نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور منہجِ صحابہ

اما بعد فقال ربنا جل وعلا

اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ

ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں،

وقال نبینا محمد صلی اللہ علیہ و سلم

 ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ  .[ابو داؤد 4607]

 تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے

سامعین ذی وقار

جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کو اللہ تعالٰی نے  نبوت دے کر دنیا میں مبعوث کیا ہے تب سے لیکر آج تک لاکھوں، کروڑوں لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے چلے آئے ہیں مختلف ادوار میں  لوگوں کے اندازِ محبت بدلتے آئے ہیں کسی کا محبت کا انداز کچھ ہے تو کسی کا اس سے یکسر مختلف کوئی اور انداز ہے الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنے والے بھی بے شمار ہیں اور ان کے انداز بھی بے شمار ہیں

بالخصوص ربیع الاول کے مہینے میں تو  حب نبی کا بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر اظہار کیا جاتا ہے حتی کہ اگر کوئی مروجہ طریقہ کار کو نہ اپنائے اور لوگوں کے ساتھ شریک نہ ہو تو اس پر سخت قسم کے الفاظ کسے جاتے ہیں

لیکن

سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا کوئی معیاری انداز اور طریقہ کار ایسا بھی موجود ہے کہ جس پر اللہ رب العزت کی طرف سے مہرِ تصدیق ثبت ہوئی ہو اور جس کو معیار قرار دیا گیا ہو کیونکہ یہ ایک جستجو ہے،

 آج انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں ہے

 اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے طور پر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے رہیں لیکن ہمارے طریقہ کار کے درست اور معیاری نہ ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن ناکامی ہمارا مقدر بنے

کیونکہ اعمال کی قبولیت میں طریقہءِ اعمال کا بہت عمل دخل ہے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد

یعنی ہمارے طریقے سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ قابل قبول نہیں بلکہ رد کر دیا جائے گا

حضرات جب ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس جماعت کو اللہ تعالٰی نے معیار قرار دیا ہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت ہے

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا

اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ

   ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں

اس آیت مبارکہ میں لوگوں سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہی ہے

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا

 ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ  .[ابو داؤد 4607]

 تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے

سو آج ہم اپنی محبتوں کے زاویے اور پیمانے درست کرنے کے لیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیسے محبت کیا کرتے تھے

01.

صحابہ کے اندازِ محبت کا ایک خوبصورت منظر

عروہ بن مسعود کفار کی طرف سے  نمائندہ بن کر آیا تھا صحابہ کے پاس ٹھہرنے کے بعداپنے ساتھیوں کیطرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا:

 أَيْ قَوْمِ وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَىوَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا… [بخاری]

اے میری قوم! اللہ رب العزت کی قسم میں بڑے بڑے عظیم المرتبت بادشاہوں کے دربار میں وفد لے کر گیا ہو، مجھے قیصرِ روم، کسریٰ ایران اور نجاشیِ حبشہ جیسے بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہونےکا موقع ملا ہے۔ لیکن خدا کی قسم میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اسکے درباری اسکی اسطرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد(ﷺ) کے اصحاب محمد(ﷺ) کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب آپ تھوکتے ہیں، تو انکا لعاب دہن کسی نا کسی (عقیدت مند) شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جس سے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مَل لیتا ہے، جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو اسکی بلا توقف تعمیل کی جاتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کےلئے ایک دوسرے کیساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائینگے، آپکے رفقائ، آپکی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو انتہائی پست رکھتے ہیں اور غایت تعظیم کی وجہ سے اُنکے چہرے کیطرف آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکتے۔ (بخاری، احمد)

02.

صحابہ کہتے تھے ہم مرتے دم تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہیں

غزوہ خندق میں مسلمان فوج کی تعداد کل تین ہزار تھی اور کل چھتیس گھوڑے تھے، جبکہ ان کے مقابلے میں دشمن کا بھاری لشکر دس ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا معاملہ بہت سنگین تھا۔ سنگلاخ زمین تھی، موسم سرد تھا، کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے،

قرآن میں اللہ نے اس خوفناک صورتحال کی منظر کشی یوں کی ہے

اِذۡ جَآءُوۡكُمۡ مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ وَمِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡكُمۡ وَاِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَـنَـاجِرَ وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوۡنَا[احزاب :10]

جب وہ تم پر تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے آگئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔

هُنَالِكَ ابۡتُلِىَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَزُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِيۡدًا [احزاب :11]

اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔

لیکن ایسے حالات میں بھی صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا انتہائی صبر اور استقامت کا ثبوت دیا۔ ان کی زبان پر یہ اشعار جاری تھے۔

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا

عَلَی الْجِھَادِ مَابَقِیْنَا أبَدَا [بخاری]

ترجمہ:”ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی بھر کے لیے محمد صلی اللہ علی وسلم کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرلی ہے“

03.

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا قرآنی معیار

قُلۡ اِنۡ كَانَ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ وَاِخۡوَانُكُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ وَعَشِيۡرَتُكُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۨاقۡتَرَفۡتُمُوۡهَا وَتِجَارَةٌ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ فَتَرَ بَّصُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ[توبہ 24]

کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

 ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "”لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ””.

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

04.

صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے پر ہر کام کیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا گھر چھوڑ دو، صحابہ نے چھوڑ دیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا علاقہ چھوڑ دو صحابہ نے چھوڑ دیا

کہا شراب نوشی چھوڑ دو، انہوں نے چھوڑ دی

کہا قتل و غارت گری چھوڑ دو انہوں نے چھوڑ دی

کہا ناحق مال خوری چھوڑ دو انہوں نے چھوڑ دی

کہا یتیموں، بیواؤں پر ظلم چھوڑ دو انہوں نے چھوڑ دیا

کہا جھوٹ بولنا چھوڑ دو انہوں نے چھوڑ دیا

کہا راہزنی چھوڑ دو انہوں نے چھوڑ دی

الغرض جو کہا وہی کیا،

 جہاں کہا وہاں کیا

اور جب کہا فورا کیا

بقول شاعر

سب اسلام کے حکم بردار بندے

سب اسلامیوں کے مددگار بندے

خدا اور نبی کے وفادار بندے

یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت قرآن کی اس آئت کا عملی نمونہ تھی

 ؕ وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ  وَمَا  نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌ ۚ[الحشر. 7]

 اور رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ ۔

جہاں کردیا نرم نرما گئے وہ

جہاں کردیا گرم گرم گئے وہ

05.

صحابہ اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے جو آپ کو پسند نہیں ہوتی تھی

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ فَنَزَعَهُ فَطَرَحَهُ وَقَالَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ فَقِيلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ قَالَ لَا وَاللَّهِ لَا آخُذُهُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [مسلم 5472]

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے آزاد غلام کریب نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہا تھا  ( کی انگلی  )  میں سونے کی انگوٹھی دیکھی  ، آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرما یا  ” تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھا تا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے  ۔  ”  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جا نے کے بعد اس شخص سے کہا گیا : اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کو ئی فائدہ اٹھا لو ۔  اس نے کہا  :  اللہ کی قسم !میں اسے کبھی نہیں اٹھا ؤں گا  ۔ جبکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے پھینک دیا ہے ۔

06.

نبی کی پسند صحابہ کی پسند ہوتی تھی

 أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "”إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ””.[بخاری 2092]

 ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی برابر کدو کو پسند کرتا ہوں۔

07.

حکمِ نبی کے سامنے صحابہ سر تسلیم خم کرتے تھے

قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ: كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِي بِالسَّوْطِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِي، «اعْلَمْ، أَبَا مَسْعُودٍ»، فَلَمْ أَفْهَمِ الصَّوْتَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَلَمَّا دَنَا مِنِّي إِذَا هُوَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ يَقُولُ: «اعْلَمْ، أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ، أَبَا مَسْعُودٍ»، قَالَ: فَأَلْقَيْتُ السَّوْطَ مِنْ يَدِي، فَقَالَ: «اعْلَمْ، أَبَا مَسْعُودٍ، أَنَّ اللهَ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَى هَذَا الْغُلَامِ»، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَضْرِبُ مَمْلُوكًا بَعْدَهُ أَبَدًا، [مسلم 4306]

   حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے کہا :  میں اپنے ایک غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی :   ” ابو مسعود! جان لو ۔  ”  میں غصے کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا ،  کہا :  جب وہ  ( کہنے والے )  میرے قریب پہنچے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ،  آپ فرما رہے تھے :   ” ابو مسعود! جان لو ،  ابو مسعود! جان لو ۔  ”  کہا :  میں نے اپنے ہاتھ سے کوڑا پھینک دیا ،  تو آپ نے فرمایا :   ” ابو مسعود! جان لو ۔  اس غلام پر تمہیں جتنا اختیار ہے اس کی نسبت اللہ تم پر زیادہ اختیار رکھتا ہے ۔  ”  کہا :  تو میں نے کہا :  اس کے بعد میں کسی غلام کو کبھی نہیں ماروں گا

08.

حکمِ نبی پر صحابہ نے بھوک کے باوجود پکا پکایا گوشت چھوڑ دیا

 ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَصَابَتْنَا مَجَاعَةٌ لَيَالِيَ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَقَعْنَا فِي الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَانْتَحَرْنَاهَا فَلَمَّا غَلَتِ الْقُدُورُ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَكْفِئُوا الْقُدُورَ فَلَا تَطْعَمُوا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ "”إِنَّمَا نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهَا لَمْ تُخَمَّسْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "”وَقَالَ آخَرُونَ حَرَّمَهَا أَلْبَتَّةَ وَسَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَرَّمَهَا أَلْبَتَّةَ””. [بخاری 3155]

 جنگ خیبر کے موقع پر فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا تو  ( مال غنیمت میں )  گھریلو گدھے بھی ہمیں ملے۔ چنانچہ انہیں ذبح کر کے  ( پکانا شروع کر دیا گیا )  جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گھریلو گدھے کے گوشت میں سے کچھ نہ کھاؤ۔ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعض لوگوں نے اس پر کہا کہ غالباً پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے روک دیا ہے کہ ابھی تک اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ لیکن بعض دوسرے صحابہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کا گوشت قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔  ( شیبانی نے بیان کیا کہ )  میں نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قطعی طور پر حرام کر دیا تھا۔

نسائی کی ایک روایت میں ہے

  ‏‏‏‏‏‏فَأَكْفَأْنَاهَا.[نسائی 4344]

 چنانچہ ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔

مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی ہو

ادھر فرمان محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو

09.

شراب کے عادی ہونے کے باوجود فقط ایک حکم آنے پر شراب چھوڑ دی

‏‏ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ مُنَادِيًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ:‏‏‏‏ اخْرُجْ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرْ مَا هَذَا الصَّوْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ هَذَا مُنَادٍ يُنَادِي، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَأَهْرِقْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَتْ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ قُتِلَ قَوْمٌ وَهْيَ فِي بُطُونِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا [سورة المائدة آية 93]””.

[بخاری 4620]

 انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ ”خبردار ہو جاؤ، شراب حرام ہو گئی ہے۔“ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا کہ جاؤ اور شراب بہا دو۔ راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں «فضيخ‏.‏» شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا‏» ”جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھا لیا۔“

بخاری کی ایک روایت میں ہے

 ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ:‏‏‏‏ يَا أَنَسُ قُمْ إِلَى هَذِهِ الْجِرَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَاكْسِرْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَقُمْتُ إِلَى مِهْرَاسٍ لَنَا فَضَرَبْتُهَا بِأَسْفَلِهِ حَتَّى انْكَسَرَتْ””.[بخاری 7253]

 ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی خبر سنتے ہی کہا: انس! ان مٹکوں کو بڑھ کر سب کو توڑ دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ایک ہاون دستہ( ہتھوڑا وغیرہ )کی طرف بڑھا جو ہمارے پاس تھا اور میں نے اس کے نچلے حصہ سے ان مٹکوں پر مارا جس سے وہ سب ٹوٹ گئے۔

 10.

صحابہ آپ کے حکم کی فوری تعمیل کرتے تھے

عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏   اجْلِسُوا  فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏   تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ  . [ابو داؤد 1091]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا:  بیٹھ جاؤ ، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے  ( جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے )  اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے، تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا:  عبداللہ بن مسعود! تم آ جاؤ ۔ )

11.

کمالِ محبت کہ صحابہ نے بھی جوتے اتار دیے

وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي  بِأَصْحَابِهِ إِذْ خلع نَعْلَيْه فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ قَالَ: «مَا حَمَلَكُمْ على إلقائكم نعالكم؟» قَالُوا: رَأَيْنَاك ألقيت نعليك فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ جِبْرِيلَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فيهمَا قذرا إِذا جَاءَ أحدكُم إِلَى الْمَسْجِدَ فَلْيَنْظُرْ فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَو أَذَى فَلْيَمْسَحْهُ وَلِيُصَلِّ فِيهِمَا» . [رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ]

ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ ﷺ نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنے بائیں طرف رکھ دیے ، جب صحابہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیے ، جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا :’’ تمہیں کس چیز نے جوتے اتارنے پر آمادہ کیا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہم نے آپ ﷺ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جبریل میرے پاس تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان میں نجاست ہے ، جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ دیکھے اگر وہ اپنے جوتوں میں نجاست دیکھے تو وہ اسے صاف کرے پھر ان میں نماز پڑھ لے ۔‘‘   صحیح ، رواہ ابوداؤد و الدارمی ۔

12.

نبی کا مہمان اور صحابہ کا بے مثال ایثار

 ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَصَابَنِي الْجَهْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "”أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ””، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ:‏‏‏‏ ضَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "”لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ. [سورة الحشر آية 9]””[بخاری 4889]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود  ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )  حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا  ( کہ وہ آپ کی دعوت کریں )  لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی  ( ابوطلحہ )  کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں  ( انصاری صحابی )  اور ان کی بیوی  ( کے عمل )  کو پسند فرمایا۔ یا  ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ )  اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة‏» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔

13.

حرمتِ رسول کے دفاع کے لیے صحابہ اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کرتے

 جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں

  ” ایک بار ہم ایک لشکر میں تھے تو ایک مہاجر آدمی نے ایک انصاری کو اس کے پیچھے کی جانب لات مار دی “۔ تو انصاری نے کہا :” اوانصاریو ! “ اور مہاجر نے کہا : ” اومہاجرو ! “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا تو فرمایا :” جاہلیت کی اس پکار کا کیا معاملہ ہے ؟ “ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجرنے ایک انصاری کے پیچھے کی جانب لات مار دی ہے ، تو آپ نے فرمایا :” اس ( جاہلیت کی پکار) کو چھوڑ دو ، کیونکہ یہ بہت بد بودار ہے “ ۔ یہ بات عبد اللہ بن ابی نے سنی تو کہنے لگا : ” انہوں نے ایسا کیا ہے ؟ یاد رکھو ! اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس سے ضرور نکال باہر کرے گا “۔

 یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو عمر (رض) کھڑے ہوگئے اور کہا :” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں “۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسے رہنے دو ، لوگ یہ بات نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے ۔ “ اور انصار مہاجرین سے زیادہ تھے جب وہ مدینہ میں آئے ، پھر جب میں مہاجرین زیادہ ہوگئے “۔

ترمذی میں اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں 🙁 فقال لہ ابنہ عبد اللہ بن عبد اللہ : واللہ ! لا تنقلب حتی تقر انک الذلیل و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) العزیزففعل)

 (ترمذی ، تفسیر القرآن ، سورة المنافقون : ٣٣١٥، وقال الالبانی صحیح)

” تو اس ( عبد اللہ بن ابی) کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ (رض) نے اس سے کہا :” اللہ کی قسم ! تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ذلیل و خوار ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عزت والے ہیں تو اس نے ایسا ہی( کیا تب اس کی جان چھوٹی )

.ء:

ہمارا المیہ

آج ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی کلامی تعریفیں تو بہت کرتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح عملی محبت کو چھوڑ دیا

صحابہ کرام کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی لیکن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ نعت گوئی میں کوئی خاص نام نظر نہیں آتا اور حسان بھی صرف خالی نعت خواں نہیں تھے بلکہ شریعت اسلامیہ پر مکمل عمل پیرا ہوتے تھے حتی کہ میدان جہاد میں جوہر دکھاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں

لیکن

آج ہم نے محض زبانی تعریفوں اور نعت خوانی پر ہی اکتفاء کرلیا ہے اگرچہ نعت خوانی ایک اچھا کام ہے لیکن فقط اسی کو مقصد بنا لینا اور اسی پر اکتفاء کرکے بیٹھ جانا کسی طور بھی درست نہیں ہے

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا دنیا میں تشریف لانے کا اصل مقصد ان کی مدح سرائی اور نعت خوانی ہر گز نہیں ہے بلکہ آپ کی تشریف آوری اس لیے ہے کہ ہم آپ کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِـيُـطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ[نساء 64]

اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے ۔

اللہ تعالٰی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کما حقہ محبت کرنے اور اسکے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

 ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : ’’عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی صبح اور عشاء کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھتی تھی (عمر رضی اللہ عنہ اسے ناپسند کرتے اور غیرت کھاتے تھے) اسے کسی نے کہا : ’’تم کیوں نکلتی ہو، جب کہ تمھیں معلوم ہے کہ عمر اسے ناپسند کرتے ہیں اور غیرت کھاتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا : ’’انھیں کیا مانع ہے کہ مجھے (جانے سے) روک دیں؟‘‘ تو اس نے کہا، انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مانع ہے : [ لَا تَمْنَعُوْا إِمَاءَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ ] [ بخاري، الجمعۃ، باب : ۹۰۰ ] ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع مت کرو۔‘‘

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین