ناپ تول میں کمی بیشی کی مذمت
اللہ تعالی فرماتا ہے
﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ۱ الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَؗۖ۲ وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ۳ اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ۴ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ۵ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ۶﴾ (المطففين: 1-6)
’’خرابی ہے ان گھٹا کر دینے والوں کے لیے جو اوروں سے جب ناپ کر لیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ کر دیں تو گھٹا کر دیں۔ کیا ان کو یہ خیال نہیں کہ اس بڑے بھاری دن کے لیے ان کو اٹھایا جائے گا جس دن سب لوگ تمام جہانوں کے مالک کے لئے کھڑے ہوں گے۔‘‘
ناپ تول میں کمی بیشی کرنا حقیقت میں دوسرے کے حق پر ہاتھ ڈالنا ہے جو کوئی لینے میں تول کو بڑھاتا اور دینے میں وہ سے گھٹاتا ہے وہ دوسرے کی چیز پر بے ایمانی سے قبضہ کرتا ہے اور یہ بھی چوری ہی ہے اس لیے قرآن پاک میں اس سے بچنے کی خاص طور پر تاکید آئی ہیں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم سوداگری کرتی تھی اس لیے ان کی دعوت میں ناپ تول میں ایمان داری کی تاکید بار بار کی گئی ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام سمجھاتے رہے۔
﴿أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ، وَزِنُو بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ وَلَاتَبْخَسُو النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِيْنَ﴾ (الشعراء: (181-183)
’’اور پورا بھر دو تاپ اور نہ ہو نقصان پہنچانے والے اور تو او سیدھی ترازو سے اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو ملک میں فساد پھیلاتے۔‘‘
یہی حضرت شعیب علیہ السلام مدین والوں کو سمجھایا کرتے تھٰ جو مشرق و مغرب کے تجارتی قافلوں کے راہ گزر میں آباد تھے۔
﴿ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ۸۴ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۸۵ ﴾ (هود: 84 85)
’’اور ماپ تول میں کمی نہ کرو میں تم کو آسودگی میں دیکھتا ہوں اور ایک گھیر لینے والے دن کی آفت سے تم پر ڈرتا ہوں اور اے میرے لوگو! ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو اور لوگوں کی چیزیں ان کو گھٹا کر مت دو اور ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ ناپ تول کے بے ایمانی سے خیر و برکت جاتی رہتی ہے یا ظاہر نظر سے دیکھئے تو یوں کیسے کہ بازار میں ایسے لوگوں کی جو ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ہیں ان کی ساکھ جاتی رہتی ہے اور یہ بالآخر ان کے بیوپار کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ چاہتے تو یہ ہیں کہ اس بے ایمانی سے کچھ اپنا سرمایہ اور نفع بڑھا لیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ ان کی یہ اخلاقی برائی، ان کی اقتصادی اور معاشی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے حضرت شعیب علیہ السلام کی یہی نصیحت سورہ اعراف میں دہرائی گئی ہے۔
﴿ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۸۵﴾ (اعراف: 85)
’’تم ناپ اور تول پورا کرو اور مت گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد خرابی مت ڈالو۔ یہ تمہارے لیے بھلا ہے اگر تم کو یقین ہو۔‘‘
آنحضرت ﷺ کے ذریعہ حضرت شعیب علیہ السلام کی یہ پرانی تعلیم پھر زندہ ہوئی اسلام میں جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا گیا اس کے بعد ہے۔
﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ﴾ (انعام:153)
’’اور تاپ تول کو پورا کرو۔‘‘
سورہ بنی اسرائیل میں جو اخلاقی نصیحتیں کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:
﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ مَا ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: (35)
’’اور جب تم ناپو تو تاپ پورا بھر دو اور سیدھی ترازو سے تولو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔‘‘
آیت کا آخری فکرہ بتاتا ہے کہ بے ایمانی کی ناپ تول گو شروع میں کتنا ہی فائدہ پہنچائے مگر آخر وہ بیوپار کی تباہی کا باعث ہو کر رہتی ہے۔ خوب غور کر کے دیکھنے تو معلوم ہوگا کہ اس بداخلاقی کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ان کے ان چھپے ہوئے کرتوتوں کو دیکھنے والی آنکھیں ہر وقت کھلی ہیں اور دلوں سے یہ یقین گم ہو جاتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب ان کو خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ہر کام کا حساب دینا ہو گا۔
(4) تکبر اور خود بینی کی مذمت
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۳۷ كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا۳۸﴾ (بنی اسرائیل: 37 – 38)
’’اور (اے مخاطب) زمین میں اکڑ کر نہ چلا کر (کیونکہ اس دھماکہ کے ساتھ چلنے سے) تو زمین کو نہ پھاڑ سکے گا۔ اور نہ پہاڑ کی اونچائی کو پہنچ سکے گا (اے پیغمبر) ان سب باتوں میں جو بری ہیں سب ہی تو تمہارے رب کے نزدیک ناپسند ہیں۔‘‘
یعنی بات چیت اور کسی معاملے میں تکبیر ہرگز مت کرو تکبر کرنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ تکبر و کبر بڑائی کو کہتے ہیں یعنی وہ وصف و کمال جس کے پائے جانے سے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے اور جس میں یہ کمال نہیں پایا جاتا اسے حقیر وذلیل جانے کو تکبر کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(وَلٰكِنَ الْكِبَرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقِّ وَغَمَطَ النَّاسَ)[1]
’’تکبر یہ ہے کہ جو حق کو پھینک دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔‘‘
سب سے پہلا تکبر کرنے والا شیطان ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بالاتر سمجھا اور کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اللہ تعالی نے اس کو اس تکبر کی وجہ سے مردود قرار دیا اور جنت سے نکال دیا اور ہمیشہ کا دوزخی ٹھہرایا۔ کتاب وسنت میں غرور و تکبر کی بڑی خدمت آئی ہے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا﴾ (نساء: 36)
’’اللہ تعالیٰ غرور کرنے والے اور گھمنڈی کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
اس لیے ایسے لوگوں کو دوزخ کی سزا ہے۔
﴿اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكْبِّرِينَ﴾ (زمر: 60)
’’کیا جہنم میں مغروروں کا ٹھکانہ نہیں ہے؟ ضرور ہے۔ ‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا:
﴿ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ۱۸ وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠۱۹﴾ (سوره لقمان : 18 – 19)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب اللباس باب ماجاء في الكبر (103/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور لوگوں سے بے رخی اختیار نہ کر اور زمین پر اترا کر نہ چل (کیونکہ) اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور (کسی سے بات کرو تو) آہستہ آہستہ بولو کیونکہ آوازوں میں بری آواز گدھوں کی آواز ہے (تو آدمی ہو کر گدھے کی طرح چیخنا چلانا مناسب نہیں ہے‘‘
ان دونوں آیتوں سے غرور و تکبر کی مذمت ثابت ہوتی ہے اور مغرور و تکبر کرنے والے دوزخی ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: غرور و تکبر کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ)[1]
’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(حُشِرَ الْمُتَكَبِّرُوْنَ أَمْثَالَ الذَّرِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشٰهُمُ الذِّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَان يُسَاقُونَ إِلَى سِجْنٍ فِي جَهَنَّمَ يُسَمّٰى بُولَسَ تَعْلُوهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ وَيُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طَيْنَةِ الْخَبَالِ)[2]
’’قیامت کے دن متکبروں کو میدان حشر میں اس طرح لایا جائے گا جیسے چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں ہوتی ہیں آدمیوں کی صورت میں اور ہر طرف سے ان پر ذلت طاری ہوگی اور دوزخ کے ایک جیل خانه بولس میں ہانک کر ڈالے جائیں گے۔ ان پر زبردست جہنم کی آگ غالب ہوگی ان متکبروں کو دوزخیوں کا پیپ اور لہو وغیرہ پینے کو دیا جائے گا۔‘‘
تکبر کرنے سے دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گذشتہ لوگوں میں ایک شخص ایک جوڑا پہن کر اتراتا ہوا نکلا تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ اس کو گرفت میں لے لے چنانچہ زمین نے اسے پکڑ لیا اور اب وہ قیامت تک دھنستا چلا جا رہا ہے۔[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب الايمان باب تحريم الكبر و بیانه
[2] ترمذى: كتاب صفة القيامة باب نمبر 47 (315/3)
[3] بخاري: كتاب اللباس باب عن جرثوبه من الخيلاء، مسلم: كتاب اللباس باب تحريم التبختر في المشي۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپﷺ نے فرمایا:
(مَنْ جَرَّثَوْبَهُ خُیَلاَءَ لَمْ يَنظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ)[1]
’’جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔‘‘
انسان ایک حقیر پانی سے پیدا ہوا ہے جو پیشاب کی جگہ سے نکل کر پیشاب کی جبکہ میں داخل ہوا اور پھر پیشاب کی ہی جگہ سے باہر آ یا ایسے کے لئے ہوائی اور تکبر لائق نہیں ہے۔ تکبر اور بڑائی خدا کی شان ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور نہ اس میں کسی قسم کا عیب و نقصان ہے۔
مر او را رسید کبریا و منی که ملکش قدیم است و ذاتش غنی!
کبر و غرور سے ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ مغرور آدمی اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھتا ہے مگر حقیقت منکشف ہونے کے بعد بہت ذلیل ہوتا ہے لوگ اسے دشمن سمجھنے لگتے ہیں اگر عزت چاہتے ہو تو ہمیشہ تواضع کرو اور کسی کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو۔
اے ذوق کسی کو چشم حقارت سے نہ دیکھئے سب ہم سے زیادہ ہیں کوئی ہم سے کم نہیں۔
عام طور پر تکبر کرنے والے حسب و نسب حسن و جمال و دولت پر تکبر کرتے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک چیز زوال پذیر ہے اور ذاتی خوبی کسی میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ﴾ (حجرات: (13) ’’لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد ( آدم علیہ السلام سے ) اور ایک عورت (حوا) سے پیدا کیا ہے اور تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو۔ ورنہ اللہ کے نزدیک تم میں بڑا شریف وہی ہے جو پرہیز گار ہو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبٰائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخَرْاَ بِأَنْفِهِ إِنَّ اللَّهَ اَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْاٰبَاءِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقفِيٌّ أَوْ فَاجِرٌ شَقِي النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُوْادَمَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب اللباس باب من جرثوبه من الخيلاء۔ ومسلم كتاب اللباس باب تحريم جر الثواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَاٰدَمُ مَنْ تُرَابٍ)[1]
’’جو لوگ اپنے مرے ہوئے باپ دادوں پر فخر کرتے ہیں انہیں اس سے باز رہنا چاہئے وہ تو دوزخ میں جل بھن کر کوئلہ ہو گئے ہیں تو ان پر فخر کرنا حماقت ہے اگر یہ لوگ باز نہ آئیں گے تو اللہ تعالی کے نزدیک گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنی ناک سے پائخانہ کو گھسیٹتا ہے اللہ تعالی نے جاہلیت کے زمانے کی نخوت اور ریاء اور اجداد کے ساتھ فخر کرنے کو دور کر دیا ہے (آدمی دو حال سے خالی نہیں) مومن پرہیز گار یا بدکار- بدبخت۔ سب کے سب ایک آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے ہیں (مٹی میں تواضع وخاکساری ہے۔ ترفع و تکبر نہیں)‘‘
خود بینی اور خود نمائی
انسان کو بعض دفعہ اپنے اندر جو کمالات اور خوبیاں نظر آتی ہیں وہ ان پر کبھی ایسا فریفتہ ہو جاتا ہے کہ اپنے سوا ہر چیز کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور اپنے کو دوسروں سے بڑا جاننے لگتا ہے۔ اس کا نام عجب اور خود بینی ہے اس سے نفس میں خود نمائی پیدا ہوتی ہے اور یہ غرور کا سبب بن جاتی ہے اس خود نمائی اور تکبر میں یہ فرق ہے کہ تکبر ایک اضافی چیز ہے۔ یعنی متکبر آدمی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے لیکن خود بینی کے لئے تنہا انسان کی ذات بھی کافی ہے۔ دوسرے کا ہونا ضروری نہیں۔ یہ عجب اور خود بینی بھی خدا کو ناپسند ہے۔ جس طرح کبر و تکبر خدا کو ناپسند ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْـًٔا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ﴾ (توبه: (25)
’’اور حنین کے دن جب تمہاری کثرت تعداد نے تم میں خود بینی پیدا کر دی تھی کہ تم مغرور ہو گئے۔ خود تمہاری کثرت کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود کشادگی کے تم پر تنگ ہو گئی تم شکست خوردہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔‘‘
یعنی جنگ حنین کے موقع پر مسلمانوں کی بارہ ہزار تعداد تھی اس تعداد کو دیکھ کر مسلمانوں میں خود بینی پیدا ہو گئی اور کہنے لگے ہماری اتنی تعداد ہے اب ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے اللہ تعالی کو ان کی یہ خود نمائی پسند نہ آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود كتاب النوم باب في التفاخر بالاحسان (492/4) وترمذي كتاب المناقب باب في فضل الشام (382/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شروع میں انہیں اس خود نمائی کی وجہ سے شکست نصیب ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ جنگ اور دوسرے موقع پر عجب اور خود نمائی ٹھیک نہیں ہے اور جس قوم میں خود نمائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ تباہ و بربادہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے
فرمایا:
﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا﴾ (قصص : 58)
گگاور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ و برباد کر دیں جب وہ اپنے معیشت میں اترا کر چلیں۔‘‘
اس عیب کا مادہ جن ذرائع سے پیدا ہوتا ہے اسلام نے ان کا پورا انسداد کیا ہے حدیث میں ہے کہ ایک شخص کسی کی مبالغہ آمیز طریقہ پر تعریف کر رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے سنا تو فرمایا کہ تم نے اس کو ہلاک کر دیا۔ ایک بار آپﷺ کے سامنے کسی کا ذکر آیا تو ایک شخص نے اس کی تعریف کی آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کی گردن کاٹ ڈالی اگر کسی کی تعریف ہی کرنا ہے تو یہ کہو کہ میں اس کو ایسا سمجھتا ہوں۔[2]
مدح کی یہ ممانعت اس لیے کی گئی ہے۔ کہ اس سے ممدوح میں خود بینی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن اس بیماری کا سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ کوئی اپنی کسی خوبی کو اپنی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھے اس لیے بار بار اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کے ذکر میں بندوں کے سامنے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے ارشاد فرمایا:
﴿لَا تَفْرَحُوا بِمَا أَتَاكُمْ﴾ (الحديد:23)
’’اللہ نے جو دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں۔‘‘