نماز کی ادائیگی کا طریقہ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ [المؤمنون: 1-2]
آج ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو بہت سارے لوگ بے نماز ہیں جو نماز پڑھتے ہی نہیں اور دوسری طرف بہت بڑی تعداد ان نمازیوں کی ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں نماز کی پابندی کرتے ہیں، نماز کے لیے دکان، فیکٹری، کارخانہ، گھر بار اور مزدوری چھوڑ کر مسجد میں آتے ہیں لیکن وہ نماز کی ادائیگی قرآن وسنت کے مطابق نہیں کرتے۔ حالانکہ نماز کی قبولیت کی شرائط میں سے ہے کہ نماز قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے عملی نمونے اور قولی ہدایات کے عین موافق ہو۔ قرآن کریم میں نماز کے لیے: اَقِیْمُوا، أَقَامُوا، يُقِيْمُونَ اور مُقِیْمِیْنَ جیسے الفاظ بولے گئے ہیں ان الفاظ کا مطلب یہی ہے کہ نماز کی تمام شروط آداب اور حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے پابندی سے نماز ادا کرو یعنی وقت بھی درست ہو۔ جماعت کا بھی اہتمام ہو ظاہری ارکان (قیام، رکوع، سجود اور قعدہ وغیرہ) بھی سنت کے مطابق ہوں اور دل خشیت الہی اور اخلاص وللّٰہیت سے پر ہو۔ جب یہ تمام شروط اور آداب ملحوظ رکھتے ہوئے نماز ادا کی جائے گی تو وہ نماز خشوع والی نماز ہوگی، جس کے بارے میں رب کائنات ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ [المؤمنون: 1-2]
’’مؤمن فلاح پا گئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔‘‘
اور جو لوگ ان آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے انہیں سخت وعید سنائی گئی ہے مثلا: ارکان نماز میں کوتاہی کرنے والے اور برق رفتاری سے نماز ادا کرنے والے کے متعلق ناطق وحی ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا جب کہ رسول اللهﷺ مسجد کے کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس شخص نے نماز ادا کی۔ بعد ازاں وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے السلام علیکم کہا رسول اللہﷺ نے (جواب میں) وعلیکم السلام کہا اور فرمایا:
(ارْجِعُ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ)
’’واپس جاؤ اور نماز ادا کرو تم نے نماز ادا نہیں کی۔‘‘
وہ واپس گیا اور اس نے نماز ادا کی۔ بعد ازاں وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور السلام علیکم کہا رسول اللہ ﷺ ہم نے (جواب میں وعلیکم السلام کہا (اور فرمایا ):
(ارْجِعُ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ)
’’واپس جاؤ اور نماز ادا کرو تم نے نماز ادا نہیں کی۔‘‘
چنانچہ اس شخص نے تیسری دفعہ یا اس کے بعد (چوتھی مرتبہ) عرض کیا:
عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ!
’’اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے نماز ادا کرنے کی تعلیم دیں۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تیرا ارادہ نماز ادا کرنے کا ہو تو ٹھیک ٹھیک وضو کر پھر قبلہ رخ کھڑا ہو اور اللہ اکبر کہہ۔ پھر جس قدر قرآن پاک کی آسانی سے تلاوت ہو سکے تلاوت کر۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کر پھر رکوع سے سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہو جا پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر پھر سجدہ سے سراٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جا۔ پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الاذان، باب أمر النبي ﷺ الذي لا يتم ركوعه ما لا عادة (793)[
اور ایک روایت میں ہے کہ
’’پھر سیدھا کھڑا ہو جا پھر اسی طرح اپنی تمام نماز میں کر۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الاستئذان، باب من رد فقال عليك السلام (6251) (757)]
اور صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
’’یہ منافق کی نماز ہے۔ وہ بیٹھا رہتا ہے سورج (کے غروب ہونے) کا انتظار کرتا ہے۔ جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے (سر کے) دونوں کناروں کے درمیان ہوتا ہے تو منافق (نماز کے لیے) کھڑا ہوتا ہے۔ اور جلدی جلدی چار رکعت ادا کرتا ہے ان میں بہت ہی کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب استحباب التبكير بالعصر (622)]
رکوع و سجود درست نہ کرنے والے کے متعلق امام الانبیاءﷺ نے فرمایا: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’تمام لوگوں سے بہت برا چور وہ ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:
يَارَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِهِ؟ قَالَ: (لَا يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا) [المؤطا الامام مالك، الصلاة، باب العمل في جامع الصلاة (167/1) و احمد (310/5)]
’’اے اللہ کے رسول! نماز کی چوری کیسے ہے؟ آپ مسلم نے فرمایا: ’’وہ رکوع وسجود کو پورا ادا نہیں کرتا۔‘‘
حضرت طلق بن علی حنفی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ عزو جل اس بندے کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جونماز کے رکوع اور سجود میں اپنی کمر کوسیدھا نہیں کرتا۔‘‘[مسند احمد (22/4) رقم:16392]
اور آپ ﷺ بکثرت فرمایا کرتے تھے:
(صلو کما رایتمونی اصلی)[صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس و البھائم (60089 ومسلم (391) و ابو داؤد (589)]
’’لوگو! نماز اس طرح پڑھا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
لیکن آج ہم دنیاوی کام تو چند سالوں، چند مہینوں ، چند ہفتوں اور چند دنوں میں اچھی طرح سیکھ لیتے ہیں لیکن سالہا سال سے نمازیں پڑھنے کے باوجود ہماری نمازیں درست نہیں ہوتیں۔ اس لیے آج کے خطبے میں نماز کے ظاہری ارکان و افعال کا درست طریقہ اور مسنون انداز بیان کیا جائے گا تاکہ ہماری نمازیں قرآن و سنت کے مطابق اور بار گاہ الہی میں مقبول ومنظور ہوں۔
رفع الیدین:
نماز میں سب سے پہلا عمل رفع الیدین ہے جس کا مطلب یہ ہےکہ دونوں ہاتھوں کواٹھانا۔ یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس کا مقصد اللہ کی تعظیم بجا لانا ہے (جس طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے) اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ (طبعی حالت میں) اپنے دونوں کندھوں یا کانوں کے برابر اٹھائے جائیں۔ جس طرح صحیحین وغیرہ میں بہت ساری احادیث میں وضاحت موجود ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نمازکا آغاز کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح ہاتھ اٹھاتے۔ اور سجدے میں (جاتے ہوئے) اس طرح نہیں کرتے تھے۔[صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب رفع الیدین اذا کبر…(737) و مسلم(390)]

صحیح بخاری میں ہے حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع یدین کرتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عمل کو نبی ﷺ تک مرفوع ذکر کیا ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب رفع اليدين لذا قام من الركعتين (739) وابوداؤد (741) و احمد (100/4)]
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نہیں ﷺ جب اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں کانوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے تھے (یعنی رفع یدین کرتے تھے) اور ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب رفع اليدين لذا كبر – (737) و مسلم (391) و احمد (346/3)]
لیکن آج بہت سارے لوگ رفع الیدین درست نہیں کرتے۔ بعض لوگ کندھوں سے بھی نیچے محض جھٹکا اور اشارہ کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ مبالغہ کرتے ہوئے انگوٹھے کانوں کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ اور بعض لوگ رفع الیدین میں کانوں کو پکڑ لیتے ہیں۔ یہ تمام طریقے غلط ہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ اطمینان کے ساتھ کندھوں یا کانوں کے برابر اٹھائے جائیں۔
نماز میں رفع الیدین کے چار مقامات ہیں:
پھلا مقام: نماز کی ابتداء کرتے وقت۔
دوسرا مقام: رکوع سے پہلے (یعنی رکوع جاتے وقت)۔
تیسرا مقام: رکوٹ سے سر اٹھانے کے بعد۔
چهوتها مقام: تیسری رکعت کی ابتداء کرتے وقت۔

یہ چاروں مقامات بے شمار احادیث سے ثابت ہیں، حتی کہ بعض محققین اور محمدثین نے رفع الیدین کی تین سو کے قریب احادیث جمع کی ہیں۔
بعض لوگ صرف پہلے مقام پر رفع الیدین کرتے ہیں اور باقی تین مقامات میں رفع الیدین نہیں کرتے اور اس کی بڑی مخالفت کرتے ہیں اور ان تین مقامات پر رفع الیدین کرنے کو انتہائی بری چیزوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اور طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں لیکن یاد رکھیے وہ رفع الیدین کے متعلق جو بھی اعتراض کریں گے خود اس کی زد میں آئیں گے۔
اگر وہ کہیں کہ رفع الیدین خشوع کے منافی ہے تو ہم مودبانہ گزارش کریں گے کہ جناب آپ خود نماز کی ابتداء ایسے عمل سے کیوں کرتے ہیں جو خشوع کے منافی ہے؟
اگر وہ کہیں: کہ رفع الیدین بت گرانے کے لیے تھا بعد میں منسوخ کر دیا گیا تو ہم ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ جناب آپ لوگ خود نماز کی ابتداء میں یہ عمل کر کے بت گرا رہے ہیں؟
اگر وہ کہیں: کہ رفع الیدین سرکش گھوڑوں کی طرح دم ہلانا ہے تو ہم عرض کریں گے کہ جناب آپ لوگ خود نماز کی ابتداء میں قنوت وتر میں اور تکبیرات عیدین میں یہ دم کیوں ہلاتے ہیں۔
اگر وہ کہیں کہ رفع الیدین (معاذ اللہ) مکھیاں جھلنا ہے تو ہم احتراما گزارش کریں گے کہ آپ لوگ خود نماز کی ابتداء میں، قنوت وتر میں اور تکبیرات عیدین میں مکھیاں کیوں جھلتے ہیں؟
غرضیکہ ان کا رفع الیدین کے خلاف ہر اعتراض ان کی طرف ہی لوٹ کر جائے گا۔ یاد رکھیئے رفع الیدین نہ خشوع کے منافی ہے۔ نہ بت گرانے کے لیے ہے۔ نہ دم ہلانے کی طرح ہے۔ نہ مکھیاں جھلنا ہے۔ بلکہ یہ تو میرے پیغمبر کی پیاری سنت ہے اس لیے سنت کے متعلق ایسی باتیں کرنا ایک کلمہ گو مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔

قیام:
یہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہو کر تعظیم بجالانے کا زبردست اظہار ہے۔ قیام کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سر قدرے جھکا ہوا ہو۔ اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ یا کلائی یا بازو پر رکھا ہو (تینوں طریقے درست ہیں) مردوزن دونوں کے لیے ہاتھ سینے پر باندھنا ہی شرعاً عقلاً اور مشاہدہ بہتر اور عمدہ ہے۔ یہی طریقہ صحیح ابن خزیمہ میں صراحت اور صیح البخاری وصحیح مسلم میں اشارہ مذکور ہے۔ حضرت سہل بن سعدرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو حکم دیا جاتا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں کلائی پر رکھے۔[صحيح البخاري، كتاب الاذان، باب وضع اليمني على اليسری (740) و احمد (336/5)]
رکوع:
یہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عاجزانہ طور پہ جھکنے کا نام ہے یہ بھی ارکان نماز میں ایک اہم رکن ہے۔ جس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کمر برابر جھکائی ہو۔ سرنہ نیچے لٹکا ہو، نہ اوپر کو اٹھا ہوا ہو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنوں کو مضبوطی سے تھاما ہو۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی شخص کی نماز صحیح نہیں جب تک کہ وہ رکوع اور سجدہ میں اپنی پیٹھ کو برابر نہیں کرتا۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب صلاة من لا يقيم صلبہ… (855) صحيح۔ و ابن ماجه (870)]
یہ رکوع اس قدر اہم رکن ہے کہ قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر پوری نماز پر لفظ رکوع بولا گیا ہے۔
اللہ رب العزت سورة البقره آیت 43 میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَأَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَأٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرَّکِعِيْنَ﴾ [البقرة:43]
’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
اور سورة المرسلات آیت نمبر 48 میں ارشاد ربانی ہے:
﴿وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ﴾ [المرسلات: 48]
’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ رکوع کر لو تو نہیں کرتے۔‘‘
قومہ:
رکوع سے سر اٹھا کر سیدھا کھڑے ہونے کو قومہ یا رفع من الرکوع کہتے ہیں۔ اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انسان بڑے اطمینان کے ساتھ سیدھا کھڑا ہو۔ دونوں ہاتھ اور تمام اعضاء بدن اپنی طبعی حالت پر ہوں یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر تعظیم بجالانا ہے۔
سجده:
قومے کے بعد اس انداز میں سجدے میں گرنا ہے کہ دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر لگیں۔ سجدے میں گرنے کی یہ کیفیت قرآن کریم سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 107 میں اشارہ اور کتب حدیث میں صراحت مذکور ہے اور اسی انداز میں اظہار عاجزی زیادہ ہے رب کائنات اعلان فرماتے ہیں:
﴿قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل: 107]
’’کہہ دیجئے ا تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔‘‘
پھر سجدے کی کیفیت یہ ہے کہ سات اعضاء زمین پر لگے ہوں۔ دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے دونوں پاؤں اور تاک و پیشانی۔ دونوں ہاتھوں کی کیفیت یہ ہو کہ انگلیاں آپس میں ملی ہوں اور سر دونوں ہاتھوں کے درمیان ہو کمر او پر کو اٹھا رکھی ہو پاؤں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رخ کی جائیں۔ بازو زمین پر بچھے نہ ہوں اور پیٹ کو رانوں پر نہ رکھا ہو بلکہ رانوں سے اوپر اور جدا ہو۔ نیز دونوں پاؤں آپس میں ملے ہوں۔ متفق علیہ روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
پیشانی، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے کنارے نیز (فرمایا:)
’’ہم کپڑوں اور بالوں کو بند نہ کریں۔‘‘[بخاری و مسلم، كتاب الصلاة، باب أعضاء السجود والنهي عن كف الشعر (491) و ابوداؤد (891)]
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سجدے میں اعتدال اختیار کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے بازوؤں کو کتے کے پھیلانے کی طرح نہ پھیلائے‘‘[صحيح البخاري، كتاب الاذان (822) و مسلم (493)]
اور صحیح مسلم میں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب آپ سجدہ کریں تو اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھیں اور اپنی کہنیوں کو (زمین سے) اٹھا کر رکھیں۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب الاعتدال في السجود (494) و ابن خزيمة (656)]
مرد و زن دونوں کا سجدہ ایک ہی طرح ہے عورت کا زمین کے ساتھ چپک کر سجدہ کرنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔
قعده:
دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کو قعدہ کہتے ہیں اور اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھا جائے اور دایاں پاؤں کھڑا کیا جائے اور بڑے اطمینان کے ساتھ بیٹھا جائے اور دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھے جائیں۔

جلسه استراحت:
پہلی اور دوسری رکعت سے اٹھتے وقت اطمینان سے بیٹھ کر اٹھا جاتا ہے اسے جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ سجدے سے پاؤں کے اگلے سروں پر سیدھا اٹھ کھڑا ہوتا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ بلکہ بیٹھ کر اٹھنا اور دونوں ہاتھوں پر سہارا لے کر اٹھنا مسنون اور درست ہے۔
تشهد:
پہلے تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ قعدہ والا ہی ہے لیکن دوسرے تشہد میں بائیں سرین کو زمین پہ رکھنا اور دونوں پاؤں بائیں جانب سے باہر نکالنا مسنون عمل ہے اسے توّرک کہتے ہیں۔ اور دونوں تشہدوں میں دائیں ہاتھ سے ترپن کی گرہ بنائیں یا دو انگلیاں بند کر کے درمیان والی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنائیں اور سبابہ (شہادت کی انگلی) سے دونوں تشہدوں میں وقتا فوقتا اشارہ کرتے رہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تو اپنے بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر اور دائیں ہاتھ کو دائیں گھٹنے پر رکھتے تھے اور ترپن (ہندسے) کی گرہ بناتے اور انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرتے۔[صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب صفة الجلوس في الصلاة (913) و احمد (65/2)]
ایک اور روایت میں جب نماز میں بیٹھتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھتے اور (دائیں ہاتھ) کی وہ انگلی جو انگوٹھے کے ساتھ کی ہے اس کو اٹھا کر رکھتے اس کے ساتھ اشارہ کرتے لیکن بائیں ہتھیلی ہائیں گھٹنے پر رکھتے اس کو اس پر پھیلا کر رکھتے۔[صحيح مسلم ايضا (913) والبيهقي (130/2]
سلام پھیرنا:
پہلے دائیں طرف سلام پھیریں اور سلام پھیرتے وقت چہرہ اس قدر موڑیں کہ پیچھے والوں کو رخسار نظر آئے پھر اسی طرح بائیں جانب سلام پھیریں۔ سلام پھیرتے وقت دائیں یا بائیں کندھے کو دیکھنا اور دائیں بائیں ہاتھ سے اشارہ کرنا ممنوع اور غیر مسنون ہے۔
نگاه و نظر:
پوری نماز میں نگاہ سجدہ والی جگہ پر رکھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے انس رضی اللہ تعالی عنہ سے (مخاطب ہو کر) فرمایا:
’’اے انس! تو اپنی نظر سجدے کی جگہ پر رکھ۔‘‘[صفة صلاة النبي للالباني (ص (151).]
نماز میں دائیں یا بائیں مڑنا انتہائی خطرناک گناہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے نماز میں التفات کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شیطان کی چھینا جھپٹی ہے جو وہ بندے کی نماز سے چھین لیتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب الالتفات في الصلاة (751) و احمد (70/6)]
آج اس سلسلے میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے۔
نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھانا بھی خطرناک اور مہلک گناہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی آنکھوں کو آسمان کی جانب اٹھانے سے رک جائیں یا ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی۔[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب النهي عن رفع البصر إلى السماء في الصلاة (429) و احمد(333/2]
رکوع میں دو پاؤں کے درمیان نظر رکھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
اگر باجماعت نماز ہو رہی ہو تو چند مزید آداب ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پوری کوشش کرے کہ تکبیر اولی میں شامل ہو۔
اس کی بڑی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے اس سلسلے میں صحابہ و تابعین اور فقہاء و محد ثین کے بڑے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔
صف اول میں کھڑا ہو:
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور مردوں کی سب سے کم ثواب والی صف آخری ہے اور عورتوں کی بہترین صف آخری اور کم فضیلت والی پہلی صف ہے۔[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها … (440) و ابوداود (678)]
اور متفق علیہ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (خیر و برکت) ہے تو پھر وہ اذان اور پہلی صف کو قرعہ اندازی کے علاوہ حاصل نہ کر سکیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں گے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف… (660)]
امام کے دائیں جانب کھڑا ہونے کی کوشش کرے:
سنن ابی داؤد کی روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى مَيَامِنِ الصُّفُوفِ) [سنن ابی داود، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف (664) و صحیح ابی داود (618)]
’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے صفوں میں دائیں جانب والوں پر سلام کرتے ہیں۔‘‘
صف بندی کرے، پاؤں قبلے کی طرف سیدھے کر کے ساتھی کے پاؤں کے ساتھ ملائے، کندھے سے کندھا ملائے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو برابر کرتے گویا کہ تیروں کے ساتھ صفوں کو درست کر رہے ہیں یہاں تک کہ آپﷺ نے محسوس کیا کہ ہم نے (صفوں کو برابر ہونے کو) آپ سے سمجھ لیا ہے۔ پھر آپ ﷺ ایک روز (مسجد کی جانب) نکلے آپ کھڑے ہوئے قریب تھا کہ آپ اللہ اکبر کہہ دیتے۔ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ اللہ کے بندو! تم لازمی طور پر صفوں کو سیدھا رکھو ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها (436) و ابوداود (663)]
اور صیح مسلم میں حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نماز کی اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’تم اپنی صفوں کو برابر کرو اور مل کر کھڑے رہو۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصلاة (433) و ابویعلی (3291)]
اور بخاری ومسلم کی ہی روایت میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’تم صفوں کو برابر کرو اس لیے کہ صفوں کو برابر کرنا نماز کے قائم کرنے سے ہے۔‘‘[صحیح البخاري، كتاب الأذان، باب إقامة الصف من تمام الصلوة (733) و صحیح مسلم (433)]
امام کی پوری اقتداء کرے یعنی کسی رکن یا فعل میں امام سے آگے نہ نکلے:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔ آپﷺ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک کہ نبی ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھتے۔[صیحیح البخاری، کتاب الأذان باب السجود علی سبعة أعظم رقم (811) و مسلم رقم( 1062)]
اور صحیح مسلم میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ نے ہماری امامت فرمائی۔ جب آپ ﷺ نے نماز مکمل کی تو اپنے چہرے کو ہماری جانب پھیرا اور فرمایا:
(یَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي إِمَامُكُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِيْ بِالرُّكُوْعِ، وَلَا بِالسُّجُوْدِ وَلَا بِالْقِيَامِ، وَلَا بِالْإِنْصِرَافِ، فَإِنّىْ أَرَاكُمْ آمَامِيْ وَمِنْ خَلْفِي)[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب تحريم سبق الإمام الخ..رقم: 861]
’’اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں تم رکوع، سجود، قیام اور نماز سے پھرنے میں مجھ سے سبقت نہ لے جاؤ میں تمہیں اپنے آگے اور پیچھے سے دیکھتا ہوں۔‘‘
امام سے سبقت لے جانا سخت گناہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(أَمَا يَخْشَى الَّذِيْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَ حِمَارٍ)[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب إثم من رفع رأسه قبل الإمام (691) و مسلم(427) و احمد (260/2]
’’وہ شخص جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے وہ اس بات سے کیوں نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر کی شکل میں تبدیل کر دے۔‘‘
یہ وہ فعلی آداب ہیں جنہیں نماز میں خشوع کے لیے اختیار کرنا ضروری ہے۔ آج اکثر لوگ ان احکام و آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اللہ تعالی ہمیں اصلاح کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔