نبوت کے جھوٹے دعویدار ، عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے اسلاف کی قربانیاں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن
رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا [الاحزاب: 40]
ذی وقار سامعین!
جن وانس کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کاعظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلہ کو سیدالمرسلین خاتم النّبیین حضرت محمدﷺکی ذات اقدس پر مکمل فرمایا، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں، اسی طرح حضرت محمدرسول اللہﷺکے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شک نہیں ، جس طرح نبی کوصادق نہ ماننا اور ان کی تکذیب کرنا کفرہے، اسی طرح کسی جھوٹے مدعی نبوت کوماننا اور تصدیق کرنا بھی کفرہے، رسول اللہﷺکو نبی ماننے کے باوجود اگر کوئی بدنصیب آپﷺکی ختمِ نبوت کا یقین نہیں رکھتا یا ختمِ نبوت میں کسی بھی طرح کی تاویل کرے، تووہ ایمان سے قطعاً محروم ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی متعدد نصوص اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا محمد مصطفیﷺقیامت تک اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپﷺکے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔
اللہ رب العزت نے جب عالم کی بنیادرکھی، تو آدم علیہ السلام کی نبوت کے ساتھ قصرِنبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی، جس کو اپنا خلیفہ بنایا، اسی کوقصرنبوت کی خشتِ اول قرار دیا، اِدھر عالم بتدریج پھیلتارہا، اُدھر قصرِنبوت کی تعمیرہوتی رہی، آخرکار عالم کے لیے جس عروج پرپہنچنا مقدر تھا، پہنچ گیا، ادھرقصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن اورخوبیوں کے ساتھ مکمل ہوگیا اور اس لیے ضروری ہوا کہ جس طرح عالم کی ابتداء میں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی تھی، اس کی انتہاء پررسولوں کی آمد کے خاتمے کا اعلان کردیاگیاکہ قدیم سنت کے مطابق آئندہ اب کسی رسول کی آمدکا انتظارنہ رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب عیسیٰ علیہ السلام تک مختلف ادوار میں، مختلف اقوام اور قبیلوں میں بہت سے رسول آئے لیکن کسی ایک نے بھی خاتم النبین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر رسول نے اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت سنائی، حتیٰ کہ وہ زمانہ بھی آگیاجب کہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کے آخری رسول نے ایسے رسول کی بشارت دے دی جس کا اسم مبارک جناب ’’احمد‘‘ﷺہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
"اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے۔” [الصف: 6]
7ستمبر 1974ءکا دن ہماری قومی اور ملی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل دن ہے ، اس دن مسلمانوں کے دیرینہ مطالبہ پر اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو جمہوری اور پارلیمانی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔
اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں عقیدہ ختمِ نبوت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھیں گے ، اسی طرح وہ بدبخت لوگ جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، ان کا مختصر تعارف اور عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے اسلاف کی قربانیاں جانیں گے۔
عقیدہ ختمِ نبوت قرآن کی روشنی میں
❄وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
"اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔” [السبا: 28]
❄قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
"کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔” [الاعراف: 158]
❄ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
"محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں اور لیکن وہ اللہ کا رسول اور تمام نبیوں کا ختم کرنے والا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔” [الاحزاب: 40]
❄الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
"آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔” [المائدہ: 3]
یہ ایسی آیت اور اللہ کی طرف سے امت محمدیہ کے لئے ایسا اعزاز ہے جو پہلے کبھی کسی امت کو نہیں ملا ، طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب سے کہا؛
 ’’آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔‘‘
آپ نے فرمایا : ’’کون سی آیت ؟‘‘ اس نے یہ آیت پڑھی:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
یہ سن کر عمر نے فرمایا؛ ’’ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ (آیت) رسول اﷲﷺ پر نازل ہوئی تھی، آپ (۹ذوالحجہ کو) عرفہ میں تھے (پچھلے پہر کا وقت تھا) اور جمعۃ المبارک کا دن۔‘‘ [صحیح بخاري: 45]
عقیدہ ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں
❄سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ تَسُوسُھُمُ الْأَنْبِیَائُ، کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہٗ نَبِيٌّ، وَإِنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَیَکُونُ خُلَفَائُ، فَیَکْثُرُونَ
"بنی اسرائیل کی سیاست انبیا علیہم السلام کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہوتا، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا، مگر (سن لیجئے) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، البتہ خلفا ہوں گے اور بکثرت ہوں گے۔” [صحیح بخاري: 3455]
❄سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِي کَمَثَلِ رَجُلٍ بَّنٰی بَیْتًا، فَأَحْسَنَہٗ وَأَجْمَلَہٗ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِّنْ زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہٖ وَیُعْجِبُونَ لَہٗ، وَیَقُولُونَ : ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَۃُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ۔
"کسی نے ایک حسین وجمیل گھر بنایا، لیکن ایک جانب اینٹ بھر جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ، اس کی عمدگی پر حیرت کا اظہار کرتے اور کہتے کہ اینٹ کی جگہ پُر کیوں نہ کر دی گئی؟یہی مثال قصرنبوت کی ہے، اس کی آخری اینٹ میں ہوں او ر پہلی اینٹیں سابقہ انبیا ہیں ، میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم اور میں خاتم النبیین ہوں۔” [صحیح بخاري: 3535]
❄ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ
"مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے: مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، (دشمنوں پر) رعب ودبدے کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے اموال غنیمت حلال کر دیے گئے ہیں، زمین میرے لیے پاک کرنے اور مسجد قرار دی گئی ہے، مجھے تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہے اور میرے ذریعے سے (نبوت کو مکمل کر کے) انبیاء ختم کر دیے گئے ہیں۔” [صحیح مسلم: 1167]
❄سیدنا جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ
"میرے پانچ نام ہیں ۔ میں محمد ، احمد اور ماحی ہوں ( یعنی مٹانے والا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا ( قیامت کے دن ) میرے بعد حشر ہوگا اور میں ” عاقب “ ہوں یعنی خاتم النبین ہوں ۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دینا میں نہیں آئے گا۔”  [صحیح بخاري: 3532]
❄ سیدنا ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺاپنے کئی نام ہم سے بیان کرتے تھے اور آپﷺنے فرمایا؛
أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ
"میں محمدﷺہوں اور احمد اور مقفی (آخر میں آنے والا ہوں) اور حاشر اور نبی التوبہ(آپ ﷺکی وجہ سے کثیر خلقت توبہ کرے گی) اور نبی الرحمۃ (آپﷺکی وجہ سے انسان بہت سی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔)”  [صحیح مسلم: 6108]
❄سیدنا ثوبان نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ, كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي
"اور عنقریب میری امت میں کذاب اور جھوٹے لوگ ظاہر ہوں گے، ان کی تعداد تیس ہو گی، ان میں سے ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔” [ابوداؤد: 4252 صححہ الالبانی]
❄سیدناانس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
"رسالت اورنبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اورکوئی نبی نہ ہوگا۔” [ترمذی: 2272 صححہ الالبانی]
❄سیدنا سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں؛
خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»
"رسول اللہﷺنے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی کو (مدینہ میں)خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔”  [صحیح مسلم: 6218]
❄سیدنا عقبہ بن عامر  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا؛
لَوْکَانَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
"اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔” [ترمذی: 3686  صححہ الالبانی]
نبوت کےجھوٹے دعویدار
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ
"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہولیں ۔ ان میں ہرایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔” [صحیح بخاري: 3609]
نبوت کے ان جھوٹے دعویداروں میں سے چند معروف کا تعارف پیشِ خدمت ہے؛
1،2۔ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی:
یہ دو بدبخت ایسے تھے، جنہوں نے حضور نبی کریمﷺکے دور مبارک میں نبوت کا دعویٰ کیا ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے؛
 قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ، وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدٍ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةَ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ القِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا، وَلَنْ تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ، وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ ليَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ، وَإِنِّي لَأَرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا رَأَيْتُ
نبیﷺکے زمانے میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا: اگر محمد، اپنے بعد خلافت میرے لیے مقرر کردیں تو میں آپ کی پیروی کر لیتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت سےآدمیوں کو لے کر آیا تھا۔ رسول اللہﷺاس کے پاس تشریف لے گئے جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس تھے اور آپ کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکرا تھا، یہاں تک کہ آپ مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس آکر ٹھہرگئے اور فرمایا: ’’اگر تو مجھ سے شاخ کا یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو تیرے حق میں فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر تونے میری اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے گا۔ اور میں تجھے وہی شخص خیال کرتا ہوں جو میں خواب میں دکھایا گیا ہوں۔‘‘[صحیح بخاري: 3620]
جوخواب کا ذکر مبارک ہے اس کی تفصیل صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں؛
فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي المَنَامِ: أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا، فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ، يَخْرُجَانِ بَعْدِي فَكَانَ أَحَدُهُمَا العَنْسِيَّ، وَالآخَرُ مُسَيْلِمَةَ الكَذَّابَ، صَاحِبَ اليَمَامَةِ
 مجھے حضرت ابو ہریرہ   نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ’’ایک دفعہ میں سورہا تھا کہ میں نے(خواب میں)اپنے دونوں ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے۔ مجھے ان کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی۔ مجھے خواب ہی میں وحی آئی کہ آپ دونوں کو پھونک مار دیں۔ میں نے انھیں پھونکا تو وہ دونوں اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ میرے بعد دو کذاب ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ایک اسود عنسی تھا اور دوسرا مسیلمہ کذاب ہو گا جو یمامہ کا رہنے والا ہے۔‘‘ [صحیح بخاري: 3621]
اسود عنسی کو حضرت فیروز دیلمی   نے صنعا ء میں قتل کیا اور مسیلمہ کذاب کو یمامہ میں سیدنا وحشی بن حرب  نے قتل کیا۔
3۔  سجاح بنت حارث تغلبیہ:
یہ عرب کے عیسائیوں میں سے تھی ، اس نے نبی کریمﷺکی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کی قوم اور غیر قوم سے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔ ارد گرد کے قبائل اس سے مل گئے حتی کہ یہ بنو تمیم تک پہنچ گئی اور ان سے معاہدہ کیا۔ اس نے پیش قدمی کو جاری رکھا یہاں تک کہ وہ یمامہ گئی اوروہاں مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں سے ملی ، مسیلمہ سے شادی رچائی اور جب مسیلمہ کا قتل ہوا تو اپنے شہر واپس چلی گئی اور اپنی قوم بنی تغلب میں اقامت پذیر ہو گئی۔ اس کے بعد وہ اسلام لے آئی اور اس کا اسلام بہتر ہوا پھر وہ بصرہ منتقل ہوئی اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔
4۔ طلیحہ بن خویلد اسدی:
 یہ 9 ہجری میں بنو اسد کے وفد میں نبیﷺکے پاس حاضر ہوا ،یہ لوگ اسلام لائے اور اپنے شہروں کی طرف لوٹ گئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گئے اور نبوت کا دعویٰ کر دیا ،  بہت سارے عرب قبائل نے فتنہ ارتداد میں اس کی نبوت کو قبول کر لیا کیونکہ وہ بنو اسد کے ایک مشہور جنگجو اور دلیر سردار کے طور پر جانا جاتا تھا، طلیحہ نے لگ بھگ ستر ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ فتح کرنے کی مہم شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق  نے بطور خلیفہ قریش پر مشتمل ایک لشکر اس کی بیخ کنی کے لیے ارسال کیا جس کے تین حصے کیے گئے، حضرت علی، حضرت زبیر ابن العوام اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم کو ہر ایک حصے کا کمانڈر بنایا،، اس لشکر نے طلیحہ کی پیش قدمی تو روک لی، مگر اس کا لشکر بہت بڑا تھا لہذا خالد ابن ولید کو ان کی مدد کے لیے بھیجا گیا۔ طلیحہ کو شکست ہوئی، اس کے لشکر میں شامل دیگر عرب قبائل نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کر لیا، جبکہ طلیحہ پہلے شام فرار ہوا اور پھر شام کے فتح ہونے پر پلٹ کر دوبارہ اسلام قبول کر لیا ، مسلمانوں کے لشکر سے جا ملے اور بڑی جانفشانی کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔
5۔ مختار ثقفی:
مختار بن ابی عبید ثقفی ثقیف قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ، پہلے پہل اہل بیت کی محبت کا دعویٰ لے کر ظاہر ہوا اور حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ کا اعتماد جیت لیا اور پھر ان کی وساطت سے کوفہ پر اپنا قبضہ جما لیا۔ آغاز میں کوفہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے عامل سے اختلاف کرکے انہیں کوفہ سے بے دخل کردیا اور عبداللہ بن زبیر سے کوفہ کی حکمرانی کی سند حاصل کرلی۔
مختار نے کوفہ میں آکر قصاصِ حسین کی صدا لگا کر لوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیا اور جنگِ توابین میں قاتلِ حسین عبیداللہ بن زیاد کو قتل کروا دیا۔ بعد ازاں اس نے نبوت اور علمِ غیب کا دعویٰ کیا ، جب عبداللہ بن زبیر کو اس کی اصلیت کا علم ہوا  تو انہوں نے اپنے بھائی مصعب بن زبیر کو عراق کی حکومت سونپ دی اور فتنہ مختار کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری لگائی ، تو مصعب بن زبیر نے ایک سخت جنگ کے بعد مختار کو واصلِ جہنم کردیا۔
6۔ مرزا غلام احمد قادیانی:
یہ 1839ء میں ہندوستان کے شہر قادیان میں پیدا ہوا ، آہستہ آہستہ اوپر چڑھتا گیا ، پہلے محدث ، مجتہد اور مجدد بنا ، پھر مسیح موعود اور مہدی بنا ، بالآخر نبوت کا دعویٰ کردیا ، علماء اس کے خلاف صف آراء ہوئے اور بالآخر پاکستان میں 1974ء میں اس کے پیروکاروں کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔
عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے اسلاف کی قربانیاں
عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے ہمارے اسلاف کی بے شمار قربانیاں ہیں ، چند ایک پیشِ خدمت ہیں:
❄ام عمارہ نسیبہ بنت کعب مازنیہ رضی اللہ عنہا کے فرزند حبیب بن زید انصاری رسول اللہ ﷺکا خط لے کر مسیلمہ کے پاس گئے، جب اس کو خط پیش کیا تو مسیلمہ کذاب نے ان سے کہا؛
أتشهد أن محمدًا رَسُول اللَّهِ؟
کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟
فرمایا؛ ہاں
پھر اس نے کہا؛
أتشهد أني رَسُول اللَّهِ؟
کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
فرمایا؛
أنا أصم لا أسمع
میں بہرا ہوں ، سنتا نہیں۔
مسیلمہ بار بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ وہی جواب دیتے رہے، اور ہر مرتبہ جب حبیب  اس کی مانگی مراد پوری نہ کرتے تو وہ ان کے جسم کا ایک عضو کاٹ لیتا۔ حبیب صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے، یہاں تک کہ اس نے آپ کے ٹکڑے ٹکرے کر ڈالے۔ اس کے سامنے حبیب نے جام شہادت نوش کر لیا۔[اسد الغابہ: 1049]
❄سیدنا أبو بکر صدیق کے دورِ خلافت میں ختمِ نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ یمامہ کے میدان میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی ، اس جنگ میں سب سے پہلے سیدنا عکرمہ  ، پھر سیدنا شرحبیل بن حسنہ اور آخر میں سیدنا خالد بن ولید نے لشکر کی کمان فرمائی ، اس پہلے معرکہ ختمِ نبوت میں 12 سو صحابہ کرام اور تابعین شہید ہوئے ، جن میں 7 سو قرآنِ مجید کے حافظ و قاری تھے۔
ثابت بن قیس بن شماس ، زید بن خطاب ، معن بن عدی ، عبداللہ بن سہیل بن عمرو ، أبو دجانہ سماک بن خرشہ ، عباد بن بشر اور طفیل بن عمرو الدوسی الازدی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے کبار صحابہ کرام جنگِ یمامہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
❄صحابہ کرام نے جنگِ یمامہ میں انتہائی صبر و استقامت کا ثبوت دیا اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ صحابہ نے ان کا پیچھا کیا، ان کو جس طرح چاہا قتل کرتے رہے، تلواریں ان کی گردنوں پر چلاتے رہے یہاں تک کہ انہیں موت کے باغ "حدیقۃ الموت” میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ محکم بن طفیل ملعون نے انہیں اشارہ کیا کہ اس باغ میں داخل ہو جائیں۔ اسی باغ میں مسیلمہ کذاب ملعون موجود تھا۔ بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر لیا اور صحابہ نے چہار جانب سے اس باغ کا محاصرہ کر لیا۔ براء بن مالک نے فرمایا؛ ’’مسلمانو! مجھے اٹھا کر باغ میں پھینکو۔‘‘ صحابہ نے ان کو ڈھالوں پر اٹھا لیا اور نیزوں سے بلند کر کے باغ میں کفار کے درمیان ڈال دیا ، وہ ان سے لڑتے ہوئے دروازے تک پہنچے اور دروازہ کھول دیا اور مسلمان دروازہ سے باغ میں داخل ہو گئے اور اندر پہنچ کر تمام دروازوں کو کھول دیا، اس طرح مرتدین مسلمانوں کے گھیرے میں آگئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب بچ نہیں سکتے۔ حق آگیا اور باطل نیست و نابود ہو گیا۔ [الصلابی]
❄اسود عنسی نے اپنی نبوت کا دعویٰ یمن کے شہر صنعاء سے کیا۔ اس نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو اپنے پاس طلب کیا۔ ان سے کہا؛
أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟
"تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں۔”
انہوں نے کہا؛
لَا أَسْمَعُ
"میں سنتا نہیں ہوں۔ "
دوسرا سوال اس نے ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ سے یہ کیا۔ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ خدا کے رسول ہیں۔ انہوں نے فوراً کہا؛
أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
’’ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
اس نے یکے بعد دیگرے تین بار یہ دونوں سوال دہرائے۔ آپ نے ہر بار اس کو وہی پہلا جواب دیا۔ اس نے اپنے عقیدت مندوں کو ایندھن جمع کرکے آگ بھڑکانے کا حکم دیا۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو اس نے حکم دیا کہ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو رسی میں باندھ کر اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ لیکن لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان لپکتے ہوئے شعلوں نے ان کا بال بھی بیکا نہ کیا۔ اسود عنسی کے مشیروں نے اسے ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو فوراً نکال دینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ جب یہ واقعہ رونما ہوا حضور اکرم ﷺ کا وصال ہو چکا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے تھے۔ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ مدینہ تشریف لائے۔ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اندر جاکر نماز کی نیت باندھ لی۔ حضرت عمر فاروق  نے انہیں دیکھا۔ جب ابو مسلم رحمہ اللہ نماز ادا کر چکے تو حضرت عمر نے پوچھا آپ کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اہل یمن سے ہوں۔ حضرت عمر نے ان سے دریافت کیا۔ ہمارے اس بھائی کا کیا حال ہے جس کو اس جھوٹے نبی نے آگ کے الاؤ میں پھینکا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: ’’میں وہی ہوں۔‘‘ حضرت عمر نے دریافت کیا ’’کیا واقعی تم وہی شخص ہو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بخدا میں وہی ہوں‘‘ حضرت عمر نے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہیں اپنے ہمراہ لے کر حضرت ابو بکر صدیق  کے پاس بٹھا دیا، پھر کہا؛
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يُمِتْنِي حَتَّى أَرَانِي فِي أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ مِنْ فُعِلَ بِهِ كَمَا فُعِلَ بِإِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ.
"خدا کا شکر ہے، جس نے مجھے مرنے سے پہلے اس شخص کی زیارت کا شرف بخشا ہے، جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آگ میں ڈالا گیا۔” ]سیر اعلام النبلاء: ۴/۹[
❄حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی بھر فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے محاذ پر نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔ وہ بیک وقت عیسائیوں، آریوں اور بالخصوص قادیانیوں سے مناظرے کرتے اور انھیں شکست فاش سے دوچار کرتے رہے۔ انھوں نے قادیانیت کی تردید میں درجنوں کتابیں تحریر کیں جنھیں ہر مکتبہ فکر نے سراہا۔ ان کا اپنا پرچہ ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ امرتسر سے نکلتا تھا ، جس کے ابتدائی صفحات قادیانیت کی تردید کے لیے وقف تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ملک بھر میں قادیانی کفریہ عقائد پر بے شمار تقریریں کیں اور مباحثے کیے۔ اس سے عاجز آ کر آنجہانی مرزا قادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا؛
’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے… میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین! مگر اے میرے کامل اور صادق خدا! اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے، حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر! مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے… اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے، اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے۔‘‘ [مجموعہ اشتہارات ج 3 ص 578 از مرزا قادیانی]
اس چیلنج اور دعا کے نتیجہ میں مرزا قادیانی اپنی دعا کے 13 ماہ اور بارہ دن بعد 26 مئی 1908ء کو ہیضہ کی بیماری سے نہایت عبرتناک حالت میں آنجہانی ہو گیا جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اس دعا کے تقریباً 40 سال بعد 15 مارچ 1948ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ کسی نے کیا خوب کہا:
؎ لکھا تھا کاذب مرے گا بیشتر
کذب میں سچا تھا پہلے مر گیا
❄ 1891ء میں جب مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعو ی کیا تو سب سے پہلے مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے اسکے کفر کو بے نقاب کیا اور سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سمیت دو سو علماءکے دستخطوں سے متفقہ طور پر مرزا غلام قادیانی کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتوی جاری کیا۔
آغاشورش کاشمیری مرحوم نے اپنی زندگی کی آخری تصنیف تحریک ختم نبوت میں لکھا ہے؛ "مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اہل حدیث کی وہ بلند پا یہ شخصیت ہیں اور چوٹی کے اہل حدیث عالم دین تھے جو سب سے پہلے قادیانیت کیخلاف میدان میں کودے اور مرزا ملعون کو مناظرہ کا چیلنج دیا جو وعدے مواعید کرتا اور تاریخوں پرتاریخیں دیتا رہا لیکن مدمقابل آنے سے گریز کرتا رہا۔ بالآخر مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اپنے استاذ گرامی قدر محدث وقت سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرزا کے کفر پر ان سے فتوی لیا پھر تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام کے پاس جا کر دو صد سے زائد علمائے عظام کے اس پر دستخط لئے۔” (تحریک ختم نبوت از شورش کاشمیری صفحہ 40مطبوعات چٹان لاہور)۔
❄مرزاقادیانی سے سب سے پہلا مباہلہ جون 1893ءمیں عید گاہ اہل حدیث امر تسر میں مولانا عبدالحق غزنوی رحمہ اللہ نے کیا۔
❄حیات مسیح پر پہلا تحریری مناظرہ مونا بشیر احمد شہسوانی رحمہ اللہ نے دہلی میں 1894ءمیں کیا جہاں مرزا ملعون فرار اختیار کر گیا۔
❄❄❄❄❄