نمازِ فجر: اہمیت و فضیلت

اہم عناصر :
❄ وقتِ فجر کی اہمیت ❄ نمازِ فجر کی سنتیں: فضائل و مسائل
❄ نمازِ فجر پڑھنے کے فوائد ❄ نمازِ فجر چھوڑنے کے نقصانات

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوۡكِ الشَّمۡسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ‌ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُوۡدًا [بنی اسرائیل: 78]
ذی وقار سامعین!
کلمہ پڑھ لینے کے بعد اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کی ہے وہ نماز ہے. ایک بندہ کلمہ پڑھتا ہے ، خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا ، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے. آقا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق نماز کا ہے. پانچ نمازیں اللہ تعالی نے فرض کی ہیں اور پانچوں کی پانچوں پڑھنا ضروری ہے ، ہر نماز کی اپنی اپنی جگہ بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن کچھ نمازیں ہیں ان کی اہمیت احادیث میں بہت زیادہ بیان ہوئی ہے ، ان میں سے ایک نماز نمازِ فجر ہے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل سے نماز فجر کی اہمیت و فضیلت کے حوالے سے بات کریں گے۔
وقتِ فجر کی اہمیت
❄ أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا [بنی اسرائیل: 78]
"نماز قائم کر سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن (پڑھ)۔ بے شک فجر کا قرآن ہمیشہ سے حاضر ہونے کا وقت رہا ہے۔”
اس آیت کے تحت مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : ’’ أَيْ وَأَقِمْ قُرْآنَ الْفَجْرِ ‘‘ یعنی فجر کی نماز قائم کر۔ یہاں نماز کو قرآن فرمایا، کیونکہ قرآن نماز کا اہم جز ہے اور یہاں جز بول کر کل مراد لیا ہے، جیسا کہ قیام یا ’’رَكْعَةٌ‘‘ یا ’’سَجْدَةٌ‘‘ سے پوری نماز مراد ہوتی ہے۔ یہاں نماز کو قرآن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی نماز میں قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے بہ نسبت دوسری نمازوں کے۔
اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا : ’’ مَشْهُوْدًا ‘‘ جس میں حاضر ہوا جائے، یعنی اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ [بخاری: 555]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛
” رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ پوچھتے ہیں حالانکہ وہ ان سے زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انھیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے۔”
❄ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ
"سو اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔” [ق: 39]
❄ عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا [ترمذی: 1212 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
‘اے اللہ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے.’
فجر کے وقت کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو اس وقت میں ادا کی جانے والی نماز اور تلاوت قرآن کی اہمیت ، فضیلت اور عظمت کتنی ہوگی۔۔۔؟
نمازِ فجر کی سنتیں: فضائل و مسائل
فضائل:
❄ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي شَأْنِ الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ لَهُمَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا جَمِيعًا [مسلم: 1689]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے طلوع فجر کے وقت کی دورکعتوں کے بارے میں فرمایا:”وہ دو (رکعتیں) مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہیں۔”
❄ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا [مسلم: 1688]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے بہتر ہیں۔”
❄ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَسْرَعَ مِنْهُ إِلَى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ [مسلم: 1687]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی نفل (کی ادائیگی) کے لئے اس قدر جلدی کرتے نہیں دیکھا جتنی جلدی آپ نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کے لئے کرتے تھے۔
❄ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ [بخاری: 1169 ، مسلم: 1686]
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نوافل میں سے کسی اور (نماز) کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔”
❄ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ [بخاری: 1182]
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت سنت نماز پڑھنی نہیں چھوڑتے تھے۔
مسائل:
1۔ فجر کی دو سنتیں طلوعِ فجر(اذانِ فجر) کے بعد ادا کرنی ہیں:
❄ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَضَاءَ لَهُ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ [مسلم: 1680]
ترجمہ: سالم نےاپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کی،انھوں نے کہا: حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے جب فجر روشن ہوجاتی تو آپ دو رکعتیں نماز پڑھتے تھے۔
❄ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ [مسلم: 1683]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
2۔ فجر کی دو سنتیں ہلکی(مختصر) ادا کرنی ہیں:
❄ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ حَفْصَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ الْأَذَانِ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ وَبَدَا الصُّبْحُ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ [مسلم: 1676]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں بتایاکہ جب مؤذن صبح کی اذان کہہ کر خاموش ہوجاتا اور صبح ظاہر ہوجاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی اقامت سے پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھتے۔
3۔فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان صرف یہ دو رکعتیں ہی ادا کرنی ہیں:
عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ [مسلم: 1678]
ترجمہ: حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مختصر رکعتوں کے سوا کوئی نماز نہ پڑھتے تھے۔
4۔ فجر کی سنتوں میں قرأت:
فجر کی دو سنتوں میں قرأت کے حوالہ سے تین روایات ہیں؛
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [مسلم: 1690] ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتوں میں (قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُ‌ونَ) اور (قُلْ هُوَ اللہ أَحَدٌ) تلاوت کیں۔
❄ عَن سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ وَفِي الْآخِرَةِ مِنْهُمَا آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ(آل عمران:52) [مسلم: 1691]
ترجمہ: سعید بن یسار سے روایت ہے کہ انھیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتوں میں سے پہلی میں (قرآن مجید سے آیت) (قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا) (والاحصہ) پڑھتے جو سورہ بقرہ کی آیت ہے اور دوسری میں (آل عمران کی آیت)(آمَنَّا بِالله وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ)(والا حصہ) پڑھتے۔
❄ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَالَّتِي فِي آلِ عِمْرَانَ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ(آل عمران:64) [مسلم: 1692]
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ َ فجر کی دو رکعتوں میں (قرآن مجید میں سے)( قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا)(والا حصہ) اور جو سورہ آل عمران میں ہے(تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (والاحصہ) پڑھا کرتے تھے۔
5۔ سنتوں کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر لیٹنا:
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلصَّلَاةِ [بخاری: 994] ترجمہ: حضرت عائشہ‎‎رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولﷺ ‎ فجرکی نماز فرض سے پہلے ‎آپ سنت دو رکعتیں پڑھتے تھے اس کےبعد (ذرادیر) داہنے پہلوپرلیٹ رہتے یہاں تک مؤذن بلانےکےلئےآپ کے پاس ‎‎‎‎‎‎‎‎‎آتا۔
6۔ فجر کی سنتیں نمازِ فجر کے بعد ادا کرنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :
إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاة فَلَا صَلَاة إِلَّا الْمَکْتُوْبَة[مسلم: 710]
’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اس سے پتہ چلا کہ فجر کی سنتیں اقامت ہونے کے بعد ادا نہیں کرنی چاہئیں بلکہ نماز کے بعد ادا کی جائیں. جیسا کہ واضح احادیث سے پتہ چلتا ہے
حضرت قیس بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ( مسجد میں ) تشریف لائے۔نماز کی اقامت کہی گئی ۔ میں نے آپ ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی ۔ پھر آپ ﷺ (گھر کو) جانے لگے تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَهْلًا یَا قَیْسُ! أَصَلَاتَانِ مَعًا؟)) ’’ٹھہر جاؤ قیس ! کیا دو نمازیں ایک ساتھ؟‘‘
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ((فَلَا إِذَنْ)) ’’ تب کوئی بات نہیں ۔ ‘‘[ترمذی: 422 صححہ الألبانی]
جبکہ حضرت قیس کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے فجر کی نماز ہونے کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((صَلَاة الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ)) ’’نمازِ فجر کی صرف دو رکعات ہیں‘‘
ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ((أَصَلَاة الصُّبْحِ مَرَّتَیْن؟))
’’ کیا تم نے فجر کی نماز دو مرتبہ ادا کی ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں ، اب وہی سنتیں میں نے ادا کی ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
[ ٔبو داؤد: 1267 ، ابن ماجہ: 1154 صححہ الألبانی]
اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَكْعَتَیْ الْفَجْرِ فَلْیُصَلِّهمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ [ترمذی: 423 ، ابن حبان: 4272 صححہ الألبانی[
’’ جو شخص فجر کی دو رکعات نہ پڑھ سکا ، وہ طلوعِ آفتاب کے بعد انہیں ادا کرلے ۔ ‘‘
اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب آپ سفر میں نماز فجر کے وقت سوئے رہ گئے تو آپ ﷺ نے فجر کی سنتیں بھی قضا کیں اور انہیں فرض نماز سے پہلے ادا کیا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرض نماز ادا فرمائی اور یہ سورج کے بلند ہونے کے بعد تھا۔ [مسلم: 681]
اور حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ فجر کی سنتیں نیند کی وجہ سے نہیں پڑھ سکے تھے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلوعِ آفتاب کے بعد قضا کیا۔ [ابن ماجہ: 1155 صححہ الألبانی]
نمازِ فجر پڑھنے کے فوائد
دیدارِ الٰہی نصیب ہوگا:
قَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ نَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، فَقَالَ: «أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لاَ تُضَامُّونَ – أَوْ لاَ تُضَاهُونَ – فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، فَافْعَلُوا» ثُمَّ قَالَ: «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا» [بخاری: 573 ، مسلم: 633]
ترجمہ: سیدنا جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی؛
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا
"پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔”
جنت کا داخلہ نصیب ہوگا:
عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى البَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ» [بخاری: 574 ، مسلم: 635]
ترجمہ: سیدنا ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں پڑھیں (فجر اور عصر) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
جہنم سے آزادی ملتی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَلِجُ النَّارَ مَنْ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَقَبْلَ غُرُوبِهَا» [مسلم: 1437]
ترجمہ: حضرت عمارۃ بن رویبہ کے بیٹے سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو انسان سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدَبَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ» [مسلم: 1493]
ترجمہ: انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جندب بن عبداللہ سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی و ہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری (امان )میں ہے۔
تہجد کا ثواب حاصل ہوتا ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْمَسْجِدَ بَعْدَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، فَقَعَدَ وَحْدَهُ، فَقَعَدْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ، يَا ابْنَ أَخِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ» [مسلم: 1491]
ترجمہ: امام عبدالرحمان بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان مغر ب کی نماز کے بعد مسجد میں تشریف لائے اور اکیلے بیٹھ گئے ، میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ، وہ کہنے لگے : بھتیجے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات کا قیام کیا اور جس نےصبح کی نماز (بھی) جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔‘‘
روزِ قیامت نور نصیب ہوگا:
عَنْ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:”بَشِّرْ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”[ترمذی: 223 صححہ الالبانی]
ترجمہ : بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور(بھرپوراجالے) کی بشارت دے دو۔
نمازِ فجر چھوڑنے کے نقصانات
شیطان مسلط ہوجاتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ،قَالَ:يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ إِذَا هُوَ نَامَ ثَلاَثَ عُقَدٍ، يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ مَكَانَهَا: عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ فَارْقُدْ، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ صَلَّى انْحَلَّتْ عُقَدُهُ كُلُّهَا، فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلاَنَ [بخاری: 3269]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب کوئی تم میں سے سویا ہوا ہوتا ہے ، تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگادیتا ہے خوب اچھی طرح سے اور ہر گرہ پر یہ افسون پھونک دیتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے۔ پڑاسوتا رہ۔ لیکن اگر وہ شخص جاگ کر اللہ کا ذکر شروع کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو خوش مزاج خوش دل رہتا ہے۔ ورنہ بدمزاج سست رہ کر وہ دن گزارتا ہے۔
منافق بندے کی نشانی:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اگر چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔ [بخاری: 657]
❄❄❄❄❄