نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ،يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
سورۃ ہود حدیث نمبر 114 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْرَیٰ لِلذَّاکِرِینَ﴾
دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 526 میں ہے:
﴿الراوی: عبداللہ بن مسعود. أنَّ رَجُلً أصابَ مِنَ امْرَأَۃٍ قُبْلَـۃً، فأتَی النبیَّ ﷺ، فأخْبَرَہُ. فأنْزَلَ اللہُ عزَّ وجلَّ:  أَقِمِ الصَّلاۃَ طَرَفَیِ النَّہارِ وزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ، إنَّ الحَسَناتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئاتِ ہود: 114. فقالَ الرَّجُلُ: یا رَسولَ اللہِ ﷺ ألِی ہذا؟ قالَ: لِجَمِیعِ أُمَّتی کُلِّہِمْ.﴾
ایک شخص نے کسی غیر عورت کا بوسہ لے لیا۔ اور پھر نبی کریمe کی خدمت میں آیا اور آپ کو اس حرکت کی خبر دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ نماز دن کے دونوں حصوں میں قائم کرو اور کچھ رات گئے بھی، اور بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ صرف میرے لیے ہے؟ تو آپe نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میری تمام امت کے لیے یہی حکم ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 6823 میں ہے:
﴿الراوي: أنس بن مالک. کُنْتُ عِنْدَ النَّبیِّ ﷺ، فَجَاءَہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یا رَسولَ اللہِﷺ، إنِّی أصَبْتُ حَدًّا، فأقِمْہُ عَلَیَّ، قَالَ: ولَمْ یَسْأَلْہُ عنْہ، قَالَ: وحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ، فَصَلَّی مع النَّبیِّ ﷺ، فَلَمَّا قَضَی النَّبیُّ ﷺ الصَّلَاۃَ، قَامَ إلَیْہِ الرَّجُلُ فَقَالَ: یارَسولَ اللہِﷺ، إنِّی أصَبْتُ حَدًّا، فأقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللہِ، قَالَ: ألیْسَ قدْ صَلَّیْتَ معنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فإنَّ اللہَ قدْ غَفَرَ لکَ ذَنْبَکَ. أوْ قَالَ: حَدَّکَ.﴾
سیدنا انس بن مالکt نے بیان کیا ۔ میں نبی کریمe کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجیے۔ نبی کریمe نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریمe کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپe نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریمe کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجیے۔ نبی کریمe نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔
سورۃ الفرقان آیت نمبر 70 میں ہے:
﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللہُ غَفُورًا رَّحِیمًا﴾
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والاہے۔
صحیح مسلم حدیث نمبر 667 / 1522 میں ہے:
﴿أَرَأَیْتُمْ لو أنَّ نَہْرًا ببَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ منہ کُلَّ یَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، ہلْ یَبْقَی مِن دَرَنِہِ شیءٌ؟  قالوا: لا یَبْقَی مِن دَرَنِہِ شیءٌ، قالَ: فَذلکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ،  یَمْحُو اللہُ بہِنَّ الخَطَایَا﴾
(ابوہریرہt) نے رسول اللہe سے سنا، آپ نے فرمایا : ’’ تم کیا سمجھتے ہو اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس (کے جسم) کا کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟‘‘ صحابہ کرامyنے عرض کی: اس کا کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا:’’ یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو صاف کر دیتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 2691 / 6842 میں ہے:
﴿مَن قالَ: لا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِیکَ لہ، لہ المُلْکُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَہو علَی کُلِّ شیءٍ قَدِیرٌ، فی یَومٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ؛ کَانَتْ لہ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَکُتِبَتْ لہ مِائَۃُ حَسَنَۃٍ، وَمُحِیَتْ عنْہ مِائَۃُ سَیِّئَۃٍ، وَکَانَتْ لہ حِرْزًا مِنَ الشَّیْطَانِ یَومَہُ ذلکَ حتَّی یُمْسِیَ، وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ أَفْضَلَ ممَّا جَاءَ بہ، إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِن ذلکَ، وَمَن قالَ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ، فی یَومٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ؛ حُطَّتْ خَطَایَاہُ ولو کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ.﴾
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:’’ جو شخص دن میں سو مرتبہ: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر ’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہت اسی کی ہے، حمد صرف اسی کو سزاوار ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘ کہے اس شخص کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملتا ہے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اس کے سو گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور یہ کلمات شام تک پورا دن شیطان سے اس کی حفاظت کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور کوئی شخص اس سے زیادہ افضل عمل نہیں کر سکتا، سوائے اس شخص کے جو اس سے بھی زیادہ مرتبہ یہی عمل کرے اور جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ ’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘کہا تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، چاہے وہ سمندر  کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 667 / 1522 میں ہے:
﴿أَرَأَیْتُمْ لو أنَّ نَہْرًا ببَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ منہ کُلَّ یَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، ہلْ یَبْقَی مِن دَرَنِہِ شیءٌ؟ قالوا: لا یَبْقَی مِن دَرَنِہِ شیءٌ، قالَ: فَذلکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، یَمْحُو اللہُ بہِنَّ الخَطَایَا﴾
ابوہریرہt) نے رسول اللہe سے سنا، آپ نے فرمایا:’’ تم کیا سمجھتے ہو اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس (کے جسم) کا کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟‘‘ صحابہy  نے عرض کی: اس کا کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا:’’ یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے،  اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو صاف کر دیتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم حدیث نمبر 251 / 583 میں ہے:
﴿أَلا أدُلُّکُمْ علَی ما یَمْحُو اللہُ بہ الخَطایا، ویَرْفَعُ بہ الدَّرَجاتِ؟ قالُوا بَلَی یا رَسولَ اللہِ ﷺ قالَ: إسْباغُ الوُضُوءِ علَی المَکارِہِ، وکَثْرَۃُ الخُطا إلی المَساجِدِ، وانْتِظارُ الصَّلاۃِ بَعْدَ الصَّلاۃِ، فَذَلِکُمُ الرِّباطُ.﴾
سیدنا ابوہریرہt سے روایت کی کہ رسول اللہe نے فرمایا:’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے ؟ ‘‘ صحابہ کرامy نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا:’’ ناگواریوں کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی) ہے۔
ترمذی 1987۔ حسنہ الالبانی
﴿عن أبی ذرٍّ ؓ قالَ قالَ لی رسولُ اللہِ ﷺ اتَّقِ اللہَ حیثُما کنتَ وأتبعِ السَّیِّئۃَ الحسنۃَ تمحُہا  وخالِقِ النَّاسَ بخلقٍ حسنٍ.﴾
رسول اللہe نے فرمایا: ’’جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہو جائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘
مسند احمد صححہ احمد شاکر جبکہ شیخ البانی aنے اسے حسن لغیرہ کہا ہے۔ ایک دفعہ سیدنا عثمانt  نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے اس طرح نبی کریمe کو وضو کرتے دیکھا ۔
﴿ثمَّ قالَ: ومَن توضَّأَ وضوئی ثمَّ قامَ فصلَّی صلاۃَ الظُّہرِ غُفِرَ لَہُ ما کانَ بینَہا وبینَ الصُّبحِ.
تو نبی کریمe نے فرمایا جس نے اس طرح وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی اس کے  فجر سے ظہر تک کے گناہ معاف کر دیئے گئے ۔
 ثمَّ صلَّی العصرَ غُفِرَ لَہُ ما بینَہا وبینَ صلاۃِ الظُّہرِ،
پھر عصر پڑھی تو ظہر سے عصر تک کے گناہ معاف کر دیئے گئے
ثمَّ صلَّی المغربَ غُفِرَ لَہُ ما بینَہا وبینَ صلاۃِ العصرِ،
پھر مغرب پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف کر دیئے گئے
 ثمَّ صلَّی العشاءَ غُفِرَ لَہُ ما بینَہا وبینَ صلاۃِ المغربِ،
پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف کر دیئے گئے ۔
 ثمَّ لعلَّہُ أن یَبیتَ یتمرَّغُ لیلتَہُ،
پھر وہ رات سو کر گزار دیتا ہے۔
 ثُمَّ إن قامَ فتوضَّأَ وصلَّی الصُّبحَ غُفِرَ لَہُ ما بینَہا وبینَ صَلاۃِ العشاءِ
پھر اگر اٹھ کر وضو کیا اور فجر کی نماز پڑھی تو عشاء سے فجر تک کے گناہ معاف کر دیئے گئے
 وَہُنَّ حسَناتٌ یُذہِبنَ  السَّیِّئاتِ
پھر سیدنا عثمانt نے فرمایا یہ وہ نیکیاں ہیں جو گناہوں کو مٹا دیتی ہیں
 قالوا: ہذِہِ الحسَناتُ، فَما الباقیاتُ یا عثمانُ ؟
پھر لوگوں نے پوچھا باقی رہنے والے کلمات(نیکیاں) کون سے ہیں ؟
تو انہوں نے درج ذیل کلمات بتائے:
 لا إلَہَ إلَّا اللہُ، وسُبحانَ اللہِ، والحمدُ للہِ، واللہُ أَکْبرُ، ولا حولَ ولا قوَّۃَ إلَّا باللہِ
الترغیب والترہیب۔ صححہ الالبانی
الراوی: شطب الممدود أبو الطویل.
رأیتَ مَن عمل الذنوبَ کلَّہا ولم یترکْ منہا شیئًا وہو فی ذلک لم یترک حاجۃً ولا داجۃً إلا أتاہا، فہل لذلک من توبۃٍ ؟
قال: فہل أسلمتَ ؟
قال: أما أنا فأشہدُ أن لا إلہ إلا اللہُ، وأنک رسولُ اللہِ
قال: تفعل الخیراتِ، وتترک السیئاتِ، فیجعلہنَّ اللہُ لک خیراتٍ کلِّہنَّ
قال وغَدَراتی وفَجَراتی ؟
قال: نعم
قال: اللہُ أکبرُ، فما زال یُکبِّرُ حتی تَوارَی .
ایک انتہائی بوڑھا شخص ابو طویل شطب الممدود نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ اگر کسی بندے چھوٹا بڑا کوئی گناہ کبھی چھوڑاؤ ہی نہ ہو کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ تو نبی کریمe اسے پوچھا کہ مسلمان ہوتے ہو ؟تو اس نے فورا کلمہ پڑھ دیا
أشہدُ أن لا إلہ إلا اللہُ، وأنک رسولُ اللہِ .﴾
تو آپe نے فرمایا اب نیکیاں شروع کر دے برائیاں ترک کر دے اللہ تعالیٰ پہلے سارے گناہوں کو بھی نیکیاں بنا دے گا۔اس نے کہا میری پہلی کمی کوتاہیاں؟ تو نبی کریمe نے فرمایا اللہ تعالیٰ  وہ سب معاف کر دے گا۔ تو وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چل دیا اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہوا چلا گیا۔
٭٭٭