مٹھی سے زائد داڑھی
مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے والے حضرات کی سب سے مضبوط دلیل اور مستدَل، ابن عمر، ابن عباس ،ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم کا عمل ہے
وہ چند آثار ذیل میں درج کیے دیتا ہوں
صحیح بخاری میں ہے:
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ، قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ. (صحيح البخاري |كِتَابٌ : اللِّبَاسُ|5892)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
«ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ رضی اللہ عنہ ﻳﻘﺒﺾ ﻋﻠﻰ ﻟﺤﻴﺘﻪ، ﺛﻢ ﻳﺄﺧﺬ ﻣﺎ ﻓﻀﻞ ﻋﻦ اﻟﻘﺒﻀﺔ» (مصنف ابن ابی شیبہ 25481)
اور اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«ﻻ ﻧﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﻃﻮﻟﻬﺎ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺣﺞ ﺃﻭ ﻋﻤﺮﺓ (مصنف ابن ابی شیبہ 25487
وجہ استدلال)
مندرجہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے استدلال دو طرح سے کیا جاتا ہے:
01. کسی دوسرے صحابی نے ان کے عمل پر نکیر نہیں کی
02. چونکہ داڑھی چھوڑنے، معاف کرنے اور لٹکانے والی روایات کے راوی بھی یہی اصحاب ہیں تو راوی اپنی روایات کو زیادہ جانتا ہے لھذا اس کے عمل کی روشنی میں ہی روایت کا مفہوم متعین ہوگا
پہلی وجہ(عدم نکیر) کا جواب
کہا جاتا ہے کہ چونکہ دیگر صحابہ نے انہیں منع نہیں کیا
لھذا معلوم ہوا کہ سبھی صحابہ کا یہی موقف تھا کہ داڑھی یک مشت ہی ہونی چاہیے
جواب
اس اعتراض کے جوابات کچھ یوں ہیں کہ
01. تقریری حدیث کا معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کسی دوسرے کی خاموشی حجت نہیں
یعنی یہ اعزاز صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ آپ کے سامنے کوئی کام ہوا ہو اور پھر آپ اس پر خاموش رہے ہوں تو آپ کی خاموشی کی وجہ سے وہ کام جائز قرار پاتا ہے آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے
02. بالیقین یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ منع نہیں کیا کیونکہ منع کرنے یا نہ کرنے کا ذکر ہی نہیں ملتا اور عدم ذکر عدم شیئ کو مستلزم نہیں ہے
03. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ نام لے کر منع نہیں کیا کرتے تھے تو ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی نام لے کر منع کرنے کی بجائے عمومی الفاظ میں إعفاء والی احادیث بیان کردی ہوں
04. اگر دیگر صحابہ کے عدم انکار کی وجہ سے اس عمل کو درجہ جواز مہیا کرنا ہی کرنا ہے تو پھر چند دیگر اعمال بھی ایسے ملتے ہیں کہ جب کسی صحابی نے اپنے ذاتی فہم سے کوئی کام کیا جوکہ شریعت کے مطابق نہیں تھا تو کسی بھی دوسرے کی ممانعت یا نکیر ثابت نہیں ہے
عدم نکیر کی پہلی مثال
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مُطِرْنَا بَرَدًا وَأَبُو طَلْحَةَ صَائِمٌ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قِيلَ لَهُ: أَتَأْكُلُ وَأَنْتَ صَائِمٌ؟ قَالَ: ” إِنَّمَا هَذَا بَرَكَةٌ ” ( مسند احمد : 13971‘ وسندہ صحیح !)
ایک مرتبہ اولے پڑے, سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا ہوا تھا, وہ روزے کا باوجود اولے کھانے لگ گئے ۔ کسی نے کہا آپ روزہ کی حالت میں یہ کھا رہے ہیں؟ فرمانے لگے یہ تو برکت ہے
امام طحاوی کی ["شرح مشكل الآثار” 5/115 ]میں ہے وہ فرماتے تھے :
لَيْسَ هُوَ بِطَعَامٍ وَلَا بِشَرَابٍ یعنی نہ تو یہ کھانا اور نہ ہی مشروب
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل انس رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہے اور انس رضی اللہ عنہ سمیت کسی بھی صحابی سے سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل پہ نکیر بھی ثابت نہیں ہے
تو کیا یہاں عدم نکیر کی وجہ سے روزہ دار کے لیے اولے، برف وغیرہ کھانے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟
عدم نکیر کی دوسری مثال
مسلم كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ، 971 ( 96 ) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے سے منع کیا ہے
فرمایا :
” لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ، فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ "
اور مسلم ہی کی 972 نمبر حدیث میں ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا "
جبکہ
صحيح البخاري میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قبر پر بیٹھ جایا کرتے تھے
الفاظ یہ ہیں :
وَقَالَ نَافِعٌ : كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَجْلِسُ عَلَى الْقُبُورِ.
| كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ | بَابُ الْجَرِيدِ عَلَى الْقَبْرِ.
یہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل حدیث سے موافقت نہیں رکھتا اور لطف کی بات کہ کسی کی نکیر بھی نہیں ملتی
تو کیا یہاں عدم نکیر کی وجہ سے قبر پر بیٹھنے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟
عدم نکیر کی تیسری مثال
سنن ابی داؤد 3456 اور سنن ترمذی 1247 میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو سودا کرنے والے جب تک سودا کرنے والی مجلس میں موجود ہیں تب تک خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو سودا ختم کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی کے لیے حلال نہیں ہے کہ سودا طے کرنے کے بعد اِس نیت سے اُس مجلس سے جلدی جلدی اٹھ جائے کہ کہیں دوسرا آدمی سودے کو فسخ ہی نہ کردے
سنن ترمذی والی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :
” الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ". (سنن الترمذي|أَبْوابٌ:الْبُيُوعُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.|1247)
جبکہ
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2107 میں ہے کہ
ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جب کوئی چیز پسند ہوتی تو سودا کرنے کے بعد جلدی جلدی اس مجلس سے جدا ہوجاتے اس ڈر سے کہ سامان کا مالک انکار نہ کردے
صحیح بخاری کے الفاظ درج ذیل ہیں :
". قَالَ نَافِعٌ : وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ فَارَقَ صَاحِبَهُ (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. |2107)
اب دیکھیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل حدیث کے مطابق نہیں ہے اور کسی کی نکیر بھی ثابت نہیں ہے
تو کیا یہاں عدم نکیر کی وجہ سے سودا فسخ ہونے کے ڈر سے جلدی جلدی مجلس چھوڑنے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟
عدم نکیر کی چوتھی مثال
مریض اور مسافر کو رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے مگر بعد میں روزے کے بدلے صرف روزہ ہی رکھنے کا حکم ہے مزید کچھ کھانا وغیرہ کھلانے کا حکم نہیں ہے
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة :185)
تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔
فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ : یہاں لفظ "ایام اخر” مطلق ہے، اس سے مستقبل کے کوئی بھی دن مراد ہیں اگلے رمضان سے پہلے پہلے ہر صورت قضائی دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے
اور یہ حکم ایسے شخص کے بارے میں بھی ہے کہ جس کے سابقہ رمضان کے روزے رہتے ہوں اور اگلا رمضان آجائے اور وہ بیچ میں قضائی نہ دے سکا ہو تو وہ بھی رہے ہوئے روزوں کی صرف قضائی ہی دے گا بس، کیونکہ آیت کریمہ میں ایک سال یا دو سال کی تفریق نہیں ملتی
جبکہ
صحیح بخاری میں معلق روایت ہے اور یہی روایت مصنف عبدالرزاق اور داراقطنی میں موصولا ہے کہ ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے کہ ایسا شخص (جس کی سابقہ رمضان کی قضائی رہتی ہو اور دوسرا رمضان بھی آجائے تو وہ موجودہ رمضان کے روزے رکھ لے اور سابقہ کے روزے بھی رکھے اور قضائی کے ساتھ ساتھ) کھانا بھی کھلا دے
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں کھانا کھلانے کا تذکرہ نہیں کیا
صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں :
وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مُرْسَلًا، وَابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ يُطْعِمُ، وَلَمْ يَذْكُرِ اللَّهُ الْإِطْعَامَ، إِنَّمَا قَالَ : { فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (بخاری كِتَابٌ : الصَّوْمُ. | بَابٌ : مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ،1950؟)
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ تو صرف کھانا ہی کھلانے کا فتویٰ دیتے تھے اور قضائی کا فتویٰ دیتے ہی نہیں تھے
فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے
فروى عبد الرزاق وابن المنذر وغيرهما من طرق صحيحة عن نافع عن ابن عمر قال:” من تابعه رمضانان وهو مريض لم يصح بينهما قضى الآخر منهما بصيام، وقضى الأول منهما بإطعام مد من حنطة كل يوم ولم يصم ". لفظ عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن نافع
پھر حافظ رحمہ اللہ نے امام طحاوی کے حوالے سے لکھا ہے : تفرد ابن عمر بذلك.
یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ، خاص یہ بات کہنے میں متفرد ہیں
اب دیکھیں کہ ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فتویٰ اور بالخصوص ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ تو کسی صورت قرآن کے مطابق نہیں ہے
اور لطف کی بات ہے کہ کسی کی نکیر بھی ثابت نہیں ہے
امام طحاوی نے نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں :
وجدته عن ستة من الصحابة لا أعلم لهم فيه مخالفا.
میں نے چھے صحابہ سے یہ بات سنی ہے اور مجھے ان کا کوئی مخالف بھی معلوم نہیں
(فتح الباری)
تو کیا یہاں عدم نکیر کی وجہ سے فرضی روزے کی قضائی کے لیے کھانا کھلانے کا جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟
دوسری وجہ(راوی اپنی روایات کو زیادہ جانتا ہے) کا جواب
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی شخص جب ایک روایت بیان کرے اور اس حدیث کے خلاف انکا اپنا عمل ہو تو ایسی صورت میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیث کے راوی نے جو عمل کیا ہے وہی اس حدیث کا صحیح فہم ہے۔ جبکہ ایسا نہیں! کیونکہ فہمِ نص الگ شے ہے اور عمل الگ شے ہے
اصول فقہ کا ایک مسلَّم قاعدہ ہے
العبرۃ بما روی لا بما رأی
یعنی اعتبار روایت کا ہے راوی کے ذاتی فہم کا نہیں
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی تائید
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ ". (سنن أبي داود|كِتَابٌ:الْعِلْمُ|3660)
”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ (آباد و شاد ) رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہ نہیں ہوتے“
تحفۃ الاحوذی میں لکھا ہے
سنن ترمذی کی حدیث 2656 کے تحت تحفہ میں درج ہے
أي فرب حامل فقه قد يكون فقيها ولا يكون أفقه فيحفظه ويبلغه إلى من هو أفقه منه فيستنبط منه ما لا يفهمه الحامل
یعنی حدیث سننے والے کتنے ہی ایسے ہیں جو فقیہ تو ہوتے ہیں مگر فقاہت کے بہت زیادہ مرتبے پر نہیں ہوتے مگر وہ حدیث کو یاد کرکے کسی ایسے بندے تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے تو پھر وہ اس حدیث سے وہ مسائل نکالتا ہے جنہیں یہ نہیں سمجھ رہا ہوتا
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ﻭﻻ ﻳﻀﺮﻩ ﻋﻤﻞ اﻟﺮاﻭﻱ ﻟﻪ ﺑﺨﻼﻓﻪ…… ﻷﻧﺎ ﻣﺘﻌﺒﺪﻭﻥ ﺑﻤﺎ ﺑﻠﻎ ﺇﻟﻴﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﺨﺒﺮ ﻭﻟﻢ ﻧﺘﻌﺒﺪ ﺑﻤﺎ ﻓﻬﻤﻪ اﻟﺮاﻭﻱ ﻭﻟﻢ ﻳﺄﺕ ﻣﻦ ﻗﺪﻡ ﻋﻤﻞ اﻟﺮاﻭﻱ ﻋﻠﻰ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﺑﺤﺠﺔ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﻻﺳﺘﺪﻻﻝ ﺑﻬﺎ
ارشاد الفحول 153/1
حدیث کے راوی کا اسی روایت کے خلاف عمل چنداں نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ ہم راوی کی سمجھ نہیں بلکہ روایت کے مطابق عبادت کے پابند ہیں اور جو لوگ راوی کے عمل کو اس کی روایت پر فوقیت دیتے ہیں ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہو
راوی کے اپنی ہی روایت کے خلاف فیصلہ کی مثال
مقالاتِ نورپوری میں شیخ المشائخ حضرت حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حج کے ساتھ عمرہ کرنے یعنی حج تمتع کرنے والی حدیث کے راوی ہیں اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے حج کیا وہ حج تمتع کے عینی شاہد بھی ہیں, اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے حج تمتع کرنے سے منع فرما دیا تھا
تو کیا سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے حج تمتع سے منع کرنے کو حج تمتع کرنے کے جواز والی مرفوع روایات کے لیے قرینہ قرار دیا جائے گا؟
یا اسے راوی حدیث کا فہم قرار دے کر حج تمتع کے منسوخ ہونے کا دعوى کیا جائے گا؟
حا شا و کلا..! شاید کوئی کہنے والا کہے کہ انہوں نے تو رجوع کر لیا تھا, لیکن بالفرض اگر انہوں نے رجوع کر بھی لیا تو جب تک انہوں نے رجوع نہیں کیا ایک آدھ سال یا ایک دو ماہ یا ایک دن ہی سہی , اتنی دیر تک انکے اس فرمان شاہی کو شرف صحابیت کے باوصف , عشرہ مبشرہ بالجنہ میں شامل ہونے کے باوجود, دوسرے خلیفہ راشد ہوتے ہوئے بھی حجت و دلیل تسلیم نہیں کیا گیا! اور تو کسی نے کیا ماننا تھا, انکے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ہی انکے فرمان کو رد فرما دیا ( جامع الترمذی :824) انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد گرامی سابقون الأولون میں شامل ہیں انہوں نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہے یہ انکا فہم ہے اور ہم انکے فہم کے مطابق نبی کے بات کو سمجھیں گے‘ بلکہ فورا ہی انکے غلط فیصلہ کی تردید فرما دی۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنی روایت کردہ حدیث کے برعکس فتویٰ
اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہامسئلہ رضاعت میں مروی حدیث
"إِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ المَجَاعَةِ” (صحیح البخاری: 2647)
[رضاعی رشتہ بھوک کی وجہ سے دودھ پینے پر قائم ہوتا ہے]
کی راویہ ہیں۔ جو اس بارہ میں واضح ہے کہ بچہ جب اس عمر میں دودھ پیے جس عمر میں دودھ سے اسکی بھوک مٹ جاتی ہے یعنی مدت رضاعت میں تو پھر رضاعی رشتہ ثابت ہوتا ہے۔ اسکے بعد اگر کوئی دودھ پیے تو رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن انکا اپنا فتوى تھا کہ بڑی عمر کا بالغ شخص بھی اگر کسی عورت کا دودھ پی لے تو وہ اس عورت کا رضاعی بیٹا بن جائے گا۔(سنن أبي داود: 2061) تو کیا یہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی روایت کو زیادہ سمجھتی تھیں اور رضاعتِ کبیر کے بارہ میں انکا فتوى اس مرفوع روایت کا انکا فہم ہے؟؟؟۔
جس کا قول، اسی کی تفسیر معتبر ہے یا قول کسی کا اور تفسیر کسی اور کی؟
کتنی صاف بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی نہ کٹوا کر اپنے قول "أعفوا، أرخوا،أوفوا،وفروا” کی اپنے عمل سے خود تشریح کررہے ہیں
مگر حیرت ہے کہ ہم، صاحبِ قول صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہی کہی ہوئی بات کی عملی تشریح قبول نہیں کررہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی عملی تشریح قبول کررہے ہیں جو نہ صاحبِ قول ہیں اور نہ ہی یہ صراحت ہے کہ ان کا ایسا کرنا "واعفوا” کی وضاحت کے لیے تھا یا کسی اور بناء پر تھا
الغرض سوچنے کی بات یہ ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تشریح زیادہ معتبر ہے یا بعد میں کسی کا عمل؟
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کٹوانے والے فعل پر شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ کا تبصرہ
شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قولُ الرسولِ مُقَدَّمٌ علی فعلِ ابن عمر رضی اللہ عنہ
سلسلہ لقاءات الباب المفتوح لابن عثیمین ص 59
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے مقدم کیا جائے گا
شيخ رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ قیامت والے دن اللہ نے اس حوالے سے پوچھا تو کیا جواب دو گے کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کاٹتے تھے؟؟
جبکہ اللہ تعالٰی تو فرماتے ہیں:
ماذا أجبتم المرسلين.
تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لیس بیان أو لایجوز
کیا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کٹوانے سے پہلے تک امت اس بیان سے ناواقف ہی رہی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول میں فوت ہوئے جب کہ حج، ذوالحجہ میں ہوتا ہے یہ درمیان کے 10 ماہ کے عرصہ میں کیا یہ بیان اندھیرے میں ہی رہا؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیان کو مجمل، مبہم چھوڑ گئے؟
جو اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں بن سکتا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دین مکمل ہوگیا تھا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المآئدہ : 3)
آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ تک دین میں کسی بھی تغير و تبدل کا امکان تھا لیکن جونہی آپ دنیا سے چلے گئے اس کے بعد کوئی نیا حکم نہیں آ سکتا
آپ کے دور میں داڑھی بھی تھی اور قینچی،استرا بھی تھا مگر
اب یا تو عہد نبوی میں داڑھی کی تراش و خراش کا کوئی ادنی سا بھی اشارہ دکھا دیا جائے یا پھر یہ مان لیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قینچی و استرے کے بغیر داڑھی دے کر گئے تھے
کیونکہ جو اس وقت دین تھا وہ آج بھی دین ہے
اور جو تب دین نہ تھا وہ بعد میں بھی دین نہیں بن سکتا
ابن عمر وغیرہم رضی اللہ عنہم اور یک مشتیوں میں فروق
داڑھی کی تراش خراش کرنے اور یک مشت کا فتویٰ دینے والے لوگوں اور درج بالا اصحاب کے عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہے
01. اصحاب، صرف حج کے دنوں میں ایسا کرتے تھے جبکہ یہ لوگ پورا سال ایسا کرتے ہیں
02. أصحاب، تقصیر و تفث کی وجہ سے کاٹتے تھے جبکہ یہ لوگ اسے إعفاء کی تفسیر سمجھ کر لیتے ہیں
03. اصحاب، صرف مٹھی سے زائد کاٹتے تھے جبکہ یہ لوگ اس کے ساتھ ساتھ گلے اور گالوں کی طرف سے بھی کاٹتے ہیں
فیا عجب بین الأصحاب وبین ھؤلاء بعد المشرقین
پہلا فرق
وہ تو صرف حج کے موقع پر کٹواتے تھے جبکہ یہ سارا سال کٹواتے ہیں
سیدنا ابن عمر سمیت کسی بھی صحابی سے مطلقاً پورا سال داڑھی کو مٹھ سے زائد کاٹنا ثابت نہیں ہے سوائے حج اور عمرہ کے
صرف موسم میں داڑھی کٹوانے کے دلائل
01. ابن عمر صرف حج میں ایسا کرتے تھے
صحيح بخاری میں ہے:
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ، قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ. (صحيح البخاري |كِتَابٌ : اللِّبَاسُ|5892)
02. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صرف حج میں ایسا کرتے تھے
ابو زرعہ فرماتے ہیں :
«ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ رضی اللہ عنہ ﻳﻘﺒﺾ ﻋﻠﻰ ﻟﺤﻴﺘﻪ، ﺛﻢ ﻳﺄﺧﺬ ﻣﺎ ﻓﻀﻞ ﻋﻦ اﻟﻘﺒﻀﺔ» (مصنف ابن ابی شیبہ 25481)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مطلق عمل کو عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ نے مقید بیان کیا ہے
آپ فرماتے ہیں :
ﻛﺎﻧﻮا ﻳﺤﺒﻮﻥ ﺃﻥ ﻳﻌﻔﻮا اﻟﻠﺤﻴﺔ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺣﺞ ﺃﻭ ﻋﻤﺮﺓ (مصنف ابن ابی شیبہ 25482)
03. جابر رضی اللہ عنہ بھی صرف حج میں ایسا کرتے تھے
خود جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كُنَّا نُعَفِّي السِّبَالَ، إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ. (سنن أبي داود 4201)
اور اسی طرح المصنف میں ہے آپ فرماتے ہیں :
«ﻻ ﻧﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﻃﻮﻟﻬﺎ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺣﺞ ﺃﻭ ﻋﻤﺮﺓ (مصنف ابن ابی شیبہ 25487)
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پورا سال داڑھی کاٹتے ہوتے تو پھر "فی حج أو عمرۃ” جیسے الفاظ لانے کی ضرورت نہیں تھی
عام حالات میں ابن عمر، ابو ہریرہ اور جابر وغیرہ رضی اللہ عنہم کے داڑھی نہ کاٹنے کی دلیل
ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﺎﻟﺪ بیان کرتے ہیں :
ﺭﺃﻳﺖ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻭاﺛﻠﺔ ﺑﻦ اﻷﺳﻘﻊ ﻳﺤﻔﻴﺎﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻤﺎ ﻭﻳﻌﻔﻴﺎﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢ (شرح معانی الآثار(6565 )
کہ میں نے انس بن مالک اور واثلہ بن اسقع کو اپنی مونچھیں کاٹتے اور داڑھیاں چھوڑتے ہوئے دیکھا
شرح معانی الآثار کی ہی اس سے متصل بعد والی 6566 نمبر روایت میں ہے ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺭاﻓﻊ اﻟﻤﺪﻧﻲ فرماتے ہیں :
ﺭﺃﻳﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ ﻭﺃﺑﺎ ﺃﺳﻴﺪ اﻟﺴﺎﻋﺪﻱ ﻭﺭاﻓﻊ ﺑﻦ ﺧﺪﻳﺞ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ اﻷﻛﻮﻉ ﻳﻔﻌﻠﻮﻥ ﺫﻟﻚ
میں نے ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ابو ﻫﺮﻳﺮﺓ، ابو ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ، ابو ﺃﺳﻴﺪ اﻟﺴﺎﻋﺪﻱ ،ﺭاﻓﻊ ﺑﻦ ﺧﺪﻳﺞ ،ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ،ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ اور ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ اﻷﻛﻮﻉ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایسے ہی (مونچھیں کاٹتے اور داڑھیاں چھوڑتے ہوئے) دیکھا
دوسرا فرق
وہ تقصیر و تفث کی وجہ سے کاٹتے تھے اور یہ إعفاء کی وجہ سے
کسی صحابی کا قول یا عمل اسی موضوع کی کسی روایت یا آیت کی تشریح و توضیح قرار نہیں پائے گا جب تک اس صحابی سے اس آیت یا روایت کو دلیل بنانا ثابت نہ ہو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ صحابی نے وہ عمل کسی اور دلیل کے پیش نظر کیا ہو۔
بالکل یہی معاملہ اس داڑھی والے مسئلہ میں بھی ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے واعفوا کا معنى ایک مشت تک چھوڑنا نہیں کیا۔ بلکہ جنہوں نے کٹوانے کا عمل کیا ہے انہوں نے ایک اور دلیل ليَقْضُوا تَفَثَهُمْ سے استدلال کیا ہے کہ یہ بھی تفث میں شامل ہے لہذا ان زائد بالوں کو بھی کاٹ دینا چاہیے۔
شیخ رفیق طاہر عفی اللہ عنہ
الغرض، ضروری نہیں کہ بندہ ظاہراً جو کررہا ہو، حقیقت میں اس کا موقف بھی وہی ہو، وہ ظاہری عمل کسی اور دلیل کی بنا پر بھی ہوسکتا
ظاہری عمل اور موقف میں اختلاف کی ایک مثال
دن رات میں کچھ وقت ایسے آتے ہیں کہ جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے مگر ان اوقات میں کبھی بعض اسباب کی وجہ سے نماز پڑھی بھی جا سکتی ہے
مثال کے طور پر ایک شخص سویا ہوا تھا یا بے ہوش تھا یا اسے یاد ہی نہیں رہا اور جب اٹھا یا ہوش میں آیا یا یاد آیا تو اتفاق سے وہ نماز پڑھنے کا ممنوعہ وقت تھا لیکن اس کی چونکہ فرض نماز رہتی تھی لھذا اس کی نماز کا وہی وقت ہے اور شریعت اسے اس وقت میں نماز پڑھنے کی اجازت دیتی ہے
اب کوئی دوسرا شخص اسے نماز پڑھتا دیکھے اور اسے پوچھے بغیر خود ہی یہ رائے قائم کر لے کہ اچھا اس کے نزدیک نماز کا کوئی ممنوعہ وقت نہیں ہے تو یہ اس دیکھنے والے کی غلطی ہے، بہتر تھا فاعل سے اس کے فعل کی وجہ معلوم کرتا
بعینہ
داڑھی کا معاملہ ہے ہمارے بعض بھائیوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو مٹھی سے زائد داڑھی کٹواتے دیکھا تو خود ہی فیصلہ کر لیا کہ چونکہ داڑھی معاف کرنے والی روایت کے راوی ابن عمر ہیں لھذا معاف کرنے کا یہی مطلب ہے کہ مٹھی تک کاٹ دی جائے حالانکہ بہتر تھا کہ معلوم کرلیا جاتا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ مٹھی سے زائد داڑھی، "واعفوا” جیسے صیغوں کی بنا پر کاٹتے ہی نہیں تھے اگر کوئی کہے کہ یہ إعفاء کی تفسیر ہے تو اس کی دلیل پیش کی جائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ میں یہ کام إعفاء والے حکم کی وجہ سے کرتا ہوں
ابن عمر رضی اللہ عنہ "تقصیر” کی وجہ سے ایسا کرتے تھے
حج اور عمرہ کے موقع پر سر کے بال مونڈنے اور کاٹنے کو حلق اور تقصیر کہتے ہیں
موطا امام مالک میں صحیح سند کے ساتھ ان کا یہ عمل یوں بیان ہوا ہے
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا حَلَقَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَشَارِبِهِ. (مؤطا امام مالک، كِتَابٌ : الْحَجُّ | التَّقْصِيرُ 1179) حكم الحديث: إسناده صحيح
کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرے میں حلق کرتے تو اپنی داڑھی اور مونچھوں میں سے کچھ کاٹ لیتے
سوال یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو حج کے موقع پر تقصیر پر عمل کرنے کے لیے داڑھی تراشتے تھے
تو کیا ہمارے بھائی اسے تقصیر مانتے ہیں
اگر نہیں
تو پھر بتائیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل داڑھی کے حوالے سے کس حدیث کے موافق ہے؟
اور اسے "إعفاء”، "ارخاء” ، "ایفاء” اور "توفیر” کی تفسیر کیسے مان لیا جائے؟
ابن عباس کا قولی اثر، کہ داڑھی میں سے کچھ لینا، تقصیر ہے
دوسری طرف ابن عباس رضی الله عنہ سے تقصیر میں رخساروں کے بال تک صاف کرنا ملتا ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ (الحج : 29)
پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں
اس کی تفسیر یہ ہے کہ
چونکہ حالتِ احرام میں بال یا ناخن کٹوانا اور خوشبو لگانا حرام ہو جاتا ہے۔ صرف دو چادریں ہوتی ہیں، سر ننگا ہوتا ہے اور زیادہ مل مل کر غسل نہیں کرنا ہوتا، اس مسافرانہ اور فقیرانہ حالت میں بدن پر میل کچیل چڑھ جاتا ہے۔ دس ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کو کنکر مارنے کے بعد اس قسم کی پابندیاں تقریباً ختم ہو جاتی ہیں۔
تو "ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ” کا مطلب یہ ہے کہ پھر وہ سر کے بال منڈوائیں یا کتروائیں اور ناخن وغیرہ صاف کریں، پھر غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہن لیں
لیکن
عطاء بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :
«اﻟﺘﻔﺚ اﻟﺮﻣﻲ، ﻭاﻟﺬﺑﺢ، ﻭاﻟﺤﻠﻖ، ﻭاﻟﺘﻘﺼﻴﺮ، ﻭاﻷﺧﺬ ﻣﻦ اﻟﺸﺎﺭﺏ ﻭاﻷﻇﻔﺎﺭ ﻭاﻟﻠﺤﻴﺔ» (مصنف ابن ابی شیبہ 15673)
یعنی "تفث” سے مراد کنکر مارنا، ذبح کرنا، سرمنڈانا، سر کے بال کٹوانا، مونچھیں، ناخن اور داڑھی کٹوانا ہے
الغرض
ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حج کے موقع پر داڑھی کٹوانے کی وجہ داڑھی والی احادیث کی تفسیر یا عملی شکل ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کا یہ عمل تقصیر و تفث کی بنا پر تھا جوکہ محض ان کا اپنا اجتہاد ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے داڑھی کٹوانے کی ایک اور معقول وجہ
وہ یہ کہ آپ بتکلف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی وضع قطع اور اٹھک بیٹھک کے حریص تھے
جیسے دیگر مسائل و واقعات اس بات کے شاھد ہیں
مثال کے طور پر قضائے حاجت کے بغیر ہی اس جگہ پر جا بیٹھنا جہاں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے بیٹھے تھے
اور
اپنے گریبان کو کھلا چھوڑ دینا کہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس حالت میں دیکھا تھا
وغیرہ وغیرہ
تو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی طور پر یک مشت کے قریب قریب تھی، لھذا ممکن ہے کہ یہاں بھی انہوں نے یہ سوچا ہو کہ میری داڑھی ہو بہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے سائز کے برابر ہو
تیسرا فرق
ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف مٹھی سے زائد کاٹتے تھے جبکہ یہ لوگ اس کے ساتھ ساتھ گلے اور گالوں کی طرف سے بھی کاٹتے ہیں
کندھوں کی طرف بھی داڑھی کو پھیلنے دیں
شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رأَيْتُ عليًّا على المِنبرِ أبيضَ اللِّحيةِ قد ملَأَتْ ما بين منكبَيْه (الهيثمي (ت ٨٠٧)، مجمع الزوائد ٩/١٠٤ • رجاله رجال الصحيح)
میں نے علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھا کہ آپ کی داڑھی سفید تھی اور اس نے دونوں کندھوں کے درمیان کو پر کر رکھا تھا
داڑھی کے کٹوانے اور نہ کٹوانے کے حوالے سے صحابہ کے مختلف اعمال ملتے ہیں اور اس اختلاف کا حل فردوہ الی اللہ والرسول
اگر ایک طرف ابن عمر، ابن عباس ،ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم داڑھی کٹواتے تھے
تو دوسری طرف
عثمان، علی، انس اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم داڑھی نہیں بھی کٹواتے تھے
عثمان رضی اللہ عنہ کی لمبی داڑھی
صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت عثمان کی بڑی داڑھی تھی
ابو عبد الله مولى شداد بن الهاد بیان کرتے ہیں :
«رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ……. ضَرْبُ اللَّحْمِ، طَوِيلُ اللِّحْيَةِ، حَسَنُ الْوَجْهِ» (تاريخ دمشق لابن عساكر 39/16)
میں نے جمعے کے دن عثمان رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھا،آپ بھرے ہوئے گوشت، لمبی داڑھی اور خوبصورت چہرے والے تھے
مزید دیکھیے
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب مع الحاشية ۱۰۴۵ؒؒ/3
معرفۃ الصحابہ لابی نعیم :(223،224) یہی روایت طبرانی کبیر، الزھد والرقائق وغیرہ میں ہے
المعجم الكبير للطبراني (1/ 75)
تہذیب الکمال 19/ 452
علی رضی اللہ عنہ کی لمبی داڑھی
رزام بن سعيد کہتے ہیں : میں نے اپنے باپ کو علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے سنا انہوں نے کہا :
” كان رجلا عظيما، طويل اللحية. (معرفة الصحابة لابي نعيم 79/1)
علی رضی اللہ عنہ عظیم انسان تھے اور آپ کی داڑھی لمبی تھی
شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : «رأيت عليا رضي الله عنه، أبيض الرأس واللحية قد أخذت ما بين منكبيه أصلع على رأسه زغيبات» (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (1/ 137)154
میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ سفید سر اور داڑھی والے تھے آپ کی داڑھی نے دونوں کندھوں کے درمیان کو پر کررکھا تھا اور سر پر تھوڑے سے بال تھے
ابو رجاء العطاردی بیان کرتے ہیں :
رأيت علي بن أبي طالب رجلا ربعة ضخم البطن عظيم اللحية قد ملأت صدره مقتل علي بن أبي طالب 1/65/67 سندہ صحيح
میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ میانے قد، موٹے پیٹ اور بڑی داڑھی والے تھے کہ آپ کی داڑھی نے آپ کے سینے کو ڈھانپ رکھا تھا
انس رضی اللہ عنہ کی لمبی داڑھی
ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﺎﻟﺪ بیان کرتے ہیں :
ﺭﺃﻳﺖ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻭاﺛﻠﺔ ﺑﻦ اﻷﺳﻘﻊ ﻳﺤﻔﻴﺎﻥ ﺷﻮاﺭﺑﻬﻤﺎ ﻭﻳﻌﻔﻴﺎﻥ ﻟﺤﺎﻫﻢ (شرح معانی الآثار(6565 )
میں نے انس بن مالک اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ اپنی مونچھوں کو کاٹتے اور اپنی داڑھیاں معاف چھوڑتے
پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جو داڑھی معاف کرتے تھے
شرحبیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ” (المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد
(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)
’’اس کی سند جید ہے۔‘‘
حل
چونکہ داڑھی کٹانے اور نہ کٹانے والے دونوں طرح کے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مل رہے ہیں تو اس اختلاف کا حل وہی ہے جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے
فرمایا :
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ (النساء : 59)
پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ
لمبی داڑھی والے تابعین
عمرو بن زرارہ بن واقد الکلابی رحمہ اللہ کی داڑھی طویل تھی، ان سے محمد بن اسماعيل اور مسلم بن الحجاج کے ساتھ اور بہت سے محدثین نے روایت نقل کی ہے۔
تہذیب الکمال 22/ 31
المغیرہ بن زیاد البجلي کی داڑھی بھی طویل تھی ان کی توثیق محمد بن اسماعیل نے کی ہے۔
تہذیب الکمال 28/ 362
یحیی بن یحیی بن بکر کی داڑھی بہی طویل تھی ان سے بھی محمد بن اسماعیل اور مسلم بن الحجاج کے ساتھ اور بہت سے محدثین نے روایت نقل کی ہے۔
تہذیب الکمال 32/ 33
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﺩﻛﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻗﺎﻝ:
ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﺻﺎﻟﺢ ( یہ ثقہ تابعی ذكوان الزيات ہیں) ﻛﺒﻴﺮ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺨﻠﻠﻬﺎ (الطبقات الکبری:6/ 299)
كتب سته وغيره کے راوی ثقہ تابعی محارب بن دثار ( وفات:108 ھ) کی طویل داڑھی تھی
الثقات لابن حبان:(5679)
امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں :
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻫﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻣﺤﺎﺭﺏ ﺑﻦ ﺩﺛﺎﺭ ﻳﻘﻀﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻟﺤﻴﺘﻪ ﺑﻴﻀﺎء طويلة
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﻀﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻷﺳﺪﻱ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺎﻣﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﻣﺤﺎﺭﺏ ﺑﻦ ﺩﺛﺎﺭ ﻳﻘﻀﻲ ﻓﻲ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺴﺠﺪ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﺑﻴﻦ اﻟﻨﺎﺱ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ اﻟﻘﺴﺮﻱ ﺷﻴﺨﺎ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﺃﺷﻬﺐ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻻ (أخبار القضاء :3/ 28 حسن، و صحيح)
امام ابو حنیفہ سے منسوب اثر یہ ہے لکن وہ يقولون کہہ رہے اب یہ یقولون کہنے والے کون ہیں ۔۔۔۔۔دوسرا امام ابو حنیفہ نے اس کے بعد ایک مثال بیان کی اور ایسا کہنے والوں کا رد کیا ہے
ﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ اﻟﺴﻨﺪﻱ ﺛﻨﺎ اﻟﻤﺆﻣﻞ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻳﻘﻮﻝ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﻋﻘﻞ ﻭﻟﻘﺪ ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﺑﻦ ﻣﺮﺛﺪ ﻃﻮﻳﻞ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻭاﻓﺮ اﻟﻌﻘﻞ (الثقات:(15782) حسن)
امام ابن حبان یزید الرشک(130 ھ) بارے کہتے ہیں عظيم اللحي
مشاھیر علماء الامصار(1201)
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻷﺧﻨﺴﻲ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻳﻘﻮﻝ: «ﻟﻮ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺑﻦ اﻟﻤﻌﺘﻤﺮ، ﻭﺭﺑﻴﻊ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭاﺷﺪ، ﻭﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻨﺠﻮﺩ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ، ﻗﺪ ﻭﺿﻌﻮا ﻟﺤﺎﻫﻢ ﻋﻠﻰ ﺻﺪﻭﺭﻫﻢ، ﻋﺮﻓﺖ ﺃﻧﻬﻢ ﻣﻦ ﺃﺑﺰاﺭ اﻟﺼﻼﺓ (مسند على بن الجعدص:143 حسن)
ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﺩﻛﻴﻦ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺵ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻗﺎﻝ:
ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﺻﺎﻟﺢ ( یہ ثقہ تابعی ذكوان الزيات ہیں) ﻛﺒﻴﺮ اﻟﻠﺤﻴﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺨﻠﻠﻬﺎ
(الطبقات الکبری:6/ 299)