نفاق اکبر کا بیان
999۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((يذلَ الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، حتَّٰى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ فَيَقُولُ أَي رَبِّ! أَعْرِفُ، قَالَ فَإِنِّي قَدْ شَتَرْتُهَا عَلَيْكَ في الدُّنْيَا، وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطٰى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكُفَّارُ
وَالْمُنَافِقُونَ فَيُنَادٰى بِهِمْ عَلٰى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ هٰوُلَاءِالَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللهِ)) (أخرجه البخاري:4685، ومسلم:2768)
’’مومن کو قیامت کے دن اس کے رب عز و جل کے قریب کیا جائے گا حتی کہ اللہ تعالی اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا (تا کہ کوئی اور اس کے راز پر مطلع نہ ہو)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور فرمائے گا: کیا تو ان سب گناہوں کو پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں (ان سب گناہوں کو) پہچانتا ہوں۔ (اللہ تعالی) فرمائے گا: میں نے دنیا میں تم پر رحم کرتے ہوئے) ان گناہوں کو چھپا لیا تھا اور آج (تم پر رحم کرتے ہوئے) تمھارے لیے ان سب کو معاف کرتا ہوں، پھر اسے (محض) اس کی نیکیوں کا صحیفہ پکڑا دیا جائے گا، اور رہے کفار اور منافقین تو ساری مخلوقات کے سامنے بلند آواز سے انھیں کہا جائے گا۔ یہیں ہیں جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔‘‘
توضیح و خواند: دل میں کفر چھپا کر اسلام کا اظہارکرنا نفاق اکبر ہے۔ اس کا دوسرا نام اعتقادی نفاق ہے۔ ایسا کرنے والا منافق ہے جو روز قیامت کافروں کے ساتھ اور جہنم کے نچلے درجے میں ہوگا۔
1000۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ، ثَنِيَّةُ المُرَارِ، فَإِنَّهُ يُحَطُّ عَنْهُ مَا حُطَّ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)) (أخرجه مسلم: 2780)
’’کون ہے جو اس گھاٹی، یعنی مرار کی گھاٹی پر چڑھے گا بے شک اس کے گناہ بھی اسی طرح جھڑ جائیں گے جس طرح بنی اسرائیل کے گناہ جھڑ گئے تھے۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: سب سے پہلے ہمارے بنو خزرج کے گھوڑے اس گھاٹی چڑھے، پھر لوگوں کا تانتا بندھ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((وَكُلُّكُمْ مَغْفُورٌ لَهُ، إِلَّا صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ))
’’سرخ اونٹ والے شخص کے سوا تم سب کے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘
ہم سرخ اونٹ والے شخص کے پاس آئے اور (اس سے) کہا: آؤ، رسول اللہﷺ تمھارے لیے بھی استغفار فرمائیں۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم اگر میں اپنی گم شدہ چیز پالوں تو یہ بات مجھے اس کی نسبت زیادہ پسند ہے کہ تمھارا صاحب میرے لیے مغفرت کی دعا کرے۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: وہ آدمی اس وقت اپنی کسی گم شدہ چیز کو ڈھونڈنے کے لیے آوازیں لگا رہا تھا۔
1001۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتّٰی يَلِجَ الجَمَلُ فِي سَمِّ الْخَيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيلَةُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أكْتَافِهِمْ، حَتّٰى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ)) (أخرجه مسلم:2779)
’’میری امت میں بارہ منافق ہیں، وہ جنت میں داخل ہوں گے نہ اس کی خوشبو ہی پائیں گے، جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر نہ جائے، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں (کہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے) تمھاری کفایت ایک ایسا پھوڑا کرے گا جو آگ کے چلتے ہوئے دیے کی طرح اوپر سے سرخ) ہوگا، وہ ان کے کندھوں میں ظاہر ہوگا اور ان کے سینوں سے نکل آئے گا۔‘‘
1002۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلے پر بنو لیث قبیلے کی ایک شاخ آباد تھی، کسی آدمی نے زمانہ جاہلیت میں ان سے رشتہ مانگا تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر (کچھ عرصہ بعد) وہ ان کے پاس ایک خوبصورت جوڑا زیب تن کیے ہوئے آیا اور کہا: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے یہ جوڑا مجھے پہنایا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے اموال اور خون کے بارے میں فیصلے کروں۔ وہ اس عورت کے پاس ٹھہرا جس سے وہ محبت کرتا تھا، قبیلے والوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف پیغام بھیجا تو آپﷺ نے فرمایا: ((كذب عدو الله)) ’’اللہ کا دشمن جھوٹ ہوتا ہے۔‘‘
پھر آپﷺ نے ایک آدمی کو بھیجا اور حکم دیا:
((إِنْ وَجَدْتَّهُ حَيًّا وَمَا أَرَاكَ تَجِدُهُ حَيًّا فَأَضْرِبُ عُنَقَهُ، وَإِنْ وَجَدْتَّهُ مَيْتًا فَأَحْرِقْهُ بِالنَّارِ))
’’اگر تم اسے زندہ پاؤ تو اس کی گردن اڑا دو اور میرا نہیں خیال کہ وہ زندہ ہوگا اور اگر مردہ پاؤ تو اسے آگ میں جلا دینا‘‘
رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ((مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (أخرجه ابن عدي في الكامل في الضغفاء:53، 54/4، وأورده الذهبي في الميزان:293/2، وابن تيمية في الصارم المسلول:169، 170 ونسبه لأبي القاسم البغوي في مسنده.)
’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنائے۔‘‘ اسی سلسلے میں ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: یہ شخص اعتقادی لحاظ سے منافق تھا، بہت جلد اپنے برے انجام سے دوچار ہوا۔ جہاں تک آگ میں جلانے کا حکم ہے جبکہ دوسری احادیث میں ہے کہ کسی کو آگ کا عذاب دینا صرف اللہ رب العزت کا حق ہے۔ اس میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ شاید یہ حکم ممانعت کے حکم سے پہلے کا ہو یا اس طرح کے منافق کو جلانا جائز ہو۔
1003۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے، جب آپ میں مدینہ منورہ کے قریب تھے تو اتنے زور کی آندھی چلی کہ قریب تھا وہ سوار کو بھی (ریت میں) دفن کر دے گی۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
((بُعِثَتْ هٰذِهِ الرِّيحُ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ))
’’یہ آندھی کی منافق کی موت کے لیے بھیجی گئی ہے۔‘‘
جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو منافقوں میں سے ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا۔
(أخرجه مسلم:2782)
1004۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((مثل الْمُؤْمِنِ كَالْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، تُفَيِّئُهَا الرِّيحُ مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا مَزَةً، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الْأَرْزَةِ، لَا تَزَالُ حَتّٰى يَكُونَ انْجِعَانُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً))
’’مومن کی مثال پودے کی ہری شاخ جیسی ہے جسے ہوا ادھر ادھر جھکا دیتی ہے اور کبھی اسے سیدھا کر دیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا کھڑا رہتا ہے آخر ایک ہی جھوکے سے وہ اکھڑ جاتا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن زندگی بھر آزمائشوں اور مشکلات کا شکار رہتا ہے اور یہ اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہتی ہیں جبکہ منافق بہت کم آزمائشوں کا شکار ہوتا ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچے بھی تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہو گی اور اسے یکبارگی سزا ملے گی۔
(أخرجه البخاري:5643)