اپنی عاجزی اور بے بسی کو بطور وسیلہ پیش کرنا مستحب ہے

688۔ سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام اہم معاملات کے لیے نماز استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے:

((إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ، فَلْيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ))

 ’’تم میں سے کوئی جب کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل نماز پڑھے۔“

پھر کہے:

  ((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِّي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسْرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شر لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفُهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ)) (أخرجه البخاري:1162،6382، 7390)

’’اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر مانگتا ہوں، تیری قدرت کے ذریعے سے تجھ سے ہمت و طاقت مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں۔ یقینًا تو قادر ہے میں قدرت والا نہیں۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ تو پوشیدہ اور غائب معاملات کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میرا یہ کام میرے دین، میری معیشت اور میرے معاملے کے انجام کے اعتبار سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر اور آسان کر دے، پھر اس میں میرے لیے برکت فرما۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، میری معیشت اور میرے معاملے کے انجام کے اعتبار سے اچھا نہیں تو اسے مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر کر دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس سے خوش کر دے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ)) ’’دعا میں هٰذَا الْأَمْر کی جگہ اپنی حاجت اور ضرورت کا نام لے۔“

 توضیح و فوائد: اس حدیث سے عمل صالح کے وسیلے کے ساتھ ساتھ اپنے فقر و احتیاج، لاچاری اور بے بسی کو بھی بطور وسیلہ پیش کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔