نصیب اپنا اپنا

﴿ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا۝﴾ (الاسراء:20)

رمضان المبارک اپنی رحمتیں، برکتیں اور سعادتیں بکھیرتا ہوا ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے، اللہ تعالی کے انعامات اور عنایتوں اور نوازشوں کی برکھا اور اس کا ابر کرم ہر ایک پر یکساں برستا ہے، اس میں مرد و عورت چھوٹے بڑے، امیر، غریب اور نیک و بد کی کوئی تفریق نہیں ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا۝﴾ (الاسراء:20)

’’ہم ہر ایک کو بہم پہنچاتے ہیں، انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے رب کے انعامات میں سے اور تیرے رب کے انعامات کسی کے لیے بھی ممنوع و منظور نہیں ہیں ۔‘‘

طالب دنیا ہو یا طالب آخرت، اللہ تعالی کسی کو بھی اپنی عنایتوں اور نوازشوں سے محروم نہیں کرتے ، البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ:

﴿ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝﴾ (الاسراء:18)

’’جو شخص صرف دنیا کا طلبگار ہو، ہم دنیا کے خواہشمندوں کو جتنا جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں، بالآخر ہم اس کے لیے جہنم مقرر کر دیتے ہیں، جہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا ۔‘‘

یعنی دنیا کے طلبگاروں کو ان کی خواہش کے مطابق ہر چیز نہیں دیتے، بلکہ اپنی مرضی کے مطابق جتنی چاہیں دیتے ہیں اور جس کو چاہیں دیتے ہیں۔

﴿ وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰی لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹﴾(الاسراء:19)

’’البتہ جو شخص آخرت کا طلبگار ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے وہ کرتا بھی ہو اور ہو بھی مؤمن تو ایسے ہر شخص کی کوشش کی قدر دانی کی جائے گی۔‘‘

 یعنی اُس نے جتنی اور جیسی کوشش بھی آخرت کے لیے کی ہوگی ، اس کا پھل ضرور پائے گا۔ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کی رحمتیں مہینہ بھر ، صبح و شام برستی رہیں اور سب پر یکساں برستی رہیں، یعنی سب کو وسائل برابر دستیاب رہے اور مواقع یکساں میسر آئے، جو بھی چاہتا بغیر کسی فرق و امتیاز کے اللہ تعالی کی ان عنا یوں تک رسائی حاصل کر سکتا تھا۔ ہم میں سے کون خوش نصیب رہا اور کون بدنصیب اکسی نے منادی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بخشش و مغفرت کے لیے اللہ کے حضور دست سوال دراز کئے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے التجا میں کہیں! اور کون اس سے محروم رہا، اس کی حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے اور پھر اُس کے بعد انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے:

﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝﴾ (القيامة:14۔15)

’’بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے دو کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔‘‘

تو یوں تو اللہ تعالی کی رحمتیں اور عنایتیں سارا سال ہی نازل ہوتی رہتی ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

((يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخر‘‘

’’اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔‘‘

((فَيَقُولُ: مَن يَدْعُونِي فاستجيب له))

’’تو فرماتے ہیں: ہے کوئی جو مجھے پکارنا چاہے! میں اُس کی پکار کو شرف قبولیت بخشوں!‘‘

((مَن يسألني فأعطيه)) (صحيح مسلم: ٧٥٨)

’’ہے کوئی جو مجھ سے مانگنا چاہے میں اس کی مرادیں بر لاؤں ؟‘‘

((مَنْ يَسْتَغْفِرْنِي فَاغْفِرَ لَهُ))

’’ہے کوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہے، میں اُسے مغفرت سے نوازوں!‘‘

 اور یہ پیشکش صلائے عام ہے یعنی کسی کے لیے مخصوص نہیں اور کسی کے لیے منظور نہیں۔ غور کیجئے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اہل ایمان کے لیے یہ پیشکش عام دنوں میں ہے جبکہ رمضان المبارک میں تو خصوصی پیشکش ہے، اللہ تعالی کی رحمت اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کے بہت سے مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔

اللہ تعالی کی رمضان المبارک میں ایک خصوصی عنایت جو اپنے مؤمن بندوں پر ہوتی ہے وہ یہ کہ ہر روز افطار کے وقت کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لِلَّهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاء، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ))(سنن ابن ماجه:1643)

’’اللہ تعالی ہر روز افطار کے وقت لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں ۔‘‘

اور ایک حدیث میں ساتھ ہزار کا عدد بھی آیا ہے کہ:

((وَلِلهِ تَعَالَى عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ كُلَّ لَيْلَةٍ عُتَقَاءَ مِنْ النَّارِ سِتُّونَ اَلْفًا))

’’اللہ تعالی رمضان کے مہینے میں ہر روز افطار کے وقت ساٹھ ہزار لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں۔‘‘

 ((فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ أَعْتَقَ مِثْلَ مَا أَعْتَقَ فِي جَمِيعِ الشَّهْرِ ثلاثين مرة ستين ألفا)) (شعب الايمان للبيهقي: 3334) قال عنه الألباني: ضعيف وقال المنذري: ’’وهو حديث حسن لا بأس به في المتابعات‘‘)

 اور جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اس دن جتنے پورے رمضان میں آزاد کئے گئے ہوتے ہیں اتنے لوگ آزاد کرتا ہے، یعنی تقریباً 18لاکھ۔

مسلمانوں کی موجودہ آبادی کے تناسب سے رمضان المبارک میں جہنم سے آزاد ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے، اس وقت دنیا میں مسلم آبادی تقریبا 2بلین ہے اور اس میں سے صرف 20 ہزار لوگ ہی روزانہ جہنم سے آزاد ہو سکیں بہت کم تعداد ہے، اس تعداد والی حدیث کی صحت بعض علماء کرام کے نزدیک محل نظر ہے۔ لیکن اگر صرف دوسری احادیث پر ہی اکتفا کیا جائے ، تو ان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ آزاد ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنے طرز عمل کو دیکھیں اور امت مسلمہ کی مجموعی حالت پر نظر ڈالیں تو کوئی تعجب نہیں ہوتا ، بلکہ لگتاہے کہ شاید یہ تعداد بھی زیادہ ہے۔

جہنم سے آزادی حاصل کرنا انسان کا کتنا بڑا اور اہم مسئلہ ہے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں: قرآن پاک نے اس سے متعلق ایک بنیادی حقیقت یوں بیان کی ہے کہ:

﴿ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ۝۲۱﴾ (الطور:21)

’’ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے، (گروی ہے )۔‘‘

 جس طرح سورۃ العصر میں ہے کہ اللہ تعالی نے زمانے کی قسم کھا کر انسان کی کامیابی اور ناکامی سے متعلق ایک بہت بڑی اور بنیادی حقیقت یہ کہہ کر بیان فرمائی کہ

﴿ وَ الْعَصْرِۙ۝۱

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ۝۲﴾(العصر:1۔2)

’’قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان گھاٹے اور خسارے میں ہے۔‘‘

﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْ۠رِ۝﴾ (العصر:3)

’’مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘

چونکہ بنیادی طور پر خسارہ پانے والوں کی غالب اکثریت ہے، یا انسان کا طبعی اور قطری میلان اور رجحان اس طرف ہوتا ہے اس لیے پہلے ان کا ذکر فرمایا اور اس انداز سے فرمایا گویا کہ سارے کے سارے انسان ہی خسارے میں ہیں ، سوائے چند مخصوص صفات والوں کے۔ نیز کچھ اسی طرح ایک یہ حقیقت بھی بیان فرمائی کہ بنیادی طور پر ہر انسان اپنے عملوں کے عوض گروی ہے۔ اور پھر اس سے مستثنی لوگوں کا ذکر فرمایا، فرمایا:﴿ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ۝۳۸

اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ﴾ (المدثر:38-39)

’’ہر جان اس کے بدلے گروی رکھی ہوئی ہے جو اس نے کمایا مگر دائیں ہاتھ والے۔‘‘

 رہن اور گروی ہونا کیا ہوتا ہے، یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا، رہن یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے، تو قرض دینے والا اپنے حق ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اُس کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لے اور جب تک وہ قرض ادا نہ کردے اُس وقت تک فک رہن نہ ہو، یعنی اُس وقت تک رہن شدہ چیز ، گروی رکھی گئی چیز چھوڑی نہ جائے ، آزاد نہ کی جائے۔ اور اگر طے شدہ مدت گزر جانے پر بھی وہ قرض ادا نہ کر سکے تو اُس کی وہ ضمانت کے طور پر رہن رکھی گئی چیز ضبط ہو جاتی ہے، پھر اُس کو واپس نہیں ملتی ۔ تو یہاں اللہ اور بندے کے درمیان جو معاملہ ہے اُس کی نوعیت کو بیان کرنے کے لیے اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو جو قوتیں اور صلاحیتیں دی ہیں اور جو انعامات اور اختیارات عطا گئے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو اللہ نے اپنے بندے کو دیا ہے اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے بندے کی جان (نفس ) اپنے پاس رہن رکھ لی ہے۔

بندہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ان قوتوں اور صلاحیتوں کو، ان اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر نیکیاں کمائے کہ جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ اس گروی رکھی گئی چیز یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا، ورنہ اسے ضبط کر لیا جائے گا۔ تو انسان کی اس دنیا میں تمام تر کوششیں اس کے لیے ہونی چاہیں کہ وہ اپنے نفس کو آزاد کرائے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر دنیا میں یہی کچھ کر رہا ہے

کہ یا تو وہ اپنے نفس کو آزاد کرا رہا ہے، یا اسے ہلاک اور تباہ و برباد کر رہا ہے۔ چنانچہ اس بات کو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو ، فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوْبِقُهَا))  (صحیح مسلم: (223)

’’ ہر شخص اپنے دن کا آغاز اس حال میں کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس کی خرید و فروخت کر رہا ہوتا ہے ۔‘‘

((فَمُعْتِقُهَا أَو مُوْبِقُهَا))

’’اور اس خرید و فروخت میں یا تو وہ اپنے آپ کو آزاد کر رہا ہوتا ہے یا اُس کو تباہ کر رہا ہوتا ہے ۔‘‘

تو جہنم سے آزادی کی بات ہو رہی تھی کہ اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کرانا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنت کی خواہش اور اس کے حصول کی کوششوں سے پہلے کرنے کا کام:

جہنم سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران:185)

’’پس جو شخص آگ سے بنا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہ حقیقت میں کامیاب ہو گیا۔‘‘

تو رمضان المبارک کے خصوصی پیکیج میں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے مؤمن بندوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی پیشکش اور عنایت شامل ہے کہ اللہ تعالی کئی لوگوں کو ہر روز افطار کے وقت جہنم سے آزاد کرتے ہیں، سب کو نہیں بلکہ کچھ لوگوں کو۔ حدیث میں یہ نہیں ہے کہ تمام روزے داروں کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔

اب یہ تو ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں ہے کہ ہم میں سے کس کو جہنم سے آزاد کیا گیا اور کسی کو نہیں ، لیکن ایمانداری سے اگر ہم اس کا جائزہ لیں تو کم از کم اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم نے جنم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوئی اضافی اور مخلصانہ کوششیں کیں یا نہیں کیا ہمیں جہنم سے آزادی حاصل کرنے کی فکر بھی تھی یا نہیں اور فکر کا مطلب صرف ذہن میں اس کا خیال آنا ہی نہیں بلکہ اس کے لیے مخلصانہ کوششیں کرنا ہے اور اس کے لیے وقت دینا پڑتا ہے۔

کیا ہم نے جہنم سے آزادی حاصل کرنے پر دنیا کمانے کو ترجیح تو نہیں دی! کیا ہم نے اپنے لیے یا اپنے بیوی بچوں کے خوشحال مستقبل کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی اس عظیم پیشکش کو ٹھکرا تو نہیں دیا ؟ اور اس موقع قیمت کو داؤ پر تو نہیں لگا دیا ؟ اگر ایسا ہے تو ہم ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہوں گے اور بہت بد نصیب ہوں گے۔ یہ باتیں تو ہم میں سے ہر ایک کو اچھی طرح یاد ہوگئی ہوں گی کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔

﴿ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۝۳۴ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ۝۳۵ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ۝۳۶ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ۝۳۷﴾ (عبس:34۔38)

’’اس روز آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں ، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ، ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا ۔‘‘

ہم پھر بھی ان کے لیے اپنی آخرت داؤ پر لگا دیں تو کیا ہمیں دنیا میں کوئی عقلمند کہنے والا ہوگا؟ اور یہ کوئی ایک بات نہیں، قرآن وحدیث میں قیامت کے ایسے بہت سے ہوش ربا مناظر کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں مگر تعجب ہے کہ ہم اس قدر سنگدل ہیں کہ کسی کا کوئی اثر ہوتا ہی نہیں۔ ہم جس کے لیے اپنی آخرت قربان کر رہے ہیں آئیے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا قیامت کے دن وہ ہمارے کسی کام آسکتے ہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:

((قَالَتْ ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ))

’’کہتی ہیں کہ ایک روز جہنم کی آگ کو یاد کر کے میں رو پڑی۔‘‘

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((مَالَكِ يَا عَائِشَةُ ))

’’تو آپ ﷺنے فرمایا: "عائشہ کیا بات ہے؟‘‘

((قالت: ((ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ))

’’کہا: آگ یاد کر کے رونا آگیا۔‘‘

((فَهَلْ تَذْكُرُونَ أَهْلِيكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ))

’’کیا آپ قیامت کے دن اپنے اہل خانہ کو یاد رکھیں گے؟‘‘

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((أَمَّا فِي ثَلَاثِ مَوَاطِنَ فَلَا يَذْكُرُ أَحَدٌ احداً حَتَّى يَعْلَمَ أَيَخِفَّ مِيزَانُهُ أَمْ يَثْقُلُ ))

’’تو آپ ﷺنے فرمایا:  مگر تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔‘‘

1۔ میزان کے وقت، یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا پلڑا بھاری رہا یا ہلکا۔

((وَعِنْدَ الْكُتُبِ حَتَّى يُقَالَ: ﴿هٰاؤُمُ اقْرَءُ وْا كِتَابِيَهْ﴾ حَتَّى يَعْلَمَ اين يقع كِتَابَهُ: أَفِي يَمِينِهِ أمْ فِي شِمَالِهِ أَوْ مِنْ وَرَاءَ ظَهْرِهِ))

’’اعمال نامے دیئے جانے کے وقت جب یہ کہا جائے گا کہ: ﴿هٰاؤُمُ اقْرَءُ وْا كِتَابِيَهْ﴾ ’’آؤ میرا اعمالنامہ پڑھو‘‘  یہاں تک کہ اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا ہے یا با میں ہاتھ میں ، یا پشت کے پیچھے!

((وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بين ظهرى جهنم)) (مستدرك حاكم، كتاب الأهوال، باب الأهوال: 8722، الترغيب والترهيب:3625)

’’اور جب پل صراط جہنم پر رکھا جائے گا۔‘‘

 کیا یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی رمضان المبارک کی صورت میں دیئے گئے موقع نقیمت کو اپنی اولاد پر قربان کر دیں گے اور اللہ تعالی کی جہنم سے آزاد کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیں گے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو، اور اگر ہم ایسا نہیں چاہتے تو ہمارے طرز عمل میں مثبت تبدیلی آنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے فضل کے بعد صرف اپنے ہی اعمال کام آئیں گے ، قرآن وحدیث اس حقیقت کے بیان میں بھرے پڑے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے، حدیث قدی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

((يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أَحْصِيهَا لَكُمْ))

’’اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں، جنہیں میں گن گن کر اور سنبھال سنبھال کر رکھتا ہوں ۔‘‘

((ثُمَّ أَو فِيكُمْ أَيَّاهَا))

’’پھر میں تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔‘‘

((فَمَنْ وَجَدَ خَيْراً فَلْيَحْمَدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ))

’’پس جو تو خیر اور بھلائی پائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے اس کا شکر ادا کرے۔‘‘

((وَمَن وجد غير ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ)) (صحیح مسلم:2577)

’’اور جو معاملہ اس کے برعکس پائے ، وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرے۔‘‘

بات واضح ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔

رمضان المبارک کا اگر چہ زیادہ حصہ گزر چکا ہے، لیکن بات اب بھی اگر سمجھ آجائے تو دیر نہیں ہوئی ، آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آنا ، دنیا کے یوٹرن کی طرح نہیں ہے۔ دنیا کا یوٹرن تو یہ ہے کہ اگر آپ کسی غلط راستے پر دور تک نکل گئے ہوں، تو وہاں سے

جب یوٹرن لگائیں گے تو زیرو پوائنٹ پر پہنچنے کے لیے اتنا ہی وقت لگے گا جتنا کہ وہاں تک پہنچنے میں لگا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف یوٹرن اسی وقت گویا قبول ہو جاتا ہے جب آپ لگاتے ہیں، چاہے زندگی کی آخری سانسیں ہی لے رہے ہوں ۔

جہنم سے آزادی دلوانے والے اور بھی کئی اعمال ہیں جن کا ذکر ان شاء اللہ پھر کسی وقت ہو گا۔ سردست صرف ایک عمل کا ذکر کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ کے ڈر سے ہماری آنکھوں سے اگر آنسو ٹپک پڑیں تو جہنم سے آزادی مل سکتی ہے کہ حدیث میں ہے ؟

 ((لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضرع)) (سنن ترمذی:2311)

’’جس شخص کی آنکھوں سے اللہ کے ڈر سے آنسو جاری ہو جائیں وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، یہاں تک کہ دودھ چھن میں واپس چلا جائے ۔‘‘

مگر سوال یہ ہے کہ آنسو کہاں سے لائیں ، ہماری آنکھیں تو خشک ہو چکی ہیں، بے حس ہو چکی ہیں، ہمیں رونا آتا ہے تو دنیا کی محرومی پر رونا آتا ہے۔ اللہ کے ڈر سے رونا تو شاید ہمیں خوابوں میں بھی نہیں آتا۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ایک شریف آدمی اپنے گھر کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں گھر جاتا ہوں تو کبھی دیکھتا ہوں کہ گھر کی عورتیں ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوتی ہیں اور ڈرامہ دیکھ دیکھ کر رو رہی ہوتی ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں ہے بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے، اس لیے آنکھوں میں آنسو تو رہے نہیں اب بقول شاعر اب کسی اور کی آنکھیں مستعار لینا ہوں گی۔

آنکھوں سے آنسو کیسے جاری ہوتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے بس اتنا یاد رکھیں کہ کے لیے دل کا نرم ہونا ضروری ہے اور دل کیسے نرم ہوتے ہیں یہ بھی ایک الگ موضوع اس ہے۔ تا ہم اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

………………..