نماز میں خشوع و خضوع

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝۱
الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۝۲﴾ [المؤمنون: 1-2]
گزشتہ خطبہ جمعہ میں نماز کی ابتداء سے لے کر اختتام تک تمام ظاہری افعال و ارکان (رفع الیدین، قیام، ہاتھ باندھنا، رکوع، قومہ، سجدہ، قعدہ، جلسہ استراحت اور تشہد وغیرہ) کا درست اور مسنون طریقہ بیان کیا گیا تھا اور یہ وضاحت کی گئی تھی کہ اس طریقے اور انداز کو خحتیار کیے بغیر نماز خشوع والی نماز نہیں بن سکتی۔ کیونکہ خشوع و خضوع کے لیے تین باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
1۔ ظاہری افعال و ارکان کی ادائیگی قرآن وسنت کے عین مطابق ہو۔ (اور یہ پہلی بات گزشتہ خطبہ میں بیان کر دی گئی ہے )۔
2۔ دل کی کیفیت و نیت درست ہو۔
3۔ جس رکن میں جو کچھ زبان سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہی کچھ پڑھا جائے
آج کے خطبہ میں آخری دو باتوں کی وضاحت و تشریح کی جائے گی۔
اخلاص نیت:
خشوع والی نماز کے لیے ضروری ہے کہ نیت درست ہو کیونکہ نیت کی درستگی تمام عبادات کے لیے بنیادی شرائط میں سے ہے۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(اِنَّمَا الْاَعْمَالِ بِالنِّیَّاتِ)[صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی(1) و مسلم (1907) و ابوداؤد(2201)]
’’اعمال کا دارو مدار نیتوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اور نیت کی درستگی میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
پہلی بات:
دل میں یہ بات موجود ہو کہ وہ کون سی نمار ادا کر رہا ہے، فرض یا نفل ہے، فجر ہے یا ظہر۔
دوسری بات:
دل میں للّٰہیت ہو۔ یعنی خالصۃ اللہ کوخوش کرنے کے لیے نماز ادا کررہا ہو۔ اللہ رب العزت سورہ انعام 162، 163 آیت مبارکہ میں فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱۶۲
لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝۱۶۳﴾ [الانعام : 162، 163]
’’آپ فرما دیجئیے کہ بالیقین میری نماز اور ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے جوسارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے۔ اورمیں (اس امت کے) سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘
اور سورہ الکوثر آیت 2 میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ﴾ [الکوثر:2]
’’پس تو اپنے رب کےلیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘
تیسری بات:
ریا کاری، نمود اور دکھلاوا موجود نہ ہو۔
ضروری وضاحت
ریا کاری کسی کے سامنے عمل کرنے کا نام نہیں یہ تو دل میں دکھلاوے والے جذبات کا نام ہے۔
چوتھی بات:
دل میں اللہ کی محبت، عظمت، جلال اور بڑائی ہو اور اپنی بے بسی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف ہو۔
پانچویں بات:
دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی توجہ ہو گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ یا کم از کم یہ تصور تو ضرور ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
مسلم شریف میں ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مختلف سوالوں میں سے ایک سوال نبی ﷺ سے یہ کیا کہ اللہ کے رسول مجھے احسان کے بارے بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے اگر تو اسے نہیں دیکھتا مگر وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب الإيمان ماهو و بيان خصاله (97) و بخاری (50) و ابن ماجہ (14) (4044)]
چھٹی بات:
دل میں اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا ڈر اور خوف بھی ہو اور اللہ کے انعام اور اس کی رحمت کی امید بھی ہو۔ اللہ رب العزت سورہ سجدہ آیت نمبر 16 میں فرماتے ہیں:
﴿ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [السجدة: 16]
’’ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
بہر حال یہ وہ قلبی و دلی امور ہیں جنہیں نماز اور دیگر عبادات میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ لیکن آج ہماری کیفیت کیا ہے۔ کھڑا نماز میں ہے اور دل دکان میں ہے کھڑا نماز میں ہے اور دل کارخانے میں ہے کھڑ ا نماز میں ہے اور دل دنیاوی امور کی محبت میں جکڑا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ فوائد و منافع جو نماز ادا کرنے سے حاصل ہوتے ہیں وہ آج ہمیں حاصل نہیں ہوتے۔
خصوصی گزارش:
آج ہماری نیتیں کیسے ٹھیک ہوں آج بہت سارے لوگوں نے نیت کو زبان کا عمل بنا دیا ہے۔ (چار رکعت نماز فرض پیچھے اس امام کے منہ طرف قبلہ شریف کے اللہ اکبر) حالانکہ نیت کا تعلق دل سے ہے۔ زبان سے نیت نہیں ہوتی۔ فقہ کی مشہور کتاب الہدایہ میں بھی لکھا ہے:
(وَالنِّيَّةُ هِيَ الْإِرَادَةُ) [الهداية ج 1 ص 95]
’’نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔‘‘
نماز کی کسی حالت میں کیا پڑھنا ہے؟
نماز کی ابتداء اللہ اکبر سے ہے اسے تکبیر اولی یا تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے چالیس دن باجماعت نماز ادا کی اور تکبیر اولی پائی تو اللہ تعالی اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دیں گے ایک جہنم کی آگ سے آزادی اور دوسری نفاق سے آزادی۔‘‘[جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء في فضل التكبيرة الأولى (241) و صحيح الجامع الصغير (6365)]
غور کیجئے! نماز کی ابتداء میں ہی کسی قدر اللہ کی عظمت جلال بزرگی اور بڑائی کا اظہار ہے۔ اور ویسے بھی اس کلمے کی بڑی شان و فضیلت ہے دین اسلام میں بہت سارے انتہائی اہم موقعوں پر یہ کلمہ پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے (بلندی پر چڑھتے، وقت نماز میں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتے ہوئے، نماز کے بعد، اذان میں، اقامت میں، جانور ذبح کرتے وقت، بسم اللہ واللہ اکبر، جمرات پہ کنکریاں پھینکتے وقت، عیدین کے موقع پر) اور یاد رکھیے نماز کی ابتداء صرف اسی کلمے سے ہے بعض لوگ پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں پھر اللہ اکبر کہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے یہ طریقہ درست نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کی چابی وضو ہے اور نماز میں (کلام وغیرہ کو) حرام قرار دینے والی تکبیر (تحریمہ) ہے اور (کلام وغیرہ کو) حلال کرنے والا (آخری) سلام ہے۔‘‘[سنن في داود، كتاب الصلاة، باب الامام يحدث بعد ما يرفع رأسه من آخر ركعة (618) و الترمذي (3)]
یہ پہلا کلمہ ہے جس سے نماز کی ابتداء ہے اس سے قبل کوئی کلمہ نہیں۔ نہ بسم اللہ، نہ زبان سے پڑھی جانے والی نیت۔
دعاء استفتاح
جب اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کریں تو حالت قیام میں سب سے پہلے پڑھی جانے والی دعا کو دعاء استفتاح کہتے ہیں۔ اس موقع پہ بہت ساری دعا میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان خاموش رہتے (ابو ہریرہ رضی اللہ تعال یعنہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ میں ہم پر قربان ہوں آپ تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان خاموشی میں کیا کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں کہتا ہوں:
(اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّٰهُمَّ نَقِّنِيْ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنْقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب ما يقول بعد التكبير (744) ومسلم (598) و احمد (231/2)]
’’اے اللہ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری فرما جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کی ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی برف اور اولوں کے ساتھ دھوڈال۔‘‘
اور نبی ﷺ تکبیر تحریمہ کے بعد یہ دعا بھی پڑھتے تھے:
(وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ اللَّهُمَّ أَنتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِيْ ذُنُوْبِيْ جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّى سَيَّهَا، لَا يَصْرِفُ عَنِّى سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَابِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ) [صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل و قيامه (771) و ابوداود (760) والترمذى (3421)]
’’میں نے خود کو اس ذات کی جانب متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے میں صرف اس کی جانب جھکنے والا ہوں اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت، اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں۔ تو میرا پروردگار ہے اور میں تیرا بندہ ہوں میں نے خود پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کیا تو میرے تمام گناہ معاف فرما تیرے سوا گناہوں کو کوئی معاف نہیں کر سکتا اور تو مجھے بہترین اخلاق کی رہنمائی عطا کر تیرے سوا کوئی اچھے اخلاق کی راہ نمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ خلاق کو تیرے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا۔ میں حاضر ہوں اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے جب کہ (صرف) برائی کی نسبت تیری طرف نہیں کی جاسکتی۔ میری (توفیق) تیرے سہارے ہے میری (التجاء) تیری طرف ہے تو برکت والا اور بلند ہے میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
نبیﷺ سے یہ دعا بھی ثابت ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز کا آغاز فرماتے تو (یہ کلمات) کہتے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إلٰهَ غَيْرُكَ) [سنن أبي داؤد، كتاب الصلاة، باب من رأى الاستفتاح بسبحانك اللهم وبحمدك (772) والترمذى (243) و ابن ماجه (806)]
’’یا اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں تیرا نام بہت برکت والا ہے اور تیری بزرگی بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔‘‘
اور سنن النسائی میں یہ دعا بھی موجود ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ نماز کا آغاز کرتے تو تکبیر تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھتے:
(إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَعْمَالِ وَأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَقِنِي سَیِّئِي الْأَعْمَالِ، وَسِّئِ الْأَخْلَاقِ، لَا يَقِي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنتَ) [سنن النسائي، كتاب الصلاة (129/2)]
’’میری نماز میرے مراسم عبودیت میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے اور میں اس کا حکم دیا گیا ہوں اور میں پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! مجھے اچھے اعمال اور اخلاق کی جانب ہدایت فرما۔ تیرے سوا کوئی اچھے اعمال اور اخلاق کی ہدایت نہیں دیتا اور مجھے برے اعمال اور برے اخلاق سے محفوظ کر تو ہی برے اعمال اور برے اخلاق سے محفوظ کر سکتا ہے۔‘‘
مذکورہ دعاؤں میں سے کوئی ایک دعا پڑھ لے یہ سب دعا میں انتہائی جامع دعائیں ہیں یوں سب سے پہلی بیان کردہ دعا سب سے افضل اور بہتر ہے۔
سورة الفاتحة:
دعائے استفتاح کے بعد حالت قیام میں قرآن کریم کی سب سے پہلی سورت (الفاتحہ) پڑھنا ہے (جس کے دس کے قریب نام صحیح احادیث سے ثابت ہیں) اور یہ سورت پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد سب پر فرض ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ ﷺ نے فرمایا:
(لَا صَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب وجوب القراءة للامام والمأموم (756)]
’’جس شخص نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘
اور ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول الله ﷺ
نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز ادا کی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی:
(فَهِيَ خِدَاجٌ) – ثَلَالًا غَيْرُ تَمَامٍ)[سنن أبي داؤد، كتاب الصلاة، باب من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب (821)]
’’تو وہ نماز ناقص ہے۔ آپﷺ نے تین بار کہا (اور فرمایا کہ اس کی) نماز مکمل نہیں ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا گیا کہ جب ہم امام کی اقتداء میں ہوں؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:
(اقْرَءْ بِهَا فِي نَفْسِكَ) [موطا امام مالك، كتاب النداء للصلاة باب القراءة خلف الامام فيما لا يجهر فيه بالقراءة (84/1) و مسلم (39) والترمذي (247)]
’’ایسی صورت میں سورۃ الفاتحہ دل میں (یعنی آہستہ) پڑھ لو۔‘‘
اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ہے اور میں بندے کا سوال پورا کرتا ہوں جب بندہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: (حَمِدَنِي عَبْدِي) کہ میرے بندے نے میری تعریف کی ہے اور جب بندہ ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (أَثْنٰی عَلَىَّ عَبْدِیْ] کہ میرے بندے نے میری ثنا کہی،
جب بندہ
﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: مَجَّدَنِي عَبْدِي کہ میرے بندے نے میری تعظیم کی۔
جب بندہ کہتا ہے:
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: هٰذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِى، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ۔ یہ وہ تعلق ہے جو میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا اور جب بندہ کہتا ہے:
﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬ۦ
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾
’’تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے کے لیے خاص ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے سوال کیا۔‘‘[صحیح مسلم (395) و سنن ابی داود، كتاب الصلاة، باب من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب (821) والترمذی (247)]
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز نبی ﷺ کی امامت میں ادا کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی لیکن آپﷺ پر قراءت خلط ملط ہو گئی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’شاید تم امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! درست ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’تم صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت کیا کرو اس لیے کہ جو شخص سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘
(میں اپنے آپ کو) کہہ رہا تھا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے قرآن پاک مجھ سے پڑھا نہیں جا رہا۔ پس جب میں اونچی قراءت کروں تو تم سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی قراءت نہ کیا کرو۔‘‘[سنن ابی داؤد، كتاب الصلاة، باب من ترك القراءة في صلاته بأم الكتاب (311). شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ ضعیف ترمذی (49) ضعيف الجامع الصغير (2082). امام ابن خزیمه رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد شاکر نے صحیح کہا ہے۔ شرح الترمذی(117/2)]
اہم نکته:
جو لوگ نماز میں سورۃ الفاتحہ کے قائل نہیں وہ جتنے دلائل دیتے ہیں ان کی زد میں وہ خود آتے ہیں کیونکہ ان کے تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو۔ اور وہ خود خاموش نہیں رہتے۔ امام قرآن پڑھ رہا ہے وہ پیچھے نیت پڑھتے میں دعاء استفتاح پڑھتے ہیں۔ امام نماز فجر پڑھا رہا ہو اور نماز فجر میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو یہ پیچھے فجر کی سنتیں پڑھتے جاتے ہیں۔ کیا صرف فاتحہ سے ہی دشمنی ہے؟
بہر حال سورۃ الفاتحہ کے بغیر کسی قسم کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔
سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر آمین کہنے کی بڑی فضیلت ہے:
بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) [صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب فضل التأمين (1402) و مسلم (110) و ابوداود (936) والترمذي (250) والحميدي (933)]
’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو بلا شبہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہو گی تو اس کے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘
ترمذی وابوداؤد والدارمی اور ابن ماجہ میں بھی ہے حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کے بعد اونچی آواز کے ساتھ آمین کہی۔[جامع الترمذى كتاب مواقيت الصلاة باب ما جاء في التأمين رقم 248 و سنن ابی داود رقم 932 النسائي رقم 879]
اور مسلم شریف کی روایت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيْمُوْا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لَيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوْا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ. فَقُوْلُوْا: آمِيْنَ، يُحِبُّكُمُ الله) [صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب التسبيح والتحميد والتأمين (620) و بخاری (782)]
’’جب تم نماز (ادا کرنے) کا ارادہ کرو تو اپنی صفوں کو برابر کرو پھر تم میں سے ایک شخص امامت کرائے۔ جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔‘‘
سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی سورت تلاوت کریں ہاں باجماعت نماز میں مقتدی صرف سورۃ الفاتحہ پڑھے۔ جس طرح کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔
وہ سورتیں جن کی تلاوت بعض نمازوں میں مسنون ہے:
حضرت سلیمان بن یسار، ابو ہریره رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا میں نے کسی شخص کی امامت میں نماز ادا نہیں کی جو زیادہ مشابہ ہو رسول اللہ ﷺ کی نماز کے، فلاں شخص سے۔ سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص کی امامت میں نماز ادا کی۔ وہ ظہر کی پہلی دو رکعت (میں قراءت) لمبی کرتا تھا اور آخری دو رکعت میں تخفیف کرتا تھا۔ نیز عصر کی نماز کی قراءت میں تخفیف کرتا تھا اور مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء کی نماز میں اوساط مفصل تلاوت کرتا تھا اور صبح کی نماز میں طوال مفصل تلاوت کرتا تھا۔ سورہ حجرات سے بروج تک طوال مفصل ہیں بروج سے البینہ تک اوساط مفصل اور البینہ سے والناس تک قصار مفصل ہیں۔[سنن النسائي، كتاب الاستفتاح باب القرأة في المغرب بقصار المفصل رقم 983]
اور متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں (الم تنزیل) پہلی رکعت میں اور (ھل اتى عَلَى الْإِنْسَانِ) دوسری رکعت میں تلاوت فرماتے تھے۔ [صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة (891) ومسلم (880)]
صحیح مسلم میں ہے حضرت عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مروان نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ منورہ کا گورنر بنایا۔ مروان مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوا تو ابو ہریرہ نے ہمیں جمعہ المبارک کا خطبہ دیا۔ انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری میں ﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ﴾ تلاوت کی اور بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپﷺ جمعہ کے دن نماز میں ان (دونوں) سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔[صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الجمه (878) و ابوداود (1074) والترمذي (520)]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ المبارک کی دونوں رکعت) میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبُّكَ الْأَعْلٰى﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ تلاوت فرماتے تھے۔ نعمان رضی اللہ تعالی عنہ حدود کہتے ہیں کہ جب ایک ہی دن میں عید اور جمعہ (دونوں) اکٹھے ہو جاتے تو دونوں نمازوں میں ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔[صحیح مسلم، كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الجمعة (878) و ابوداود (1122)]
اور مسلم شریف ہی کی دوسری حدیث ہے۔ حضرت عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو واقد الیثی رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر (کی دونوں رکعت) میں کون سی (سورت) تلاوت کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا آپﷺ ان میں ﴿ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ اور ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ تلاوت فرماتے تھے۔[والترمذي (533) مسلم، كتاب صلاة العيدين باب ما يقرأ في صلاة العيدين (891) و نبوداود (1154) والترمذی (532) و ابن ماجه (1382)]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعتوں (یعنی سنتوں) میں ﴿قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُوْنَ﴾ اور ﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾ تلاوت فرماتے تھے۔[صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب استحباب ركعتي الفجر (725) و بخاری (197) و ابوداود (1255)]
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعت میں ’’قُوْلُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْنَا‘‘اور وہ آیت جو سورہ آل عمران میں ہے ’’قَلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ﴾ کی تلاوت فرماتے تھے۔[صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين باب استحباب ركعتي سنة الفجر رقم: 1692]
رکوع کی دعائیں:
پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کریں اور رکوع میں مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھ لیں۔ پہلی دعا جو بخاری و مسلم میں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی ﷺ رکوع اور سجود میں کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھتے:
(سُبْحَانَكَ اللذٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي) [صحیح البخاري، كتاب الاذان، باب التسبيح والدعاء في السجود (817) و مسلم (484) وابوداود (477)]
’’اے اللہ! ہمارے رب! تو پاک ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اے اللہ مجھے معاف فرما۔‘‘
اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہی مروی ہے کہتی ہیں کہ نبی ﷺ رکوع اور سجود میں یہ کلمات کہتے:
(سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحُ) [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود (487) و ابوداود (872) و احمد(34/3)]
’’پاک ہے، پاک ہے فرشتوں اور جبریل علیہم السلام کا رب۔‘‘
تیسری حدیث یہ بھی مسلم شریف کی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’خبردار! مجھے رکوع و سجود میں قرآن پاک کی تلاوت کرنے سے روکا گیا ہے۔ تم رکوع میں اللہ کی عظمت بیان کرو اور سجدہ میں مبالغہ آرائی کے ساتھ دعا کرو اس طرح بہت امید ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگی۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب النهي عن قراءة القرآن في الركوع والسجود (479) و ابوداود (879)]
چوتھی حدیث سنن ابی داؤد، ابن ماجہ اور دارمی کے حوالے سے عرض کرتا ہوں۔
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جب ﴿فَسَبِّحُ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ﴾ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
گگاس کو اپنے رکوع میں کہا کرو۔ اور جب ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰى﴾ آیت نازل ہوئی تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو اپنے سجدے میں کہو۔‘‘ یعنی رکوع میں (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم) اور سجدے میں (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى) کہا کرو۔[سنن أبي داود كتاب الصلاة باب ما يقول الرجل في ركوعه و سجوده رقم 869]
پانچویں حدیث: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔ آپﷺ نے رکوع میں یہ کلمات کہے(سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم) اور سجدے میں (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى) کہتے تھے۔[صحيح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل (772) والترمذي (262) و احمد (382/5)]
چھٹی حدیث: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک رات قیام کیا جب آپﷺ نے رکوع کیا تو سورہ بقرہ کے (پڑھنے کی) بقدر ٹھہرے رہے اور اپنے رکوع میں کہتے:
(سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوْتِ وَ الْمَلَكُوْتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)
’’پاک ہے وہ ذات جو غالب ہے بادشاہی والی ہے کبریائی اور عظمت والی ہے۔‘‘[سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل في ركوع و سجوده (873) و احمد (24/6) و نسائی (191/2)]
مذکورہ دعاؤں کے علاوہ بھی کئی دعائیں کتب حدیث میں مذکور ہیں ہمیں یہ دعا ئیں اچھی طرح یاد کرنی چاہئیں۔
قومہ کی دعائیں:
پھر رکوع سے سر اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو۔ اور سر اٹھاتے وقت (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ) کہئے اور اس کے بعد کئی دعائیں رسولﷺ سے ثابت ہیں۔

مسلم شریف کی حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رکوع سے اپنی کمر اٹھاتے تو کہتے:
(سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْ ءٍ بَعْدُ ….. الخ) [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقول اذا رفع رأس من الركوع (487) والنسائي (1061)]
’’اللہ نے اس شخص کی بات کو سن لیا جس نے اس کی حمدوثنا کی۔ اے اللہ! ہمارے پروردگار تیرے لیے آسمانوں اور زمین اور اس کے بعد جس چیز کو تو چاہے بھرنے کے (بقدر) حمد ثنا ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے:
﴿اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْ ءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ) [صحيح مسلم، کتاب الصلاة، باب ما يقول اذا رفع رأسه من الركوع (487)]
’’اے اللہ! تیرے لیے زمین اور آسمان اور اس کے بعد جس چیز کو تو چاہے بھرنے کے برابر تعریف ہے اے حمد وثنا کے مستحق اور عظمت والے! تو زیادہ حق دار ہے اس (تعریف) کا جو بندے نے کی ہے۔ ہم سب تیرے بندے ہیں۔ اے اللہ! جس کو تو عطا کر دے اس سے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اس کو کوئی دینے والا نہیں اور تیرے عذاب سے کسی دولت مند کی دولت اسے فائدہ نہیں دے گی۔‘‘
صحیح بخاری شریف میں یہ دعا بھی درج ہے۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے۔ جب آپ میں ہم نے رکوع سے سر مبارک اٹھایا تو آپﷺ نے سَمع اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ کہا۔ آپﷺ کے پیچھے سے ایک شخص نے کہا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ حَمْداً كَثِيْرًا طَيِّبًا مُّبَارَكًا فِيْهِ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپﷺ نے دریافت کیا کہ ’’ابھی ابھی کلام کرنے والا کون تھا؟‘‘ رفاعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تیسں کے لگ بھگ فرشتوں کو دیکھا وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے تھے کہ ان میں سے کون ان کلمات کو پہلے تحریر میں لاتا ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الاذان، باب فضل اللهم ربنا لك الحمد (799) و ابوداود (770)]
غور کیجئے! کس قدر جامع دعائیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ رکوع کے بعد قومے میں پڑھا کرتے تھے لیکن آج کتنے ہی نمازی ہیں جو رکوع کے بعد کی یہ دعائیں قطعاً نہیں پڑھتے۔ بلکہ رکوع سے سر اٹھا کر سیدھے کھڑے بھی نہیں ہوتے اور سجدے میں جا گرتے ہیں۔
سجدے کی دعائیں:
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں گرے اور رسول اللہ ﷺ کی بتلائی ہوئی دعائیں پڑھے۔ رکوع کی تمام دعائیں (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم) کے علاوہ سجدے میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اور ان کے علاوہ سجدے کی مزید دعائیں بھی ہیں۔
صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ سجدے میں یہ کلمات کہتے:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ كُلَّهُ دِقَّهُ وَجِلَّهُ وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ)
’’اے اللہ میرے تمام گناہ صغیر و کبیرہ پہلے پچھلے ظاہر اور در پردہ سب گناہوں کو معاف فرما۔‘‘ [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود (483) وابوداؤد (878)]
اور مسلم شریف میں یہ دعا بھی موجود ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایک رات بستر سے گم پایا۔ (میں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ) آپ کو ٹولنا شروع کر دیا چنانچہ میرا ہاتھ آپ کے قدموں کے اندر والے حصے پر لگا۔ آپ ﷺ سجدے میں تھے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ یہ دعا کر رہے تھے:
(اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَا فَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ) [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود (486) و ابوداود (879) وابن ماجه (3841)]
’’اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ پکڑتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں۔ میں تیری حمد و ثناء کی طاقت نہیں رکھتا تو اس طرح ہے جیسا کہ تو نے آپ اپنی حمد وثنا کی ہے۔‘‘
دو سجدوں کے درمیان قعدے کی دعائیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ دونوں سجدوں کے درمیان یہ کلمات کہتے:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ، وَارْزُقْنِيْ)
’’اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم کر، مجھے ہدایت عطا کر، مجھے عافیت عطا کر اور مجھے رزق عطا فرما۔‘‘[سنن ابی داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء بين السجدتين (850) وابن ماجه (898) حدیث حسن]
اور سنن نسائی، دارمی کی روایت ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان (رَبِّ اغْفِرْلِیْ) کے کلمات کہتے۔ جس کا ترجمہ ہے: ’’اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے۔‘‘[سنن ابی داود، كتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل في ركوعه و سجوده (774) و صحیح ابی داود (777)]
آج اکثر نمازی دو سجدوں کے درمیان دعا نہیں پڑھتے بلکہ دعا پڑھنا تو کجا سیدھے بیٹھتے بھی نہیں اور دوسرے سجدے میں جا گرتے ہیں۔ جبکہ (گزشتہ جمعہ میں بیان کیا تھا۔) یہ نماز کی چوری ہے جسے بدترین چوری کہا گیا ہے۔[مسند احمد 310/5 رقم 23019 و صحیح ابن خزیمہ رقم: 663]
تشهد:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی تو ہم نے کہا: اللہ کے بندوں کی طرف سے اللہ پر سلام ہو، جبرائیل علیہ السلام پر سلام ہو۔ میکائیل علیہ السلام پر سلام ہو۔ فلاں پر سلام ہو۔ جب نبی ﷺ (نماز سے) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ ہماری جانب متوجہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم (یہ) نہ کہو کہ اللہ پر سلام ہو۔ اس لیے کہ اللہ خود سلام ہے (البتہ) جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں بیٹھے تو وہ التحیات کے کلمات آخرتک کہے:
(التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب التشهد في الآخرة (831) و ابوداؤد (968) والترمذی (289) و ابن ماجه (899) والدارمي (308/1) و ابو عوانه (299/2)]
جس کا ترجمہ ہے: تمام تعظیمات اللہ کے لیے ہیں۔ عبادات اور تمام عمدہ کام اس کے لیے ہیں۔ اے پیغمبر! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو (نمازی جب یہ کلمات کہے گا تو اس کا سلام آسمان اور زمین کے ہر صالح بندے کو پہنچے گا) میں گواہی دیتا ہوں کہ صرف اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
بعد ازاں اپنی پسندیدہ دعا مانگے۔
وضاحت:
سلام کا معنی چونکہ سلامتی ہے اور ’’السلام‘‘ اللہ کے ناموں میں سے ایک ہے اس لیے (السلام علی اللہ) کہنے سے منع کر دیا گیا۔ اس لیے کہ وہ تو خود سلامتی عطا کرنے والا ہے اور ہم اس کے لیے سلامتی کی دعا کریں۔ درست معلوم نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم)
التحيات: سے مقصود قولی عبادات اور
وَالصَّلَوَات: سے مقصود بدنی عبادات ہیں۔
وَالطَّيِّبَات: سے مقصود مالی عبادات ہیں۔
اور جب آخری تشہد میں ہو تو ان کلمات کے بعد درود ابراہیمی پڑھیں۔
بخاری، مسلم میں ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ کعب بن عجره رضی اللہ تعالی عنہ کی مجھ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھ سے کہا کیا میں آپ کو ایک ہدیہ نہ دوں۔ جس کو میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے۔ میں نے عرض کیا ضرور! مجھے ہدیہ عطا فرمائیں۔ کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپ اہل بیت پر کیسے درود بھیجیں؟ کیونکہ آپ ﷺ پر سلام بھیجنے کی تعلیم تو اللہ تعالی نے ہمیں دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم درود اس طرح پڑھو:
(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ) [صحيح البخاري، كتاب احادیث الانبياء، باب (3370)]
’’اے اللہ محمدﷺ اور آل محمد ﷺ پر رحمتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل کی ہیں بلاشبہ تو حمد وثنا کے لائق اور عظمت والا ہے۔ اے اللہ محمدﷺ اور آل محمدﷺ پر برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل کی ہیں بلاشبہ تو حمد وثنا کے لائق اور عظمت والا ہے۔‘‘
بخاری و مسلم کی ہی دوسری حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ کرتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہیم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم درود (اس طرح) پڑھو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ) [صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب هل يصلى على غير النبي (6390) و مسلم (407) و ابوداود (979) و احمد (424/5)]
’’اے اللہ محمد ﷺ اور آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر رحمتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم علیہ السلام پر رحمتیں نازل کی ہیں اور محمد ﷺ اور آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر برکت نازل فرما جیساکہ تو نے آل ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل کی ہے۔ بلاشبہ تو حمد وثنا کے لائق اور عظمت والا ہے۔‘‘
درود کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا) [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب الصلاة على النبي ويب بعد التشهد (408) و ابو داؤد (1530)]
’’جس شخص نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘
اور سنن نسائی کے حوالے سے اس طرح درج ہے:
حضرت انس رضی اللہ علیہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور اس کی دس غلطیاں معاف ہو جاتی ہیں اور اس کے دس درجات بلند ہوتے ہیں۔[سنن النسائي، كتاب السهو، باب الفضل في الصلاة على النبيﷺ (1297) و صحيح الجامع الصغير (6359)]
درود ابراہیمی علیہ السلام کے بعد مختلف قسم کی مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھ لیں وہ مسنون دعائیں یہ ہیں:
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے ایسی دعا سکھلائیں جو میں اپنی نماز میں مانگوں۔ آپﷺ نے فرمایا: تو کہ:
(اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمِ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب الدعاء قبل السلام (834) و مسلم (2705)]
’’اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گنا ہوں کو معاف نہیں کرتا مجھے اپنے فضل سے مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحمت کر۔ بے شک تو معاف کرنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اور بخاری و مسلم کی ہی حدیث میں درود ابراہیمی علیہ السلام کے بعد یہ دعا پڑھنی بھی ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں تشہد کے بعد یہ) دعا مانگتے:
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَأْثَمِ وَ الْمَغْرَمِ) [صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب الدعاء قبل السلام (832) و مسلم (589) و ابوداؤد (880) و الترمذی (880) والترمذى (3495) والنسائي (56/3)]
’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں گناہ اور مقروض ہونے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘
پھر دونوں طرف سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں۔
حقیقت ہے نماز کی ابتداء سے لے کر اختتام تک ہر حالت میں کیسی جامع دعائیں سکھلائیں گئی ہیں ایک نماز پڑھنے والا صرف ایک نماز میں کتنی خیرو برکت اللہ تعالی سے طلب کرتا ہے اور اگر ہمیں ان تمام دعاؤں کا ترجمہ آتا ہو تو نماز کا انداز ہی بدل جائے۔ پھر نماز میں سکون اور دل کو راحت محسوس ہوگی اور آنکھوں سے اللہ کے خوف اور ڈر سے آنسو بہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔