نیند کے متعلق اسلامی تعلیمات

 

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (القصص : 73)

اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا ہے، تاکہ اس میں آرام کرو اور تاکہ اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا (بخاری)

رات کو قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو، روزے رکھا بھی کرو اور روزوں میں ناغہ بھی کیا کرو، آپ کے جسم اور آپ کی آنکھوں کا بھی آپ پر حق ہے( کہ انہیں آرام پہنچایا جائے )

اسلام اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کردہ بہترین دین ہے، دین اسلام لوگوں کی زندگی میں ان کے ہر شعبے اور ہر ضرورت میں رہنمائی کرتا ہے، انسانوں کی زندگی میں کوئی لمحہ، مرحلہ اور موقع ایسا نہیں آتا کہ جہاں دین اسلام انہیں یونہی بغیر کوئی گائیڈ لائن دیے آزاد چھوڑ دے

اوراللہ تعالٰی نے دین اسلام کا ایک ایک حکم واضح کرنے کے بعد( ادخلوا فی السلم کآفۃ)کہہ کر حکم دیا کہ اب تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ

سو آج ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ایک ایک جزی کو اسلام کے مطابق گزارنے کی بھرپور کوشش کریں

”نیند“ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کی بدولت انسان تازہ دم ہوجاتا ہے، اگر انسان کی ”نیند“ میں افراط و تفریط ہو تو انسان کا ہر کام متأثر ہوتا ہے۔

چنانچہ فرمانِ باری تَعَالیٰ ہے

وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (النبأ : 10)

اور ہم نے تمھاری نیند کو ( باعث) آرام بنایا۔

وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا (النبأ :11)

اور ہم نے رات کو لباس بنایا۔

یعنی اپنی نیند کو دیکھ لو جو موت کی طرح تمھاری تمام حرکات قطع کرکے تمھیں مکمل سکون کی وادی میں لے جاتی ہے۔ اور تمھارے جسم کی ٹوٹ پھوٹ اور تھکن دور کرنے کے لیے راحت و سکون کا ذریعہ ہے ۔

روشنی راحت میں خلل انداز ہو سکتی تھی، اس لیے رات کو تاریک بنا دیا گیا جو لباس کی طرح ہر چیز کو چھپا لیتی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانی دیکھو کہ مسلسل رات نہیں رکھی، بلکہ روزی کی تلاش کے لیے دن بنا دیا۔ اگر رات ہی رہتی تو تم روزی کس طرح تلاش کرتے؟

دوسرے مقام پر فرمایا

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ (الروم – آیت 23)

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا دن اور رات میں سونا

یہ اللہ رب العزت کی بہت بڑی نشانی ہے

بلکہ مخلوق تو اس کی حقیقت ہی سے نا آشنا ہے کہ

نیند کیا چیز ہے؟

کیسے آتی ہے؟

اور کیسے ختم ہو جاتی ہے!؟

روسی سائنسدان اور نیند کی حقیقت

روس میں کمیونزم کے عروج کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ کی منکر، مادہ پرست اور دنیا کی ظالم ترین جماعت کمیونسٹ پارٹی مزدوروں سے کھیتوں اور کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ کام لینے کی نئی سے نئی صورت سوچتی رہتی تھی، اس وقت پارٹی کے راہ نماؤں نے سوچا کہ مزدور بہت سا وقت سو کر ضائع کر دیتے ہیں، چنانچہ انھوں نے سائنس دانوں کے ذمے لگایا کہ وہ تحقیق کریں کہ ان کا نیند میں صرف ہونے والا وقت زیادہ سے زیادہ کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ کئی سالوں کی تحقیق کے بعد اس کانتیجہ جو انھوں نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے لیے نیند بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے دوران اس کے ٹوٹے پھوٹے خلیات دوبارہ بنتے ہیں اور وہ دوبارہ کام کاج کے قابل ہو جاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تعمیر و مرمت اور تازگی کا یہ عمل نیند کے دوران صرف ایک لمحے میں پورا ہوجاتا ہے، مگر وہ لمحہ بعض اوقات نیند کی ابتدا میں آتا ہے، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمبی سے لمبی نیند میں بھی وہ لمحہ نہیں آتا اور انسان بیدار ہوتا ہے تو اسی طرح تھکا ماندہ اور ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ لمحہ آجانے کی وجہ سے نیند کی ایک جھپکی کے ساتھ ہی اس کی ساری تھکن کافور ہو جاتی ہے۔ ان سائنس دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ انسان اس لمحے کو اپنی گرفت میں لانے سے عاجز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نشانی کے صرف ایک معمولی سے حصے کا اعتراف ہے، جسے اس نے ’’ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ ‘‘ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

نیند کے اوقات

دین اسلام میں نیند کے مختلف اوقات بیان ہوئے ہیں

بعض اوقات میں سونا مستحب،

بعض میں واجب

اور بعض میں ممنوع ہے

رات کے وقت سونا مستحب ہے

کیونکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا (الفرقان : 47)

اور وہی ہے جس نے تمھارے لیے رات کو لباس بنایا اور نیند کو آرام اور دن کو اٹھ کھڑا ہونا بنایا۔

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ

«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا» (بخاري ،كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ،بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النَّوْمِ قَبْلَ العِشَاءِ568)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے

اس لیے رات کے وقت جلدی سونا چاہیئے

قیلولہ (دوپہرکا آرام )مستحب ہے

ارشادربانی ہے :

وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (الروم : 23)

اور اس کی نشانیوں میں سے تمھارا دن اور رات میں سونا اور تمھارا اس کے فضل سے (حصہ) تلاش کرنا ہے۔بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں۔

اس آیت میں دن کی نیند سے مراد قیلولہ ہے

رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمایا :

قيلوا،فإن الشياطين لا تقيل ( السلسلة الصحيحة للألباني:1647 أخرجه ابونعيم والطبراني)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی قیلولہ کیا کرتے تھے

انس بن مالک سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :

«أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِطَعًا، فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ» (صحيح البخاري (8/ 63))

”اُمّ سلیم نبی ﷺ کے لیے ایک چمڑے کا بچھونا بچھاتیں تو آپؑ ان کے ہاں اسی چمڑے کے بچھونے پر دوپہر کوآرام کرتے تھے ۔”

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی قیلولہ کیا کرتے تھے

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :

كُنَّا نُبَكِّرُ بِالْجُمُعَةِ وَنَقِيلُ بَعْدَ الْجُمُعَةِ (بخاري ،كِتَابُ الجُمُعَةِ،بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ905)

ہم جمعہ سویرے (جلدی) پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے

قیلولہ کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں

قیلولہ سے پیٹ‘ دل و دماغ کے مرض اور ہارٹ اٹیک و فالج کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ قیلولہ خون کے نظام کو بہتر بناتا ہے اور ذہنی دباؤ و بلڈ پریشر میں کمی پیدا کرتا ہے

جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ قیلولہ ہر عمر میں فائدہ پہنچاتا ہے لیکن بچوں کے لئے قیلولہ زیادہ فائدہ مند ہے ، قیلولہ بچوں کی جسمانی و ذہنی نشو ونما کیلئے اکسیر ہے اور بچوں کو چاق چوبند رکھ کر اور ذہنی قوت بڑھا کر پڑھائی میں لگن اور تعلیم و یاد داشت میں استحکام پیدا کرتی ہے

نمازِ مغرب کے بعد اور عشاء سے پہلے سونا مکروہ ہے

ابوبرزہ بیان کرتے ہیں:

«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا» (صحيح البخاري (1/ 118)

”بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نمازِعشاء سے قبل نیند اور نمازِعشاءکے بعد گفتگوکرنا ناپسند کرتے تھے ۔”

‏ھماری مارکیٹیں دوپہر 1بجےکھلتی ھیں،رات1بجےبند ھوتی ھیں دنیا میں یہ کہیں نہیں ھوتا.اللہ نے ھمارےوطن کو365 دن سورج کی روشنی بخشی ھےھم اندھیرے میں لائٹ جلا کرکاروبار کرتےھیں.اگرمارکیٹیں ٹائم درست کرلیں تو کراچی کےبغیر3500 میگاواٹ بجلی بچتی ھے.مشکل حالات ھیں مشکل فیصلوں کی ضرورت ھے۔ خواجہ آصف کا بیان

شائد ہمیں اب اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے

دنیا سورج کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتی ہے اور ہم رات کے اندھیرے میں بجلی چلا کر لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں

مغربی ممالک سمیت اکثریت میں مارکیٹیں رات بھر کھلنے کا تصور نہیں

وہاں زندگی سورج کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اور سورج ڈھلتے ہی سب کچھ بند ۔۔

بہت کم کاروبار یعنی کچھ ہوٹل اور کلب وغیرہ رات گئے تک کھلے رہتے ہیں ۔ ہم اس حوالے سے عیاش قوم ہیں جو صرف غلط اوقات کی وجہ سے صحت اور وسائل کا بے دریغ ضیائع کرتی ہے

نمازِفجر کے بعد سونا شریعت میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے، کیونکہ وہ تسبیح، عبادت اور برکت کا وقت ہے جسے سو کر گزار دینا بدقسمتی کے علاوہ کچھ نہیں ہے

اللہ تعالٰی نے فرمایا

فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (ق : 39)

سو اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔

جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں :

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَسَنًا» (صحيح مسلم (1/ 464)

”یقیناً رسول اللہ ﷺ جب نمازِ فجر ادا کرتے تو آپؐ اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے حتی کہ سورج اچھی طرح طلوع ہو جاتا ۔’

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالٰی سے اپنی امت کی صبح میں برکت کی دعا کی ہے

آپ نے فرمایا

اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا (ترمذی ،أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي التَّبْكِيرِ بِالتِّجَارَةِ1212)

اے اللہ ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے

فرض نمازوں کے اوقات میں بلاعذر سونا حرام فعل ہے اور اس پر بہت سخت وعید وارد ہے

نمازباجماعت کے دوران قصداً سونے کی سزا انتہائی ہولناک ہے ۔

چنانچہ صحیح بخاری میں ایک لمبی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ کےخواب کا بیان ہے ۔ اس میں ایک بات یہ ہے کہ ایک شخص چت لیٹا تھا ، اس کے سرہانےایک آدمی پتھر لیے کھڑا ہے ، وہ پوری قوت سے پتھر اس کے سر پر مارتا ہے اور اسکا سر چکنا چور کر دیتا ہے ۔ پھر پتھر لڑھک کرنیچے چلا جاتا ہے ، وہ آدمی پتھر لینے جاتا ہے پتھر لے کر واپس آتا ہے تو متاثرہ شخص کا سر درست ہو چکا ہوتا ہے ۔ وہ اس عذاب سے روزِ قیامت تک مسلسل دوچار کیا جاتا رہے گا ۔

آپ کے استفسار پر فرشتوں نے آپؐ کو بتایا:

أَمَّا الَّذِي يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفِضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ (بخاری، كِتَابُ التَّهَجُّدِ،بَابُ عَقْدِ الشَّيْطَانِ عَلَى قَافِيَةِ الرَّأْسِ إِذَا لَمْ يُصَلِّ بِاللَّيْلِ1143)

جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن کا حافظ تھا مگر وہ قرآن سے غافل ہو گیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :

« ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقِيلَ: مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ،

فَقَالَ: «بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ» (صحيح البخاري (2/ 52)

”نبی ﷺ کے ہاں ایک آدمی کا ذکر ہوا اور آپؐ کو بتایا گیا کہ وہ مسلسل سویا رہا حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور وہ نماز کے لیے بیدار نہیں ہوا ۔

آپ ﷺ نے فرمایا : شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کیا ہے ۔”

‏ذكر الفقهاء

أن العاصي يستحب له النوم

إذا كان سبباً في تركه للذنوب،

لأن النوم يحفظه من ارتكاب المعصية. (غذاء الألباب (٣٥٩/٢)

چند ایسے کام جو سونے سے پہلے کرنے چاہئیں

01. سونے سے پہلے ہاتھ اور منہ میں گوشت یا چربی وغیرہ کی مہک ہو تو اسے ضرور دھو کر ہی سویا جائے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ بَاتَ وَفِي يَدِهِ رِيحُ غَمَرٍ فَأَصَابَهُ شَيْءٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ (ترمذي أَبْوَابُ الْأَطْعِمَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبَيْتُوتَةِ وَفِي يَدِهِ رِيحُ غَمَرٍ،1860 صحيحح)

جو شخص رات گزارے اوراس کے ہاتھ میں چکنائی کی بوہو پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برا بھلا کہے

02.سونے سے قبل وضو کرنا سنت ہے

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

جب تم اپنے بستر پر آو تو وضو کرلو جیسے نمازکے لیے وضو کیا جاتاہے۔ (بخاری مسلم)

03. اگر تہجد کے وقت نہ اٹھنے کا خدشہ ہو تو سونے سے پہلے وتر پڑھ لیں

فرمایا جو شخص رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہوسکے تو ابتدائی رات میں وتر پڑھ لے۔ (مسلم )

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی وصیت فرمائی۔( بخاری ، مسلم )

04. سونے سے پہلے اپنا بستر جھاڑا جائے

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ فَلْيَأْخُذْ دَاخِلَةَ إِزَارِهِ فَلْيَنْفُضْ بِهَا فِرَاشَهُ وَلْيُسَمِّ اللَّهَ فَإِنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا خَلَفَهُ بَعْدَهُ عَلَى فِرَاشِهِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،بَابُ الدُعَاءِ عِنْدَ النَّوْمِ6892)

"جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بستر پر لیٹنا چاہے تو اپنے تہبند کا اندرونی حصہ لے کر اس سے اپنے بستر کو جھاڑے، پھر بسم اللہ کہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس (کے اٹھ جانے) کے بعد اس کے بستر پر (مخلوقات میں سے) کون آیا؟۔”

05. رات کو سونے سے پہلے گھر میں جلتی ہوئی آگ اور چراغ بجھادیا جائے

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«خَمِّرُوا الآنِيَةَ، وَأَوْكُوا الأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الأَبْوَابَ وَاكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ العِشَاءِ، فَإِنَّ لِلْجِنِّ انْتِشَارًا وَخَطْفَةً، وَأَطْفِئُوا المَصَابِيحَ عِنْدَ الرُّقَادِ، فَإِنَّ الفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا اجْتَرَّتِ الفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ البَيْتِ» (بخاری 3316)

برتنوں کو ڈھانپ لیا کرو ، مشکیزوں ( کے منھ ) باندھ لیا کرو ، دروازے بند کرلیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کرلیا کرو ، کیوں کہ شام ہوتے ہی جنات ( روئے زمین پر ) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھالیا کرو ، کیوں کہ موذی جانور ( چوہا ) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلادیتا ہے ۔

06. سونے سے پہلے سورہ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھیں

ابومسعود بدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص رات کو سوتے وقت سورۃ البقرہ کی آخری دوآیات پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘ (بخاری 5009)

07. سونے سے پہلے سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر کا وظیفہ کریں

علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریمﷺ کے پاس خادم مانگنے کے لیے گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں!سوتے وقت۳۳ بارسبحان اللہ۳۳بار الحمد للہ اور۳۴بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔‘‘ (بخاری)

08. سونے سے پہلے سورہ اخلاص، فلق، اور ناس تین تین دفعہ پڑھ کر دونوں ہتھیلیوں پر پھونک مار کر جسم کے جس جس حصے پر ہوسکے ہاتھ پھیرا جائے

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے پھر ان میں پھونکتے۔ دونوں میں ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘، ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ اور ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ پڑھتے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیرتے۔ پھیرنے کی ابتدا سر ،چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے۔ آپ اس طرح تین مرتبہ کرتے۔‘‘ [ بخاري، فضائل القرآن، باب فضل المعوذات : ۵۰۱۷ ]

09. سونے سے پہلے بستر پر پہنچ کر آیۃ الکرسی ضرور پڑھیں، جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ صبح ہونے تک اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک محافظ آپ کی شیطان مردود سے حفاظت کرے گا (بخاری)

10.*سونے سے پہلے سونے کی مشہور دعا

باسمک اللہم اموت واحیاپڑھ لیں*

حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر جاتے تو کہتے :

[ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَ أَحْيَا ] [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ]

’’تیرے ہی نام کے ساتھ میں مرتا ہوں اور زندہ ہوں گا۔‘‘

11.فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونے کی نیت کرکے سوئیں

آپ ﷺ نے فرمایا ہے:

مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ (مسلم، کتاب المساجد، باب فَضْلِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَالصُّبْحِ فِي جَمَاعَةٍ:46، حدیث رقم:656)

’’ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا ‘‘

سونے کی جگہ کیسی ہو

مڈیر کے بغیر چھت پر نہ سونے کی احتیاط

ایسی چھت پر ہر گز نہ سوئیں جس کی دیواریں نہ ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ لَهُ حِجَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ . (ابو داؤد 5041)

جو شخص گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پتھر ( کی مڈیر ) نہ ہو ( یعنی کوئی چہار دیواری نہ ہو تو اس سے ( حفاظت کا ) ذمہ اٹھ گیا ( گرے یا بچے وہ جانے ) ۔

دس سالہ یا اس سے بڑے بچوں کو الگ الگ بستروں میں سلائیں، خواہ وہ لڑکے لڑکیاں ہوں یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إذا بلغ أولادكم سبع سنين فرقوا بين فرشهم ( الجامع الصغير :419)

یعنی جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے،

ابو داؤد اور احمد میں ہے دس سال کی ہو جائے تو ان کے بستر الگ الگ کردو

اکیلے مت سوئیں

کیونکہ اکیلے کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور جنات وغیرہ کے حملے کا بھی خدشہ ہوتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنْ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدَ (ترمذی)

شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے

٦٩١٩ – «نهى عن الوحدة: أن يبيت الرجل وحده» .(صحيح) [حم] عن ابن عمر. الصحيحة ٦٠ صحیح الجامع الصغير)

 صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ | بَابُ السَّيْرِ وَحْدَهُ.

2998 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي الْوَحْدَةِ مَا أَعْلَمُ، مَا سَارَ رَاكِبٌ بِلَيْلٍ وَحْدَهُ ".

سونے کے آداب و اوصاف

سیدھے لیٹے ہوں تو ٹانگ پر ٹانگ مت رکھیں

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَأَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى وَهُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ (مسلم، كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ بَابٌ فِي مَنْعِ الِاسْتِلْقَاءِ عَلَى الظَّهْرِ وَوَضْعِ إِحْدَى الرِّجْلَيْنِ عَلَى الْأُخْرَى5501)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کو بندکردینے والا لباس پہننے،ایک کپڑے سےکمر اور گھٹنوں کو باندھنے اور چت لیٹ کر ایک پاؤں کو دوسرے کے اوپر(رکھتے ہوئے اس کو) اٹھانے سے منع فرمایا۔

پیٹ کے بل الٹا مت لیٹیں

حضرت ابوذرغفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ:

مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ يَا جُنَيْدِبُ إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ (كِتَابُ الْأَدَبِ،بَابُ النَّهْيِ عَنِ الِاضْطِجَاعِ عَلَى الْوَجْهِ3724صحیحح)

’’ رسول اللہﷺایک دفعہ میرے پاس سے گزرے اور میں پیٹ کے بل لیٹا ہواتھا تو آپؐ نے اپنے قدم مبارک سے مجھے ہلایا اور فرمایا:

’’اے جنیدب !یہ اہل جہنم کا طریقہ ہے۔‘

دائیں کروٹ پر لیٹیں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ہدایت فرماتے کہ:

فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَضْطَجِعَ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ (مسلم، كِتَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ،بَابُ الدُعَاءِ عِنْدَ النَّوْمِ6892)

پھر جب لیٹنا چاہے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹے

حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب سونے کے لیے لیٹتے تو اپنا(دائیاں)ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے:اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی(بخاری و مسلم )

*الحكمة في الاضطجاع على الشق الأيمن*

قال الإمام ابن القيم رحمه الله: وفي اضطجاعه – صلى الله عليه وسلم – على شقه الأيمن سر، وهو أن القلب معلق في الجانب الأيسر، فإذا نام على شقه الأيسر استثقل نومًا، لأنه يكون في دعة واستراحة فيثقل نومه، فإذا نام على شقه الأيمن فإنه يقلق ولا يستغرق في النوم لقلق القلب وطلبه مستقره وميله إليه. (زاد المعاد 311/1 فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في قيامه الليل)

غفلت کی نیند مت سوئیں کہ عبادات سے دور ہو جائیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة : 16)

ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندوں کی نیند کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (الذاريات : 17)

وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔

وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الذاريات : 18)

اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِيْنَ يَبْقٰی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُوْلُ مَنْ يَدْعُوْنِيْ فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِيْ فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِيْ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ ] [ بخاري، التھجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل : ۱۱۴۵ ]

’’ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات، جب رات کا آخری ثلث باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے : ’’کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اسے بخشوں؟‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ کی نیند

‏حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

” وقد كان البخاريُّ يستيقظُ في الليلةِ الواحدة من نومه ، فيوقد السراج ويكتب الفائدة تمر بخاطره ، ثم يطفئ سراجه ، ثم يقوم مرة أخرى وأخرى ، حتى كان يتعدد منه ذلك قريباً من عشرين مرة ” [البداية والنهاية (11/31)]

"امام بخاری رحمہ اللہ ایک ہی رات میں جب ذہن میں کوئی بات آتی تو اپنی نیند سے بیدار ہوتے چراغ روشن کرتے اور وہ بات لکھتے پھرچراغ بجھا دیتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے پھر ایک اور مرتبہ اٹھتے حتی کہ ایسا تقریباً بیس مرتبہ کرتے”

دوران نیند پہلو بدلتے وقت بھی اللہ تعالٰی کو یاد کریں

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو پہلو بدلتے تو یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے

لا الہ الا اللہ الواحد القهار رب السموات والأرض وما بينهما العزيز الغفار ( صحیح الجامع )

رات کو اگر آنکھ کھل جائے تو کیا کریں

سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو جاگ اٹھے۔ پھر یہ کہے :

” لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‏.‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ” (صحیح بخاری کتاب الوکالۃ)

پھر دعا مانگے یا یوں کہے یا اللہ مجھ کو بخش دے تو اس کی دعا قبول ہو گی۔

اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو نماز قبول ہو گی۔

سوئے ہوئے گھبراہٹ یا وحشت طاری ہو جائے تو یہ کلمات کہیں

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ (ترمذي،أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،باب فضل مَنْ أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ طَاهِرًا يَذْكُرُ اللَّهَ،3528حسن)

جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈرجائے تو (یہ دعا) پڑھے :

‘ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ ‘

(یہ دعاپڑھنے سے) یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

سوکراٹھیں توکیاکریں

بیدار ہونے کی دعا پڑھیں

حزیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوتے تو کہتے :

[ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَيْهِ النُّشُوْرُ ] [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ]

’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں موت دینے کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘

لھذا انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر بجا لائے اور یہ دعا پڑھے کیونکہ نیند بھی ایک طرح سے موت ہی ہے اور اگر اللہ چاہے تو سوئے ہوئے کو ہمیشہ کے لیے سلا دے

جیسا کہ فرمایا

« اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ » [ الزمر : ۴۲ ]

’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘

اور کتنے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ آدمی سویا تو پھر سویا ہی رہا دوبارہ اٹھ ہی نہ سکا

بیدار ہونے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر کسی برتن میں مت ڈالیں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَإِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ (بخاري ،كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ الِاسْتِجْمَارِ وِتْرًا،162صحيحح)

اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے، تو وضو کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے۔

بیدار ہونے کے بعد مسواک کریں

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ (بخاري ،كِتَابُ الجُمُعَةِ بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،889)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کر تے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرْقُدُ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ فَيَسْتَيْقِظُ إِلَّا تَسَوَّكَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ (ابو داؤد، كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ السِّوَاكِ لِمَنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ 57حسن دون قوله ولا نهار)

نبی ﷺ دن یارات میں جب بھی سوکر اٹھتے تووضوسےپہلے مسواک کیاکرتے تھے۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد وضو کریں

سیدنا علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

وِكَاءُ السَّهِ الْعَيْنَانِ, فَمَنْ نَامَ فَلْيَتَوَضَّأْ (ابو داؤد كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ،203حسن)

” آنکھیں سرین کا تسمہ ہیں ، تو جو سو جائے وہ وضو کرے ۔ “

نیند میں ہمارے لیے اسباق

اللہ تعالیٰ انسان کو نیند پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

نیند پر غور و فکر کرکے انسان کائنات کے بہت سارے راز وں کو جان سکتا ہے‘

کائنات کے خالق پر اور موت و حیات اور موت کے بعد کی زندگی یعنی آخرت کے بارے میں ایمان و یقین کامل حاصل کرسکتا ہے‘

توبہ کریں

نیند چیونکہ موت کی ہی ایک شکل ہے اور معلوم نہیں کہ سوئیں گے تو پھر اٹھ بھی سکیں گے یا نہیں لہذا انسان روزانہ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ اور توبہ کرکے نفس و قلب کی اصلاح کرسکتا ہے

نیند کے ذریعے موت کو یاد رکھیں

اسلام نیند کو موت کی ایک قسم قرار دیتا ہے۔

نیند کو موت کا بھائی ’’ النوم أخو الموت ‘‘ کہا ہے۔

فرمایا

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (الأنعام : 60)

اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا، پھر وہ تمھیں اس میں اٹھا دیتا ہے، تاکہ مقرر مدت پوری کی جائے، پھر اسی کی طرف تمھارا لوٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

دوسرے مقام پر فرمایا

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الزمر : 42)

اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ آدمی کی جان موت کے وقت بھی قبض کرتا ہے اور نیند کے وقت بھی۔ گویا نیند بھی ایک طرح کی موت ہے، مگر اس میں روح قبض ہونے کے باوجود جسم کے ساتھ اس کا ایسا تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی، کھانا ہضم ہوتا اور سانس جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کی پوری حقیقت ہم نہیں جانتے، کیونکہ روح کے معاملات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،

فرمایا :

«وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَاۤ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا » [ بني إسرائیل : ۸۵ ]

’’اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔‘‘

اس سے عذاب قبر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ موت کے بعد روح قبض ہونے کے باوجود اس کا جسم کے ساتھ اللہ کے حکم سے کوئی ایسا تعلق رہتا ہے کہ اس پر قبر میں عذاب و ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے بعض لوگوں نے عذاب قبر کا انکار ہی کر دیا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے صاف دلائل موجود ہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہر حال میں مانے، خواہ اس کی کیفیت اسے بتائی جائے یا نہ بتائی جائے۔

بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں نیند کے وقت ارواح کو قبض کرنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کے رات کے سفر کے دوران سو جانے کا اور سورج نکلنے کے بعد بیدار ہونے کا ذکر کیا ہے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ إِنَّ اللّٰهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِيْنَ شَاءَ، وَ رَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِيْنَ شَاءَ] [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ۵۹۵ ] ’’اللہ تعالیٰ نے تمھاری ارواح کو قبض کر لیا جب چاہا اور انھیں تمھیں واپس کر دیا جب چاہا۔‘‘ اس بحث سے معلوم ہوا نیند کے وقت قبض ہونے والی چیز نفس بھی کہلاتی ہے اور روح بھی۔

مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا عقیدہ پختہ کریں

انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح روزانہ کی اس عارضی موت کے بعد زندگی ہے‘ اسی طرح حقیقی موت کے بعد بھی زندگی یقینی ہے۔ جو ذات روزانہ جانوں )روحوں( کو قبض کرکے روزانہ لوٹانے پر یا بعض کو روک لینے پر قادر ہے وہی قیامت کے دن تمام انس و جن کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے پر بھی قادر ہے

سونے اور بیدار ہونے کے اسلامی قوانین ٹائم مینجمنٹ کا بہترین سبق دیتے ہیں

حواس خمسہ کی بحالی

نیند سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ

اے انسان !

دیکھ تو کس قدر بے بس اور کمزور ہے کہ دوران نیند تجھے کچھ سمجھ اور ہوش و گوش نہیں ہوتی

دیکھنے، سوچنے، سونگھنے حتی کہ سننے تک کی حس ختم ہو جاتی ہے لہذا اپنے پیدا کرنے والے رب کا شکر اور عبادت کرتا رہ جو تجھےہرروز مرنے کے بعد پھر سے زندہ کرتا ہے اور حواس خمسہ واپس لوٹاتا ہے

نیند نہ آنا صرف اور صرف اللہ رب العزت کا وصف

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ ….. آیت الکرسی

’’ اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘

آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین