نفس سے جہاد کرنا
الحمد لله الذي وهب السعادة لأوليائه المتقين، وقضى بالذلة والهوان على أعدائه العاصين، أحمده سبحانه وأسأله التوفيق والهداية، وأستعيذ به من أسباب الهلاك والغواية، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له إله العالمين، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله سيد الأولين والآخرين، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك سيدنا محمد وعلى آله وصحبه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے اہل تقویٰ کو سعادت بخشی اور نافرمانوں پر ذلت و رسوائی مسلط کی میں اللہ سبحانہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس سے توفیق و ہدایت کا سوال کرتا اور ہلاکت و گمراہی کے اسباب سے پناہ مانگتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں وہ سارے جہان کا معبود ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو تمام امتوں کے سردار ہیں۔ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
برادران اسلام! اپنے اندر اللہ تعالی کا تقویٰ پیدا کرو تقوی کے بغیر عزت و بزرگی حاصل نہیں ہو سکتی، اوور خسارے و تباہی اس شخص کے لیے ہے جو حکم الٰہی سے سرتابی کرے۔
اللہ کے بندو اہم پر گناہوں کا انبار لدا ہوا ہے، ہماری بصیرت کھو چکی ہے۔ اور غفلت و کوتاہی اور دنیا داری ہم پر مسلط ہو گئی ہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے دل سخت اور ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، ہم لذتوں میں پڑے ہوئے ہیں، خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ مال جمع کرنے میں منہمک ہیں۔ طاعت الہی سے غافل اور مقصد حیات سے بے پرواہ ہیں:
﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثِ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ﴾ (الانبياء:1 تا 2)
’’لوگوں کا حساب نزدیک آپہنچا ہے۔ اور وہ غفلت میں پڑے اس سے منہ پھیر رہے ہیں۔ ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں۔‘‘
دینی بھائیوا کیا موت ہر جاندار کا انجام نہیں؟ کیا مرنے کے بعد قبر ہمارا ٹھکانہ نہیں؟ کیا اس و حشت ناک تنہائی میں عمل صالح کے علاوہ بھی کوئی مونس و غمخوار ہوگا؟ کیا ہمارے حساب و کتاب کا وقت قریب نہیں ہے؟ کیا مرنے کے بعد ہمارا انجام حسب اعمال جنت یا جہنم نہیں ہو گا؟ آخر سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیا وجہ ہے۔ کہ ہم گناہ و معصیت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں؟ نصیحت و خیر خواہی اور حق و صداقت کی وصیت ہمارے اندر سے مفقود کیوں ہو گئی؟ آج ہمارے معاشرہ میں محبت و دوستی صرف درہم و دینار کے لئے ہوتی ہے، عزت و احترام صرف مالداروں کا کیا جاتا ہے۔ دیندار اور سنت رسول کے پیرو کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بھلائی کا حکم دینے والے اور منکر سے روکنے والے. سے نفرت کی جاتی ہے۔ کیا یہ سایہ سب ہماری شقاوت و بدبختی کی دلیل اور مردہ دلی کی علامت نہیں ہے؟ لا حول ولا قوة الا باللہ۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے ہمیں تخلیق بخشی تاکہ اس کی عبادت کریں اور حلال اور پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ اس کا آداب شکر بجالائیں اللہ کے جو حقوق ہمارے اوپر ہیں۔ ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے۔ کہ اللہ کی بندگی کرنے میں محرمات سے دور رہنے میں توحید اور اخلاص عمل کے تقاضے پورے کرنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ وسیرت کی سچی پیروی کرنے میں اور کتاب اللہ اور سنت رسول کی تعمیل میں ہم کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے دیں اور نفس کو اس کے لئے قربان کر دیں۔
ہم میں سے ہر شخص اگر اپنے نفس کا جائزہ لے اور شریعت کے اوامر و نواہی کے میزان پر اپنے اعمال کو پرکھے تو اس کی کوتاہی واضح ہو جائے گی اور انجام بھی معلوم ہو جائے گا۔ سوچو تو سہی، کیا ہم نے اپنے ایمان کا ثبوت دے کر کامل طور پر اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کیا ہے؟ کیا عبودیت کے حقیقی مفہوم سے متصف ہو کر خالص اللہ کے لئے کوئی عمل کیا ہے؟ کیا کما حقہ اس کی بندگی کی ہے؟ یا اس کی رضا و خوشنودی چاہی ہے؟ کیا ہمارا جو کردار ہے۔ اہل ایمان اس سے خوش ہوں گے یا صلحاء امت اسے تسلیم کریں گے؟ کیا ہم میں بہت سے ایسے لوگ موجود نہیں جو دین کی اہانت کرتے ہیں۔ اور دین کے اہم ترین فریضہ نماز کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جو کہ دین کا ستون اور بندے اور پروردگار کے مابین ایک رشتہ ہے۔
کیا شرم و حیا دین کا ایک حصہ نہیں؟ لیکن آج حالت یہ ہے۔ کہ بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کر کے اسے خیر باد کہہ دیا ہے۔ کیا یہ غلط ہے۔ کہ آج عورتیں اجنبی مردوں کے درمیان بغیر کسی شرم و حیا کے چلتی پھر رہی ہیں۔ رسوائی اور ننگ و عار کے لباسوں میں سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ فتنے بپا کرتی ہیں۔ اور خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے بھی پریشانی کا سبب بنتی ہیں؟ کہاں ہیں۔ ان کے سر پرست اور کہاں گئی ان کی غیرت و حمیت؟
کیا یہ اسلامی تربیت ہے۔ یا مغربی تہذیب؟
کیا آج معاشرے میں دھوکہ اور قریب عام نہیں؟ کیا اسلام کی ہی تعلیم ہے۔ کہ آدمی جھوٹا حیلہ ساز مکار عیار اور منافق بن جائے؟ کیا دین نے میں سکھایا ہے۔ کہ آدمی چغلخور ہو جائے اور لوگوں کے درمیان فساد کرائے؟ میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرے؟ دو دوستوں اور دو مسلمان بھائیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے متنفر کر دے؟ کیا ایک مسلمان علامت گرم طعنہ زن اور فحش زبان ہو سکتا ہے؟ کیار سول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نہیں
﴿ليسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعانِ، وَلا بِاللعان، ولا الفاحش البذیء) [مسند احمد: 405/1 (3839) و 416/1 (3948) ز جامع ترمذی: ابواب البر، ” باب ما جاء في اللعنة (2060)]
’’مومن طعنہ زن نہیں ہوتا ملامت گر نہیں ہوتا اور فخش گو اور بدزبان نہیں ہوتا۔‘‘
کیا دین کا یہی تقاضا ہے۔ کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو برا کام کرتے دیکھے تو اسے نہ روکے نہ منع کرے نہ معروف کا حکم دے اور نہ اللہ کا خوف دلائے؟
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، قرآن مجید کے اندر غور و فکر کرو سنت رسول کو عملی جامہ پہناؤ اور آخرت کے لئے عمل کا توشہ تیار کرو، قبل اس کے کہ وقت گذر جائے۔ سابقہ زمانہ کی کو تاہیوں پر بے سود ندامت ہو اور توبہ و استغفار کی طاقت باقی نہ رہے اور وہ وقت آئے جب نهایت ہی حسرت وافسوس کے ساتھ یہ کہو:
﴿یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ۵۶ اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ۵۷ اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ۵۸﴾ (الزمر:56 تا 58)
’’ہائے افسوس اس تقصیر پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہا یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پرہیز گاروں میں ہوتا یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جاتا ہو تو میں نیکو کاروں میں ہو جاؤں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
خطبه ثانیه
الحمد لله العلي الكبير، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، أحمده سبحانه وأشكره على آلائه، وأسأله المزيد من فضله وإحسانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
اللہ ہی تعریف کا سزاوار ہے۔ جو سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا ہے۔ اس کی بادشاہی ہے۔ اور اسی کی سب تعریف ہے۔ اور وہی ہر چیز پر قادر بھی ہے۔ اس کی بے شمار نعمتوں پر میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور مزید فضل و احسان کا سوال کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے و رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مسلمان بن کر مرو۔ یہ دنیا گذرگاہ ہے۔ مستقل قیام گاہ نہیں مستقل قیام گاه تو دار آخرت ہے۔ لہٰذا اس گزرگاہ سے مستقل قیام گاہ کے لئے عمل کا توشہ تیار کرتے چلو اور دنیا کی زیب و آرائش سے دھو کہ نہ کھاؤ اور یہ جان رکھو کہ سب سے کچی بات اللہ کی کتاب ہے۔ اور سب سے بہتر راہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ ہے۔ اور سب سے برا کام وہ ہے۔ جو دین کے اندر نیا ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کی توفیق و نصرت جماعت ہی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور جو جماعت سے نکلا وہ جہنم رسید ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔