ننھے اسلاف
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَناوَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ [العنکبوت: 69]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں نبی اور رسول بھیجے جو اس قوم کو اللہ کا پیغام سناتے رہے، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے ساتھی اور حواری عطاء فرمائے ، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی کو بھی ایسے عظیم صحابہ کرام عطا فرمائے جنہوں نے دین حق کی راہ میں اپنی زندگیوں کو وقف کر دیا۔ وہ عظیم لوگ اس لئے تھے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے چنا تھا ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود کا قول ہے:
اِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ۔
”یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدﷺکا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدﷺکے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراءبنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔“ [مسند احمد: 3600حسن]
ان میں خاص بات یہ تھی کہ ان صحابہ میں بڑی تعداد ان بچوں کی بھی تھی جنہوں نے کم عمری میں ہی دین کی خدمت، جذبہ ایمان اور علم و تقویٰ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ رہتی دنیا تک مسلمان ان کی مثالیں پیش کرتے رہیں گے۔ یہی ننھے اسلاف، ہمارے چھوٹے صحابہ، وہ عظیم شخصیتیں ہیں جنہوں نے اپنے والدین اور بڑوں کی صحبت میں رہ کر دین کی خدمت کے عظیم مقام کو پایا۔
آج ہم ان ننھے مجاہدین، ان معصوم ارواح کے بارے میں بات کریں گے جو کم عمری میں ہی ایمان کی طاقت، دین کی سمجھ بوجھ اور نبی کریم ﷺ کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کے کردار، قربانی اور ایمان کی روشنی کو دیکھ کر دل حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کیسے وہ کم عمری میں ہی نیکی، عبادت اور اللہ کی خوشنودی کا ایسا اعلیٰ معیار لے کر چلے تھے۔ ان کے دل میں شوق تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جئیں اور اللہ کے دین کی خاطر اپنی جانیں تک نچھاور کر دیں۔
تو آئیے، ان عظیم ننھے اسلاف کی زندگیوں کے کچھ پہلوؤں پر غور کرتے ہیں اور ان سے یہ سیکھتے ہیں کہ کیسے وہ کم عمری میں بھی اپنے کردار کو اتنا مضبوط بنا پائے کہ اللہ نے انہیں آنے والی نسلوں کے لئے مثال بنا دیا۔
ہمارے چند ننھے اسلاف
1۔ سیدنا علی المرتضیٰ :
بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰ ایمان لے کر آئے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سیّدنا علی بن ابی طالب نبی کریم ﷺ کے پاس آئے، اس وقت خدیجہ اسلام لاچکی تھیں، دیکھا تو دونوں نماز پڑھ رہے تھے، علی نے پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛
دِیْنَ اللّٰہِ اصْطَفَاہٗ لِنَفْسِہٖ، وَ بَعَثَ بِہٖ رُسَلَہٗ، فَأَدْعُوْکَ إِلَی اللّٰہِ وَحْدَہٗ وَ إِلَی عِبَادِتِہٖ، وَ تَکْفُرُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّی
’’یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے اپنے لیے پسند کیا اور اسی کے لیے انبیاء کو مبعوث کیا ہے، میں تمہیں بھی اللہ واحد اور اس کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور چاہتا ہو ں کہ لات اور عزیٰ کو معبود ماننے سے انکار کردو۔‘‘
سیدنا علی نے کہا: یہ وہ بات ہے جسے میں نے پہلے کبھی نہیں سنا اور جب تک میں ابوطالب سے ذکر نہ کرلوں کچھ فیصلہ نہیں کرسکتا، جب کہ رسول اللہ ﷺ کی منشا تھی کہ جب تک اسلام کی اعلانیہ دعوت کا آغاز نہ ہو یہ راز فاش نہ ہو، چنانچہ آپﷺنے فرمایا؛
یَا عَلِیُّ إِذَا لَمْ تُسْلِمْ فَاکْتُمْ
’’اے علی! اگر تم ایمان نہیں لاتے ہو تو اس کو ابھی پوشیدہ رکھنا۔‘‘
علی اس رات خاموش رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی، صبح سویرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: آپ نے مجھے کل کیا دعوت دی تھی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
تَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَتَکْفُرْ بِاللَّاتِ وَ الْعُزّٰی وَتَبَرَّأْ مِنَ الْاَنْدَادِ
’’اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور لات و عزیٰ کو معبود ماننے سے انکار کردو، اور کسی کو اس کا شریک ٹھہرانے سے براء ت کا اظہار کرو۔‘‘
چنانچہ علی نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، پھر اسلام لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ابوطالب سے چھپ چھپا کر آیا کرتے اور اپنے اسلام کو ان پر ظاہر نہ کرتے۔[البدایۃ و النہایۃ: 61/4]
2۔ سیدنا عبداللہ بن عباس :
سیدنا عبداللہ بن عباس کا بچپن بہت ہی منفرد اور اہم تھا، کیونکہ آپ کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جو نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ دار تھے، بلکہ علم و حکمت کے حوالے سے بھی ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی زندگی کا آغاز ایک ایسے دور میں ہوا جب عرب میں جاہلیت کا اثر تھا، لیکن آپ کی پرورش ایسی تھی کہ آپ نے بچپن ہی سے علم و معرفت کا گہرا تعلق قائم کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی، اور آپ کا تعلق قریش کے معروف خاندان "بنی ہاشم” سے تھا۔ آپ کے والد حضرت عباس بن عبدالمطلب، رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے۔
ان کے لئے نبیﷺنے دعا فرمائی تھی ، خود سیدنا عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:
أَنَّهُ كَانَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَوَضَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ طَهُورًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَضَعَهُ؟، قِيلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ، فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ”
میں سیدہ میمونہ کے گھر میں تھا تو میں نے نبى کریم ﷺ کے لیے وضو کا پانى رکھا، آپ ﷺ نے پوچھا: ”یہ کس نے رکھا ہے؟“ کسى نے کہا: ابن عباس نے۔ تو آپ ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ”اے اللہ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما اور اس کو قرآن و حدیث کى تاویل و تفسیر سکھا دے۔“ [معجم صغير للطبراني: 80، صحیح بخاری: 143]
آقائے رحمتﷺکی اس دعا کا کتنا اثر ہوا۔۔؟ صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
❄سیدنا عبداللہ بن عباس خود کہا کرتے تھے:
سَلُونِي عَنِ التَّفْسِيرِ فَإِنِّي حَفِظْتُ الْقُرْآنَ وَأَنا صَغِير
” مجھ سے قرآن کی تفسیر کے بارے میں سوال کرو کیونکہ میں نے بچپن میں قرآن یاد کر لیا تھا۔“ [فتح الباری]
❄ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے ۔ بعض کو اس پر اعتراض ہوا ، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں ، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ حضرت عمر نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے ۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا ( ابن عباس نے کہا کہ ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لئے بلایا ہے ، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ اذا جاءنصر اللہ الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ابن عباس ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی:
هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ قَالَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
”اس میں رسول اللہﷺکی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺکو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی ” یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے “ اس لئے آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔
حضرت عمرﷺنے اس پر کہا:
مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ
”میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔ “ [صحیح بخاری: 4970 ]
3۔ سیدنا عبداللہ بن عمر :
سیدنا عبداللہ بن عمر بعثت نبوی کے دوسرے سال پیدا ہوئے۔ یہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں بچپن میں ہی اسلام کی دولت سے مالا مال ہونے کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔ ان کے والد محترم سیدنا عمر بن خطاب جب مسلمان ہوئے اور لوگ ان کو مارنے کے لیے ان کے گھر کے پاس جمع ہوئے تو اس وقت عبداللہ بن عمر چھت پر موجود تھے۔ [صحیح بخاری: 3865 ]
قبول اسلام کے وقت ان کی عمر تقریباً 5سال تھی ، پھر اپنے والد محترم سے پہلے انہوں نے ہجرت کی اور مدینہ تشریف لے آئے۔سیدنا عبداللہ بن عمر بچپن سے ہی بڑے عبادت گزار اور نیک تھے۔ آج کل کے لڑکوں کی طرح وہ کھیل کود، فضول سرگرمیوں اور آوارہ گردی میں اپنا وقت نہیں گزارا کرتے تھے۔ بلکہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں جب کنوارہ نوجوان تھا تو مسجد میں رہا کرتا تھا۔ [صحیح بخاری: 440]
ان کی خوش بختی اور نیکو کاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود اللہ کے خلیل، ہمارے محبوب جناب محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”عبداللہ بہت اچھا آدمی ہے۔ اگر رات کا قیام بھی شروع کردے تو بہت ہی اچھا ہو۔“ جب عبداللہ بن عمر کو رسول اللہﷺ کی اس تعریف کا پتہ چلا اور معلوم ہوا کہ آپﷺ نے قیام اللیل کی ترغیب دی ہے تو پھر راتوں کو سونا چھوڑ دیا۔ بہت کم سوتے تھے۔ [صحیح بخاری: 1121]
اسی طرح ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ گویا ان کے پاس ریشم کا ایک قالین ہے اور وہ اس پر بیٹھ کر جنت میں جس طرف بھی جانا چاہتے ہیں، وہ قالین انہیں وہاں لے جاتا ہے۔ انہوں نے یہ خواب اپنی بہن سیدہ حفصہ ، جو رسول اللہﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں، سے بیان کیا تو انہوں نے اسے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔آپﷺ نے یہ خواب سن کر فرمایا:
”تمہارا بھائی عبداللہ نیک آدمی ہے۔“[صحیح بخاری: 7015]
سیدنا عبداللہ بن عمر جذبہ جہاد سے بھی سرشار تھے ، ان کے جذبہ جہاد کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ ہوا جسے غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں شرکت کے لیے تیرہ سالہ سیدنا عبداللہ بن عمر نے اپنے آپ کو نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ لیکن نبیﷺ نے انہیں چھوٹا سمجھ کر واپس کردیا۔[اسد الغابۃ از ابن اثیر رحمہ اللہ]
لیکن سیدنا ابن عمر اس سے مایوس نہیں ہوئے اور جذبہ جہاد کو سرد نہیں کیا۔ بلکہ اگلے سال جب غزوہ احد ہوا تو اس موقع پر پھر چودہ سالہ عبداللہ بن عمر نے اپنے آپ کو پیش کیا، لیکن اس دفعہ بھی رسول اللہﷺ نے انہیں واپس کردیا اور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی۔ رحمۃ للعالمین ﷺکے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن عمر واپس ہولیے ۔ [صحیح بخاری: 4097]
غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، میں شرکت کے لیے پھر پندرہ سالہ ابن عمر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت طلب کرتے ہیں تو رسول اللہﷺ انہیں اجازت دے دیتے ہیں۔[صحیح بخاری: 4097]
سیدنا عبداللہ بن عمر صرف عبادت گزار، زاہد اور مجاہد ہی نہیں تھے بلکہ بہت ذہین اور فطین بھی تھے۔ اس کا اندازہ ان کے بچپن کے اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو صحیح بخاری میں تقریباً دس مقامات پر ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے دربار عالیشان میں صحابہ کرام جمع تھے۔ باتیں ہورہی تھیں۔ یکایک نبی مکرم، رحمت عالم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کی آزمائش کے لیے ان سے ایک سوال پوچھا۔ سوال یہ تھا کہ بتاؤ وہ کون سا درخت جو مسلمان اورمؤمن جیسا ہے کہ اس کی برکتیں مسلمان کی برکتوں جیسی ہیں،اس کے پتے نہیں گرتے اور سارا سال پھل دیتا ہے۔ صحابہ کرام سوچنے لگے کہ وہ کون سا درخت ہوسکتا ہے؟ کسی نے کچھ سوچا، کسی نے کچھ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں بھی اس محفل میں موجود تھا۔میں ابھی بچہ تھا اور سب سے چھوٹا تھا۔ میرے ذہن میں آگیا کہ ہونہ ہو، یہ کھجور کا درخت ہی ہے۔ لیکن چونکہ سب مجھ سے بڑے تھے اور پھر میرے والد محترم بھی وہاں تھے، اس لیے میں خاموش رہا۔ میں نے نہ بتایا کہ مجھے معلوم ہے۔ آخر کار جب کسی طرف سے آواز نہ آئی تو رسول اللہﷺ نے خود بتایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔بعد میں جب میں نے اپنے والد محترم کو بتایا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب معلوم تھا تو والد محترم فرمانے لگے: ’’پیارے بیٹے!اگر تم اس محفل میں جواب دے دیتے تو میں اتنی خوشی ہوتی کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ سرخ اونٹ (ہمارے دور کے حساب سے قیمتی گاڑی)بھی مل جاتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس بات سے ہوتی کہ نبی کریمﷺ کے پوچھے ہوئے سوال کا جواب میرے بیٹے نے دیا تھا۔‘‘ [صحیح بخاری: 61، 62، 72، 131، 2209، 4698، 5444، 5448، 6122، 6144 ، سب روایات کو ملا کر خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے۔]
4۔ سیدنا انس بن مالک :
سیدنا انس بن مالک کا بچپن بہت دلچسپ اور منفرد تھا۔ آپ کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا اور آپ مدینہ منورہ کے رہائشی تھے۔ جب آپ کی عمر تقریباً 10 سال تھی، آپ کی والدہ، ام سلیم، نے آپ کو نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اپنے بچپن میں نبی ﷺ کی خدمت کی اور ان سے علم حاصل کیا۔ آپ نے نبی ﷺکی صحبت میں رہ کر دین کی بہت ساری باتیں سیکھیں اور ان کے ساتھ وقت گزارا۔ آپ کا بچپن نبی اکرم ﷺکے زیر سایہ گزرا، جس کی وجہ سے آپ کو بہت سے فضائل اور برکات حاصل ہوئیں۔
سیدنا انس بن مالک کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے نبیﷺکی صحبت میں ایک طویل وقت گزارا اور اس دوران آپ کی شخصیت پر ان کی تعلیمات کا گہرا اثر پڑا۔ نبیﷺکی صحبت میں کیسے پہنچے۔۔اس حوالے سے تین روایات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں:
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا ابْنُ عَشْرٍ وَمَاتَ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِينَ وَكُنَّ أُمَّهَاتِي يَحْثُثْنَنِي عَلَى خِدْمَتِهِ
نبی کریم ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو میں دس برس کا تھا۔ اور جب آپ ﷺکی وفات ہوئی تو میں بیس سال کا تھا۔میری مائیں(والدہ،خالائیں،پھوپھیاں)مسلسل مجھے آپﷺلم کی خدمت کرنے کا شوق دلایاکرتی تھیں۔[صحیح مسلم: 5290]
2۔ سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں:
جَاءَتْ بِي أُمِّي أُمُّ أَنَسٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَزَّرَتْنِي بِنِصْفِ خِمَارِهَا، وَرَدَّتْنِي بِنِصْفِهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا أُنَيْسٌ ابْنِي، أَتَيْتُكَ بِهِ يَخْدُمُكَ فَادْعُ اللهَ لَهُ، فَقَالَ: «اللهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ» قَالَ أَنَسٌ: فَوَاللهِ إِنَّ مَالِي لَكَثِيرٌ، وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلَى نَحْوِ الْمِائَةِ، الْيَوْمَ
میری والدہ ام انس مجھے لے کر رسول اللہ ﷺکے پاس آئیں ،انھوں نے اپنی آدھی اوڑھنی سے میری کمر پر چادر باندھ دی تھی اور اوڑھنی میرے شانوں پر ڈال دی تھی۔انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ انیس (انس کی تصغیر ) ہے میرا بیٹا ہے، میں اسے آپ کے پاس لا ئی ہوں تا کہ یہ آپ کی خدمت کرے، آپ اس کے لیےاللہ سے دعاکریں تو آپ نے فر ما یا :” اے اللہ !اس کے مال اور اولاد کو زیادہ کر۔حضرت انس نے کہا: اللہ کی قسم!میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میری اولاداور اولاد کی اولاد کی گنتی سو کے لگ بھگ ہے۔
3۔ سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں:
دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمِّ سُلَيْمٍ فَأَتَتْهُ بِتَمْرٍ وَسَمْنٍ قَالَ أَعِيدُوا سَمْنَكُمْ فِي سِقَائِهِ وَتَمْرَكُمْ فِي وِعَائِهِ فَإِنِّي صَائِمٌ ثُمَّ قَامَ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ فَصَلَّى غَيْرَ الْمَكْتُوبَةِ فَدَعَا لِأُمِّ سُلَيْمٍ وَأَهْلِ بَيْتِهَا فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي خُوَيْصَّةً قَالَ مَا هِيَ قَالَتْ خَادِمُكَ أَنَسٌ فَمَا تَرَكَ خَيْرَ آخِرَةٍ وَلَا دُنْيَا إِلَّا دَعَا لِي بِهِ قَالَ اللَّهُمَّ ارْزُقْهُ مَالًا وَوَلَدًا وَبَارِكْ لَهُ فِيهِ فَإِنِّي لَمِنْ أَكْثَرِ الْأَنْصَارِ مَالًا وَحَدَّثَتْنِي ابْنَتِي أُمَيْنَةُ أَنَّهُ دُفِنَ لِصُلْبِي مَقْدَمَ حَجَّاجٍ الْبَصْرَةَ بِضْعٌ وَعِشْرُونَ وَمِائَةٌ
نبی کریم ﷺ ام سلیم نامی ایک عورت کے یہاں تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھجور اور گھی پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، یہ گھی اس کے برتن میں رکھ دو او ریہ کھجوریں بھی اس کے برتن میں رکھ دو کیوں کہ میں توروزے سے ہوں، پھر آپ نے گھر کے ایک کنارے میں کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھی اور ام سلیم اور ان کے گھر والوں کے لیے دعا کی، ام سلیم نے عرض کی کہ میرا ایک بچہ لاڈلا بھی تو ہے ( اس کے لیے بھی تو دعا فرما دیجئے ) فرمایا کون ہے انہوں نے کہا آپ کا خادم انس ( ) پھر آپ ﷺ نے دنیا او رآخرت کی کوئی خیر و بھلائی نہ چھوڑی جس کی ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔ آپ نے دعا میں یہ بھی فرمایا اے اللہ ! اسے مال اور اولاد عطا فرما او راس کے لیے برکت عطا کر۔
( انس کا بیان تھا کہ ) چنانچہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ او رمجھ سے میری بیٹی امینہ نے بیان کیا حجاج کے بصرہ آنے تک میری صلبی اولاد میں سے تقریباً ایک سو بیس دفن ہو چکے تھے۔ [صحیح بخاری: 1982]
5۔ سیدنا عمرو بن سلمہ :
سیدنا عمرو بن سلمہ نے بیان کیا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ ( یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہو تا تھا ) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے ( وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں ۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم ( قریش ) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آگئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا توہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی ۔ پھر جب ( مدینہ ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں خدا کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آرہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نما ز اس طرح فلاں وقت پڑھاکرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو ۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یادکرنے والاا نہیں نہیں ملا ۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا ۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا ۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی ‘ جب میں سجدہ کرتا تو اوپر ہوجاتی ( اور پیچھے کی جگہ ) کھل جاتی ۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چو تڑ تو پہلے چھپا دو۔ آ خر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی ، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔ [بخاری: 4302]
6۔ سیدنا معاذ و معوذ :
عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں ، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا ، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نو عمر لڑکے تھے ۔ میں نے آرزو کی کاش ! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا ۔
فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟
ایک نے میری طرف اشارہ کیا ، اور پوچھا چچا ! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں ؟
میں نے کہا کہ ہاں ! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا
أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَئِنْ رَأَيْتُهُ لاَ يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الأَعْجَلُ مِنَّا
”مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا ، مر نہ جائے ۔“
مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی ۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں ۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ( کفار کے لشکر میں ) گھومتا پھر رہا تھا ۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ سامنے ہے ۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالا ۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی ، آنحضرت ﷺ نے پوچھا :
«أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟»، قَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ، فَقَالَ: «هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟»، قَالاَ: لاَ، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: «كِلاَكُمَا قَتَلَهُ، سَلَبُهُ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ»، وَكَانَا مُعَاذَ ابْنَ عَفْرَاءَ، وَمُعَاذَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الجَمُوحِ
”تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے ؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے ۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کرلی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے ۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا ۔“ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے ۔ ] بخاری: 3141[
(بعض روایتوں میں ابوجہل کے قاتل معاذ اور معوذ عفرا کے بیٹے بتلائے گئے ہیں۔ اور ابن مسعود ﷺ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ احتمال ہے کہ یہ لوگ بھی بعد میں شریک قتل ہوگئے ہوں۔)
7۔ سیدنا أبو محذورہ :
مکہ مکرمہ کے باسی 15سالہ ابومحذورہ کا اصل نام اوس بن ربیعہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کی معیت میں مکہ مکرمہ کے گرد و نواح میں بکریاں چرانا اس کے روز مرہ کے معمولات میں شامل تھا۔ ایک دن وہ وادی حنین کے قریب جعرانہ کے پہاڑوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ بکریاں چرا رہاتھا کہ اچانک ایک طرف سے اذان کی آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی،وہ ان دل نشین کلمات کی طرف متوجہ ہوا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فتح مکرمہ کے بعد حنین کا رخ کیا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپ جعرانہ میں مقیم تھے۔ظہر کا وقت ہوا تو سیدنا بلال بن رباح نے اپنی خوبصورت آواز میں اذان دینا شروع کی۔ فضا کو چیرتی ہوئی یہ صدا ابو محذورہ اور اس کے ساتھیوں نے بھی سنی۔ یہ نوجوان خوش مزاج تھے۔ ابومحذورہ نے بلال کی نقل اتارنا شروع کردی۔ انھوں نے مذاق ہی مذاق میں اذان کہنا شروع کر دی۔
بلال نے کہا:اللّٰہ اکبر ابومحذورہ نے بھی کہا:اللّٰہ اکبر ، بلال مسلمانوں کے کیمپ میں اذان دے رہے تھے۔ ابومحذورہ اپنی بکریوں میں کھڑا ان کلمات کو اسی انداز میں دہراتا جا رہا تھا۔ ابومحذورہ کی آواز بڑی خوبصورت اور صاف تھی۔ خوش قسمتی اس کی راہ دیکھ رہی تھی، ہوا یہ کہ اس کی اذان کی آواز اللہ کے رسول ﷺ تک بھی جا پہنچی۔جب اس نے اذان ختم کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو حکم دیا:’’جس لڑکے نے ابھی ابھی اذان دی ہے، اسے میرے پاس بلا کر لاؤ۔‘‘ وہ وادی کے دوسری طرف گئے اور بکریاں چرانے والے ان لڑکوں کو لے آئے۔آپ ﷺ نے ان لڑکوں سے پوچھا:’’ابھی ابھی تم میں سے کس نوجوان نے اذان کے کلمات دہرائے تھے؟‘‘
لڑکے خجالت اور حیا کے مارے خاموش رہے۔ اللہ کے رسول کی حکمت اور محبت دیکھیں کہ آپ ﷺ نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے ایک سے کہا:’’تم اذان سناؤ۔‘‘ اس نے اذان دینا شروع کی مگر اس کی آواز اچھی نہ تھی۔ آپ ﷺ نے دوسرے سے کہا:اب تم اذان دو۔‘‘
یہ آواز اس کی بھی نہ تھی جس کی سماعت آپ ﷺ نے فرمائی تھی۔ اب آپ نے تیسرے لڑکے سے فرمایا:’’تم اذان دو۔‘‘ اس نے اذان دینا شروع کی۔ اس کی آواز بڑی خوبصورت تھی۔ اس کنیت ابو محذورہ تھی۔ اسی نے پہلے سیدنا بلال کی نقل اتاری تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے استفسارفرمایا:’’ ابھی ابھی تمہی نے اذان دی تھی؟ ‘‘
ابومحذورہ نے اثبات میں سر ہلا یا اور کہنے لگا:جی ہاں! وہ میں ہی تھا۔ ابومحذورہ کے دوسرے ساتھی تو بھاگ گئے، مگر ابو محذورہ کوبیٹھے رہنے کا حکم ہوا۔ یہ ابھی تک مسلمان نہ ہوا تھا۔ اسے یہ خوف تھا کہ کہیں میرے قتل کا حکم جاری نہ ہوجائے۔ کیونکہ اس نے تو مذاق میں بلال کی نقل اتاری تھی مگر رحیم وشفیق اور اعلیٰ اخلاق والے نبی کریم ﷺ نے ابومحذورہ کی طرف اپنے مبارک ہاتھ کوبڑھاتے ہوئے اس کا عمامہ اتارا اور اس کے لیے دعا فرمائی:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَاہْدِہِ إِلَی الْإِسْلَامِ
’’اے اللہ! اسے برکت عطا فرما اور اسے اسلام کی ہدایت عطا فرما۔‘‘
آپ ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ ابومحذورہ کے سر پر پھیرا اور ایک بار پھر وہی دعا فرمائی:(اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیہِ وَاہْدِہِ إِلَی الْإِسْلَامِ) ادھرابومحذورہ آپ کے اخلاق، محبت اوردعا سے اتنا متأثر ہوا کہ اسی وقت کہنے لگا:(أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَ نَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ)۔
ابومحذورہ چند ہی منٹوں میں کفر اور شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے نورانی راستے کا راہی بن گیا۔ کہاں اس کو یہ خوف اور ڈر تھا کہ کہیں اسے سزا نہ دی جائے کیونکہ اس نے اذان کا مذاق اڑا یا تھا۔
قارئین کرام! مگر اللہ کے رسول ﷺ کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ نے ہر شخص سے وہی کام لیا جس کا وہ اہل تھا، جسے وہ بآسانی انجام دے سکتا تھا۔ ابومحذورہ کی آواز بڑی خوبصورت تھی۔ مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ حرم مکی میں خوبصورت اذان دینے والے شخص کی ضرورت تھی۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ابومحذورہ اس ذمہ داری کو بڑی خوبی سے پورا کرسکتے ہیں تو ان کاانتخاب کر لیا اور ابومحذورہ سے ارشاد فرمایا:
اِذْہَبْ مُؤَذِّنًا فِي أَہْلِ مَکَّۃَ، أَنْتَ مُؤَذِّنُ أَہْلِ مَکَّۃَ
’’جاؤ تم اہل مکہ مکرمہ کے مؤذن ہو۔ تمہیں مکہ والوں کے لیے مؤذن مقرر کیا جاتا ہے۔‘‘
ابومحذورہ نے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ شریف میں مؤذن کی ذمہ داری سنبھال لی۔ مکہ مکرمہ کے گورنر سیدنا عتاب بن اسید تھے۔ انہیں ابومحذورہ کے بطور مؤذن تقرر کے احکامات مل چکے تھے۔ابومحذورہ اب مؤذنِ حرمِ مکی تھے۔ ان کے لیے یہ فخر اور اعزاز کی بات تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے بالوں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا۔انہوں نے مسرت وشادمانی کے احساس سے سرشار ہو کر یہ ذمہ داری سنبھال لی اور زندگی کے آخری سانس تک مؤذنِ حرمِ مکی رہے۔ کہاں ایک معمولی چرواہا اور کہاں اللہ کے عزت وحرمت والے گھر میں پانچوں نمازوں کے لیے اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کا منصب جلیل! یہ شرف وفضیلت ان کی وفات کے بعد نسل درنسل چلتی رہی اور ان کی اولادتین سو سال تک حرمِ مکی میں مؤذن رہی۔ ]الاستیعاب، ص:844-842، والإصابۃ:203/7، و صحیح مسلم، حدیث:379، و سیرأ علام النبلاء:119-117/3۔[
(یہ واقعہ مولانا عبدالمالک مجاہد﷾کی کتاب ”اخلاق نبوی کے سنہرے واقعات“ سے نقل کیا گیا ہے۔)
ہمارے بچے ان جیسے کیسے بن سکتے ہیں۔۔۔؟
ہمارے بچوں کو ننھے اسلاف جیسا بنانے کے لیے چند عملی اقدامات ضروری ہیں جو ان کے ایمان، کردار، اور شخصیت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
1۔ دین کی محبت پیدا کریں:
بچوں کے دل میں اللہ اور رسول ﷺ کی محبت پیدا کریں۔ انہیں روزانہ قرآن پاک کی تلاوت اور نبی کریم ﷺ کی سیرت سنائیں۔ ننھے اسلاف کے واقعات سنائیں تاکہ وہ ان سے متاثر ہوں اور انہیں رول ماڈل بنائیں۔
2۔ عملی نمونہ پیش کریں:
والدین اور اساتذہ خود اپنے عمل سے بچوں کے لیے نمونہ بنیں۔ نماز، اخلاق، اور صبر میں بچوں کے سامنے اپنے عمل کو بہترین بنائیں۔
3۔ دین کی تعلیم دیں:
دینی تعلیم کو بچوں کے لیے دلچسپ اور عملی بنائیں۔ انہیں نبی ﷺ کے فرامین اور قرآن کے احکامات آسان انداز میں سکھائیں۔
4۔ اخلاقی تربیت کریں:
بچوں کو سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا سکھائیں۔ انہیں صبر، شکر، اور انصاف کی اہمیت بتائیں۔
5۔ مقاصد اور ہدف دیں:
بچوں کو دین اور دنیا کے بڑے مقاصد کا شعور دیں۔ ان کی چھوٹی کامیابیوں کو سراہیں اور ان میں قیادت کی صلاحیت پیدا کریں۔ انہیں ان ننھے ہیروز کے خواب دکھائیں جو اپنے ایمان کے لیے جیتے تھے۔
6۔ محفوظ اور مثبت ماحول فراہم کریں:
انٹرنیٹ، دوستوں، اور تفریح کے ذرائع پر نظر رکھیں۔ گھر میں محبت، امن، اور دینی ماحول قائم کریں۔
7۔ عبادت کی عادت ڈالیں:
بچوں کو چھوٹی عمر سے نماز، دعا، اور ذکر کا عادی بنائیں۔ عبادات کو ان کے لیے بوجھ نہیں بلکہ شوق بنائیں۔
❄❄❄❄❄