدشے کے پیش نظر کہ مسلمان بھی دولت کے حصول کی خاطر کافروں جیسے ہو جائیں گے وہ نعمتیں روک لی گئیں، جیسا کہ فرمایا
﴿ وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ۝۳۳
وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِـُٔوْنَۙ۝ وَ زُخْرُفًا﴾ (الزخرف:33 تا 35)
’’ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو ہم الله الرحمن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیٹرھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے ۔‘‘
﴿ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ ﴾(الزخرف:35)
’’اور یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے۔‘‘
﴿ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠۝﴾ (الزخرف:35)
’’اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے۔‘‘
تو ایک طرف تو مال و دولت کی فراوانی کے اسباب مختلف اور دوسری طرف معیشت تنگ کر دینے کے اسباب مختلف ، مسلمانوں کی معاشی تنگی کا ایک سبب یہ بتلایا کہ:
﴿ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا ﴾ (طہ:124)
’’اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا، منہ موڑے گا اس کی معیشت تنگ کر دی جائے گی۔‘‘
اگر چہ معیشت تنگ کر دینے کا مطلب ضروری نہیں کہ تنگدستی ہی ہو، بسا اوقات معاشی خوشحالی حاصل ہونے کے باوجود بھی تنگدستی کا احساس ہوتا ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کے فراخی رزق کا سبب بتلایا کہ:
﴿ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ﴾ (الاعراف:96)
’’ اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔‘‘
تو پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان قوم کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ معاشی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ آپ ﷺ نے اس ضمن میں دعا سکھلائی ہے کہ دنیا کا حصول ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نہ بنا دیا جائے:
((وَ لَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا)) (ترمذي:3502)
’’اے اللہ ! دنیا کو ہماری سوچ اور فکر کا محور نہ بنانا اور نہ ہمارے علم کی منزل بنانا ۔‘‘
یعنی ہمیں سب سے زیادہ فکر حصول معاش کی ہو اور ہمارے علم و معرفت کا مقصد وحید دولت کمانا ہی بن کر رہ جائے۔
حقیقت میں اک مسلمان کا سب سے بڑا مسئلہ ایمان کو بچانا ہے، مگر ہمارے عوام اور بالخصوص ہمارے نام نہاد رہنماؤں کی سوچ اور فکر کی سطحیت کا اندازہ کیجئے کہ ان کے ہاں سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسئلہ ہی ہے اور ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے ذریعے ملک و قوم خوشحال ہو جائے اور دولت کی فراوانی حاصل ہو جائے مگر اللہ نہ کرے کہ ایسے لوگوں کے ذریعے اور اس بے دینی کی حالت پر قائم رہتے ہوئے ملک خوشحال ہو۔
اس لیے کہ اگر ایسے لوگوں کے ذریعے اور دین بے زاری کی حالت میں خوشحالی آئے گی تو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی اور وہ قیمت کیا ہے، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا رَأَيْتَ اللهَ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا عَلَى مَعَاصِيْهِ مَا يُحِبُّ فَإِنَّمَا هُوَ إِسْتِدْراج)) (السلسلة الصحيحة:413)
’’جب دیکھو کہ اللہ تعالی کسی کی اس کے گناہوں کے باوجود مرادیں پوری کر رہا ہے اسے اس کی پسند کی چیزیں دے رہا ہے تو جان لو کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے استدراج ہے ( یعنی ڈھیل ہے۔)‘‘
((ثُمَّ تَلَا))
’’پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:‘‘
﴿ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ۝۴۴﴾ (الانعام:44)
’’پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں، خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔‘‘
اب خود ہی غور کیجیے کہ اگر ہمارے رہنما مسلمان بیٹیوں کو سٹیجوں پر نچوا ئیں اور پھر وہ اقتصادی اور معاشی پروگراموں میں کامیاب ہو جائیں تو کیا وہ استدراج اور ڈھیل نہ ہوگی ۔ کیا معاذ اللہ اللہ تعالی ان کی کرتوتوں پر خوش ہوگا، دولت کی فراوانی اور خوشحالی تو انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی آزمائش رہی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالی کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
﴿هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي﴾ (النمل:40)
’’یہ میرے رب کا فضل ہے۔‘‘
﴿ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ ؕ﴾(النمل:40)
’’تا کہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری ۔‘‘
صرف ایسے رہنما ہی نہیں بلکہ عوام میں سے بھی جو لوگ ایسے پروگراموں کو سپورٹ کریں گے کہ جن میں اخلاقیات کا جنازہ نکالا جا رہا ہو، ان کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ﴾(النور :19)
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے ان کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
ہم لوگ اگر ایسے پروگراموں کو سپورٹ کریں تو بہت کوتاہ نظر ہوں گے، آج ہم ایسے بے حیائی کے پروگراموں کو اخلاقی یا مالی تعاون مہیا کریں گے تو کل کو کیا ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ایسے پروگراموں میں شریک ہونے سے روک سکیں گے؟ وہ کہیں گے کہ آپ نے اپنا جنون دکھایا ، اب ہمارا جنون دکھانے کا وقت ہے، اللہ تعالی ایسی بدبختی سے محفوظ فرمائے۔
اور یہیں بس نہیں بلکہ آج مجموعی طور پر امت مسلمہ کی یہ حالت ایک بہت خطرناک تصویر پیش کرتی ہے، یہ دور قرب قیامت کا دور ہے، فتنوں کا دور ہے اور فتنوں کے دور میں زمین میں دھنس جانے کے واقعات بھی رونما ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((سَيَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفُ وَقَدْفٌ وَمَسْخٌ))
’’آخری دور میں خسف ، قذف اور مسح کے واقعات ہوں گے۔ زمین میں دھنسا دیئے جانے کے پتھروں کی بارش کیے جانے کے اور مسیح کیے جانے کے واقعات ہوں گے۔‘‘
((إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالقَيْنَاتُ وَاسْتَحِلَّتِ الْخَمْرُ)) (صحيح الجامع:3665)
’’جب گانے بجانے کے آلات اور گانے بجانے والی عورتیں ظاہر ہوں گی اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے گا۔‘‘
قوموں کے زوال کے قرآن وحدیث کی روشنی میں اسباب جاننا چاہیں تو ایک ایک بات بہت وضاحت کی ساتھ بیان کی گئی ہے مگر کون چاہتا ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ، ہم تو اپنے جذبات کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن پاک میں بہت سی قوموں کی ہلاکت اور تباہی کا ذکر کیا گیا ہے مگر ان میں سے کوئی قوم ایسی نہ تھی کہ جو معاشی بدحالی کی وجہ سے ہلاک کی گئی ہو، بلکہ ان کی تباہی کا اصل سبب بے حیائی اور فحاشی تھا، قرآن وحدیث میں اس کا ذکر ہے۔
اور شاعر کہتا ہے
إِنَّمَا الْأُمَمُ الْأَخْلاقُ مَا بَقِيَتْ
فَإِن هُمُو ذهبت أخلاقهم ذهبوا
’’قو میں اپنے اخلاق کی بدولت قائم رہتی ہیں، اگر اخلاقیات ختم ہو جا ئیں تو قو میں ختم ہو جاتی ہیں۔‘‘
آج مسلمان اخلاقی زوال کا شکار ہیں مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں۔
ہم اپنا اصل مسئلہ معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ ذلت و رسوائی سب سے بڑا مسئلہ ہے، آج کتنے ہی مسلمان ممالک ہیں کہ جنہیں مال و دولت کی فراوانی حاصل ہے، خوشحالی حاصل ہے مگر کیا دنیا میں کہیں ان کی کوئی عزت ہے، کوئی رعب ودبدبہ ہے، کوئی اخلاقی برتری حاصل ہے؟
اور معاشی خوشحالی سے ذلت و رسوائی ہرگز دور نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْ تَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا ، لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إلَى دِينِكُمْ)) (ابو داود:3462)
جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے، گائیوں بیلوں کی دمیں تھام لوگے، کھیتی باڑی میں مگن رہنے لگو گے، اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم اس وقت نجات نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔‘‘
العينة: کا مفہوم ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی شخص پچاس ہزار کی گاڑی خریدتا ہے ادھار پر، پھر گاڑی بیچنے والا وہی گاڑی اسی وقت اس سے چالیس ہزار میں نقد خرید لیتا ہے اور چالیس ہزار اس کو دے دیتا ہے، خرید نے والا گاڑی کے بدلے چالیس ہزار روپے نقد لیتا ہے مگر اسے قسطوں میں پچاس ہی واپس کرنے ہوں گے یہ معاملہ سود کے الزام سے بچنے کے لیے ایک حیلہ ہے مگر حقیقت میں یہ سود ہی کی ایک قسم ہے اور یہ العينة خريد و فروخت کہلاتی ہے اور یہ خرید و فروخت یعنی سودی معاملہ مسلمانوں کے زوال و انحطاط اور تباہی و بربادی کے اسباب میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ایسی حیلہ سازیوں سے محفوظ فرمائے اور راہ راست پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………..