مذمت حسد

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۝۱ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ۝۲ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ۝۳ وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ۝۴ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠۝۵﴾(الفلق: 1- 5)
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے پیغمبر! آپ کہیے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ اور اندھیری رات کی برائی سے جب کہ اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گرہ بگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب کہ وہ حسد کرے۔‘‘
کسی نعمت کے چھن جانے کی آرزو کو حسد کہتے ہیں۔ یعنی لوگ ایسے تنگ دل ہوتے ہیں جو دوسروں کو بھلائی اور بہتری کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ سکتے، خاص کر اپنے رشتہ داروں، عزیزوں، دوستوں اور ہم پیشہ وروں کو جب اچھی اور آسودہ حالتوں میں دیکھتے ہیں تو جل بھن کر خاک ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آسودہ لوگوں کی آسودگی چھن جائے اور وہ مجھے کو مل جائے۔ اس بری عادت کو حسد اور حسد کرنے والوں کو حاسد کہتے ہیں۔
حسد کرنے والا بہت برا ہوتا ہے، وہ لوگوں کی تباہی اور بربادی چاہتا ہے۔ اپنی بھلائی کے لیے کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ رات دن دوسروں کی بربادی کے غور و فکر میں لگا رہتا ہے اس کو اتنا موقع کہاں جو اپنی ترقی کے لیے سوچ بچار کر سکے۔ اس لیے وہ بہت سست اور کاہل ہو جاتا ہے اور یہ سستی اس کو خدا کی نعمتوں سے محروم کر دیتی ہے۔ جب وہ اپنی بری حرکت کی وجہ سے اللہ کی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں کی آسودگی پر جلتا ہے اور اپنی بربادی کی طرح ان کی بربادی کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ کبھی ان کی کھلم کھلا غیبتیں اور چغلیاں کرتا ہے ناحق شکایتیں کرتا ہے تہمتیں اور بہتان باندھتا ہے اور طرح طرح کی تکلیف اور اذیت پہنچانے میں مصروف رہتا ہے۔ عہد رسالت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں پر خاص احسان یہ کیا تھا کہ ان کو قرآن اور ایمان کی دولت عطا فرمائی تھی جس کو دیکھ کر یہود و نصاری، مسلمانوں کے حاسد جلے مرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلٰى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ (نساء: 54)
’’خدا نے اپنے فضل سے جو نعمت عطا فرمائی ہے اس پر جلے مرتے ہیں اور حسد کرتے ہیں) ( اور ان کی خواہش یہ تھی کہ یہ دولت مسلمانوں سے چھین لی جائے۔)‘‘
﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَوْيَرُدُّ وْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ﴾ (البقرة: 109)
’’اکثر اہل کتاب اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر تم کو کافر بنا دیں۔‘‘
قرآن مجید میں بہت سی آیتیں حسد کی مذمت کے بارے میں ہیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے۔
(اِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَإِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ اكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُو عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمْ۔ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِم – التَّقْوَى هٰهُنَا وَأَشَارَ إِلَى صَدْرِهِ بِحَسْبِ امْرِي مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ۔ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَعِرْضُهُ وَمَالُهُ)[1]
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم بدگمانی سے بچتے رہو۔ بدگمانی بڑی جھوٹی بات ہے اور نہ تم کو کسی کی عیب جوئی کے پیچھے پڑو اور نہ تم منافست کرو اور نہ کسی سے حسد اور زوال نعمت کی آرزو کرو، نہ کسی سے بغض اور کینہ رکھو اور نہ کسی سے قطع تعلق کرو، اور نہ سلام کلام چھوڑو۔ اے اللہ کے بندو! تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ جیسا کہ اس نے تم کو حکم دیا ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم و ستم کرے اور ظالم کے حوالے کر کے اس کی امداد کو بند کر دے۔ اور نہ اس کو ذلیل کرے۔ تقوی و پرہیز گاری دل میں ہے۔ ہلاکت کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب باب يا ايها الذين امنوا اجتنبوا كثيرا من الظن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لئے یہی برائی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل کرے مسلمانوں کی عزت آبرو لینا اور خونریزی حرام ہے۔‘‘
اس حدیث میں تحاسدو کا لفظ آیا ہے یعنی کسی سے حسد نہ کرے یہ حسد بری عادت ہے یہی پہلا گناہ ہے جو ابلیس لعین سے سرزد ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے فضائل دیکھ کر حسد کی آگ میں جل مرا اور سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی حسد کی وجہ سے قابیل نے اپنے سگے بھائی ہائیل کو قتل کر ڈالا۔ اسی حسد کی وجہ سے آپس میں جنگ و جدال کی نوبت آ جاتی ہے۔ پہلے زمانے کے لوگ اس حسد کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے۔
اسی حسد نے برادران یوسف کو حضرت یوسف علیہ السلام کے قتل کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ باپ کی محبت حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو اچھی نہیں معلوم ہوئی اس لئے زوال کی فکر کر کے ان کو نظروں سے اوجھل کرنے کی کوشش کی۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے لیکن اچھا نتیجہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں رہا۔ یہ حسد تمام نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے اور حاسد نیکیوں سے تہی دست ہو کر محروم ہوتا ہے۔
یہ حسد تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس سے حاسد کی دونوں جہان کی تباہی و بربادی ہو جاتی ہے وہ خسر الدنيا والاخرة کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی دشمن کو مارنے کے لیے پتھر پھینکے وہ پتھر دشمن کو نہ لگے بلکہ الٹ کر پتھر پھینکنے والے کی داہنی آنکھ پر لگ جائے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے۔ پھر غصہ ہو کر دوبارہ پتھر پھینکے وہ اتفاقا الٹ کر اس کی بائیں آنکھ میں لگ جائے۔ پھر اس کا سر بھی پھوٹ جائے۔ اسی طرح وہ پتھر مار مار کر اپنے آپ کو زخمی کرتا اور ہلاک کرتا ہے اور دشمن صیح سلامت رہ کر اس پر ہنستا رہے۔ یہی حال حسد کرنے والے کا ہے۔
حسد سے برکت جاتی رہتی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَالَمْ يَتَحَاسَدُوا)[1]
’’لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گی جب تک کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کریں گے۔‘‘
حضرت معاویه رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں سب آدمیوں کے راضی کرنے پر قدرت رکھتا ہوں مگر حاسد نعمت کہ وہ بغیر زوال نعمت کے راضی نہیں ہوتا۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا:
توانم اینکه نیازارم اندرون کسے حسود راچه کنم کو زخود برنج درست
اور بعض حکماء کا قول ہے کہ حسد ایک زخم ہے کہ جو کبھی نہیں بھرتا اور جو کچھ حاسد پر گزرتا ہے اس کو وہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبرانی کبیر (309/8) (8157)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی ہے ایک اعرابی کا قول ہے کہ میں نے کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ سوائے حاسد کے نہ دیکھا کہ جب دوسرے کی نعمت دیکھتا ہے تو گویا اسے چھریاں لگتی ہیں۔ حاسد حسد کے سبب سے خدا کے حکم و فیصلے سے راضی نہیں ہوتا۔ جس نعمت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و حکمت سے جس کو چاہا دیا۔ گویا حاسد اس کو برا جانتا ہے کہ اس کو کیوں دیتا ہے ہمیں کیوں نہیں دیتا۔ تو اسے خدا کے فیصلے و تقدیر پر غصہ آتا ہے اور جو خدا کی تقدیر سے ناراض ہوتا اور خدا کے فیصلے سے ناخوش ہوتا ہے وہ مسلمان نہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اِصْبَرْ عَلٰى كَيْدِ الْحَسُودِ حاسد کے مکر و فریب پر صبر کرو
فَإِنَّ صَبْرَكَ قَاتِلهُ تمہارا صبر اسکو قتل کر کے رہے گا
فَالنَّارُ تَاكُلُ نَفْسَهَا إِذْ لَمْ تَجِدْ مَا تَأْكُلُه
جب آگ کو کوئی چیز جلانے کو نہیں ملتی تو اپنے آپ ہی کو کھا لیتی ہے۔
دراصل حسد کافروں کا شیوہ ہے۔ سچا مسلمان حسد کر ہی نہیں سکتا ہے- قرآن مجید میں حسد کے متعلق جتنی آیتیں ہیں وہ سب کافروں، یہودیوں، عیسائیوں اور منافقوں کے بارے میں ہیں جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہی لوگ حاسد ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی بدخواہی چاہتے ہیں اور اپنی طرح ان کے کافر ہونے کی آرزو کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۚ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۰۹﴾ (بقرة: 109)
’’اہل کتاب کے اکثر لوگ حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود بعض بغض وعناد اور حسد کی بنا پر تمہیں ایمان سے دور کرنا چاہتے ہیں تو معاف کرو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
یہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمانوں کا اپنی طرح کافر ہو جانا پسند کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حسد کرنا یہودیوں کا شغل ہے مسلمان حسد نہیں کرتا سورہ نساء میں فرمایا:
﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ﴾ (النساء: 54)
’’یہ یہودی مسلمانوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ان کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی جس سے وہ محروم ہیں۔‘‘
حسد ایک ایسی بری چیز ہے جس سے پناہ مانگی جاتی ہے رسول اللہﷺ کی طبیعت شریفہ جب ناساز ہو جاتی تو حضرت جبریل علیہ السلام یہ دعا پڑھ کر دم کر دیا کرتے تھے۔ (بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيءٍ يُؤْذِيكَ وَمِنْ شَرِكُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ. اللَّهُ يَشْفِيكَ بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيْكَ)[1]
’’اللہ تعالی کے نام سے دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دیتی ہے۔ ہر جان کی برائی سے اور حسد کرنے والے کی آنکھ سے اللہ تعالی آپ کو شفادے۔ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘
قرآن مجید میں حاسدوں کی برائی سے پناہ طلب کرنے کا حکم ہے چنانچہ ارشاد ہے
﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۝۱ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ۝۲ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ۝۳ وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ۝۴ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠۝۵﴾ (الفلق 1- 5)
’’آپ کہیے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے اور اندھیری رات کی برائی سے۔ جب اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گروہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے اور حسد کرنے والوں کی برائی سے جب کہ وہ حسد کرے۔‘‘
بہر حال حسد اور نظر بد سے پناہ چاہی گئی ہے یہی دونوں چیز میں بڑی خطرناک ثابت ہوئی ہیں اور حدیث میں آیا ہے:
(الْعَيْنُ حَقٌّ)[2]
’’یعنی نظر لگنا حقیقت ہے۔‘‘
اور نظر بد لگانے والا حاسد ہوتا ہے اور ہر حاسد کا عائن ہونا ضروری نہیں۔ جب آیت کریمہ میں حاسد سے استعاذ کا حکم ہے تو عائن یعنی نظر بند لگانے والے سے بھی استعاذہ پایا گیا ہے۔ اس کو علامہ ابن قیم نے تفسیر معوذتین میں فرمایا ہے۔
(لِأَنَّ كُلَّ عَائنٍ حَاسِدٌ وَ لَيْسَ كُلُّ حَاسِدٍ عَائِنًا فَإِذَا اسْتَعَاذَ مِنْ شَرِّ الْحَاسِدِ دَخَلَ فِيهِ الْعَائِنُ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب السلام باب الطب و المرض الرقى (5700)
[2] مسلم: کتاب السلام باب الطب و المرض و الرقى (5702)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکایت
حضرت شیخ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں ایک حاسد آدمی کی یہ حکایت فرمائی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو کر یہ کہا کرتا تھا کہ نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور محسن کے احسان کا بدلہ دو کیونکہ برائی کرنے والے کی برائی تمہاری طرف سے خود کفایت کرے گی۔ یہ شخص برابر بادشاہ کے سامنے یہ نصیحت کیا کرتا تھا جس سے اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کی عزت، عظمت اور مرتبہ کو دیکھ کر ایک شخص کو حسد پیدا ہو گیا۔ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ شخص حضور کے سامنے کھڑا ہو کر گندہ ذہن بناتا ہے بادشاہ نے کہا اس کی تصدیق کیسے ہو؟ حاسد نے کہا: جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ اسے اپنے قریب بلا لیجئے۔ جب وہ آپ کے بالکل قریب آ جائے گا تو اپنی ناک بند کر لے گا۔ تاکہ آپ کے منہ کی بدبو نہ آنے پائے۔ بادشاہ نے کہا: بہت اچھا کل امتحان کریں گے ادھر اس حاسد نے بادشاہ سے یہ کہا ادھر اس نے جا کر اس ناصح و نیک آدمی کی دعوت کر کے ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن بہت سا تھا۔ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوا تھا کہ دربار کا وقت آ گیا۔ بدستور بادشاہ کے سامنے کو کھڑے ہو کر اس نے وہی جملہ کہا جو کہا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ اپنے منہ کی بدبو بادشاہ تک نہ پہنچنے پائے۔ منہ پر ہاتھ رکھے وہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو کل کی بات پر یقین آ گیا کہ وہ بات بالکل سچ ہے جو حاسد نے کہی تھی۔ اسی وقت بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اس خاص گورنر کے پاس اس مضمون کا خط لکھا کہ جب حامل رقعہ ہذا تمہارے پاس پہنچے تو فورًا اسے قتل کر کے اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر ہمارے پاس بھیج دو۔ اس خط کو اس شخص کے حوالے کر کے کہا: کہ فلاں حاکم کے پاس اس خط کو لے جاؤ۔ چنانچہ وہ خط لے کر بادشاہ کے دربار سے باہر آیا۔ اس بادشاہ کا دستور تھا کہ جب وہ دستی خط لکھتا تھا تو کسی کے نام جاگیر و انعام کے لیے لکھتا تھا۔ راستہ میں وہی حاسد ملا۔ اس کے ہاتھ میں خط دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے اس نے کہا یہ شاہی خط ہے جو مجھے لکھ کر دیا ہے کہ فلاں حاکم کے پاس لے جاؤں۔ اس حاسد نے یہ سمجھا کہ اس شاہی خط میں بادشاہ نے کچھ انعام اور جاگیر کے لیے لکھا ہو گا۔ اس حاسد نے اس شخص سے کہا کہ یہ خط مجھے دے دو میں لے جاؤں گا۔ اس شخص نے کہا کہ اچھا میں تمہیں یہ خط ہبہ کرتا ہوں، لے جاؤ۔ اس حاسد نے اس خط کو انعام کے لالچ میں اس حاکم کے سامنے لے جا کر پیش کیا۔ حاکم نے اس خط کو پڑھ کر حامل رقعہ سے کہا کہ اس خط میں بادشاہ نے یہ لکھا ہے کہ تمہیں قتل کر کے تمہاری کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیجوں۔ تو یہ حاسد حامل رقعہ بہت گھبرایا اور کہنے لگا کہ یہ دوسرے کا خط ہے جو میں لے آیا ہوں۔ خدا کے واسطے یہ خط مجھے واپس کر دو۔ میں بادشاہ کے پاس واپس لے جاؤں۔ اس حاکم نے کہا کہ بادشاہ کا آیا ہوا خط واپس نہیں جا سکتا۔ اب میں تم کو قتل کروں گا اور بادشاہ کے حکم کے مطابق تمہارے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیجوں گا چنانچہ اس حاسد کو قتل کرا کر اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ ادھر وہ نیک شخص جو بادشاہ کے سامنے روزانہ کھڑا ہو کر یہ کیا کرتا تھا کہ محسن کے احسان کا بدلہ اچھا دینا چاہئے کیونکہ برائی کرنے والے کو خود اس کی برائی ہلاک کرے گی، بادشاہ کے پاس گیا اور اپنی عادت کے مطابق وہی کہا تو بادشاہ کو بہت تعجب ہوا کہ میں نے تو اسے قتل کرانے کے لیے فلاں حاکم کے پاس بھیج دیا تھا یہ کیسے آ گیا اور پھر حاسد کا بھس بھرا چمڑا بھی آ گیا۔ تو بادشاہ نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ اس بزرگ شخص نے کہا کہ حضور اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس نے تمہارے متعلق مجھ سے کہا تھا کہ تم میری برائیاں کرتے پھرتے ہو اور مجھے گندہ دہن کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے ہرگز یہ بات نہیں کہی ہے۔ بادشاہ نے کہا جب میں نے تمہیں اپنے پاس بلایا تھا تو تم نے اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر کیوں رکھ لیا تھا؟ اس نے کہا کہ اس نے میری دعوت کی تھی اور کھانے میں لہسن ڈال دیا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا۔ میں آ گیا تو میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ لہسن کی بدبو آپ کو ناگوار گزرے گی اس لیے میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ آپ کو بدبو نہ پہنچے بادشاہ نے کہا: سچ ہے تم اپنا کام کرو بدی کرنے والے کو اس کی بدی تمہاری طرف سے کافی ہوگئی۔
سچ فرمایا اللہ تعالی نے:
﴿وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّءُ إِلَّا بِاهْلِهٖ) (فاطر: 43)
’’اور بری تدبیر کرنے والوں کا وبال ان بری تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں، مکاریوں سے پرہیز کرو، مکر کا بوجھ اور وبال مکاری پر پڑتا ہے اور خدا کے ہاں اس کی جواب دہی ہو گی۔ حضرت محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین کاموں کا کرنے والا نجات نہیں پا سکتا: ان کاموں کا وبال اسی پر یقینًا آ پڑتا ہے مکر اور بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا۔[1]
حسد کی تین قسمیں ہیں
(1) یہ کہ ایک شخص کی صرف یہ خواہش ہو کہ دوسرے کی نعمت سلب کر لی جائے اور وہ اس کو نہ حاصل ہو سکے۔ حسد کی مذموم ترین قسم یہی ہے اور اس بنا پر منافقین کی یہ خواہش تھی کہ مسلمان بھی ان ہی کی طرح کافر ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن کثیر بحواله ابن ابی حاتم۔ تفسیر (562/3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَدُّوْ لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاءً﴾ (نساء:89)
’’ان منافقین کی یہ خواہش ہے کہ جس طرح خود کافر ہو گئے اسی طرح تم سچے مسلمان بھی کفر کرنے لگو۔ پس وہ اور تم ایک طرح کے ہو جاؤ۔‘‘
(2) دوسرے یہ کہ اس کی خواہش یہ ہو کہ وہ نعمت اس کو حاصل ہو جائے۔ اس صورت میں اس کا مقصود بالذات تو صرف اس نعمت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات جب تک وہ نعمت دوسرے سے چھن نہ جائے اس کو مل نہیں سکتی۔ اس لیے بالفرض اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے سلب کر لی جائے۔
(3) یہ کہ ایک شخص خود اسی قسم کی نعمت کو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کی یہ خواہش نہ ہو کہ وہ دوسرے سے سلب کر لی جائے۔
ان میں پہلی صورت حسد کی مذموم قسم ہے۔ دوسری صورت میں چونکہ زوال نعمت بالذات مقصود نہیں کہہ سکتے۔ تاہم قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (النساء: 32)
’’اور خدا نے جو تم میں سے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اس کا کچھ ارمان نہ کرو۔‘‘
اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو نعمت کسی کو حاصل ہو بعینہ اس کی خواہش کرنا پسندیدہ نہیں ہے اس لئے یہ بھی مذموم ہے البتہ اس کی مثل دوسری نعمت کی خواہش کرنا مذموم نہیں اس لئے فرمایا ﴿وَاسْئتَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلهٖ﴾ (اور خدا سے اس کا فضل مانگو۔)
تیسری صورت بالکل مذموم نہیں بلکہ دینی امور میں مستحسن ہے اور شریعت میں اس کو مسابقت اور منافست اور رشک و غبطہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا،
﴿فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾ (المطففين:26)
اور فرمایا: ﴿سَابِقُوا إِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ (الحديد:21)
’’اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑو۔‘‘
اور منافست اور مسارعت سے یہی مقصود ہے۔ اس کار خیر کو دونوں بجا لائیں چھوٹنے نہ پائے، ایسے کار خیر کی آرزو کرنا کہ دوسرے کی طرح میں بھی یہ نیک کام کروں غبطہ ہے جو مباح بلکہ ثواب ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ عِلْمًا فَهُوَ يَعْمَلُ وَيُعَلِّمُهُ النَّاسِ)[1]
’’صرف دو شخصوں کے لئے حسد یعنی رشک مباح ہے (1) ایک جس کو اللہ نے مالدار بنایا اور اس کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق دے دی (2) دوسرے وہ کہ اللہ تعالی نے اس کو علم دیا ہے جو لوگوں کو سکھاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ خیرات سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا۔ ظالم کے ظلم پر صبر کرنے سے اللہ تعالی مظلوم کی عزت بڑھاتا ہے۔ سوال کا دروازہ کھولنے سے اللہ تعالٰی محتاجی کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔
ایک اور حدیث تمہیں تمہیں سناتا ہوں اس کو یاد کر لو۔ وہ یہ ہے کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے۔
(1) وہ بندہ جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم دیا ہے اور وہ اس میں اللہ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس مال اور علم میں اللہ تعالی کا حق ہے اور ان دونوں کے حق ادا کرتا ہے تو یہ افضل المنازل بڑے مرتبہ کے لوگوں میں سے ہے۔
(2) دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے علم دیا لیکن مال سے محروم رکھا اور اس کی نیت سچی ہے کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا جس طرح فلاں شخص کرتا ہے تو یہ شخص اپنی خالص نیت کی وجہ سے اور پہلا شخص خرچ کرنے والا دونوں ثواب میں برابر ہیں۔
(3) تیسر اوہ شخص ہے جس کو اللہ نے مال دیا اور علم نہیں دیا تو وہ اپنا مال بے قاعدگی کے ساتھ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتا ہے نہ اس میں خدا سے ڈرتا ہے اور نہ حق والوں کے حق کو ادا کر کے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ ہی کے حق کو جانتا ہے۔ بلکہ نڈر ہو کر شراب و کباب، کھیل تماشا اور ناچ گانوں میں اڑاتا ہے تو یہ سب سے برے مرتبے والا ہے۔
(4) چوتھا وہ شخص ہے جس کو خدا نے نہ مال ہی دیا ہے اور نہ علم، وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں شخص کی طرح کھاتا اڑاتا۔ تو وہ اپنی بری نیت کی وجہ سے خود اور اس سے پہلا شخص دونوں گناہ میں برابر ہیں (احمد، ترمذی، ترغیب)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک کاموں میں منافست اور مسابقت درست ہے اور منافست بھی حسد کے معنی میں آتا ہے اور وہ درست نہیں ہے کیونکہ کبھی حسد منافست پر بولا جاتا ہے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب اور عباس نے چاہا کہ رسول اللہﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب العلم باب الاغتباط في العلم و الحكمة۔ و مسلم، کتاب صلاة المسافرين باب فضل من يقوم بالقرآن و يعلمه
[2] ترمذی: کتاب الزهد باب ما جاء مثل الدينا مثل اربعة نفر (262/3) رقم الحديث: 2325۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدمت مبارک میں عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس کو خدمت نبوی میں بھیج کر انہیں صدقات کے محکمہ میں عامل بنانے کی درخواست پیش کریں تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ وہاں جانا ہے کار۔ ہے تم کو اس کام پر نہیں رکھیں گے تب ربیعہ نے کہا:
(وَاللَّهِ مَا تَصْنَعُ هَذَا إِلَّا نَفَاسَةً مِنْكَ عَلَيْنَا فَوَاللَّهِ لَقَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفَسْنَاهُ عَلَيْكَ)[1]
’’تم نے یہ بات نفاست اور حسد سے کہی ہے رسول اللہﷺ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح تم سے کر دیا تو ہم نے نہ منافست کی اور نہ تم سے حسد کیا۔‘‘
جس نعمت پر انسان کو رشک اور غبطہ آتا ہے اگر وہ اسلامی اور دینی نعمت ہے۔ جیسے ایمان، نماز روزہ وغیرہ تو ایسی نعمت پر غبطہ کرنا فرض ہے یعنی اس بات کی خواہش کرے کہ جس طرح فلاں کامل اور ایماندار ہے، نمازی ہے اسی طرح میں بھی مومن اور نمازی بن جاؤں۔ دینی نعمت دین کے مستحب کاموں میں سے ہے تو غبطہ بھی مستحب ہے اگر وہ نعمت صرف ایسی ہے کہ اس بقدرمباح بہرہ ور اور لذت یاب ہو سکے تو اس میں منافست اور غبطہ مباح اور جائز ہے۔ کیونکہ اس میں نیک بننے کی خواہش ہوئی اور زوال نعمت کی آرزو و ہرگز نہیں اور نیک کام کے ارادہ کرنے سے بھی ثواب ملتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ وَلَمْ يَعْمَلُهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَعَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عشْرُ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعَ مِائَةٍ ضِعْفٍ)[2]
’’جس نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اسے نیکی کرنے کا موقع نہیں ملا تب بھی ایک نیکی کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اور جس نے ایک نیکی کر لی تو دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے بلکہ دس سے سات سو تک ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘
اسباب حسد
حسد کے اسباب سات ہیں
(1) بغض وعناد، عداوت ہے۔ کیونکہ یہ غیرممکن ہے کہ ایک شخص کے نزدیک دشمن کی بھلائی و برائی دونوں برابر ہوں اس لئے دشمن اور مخالف کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دشمن پر بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الزكوة باب ترك استعمال آل النبي الصدقة:2481)
[2] مسلم: كتاب الإيمان باب الإسراء برسول الله ﷺ إلى السماوات و فرض الصلوات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مصیبت آئے اور جب یہ مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اس کے بجائے جب خدا اس پر کوئی احسان کرتا ہے تو وہ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اسی کا نام حسد ہے جس سے منافقین اور کفار کو مسلمانوں کے ساتھ جو عداوت تھی وہ اسی حسد آمیز طریقہ سے ظاہر ہوتی تھی جیسا کہ قرآن مجید ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۖۚ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۱۸ هٰۤاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۖۗۚ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ؕ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۱۹ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ؗ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْـًٔا ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠۝۱﴾ (آل عمران: 118 – 120)
’’اے ایمان والو تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا کسی کو نہ بناؤ۔ تم نہیں دیکھتے کہ دوسرے لوگ تو تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کر دی ہیں۔ اگر عقل مند ہو تو غور کر لو۔ ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے۔ تم پوری کتاب کو مانتے ہو۔ وہ نہیں مانتے۔ پھر محبت کیسی۔ یہ تمہارے سامنے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن تنہائی میں مارے غصے کے انگلیاں چباتے رہتے ہیں۔ کہہ دو کہ اپنے غصے ہی میں مر جاؤ اللہ تعالی دلوں کے بھیدوں کو بخوبی جانتا ہے تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں اگر تم کو برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں۔ تم اگر صبر اور پرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمہیں نقصان نہیں دے گا اللہ تعالی نے ان کے عملوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘
ان آیتوں میں یہود و نصاری، کفار اور مشرکین سے ترک موالات کا حکم ہے یہ تمہارے دشمن ہیں تمہاری بھلائی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں تم صبر و استقلال اور تقوی سے کام لے کر ان کی حسد کی آگ کو بجھا دو۔ بغض، عناد اور عداوت سے جو حسد پیدا ہوتا ہے اس کے لئے مساوات اور برابری ضروری نہیں بلکہ ایک ادنی اور معمولی آدمی بھی بڑے بڑے شخص کا بدخواہ اور حاسد ہو سکتا ہے۔
(2) حسد کا دوسرا سب ذاتی فخر کا غلط خیال ہے کیونکہ امثال اور اقران میں جب ایک شخص کسی بلند منصب پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے دوسرے ہم چشموں کو گراں گزرتا ہے اور وہ اس کے اس ترفع و بلندی کو پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ منصب اس سے چھین لیا جائے تاکہ وہ ان کے مساوی اور برابر ہو جائے۔
(3) حسد کا تیسرا سبب یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو اپنا مطیع ومنقاد بنانا چاہتا ہے اس لیے جب وہ کسی شرف وامتیاز کی وجہ سے اس کے حلقہ اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا یہ شرف جاتا رہے تاکہ وہ اس کا مطیع و منقاد نہ ہو سکے۔ کفار قریش اسی بنا پر مسلمانوں کی جماعت کو دیکھ کر کہتے تھے۔
﴿أَهٰؤُلَاءِ مَنَّ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا﴾ (انعام: 53)
’’کیا یہی وہ ذلیل لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے اسلام کی توفیق دے کر اپنا فضل کیا ہے۔‘‘
حسد کا یہ سبب اکابر و اشراف سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے لئے کبر و غرور اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل لازمی ہے۔
(4) حسد کا چوتھا سبب یہ ہے کہ اپنے پندار میں جس کو معمولی آدمی سمجھتے ہیں اس کو کوئی غیر معمولی شرف حاصل ہو جاتا ہے تو ان کو تعجب ہوتا ہے اور اس تعجب کی بنا پر وہ اس کے اس شرف کا انکار کر دیتے ہیں کفار ہی وجہ سے پیغمبروں کی رسالت کا انکار کرتے تھے اور تعجب سے کہتے تھے۔
﴿اَبَعَثَ اللهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل:94)
’’کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
(5) حسد کا پانچواں سبب یہ ہے کہ دو شخصوں کا مقصد ایک ہوتا ہے کہ دونوں باہم ایک دوسرے کو رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں سے ایک کو جب اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو دوسرا قدرتی طور پر اس کا بدخواہ ہو جاتا ہے ایک شوہر کی متعدد یسویوں اور ایک باپ کے متعدد بیٹوں میں جو رشک و حسد ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہوتی ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے قتل کرنے کی جو سازش کی تھی اس کا سب یہی تھا۔
﴿إِذْ قَالُوْا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلٰى أَبِينَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ﴾ (يوسف: 8)
’’جب یوسف علیہ السلام بے ماں بھائیوں نے آپس میں کہا کہ باوجودیکہ ہم حقیقی بھائیوں کی بڑی جماعت ہے تاہم یوسف علیہ السلام اور ان کا حقیقی بھائی بنیامین ہمارے والد کو ہم سے البتہ بہت عزیز ہیں۔‘‘
(6) حسد کا چھٹا سبب جاہ پرستی اور ریاست طلبی ہے اس لیے جو لوگ اس حیثیت سے بیگانہ روز گار ہونا چاہتے ہیں جب ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور شخص اس میں ان کا شریک و سہیم ہو گیا ہے تو یہ ان کو سخت گراں گزرتا ہے اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جس شرف و امتیاز سے دوسرا شخص جاہ و منزلت میں ان کا شریک ہو گیا ہے وہ
اس کے ہاتھ سے چھن جائے مسلمانوں سے یہودی اس لیے حسد کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے ان کو علمی اور مذہبی حیثیت سے اہل عرب پر تفوق حاصل تھا لیکن اسلام کی وجہ سے ان کا تفوق جاتا رہا۔ اسی لئے وہ اسلام کی بیخ کنی پر آمادہ ہو گئے اور منافقین میں عبداللہ بن ابی کو اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے لیکن اسلام نے اس کی شاہانہ ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ اس لیے اس کو یہ سخت ناگوار گزرا اور اس ناگواری کی وجہ سے ایک مجمع میں وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گستاخانہ پیش آیا۔[1]
(7) حسد کا ساتواں سبب محبت نفس اور بدطینتی ہے کیونکہ بعض اشخاص کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے کہ جب کسی کو بہتر حالت میں دیکھتے ہیں تو ان کو ناگوار ہوتا ہے اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو اس پر ان کو مسرت ہوتی ہے۔ اس صورت میں میں حسد کے پیدا ہونے کے لیے اشتراک رابطہ یا کسی اور خواہش کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کے خبیث النفس لوگ یہ شخص پر حسد کرتے ہیں۔
حسد کے یہ اسباب زیادہ تر ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کوئی چیز مابہ الاشتراک ہوتی ہے اس لیے بیگانوں میں یہ جذبہ نہیں ہوتا بلکہ صرف ایسے لوگوں میں ہی ہوتا ہے جن میں باہم رابط واشتراک ہوتا ہے ایک عالم دوسرے عالم سے ایک عابد دوسرے عابد سے ایک تاجر دوسرے تاجر سے، اس لیے حسد کرتا ہے کہ ان میں ایک چیز یعنی علم، عبادت اور تجارت مشترک ہے۔ حسد کے یہ سات اسباب ہیں جن کو امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں اور علامہ سید سلیمان ندوی نے سیرۃ النبی ﷺ میں بیان کیا ہے۔ حسد دل کی نہایت ہی خطر ناک بیماری ہے جس کا علاج و اصلاح نہایت ضروری ہے۔ شیخ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حسد کے علاج کے سلسلے میں نہایت بسیط تقریر فرمائی جس کا خلاصہ ذیل میں درج کرتے ہیں۔
حاسدوں کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری یہ ہے جس کا علاج علم و عمل سے ہوتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ حاسد کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ حسد اس کے حق میں دین ودنیا میں ہر طرح سے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے اور محسود کا کسی طرح کا نقصان نہیں۔ نہ دین میں، نہ دنیا میں، حاسد کو حسد کی وجہ سے جو دین میں ضرر اور نقصان ہے وہ یہ ہے کہ حسد کی وجہ سے خدا حاسد سے سے راضی و خوش نہیں رہتا اس لیے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی خاص بندے کو اپنے فضل و کرم سے دی ہے حاسد اسے بہر ا جانتا ہے اور اس کے سلب ہونے کی خواہش کرتا ہے اور اس سے زیادہ کونسا گناہ ہے کہ اللہ تعالی کے قضاء وقدر سے ناخوش ہوتا ہے باوجود مسلمان ہونے کے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کینہ کپٹ رکھ کر اس کی خیر خواہی نہیں کی اور اللہ کے بندوں سے نکل کر نافرمانوں اور شیطانوں کی جماعت میں شامل ہو گیا اور قیامت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب كنیة المشرك، و مسلم: كتاب الجهاد والدين باب ما لقى النبی ﷺ من اذى المشركين و المنافقين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے دن ایسے ہی لوگوں کے ساتھ اٹھے گا بموجب فرمان رسول اکرم ﷺ
(اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ )[1]
’’آدمی جس کے ساتھ تعلق اور محبت رکھے گا ان ہی لوگوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘
تو اس حاسد کی دنیا بھی تباہ ہوئی اور آخرت بھی برباد ہوئی۔ خسر الدنيا والآخرة.
محسد كو بشرط صبرو اعمال صالحہ کے دنیا میں بھی نیکی اور مال و دولت کی ترقیات سے مالا مال رہا اور آخرت میں بھی ترقی کے بڑے بڑے درجات میں کے حاسد حسد کی وجہ سے دنیا میں رنج و غم بلکہ حسد کی آگ میں جلتا ہے اور آخرت میں بھی آگ میں جلے گا۔
گندے عقیدے اور عداوت و دشمنی سے دل کو پاک وصاف رکھنا تزکیہ قلب ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا﴾ (الشمس: 10 ۔7)
’’قسم ہے نفس کی اور جس نے اس کو ٹھیک کیا ہے پھر اس میں نیکی اور بدی الہام کر دی بے شک جس نے اس نفس کو صاف ستھرا بنایا۔ وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس کو مٹی میں ملایا وہ ناکام رہا۔‘‘
مٹی میں ملانے سے گندے عقیدے اور یہی کینہ کپٹ مراد ہے۔ صاف دل اور صاف سینے کی بڑی افضلیت ہے دراصل دنیا میں اور آخرت میں صاف دل اور صاف سینے والے نجات کے مستحق ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ﷺ فرماتے ہیں:
(قِیْلَ يَا رَسُولَ اللهِ أَىُّ النَّاسِ أَفْضَلُ قَالَ كُلُّ مَخْمُوْمِ الْقَلْبِ صَدُوقِ النِّسَانِ قَالُوا صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ قَالَ هُوَ النَّقِيُّ النّقِيُّ لَا إِثْمَ فِيهِ وَلَا بَغْيَ وَلَا غَلَّ وَلَا حَسَدَ )[2]
’’عرض کیا گیا اے اللہ کے رسولﷺ! لوگوں میں سے بہتر کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہر مخموم القلب اور سچی زبان والا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہی ہیں۔ مگر یہ مخموم القلب کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہر پرہیز گار، صاف ستھرا نہ جس میں گناہ ہو اور نہ ظلم، نہ کینہ کپٹ ہو اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الادب باب علامة الحب في الله۔
[2] مسلم: كتاب البر والصلة، باب المرء مع من احب۔
[3] ابن ماجه: كتاب الزهد، باب الورع والتقوى (4216)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسد نہ کر‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ صاف دل والا سب سے بہتر ہے۔ دل کی صفائی اور سلیم الصدر کی وجہ سے زیادہ تر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ اخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيْمَانِ وَ جَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا وَلِسَانَهُ صَادِقًا وَ نَفْسَهُ مُطْمَئِنَةً وَخَلِيقَةً مُسْتَقِيمَةً)[1]
’’وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کر لیا اور اپنے دل کو صاف کر لیا اور زبان کی سچی بنا لی۔ اور نفس کو اطمینان بخش بنا لیا اور اپنی طبیعت کو حسن خلق کے سانچے میں ڈھال لیا‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے سامنے آنے والا ہے چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک انصاری صاحب جن کا نام سعد بن مالک ہے تشریف لائے جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا۔ اور بائیں ہاتھ میں دونوں جوتیاں لئے تھے۔ دوسرے دن پھر اسی طرح فرمایا کہ ابھی ایک جنتی صاحب آنے والے ہیں چنانچہ وہی صاحب آئے جب نبی کریمﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمرو پیچھے پیچھے گئے اور کہا کہ میرے باپ سے اور مجھ سے جھگڑا ہو گیا ہے میں نے قسم کھائی ہے کہ باپ کے پاس تین روز نہیں رہوں گا۔ اگر آپ اپنے پاس ٹھہرنے کی جگہ دیں تاکہ تین دن گزر جائیں آپ کی مہربانی ہو گی تو سعد بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو جب اللہ تین روز تک ان کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ ان کے حالات پر اور صوم و صلوۃ پر غور کرتے رہے کہ یہ کیا عبادت کرتے ہیں اور کتنی نماز رات میں پڑھتے ہیں تو زیادہ کچھ عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ نیند کھلتی اور کروٹ بدلتے تو سبحان اللہ، الحمد للہ واللہ اکبر کہتے اور آخر شب میں مسجد میں داخل ہو کر بارہ رکعتیں نماز پڑھتے جس میں مفصل کی بارہ سورتیں پڑھتے نہ لمبی رکعتیں ہوتیں نہ چھوٹی۔ دو رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد یہ تین دعائیں پڑھتے۔
(اللَّهُمَّ رَبَّنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخَرِةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 147/5 (20803)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اَللّٰهُمَّ اكْفِنَا هَمَّنَا مِنْ أَمْرِ آخِرَتِنَا وَدُنْيَانًا)
(اَللَّٰهُمَّ إِنَّا نَسْئَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ وَ نَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ)
جب تین راتیں گزر گئیں تو میں نے سعد بن مالک سے کہا کہ میرے اور میرے باپ میں کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی تکرار تھی۔ صرف آپ کے عمل کو دیکھنا تھا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے آپ کو جنتی فرمایا کہ پہلے روز آپﷺ نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی سامنے آئے۔ دوسرے روز آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ پھر تیسرے دن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ عرض یہ ہے کہ تین دن تک یہ مسلسل آپﷺ نے یہی فرمایا اور آپ ہی سامنے آتے رہے۔
(فَارَدْتُ أَنْ اٰوِى إِلَيْكَ فَانظُرَ مَا عَلَيْكَ فَاقْتَدِى بِكَ فَلَمْ أَرٰكَ عَمِلْتَ كَبِيرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِي بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ فَلَمَّا وَلَيْتُ دَعَانِي فَقَالَ مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا وَلَا أَحْسُدُ أَحَداً عَلٰى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللهُ إِيَّاهُ فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ هَذِهِ الَّتِي بلَغَتْ بِكَ)[1]
’’اور میں نے یہ چاہا کہ آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عملوں کو دیکھوں اور آپ کی اقتدا کروں لیکن ان تین دنوں میں کوئی زیادہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ ایسا کیا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے آپ کو جنتی کہا ہے انہوں نے کہا کہ میرے عمل یہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں جب میں وہاں سے رخصت ہونے لگا تو مجھے بلا کر یہ فرمایا کہ میرے عمل یہی ہیں جن کو آپ نے دیکھا لیکن اس کے ساتھ دو یا تیں اور بھی ہیں کہ میں کسی مسلمان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کی بھلائی پر جو اللہ نے اسے دے رکھی ہے حسد کرتا ہوں۔ میرا دل کینہ کیپٹ اور حسد سے پاک و صاف ہے۔ تو عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے۔‘‘
اس واقعہ سے دل کی صفائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اللہ تعالی ہمارے دلوں کو ہر قسم کے کینہ کپٹ سے پاک وصاف رکھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو یہ دعا بتائی ہے:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلَّا لِلَّذِيْنَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسند احمد: 166/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٰمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَّحِيمٌ﴾ (الحشر: 10)
’’اے ہمارے رب! تو ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان والے گزرے ہیں اور ایمان والوں کی بابت ہمارے دلوں میں کینہ کپٹ نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! تو بڑا شفیق اور مہربان ہے۔‘‘
جو لوگ بلا وجہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے اپنے دل میں بغض وعناد اور کینہ کپٹ جما لیتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اس کمینہ حرکت کو چھوڑ دے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(تُعُرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ اثْنَيْنِ وَخَمِيسٍ فَيَغْفِرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ لِكُلِّ أمْرِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا امْرُءٌ كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيَقُولُ انْظِرُوْ هَذَيْنِ حَتّٰي يَصْطَلِحَا)[1]
’’ہر سوموار اور جمعرات کو انسانوں کے اعمال خدا کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس دن میں سوائے مشرکین کے ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے لیکن جن دو آدمیوں کے درمیان کینہ کپٹ ہوتا ہے ان کی مغفرت نہیں فرماتا (فرشتوں کو حکم) فرماتا ہے کہ ان دونوں کو ابھی مغفرت سے چھوڑے رکھو یہاں تک کہ دونوں میل ملاپ کر لیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک اور کینہ گناہ کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں جس طرح مشرک کی بخشش نہیں ہے اسی طرح کینہ پرور آدمی کی بھی مغفرت نہیں ہے اس لئے پاک و صاف دل والا کہنے سے پاک رہنے کی دعا مانگتا ہے جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے۔
جنت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں جو لوگ ہوں گے آپس میں بھائی بھائی ہوں گے۔ وہاں بعض وکینہ کا گزر نہ ہوگا ارشا د فرمایا:
﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۝۴۷﴾ (الحجر:47)
’’اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھا نکال لیا اب وہ بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘
﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ ۚ﴾ (الاعراف:43)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب البر والصلة والأدب باب النهي عن الشحناء (317/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھا نکال لیا۔ نہریں ان کے نیچے بہتی ہوں گی۔‘‘
ان آیتوں کے اشارے سے معلوم ہوا کہ جب تک بھائیوں میں کینہ رہے گا جنت کا ٹکٹ ہاتھ نہ آئے گا۔
انحضرت ﷺٰ نے جو ہم کو تعلیم دی ہے اس کا منشا یہ ہے کہ ہم کو دنیازی میں جنت کی زندگی بسر کرنی چاہئے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوْ وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ تَهْجُرَا خَاهُ فَوْقَ ثَلَثٍ)[1]
’’آپس میں مقاطعہ نہ کرو اور نہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منہ موڑ و اور نہ کینہ بغض رکھو اور نہ حسد رکھو۔ اللہ تعالی کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔“
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے دو مسلمان بھائیوں میں کینہ کپٹ پیدا ہو گیا ہے اور کسی وجہ سے وہ بات چیت چھوڑ دیں تو تین دن کے اندر اندر انہیں ملاپ کر لینا چاہئے تین دن سے زیادہ چھوڑے نہیں رکھنا چاہئے ورنہ ان کی کوئی نیکی قبول نہ ہوگی۔
اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو حسد، بغض عناد اور کینہ کپٹ جیسی مہلک برائیوں سے بچائے اور میل و محبت کے ساتھ ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین۔
(وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الادب باب ما ينهى عن التحاسد و التدابر و باب الهجرة۔
و مسلم: كتاب البر والصلة و الأدب باب تحريم التحاسد والتباغض والتدابر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔