نیا سال۔ عمر ایک سال اور کم ہو گئی۔ قبر اور قریب ہو گئی
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ،يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
سورۃ یس آیت نمبر 68 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿وَمَن نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعقِلُونَ﴾
 اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے۔
٭  قبر کا سوچیں۔ قیامت کا سوچیں
سورۃ الحج آیت نمبر 5 میں ہے:
﴿يَا أَ يُّہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعثِ، فَإِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَانَشَاءُ إِلَیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی،  ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ وَمِن کُم مَّن يُتَوَفَّیٰ وَمِنکُم مَّن يُرَدُّ إِلَیٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَيْلَا يَعلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا﴾
’’لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بے نقشہ تھا یہ ہم تم پر ظاہر کر دیتے ہیں اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے۔‘‘
سورۃ غافر (اسے سورۃ المومن بھی کہتے ہیں) آیت نمبر 67 میں ہے:
﴿ہُوَ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ  ثُمَّ يُخْرِجُکُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُونُوا شُيُوخًا، وَمِنکُم مَّن يُتَوَفَّی مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلا مُّسَمًّی وَلَعَلَّکُمْ تَعقِلُونَ ﴾
’’وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتا ہے، پھر (تمہیں بڑھاتا ہے کہ) تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ پھر بوڑھے ہو جاؤ تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں (وہ تمہیں چھوڑ دیتا ہے) تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو۔‘‘
سورۃ الحشرآیت نمبر 18 میں ہے:
﴿يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ،  إِنَّ اللہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعمَلُونَ ﴾
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
سورۃ فاطرآیت نمبر 37 میں ہے:
﴿وَہُمْ يَصطَرِخُونَ فِيہَا رَبَّنَا أَخْرِجنَا نَعمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي کُنَّا نَعمَلُ، أَوَلَمْ نُعَمِّرکُم مَّا يَتَذَکَّرُ فِيہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴾
’’اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزہ چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
سورۃ الانعام آیت نمبر 158 میں ہے:
﴿ يَوْمَ يَأْتِي بَعضُ آيَاتِ رَبِّکَ لاَ يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُہَا لَمْ      تَکُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِي إِيمَانِہَا خَيْرًا قُلِ انتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ ﴾
’’جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ آپ فرما دیجیے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں۔‘‘
٭  وقت کم رہ گیا ہے غور کریں
سنن ترمذی حدیث نمبر 3550 میں ہے:
﴿ أعمارُ أمتي ما بينَ الستِّينَ إلی السبعينَ وأقلُّہم من يجوزُ ذلِکَ.﴾ (حسن)
رسول اللہe نے فرمایا: ’’ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے۔‘‘
صحیح بخاری حدیث نمبر  6419 میں ہے:
﴿أَعْذَرَ اللہُ إِلَی امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتَّی بَلَّغَہُ سِتِّينَ سَنَۃً .﴾
’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے سلسلے میں حجت تمام کر دی جس کی موت کو مؤخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔‘‘
ابو داودحدیث نمبر 5236 صححہ الالبانی میں ہے:
﴿الراوي: عبداللہ بن عمرو  مرَّ عليَّ رسولُ اللہِ ﷺ، ونحن نُعالجُ خُصًّا لنا وَہَی، فقال: ما ہذا؟ فقُلْنَا: خُصٌّ لنا وَہَی فنحن نُصلِحُہ .  فقال رسولُ اللہِ ﷺ: ما أَری الأمرَ إلا أَعجَلَ مِن ذلک .﴾
جناب اعمش نے اپنی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ‘ کہا کہ رسول اللہe میرے پاس سے گزرے اور ہم اپنی جھگی (یا کوٹھری) جو بوسیدہ ہو گئی تھی، اس کی مرمت کر رہے تھے۔  آپ نے پوچھا:’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ہماری یہ جھگی بوسیدہ ہو گئی ہے ‘ تو اس کی مرمت کر رہے ہیں، تو رسول اللہe نے فرمایا:’’میں تو معاملے کو اس سے بھی جلد سمجھتا ہوں۔
وضاحت: یعنی موت قبر حشر کا معاملہ بہت قریب ہے۔
٭   تھوڑا سا وقت بچا ہے عمل کر لیں
ترمذی حدیث نمبر 2377 صححہ الالبانی میں ہے:
﴿الراوي: عبداللہ بن مسعود، نامَ رسولُ اللہِ ﷺ علَی حصيرٍ فقامَ وقد أثَّرَ في جنبِہِ فقلنا يا رسولَ اللہِ لوِ اتَّخَذنا لَکَ وطاءً، فقالَ ما لي وما للدُّنيا، ما أنا في الدُّنيا إلَّا کراکبٍ استَظلَّ تحتَ شجرۃٍ ثمَّ راحَ وترَکَہا.﴾
رسول اللہe ایک چٹائی پر سو گئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑ گیا تھا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنا دیں تو بہتر ہو گا، آپe نے فرمایا: ’’مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔
الترغيب والترہيب 3355 صححہ الالبانی
﴿اغْتَنِمْ خَمْسًا قبلَ خَمْسٍ: شَبابَکَ قبلَ ہِرَمِکَ، وصِحَّتَکَ قبلَ سَقَمِکَ، وغِناکَ قبلَ فَقْرِکَ، وفَرَاغَکَ قبلَ شُغْلِکَ، وحَياتَکَ قبلَ مَوْتِکَ .﴾
’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘
مسلم حدیث نمبر 118 / 313 میں ہے:
﴿بَادِرُوا بالأعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي کَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کَافِرًا، يَبِيعُ دِينَہُ بعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.﴾
رسول اللہe نے فرمایا:’’ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح (چھا جانے والے) ہوں گے، (نیک) اعمال کرنے میں جلدی کرو۔ (ان فتنوں میں) صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر، اپنا دین (ایمان) دنیوی سامان کے عوض بیچتا ہو گا۔‘‘
صحیح بخاری حدیث نمبر  1419 میں ہے:
﴿جَاءَ رَجُلٌ إلی النبيِّ ﷺ فَقالَ: يا رَسولَ اللہِﷺ   أَيُّ الصَّدَقَۃِ أَعظَمُ أَجْرًا؟ قالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وأَنْتَ       صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَی الفَقْرَ، وتَأْمُلُ الغِنَی،  ولَا تُمْہِلُ حتَّی إذَا بَلَغَتِ الحُلْـقُومَ، قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا، ولِفُلَانٍ       کَذَا وقد کانَ لِفُلَانٍ﴾
’’ایک شخص نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپe نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آ جائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہو چکا۔‘‘
صحیح بخاری حدیث نمبر 6534 میں ہے:
﴿مَن کانَتْ عِنْدَہُ مَظْلِمَۃٌ لأخِيہِ فَلْيَتَحَلَّلْہُ مِنْہا، فإنَّہ ليسَ ثَمَّ دِينارٌ ولا دِرْہَمٌ، مِن قَبْلِ أنْ يُؤْخَذَ لأخِيہِ مِن حَسَناتِہِ، فإنْ لَمْ يَکُنْ لہ حَسَناتٌ أُخِذَ مِن سَيِّئاتِ أخِيہِ فَطُرِحَتْ عليہ.﴾
رسول اللہe نے فرمایا ’’جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘
٭  اپنی جوانیاں پاکیزہ بنا لیں
صحیح بخاری حدیث نمبر  6806 میں ہے:
﴿سَبْعَۃٌ يُظِلُّہُمُ اللہُ يَومَ القِيَامَۃِ في ظِلِّہِ، يَومَ لا ظِلَّ         إِلَّا ظِلُّہُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ في عِبَادَۃِ اللہِ﴾
 نبی کریمe نے فرمایا ’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر  1634 میں ہے:
﴿مَن شابَ شَيبۃً في الإسلامِ کانت لَہُ نورًا يومَ القيامَۃِ (صحیح) ﴾
’’جو اسلام میں بوڑھا ہو جائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا۔‘‘
 ترمذی حدیث نمبر 2417 صححہ الالبانی میں ہے:
﴿لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامۃِ حتَّی يسألَ عن عمرِہِ فيما أفناہُ، وعن عِلمِہِ فيمَ فعلَ، وعن مالِہِ من أينَ اکتسبَہُ وفيمَ أنفقَہُ، وعن جسمِہِ فيمَ أبلاہُ.﴾
رسول اللہe نے فرمایا: ’’قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا،  اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر  2332 صحیح میں ہے:
﴿لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَکُونُ السَّنَۃُ کَالشَّہْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّہْرُ کَالْجُمُعَۃِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَکُونُ الْجُمُعَۃُ کَالْيَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَکُونُ الْيَوْمُ کَالسَّاعَۃِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَکُونُ السَّاعَۃُ کَالضَّرَمَۃِ بِالنَّارِ.﴾
رسول اللہe نے فرمایا: ’’قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا ۔ جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی ۔‘‘
وضاحت: آج کے دور شب و روز کا تیزی سے گزرنا ہو کوئی دیکھ رہا ہے۔
٭  دنیا فانی اور نا پائیدار ہے جلدی نیکیوں کی طرف لوٹ آئیں
صحیح بخاری حدیث نمبر  2996 میں ہے:
﴿قالَ رَسولُ اللہِ ﷺ: إذَا مَرِضَ العَبْدُ، أوْ سَافَرَ، کُتِبَ لہ مِثْلُ ما کانَ، يَعمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا.﴾
’’نبی کریمe نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر 2142 صححہ الالبانی میں ہے:
﴿الراوي: أنس بن مالک. إذا أرادَ اللہُ بعبدٍ خيرًا استعمَلَہُ قِيلَ: کيفَ يَستعمِلُہُ؟ قال: يُوفِّقُہُ لعملٍ صالِحٍ قبلَ الموْتِ ثمَّ يَقبِضُہُ عليہِ.﴾
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے عمل کراتا ہے،‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے عمل کراتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر 2320 صححہ الالبانی:
﴿لو کانتِ الدُّنيا تعدلُ عندَ اللہِ جناحَ بعوضۃٍ ما سقی کافرًا منہا شربۃَ ماءٍ.﴾
’’رسول اللہe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔‘‘
 مسلم حدیث نمبر 1047 / 2412 میں ہے:
﴿يَہْرَمُ ابنُ آدَمَ وتَشِبُّ منہ اثْنَتانِ الحِرصُ علَی المالِ، والْحِرصُ علَی العُمُرِ.﴾
’’رسول اللہe نے فرمایا: آدم کا بیٹا بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں: دولت کی حرص اور عمر کی حرص۔‘‘
٭  توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے توبہ کر لیں
سورۃ آل عمران آیت نمبر 133 میں ہے:
﴿وَسَارِعُوا إِلَیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ.﴾
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اُس جنّت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘
سورۃ النساء آیت نمبر 18 میں ہے:
﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُوْلَئِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا أَلِيمًا.﴾
’’ ان کی توبہ نہیں جو بُرائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ترمذی حدیث نمبر 3537۔ (حسن) میں ہے:
﴿إنَّ اللہَ يقبلُ توبۃَ العبدِ ما لم يُغرغر۔﴾
اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے۔‘‘
٭٭٭