نفلی نماز: اہمیت و فضیلت

اہم عناصر :
❄ نفلی نماز کا معنی و مفہوم ❄ نفلی نماز کی اہمیت
❄ نفلی نماز کے فضائل و فوائد ❄ نفلی نماز کی اقسام
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ [البقرہ: 184]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالٰی نے آقا علیہ السلام کو اپنے پاس آسمانوں پر بلا کر معراج کروائی ، انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور کئی نشانیاں دیکھیں ، معراج کے اس سفر میں اللہ تعالٰی نے آقا علیہ السلام کو نماز والا تحفہ دیا ، سب سے پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئیں ، موسٰی علیہ السلام کے کہنے پر آقا علیہ السلام تخفیف کروانے کے لئے جاتے رہے ، مختصر یہ کہ پانچ نمازیں رہ گئیں جو دن اور رات میں ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری اور فرض ہے، جو مسلمان اس فریضے کو ادا نہیں کرتا اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید جگہ جگہ پر نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور آقا علیہ السلام نے احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے ، نماز اسلام کے ارکان میں سے ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ [مسلم:113]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
ایک اور حدیث میں آقا علیہ السلام نے نماز کے بارے میں فرمایا کہ یہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ [مسلم: 247]
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز چھوڑنا ہے۔‘‘
جو شخص نماز ادا کرتا ہےتو یہ نماز کل قیامت والے دن اسے فائدہ دے گی اور جوشخص نماز ادا نہیں کرتا تو وہ کل قیامت والے دن اللہ کے دربار میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائے گا۔ کیونکہ عبادات میں سے سب سے پہلا سوال نماز کے متعلق ہو گا جو اس میں کامیاب ہو گیا تو جنت اس کا تھکانہ ہو گااور جو شخص اس میں ناکام اور فیل ہو گیا تو اس کا تھکانہ جہنم ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌ﷺنے ایک دن نماز کا ذکر کیا اور فرمایا:
جس نے نماز کی اچھی طرح حفاظت کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے روز نور، دلیل اور نجات ہو گی اور جس نے اس کی پوری طرح حفاظت نہ کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہو گی، نہ دلیل اور نہ نجات اور ایسا آدمی قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ [مسند احمد: 1090 صححہ الالبانی]
یہ بات ہے فرضی نمازوں کی جو ہر حال میں ادا کرنا ضروری ہیں ، ان کے علاوہ شریعت نے ہمیں فرضی کے ساتھ ساتھ نفلی نماز ادا کرنے کی بھی ترغیب دی ہے جس کے بہت سارے فضائل و فوائد ہیں۔ تو آج کے خطبہ جمعہ میں نفلی نماز کا مطلب و مفہوم، اہمیت اور اس کی اقسام کو سمجھیں گے۔
نفلی نماز کا معنی و مفہوم
نفل اس کام کو کہتے ہیں جو مسلمان پر فرض نہ ہو اور وہ اسے اپنی خوشی سے انجام دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ [البقرہ: 184]
"پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے”
اس مفہوم کے اعتبار سے نماز نفل میں ہر وہ نماز آتی ہے جو فرض نہ ہو ۔ مثلا فرائض سے پہلے اور ان کے بعد دائمی سنتیں ، نماز وتر ، نماز چاشت اور تہجد وغیرہ۔
نفلی نماز کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے جو پانچ نمازیں فرض کی ہیں وہ تو پڑھنی ہی پڑھنی ہیں ، ان کو پڑھے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ نفلی نماز اپنی خوشی اور شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ترغیب دلائی ہے کہ آپ نفل نماز پڑھیں۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا [الاسراء: 79]
"اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔”
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ [البقرہ: 184]
"پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے”
آقا علیہ السلام فرماتے ہیں ؛
يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ -وَهُوَ أَعْلَمُ-: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا, فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً، كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا, قَالَ: انْظُرُوا, هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ, قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُمْ. [ابوداؤد: 864 صححہ الالبانی]
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ ( پہلے ہی ) خوب جاننے والا ہے ، میرے بندے کی نماز دیکھو ! کیا اس نے اس کو پورا کیا ہے یا اس میں کوئی کمی ہے ؟ چنانچہ وہ اگر کامل ہوئی تو پوری کی پوری لکھ دی جائے گی اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو فرمائے گا کہ دیکھو ! کیا میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں ؟ اگر نفل ہوئے تو وہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے فرضوں کو اس کے نفلوں سے پورا کر دو ۔ پھر اسی انداز سے دیگر اعمال لیے جائیں گے۔“
نفلی نماز کے فضائل و فوائد
1۔ درجات بلند ہوتے ہیں:
معدان بن ابی طلحہ یعمری نے کہا: میں رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان سے ملا تو میں نے کہا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے کروں تو اللہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل فرما دے، یا انہوں نے کہا: میں نے پوچھا: جو عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہو، تو ثوبان نے خاموشی اختیار فرمائی (اور میری بات کا کوئی جواب نہ دیا) پھر میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کر لی، پھر میں نے ان سے تیسری دفعہ یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے یہی سوال رسول اللہﷺ سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا؛
عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَكَ اللهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً [مسلم: 1093]
’’تم اللہ کے حضور کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ تم اللہ کے لیے جو بھی سجدہ کرو گے اللہ اس کے نتیجے میں تمہارا درجہ ضرور بلند کرے گا اور تمہارا کوئی گناہ معاف کر دے گا۔‘‘
2۔ گھر میں برکت آتی ہے:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِذَا قَضیٰ أَحَدُكُمْ الصَّلَاة فِیْ مَسْجِدِہٖ فَلْیَجْعَلْ لِبَیْتِه نَصِیْبًا مِنْ صَلَاتِه، فَإِنَّ اللّٰه جَاعِلٌ فِیْ بَیْتِه مِنْ صَلَاتِه خَیْرًا [مسلم: 778]
’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں نماز پڑھے تو وہ اپنی نماز میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کیلئے بھی رکھے ، کیونکہ گھر میں کچھ نماز ادا کرنے سے اللہ تعالی گھر میں خیر وبھلائی لاتا ہے۔ ‘‘
جبکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
فَصَلُّوْا أَیُّهَا النَّاسُ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ،فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاة صَلَاة الْمَرْئِ فِیْ بَیْتِه إِلَّا الْمَکْتُوْبَة
’’ اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرے ، سوائے فرض نماز کے ۔‘‘
صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
فَعَلَیْکُمْ بِالصَّلاَة فِیْ بُیُوْتِکُمْ،فَإِنَّ خَیْرَ صَلَاةالْمَرْئِ فِیْ بَیْتِه إِلَّا الصَّلَاة الْمَکْتُوْبَة[بخاری:731،مسلم: 781]
’’ تم اپنے گھروں میں بھی نماز ضرورپڑھا کرو ، کیونکہ آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے ، سوائے فرض نماز کے ۔ ‘‘
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ،وَلَا تَتَّخِذُوْهَا قُبُوْرًا[بخاری:432، مسلم: 777]
’’ تم کچھ نماز اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور انہیں قبرستان مت بناؤ۔ ‘‘

3۔ اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ [بخاری: 6502]
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔
4. شکر گزار بندے کی علامت ہے:
عَنِ الْمُغِيرَةِ يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ فَقِيلَ لَهُ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا [بخاری: 4836]
ترجمہ: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے ۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا ، کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟
5۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد حاصل ہوتی ہے:
اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مدد حاصل کرنے کا اور مدد طلب کرنے کا پہلا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو صبر کر کے اللہ تعالی سے مدد طلب کرو ۔دوسرا طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ اے ایمان والو نماز پڑھ کر اللہ تعالی سے مدد طلب کرو۔
❄ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور بد دعا کر گئیں، اے اللہ ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے ( جو جریج کے عبادت خانے کے پا س اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی ) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔ قوم کے لوگ جریج کے پاس آئے اور ا ن کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔
فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الْغُلَامَ فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ قَالَ الرَّاعِي قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ لَا إِلَّا مِنْ طِينٍ [مسلم: 6508] لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا بچے ! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ ( خدا کے حکم سے ) بول پڑا کہ چرواہا! (قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔ جریج نے کہا کہ میرا گھرتو مٹی ہی سے بنے گا۔
❄ ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں ، یہ بہت نزدیک راستہ ہے ۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کر کے کپڑے ٹھیک کر کے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہو گیا اور مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آ گئی؛
اَمَّنْ یٰجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السٰوْۗءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ (النمل:62) ” اللہ ہی ہے جو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے ۔”
پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آ رہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آرپار ہو گیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور اصرار کے ساتھ کہنے لگا اللہ کے لیے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں، بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔
(تاریخ دمشق:489/19)(تفسیر ابن کثیر: آیت نمبر 62 کے تحت)
6۔ جنت میں نبی کا ساتھ نصیب ہوگا:
عَنْ رَبِيعَة بْن كَعْبٍ الْأَسْلَمِيّ، قَالَ:كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِﷺفَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: «سَلْ» فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: «أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ» قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ [مسلم: 1094]
ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی نے کہا: میں (خدمت کے لیے) رسول اللہﷺ کے ساتھ (صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا، (جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا: ’’ (کچھ) مانگو۔‘‘ تو میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یا اس کے سوا کچھ اور؟‘‘ میں نے عرض کی: بس یہی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘
7۔ رسولِ رحمتﷺ کی دعائے رحمت کا حصول:
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى، وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ,نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى,نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ. [ابوداؤد: 1308حسنہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” رحم فرمائے اللہ تعالیٰ اس بندے پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا اور اپنی بیوی کو جگاتا ہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے ۔ اور رحم فرمائے اللہ تعالیٰ اس بندی پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔ “
❄ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا [ترمذی: 430 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں’۔
نفلی نماز کی اقسام
نفلی نماز کئی طرح کی ہوتی ہے۔ چند اقسام یہ ہیں:
سنن مؤکدہ:
ان سے مراد فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی وہ سنتیں ہیں جن کو ادا کرنے کی حضور نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ وہ دس یا بارہ ہیں ، یعنی دس پڑھنا بھی ثابت ہے اور بارہ بھی۔ دونوں روایات موجود ہیں ، جو یہ ہیں؛
١. عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺقَبْلَ الظُّهْرِ سَجْدَتَيْنِ وَبَعْدَهَا سَجْدَتَيْنِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ سَجْدَتَيْنِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ سَجْدَتَيْنِ وَبَعْدَ الْجُمُعَةِ سَجْدَتَيْنِ فَأَمَّا الْمَغْرِبُ وَالْعِشَاءُ وَالْجُمُعَةُ فَصَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ [مسلم: 1698]
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر سے پہےلے دورکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور مغرب کے بعد دورکعتیں اور عشاء کے بعد دورکعتیں اور جمعے کے بعد دو رکعتیں ادا کیں۔جہاں تک مغرب ،عشاء اور جمعے(کی سنتوں) کا تعلق ہے، وہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے گھر میں پڑھیں۔
٢. عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ [مسلم: 1699]
ترجمہ: عبداللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں سوال کیا؟ تو انھوں نے جوابدیا:آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے،پھر(گھر سے)نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے،پھر گھر واپس آتے اور دو رکعتیں ادا فرماتے۔اور آپ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر گھر آتے اور دو رکعت نماز پڑھتے،اور لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے گھر آتے اور دو رکعتیں پڑھتے۔
ان سنتوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے؛
عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺأَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَتْ أَمُّ حَبِيبَةَ فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ و قَالَ عَمْرٌو مَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ و قَالَ النُّعْمَانُ مِثْلَ ذَلِكَ [مسلم: 1696]
ترجمہ: سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا آپ ﷺ فرمارہے تھے:”کوئی ایسا مسلمان بندہ نہیں جو ہر روز اللہ کے لئے فرائض کے علاوہ بارہ رکعات سنتیں ادا کرتا ہے مگر اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔یا اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیاجاتا ہے۔” ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں اب تک انھیں مسلسل اداکرتے آرہی ہوں۔ عمرو نے کہا:میں اب تک ان کو ہمیشہ ادا کر تا آرہاہوں۔نعمان نے بھی اس کے مطابق کہا۔
ان کے علاوہ کچھ رکعات بھی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں ثابت ہیں۔ جیسے ظہر کے چار رکعات بھی نبی ﷺ سے پڑھنا ثابت ہے۔ [ترمذی : 427صححہ الالبانی]
عصر کی نماز سے پہلے چار رکعات پڑھنے والے کو آقا علیہ السلام نے رحمت کی دعا دی ہے۔[ترمذی: 430 حسنہ الالبانی]
مغرب سے پہلے دو رکعتیں آقا علیہ السلام نے خود بھی پڑھی ہیں اور پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔[بخاری: 625 ،مسلم : 837]
نمازِ اشراق:
سورج کے اچھی طرح طلوع ہونے کے بعد سے لے کر سورج کے ڈھل جانے تک اس نماز کا وقت ہوتا ہے ، کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ادا کی جا سکتی ہیں۔ نمازِ اشراق ، نمازِ چاشت اور صلاۃ اوّابین ایک ہی نماز کے تین نام ہیں۔
اس نماز کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ تین احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1. حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: یُصْبِحُ عَلٰی كُلِّ سُلَامیٰ مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَة فَکُلُّ تَسْبِیْحَة صَدَقَة وَكُلُّ تَحْمِیْدَةصَدَقَة، وَكُلُّ تَهْلِیْلَة صَدَقَة وَكُلُّ تَکْبِیْرَة صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَة،وَنَهیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَة،وَیُجْزِیئُ مِنْ ذٰلِکَ رَكْعَتَانِ یَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحٰی [مسلم؛ 720]
’’ تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے۔ پس ہر (سبحان اللہ ) صدقہ ہے ، ہر (الحمد للہ ) صدقہ ہے ، ہر ( لا إلہ إلا اللہ ) صدقہ ہے ، ہر (اللہ اکبر ) صدقہ ہے، نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے ، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے چاشت کی دو رکعات ہی کافی ہو جاتی ہیں۔ ‘‘
2۔ حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
فِیْ الْإِنْسَانِ ثلَاَثُمِائَة ٍ وَّسِتُّوْنَ مِفْصَلًا ، فَعَلَیْه أَنْ یَّتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مِفْصَلٍ بِصَدَقَة
’’ ہر انسان میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی جانب سے ایک صدقہ کرے ۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اَلنَّخَاعَة فِیْ الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا ، وَالشَّیْئُ تُنْحِیْه عَنِ الطَّرِیْقِ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَكْعَتَا الضُّحٰی تُجْزِئُکَ [ابوداؤد:5242 صححہ الالبانی]
’’ مسجد میں پڑی تھوک کو دفن کردو اور راستے پر پڑی چیز کو ہٹا دو ۔ اگر تم یہ نہ پاؤ تو چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی ‘‘
3۔ حضرت نعیم بن ھمار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
یَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ : یَا ابْنَ آدَمَ ! لَا تُعْجِزْنِیْ مِنْ أَرْبَعِ رَكْعَاتٍ فِیْ أَوَّلِ النَّهَارِ ،أَكْفِکَ آخِرَہُ [ابوداؤد:1289 صححہ الالبانی]
’’ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : اے ابن آدم ! تم دن کے اول حصے میں چار رکعات مت چھوڑو ، میں دن کے آخری حصے تک تمہیں کافی ہو جاؤں گا۔ ‘‘
نمازِ تہجد:
نمازِ عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک اس نماز کا وقت ہوتا ہے اور نمازِ تہجد کے لئے سو کر اٹھنا شرط نہیں ہے بلکہ آپ سونے سے پہلے بھی نمازِ تہجد ادا کرسکتے ہیں۔ قیام اللیل ، تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے تین نام ہیں۔
رسول اللہ ﷺ عام طور پر تہجد کی گیارہ رکعات ادا کرتے تھے،بعض اوقات تہجد سے پہلے دو رکعات بطور تمہید یا افتتاح کے ادا کرتے جو ہلکی پھلکی ہوتیں’اس طرح تہجد کی رکعات تیر ہ ہوجاتیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازتہجد مختلف انداز سے ادا کرتے تھے۔جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
❄ دو ،دو رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دیا جائے ،آخر میں ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے، عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اس طرح ادا کرتے تھے۔ [مسلم : 736]
پہلے دو رکعات الگ پڑھ لی جائیں، پھر نو رکعات اس طرح ادا کی جائیں کہ آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھا جائے ، پھر کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کی جائے۔[مسلم : 746]
❄ پہلے دو دو کرکے چھ رکعات ادا کی جائیں ،پھر پانچ رکعت اس طرح ادا ہوں کہ آخری رکعت میں تشہد مکمل کرکے سلام پھیر دیا جائے۔[مسلم : 737]
نمازِ تہجد کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ صرف دو روایات ملاحظہ فرمائیں؛
❄ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی كُلَّ لَیْلَة إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ ، فَیَقُوْلُ : مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَهُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَهُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَهُ وفی روایةلمسلم:فَلَا یَزَالُ كَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ [بخاری:7494، مسلم: 758]
’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ۔ ‘‘
❄ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبیﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور (عام لوگ) کہنےلگے: اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے۔ تین بار (کہا) میں بھی لوگوں کے ساتھ زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ جب میں نےنبیﷺ کے چہرۂ اقدس پر توجہ سے نظر ڈالی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹ بولنے والےکا چہرہ نہیں۔ نبیﷺ کا جو ارشاد میں نے سب سے پہلے سنا، وہ یہ تھا؛
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ، وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ [ابن ماجہ: 3251صححہ الالبانی]
’’ اے لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو تم رات کو نماز (تہجد) پڑھو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
نمازِ وتر:
نمازِ وتر کا وقت بھی عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ہوتا ہے۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ملتی ہیں ۔ مثلا
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قالَ: قالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: مَنْ خَافَ أنْ لا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أفْضَلُ. [مسلم:755]
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔
وإنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ الوِترَ[ مسلم:2677]
ترجمہ:اور اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور نبی ﷺ سے گیارہ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے ۔ جو لوگ ایک رکعت وترکا انکار کرتے ہیں وہ سنت کا انکار کرتے ہیں ۔