نماز استسقاء

عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيِّ اليوم خرج يَسْتَسْقِي قَالَ: فَحَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ يَدْعُوْ، ثُمَّ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ ثُمَّ صَلَّى لَنَا رَكْعَتَينِ، جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ. (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب الاستسقاء، باب كيف حول النبي الله ظهره إلى الناس، صحيح مسلم: كتاب صلاة الاستقاء باب باب)
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایک دن دیکھا کہ استسقاء کے لئے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی ۔ پھر اپنی چادر پیٹی اور دو رکعت ہمیں نماز پڑھائی ۔ نماز میں آپ ﷺ نے قراءت قرآن بلند آواز سے کی۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ فحُوطَ المَطَرِ، فَأَمَرَ بِمنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي المُصَلَّى وَوَعَدَ النَّاسَ يَومًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ اللهُ حِيْنَ بَدَأَ حَاجِبُ الشمس، فَقَعَدَ عَلَى المِنبَرِ فَكَبَّرَ لَهُ ووَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكُم شكوتُمْ جَذَبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِنْخَارَ المَطرِ عَن إِيَّانَ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمْرَكُمُ الله عز وجل أن تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُم أن يستجيب لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُريد، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أنتَ الغَنِيُّ وَنَحْنُ الفُقَرَاءُ، انْزِلْ عَلَيْنَا الغيث واجْعَلْ مَا أَنزَلْتَ لَنا قُوَّةً وَبَلاعًا إلى حِينَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرفع حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبْطَيهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَقَلْبَ أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَهُوَ رَافِعٍ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سحابة فَرَعَدَتْ وبَرَقَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سالت السيول، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمُ إِلَى الكُنَّ ضَحِكَ ﷺ حَتَّى بَدَتُ نواجدهُ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
(أخرجه ابو داود).
(سنن أبو داود: كتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين في الاستسقاء وحسنه الألباني في صحيح سنن أبي داود: (1173)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بارش نہ ہونے کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ کے حکم سے آپ کے منبر کو نماز گاہ میں لے جایا گیا اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے اس کے لئے دن متعین کیا کہ اس میں نماز استسقاء کے لئے باہر نکلیں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے تو اس وقت سورج کا ایک کنارہ نظر آرہا تھا آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ آپ ﷺ نے ’’اللہ اکبر الحمدُ لِلَّهِ حَمَدًا كَثِيرًا طيبًا‘‘ کے کلمات فرمائے پھر آپ نے فرمایا: تم نے اپنے علاقے کے بارے میں قحط سالی کا شکوہ کیا کہ بارش اپنے وقت سے پیچھے ہوگئی ہے جب کہ اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اس نے تم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ تمہاری دعاؤں کو قبول کرے گا۔ بعد ازاں آپ نے فرمایا، ’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُريد، اَللّٰهُمَّ أَنْتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أنتَ الغَنِيُّ وَنَحْنُ الفُقَرَاءُ، انْزِلْ عَلَيْنَا الغيث واجْعَلْ مَا أَنزَلْتَ لَنا قُوَّةً وَبَلاغًا إلى حِينَ، (ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالی کے لئے ہے جو جہاں والوں کا پروردگار ہے ، رحم کرنے والا مہربان ہے ، جزا و سزا کے دن کا مالک ہے، صرف اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ اتو معبود برحق ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو بے پروا ہے اور ہم محتاج ہیں ہم پر بارش نازل کر اور نازل کردہ بارش کو ہمارے لئے باعث قوت اور کچھ وقت تک کے لئے (ضرورتوں کو پورا کرنے کا) ذریعہ بنا۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا یا اتنا اٹھایا کہ آپ کے دونوں بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی پیٹھے حاضرین کی جانب کی اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی چادر کو تبدیل کیا۔ پھر لوگوں کی جانب چہرہ کیا اور منبر سے اتر کر آپ نے دو رکعت نماز استسقاء ادا کی۔ پس اللہ تعالی نے بادل نمودار فرمایا وہ گرجا اور چمکا پھر اللہ تعالی کے حکم سے بارش ہوئی ابھی آپ مسجد میں نہیں پہنچ پائے تھے کہ وادیاں بہنے لگیں جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ پناہ گاہوں کی جانب لپک رہے ہیں تو آپ مسکرا دیئے یہاں تک کہ آپ کے داڑھ کے دانت نظر آ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’أشهد أن الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ‘‘ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)۔
وَعَن ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ خَرَجَ مُتَبَدِّلاً مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا (أخرجه الترمذي).
(سنن ترمذي: أبواب السفر، باب ما جاء في صلاة الاستسقائ، وقال حسن صحيح وحسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة (1266)
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی نے بڑی تواضع کے ساتھ ، سادہ لباسی اور نہایت عاجزی و انکساری کرتے ہوئے نماز کے لئے باہر نکلے۔
تشریح:
جب قحط سالی ہو اور بارش روک دی گئی ہو تو اس صورت میں آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ مسلمان عاجزی، نہایت خشوع و خضوع اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نماز استقاء کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلیں وہاں پر امام دو رکعت نماز پڑھائے اور خطبہ دے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے اور بارش کے لئے دعا کرے۔ لیکن اگر کھلے میدان میں نماز پڑھنے کا انتظام نہ ہو جیسا کہ شہروں میں کھلی جگہ نہیں ہوتی ہے تو ایسی صورت میں مسجدوں میں استقاء کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
فوائد:
٭ نماز استعفاء دو رکعت پڑھنا اور نماز کے بعد چادر کا پالنا مستحب ہے۔
٭ نماز سے قبل یا بعد میں خطبہ دینا جائز ہے۔
٭ نماز استقاء کے لئے نہایت خشوع اور عاجزی وانکساری کے ساتھ نکلنا مستحب ہے۔