نفس کی اقسام

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ۝۲۷
ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ۝۲۸
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ۝۲۹
وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ [الفجر: 27-30]
قرآن اور حدیث میں چار قسم کے نفسوں کا تذکرہ کیا گیا ہے:
1۔ نفس اماره، 2۔ نفس لوامہ 3۔ نفس خبیثه 4۔ نفس مطمئنہ۔
پہلی قسم: نفس اماره:
یہ وہ نفس ہے جو انسان کو برائی پر اکساتا ہے انسان کو اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے فسق و فجور اور معاصی و ذنوب پر ابھارتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵۳﴾ [يوسف: 53]
’’یقینا نفس (امارہ) بہت زیادہ برائی کا حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحمت کرے یقیناً میرا رب بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہی وہ نفس ہے جس کا مقابلہ کر کے اسے دبانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا زور ٹوٹ جائے اور اس مقصد کے لیے روز ہ سب سے عظیم عمل ہے۔ یہی وہ نفس ہے جو انسان کو گناہ اور نافرمانی کے کام خوشنما اور خوبصورت کر کے پیش کرتا ہے۔
﴿ فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ [المائدة: 30]
’’(حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کے لیے) اس کے نفس نے اس کے بھائی کا قتل مزین کر کے دکھلایا تو اس نے اسے قتل کر ڈالا تو وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہو گیا۔‘‘
نفس امارہ کا یہ تعارف قرآن کریم میں کئی مقامات یہ کیا گیا ہے کہ یہ نفس انسان کو برائی نافرمانی، فسق و فجور اور گناہ پر اکسانے والا ہے یوں سمجھئے! انسان کو معاصی و ذنوب پر آمادہ کرنے والے صرف شیاطین الانس والجن ہی نہیں بلکہ نفس امارہ بھی انسان کو گنا ہوں اور نافرمانیوں پر ابھارتا ہے۔
دوسری قسم: نفس لوامه:
یہ وہ نفس ہے جو انسان کو بھلائی اور نیکی کم کرنے پر ملامت کرتا ہے اور گناہ اور برائی کے ارتکاب پر بھی ڈانٹا اور جھڑکتا ہے یہ وہی نفس ہے جسے عام لوگوں کے عرف میں ضمیر کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: کہ فلاں کا تو ضمیر ہی مر گیا ہے۔ اس کا ضمیر اسے اس کی برائی پر ملامت ہی نہیں کرتا یہ وہ نفس ہے جس کی ضرورت ہے یہ نفس انسان کو نیکی چھوڑ نے پر اور برائی کرنے پر جنجھوڑتا ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس عمدہ نفس کی قسم اٹھائی ہے۔
﴿ وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ۝۲﴾ (القيامة: 2)
’’میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم اٹھاتا ہوں۔‘‘
یعنی وہ نفس جو انسان کو نیکی و بھلائی سے محروم رہنے پر ملامت کرتا ہے اور گناہ و نا فرمانی کے ارتکاب پر بھی ملامت کرتا ہے۔ یہ اچھا نفس ہے اگر یہ غالب رہے تو انسان پر نیکی غالب رہتی ہے اور اگر نفس امارہ غالب آجائے تو انسان پر بدی غالب ہو جاتی ہے۔
تیسری قسم: نفس خبیثه:
جب انسان پر نفس امارہ غالب آ جائے اور نفس لوامہ دب جائے۔ انسان ہر وقت خواہش پرست اور نفس پرست بن جائے۔ ہر وقت گناہوں اور نافرمانیوں میں ڈوبا رہے تو اس کا نفس نفس خبیثہ بن جاتا ہے۔ پھر اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اسے نیکی اور بھلائی سے نفرت ہو جاتی ہے اور اسے گناؤ فسق و فجور اور شیطانی کاموں سے محبت ہو جاتی ہے یہ ہر وقت گانے بجائے فلم، ڈرائے، دنیا کمانے، ناول، افسانے اور کھیل تماشے میں محو رہنا پسند کرتا ہے کیونکہ اس کا نفس امارہ اس پر غالب آگیا ہے اور نفس لوامہ (ضمیر) مر گیا ہے۔ اس لیے اس کا نفس گندا نجس اور پلید ہو گیا ہے یہ گٹر کے کیڑے کی طرح ہر وقت گندگی کھانا، گندگی پینا، گندگی دیکھنا، گندگی سننا اور گندگی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ہر وقت گناہوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا اور شیطانی کاموں میں آلودہ رہتا ہے۔ اسے اذان سے نفرت نماز سے نفرت۔ قرآن کی تلاوت سے نفرت اور ذکر الہی سے نفرت ہوجاتی ہے۔
بیمار کی مثال:
جس طرح بیمار شخص کو منہ کڑوا ہونے کی وجہ سے عمدہ اور لذیذ چیزیں کڑوی اور بدمزہ لگتی ہیں اسی طرح اس روحانی بیمار کو عبادتیں نیکیاں اور بھلائیاں کڑوی اور بھاری محسوس ہوتی ہیں یہ نیکیوں سے جی چراتا ہے اور برائیوں کا دلدادہ بن جاتا ہے۔ پھر اس ندے اور پلید نفس کا انجام مرتے وقت قبر میں اتارتے وقت قبر سے اٹھتے وقت اور حشر میں پیشی کے وقت بڑا بدترین اور برا ہوتا ہے۔
موت کے وقت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کسی شخص کی موت قریب ہوتی ہے تو فرشتے اس کے قریب آتے ہیں۔ اگر وہ مرنے والا شخص برا اور بدعمل ہے تو فرشتہ کہتا ہے اسے خبیث روح! جو ناپاک جسم میں ہے تو قابل مذمت ہے باہر نکل آ۔ گرم پانی پایپ اور اس قسم کے دیگر عذابوں کی بشارت قبول کر۔ اس کو مسلسل یہی کلمات کہے جاتے ہیں اس کے یہاں تک کہ روح باہر نکل آتی ہے پھر اس کو آسمان کی جانب چڑھایا جاتا ہے۔ لیے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ہے تو (اس کے حق میں) پیغام ملتا ہے خبیث روح کو خوش آمدید نہ کہو۔ جو ناپاک جسم میں تھی تو واپس چلی جا تو قابل خدمت ہے تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھل سکتے۔ چنانچہ اس کو آسمان سے واپس بھیج دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں رہتی ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب کافر کی روح (اس کے جسم سے) نکلتی ہے۔ حماد راوی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اس کی بدبو اور (اس پر) لعنت کا ذکر کیا (چنانچہ) آسمان کے فرشتے کہتے ہیں ناپاک روح زمین کی جانب سے آئی ہے (اس کے بارے میں) کہا جائے گا کہ اس کو برزخ کے آخری وقت تک لے جاؤ۔‘‘[الترغيب والترهيب (5221) واحمد (287/1) و مجمع الزوائد (50/3) حدیث حسن]
غرضیکہ نفس خبیثہ کا حال مرتے وقت بھی بہت برا ہوتا ہے اس سے بدبو آ رہی ہوتی ہے فرشتے اس پر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔
قبر میں بھی برا حال:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے کافر کی موت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ میت کو بٹھا کر اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے میں کچھ بھی نہیں جانتا (پھر) وہ اس سے دریافت کرتے ہیں، تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میں کچھ بھی نہیں جانتا (پھر) اس پر اس سے دریافت کرتے ہیں، جو شخص تم میں بھیجا گیا وہ کون تھا؟ وہ جواب دیتا ہے میں کچھ بھی نہیں جانتا (اس پر) آسمان سے منادی کرنے والا آواز کرتا ہے اس نے غلط بیانی کی ہے اس کا آگ سے بستر تیار کرو اس کو آگ کا لباس پہناؤ اور دوزخ کی جانب اس کا دروازہ کھول دو۔‘‘
آپ ﷺ نےفرمایا:
’’اس کو آگ کی گرمی اور اس کی باد سموم پہنچے گی۔‘‘
آپ ﷺ نےفرمایا:
’’اور اس کی قبر اس پر تنگ ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں مختلف ہو جائیں گی پھر اس پر اندھا بہرا فرشتہ مقرر کیا جائے گا جس کے پاس لوہے کا ہتھوڑا ہو گا اگر اس کو کسی پہاڑ پر بھی مارا جائے تو پہاڑ مٹی بن جائے۔ چنانچہ وہ اس کو اس شدت کے ساتھ مارے گا کہ اس کی آواز انسانوں اور جنوں کے علاوہ مشرق مغرب میں موجود سب سنیں گے (اس سے) وہ مٹی بن جائے گا پھر اس میں روح لوٹائی جائے گی۔‘‘[سنن آبی داود، كتاب السنة، باب في المسألة في القبر و عذاب القبر (4753) والنسائي (78/4)]
حشر میں بھی برا حال:
اللہ رب العزت سورہ بنی اسرائیل میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖ ؕ وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا ؕ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ؕ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا﴾ [بنی اسرائیل: 98]
’’اللہ جس کی راہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے نا ممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی کو پائے۔ ایسے لوگوں کو ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گئے در آں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گئے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گئے۔‘‘
استغفر اللہ! کتنا برا حشر ہے اللہ ہمیں اپنی رحمت سے معاف فرمائے اور حشر کی رسوائیوں سے محفوظ رکھے۔
آخرت میں بھی برا حال:
رب ارض و سماء سورۃ الانفال میں فرماتے ہیں:
﴿لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠﴾ [الأنفال:37]
’’اللہ تعالی ناپاک کو پاک سے الگ کر دے گا اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملادے گا پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کر دے گا پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں۔‘‘
غور فرمائیے! خبیث نفس کا آخرت میں کتنا برا حال ہو گا کہ تمام گندے نفسوں کا (کوڑے کے ڈھیر کی طرح) ڈھیر بنایا جائے گا اور پھر اس ڈھیر کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ.
اللہ ہمیں قبر حشر اور آخرت کی ذلتوں سے بچائے اور اپنے فضل و کرم سے جنت کا داخلہ عطاء فرمائے۔
چوتھی قسم: نفس مطمئنه:
جو انسان نفس امارہ کو دبا لیتا ہے اور نفس لوامہ کی علامت پر کان دھرتا ہے۔ اور نفس امارہ کا مقابلہ کر کے نفس کو نیکیوں اور بھلائیوں پر لگا لیتا ہے۔ تو نیکیاں کر کر گئے اچھائیاں کر کر کے اس کا نفس مطمینہ بن جاتا ہے۔ پھر انسان کے لیے اعمال صالحہ عبادات وحسنات بھلائیاں اور اچھائیاں مرغوب ہو جاتی ہیں پھر نیکی کرنا بوجھ نہیں بنتا بلکہ نیکی سے محرومی بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ پھر نماز کی پابندی بھاری نہیں لگتی بلکہ نماز کا نکل جاتا مصیبت اور صدمہ بن جاتا ہے۔ پھر دین کا کوئی بڑے سے بڑا کام مشکل نظر نہیں آتا بلکہ ہر ناممکن کام آسان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام کی یہی کیفیت تھی۔
﴿ولٰكنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ﴾ [الحجرات:7]
صلحاء، اتقیاء، اولیاء اور ابرار و شہداء کی یہی کیفیت ہوتی ہے ان کے لیے نماز آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت بن جاتی ہے روزہ مرغوب بن جاتا ہے انفاق فی سبیل اللہ آسان ہو جاتا ہے حتی کہ وہ ہجرت اور جہاد جیسی مشقت میں بلا جھجھک کود پڑتے ہیں اور شہادت ان کی تمنا بن جاتی ہے۔
پھر قرآن کی تلاوت سے سرور آتا ہے اللہ کے ذکر سے دل میں بہار آتی ہے۔ پھر مؤمن نیکیوں کا اس قدر حریص بن جاتا ہے کہ میری نہیں ہوتا۔ فرائض و واجبات بھی ادا کرتا ہے سنن ونوافل کا بھی پابند بن جاتا ہے ہر وقت کار خیر کا متلاشی رہتا ہے ہر فرصت کو غنیمت جانتا اور اسے نیکی میں صرف کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں سے سبقت لے جانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ پھر اس آیت کا مصداق بن جاتا ہے۔
﴿الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ إِلَّا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب﴾ [الرعد:28]
یہ ہے نفس مطمئنہ جس کا دوسرا نام نفس طیبہ ہے۔ نیکی پر مطمئن نفس پاکیزہ اور ستھرا نفس۔ اسے موت کے وقت بھی عزت و بشارت ملتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب کسی شخص کی موت قریب ہوتی ہے تو فرشتے اس کے قریب آتے ہیں۔ اگر (فوت ہونے والا) شخص صالح انسان ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح! جو پاک جسم میں تھی باہر آ جا تو قابل تعریف ہے۔ اللہ کی رحمت اس کے عطیات اور نہ ناراض ہونے والے پروردگار سے خوش ہو جا۔ مسلسل اس کو یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح جسم سے باہر آ جاتی ہے۔ بعد ازاں روح کو آسمان کی جانب لے جایا جاتا ہے اس کے لیے (آسمان کا) دروازہ کھول دیا جاتا ہے دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون روح ہے؟ فرشتے بتاتے ہیں فلاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکیزہ (روح) کے لیے خوش آمدید ہو جو پاک جسم میں رہی تو (جنت میں) داخل ہو جا تو تعریف کے لائق ہے اور تو اللہ کی رحمت اس کے عطیات اور ایسے پروردگار سے ملاقات کے لیے خوش ہو جا جو تجھ پر ناراض نہیں۔ اسے مسلسل یہی کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس میں اللہ ہے۔‘‘[سنن ابن ماجه كتاب الزهد باب ذكر الموت والاستعداد له رقم: 1362]
اور صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب مومن کی روح (اس کے جسم سے) نکلتی ہے تو روح کو دو فرشتے اٹھا کر (آسمان کی جانب) لے جاتے ہیں۔ حماد راوی کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روح کی عمدہ خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کا ذکر کیا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’آسمان کے فرشتے کہتے ہیں (یہ) پاکیزہ روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے۔ اللہ کی رحمتیں تجھ پر اور اس جسم پر ہوں جس کو تو نے آباد کر رکھا تھا۔ چنانچہ روح کو اس کے پروردگار کی جانب لے جایا جاتا ہے۔ بعد ازاں اللہ فرماتا ہے اس کو برزخ کے آخری وقت تک لے جاؤ۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الجنۃ و نعيمها، باب عرض مقعد الميت من الجنۃ والنار عليه، رقم: 7221]
اسے قبر میں بھی ٹھاٹھ کی برزخی زندگی ملتی ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا:
’’مؤمن کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے (پھر) وہ اس سے دریافت کرتے ہیں، تیرا دین کیا۔ ہے وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے (پھر) وہ دریافت کرتے ہیں یہ کون شخص تھا جو تم میں بھیجا گیا؟ وہ جواب دیتا ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ وہ اس سے دریافت کرتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ اللہ کا قول کہ جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ اس کی تصدیق کرتا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’(پھر) آسمان سے ایک منادی کرنے والا ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے جنت سے اس کا بستر بچھاؤ اور جنت کا (ہی) اسے لباس پہناؤ اور جنت کی جانب اس کا دروازہ کھول دو چنانچہ (اس کے لیے) دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
اس کو جنت کی باد نسیم اور خوشبو پہنچتی ہے اور اس کی قبر (کی جگہ) تاحد نظر کشادہ کر دی جاتی ہے۔[سنن ابی داود، كتاب السنة، باب في المسألة في القبر و عذاب القبر (4753) و الترمذي (1071) و الحاكم (353/1)]
حشر میں بھی عزت:
اللہ رب العزت سورہ مریم میں فرماتے ہیں:
﴿یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا﴾ [مريم:85]
’’اس دن ہم متقیوں کو مہمانوں کی طرح رحمن کی طرف لے جائیں گئے۔‘‘
اور سورۃ الزمر میں ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَی الْجَنَّةِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ﴾ [الزمر:73]
’’اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔‘‘
اور سورۃ الفجر کی جو آخری آیات خطبہ میں پڑھی گئی ہیں ان میں بھی نفس مطمئنہ کی زبردست شان بیان کی گئی ہے کہ اسے مرتے وقت، قبر سے اٹھتے وقت اور حساب کتاب کے وقت یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ اے نفس مطمئنہ (اللہ کی اطاعت پر مطمئن نفس) جا اپنے رب کی طرف تو رب پر راضی تیرا رب تجھ پہ راضی میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنتوں میں داخل ہو جا۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔