نواقض وضو

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أو مُسَافِرِينَ أَلَّا نَنزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةِ لٰكِن مِنْ غَائِطِ وَبَول وَنَوم. (أخرجه الترمذى )
(سنن ترمذى: أبواب الدعوات عن رسول اللهﷺ، باب ما جاء في فضل النوبة والاستغفار وما ذكر من رحمة الله لعباده، وقال هذا حديث حسن صحيح، و حسنه الألباني في التعليق الترغيب، (73/4)
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے یا سفر میں ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ تاریں، الا یہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے ۔ البتہ پیشاب و پاخانہ اور نیند کی وجہ سے موزے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
عَن عِبَاد بنِ تَمِيم عَن عَمِّهِ أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الرَّجُلَ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيءَ فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ : لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعُ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا. (متفق عليه).
(صحیح بخارى كتاب الوضوء، باب من لا يتوضأ من الشك حتى يستيقن، صحيح مسلم: كتاب الحيض، باب الدليل على أن من تيقن الطهارة ثم شك في الحدث فله.)
عباد بن تمیم رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے اس شخص کے بارے میں شکایت کی جسے یہ کھٹکتا ہو کہ نماز کی حالت میں ہوا خارج ہو گئی ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مسجد سے باہر نہ جائے تا وقتیکہ (یقین نہ ہو جائے) یعنی یا تو آواز سن لے یا تو بد بو محسوس کرلے۔
عَن عَلِي بنِ أَبِي طَالِب رضيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: كُنتُ رَجُلاً مَذَّاءً فَكُنتُ اسْتَحْيِي أَن أَسأَلُ النَّبِيَّ ﷺ لَمَكَانِ ابْتِهِ، فَأَمَرْتُ المِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ : يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَيَتَوَضَّا. (متفق عليه)
(صحیح بخاری: كتاب الغسل، باب غسل المذى والوضوء منه، صحيح مسلم: كتاب الحيض باب المذى.)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے کثرت سے مذی خارج ہوتی تھی مجھے شرم آتی تھی کہ میں رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کروں کیونکہ آپ کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی کریم سے اس کے متعلق دریافت کریں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے عضو تناسل کو دھو ڈالو اور وضو کر لو۔
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللهﷺ : اَتَوَضَّأُ مِن لُحُومِ الغَنَمِ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّأَ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا توَضَّأُ، قَالَ: الْتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الإِبِل؟ قَالَ: نَعَمْ، فَتَوَضَّأَ مِنْ لُحُومِ الإِبل. (رواه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل.)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے دریافت کیا، کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضو کرتا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر دل چاہے تو کر لو ورنہ نہ کرو۔ اس شخص نے پھر عرض کیا، کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں؟ فرمایا: ہاں، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد ضرور وضو کرنا چاہئے۔
عن بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يقُولُ : مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضا. (اخرجه أبو داود والترمذي )
(سنن ابو داود: کتاب الطهارة، باب الوضوء من مس الذكر، سننن ترمذي، أبواب الطهارة عن رسول الله ﷺ باب الوضو من مس الذکر، وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود: (181) و صحیح ابن ماجه: (479)
بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جس نے اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگایا اسے وضو کرنا چاہئے۔
تشریح:
رسول اللہ ﷺ نے نواقض وضو کو بیان فرمادیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ وہ طہارت کو ختم کر دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ان اعمال کی ادائیگی کے لئے جن میں طہارت اور باوضو ہونا شرط ہے جیسے نماز پڑھنا، خانہ کعبہ کا طواف کرنا اور قرآن حکیم کو چھونے کے لئے دوبارہ وضو کو واجب کر دیتے ہیں۔
فوائد:
نواقض وضو مندرجہ ذیل ہیں:
٭ گہری نیند، اس میں بے ہوشی اور پاگل پن بھی شامل ہے۔
٭ پیشاب و پاخانہ کے راستے سے نکلنے والی چیز میں خواہ وہ پیشاب و پاخانہ کی شکل
میں ہو یا خون اور مذی وغیرہ۔
٭ اونٹ کا گوشت کھانا یہ اس کے تمام اجزاء یعنی چھاتی، جگرا اور اوجھڑی وغیرہ کو شامل ہے۔
٭ عضو تناسل کو شہوت کے ساتھ بغیر کسی کپڑے کے چھونا۔
٭٭٭٭
ماه ربیع الآخر
وجہ تسمیہ: چونکہ اس مہینے میں زمین بڑی زرخیز ہوتی تھی اس لئے اس کا نام رابیع الآخر پڑ گیا۔ کیونکہ ربیع کے معنی ہوتے ہیں زرخیزی کے اور اس مہینہ کو عہد جاہلیت میں ’’صوان‘‘ یعنی حفاظت کرنے والا کہا جاتا تھا۔
اہم واقعات:
٭غزوہ بحران یا نجران اس ماہ 3ھ میں پیش آیا۔
٭ مدینہ منورہ سے بنی نضیر کے یہودیوں کو اسی ماہ 4ھ کو نکالا گیا۔
٭ سریہ زید بن حارثہ بنی سلیم کی جانب اسی ماہ 6 ھ کو بھیجا گیا۔
٭ رسول الله نے خالد بن ولید کو حارث بن کعب کی جانب ای ماه 10ھ کو بھیجا۔
٭ سریہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ذی القصہ کی جانب اس ماہ 6ھ کو بھیجا
٭ دمشق کا محاصرہ خالد بن ولید اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما کی قیادت میں اس ماہ 14ھ میں کیا گیا۔
٭ سلطان عبدالحمید ثانی کی وفات اسی ماہ 1336ھ میں ہوئی۔