نماز استسقاء اور کسوف

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ۝۱۳۰ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا َعْلَمُوْنَ۝۱﴾ (الاعراف: 130، 131)
’’اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں تاکہ وہ سمجھ جائیں پس جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہیے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آجاتی تو موسی اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے خبر دار ہو جاؤ ان کی نحوست اللہ کے علم میں ہے لیکن اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے۔‘‘
یعنی جب لوگ خدا کی نافرمانی کے کاموں میں لگ جاتے ہیں تو ان کو قحط اور دیگر مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
(لمْ يَنْقُصُ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَالْمِيرَانَ إِلَّا أَخِذُوا بِالسَّنِينَ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكوة أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يَمْطَرُوا)[1]
’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس کو قحط سالیوں کی سخت مصیبتوں اور بادشاہوں کے علم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیتے ہیں ان سے بارش روک لی جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن ماجة: كتاب الفتن باب العقوبات، رقم الحديث: 4019، مستدرك”540/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی۔‘‘
بارش برسانے اور قحط دور کرنے کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی جاتی ہے۔ اور نماز پڑھی جاتی ہے اس کو استسقاء کہتے ہیں رسول اللہﷺ کے زمانے میں جب کال پڑا تو آپ نے ایک دن اور ایک وقت مقرر کر کے سب میں اعلان کرایا کہ پانی طلب کرنے کے لیے فلاں میدان میں جمع ہو جاؤ۔ تاریخ معینہ پر سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ سورج نکلتے ہی نہایت عاجزی تواضع خاکساری سے سادہ اور معمولی لباس پہن کر عید گاہ تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز عیدین کی نماز کی طرح ادا کی یعنی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانی تکبیریں کہ کر نماز پڑھائی اس کے بعد خطبہ دیا اور کبھی نماز سے پہلے خطبہ دیا اور دعا کے لیے بہت اونچے ہاتھ اٹھائے ہاتھ ہتھیلیاں زمین کی طرف اور پشت کو آسمان کی جانب رکھا اور چادر کو اس طرح الٹا کہ چاروں کونے بدل گئے یعنی نیچے کا اوپر اور اوپر کا نیچے اور دائیں کا بائیں جانب اور بائیں کا دائیں جانب ہو جاتا اس نماز کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُصَلَّى فَاسْتَسْقَى وَحَوَّلَ رِدَائَهُ حِيْنَ اسْتَقْبَل الْقِبْلَةَ وَبَدَا بِالصَّلوةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَا)[1]
’’رسول الله صل اعلام استسقاء کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور استقبال قبلہ کے وقت چادر مبارک کو الٹ دیا اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کی پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا کی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نماز پڑھائی بعد میں خطبہ دیا جمہور ائمہ کا یہی مسلک ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں لوگوں نے قحط سالی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا عیدگاہ میں منبر رکھا جائے چنانچہ منبر عیدہ گاہ میں رکھا گیا آپ نے لوگوں سے وعدہ فرمایا کہ فلاں دن آئیں گے صبح کو سورج نکلنے کے بعد ہی وہاں تشریف لے گئے آپ نے منبر پر بیٹھ کر حمد و ثناء کی اور اللہ اکبر کہا اس کے بعد لوگوں سے فرمایا تم نے قحط سالی کی شکایت کی ہے کہ بارش کا زمانہ ختم ہو رہا ہے اور بارش ابھی تک نہیں ہوتی ہے ایسی حالت میں اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دعا کرو، اس نے قبولیت کا وعدہ کیا ہے پھر آپ نے خطبہ دیا۔
(الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ اللَّهُمَّ أَنتَ اللهُ لا إلهَ إِلَّا أَنتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءِ انْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ وَاجْعَلْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 41؍4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَا أنزَلْتَ عَلَيْنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ).[1]
’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کی پرورش کرنے والا ہے نہایت مہربان نہایت رحم والا ہے جزا کے دن کا مالک ہے خدا کے سوا کوئی بندگی کے قابل نہیں وہ جو چاہے کر ڈالے۔ اے اللہ! تو ہی سچا معبود ہے تو بے نیاز ہے ہم سب تیرے محتاج ہیں۔ تو ہم پر مینہ برسا اور جس قدر بر سائے اس سے ہمیں قوت دے اور ایک مدت تک فائدہ پہنچا۔‘‘
اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو خوب اونچا اٹھا کر دعائیں کیں پھر لوگوں کی طرف پیٹھ پھیر کر چادر کوالٹ دیا۔ پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے منبر سے اتر کر دو رکعت نماز پڑھائی (ابوداؤد)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے خطبہ دیا بعد میں نماز پڑھائی اس لیے ائمہ کرام کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے لیکن عیدین کی طرح یعنی نماز کے بعد خطبہ دینا اولی ہے۔
قرآت بالجہر ہونی چاہیے کیونکہ رسول اللہﷺ نے جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ.[3]
دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرآت کی استقاء کی۔ نماز میں بہت کسی دعائیں میں نبیﷺ ذیل کی دعائیں پڑھا کرتے تھے:
(اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيْثًا مَّرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ اٰجِلٍ رَائِثٍ) [4]
’’اے اللہ! تو ہمارے اوپر بارش برسا دے جو فریاد کو پہنچنے والی ہو بہت بہت شادابی اور رزاقی کرنے والی ہو نفع دینے والی جلدی برسنے والی نہ دیر کرنے والی ہو۔‘‘
(اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائَمْكَ وَانْشُرْ رَحْمَتِكَ وَاْحِي بَلَدَكَ الْمَيِّت).[5]
’’اے اللہ! تو اپنے بندوں اور جانوروں کو سیراب کر اور اپنی رحمت کو پھیلا دے اور اپنی مردہ زمین کو زندہ کر دے۔‘‘
(اللهُمَّ انْزِلْ عَلٰى أَرْضِنَا زِينَتَهَا وَ سُكْنَهَا).[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابی داود:455/1، کتاب الصلاة باب رفع اليدين في الاستسقاء رقم:1169. و مستدرك:328/1.
[2] نيل الأوطار: 7/4.
[3] بخاري: 139/1 کتاب الاستسقاء باب الجهر بالقرأت في الاستسقاء، رقم الحديث:
1024.
[4] سنن ابی داود:454/1 كتاب الصلاة باب رفع اليدين في الاستسقاء رقم الحديث:1165.
[5] سنن ابی داود: 457/1، کتاب الصلاة باب رفع اليدين في الاستسقاء رقم الحديث 1172.
[6] طبراني كبير، 217/7، رقم الحديث: 6904، 6928، 6952، 7095.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ! تو اتار دے ہماری زمین پر اس کی زینت اور اس کے آرام کو۔‘‘
ان کے علاوہ بہت سی دعائیں ہیں جو ہم نے اسلامی وظائف میں لکھی ہیں وہاں سے دیکھ کر یاد کر لو۔
صلوة کسوف یعنی سورج اور چاند گرہن کی نماز
اللہ تعالی سورج اور چاند کی روشنیوں کو کبھی کبھی چھین لیتا ہے دن ہوتا ہے مگر روشنی نہیں رہتی یا بہت کم ہو جاتی ہے چاند نکلا ہوتا ہے لیکن روشنی ہلکی ہو جاتی ہے محاورہ میں اس کو گہن لگنا کہتے ہیں جب ایسی حالت ہو جائے تو اسی وقت توبہ واستغفار کرنا چاہیے تضرع اور آہ وزاری کرنی چاہیے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے اور دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے اس نماز کو صلوۃ الکسوف چاند اور سورج گرہن کی نماز کہتے ہیں گہن میں تفاوت رہتا ہے کہیں جلدی صاف ہو جاتا ہے اور کہیں دیر میں صاف ہوتا ہے اسی وجہ سے دو رکعت نماز میں بھی ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع کرنے پڑتے ہیں یعنی اگر دیر میں صاف ہونے کا اندازہ ہو تو ہر ایک رکعت میں دو رکوع کر لیے جائیں اور اگر جلدی صاف ہو جانے کا خیال ہو تو ہر ایک رکعت میں ایک رکوع کافی ہے رسول اللہﷺ کے مبارک زمانہ میں اگر سورج یا چاند کو گرہن لگتا تو آپ اسی ترکیب سے نماز ادا فرماتے تھے۔[1]
اس کی تشریح و توضیح یہ ہے کہ تم دو رکعت نماز صرف اس طرح پڑھو کہ تکبیر تحریمہ کے بعد عام مسنونہ دعائیں پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی لمبی سورہ بقرہ یا سورہ آل عمران وغیرہ پڑھ کر رکوع کرو اس رکوع میں بہت دیر تک مسنونہ دعا میں پڑھو پھر رکوع سے سر اٹھا کر قومہ کرو ابھی سجدو نہ کرو بلکہ اس قومہ میں سورہ فاتحہ پڑھ کر اور کوئی بڑی سورت پڑھ کر پھر رکوع کرو یہ رکوع کرنے کے بعد کھڑے ہو جاؤ ۔ اب دو رکوع ہو گئے اگر گہن کا انداز یہ ہے کہ دیر تک رہے گا تو پھر اس رکوع کے بعد پھر سورت فاتحہ اور کوئی سورت پڑھو جو پہلی سورتوں سے چھوٹی ہو اور اس کے بعد رکوع کرو اب تین رکوع ہو گئے اس کے بعد حسب دستور دو سجدے کر کے کھڑے ہو جاؤ اور دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھو کہ حسب موقع دو دو تین تین رکوع کرو لیکن یہ دوسری رکعت پہلی رکعت سے ہلکی ہونی چاہیے اور اس کا قیام رکوع اور سجدہ بھی پہلے سے ہلکے ہی ہوں اس کے بعد سلام پھیرو۔اگر بہت سے لوگ ہوں تو جماعت سے میں امام مذکورہ بالا قاعدے سے عیدین کی طرح آواز بلند سے دو رکعت نماز پڑھائے اور نماز کے خطبہ سنائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کسوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1 ]صحیح بخاری میں تین اور چار چار رکوعات کی روایات قطعًا نہیں۔ یہ حضرت مؤلف کا وہم ہے بلکہ بخاری و مسلم میں ایک رکعت میں دو دو رکوعات کا ذکر ہے۔
صحیح بخاری:142،143/1، كتاب الكسوف باب هل يقول كسفت الشمس او خسفت، رقم الحديث: 1047، و صحیح مسلم:295/1 كتاب الكسوف باب صلاة الكسوف رقم الحديث 2089.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے بعد خطبہ دیا تھا۔[1]

کسوف میں ذکر الہی دعا صدقہ و خیرات کرو اور نماز پڑھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ايَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللہ لایخسفان لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُو اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَتَصَدَّقُوا وَصَلُّوا)[2]
’’سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے کی وجہ سے ان میں گہن نہیں لگتا جب گہن دیکھو تو اللہ تعالی سے دعا کرو اور اس کی بڑائی کرو، صدقہ کرو اور نماز پڑھو۔‘‘
زلزلہ کی نماز
اللہ کے حکم سے زمین ملنے لگتی ہے اور اس کو زلزلہ یا بھونچال کہتے ہیں گہن کی طرح زلزلہ میں بھی نماز پڑھنے کا حکم ہے اس کی بھی دو رکعت ہیں اور گہن کی طرح ہر رکعت میں دو دو تین تین رکوع کر کے پڑھی جاتی ہے جو ترکیب گہن کی نماز کی ہے وہی ترکیب زلزلہ کی نماز کی بھی ہے۔
(عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضى الله عنهما صَلَّى فِي زَلْزَلَةٍ سِتَ رَكُوْعَاتٍ وَارْبَعَ سَجَدَاتٍروَقَالَ هَكَذَا صَلوةُ الْآيَاتِ).[3]
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی ع نہ نے زلزلہ کی نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے کیے اور فرمایا کہ قدرتی نشانیوں کی نماز اسی طرح ہوتی ہے۔‘‘
یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے زلزلے میں دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں دو دو تین تین رکوع کیے دو رکعتوں میں چار سجدے کیے۔ صاحب سبل السلام فرماتے ہیں:
(رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مُخْتَصَرًا أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى بِهِمْ فِي زَلْزَلَةٍ أَرْبَعَ سَحَدَاتٍ رَكَعَ فِيهَا سِتًّا وَ ظَاهِرُ اللَّفْظِ أَنَّهُ صَلَّى بِهِمْ جَمَاعَةً وَإِلَى هٰذَا ذَهَبَ الْقَاسِمُ مِنَ الْآلِ وَقَالَ يُصَلَّى لِلْأَفْرَاعِ مِمَّا صَلوةَ الْكُسُوفِ وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ وَ وَافَقَهُ عَلَى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]، [2] صحیح بخاري:142/1، کتاب الكسوف باب الصدقة في الكسوف، رقم الحديث 1044.
و صحيح مسلم: 295/1 كتاب الكسوف باب صلاة الكسوف رقم الحديث:2089، 2090.
[3] سنن الكبرى للبيهقي:343/3 یہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے موقوفا مروی ہے۔ اور سند میں کوئی علت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذلِكَ أَحْمَدُ بْن حَنْبَلٍ وَلَكِنْ قَالَ كَصَلوةِ الْكُسُوفِ).[1]
ابن ’’ابی شیبہ نے اس اثر کو مختصر روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے زلزلہ میں دو رکعت نماز پڑھائی دونوں رکعتوں میں چار سجدے کیے اور چھ رکوع کیے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جماعت سے نماز پڑھائی یہی رائے امام قاسم ہی کی بھی ہے کہ خوف کے وقت گہن جیسی دو رکعت نماز پڑھی جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے موافق ہو کر فرماتے ہیں کہ زلزلہ میں گہن جیسی نماز ہونی چاہیے۔
مغنی ابن قدامہ میں ہے۔
(يُصَلّٰي لِلزَّلْزَلَةِ كَصَلوةِ الْكُسُوفِ).
’’زلزلہ کی نماز بھی کہن کی طرح پڑھی جائے۔‘‘
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلُوةُ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ)
………………………………………………………